1,985

بچے کو دودھ چھڑانے کی مدت، حافظ ابویحیی نور پوری

شریعت ِ اسلامیہ کے مطابق کامل مدت ِ رضاعت دوسال ہے ، دوسال کے بعد شرعی اعتبار سے رضاعت کا حکم ثابت نہیں ہوتا ۔امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب مدت ِ رضاعت اڑھائی سال ہے ۔ اس قول پر کوئی شرعی دلیل نہیں ، بلکہ یہ قرآنِ مجید کے خلاف فیصلہ ہے ، جیسا کہ :
1    فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ) (البقرۃ : ٢/٢٣٣)
”مائیں اپنی اولادوں کو دو مکمل سال دودھ پلائیں ، یہ اس کے لیے ہے ، جو رضاعت کو مکمل کرنا چاہے (ورنہ والدین رضامندی سے بچے کی رضاعت کو کم کرسکتے ہیں)۔”
یہ آیت ِ کریمہ نصِ جلی ہے کہ دودھ پلانے کی کامل شرعی مدت ، جس سے حرمت ثابت ہوتی ہے ، وہ دوسال ہے ،اس آیت ِ کریمہ سے یہ مسئلہ صحابہ کرام کے اجماع سے ثابت ہے ، جیسا کہ ہم آئندہ ذکر کریں گے ۔    ان شاء اللّٰہ !
اس قرآنی نص کے خلاف امام ابوحنیفہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :
وکان أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ یحتاط بستّۃ أشھر بعد الحولین ، فیقول : یحرّم ما کان فی الحولین وبعدھما إلی تمام ستّۃ أشھر ، وذلک ثلاثون شھرا ، ولا یحرّم ما کان بعد ذلک ۔     ”ابوحنیفہ دو سال کے بعد چھ ماہ کے ساتھ احتیاط کرتے تھے اور فرماتے تھے ، دوسال اور ان کے بعد چھ ماہ مکمل ہونے تک حرمت ثابت ہوجاتی ہے ، یہ تیس مہینے بنتے ہیں ۔ اس کے بعد حرمت ثابت نہیں ہوگی ۔”(مؤطا امام محمد : ٢/٦٠٢)
علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی اس قول کا ردّ ان الفا ظ میں کرتے ہیں :
فیہ إشارۃ إلی أنّہ حکم مبنیّ علی الاحتیاط ، ولیس أمرا ثابتا بالنّصّ ، ولا یخفی أنّہ لا احتیاط بعد ورود النّصّ بالحولین مع أنّ الاحتیاط ھو العمل بأقوی الدّلیلین وأقواھما دلیلا قولھما ۔        ”اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ حکم احتیاط پر مبنی ہے ، نص سے ثابت بات نہیں ۔ یہ بات مخفی نہیں ہے کہ دوسال کی نص وارد ہوجانے کے بعد کوئی احتیاط والی بات نہیں ہوتی ۔ ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ دودلیلوں میں سے زیادہ قوی دلیل پر عمل کرنا ہی احتیاط ہوتی ہے اور دلیل کے اعتبار سے (امام ابوحنیفہ کے مقابلہ میں )ان دونوں (ابویوسف ومحمد بن حسن)کا قول (دو سال ہی مدت ِ رضاعت والا قول)زیادہ قوی ہے ۔”
(التعلیق الممجّد علی مؤطا محمد از عبدالحی اللکنوی : ٢/٦٠٢، طبع بیروت)
علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی نے حق گوئی سے کام لیتے ہوئے امام صاحب کے مذہب کو بے دلیل اور بے ثبوت قراردیا ہے ، نیز یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن وحدیث کے خلاف مذہب میں احتیاط کہاں ، احتیاط تو دلیل شرعی کا نام ہے ۔
شبہ نمبر 1 :      فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
( فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا ) (البقرۃ : ٢/٢٣٣)
”اگر وہ دونوں (والدین)اپنی رضا مندی اور باہم مشورہ سے دودھ چھڑانے کا ارادہ کریں تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں ۔”
