775

بہترین امت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ} (البقرۃ 2 : 110)
اس آیت کے اولین مصداق اصحاب ِرسول ہیں، اصل میں یہ خطاب انہی کو ہے،کیوں کہ وقت ِنزول وہی اس کے مخاطبین تھے، جیسا کہ مشہور لغوی امام اور مفسر زجاج (311-241ھ) فرماتے ہیں:
وَأَصْلُ الْخِطَابِ لأَِصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہُوَ یَعُمُّ سَائِرَ أُمَّتِہٖ ۔
’’بنیادی طور پر یہ خطاب رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمکے صحابہ کرام کو ہے اور عمومی طور پر ساری اُمت اس کا مصداق ہے۔‘‘
(زاد المسیر في علم التفسیر لابن الجوزي : 314/1)
سیدنا معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا،رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر یوں فرمارہے تھے:
’أَنْتُمْ تُتِمُّونَ سَبْعِینَ أُمَّۃً، أَنْتُمْ خَیْرُہَا وَأَکْرَمُہَا عَلَی اللّٰہِ‘ ۔
’’آپ لوگ ستر امتوں کا تتمہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر اور معزز ہو۔‘‘
(سنن الترمذي : 3001، تفسیر عبد الرزاق : 410/1، تفسیر الطبري : 675/5، وسندہٗ حسنٌ، وقال الترمذي : حسن، وقال الحاکم : صحیح الإسناد، ووافقہ الذہبي، وأخرجہ الدارمي : 2802، وسندہٗ صحیحٌ، وأخرجہ أحمد :5/4، وسندہٗ صحیحٌ)
مسند ِ احمد (446/4،447) کی ایک ’’حسن‘‘ روایت میں ہے:
’تُوفُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سَبْعِینَ أُمَّۃً، أَنْتُمْ آخِرُ الْـأُمَمِ وَأَکْرَمُہَا عَلَی اللّٰہِ‘
’’تم روز ِقیامت ستر اُمتوں سے بھاری ہو جاؤ گے،تم آخری اُمت ہو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے معزز ہو۔‘‘
ترجمانِ قرآن، حبرِامت، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
ہُمُ الَّذِینَ ہَاجَرُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ مَّکَّۃَ إِلَی الْمَدِینَۃِ ۔
’’اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی۔‘‘
(تفسیر عبد الرزاق : 134/1، السنن الکبرٰی للنسائي : 11006، مسند الإمام أحمد : 273/1، تفسیر الطبري : 671/5، 672، تفسیر ابن أبي حاتم : 732/3، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 294/2، وسندہٗ حسنٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
حافظ ہیثمی کہتے ہیں: رِجَالُ أَحْمَدَ رِجَالُ الصَّحِیْحِ ۔
’’مسند احمد کے راوی صحیح بخاری والے ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد : 330/6)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’جید‘‘ کہا ہے۔
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 225/8)
مفسر ابن عطیہ رحمہ اللہ (542-481ھ)لکھتے ہیں:
إِنَّ الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِي الصَّحَابَۃِ، قِیْلَ لَہُمْ : کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ ۔
’’یہ آیت ِ کریمہ صحابہ کرام کے متعلق نازل ہوئی۔انہیں مخاطب کر کے فرمایا گیا کہ تم بہترین امت ہو۔‘‘(تفسیر ابن عطیۃ : 489/1)
علامہ ابن الوزیر یمانی رحمہ اللہ (840-775ھ)لکھتے ہیں:
وَہٰذِہِ الْـأِشْیَائُ تُنَبِّہُ الْغَافِلَ، وَتُقَوِّي بَصِیْرَۃَ الْعَاقِلِ، وَإِلاَّ فَفِي قَوْلِہٖ تَعَالٰی : {کُنتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} (آل عمرٰن 3 : 110) کِفَایَۃٌ وَّغُنْیَۃٌ، مَعَ مَا عَضَدَہَا مِنْ شَہَادَۃِ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ بِأَنَّہُمْ خَیْرُ الْقُرُوْنِ ۔
