745

عقیدہ ختم نبوت، ابو یحیی نور پوری


عقیدۂ ختم ِنبوت
حافظ ابو یحییٰ نورپوری

عقیدۂ ختم ِنبوت سے مراد یہ ہے کہ ہمارے نبی اکرم،محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سب سے آخری نبی اور رسول ہیں۔سیدناآدم علیہ السلام سلسلۂ نبوت کی پہلی کڑی تھے،ان کے بعد بھی ہر دور اور ہر قوم کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا اور رسل مبعوث فرمائے، لیکن یہ سلسلہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت قیامت تک ہر قوم و وطن کے لیے ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں،نہ ظلی نہ بروزی،نہ تشریعی نہ غیر تشریعی۔اس عقیدے کا انکار کفر و الحاد ہے۔
فرامین باری تعالیٰ :
1 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیرًا وَّنَذِیرًا وَّلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ} (سبا 34 : 28)
’’(اے نبی!)ہم نے تو آپ کو تمام لوگوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا ہے،لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
n قاضی، عیاض بن موسیٰ،سبتی رحمہ اللہ (544-476ھ)فرماتے ہیں :
إِنَّہٗ أُرْسِلَ کَافَّۃً لِّلنَّاسِ، وَأَجْمَعَتِ الْـأُمَّۃُ عَلٰی حَمْلِ ہٰذَا الْکَلَامِ عَلٰی ظَاہِرِہٖ ۔
’’بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انسانوں کے لیے مبعوث کیا گیا۔امت ِمسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر پر محمول ہے۔‘‘(الشفا : 271/2)
یعنی قیامت تک کے سارے انسانوں کے لیے نبوت ِمحمدیq کافی ہے۔ ختم ِ نبوت کا مطلب وہی ہے جو الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ظلی یا بروزی اور تشریعی یا غیر تشریعی کی قیدیں لگا کر اس آیت کو ظاہری معنیٰ سے پھیرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
n مفسر امام،ابو جعفر،محمد بن جریر،طبری رحمہ اللہ (310-224ھ)اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہٗ : وَمَا أَرْسَلْنَاکَ، یَا مُحَمَّدُ، إِلٰی ہٰؤُلَائِ الْمُشْرِکِینَ بِاللّٰہِ مِنْ قَوْمِکَ خَاصَّۃً، وَلٰکِنَّا أَرْسَلْنَاکَ کَافَّۃً لِّلنَّاسِ أَجْمَعِینَ؛ الْعَرَبِ مِنْہُمْ وَالْعَجَمِ، وَالْـأَحْمَرِ وَالْـأَسْوَدِ، بَشِیرًا مَّنْ أَطَاعَکَ، وَنَذِیرًا مَّنْ کَذَّبَکَ، وَلٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ أَنَّ اللّٰہَ أَرْسَلَکَ کَذٰلِکَ إِلٰی جَمِیعِ الْبَشَرِ ۔
’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!ہم نے آپ کو صرف آپ کی قوم کے مشرکین کی طرف مبعوث نہیں فرمایا،بلکہ عرب و عجم اور سرخ و سیاہسب لوگوں کی طرف بھیجا ہے،جو لوگ آپ کی اطاعت کرتے ہیں،ان کو خوشخبری دینے والا بنا کر اور جو لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں،ان کو ڈرانے والا بنا کر،لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس طرح سارے انسانوں کی طرف مبعوث کیا ہے۔‘‘(تفسیر الطبري : 288/19، ط ھجر)
n شیخ الاسلام والمسلمین،علامہ،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں:
وَلَمَّا کَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَسُولًا إِلٰی جَمِیعِ الثَّقَلَیْنِ جِنِّہِمْ وَإِنْسِہِمْ، عَرَبِہِمْ وَعَجَمِہِمْ، وَہُوَ خَاتَمُ الْـأَنْبِیَائِ، لَا نَبِيَّ بَعْدَہٗ، کَانَ مِنْ نِّعْمَۃِ اللّٰہِ عَلٰی عِبَادِہٖ، وَمِنْ تَمَامِ حُجَّتِہٖ عَلٰی خَلْقِہٖ أَنْ تَکُونَ آیَاتُ نُبُوَّتِہٖ وَبَرَاہِینُ رِسَالَتِہٖ مَعْلُومَۃً لِّکُلِّ الْخَلْقِ الَّذِینَ بُعِثَ إِلَیْہِمْ ۔