اس آیت میں فإن کی فا تعقیب کے لیے ہے ، جو اس بات پر دلیل ہے کہ دودھ دوسال کے بعد چھڑایا جائے گا ، اس سے معلوم ہوا کہ دوسال کے بعد بھی مدت ِ رضاعت ہوسکتی ہے ، نیز یہ معلوم ہوا کہ یہ آیت مدت ِ رضاعت کی حد بتانے کے لیے نہیں ، بلکہ اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ باپ کے ذمہ دودھ پلانے والی مطلقہ بیوی کا خرچ دوسال کے دائرہ میں لازم ہے ، اس سے زائد میں نہیں ۔
J :      یہ شبہ فرمانِ باری تعالیٰ : ( لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ) (البقرۃ : ٢/٢٣٣) (جو رضاعت مکمل کرنا چاہے ، وہ دوسال دودھ پلائے)کے خلاف ہے ۔
نیزیہ شبہ فقہ حنفی کے مفتیٰ بہ قول کے بھی خلاف ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ علمائے حق میں سے کوئی بھی اس آیت ِ کریمہ سے یہ مسئلہ ثابت نہیں کرتا کہ دوسال کے بعد بھی مدت ِ رضاعت باقی رہتی ہے ، بلکہ ائمہ وعلمائے کرام کی تصریحات اس کے خلاف ہیں ۔علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں :
فإنّ کلّ عارف بأسالیب الکلام الإلھی یعلم أنّ المراد بہ الفصال فی الحولین ، لا بعدہ ۔۔۔     ”کلامِ الٰہی کے اسلوبوں کو جاننے والا ہر شخص جان لے گا کہ یہاں مراد دوسالوں کے اندر اندر دودھ چھڑانا ہے ، نہ کہ اس کے بعد ۔۔۔”
(عمدۃ الرعایۃ فی شرح الوقایۃ : ٣/٢٠٦)
نیز ابنِ ہمام حنفی نے اس پر یہ اعتراض اُٹھایا ہے کہ :
وقد یقال : کون الدّلیل دلّ علی بقاء مدّۃ الرّضاع المحرّم بعد الحولین ۔
”اور بسا اوقات (اس تاویل پر)یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ پھر دوسال کے بعد مدت ِ رضاعت ، جس سے حرمت ثابت ہوتی ہے باقی رہنے پر کیا دلیل ہے؟ ”(فتح القدیر : ٧/٣٩٥)
ابنِ ہمام حنفی کی مراد یہ ہے کہ اگر آیت ِ کریمہ میں دوسال سے اوپر بھی مدت ِ رضاعت ہونے پر دلیل موجود ہے تو پھر دوسال کے بعد صرف چھ ماہ کی مدت مقرر کرنے پر کیا دلیل ہے ؟ نیزاس آیت ِ کریمہ کے بارے میں لکھتے ہیں :      المراد بہ قبل الحولین ۔
”اس سے مراد دوسال مکمل ہونے سے پہلے (پہلے دودھ پلانا ) ہے ۔”(فتح القدیر : ٥/٣٩٦)
امام قتادہ بن دعامہ تابعی  رحمہ اللہ  (م ١١٣ھ)اس آیت ِ کریمہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
إذا أرادت الوالدۃ أن تفصل ولدھا قبل الحولین ، فکان ذلک عن تراض منھما وتشاور ، فلا بأس بہ ۔ ”جب والدہ اپنے بچے کو دوسال سے پہلے دودھ چھڑانے کا ارادہ کرے اوریہ کام دونوں (ماں ، باپ)کی رضامندی اور باہم مشورہ سے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔”(تفسیر طبری : ٥/٦٨، وسندہ، حسنٌ)
شیخ الاسلام امام سفیان بن سعید ثوری  رحمہ اللہ  (م ١٦١ھ)فرمانِ باری تعالیٰ : ( وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ) (البقرۃ : ٢/٢٣٣) کے بارے میں فرماتے ہیں :      والتّمام الحولان ، قال : فإذا أراد أب أن یفطمہ قبل الحولین ، ولم ترض لہ المرأۃ ، فلیس لہ ذلک ۔۔۔۔
”مکمل مدت ِ رضاعت دوسال ہے ، جب باپ دو سال سے پہلے دودھ چھڑانے کا ارادہ کرے اور عورت راضی نہ ہوتو اس کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ۔”(تفسیر الطبری : ٥/٣٥، وسندہ، صحیحٌ)