’’یہ چیزیں غافل کو تنبیہ اور عقل مند کی بصیرت کو تقویت فراہم کرتی ہیں،ورنہ اللہ تعالیٰ کا یہی فرمان:{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ}(آل عمرٰن 3 : 110)کافی و شافی ہے۔اس پر مستزاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلمکی شہادت ہے کہ صحابہ کرام بہترین لوگ ہیں۔‘‘(الروض الباسم في الذبّ عن سنّۃ أبي القاسم : 112/1)
مفسر ابو حیان اندلسی رحمہ اللہ (745-654ھ) لکھتے ہیں:
وَالظَّاہِرُ أَنَّ الْخِطَابَ ہُوَ لِمَنْ وَقَعَ الْخِطَابُ لَہٗ أَوَّلاً؛ وَہُمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَتَکُوْنُ الْإِشَارَۃُ بِقَوْلِہٖ {اُمَّۃٍ} إِلٰی أُمَّۃٍ مُّعَیَّنَۃٍ، وَہِيَ أُمَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَالصَّحَابَۃُ ہُمْ خَیْرُہَا ۔
’’صاف سی بات ہے کہ اس فرمانِ باری تعالیٰ کے اولین مصداق صحابہ کرام ہی ہیں۔اس آیت میں ایک مخصوص اُمت کی طرف اشارہ ہے جو کہ اُمت محمدیہ ہے اور صحابہ اس اُمت کے بہترین لوگ ہیں۔‘‘
(البحر المحیط في التفسیر : 299/3)
علامہ ابن حجر ہیتمی لکھتے ہیں:
وَکَفٰی فَخْرًا لَّہُمْ أَنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی شَہِدَ لَہُمْ بِأَنَّہُمْ خَیْرُ النَّاسِ حَیْثُ قَالَ تَعَالٰی : {کُنتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} (آل عمرٰن 3 : 110)، فَإِنَّہُمْ أَوَّلُ دَاخِلٍ فِي ہٰذَا الْخِطَابِ، کَذٰلِکَ شَہِدَ لَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَوْلِہٖ فِي الْحَدِیْثِ الْمَتَّفَقِ عَلٰی صِحَّتِہٖ : ’خَیْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي‘، وَلَا مَقَامَ أَعْظَمُ مِنْ مَّقَامِ قَوْمٍ اِرْتَضَاہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ لِصُحْبَۃِ نَبِیِّہٖ ۔
’’صحابہ کرام کے لیے یہی فخر کافی ہے کہ اللہ رب العزت نے ان کے بارے میں بہترین لوگ ہونے کی گواہی دی ہے،چنانچہ فرمایا:تم بہترین لوگ ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔اس خطاب کے اولین مصداق یہی لوگ ہیں۔اسی طرح نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے متفق علیہ حدیث میں گواہی دی ہے کہ میرا زمانہ بہترین ہے۔اس مرتبے سے بڑھ کر اور کوئی مرتبہ نہیںکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بنانے کے لیے منتخب کیا۔‘‘
(الصواعق المحرقۃ علی أہل الرفض والضلال والزندقۃ : 21/1)
نیز لکھتے ہیں:
وَمِنْ جُمْلَۃِ مَا قَالَہٗ أُولٰئِکَ الْمُلْحِدُوْنَ کَیْفَ یَقُوْلُ اللّٰہُ : {کُنتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} (آل عمرٰن 3 : 110)، وَقَدِ ارْتَدَّوْا بَعْدَ وَفَاۃِ نَبِیِّہِمْ إِلَّا نَحْوَ سِتَّۃِ أَنْفُسٍ مِّنْہُمْ، لاِمْتِنَاعِہِمْ مِّنْ تَقْدِیْمِ أَبِي بَکْرٍ عَلٰی عَلِيٍّ الْمُرْتَضٰی الْمُوْصٰی بِہٖ، فَانْظُرْ إِلٰی حُجَّۃِ ہٰذَا الْمُلْحِدِ، تَجِدُہَا عَیْنَ حُجَّۃِ الرَّافِضَۃِ، قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ أَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ، بَلْ ہُمْ أَشَدُّ ضَرَرًا عَلَی الدِّیْنِ مِنَ الْیَہُوْدِ وَالنَّصَارٰی وَسَائِرِ فِرَقِ الضَّلَالِ ۔
’’ان ملحدین کے اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو بہترین امت کیسے قرار دیتا ہے، جبکہ سوائے تقریباً چھ آدمیوںکے،جنہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو وصی سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت نہیں دی تھی،سب آپصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد (العیاذ باللہ) مرتد ہو گئے تھے۔ذرا اس ملحد کی دلیل کو دیکھئے کہ کس طرح ہوبہو روافض کی زبان بول رہا ہے۔اللہ تعالیٰ ان کا ستیاناس کرے،یہ کہاں بھٹک رہے ہیں؟یہ لوگ تو (اسلام کے حق میں)یہود و نصاریٰ اور دیگر گمراہ فرقوں سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں۔‘‘