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن وانس اور عرب و عجم سب کے لیے رسول بن کر آئے ہیں اور خاتم الانبیا ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔جب معاملہ ایسے ہے،تو یہ بات اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر نعمت اور اپنی مخلوق پر اتمامِ حجت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی آیات و براہین ان تمام لوگوں کو معلوم ہوں،جن کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں۔‘‘(الجواب الصحیح : 405/5)
n نیز فرماتے ہیں :
فَلاَ بُدَّ فِي الْإِیمَانِ مِنْ أَنْ تُؤْمِنَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ النَّبِیِّینَ، لَا نَبِيَّ بَعْدَہٗ، وَأَنَّ اللّٰہَ أَرْسَلَہٗ إِلٰی جَمِیعِ الثَّقَلَیْنِ؛ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ، خَلْقِہٖ، فِي تَبْلِیغِ أَمْرِہٖ وَنَہْیِہٖ، وَوَعْدِہٖ وَوَعِیدِہٖ، وَحَلَالِہٖ وَحَرَامِہٖ، فَالْحَلَالُ مَا أَحَلَّہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہٗ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہٗ، وَالدِّینُ مَا شَرَعَہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمَنِ اعْتَقَدَ أَنَّ لِأَحَدٍ مِّنَ الْـأَوْلِیَائِ طَرِیقًا إِلَی اللّٰہِ مِنْ غَیْرِ مُتَابَعَۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ فَہُوَ کَافِرٌ مِّنْ أَوْلِیَائِ الشَّیْطَانِ ۔
’’ایمان میں یہ بھی ضروری ہے کہ آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیا ہونے پر ایمان لائیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں،نیز اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جنوں اور انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی،وعد و وعید اور حلال و حرام کو سب تک پہنچائیں۔چنانچہ حلال وہی ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال کر دیا اور حرام وہی ہے،جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دے دیا اور دین وہی ہے،جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروع قرار دے دیا ہے۔جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ کسی ولی کے پاس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہے،وہ کافر اور شیطان کا دوست ہے۔‘‘
(الفرقان بین أولیاء الرحمان وأولیاء الشیطان، ص : 21)
2 فرمانِ الٰہی ہے :
{قُلْ یَاأَیُّھَا النَّاسُ اِنِّی رَسُولُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیعًا} (الأعراف 7 : 158)
’’(اے نبی!)کہہ دیجیے کہ لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔‘‘
n حافظ،اسماعیل بن عمر،ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ)لکھتے ہیں :
یَقُولُ تَعَالٰی لِنَبِیِّہٖ وَرَسُولِہٖ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قُلْ یَا مُحَمَّدُ : یَا أَیُّہَا النَّاسُ، وَہٰذَا خِطَابٌ لِّلْـأَحْمَرِ وَالْـأَسْوَدِ، وَالْعَرَبِيِّ وَالْعَجَمِيِّ، إِنِّي رَسُولُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا، أَيْ جَمِیعُکُمْ، وَہٰذَا مِنْ شَرَفِہٖ وَعَظَمَتِہٖ أَنَّہٗ خَاتَمُ النَّبِیِّینَ، وَأَنَّہٗ مَبْعُوثٌ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً ۔
’’اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے : اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! کہہ دیجیے کہ لوگو! یہ خطاب سرخ وسیاہ اور عربی و عجمی سب کے لیے ہے،کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف اور آپ کی عظمت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور سارے لوگوں کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں۔‘‘(تفسیر ابن کثیر : 489/3 بتحقیق سلامۃ)
احادیث ِنبویہ :
n سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’وَکَانَ النَّبِيُّ یُبْعَثُ إِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً، وَبُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ عَامَّۃً‘ ۔