امام طبری  رحمہ اللہ  (م ٣١٠ھ)فرماتے ہیں :      وأولی التّأویلین بالصّواب تأویل من قال : فإن أرادا فصالا فی الحولین عن تراض منھما وتشاور ، لأنّ تمام الحولین غایۃ لتمام الرّضاع وانقضائہ ، ولا تشاور بعد انقضائہ ، وإنّما التّشاور والتّراضی قبل انقضاء نھایتہ ۔۔۔     ”دونوں تفسیروں میں سے اولیٰ بالصواب تفسیر اس شخص کی ہے ، جس نے کہا ہے کہ اگر والدین آپس میں رضامندی اور باہم مشورہ سے دو سال کے اندر اندر دودھ چھڑائیں (تو کوئی حرج نہیں)، کیونکہ دوسالوں کی تکمیل رضاعت کے مکمل ہونے کی انتہاء ہے ۔ مدت کے مکمل ہونے کے بعد مشورہ کی کوئی حیثیت نہیں ۔ مشورہ اور باہم رضامندی تو اس مدت کی تکمیل سے پہلے پہلے ہے ۔”(تفسیر طبری : ٥/٧٠)
ابنِ عابدین حنفی نے ابنِ نجیم حنفی سے بلا ردّ وتردید یہ نقل کیا ہے کہ :
فإنّما ھو قبل الحولین بدلیل تقییدہ بالتّراضی والتّشاور ، وبعدھما لا یحتاج إلیھما ۔     ”یہ (مدت ِ رضاعت )دو سال سے پہلے پہلے ہے ، دلیل یہ ہے کہ اسے باہم رضامندی اور آپس میں مشورہ کے ساتھ مقید کیا گیا ہے ۔ دوسالوں کے بعد تو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی ۔”(فتاوی شامی از ابن عابدین : ٣/٢٢١)
دیوبندیوں کے ”شیخ الاسلام” شبیر احمد عثمانی دیوبندی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :
”یعنی اگر ماں باپ کسی مصلحت کی وجہ سے دوسال کے اندر ہی بچہ کی مصلحت کا لحاظ کرکے باہمی مشورہ اوررضامندی سے دودھ چھڑانا چاہیں تو اس میں گناہ نہیں ۔”(تفسیر عثمانی : ص ٤٧)
جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :      ”یہ تراضی اورتشاور حولین(دوسال)کے اندر اندر ہے ۔ حولین(دوسال)کے بعد اس کی حاجت ہی نہیں ، بلکہ دودھ پلانا متعین ہے ۔”(درس ترمذی از تقی : ٣/٤٥٠)
طلاق شدہ بیوی کے دودھ پلانے کی اجرت کودوسال کے ساتھ خاص کرنا بے دلیل ہے ۔ اگر کوئی دوسال کے بعد بھی بچے کو دودھ پلانا چاہتا ہے تو کیا وہ دوسال کے بعد دودھ پلانے پر اجرت نہیں دے سکتا ؟ یقینا دے سکتا ہے ، اس کے بارے میں کوئی مخالفت ثابت نہیں ۔    والحمد للّٰہ !
کیا مطلقہ کا دودھ دوسال کے بعد حرام ہوجاتا ہے ؟ اس لیے وہ دوسال کے بعد نہیں پلاسکتی ؟ جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔
شبہ نمبر 2 :      چھ ماہ اس لیے بڑھائے جاتے ہیں تاکہ بچہ کو آہستہ آہستہ دودھ کے علاوہ دوسری غذا کا عادی بنایا جاسکے ، کیونکہ دودھ چھڑانے کے فوراً بعد دوسری غذا کھلانا نقصان کا باعث ہوتا ہے ۔
J :      اس شبہ کے جواب میں امام ابن ابی العز الحنفی  رحمہ اللہ (م ٧٩٢ھ)لکھتے ہیں:
لا یقوی ، لأنّ الطّفل یألف الطّعام قبل العامین ، فإنّ عامّۃ الأطفال یطعمون مع الرّضاع ، فما تنقضی السّنتان إلّا وقد ألف الطّفل الطّعام ، وخلاف ھذا نادر ۔
”یہ بات پائیدار نہیں ،کیونکہ بچہ دوسالوں سے پہلے ہی کھانے کا عادی ہوجاتا ہے ،کیونکہ عام بچے رضاعت کے ساتھ ساتھ ہی کھانا کھانا شروع کردیتے ہیں ، دو سال پورے نہیں ہوتے کہ بچہ کھانے کا عادی ہوجاتا ہے ، اس کا خلاف بہت نادر ہے ۔”(التنبیہ علی مشکلات الھدایۃ : ٣/١٢٧٧)
ابنِ ہمام حنفی لکھتے ہیں :      وما ذکر فی وجہ زیادتھا لا یفید سوی أنّہ إذا أرید الفطام یحتاج إلیھا لیتعوّد فیھا غیر اللّبن قلیلا قلیلا لتعذّر نقلہ دفعۃ ، وأمّا أنّہ یجب ذلک بعد الحولین ویکون من تمام مدّۃ التّحریم شرعا فلیس بلازم ممّا ذکر من الأدلّۃ ، ولا شکّ أنّ الشّرع لم یحرّم إطعامہ من غیر اللّبن قبل الحولین ، لیلزم زیادۃ مدّۃ التّعوّد علیھما ، فجاز أن یعوّد مع اللّبن غیرہ قبل الحولین بحیث قد استقرّت العادۃ مع انقضائھا ، فکان الأصحّ قولھما ، وھو مختار الطّحاویّ ۔۔۔
