1,373

دعوت اور کھانے کے آداب، شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

دعوت اورکھانے کے آداب

دعوتیں ، ضیافتیں اورتقریبات اجتماعی زندگی کا حصہ ہیں ۔ اسلام کی نظر میں مسلمانوں کا طیبات پر جمع ہونا مستحسن ہے ۔ قبولِ دعوت ، سنت اور شعار ِ اسلام ہے ۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے کہ وہ اس کی دعوت کو قبول کرے ۔
ہمارے ہاں ولیمہ کی دعوت وتقریب میں خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے ، ان دعوتوں کی اہمیت مندرجہ ذیل احادیث سے عیاں ہے ، سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:     ”جب آپ میں سے کوئی اپنے بھائی کو ولیمہ وغیرہ کی دعوت دے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے قبول کرے۔”(صحیح مسلم : ١٤٢٩/١٠٠)
نیز نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے : ”بے برکت اوراجروثواب سے خالی کھانوں میں سے ولیمہ کا وہ کھانا ہے ، جس میں امیروں ، وزیروں کو تو مدعو کیا جاتا ہے ، مساکین وفقراء کو نظرانداز کردیاجاتا ہے ، جو دعوت کو قبول نہ کرے ، وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کا نافرمان ہے۔”(صحیح البخاری : ٥١٧٧، صحیح مسلم : ١٤٣٢)
سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ”دعوت پر بلایا جائے تودعوت قبول کرے ۔ اگر حالت ِ روزہ میں ہو تو (برکت کی)دعا دے دے ، اگر روزہ دار نہیں تو کھانا کھالے۔”(صحیح مسلم : ١٤٣١)
تاسف ہے کہ مسلمان ان دعوتوں میں نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا خون کرتے ہیں ۔ کفار کی دیکھادیکھی کھانے کے شرعی آداب کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا ۔
شادی بیاہ کی تقریبات چوکوں ، چوراہوں ، گلیوں اور سڑکوں پر منعقد کی جاتی ہیں ، یہ خلاف ِ ادب وتہذیب ہے اورباعث ِ ایذا ہے ۔
سیدنا ابوسعید خدری  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”راستوں پر بیٹھنے سے بچو ، صحابہ کرام] کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول! اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ، ہم بیٹھ کر (ضروری) باتیں کرتے ہیں توفرمایا ، اگر انکار کرو (بیٹھنا ہی ہے )تو راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ کرام ] نے عرض کیا ، راستے کا حق کیا ہے؟ فرمایا ، نگاہیں نیچی رکھو ، ایذا رساں چیزوں کو راستے سے دور کرو، سلام کا جواب لوٹاؤ ، نیکی کا حکم دو ، برائی سے روکو ۔”(صحیح البخاری : ٦٢٢٩، صحیح مسلم : ٢١٢١)
اس فرمانِ نبوی کے پیشِ نظر ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ آیا ہم ان پاکیزہ تعلیمات کا کتنا لحاظ کرتے ہیں ۔ ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہے ، گزرگاہوں کو مسدود کردیا جاتا ہے ، جس سے راہگیروں کوپریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کھونٹے روڈ میں گاڑ دئیے جاتے ہیں ،جن سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں ، ڈیک لگاکر شرفاء کو ستایا جاتا ہے۔ مردوزن کے اختلاط سے حیاباختہ مناظر پیش کیے جاتے ہیں ۔ تصویر اتارنا ، ناچ گانا ، لڈی بھنگڑا اورآتش بازی کا مظاہرہ کرکے قومی املاک کو برباد کیاجاتا ہے، ہوائی فائرنگ ، جس سے کتنی ہلاکتیں واقع ہوجاتی ہیں ، فحاشی وعریانی عروج پر ہوتی ہے۔
اسراف وتبذیر میں پڑ کر شیطان کے ساتھ بھائی چارہ کا رشتہ قائم کیاجاتا ہے۔مغربی تہذیب کو اپنایا اوراسلامی تہذیب کوللکارا جاتا ہے۔
للہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے اسوہئ حسنہ کو مشعلِ راہ بنالیں!
دوسری بات یہ ہے کہ دعوت مختصر ہو ۔ ایک دو کھانوں پراکتفا کرنے میں عافیت ہے۔ اس سے آدمی فضول خرچی سے بچ جاتا ہے اور زیادہ مہمان کھانا کھاسکتے ہیں۔