’’پہلے نبی کو صرف اس کی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے،لیکن مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا ہے۔‘‘
(صحیح البخاري : 335، صحیح مسلم : 521)
صحیح مسلم(3/521)کے الفاظ یہ ہیں :
’کَانَ کُلُّ نَبِيٍّ یُّبْعَثُ إِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً، وَبُعِثْتُ إِلٰی کُلِّ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ‘ ۔
’’پہلے ہر نبی کو خاص اس کی قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے،لیکن مجھے ہر سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘
n سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ، لَا یَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِّنْ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ یَہُودِيٌّ وَّلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِہٖ؛ إِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ‘ ۔
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،اس امت کا جو بھی یہودی و نصرانی میرا پیغام سنے،لیکن میری تعلیمات پر ایمان لائے بغیر مر جائے،وہ جہنمی ہو گا۔‘‘(صحیح مسلم : 153)
n شارحِ صحیح مسلم،حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)لکھتے ہیں :
وَقَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’لَا یَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِّنْ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ‘، أَيْ مَنْ ہُوَ مَوْجُودٌ فِي زَمَنِي وَبَعْدِي إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، فَکُلُّہُمْ یَجِبُ عَلَیْہِمُ الدُّخُولُ فِي طَاعَتِہٖ، وَإِنَّمَا ذَکَرَ الْیَہُودِيَّ وَالنَّصْرَانِيَّ تَنْبِیہًا عَلٰی مَنْ سِوَاہُمَا، وَذٰلِکَ لِأَنَّ الْیَہُودَ وَالنَّصَارٰی لَہُمْ کِتَابٌ، فَإِذَا کَانَ ہٰذَا شَأْنَہُمْ مَّعَ أَنَّ لَہُمْ کِتَابًا؛ فَغَیْرُہُمْ مِّمَّنْ لَّا کِتَابَ لَہُ أَوْلٰی ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ اس امت کا کوئی بھی فرد میرے پیغام کے بارے میں سنے گا،سے مراد یہ ہے کہ جو بھی میرے زمانے میں موجود ہے یا میرے بعد قیامت تک آئے گا،سب کے لیے میری اطاعت میں داخل ہونا واجب ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی و نصرانی کا ذکر ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے بارے میں تنبیہ کرنے کے لیے کیا کہ یہود و نصاریٰ کے پاس تو کتاب موجود ہے،جب کتاب موجود ہونے کے باوجود ان کے بارے میں یہ حکم ہے، تو جن کے پاس کوئی کتاب نہیں،وہ تو بالاولیٰ اس حکم میں داخل ہوں گے۔‘‘
(شرح صحیح مسلم : 188/2، 189)
اہل علم کی رائے :
n علامہ،علی بن احمد،ابن حزم،اندلسی رحمہ اللہ (456-384ھ)فرماتے ہیں :
ہٰذَا مَعَ سَمَاعِہِمْ قَوْلَ اللّٰہِ تَعَالٰی : {وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ} وَقَوْلَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’لَا نَبِيَّ بَعْدِي‘ فَکَیْفَ یَسْتَجِیزُہٗ مُسْلِمٌ أَنْ یُّثْبِتَ بَعْدَہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ نَبِیًّا فِي الْـأَرْضِ، حَاشَا مَا اسْتَثْنَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْآثَارِ الْمُسْنَدَۃِ الثَّابِتَۃِ فِي نُزُولِ عِیسَی بْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ ۔