”اور مدت ِ رضاعت کی زیادت کی جو توجیہ ذکر کی گئی ہے ، اس کا فائدہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب دودھ چھڑانے کا ارادہ کیا جائے تو اس کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بچہ اس زائد مدت میں دودھ کے علاوہ دوسری غذا کا تھوڑا تھوڑا عادی بن جائے ، کیونکہ یک بارگی انتقال مشکل ہوتا ہے ۔رہا اس کا (رضاعت کا)دوسالوں کے بعد (چھ ماہ مزید)ضروری ہونا اور اس کاشرعی طور پر حرمت کی مدت میں زیادت بننا تو وہ بالکل نہیں ۔ اس بات میں توکوئی شبہ نہیں ہے کہ شریعت نے دوسال پورے ہونے سے پہلے بچے کو کھانا کھلانا حرام قرار نہیں دیا کہ اس سے عادت بنانے کے لیے زیادت کرنا لازم آئے ۔ یہ عین ممکن ہے کہ بچے کو دو سالوں میں دودھ کے ساتھ ساتھ ہی غذا کا اس طرح عادی بنا دیاجائے کہ دوسال پورے ہوتے ہی اس کی کھانے کی عادت پختہ ہوجائے ، چنانچہ ان دونوں (ابویوسف ومحمد) کا قول زیادہ صحیح ہے اور امام طحاوی کا بھی مختار یہی ہے ۔”(فتح القدیر لابن ہمام : ٧/٣٩٥)
یعنی یہ کام مدت ِ رضاعت کے اندر بھی ہوسکتا ہے ۔ نبی ئاکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس مدت ِ رضاعت کے اندر دوسری غذا کا عادی بنانے سے منع نہیں کیا ۔
علامہ قرطبی فرماتے ہیں :      قاعدۃ الرّضاع : فإنّ اللّٰہ تعالیٰ قد قال : ( وَالْدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ) (البقرۃ : ٢/٢٣٣) ، فھذا أقصی مدّۃ الرّضاع المحتاج إلیہ عادۃ ، المعتبر شرعًا ، فما زاد علیہ بمدّۃ مؤثّرۃ غیر محتاج إلیہ عادۃ ، فلا یعتبر شرعًا ، لأنّہ نادر ، والنّادر لا یحکم لہ بحکم المعتاد ۔     ”رضاعت کا قانون : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ : ( وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ) (البقرۃ : ٢/٢٣٣) ، یہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت ہے ، جس کی عموما ضرورت ہوتی ہے اور جو شرعی طورپر (حرمت میں)معتبر ہوتی ہے۔ جو مؤثر مدت اس سے زائد ہو اس کا شرعی طور پر اعتبار نہیں کیاجائے گا ، کیونکہ یہ نادر ہے اور نادر پر عادت کا حکم نہیں لگایا جاتا ۔”
(المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم : ٤/١٨٨)
دلیل نمبر 2 :      اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
( وَحَمْلُہ، وَفِصَالُہ، ثَلَاثُوْنَ شَھْرًا ) (الاحقاف : ٤٦/١٥)
”اور اس (بچے)کے حمل اوردودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے ۔”
اس آیت ِ کریمہ میں حمل کی کم از کم مدت اور دودھ چھڑانے کی زیادہ سے زیادہ مدت بیان ہوئی ہے ۔ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ اور دودھ چھڑانے کی زیادہ سے زیادہ مدت دوسال ہے ، یوں یہ پورے تیس ماہ بن جاتے ہیں ۔مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  نے اس آیت سے یہی مسئلہ ثابت کیا ہے۔چنانچہ حافظ ابنِ کثیر  رحمہ اللہ ( ٧٠١۔٧٧٤ھ)فرماتے ہیں :
وھو اسنتباط قویّ صحیح ۔        ”یہ استنباط واستدلال بہت قوی اور صحیح ہے ۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٥/٥٦٨)
سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں :      إنّی لصاحب المرأۃ الّتی أتی بھا عمر ، وضعت لستّۃ أشھر ، فأنکر النّاس ذلک ، فقلت لعمر : لم تظلم ؟ فقال : کیف ؟ قلت لہ : اقرأ : ( وَحَمْلُہ، وَفِصَالُہ، ثَلَاثُوْنَ شَھْرًا ) ، وقال : ( وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ ) ، کم الحول ؟ قال : سنۃ ، قلت : کم السّنۃ ؟ قال : اثنی عشر شھرا ، قال : قلت : فأربعۃ وعشرون شھرا حولان کاملان ویؤخّر من الحمل ما شاء اللّٰہ ویقدّم ، فاستراح عمر إلی قولی ۔
”جس عورت نے(خاوند کی ہم بستری کے) چھ ماہ کے بعد بچہ جن لیا تھا اور اس کو (زنا کے شبہ میں)سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کے پاس لایا گیا تھا ، لوگوں نے اس بات کا انکار کیا تھا (کہ چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہونا ممکن نہیں)،اس کا صاحب ِ واقعہ میں ہوں ۔ میں نے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  سے عرض کی ، آپ(اس عورت پر حد ِ زنا لاگوکرکے) کیوں ظلم کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا، کیسے ،میں نے کہا ، آپ یہ فرمانِ باری تعالیٰ پڑھ لیں : ، اورفرمانِ باری تعالیٰ ہے : ، حول کتنا ہوتا ہے ، انہوں نے فرمایا ، ایک سال ،میں نے کہا ، ایک سال کتنا ہوتا ہے ، فرمایا ، بارہ ماہ ، میں نے کہا ، چوبیس ماہ پورے دوسال بنتے ہیں (اس میں چھ شامل کریں تو پورے تیس ہوجاتے ہیں)اور اللہ تعالیٰ حمل کو جتنا چاہے آگے اور جتنا چاہے پیچھے کرتا ہے۔ سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  میری بات پر مطمئن ہوگئے ۔”
(مصنف عبد الرزاق : ٧/٣٥٢، ح : ١٣٤٤٩، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ  نے خطبہ ارشاد کیا ، اس میں فرمایا :
إنّہ رفع إلیّ امرأۃ ولدت لستّۃ أشھر من حین دخل علیھا زوجھا ، فدخل علیہ ابن عبّاس ، فقال : یا أمیر المؤمنین ! قال اللّٰہ عزّ وجلّ فی کتابہ 🙁 وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ) (البقرۃ : ٢/٢٣٣) ) ، وفی آیۃ أخری : ( وَحَمْلُہ، وَفِصَالُہ، ثَلَاثُوْنَ شَھْرًا ) (الاحقاف : ٤٦/١٥) ، فإذا تمّت الرّضاع کان حملھا ستّۃ أشھر ، قال : فنجت ۔
”میری طرف ایک عورت کا معاملہ اٹھایا گیا ہے ، جس نے اپنے خاوند کی ہم بستری سے چھ ماہ بعد ہی بچہ جن دیا ہے ۔ آپ  رضی اللہ عنہ  کے پاس سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  آئے اور عرض کی ، اے امیر المومنین! اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے : ( وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ) (البقرۃ : ٢/٢٣٣) ، نیز ایک دوسری آیت میں ہے : ( وَحَمْلُہ، وَفِصَالُہ، ثَلَاثُوْنَ شَھْرًا ) (الاحقاف : ٤٦/١٥)، جب رضاعت (چوبیس ماہ )مکمل ہوجائے تو (تیس ماہ میں سے )حمل (کی کم از کم)چھ ماہ ہی رہ جاتا ہے ، اس پر وہ عورت (رجم سے )بچ گئی ۔”
(التوحید لابن مندۃ : ١٠١، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ  نے بھرے مجمع میں سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  کی فقہ ِ قرآنی کا تذکرہ فرمایا ، کسی نے اس پر نکیر نہیں کی ۔ ثابت ہوا کہ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کم از کم مدت ِ حمل چھ ماہ اور زیادہ سے زیادہ مدت ِ رضاعت دوسال ہے ۔ اس پر صحابہ کرام ] کا اجماع ہوگیا ہے ۔