(الصواعق المحرقۃ علی أہل الرفض والضلال والزندقۃ : 114/1)
مزید رقم طراز ہیں:
وَمِنْہَا قَوْلُہٗ تَعَالٰی : {وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُونُوْا شُھَدَائَ عَلَی النَّاسِ} (البقرۃ 2 : 143)، وَالصَّحَابَۃُ فِي ہٰذِہ الْآیَۃِ وَالَّتِي قَبْلَہَا ہُمُ الْمُشَافِہُوْنَ بِہٰذَا الْخِطَابِ عَلٰی لِسَانِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَقِیْقَۃً، فَانْظُرْ إِلٰی کَوْنِہٖ تَعَالٰی خَلَقَہُمْ عُدُوْلًا وَّخِیَارًا لِّیَکُوْنُوْا شُہَدَائَ عَلٰی بَقِیَّۃِ الْـأُمَمِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَحِیْنَئِذٍ فَکَیْفَ یَسْتَشْہِدُ اللّٰہُ تَعَالٰی بِغَیْرِ عَدُوْلٍ أَوْ بِمَنِ ارْتَدُّوْا بَعْدَ وَفَاۃِ نَبِیِّہِمْ، إِلَّا نَحْوَ سِتَّۃِ أَنْفُسٍ مِّنْہُمْ، کَمَا زَعَمَتْہُ الرَّافِضَۃُ قَبَّحُہُمُ اللّٰہُ وَلَعَنَہُمْ وَخَذَلَہُمْ، مَا أَحْمَقَہُمْ وَأَجْہَلَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ بِالزُّوْرِ وَالْاِفْتِرَاء ِوَالْبُہْتَانِ !
وَمِنْہَا قَوْلُہٗ تَعَالٰی : {یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا مَعَہٗ نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانہھِمْ} (التحریم 66 : 8)، فَآمَنَہُمُ اللّٰہُ مِنْ خِزْیِہٖ، وَلَا یَأْمَنُ مِنْ خِزْیِہٖ فِي ذٰلِکَ الْیَوْمِ إِلَّا الَّذِیْنَ مَاتُوْا، وَاللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَرَسُوْلُہٗ عَنْہُم رَاضٍ، فَأَمْنُہُمْ مِّنَ الْخِزْيِ صَرِیْحٌ فِي مَوْتِہِمْ عَلٰی کَمَالِ الْإِیْمَانِ وَحَقَائِقِ الْإِحْسَانِ، وَفِي أَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَزَلْ رَاضِیًا ۔
’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُونُوْا شُھَدَائَ عَلَی النَّاسِ} (البقرۃ 2 : 143) (اس طرح ہم نے تمہیں بہترین اُمت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو)۔اس میں اور اس سے پہلی آیت میں حقیقی طور پر صحابہ کرام ہی کو نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے بالمشافہہ خطاب کیا گیا ہے۔ اس بات پر غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عادل اور نیک بنایا ہے تاکہ یہ روزِ قیامت بقیہ اُمتوں پر گواہ ہوں۔بھلا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے گواہ بنا سکتا ہے جو غیر عادل ہوں اور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چھے کے علاوہ باقی سارے مرتد ہو گئے ہوں؟جیسا کہ رافضیوں کا خیال ہے،اللہ تعالیٰ انہیں ذلیل کرے،ان پر لعنت فرمائے اور ان کو بے یارومدد گار چھوڑ دے، یہ کس قدر احمق،جھوٹے، جاہل، افترا پرداز اور بہتان طرازہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :{یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا مَعَہٗ نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانہھِمْ} (التحریم 66 : 8) (اس روز اللہ تعالیٰ،نبی اور اس کے ساتھیوں کو رسوا نہیں کرے گا۔ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرف دوڑتا ہو گا)۔یوں اللہ تعالیٰ نے انہیں رسوائی سے بچا لیا ہے اور اس روز وہی لوگ رسوائی سے بچ سکیں گے، جن سے وفات کے وقت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم راضی تھے۔صحابہ کرام کا رسوائی سے بچ جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان کی موت کمال ایمان اور حقیقی نیکی پر ہوئی ،نیز یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان سے راضی رہے۔‘‘