’’بعض لوگ اللہ تعالیٰ کا فرمان : {وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ} (لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں)اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِگرامی کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، سننے کے بعد ایسی باتیں کرتے ہیں(جو ختم ِنبوت کے عقیدے کے خلاف ہوتی ہیں)۔کوئی مسلمان کیسے جائز سمجھ سکتا ہے کہ وہ آپ علیہ السلام کے بعد زمین میں کسی نبی کا اثبات کرے، سوائے قرب ِقیامت نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے،جس کا استثنیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متصل اور ثابت شدہ
احادیث میں فرما دیا ہے۔‘‘
(الفصل في الملل والأھواء والنحل : 138/4)
نیز فرماتے ہیں :
وَقَالَ تَعَالٰی : {قُلْ اَبِاللّٰہِ وَآیَاتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِؤُوْنَ٭ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفرْتُمْ مبَعْدَ اِیْمَانِکُمْ}(التوبۃ 9 : 65، 66) فَہٰؤُلَائِ کُلُّہُمْ کُفَّارٌ بِالنَّصِّ، وَصَحَّ الْإِجْمَاعُ عَلٰی أَنَّ کُلَّ مَنْ جَحَدَ شَیْئًا صَحَّ عِنْدَنَا بِالْإِجْمَاعِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَتٰی بِہٖ؛ فَقَدْ کَفَرَ، وَصَحَّ بِالنَّصِّ أَنَّ کُلَّ مَنِ اسْتَہْزَأَ بِاللّٰہِ تَعَالٰی، أَوْ بِمَلَکٍ مِّنَ الْمَلَائِکَۃِ، أَوْ بِنَبِيٍّ مِّنَ الْـأَنْبِیَائِ عَلَیْہِمُ السَّلَامُ، أَو بِآیَۃٍ مِّنَ الْقُرْآنِ، أَوْ بِفَرِیضَۃٍ مِّنْ فَرَائِضِ الدِّینِ، فَہِيَ کُلُّہَا آیَاتُ اللّٰہِ تَعَالٰی، بَعْدَ بُلُوغِ الْحُجَّۃِ إِلَیْہِ؛ فَہُوَ کَافِرٌ، وَمَنْ قَالَ بِنَبِيٍّ بَعْدَ النَّبِيِّ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، أَوْ جَحَدَ شَیْئًا صَحَّ عِنْدَہٗ بِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَہٗ، فَہُوَ کَافِرٌ، لِأَنَّہٗ لَمْ یَحْکُمِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ خَصْمِہٖ ۔
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {قُلْ اَبِاللّٰہِ وَآیَاتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِؤُوْنَ٭ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفرْتُمْمبَعْدَ اِیْمَانِکُمْ} (التوبۃ 9 : 65، 66) ([اے نبی!]کہہ دیجیے کہ کیا اللہ،اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ تم استہزا کرتے ہو؟تم عذر نہ کرو،یقینا تم اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو)۔یہ سب لوگ
نص کی بنا پر کافر ہیں۔ اس بات پر بھی اجماع ثابت ہو چکا ہے کہ جس
شخص نے ایسی چیز کا انکار کیا،جس کے بارے میں ہمارے نزدیک اجماع سے ثابت ہو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے، تو ایسا شخص کافر ہو جاتا ہے۔اسی طرح نص سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ،اس کے کسی فرشتے، اس کے کسی نبی،قرآن کی کسی آیت،دین کے کسی فریضے کہ وہ بھی اللہ کی آیات ہیں،ان چیزوں کا حجت پہنچنے کے بعد مذاق اڑاتاہے،وہ بھی کافر ہو جاتا ہے۔اور جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کے ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا ایسی چیز کا انکار کر دیتا ہے،جو اس کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ثابت ہو،تو ایسا شخص بھی کافر ہو جاتا ہے،کیونکہ اس نے اپنے اور اپنے مخالف کے مابین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصل و حاکم تسلیم نہیں کیا۔‘‘
(الفصل في الملل والأہواء والنحل : 142/3)
n مشہور مفسر،علامہ،محمد بن احمد،قرطبی رحمہ اللہ (671-600ھ)فرماتے ہیں :