شبہ نمبر 1 :      صاحب المبسوط اور صاحب الہدایہ نے اس آیت ِ کریمہ سے اپنے امام کے مذہب پر یوں استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت ِ کریمہ میں دوچیزوں کا ذکر کر کے ان کی مدت بیان کی ہے ، جس کا تقاضا یہ تھا کہ حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت اڑھائی سال اور مدت ِ رضاعت بھی اڑھائی سال ، یعنی ہرایک کے لیے تیس ماہ کی مدت ہوئی کالأجل المضروب للمدینین ۔ لیکن حمل کی مدت میں کم لانے والی دلیل قائم ہوگئی ہے ، لہٰذا آیت کا مطلب یہ ہوا کہ حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت دوسال اور دودھ چھڑانے کی مدت اڑھائی سال ہوئی ۔
(المبسوط : ٦/٣٧٥، الھدایۃ : ١/٢٢٣)
تبصرہ :      1دارالعلوم دیوبند کے” شیخ الحدیث” جناب انور شاہ کشمیری حیاتی دیوبندی صاحب کہتے ہیں :      وما أجاب بہ صاحب الھدایۃ ھھنا ، فھو رکیک جدّا ۔
”صاحب ِ ہدایہ نے یہاں جو جواب دیا ہے ، وہ نہایت ہی کمزور ہے ۔”
(فیض الباری شرح صحیح بخاری از انور شاہ کشمیری : ٤/٢٧٨)
2    نیز لکھتے ہیں :      وردّ ابن الھمّام ما قال صاحب الھدایۃ ، ثمّ اختار مذہب الصّاحبین ۔     ”ابنِ ہمام حنفی نے صاحب ِ ہدایہ کی بات کا ردّ کیا ہے ، پھر صاحبین(ابویوسف ومحمد بن حسن)کے مذہب کو اختیار کیا ہے ۔”(العرف الشذی از انور شاہ : ٢/٤٩٦)
3    حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ  (٧٧٣۔ ٨٥٢ھ)اس کے ردّ میں لکھتے ہیں :
وھذا تأویل غریب ۔     ”یہ بڑی عجیب تاویل ہے ۔”(فتح الباری : ٩/١٤٦)
4    صاحب ِ ہدایہ نے مدت ِ حمل میں کمی کے متعلق جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے ، وہ سیدہ عائشہ r کا قول ہے ، آپ r فرماتی ہیں :
ما تزید المرأۃ فی الحمل علی سنتین ، قدر ما یتحوّل ظلّ المغزل ۔
”عورت حمل میں دوسالوں سے اتنی مقداربھی نہیں بڑھتی ، جتنا تکلے کا سایہ بدلتا ہے ۔”
(سنن الدارقطنی : ٣/٣٢٢، ح : ٣٨٢٩، ٣٨٣٠، السنن الکبری للبیہقی : ٧/٤٤٣، نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الھدایۃ للزیلعی : ٣/٢٦٥)
تبصرہ :      سیدہ عائشہ r کا یہ قول بلحاظ ِ سند ”ضعیف” ہے ، کیونکہ اس میں امام ابنِ جریج ”مدلس” ہیں ، جو کہ ”عن” سے بیان کررہے ہیں ۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے علاوہ ”ثقہ مدلس” کی بصیغہئ ”عن ”یا ”قال ”،روایات ”ضعیف” ہوتی ہیں ، تاوقتیکہ وہ سماع کی تصریح کردے ۔
اسی طرح سنن الدارقطنی (٣٨٢٢) والی سند بھی الولید بن مسلم کی ”تدلیس” کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ۔
جب سیدہ عائشہr کا قول ثابت ہی نہیں تو اس کی بنیاد پرقائم ہونے والے باطل شبہات کیسے قائم رہ سکتے ہیں ؟
5    امام ابن ابی العز الحنفی  رحمہ اللہ (م ٧٩٢ھ) صاحب ِ ہدایہ کے اس قولِ عائشہ کے بارے میں شبہ کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
ولم یثبت ، وکیف یصحّ دعوی تنقیص المقدار الّذی دلّت علیہ الآیۃ ؟ !
”یہ روایت صحیح ثابت ہی نہیں تو جس مقدار پر آیت ِ کریمہ نے دلالت کی ہے ، اس کو کم کرنے کا دعویٰ کیسے صحیح ہوگا ؟ !”