(الصواعق المحرقۃ علی أہل الرفض والضلال والزندقۃ : 604/2)
عظیم سنی مفسر، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ) لکھتے ہیں:
وَالصَّحِیحُ أَنَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ عَامَّۃٌ فِي جَمِیْعِِ الْـأُمَّۃِ، کُلُّ قَرْنٍ بِحَسَبِہٖ، وَخَیْرُ قُرُونِہِمُ الَّذِینَ بُعثَ فِیہِمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُوْنَہُمْ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُوْنَہُمْ، کَمَا قَالَ فِي الْآیَۃِ الْـأُخْرٰی : {وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا}، أَيْ خِیَارًا، {لِتَکُوْنُوْا شُھَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا} (البقرۃ 2 : 143) الْآیَۃَ ۔
’’صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت پوری اُمت کو شامل ہے،ہر دور اپنی شان کے مطابق(اس کا مصداق)ہے۔بہترین زمانہ وہ ہے جس میں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا، پھر اس سے متصل دور بہتر ہے اور اس کے بعد اس سے متصل دور،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں فرمایا:{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا}(البقرۃ 2 : 143)(اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول[صلی اللہ علیہ وسلم]تم پر گواہ بنیں)۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر:92/2،ت:سلامۃ)
شیخ الاسلام، ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)لکھتے ہیں:
وَکَذٰلِکَ مَنْ زَعَمَ مِنْہُمْ أَنَّ الْقُرْآنَ نُقِصَ مِنْہُ آیَاتٌ وَّکُتِمَتْ، أَوْ زَعَمَ أَنَّ لَہٗ تَأْوِیْلَاتٍ بَاطِنَۃٍ تُسْقِطُ الْـأَعْمَالَ الْمَشْرُوْعَۃَ، وَنَحْوَ ذٰلِکَ، وَہٰؤُلَائِ یُسَمُّوْنَ الْقَرَامِطَۃُ وَ الْبَاطِنِیَّۃُ، وَمِنْہُمُ التَّنَاسُخِیَّۃُ؛ وَہٰؤُلَائِ لَا خِلَافَ فِي کُفْرِہِمْ، وَأَمَّا مَنْ سَبَّہُمْ سَبًّا لَّا یَقْدَحُ فِي عَدَالَتِہِمْ وَلاَ فِي دِیْنِہِمْ، مِثْلُ وَصْفِ بَعْضِہِمْ بِالْبُخْلِ أَوِ الْجُبْنِ أَوْ قِلَّۃِ الْعِلْمِ أَوْ عَدْمِ الزُّہْدِ، وَ نَحْوِ ذٰلِکَ، فَہٰذَا ہُوَ الَّذِي یَسْتَحِقُّ التَّأْدِیْبَ وَالتَّعْزِیْرَ، وَلاَ نَحْکُمُ بِکُفْرِہٖ بِمُجَرَّدِ ذٰلِکَ، وَعَلٰی ہٰذَا یُحْمَلُ کَلَامُ مَنْ لَّمْ یُکَفِّرُہُمْ مِّنْ أَہْلِ الْعِلْمِ، وَأَمَّا مَنْ لَّعَنَ وَقَبَّحَ مُطْلَقًا؛ فَہٰذَا مَحَلُّ الْخِلَافِ فِیْہِمْ، لِتَرَدُّدِ الْـأَمْرِ بَیْنَ لَعْنِ الْغَیْظِ وَلَعْنِ الْاِعْتِقَادِ ۔
وَأَمَّا مَنَ جَاوَزَ ذٰلِکَ إِلٰی أَنْ زَعَمَ أَنَّہُمُ ارْتَدُّوْا بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ عَلَیْہِ الصَّلاَۃُ وَالسَّلاَمُ إِلَّا نَفَرًا قَلِیْلاً یَّبْلُغُوْنَ بِضْعَۃَ عَشَرَ نَفْسًا، أَوْ أَنَّہُمْ فَسَقُوْا عَامَّتُہُمْ، فَہٰذَا لاَ رَیْبَ أَیْضًا فِي کُفْرِہٖ، لِأَنَّہٗ کَذَّبَ لِمَا نَصَّہُ الْقُرْآنُ فِي غَیْرِ مَوْضِعٍ مِّنَ الرِّضٰی عَنْہُمْ وَالثَّنَائِ عَلَیْہِمْ، بَلْ مَنْ یَّشُکُّ فِي کُفْرِ مِثْلِ ہٰذَا فَإِنَّ کُفْرَہٗ مُتَعَیَّنٌ، فَإِنَّ مَضْمُوْنَ ہٰذہِ الْمَقَالَۃِ أَنَّ نَقَلَۃَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ کُفَّارٌ أَوْ فُسَّاقٌ، وَأَنَّ ہٰذِہِ الْآیَۃَ الَّتِي ہِيَ {کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} (آل عمران3 : 110) وَخَیْرُہَا ہُوَ الْقَرْنُ الْـأَوَّلُ کَانَ عَامَّتُہُمْ کُفَّارًا أَوْ فُسَّاقًا، وَمَضْمُوْنُہَا أَنَّ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃَ شَرُّ الْـأُمَمِ وَأَنَّ سَابِقَيْ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ ہُمْ شِرَارُہُمْ، وَکُفْرُ ہٰذَا مِمَّا یُعْلَمُ بِاِضْطِرَارٍ مِّنْ دِیْنِ الْإِسْلَامِ ۔