ذَہَبَ قَوْمٌ إِلٰی أَنَّ بِنُزُولِ عِیسٰی عَلَیْہِ السَّلاَمُ یَرْتَفِعُ التَّکْلِیفُ، لِئَلَّا یَکُونَ رَسُولاً إِلٰی أَہْلِ ذٰلِکَ الزَّمَانِ، یَأْمُرُہُمْ عَنِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَیَنْہَاہُمْ، وَہٰذَا أَمْرٌ مَّرْدُودٌ بِالْـأَخْبَارِ الَّتِي ذَکَرْنَاہُ مِنْ حَدِیثِ أَبِي ہُرَیْرَۃَ، وَبِقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ}، وَقَوْلِہٖ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ : ’لَا نَبِيَّ بَعْدِي‘، وَقَوْلِہٖ : ’وَأَنَا الْعَاقِبُ‘ (صحیح البخاري : 3532، صحیح مسلم : 2354)، یُرِیدُ آخِرَ الْـأَنْبِیَائِ وَخَاتِمَہُمْ، وَإِذَا کَانَ ذٰلِکَ فَلَا یَجُوزُ أَنْ یُّتَوَہَّمَ أَنَّ عِیسٰی یَنْزِلُ
نَبِیًّا بِشَرِیعَۃٍ مُّتَجَدِّدَۃٍ، وَغَیْرِ شَرِیعَۃِ مُحَمَّدٍ نَّبِیِّنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، بَلْ إِذَا نَزَلَ؛ فَإِنَّہٗ یَکُونُ یَوْمَئِذٍ مِّنْ أَتْبَاعِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے شریعت کی عمل داری ختم ہو جائے گی،تاکہ عیسیٰ علیہ السلام ایسے رسول نہ قرار پا جائیں،جو اس زمانے والوں کی طرف مبعوث ہوں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی سے خبردار کریں۔لیکن یہ بات ہماری ذکرکردہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بنا پر مردود ہے،نیز اللہ تعالیٰ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین قرار دینے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی بنا پر کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں،نیز اس فرمانِ نبوی کی وجہ سے کہ میں سب سے آخر میں آنے والا نبی ہوں۔جب معاملہ یہ ہے،تو پھر یہ خیال کرنا کیسے جائز ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام نئی شریعت والے نبی بن کر آئیں گے، جو کہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت سے مختلف ہو گی۔اس کے برعکس عیسیٰ علیہ السلام اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار ہوں گے۔‘‘
(التذکرۃ بأحوال الموتٰی وأمور الآخرۃ : 792/2)
n علامہ،احمد بن محمد بن ابو بکر قسطلانی(923-851ھ)لکھتے ہیں :
فَمِنْ تَشْرِیفِ اللّٰہِ تَعَالٰی لَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَتَمَ الْـأَنْبِیَائَ وَالْمُرْسَلِینَ بِہٖ، وَإِکْمَالِ الدِّینِ الْحَنِیفِ لَہٗ، وَقَدْ أَخْبَرَ اللّٰہُ فِي کِتَابِہٖ، وَرَسُولُہٗ فِي السُّنَّۃِ الْمُتَوَاتِرَۃِ عَنْہُ أَنَّہٗ لَا نَبِيَّ بَعْدَہٗ، لِیَعْلَمُوا أَنَّ کُلَّ مَنِ ادَّعٰی ہٰذَا الْمُقَامَ بَعْدَہٗ؛ فَہُوَ کَذَّابٌ، أَفَّاکٌ، دَجَّالٌ، ضَالٌّ، مُضِلٌّ، وَلَوْ تَحَذَّقَ وَتَشَعْبَذَ، وَأَتٰی بِأَنْوَاعِ السِّحْرِ وَالطَّلَاسِمِ وَالنِّیرَنْجِیَاتِ، فَکُلَّہَا مُحَالٌ وَّضَلَالَۃٌ عِنْدَ أُولِي الْـأَلْبَابِ، وَلَا یَقْدَحُ
فِي ہٰذَا نُزُولُ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ بَعْدَہٗ، لِأَنَّہٗ إِذَا نَزَلَ کَانَ عَلٰی دِینِ نَبِیِّنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمِنْہَاجِہٖ، مَعَ أَنَّ الْمُرَادَ أَنَّہٗ آخِرُ مَنْ نُّبِّیَٔ، قَالَ أَبُو حَیَّانَ : وَمَنْ ذَہَبَ إِلٰی أَنَّ النُّبُوَّۃَ مُکْتَسَبَۃٌ لَّا تَنْقَطِعُ، أَوْ إِلٰی أَنَّ الْوَلِيَّ أَفْضَلُ مِنَ النَّبِيِّ؛ فَہُوَ زِنْدِیقٌ یَّجِبُ قَتْلُہٗ ۔
’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اعزاز اور دین حنیف کی تکمیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیا والمرسلین بنایا۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی متواتر سنت میں یہ بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی اس مقام کا دعویٰ کرے گا،وہ کذاب،افتراپرداز،دجال،خودگمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہو گا۔اگرچہ وہ اپنے تئیں بڑی کاریگری اور شعبدہ بازی کا مظاہرہ کرے،نیزقسم قسم کے جادو ،طلسمات اور دم جھاڑے کرے،کیونکہ اہل عقل و خرد کے نزدیک یہ باتیں ناممکن اور گمراہی پر مبنی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے سے ختم ِنبوت میں کوئی قدغن نہیں لگے گی،کیونکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور منہج پر نازل ہوں گے۔ نیز ختم ِنبوت کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری ہستی ہیں،جن پر وحی نازل ہوئی۔ابو حیان کا کہنا ہے کہ جو شخص نبوت کو ایک کسبی امر قرار دے کر جاری سمجھتا ہے یا ولی کو نبی سے افضل سمجھتا ہے،وہ زندیق اور واجب القتل ہے۔‘‘(المواہب اللدنیّۃ بالمنح المحمّدیّۃ : 546/2)