(التنبیہ علی مشکلات الھدایۃ لابن ابی العز الحنفی : ٣/١٢٧٤۔١٢٧٥)
6    ابنِ نجیم حنفی سے ابنِ عابدین شامی حنفی نقل کرتے ہیں :
فقد رجع (أی صاحب الھدایۃ) إلی الحقّ فی باب ثبوت النسب من أنّ الثّلاثین لھما للحمل ستّۃ أشھر ، والعامان للفصال ۔     ”نسب کے ثبوت کے باب میں صاحب ِ ہدایہ حق بات کی طرف لوٹ آئے ہیں (اور کہا ہے )کہ تیس ماہ دونوںکے لیے ہیں ، یعنی چھ ماہ حمل کے لیے اور دوسال دودھ چھڑانے کے لیے (نہ کہ ہر ایک کے لیے تیس ماہ ہیں)۔”
(فتاوی شامی لابن عابدین : ٣/٢١١)
جن الفاظ سے ایک جگہ زیادہ سے زیادہ مدت ِ حمل ثابت کی گئی ، انہی سے دوسری جگہ کم از کم مدت ِ حمل بھی ثابت کی گئی ہے ۔ یہ کیا تضاد ہے ؟ محض اپنے امام کے کمزور مذہب کو کچھ سہارا دینے کے لیے جو کہ قرآنی نص کے صریح مخالف ہے ۔امام کا مذہب ہاتھ سے نہ جائے ، خواہ مخالفت ِ حق ہی لازم کیوںنہ آئے !کیا یہی انصاف ہے ؟
7    کأجل المضروب للمدینین     کی صورت یہ بیان کی جاتی ہے کہ کوئی قرض دینے والا کہے کہ میں نے فلاں اورفلاں کو دوسال کے لیے قرض دیا ہے ۔ اس سے سمجھا جائے گا کہ ہر ایک کے لیے دوسال کی مدت مقرر کی گئی ہے ۔ کسی کی مدت دوسال سے کم نہیں ، اسی طرح فرمانِ باری تعالیٰ : ( وَحَمْلُہ، وَفِصَالُہ، ثَلَاثُوْنَ شَھْرًا ) (الاحقاف : ٤٦/١٥) سے ہرایک کے لیے اڑھائی سال کی مدت بیان ہوئی ہے اور حمل کی مدت سیدہ عائشہ r کے اثر کی وجہ سے دوسال قرارپائے گی ۔
تبصرہ :      سیدہ عائشہ r کے قول کی سند ”ضعیف” ہے ، لہٰذا اس سے حمل کی مدت میں کمی کرکے دوسال مدت ِ حمل قرار دینا صحیح نہیں ، لہٰذا کالأجل المضروب للمدینین والی کہانی ختم ہوئی ۔
امام ابنِ ابی العز الحنفی  رحمہ اللہ (م ٧٩٢ھ)لکھتے ہیں :
وفی التنظیر بالأجل المضروب للمدینین نظر ، فإنّ الأجل المضروب للمدینین غیر الأجل المضروب لأمرین یکون أحدھما بعد الآخر ، وإنّما نظیرہ أن لو قیل : زمن الصّبا والشّبوبیّۃ ثلاثون سنۃ ، ثمّ یدخل زمن الکھولۃ ، ومثلہ یکون التّقدیر لھما ، لا لکلّ منھما ، وقولہ تعالیٰ : ( وَحَمْلُہ، وَفِصَالُہ، ثَلَاثُوْنَ شَھْرًا ) (الاحقاف : ٤٦/١٥) ، قد استدلّ بہ علی أنّ أقلّ مدّۃ الحمل ستّۃ أشھر ، لأنّ اللّٰہ تعالیٰ قال : ( وَفِصَالُہ، فِیْ عَامَیْنِ ) ، فیبقی للحمل ستّۃ أشھر ، فلم یکن ھذا نظیر الأجل المضروب للمدینین ، وأبو حنیفۃ ممّن یوافق علی تقدیر أقلّ مدّۃ الحمل بستّۃ أشھر ، وأخذ التّقدیر من ھاتین الآیتین ، فظھرت قوّۃ قول أبی یوسف ومحمّد رحمھما اللّٰہ ، ولا یقاوم ھذا المعنی الضّعیف قولہ تعالیٰ : ( وَفِصَالُہ، فِیْ عَامَیْنِ ) ۔ وقولہ تعالیٰ : ( وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ) (البقرۃ : ٢/٢٣٣) ، وماذا بعد التّمام ؟
” الأجل المضروب للمدینین کی مثال (حمل اور دودھ چھڑانے کے ساتھ دینے) میں اعتراض ہے ، کیونکہ یہ مثال ان دومعاملوں کی مثال نہیں بن سکتی ، جن میں سے ایک دوسرے کے بعد ہو ، اس کی مثال توایسے ہے کہ بچپن اور جوانی کا زمانہ تیس سال ہے ، پھر کہولت کا زمانہ داخل ہوجاتا ہے، اس جیسی مثال میںاندازہ دونوں کے لیے ہوتا ہے ، نہ کہ دونوں میں سے ہرا یک کے لیے اوراس فرمانِ باری تعالیٰ : ( وَحَمْلُہ، وَفِصَالُہ، ثَلَاثُوْنَ شَھْرًا ) (الاحقاف : ٤٦/١٥) سے استدلال کیا گیا ہے کہ کم از کم مدت ِ حمل چھ ماہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ( وَفِصَالُہ، فِیْ عَامَیْنِ ) (لقمان : ٣١/١٤)، چنانچہ حمل کے لیے چھ ماہ باقی رہ گئے ، لہٰذا یہ الأجل المضروب للمدینین کی مثال نہیں ہے ۔ امام ابوحنیفہ ان لوگوں میں سے ہیں ، جو حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہونے میں (زیادہ سے زیادہ مدت ِ رضاعت دوسال کے قائلین سے)موافقت رکھتے ہیں اور انہوں نے یہ مدت انہی دو آیات سے اخذ کی ہے ، لہٰذا امام ابویوسف اورامام محمد ; کے قول (زیادہ سے زیادہ مدت ِ رضاعت دوسال)کا راجح ہونا واضح ہوگیا ہے ۔