وَلِہٰذَا تَجِدُ عَامَّۃَ مَنْ ظَہَرَ عَلَیْہِ شَيْئٌ مِّنْ ہٰذِہِ الْـأَقْوَالِ؛ فَإِنَّہٗ یَتَبَیَّنُ أَنَّہٗ زِنْدِیْقٌ، وَعَامَّۃُ الزَّنَادِقَۃِ إِنَّمَا یَسْتَتِرُوْنَ بِمَذْہَبِہِمْ، وَقَدْ ظَہَرَتْ لِلّٰہِ فِیْہِمْ مَثُلَاتٌ، وَتَوَاتَرَ النَّقْلُ بِأَنَّ وُجُوْہَہُمْ تَمُسِّخَ خَنَازِیْرُ فِي الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ ۔
’’شیعوں میں سے جو یہ دعویٰ کریں کہ قرآنی آیات میں سے کچھ کم ہو گئی ہیں یا چھپا لی گئی ہیں،یا قرآنِ کریم کی ایسی باطنی تاویلات ہیں،جن کی بنا پر اعمالِ شرعیہ ساقط ہو جاتے ہیں یا اس جیسے دوسرے اعتقادات کے حامل ہوں،ایسے لوگوںکو قرامطہ اور باطنیہ کہا جاتا ہے،انہی میں سے ایک فرقہ تناسخیہ ہے۔ان کے کفر میں کسی مسلمان کو کوئی اختلاف نہیں۔جو شیعہ صحابہ کرام پر ایسی طعن کرتے ہیں،جس سے ان کی عدالت اور دین میں کوئی نقص نہیں ہوتا،جیسا کہ انہیں بخیل، بزدل، کم علم اور غیر زاہد جیسے اوصاف سے متصف کرتے ہیں،
وہ سزا اور تادیب کے مستحق ہیں۔صرف اس بنا پر ان پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔جو اہل علم شیعہ کو کافر نہیں کہتے،ان کے اقوال بھی ایسے لوگوں پر ہی محمول کیے جائیں گے۔البتہ جو لوگ صحابہ کرام کے بارے میں مطلق لعن و طعن کرتے ہیں، ان کا معاملہ محل اختلاف ہے،کیونکہ بطورِغصہ میں اور بطورِ عقیدہ لعن و طعن کرنے میں فرق ہے۔
جو لوگ اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ ماسوائے چند صحابہ کرام کے،جن کی تعداد بیس تک بھی نہیں پہنچتی،باقی سب کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے،یا اکثر صحابہ کرام کو فاسق قرار دیتے ہیں،تو ان کے کفر میں کوئی شک نہیں،کیونکہ یہ قرآن کریم کی کئی نصوص کی تکذیب کرتے ہیں، جن میں صحابہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کی رضاو خوشنودی اور تعریف ِالٰہی کی تصریح موجود ہے۔ ایسے لوگوں کے کفر میں شک کرنے والوں کا کفر بھی متعین ہو جاتا ہے،کیونکہ ان کے قول کا خلاصہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے قرآن و حدیث کو ہم تک پہنچایا،وہ کافر یا فاسق تھے(العیاذ باللہ)، نیز قرآنِ کریم نے جنہیں بہترین امت،جس میں سے بھی بہترین گروہ قرنِ اول (صحابہ) ہیں، قرار دیا ہے، ان میں سے اکثر کافر اور فاسق تھے۔اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ یہ امت سب امتوں سے بری اور اس کے پہلے دو ادوار سب سے برے تھے۔جو لوگ ایسے عقائد رکھتے ہوں،ان کا کفر دین اسلام کی رُو سے لازمی طور پر معلوم ہو جاتاہے۔لہٰذا آپ دیکھیں گے کہ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں، ان میں سے اکثر کا بے دین ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔اکثر زندیق لوگ اپنے مذہب کو چھپاتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی عبرت ناک سزائیں ان میں ظاہر ہو چکی ہیں،بلکہ متواتر منقول ہے کہ زندہ اور مردہ حالت میں ان کے چہرے خنزیروں کی شکل میں مسخ کر دیے گئے۔‘‘ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول، ص : 586۔587)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.