n ملا،علی بن سلطان محمد،قاری،حنفی(م : 1014ھ)لکھتے ہیں :
وَالْحَاصِلُ أَنَّ کَسْرَ التَّائِ بِمَعْنٰی أَنَّہٗ خَتَمَہُمْ، أَيْ جَائَ آخِرَہُمْ، فَلَا نَبِيَّ بَعْدَہٗ، أَيْ لَا یُتَنَبَّأُ أَحَدٌ بَعْدَہٗ، فَلَا یُنَافِي نُزُولَ عِیسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ
مُتَابِعًا لِّشَرِیعَتِہٖ، مُسْتَمِدًّا مِّنَ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّۃِ، وَأَمَّا فَتْحُ التَّائِ؛ فَمَعْنَاہُ أَنَّہُمْ بِہٖ خُتِمُوا، فَہُوَ الطَّابَعُ وَالْخَاتَمُ لَہُمْ ۔
’’حاصلِ کلام یہ ہے کہ تا کے کسرہ کے ساتھ (خاتِم پڑھا جائے،تو)معنیٰ یہ ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیا کو ختم کر دیا،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے آخر میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو وحی نہیں آئے گی۔عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے تابع ہونا اور قرآن و سنت سے استفادہ کرنا ختم ِنبوت کے خلاف نہیں۔اگر تا پر فتح (خاتَم)ہو، تو اس کا معنیٰ ہو گا کہ انبیا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مہر لگا دی گئی،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے مہر ہیں۔‘‘
(جمع الوسائل في شرح الشمائل : 27/1)
n علامہ،عبد الرؤف،مناوی رحمہ اللہ (1031-952ھ)فرماتے ہیں :
وَہٰذِہٖ قَاعِدَۃٌ لَّا یَحْتَاجُ فِي إِثْبَاتِہَا إِلٰی شَيْئٍ لِّانْعِقَادِ الْإِجْمَاعِ عَلَیْہَا، وَلَا الْتِفَاتَ إِلٰی مَا زَعَمَہٗ بَعْضُ فِرَقِ الضَّلَالِ؛ مِنْ أَنَّ النُّبُوَّۃَ بَاقِیَۃٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَبَنَوْا ذٰلِکَ عَلٰی قَاعِدَۃِ الْـأَوَائِلِ أَنَّ النُّبُوَّۃَ مُکْتَسَبَۃٌ، وَرُمِيَ بِذٰلِکَ جَمْعٌ مِّنْ عُظَمَائِ الصُّوفِیَۃِ کَالْإِمَامِ الْغَزَالِيِّ، اِفْتَرَاہُ عَلَیْہِ الْحَسَدَۃُ، وَقَدْ تَّبَرَّأَ رَحِمَہُ اللّٰہُ مِنَ الْقَوْلِ بِہٖ، وَتَنَصَّلَ مِنْہُ فِي کُتُبِہٖ، وَأَمَّا عِیسٰی عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ؛ فَقَدْ أَجْمَعُوا عَلٰی نُزُولِہٖ نَبِیًّا لّٰکِنَّہُ بِشَرِیعَۃِ نَبِیِّنَا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ ۔
’’یہ ایسا قاعدہ ہے،جس کے اثبات کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں،کیونکہ اس پر اجماع ہو چکا ہے۔بعض گمراہ فرقوں نے جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ نبوت قیامت تک باقی رہے گی،ناقابل التفات ہے۔ان کی بنیاد پہلے فلسفیوں کے اس قول پر ہے کہ نبوت کسبی چیز ہے۔عظیم صوفیوں کے
ایک گروہ پر اس نظریے کو اپنانے کا الزام لگا تھا۔امام غزالی بھی انہی میں سے ہیں،ان کے حاسدوں نے ان پر یہ جھوٹ باندھا تھا،لیکن انہوں نے اس سے براء ت کا اظہار کر دیااور اپنی کتابوں میں انہوں نے اسے بیزاری ظاہر کر دی۔رہے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ،تو امت کا اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ وہ بحیثیت ِنبی نازل ہوں گے،لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت لے کر آئیں گے۔‘‘(فیض القدیر : 341/2)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.