یہ کمزور توجیہ(امام ابوحنیفہ کی طرف سے کی گئی تاویل)اس فرمانِ باری تعالیٰ کا مقابلہ نہیں کرسکتا کہ : ( وَفِصَالُہ، فِیْ عَامَیْنِ ) (اس کے دودھ چھڑانے کاعرصہ دوسال کے اندر اندرہے)، نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ) (البقرۃ : ٢/٢٣٣)(مائیں اپنی اولادوں کو دوپورے سال دودھ پلائیں ، یہ ان والدین کے لیے ہے ،جو رضاعت کو مکمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں)مکمل ہوجانے کے بعد بھلا کیا رہ جاتا ہے ؟
(التنبیہ علی مشکلات الھدایۃ : ٣/١٢٧٥۔١٢٧٦)
8    بعض الناس نے وَحَمْلُہ،     کا مطلب ”گود میں اُٹھانا” بیان کیا ہے ۔ یہ امت ِ مسلمہ کے فہم کے ساتھ استہزاء اور سنگین مذاق ہے ، نیزقرآنِ کریم کے ساتھ کھیل تماشہ ہے اور اجماعِ صحابہ کے خلاف سازش ہے ۔اس آیت ِ کریمہ کے بارے میں بعض الناس کی ساری کی ساری تلبیسات کے جوابات مکمل ہوگئے ہیں ۔    والحمد للّٰہ !
دلیل نمبر 3 :      اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
( وَفِصَالُہ، فِیْ عَامَیْنِ ) (لقمان : ٣١/١٤)
”اس (بچے )کو دودھ چھڑانے کا عمل دوسالوں کے اندر اندر ہے ۔”
یہ آیت ِ کریمہ نص ہے کہ مدت ِ رضاعت دوسال ہے ۔
شبیر احمد عثمانی دیوبندی صاحب اس آیت ِ کریمہ کے تحت لکھتے ہیں :
”امام ابوحنیفہ ؒ جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں ، ان کے پاس کوئی اوردلیل ہوگی ۔ جمہور کے نزدیک دوہی سال ہیں۔”(تفسیر عثمانی : ٥٤٨)
ہم دیوبندیوں سے پوچھتے ہیں کہ ”کوئی اوردلیل” کہاں ہے ؟ حقیقت میں بات وہی ہے، جو عبدالحئی لکھنوی حنفی صاحب نے بیان کردی ہے کہ ولیس أمرا ثابتًا بالنّصّ ، یعنی اڑھائی سال کے بارے میں امام ابوحنیفہ کا قول کسی نص سے ثابت نہیں ہے ، بلکہ نصِ قرآنی کے خلاف ہے ۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید نے کامل مدت ِ رضاعت دوسال بیان کی ہے ۔ امام ابوحنیفہ کے دوشاگرد امام ابویوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی کا مذہب بھی یہی ہے کہ مدت ِ رضاعت دوسال ہے ۔
ابنِ نجیم حنفی نے لکھ دیا ہے کہ :      ولا یخفیٰ قوّۃ دلیلھما ۔۔۔
”ان دونوں (ابویوسف ومحمد بن حسن)کی دلیل کی قوت مخفی نہیں ہے ۔”
(البحر الرائق لابن نجیم الحنفی : ٣/٢٣٩)
فقہ حنفی کا مفتیٰ بہ قول بھی یہی ہے ۔
لیکن افسوس ہے ان بعض لوگوں پر جو اتنی صراحت کے باوجود اپنے امام کے بے دلیل مذہب کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں قرآنِ مجید میں تحریف ِ معنوی کے مرتکب ہورہے ہیں !
آخرمیں علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی کا حقیقت پر مبنی قول ذکر کیے دیتے ہیں :
وبالجملۃ ، فکلّ ما استدلّوا لإثبات مذھبہ باطل ۔
”حاصل کلام یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے مذہب کے ثبوت پر حنفی فقہاء نے جو استدلات کیے ہیں ، وہ سارے کے سارے باطل ہیں ۔”(عمدۃ الرعایۃ فی شرح الوقایۃ : ٣/٢٠٦)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.