کھانوں میں تکلفات سے اجتناب کیاجائے ، دعوت میں امیروغریب برابر کے شریک ہوں، کوشش کریں کہ نیک اورشریف لوگ آپ کا مال کھائیں ۔ اسراف وتبذیر سے مجتنب ہوکر ریاکاری اوردکھلاوا کو بالائے طاق رکھ کر سنت ِ نبوی کو پیشِ نظر رکھ کر لوجہ اللہ دعوت دی جائے ۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی رضاوخوشنودی نصیب ہوگی ، باہمی محبت ومودّت بڑھے گی ، ایثاروقربانی کا جذبہئ صادقہ پروان چڑھے گا۔
دیکھنے میں آتا ہے کہ مدعوین کھانے پرٹوٹ پڑتے ہیں ، دَھوتک دھیا برپا ہوجاتا ہے، صبرو تحمل اورتہذیب وشرافت کا جنازہ نکل جاتا ہے، ہرکوئی دوسرے سے سبقت لے جانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔
چاہیے تو یہ کہ حاضرین باوقار طریقہ سے کھانے کی طرف بڑھیں ، دوسروں کو اپنے آپ پر ترجیح دیں ، بسم اللہ پڑھ کر کھانا ڈالیں۔
عمر بن ابی سلمہ   رضی اللہ عنہ  کو نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے کھانے کے آداب سے یوں شناسا کیا :
”اے بیٹا ! (کھانے کے شروع میں)اللہ کا نام لے ، یعنی بسم اللہ پڑھ ۔ دائیں ہاتھ سے کھا اور اپنے سامنے سے کھا۔”(صحیح البخاری : ٥٣٧٦، صحیح مسلم : ٢٠٢٢)
سیدنا حذیفہ   رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ جب کبھی ہم نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی معیت میں کھانا کھاتے تو اس وقت تک کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتے ، جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم  شروع نہ فرماتے ۔ ایک مرتبہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ کھانے پر جمع ہوئے ، ایک بچی یوں دوڑتی ہوئی آئی ، جیسے اسے دھکیلا جایا رہا ہو۔ آکر اس نے کھانے میں ہاتھ ڈالنا چاہا ، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کا ہاتھ پکڑلیا ، پھر ایک دیہاتی نے اسی طرح آکر ہاتھ ڈالنا چاہا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا اورفرمایا ، اگر کھانے پر اللہ کانام نہ لیاجائے توشیطان اسے اپنے لیے حلال کرلیتا ہے۔ وہ اس بچی کے ساتھ آیا تومیں نے اس کا ہاتھ پکڑلیا ، پھر اس دیہاتی کے ساتھ آکر اس نے کھانا اپنے حلال کرنا چاہا تو میں نے اس کا بھی ہاتھ پکڑ لیا ۔ اس ذات کی قسم ،جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! شیطان کا ہاتھ بچی کے ہاتھ کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے۔”(صحیح مسلم : ٢٠١٧)
اس حدیث ِ پاک سے معلوم ہوا کہ کھانے کی مجلس میں اگر علماء وفضلاء اورصلحاء موجود ہوں تووہ پہل کریں ، ساتھ دوسرے لوگ شریک ہوجائیں۔
اگر بچے ہوں تو ان کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کریں، علیحدہ کھانا ڈال کر مت دیں، اس سے کھانا ضائع ہوجاتا ہے۔ بچے سیر ہوکر کھانا بھی نہیں کھاسکتے، اگر کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا بھول گئے تویاد آنے پر بِسْمِ اللّٰہِ أَوَّلَہ، وَآخِرَہ، پڑھیں۔
(مسند الامام احمد : ٦/٢٠٧۔٢٠٨، سنن ابی داو،د : ٣٧٦٧، سنن الترمذی : ١٨٥٨، وقال : حسن صحیح ، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤/١٠٨، وقال : صحیح الاسناد ، وہو کما قال)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ  (٥٢١٤)اور حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے بھی ”صحیح” کہاہے۔
کھانے کے آداب میں انتہائی ضروری ادب یہ بھی ہے کہ کھانا دائیں ہاتھ سے کھایا جائے۔ سیدناجابر بن عبداللہ   رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
”بائیں ہاتھ سے مت کھاؤ ، شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے۔”(صحیح مسلم : ٢٠١٩)
مسلمانوں کی غفلت کا یہ عالم ہے کہ ان کو پتا نہیں کہ کھانا کون سے ہاتھ سے تناول کرنا ہے، کفار کی تقلید میں بائیں ہاتھ سے کھاتے پیتے نظر آتے ہیں ، بلکہ بعض جگہوں میں ایسے سائن بورڈ دیکھنے میں آئے ہیں ، جن پر بائیں ہاتھ سے کھانا پینا دکھایا گیا ہے ۔ یہ اسلامی تعلیمات سے انحراف واعراض کی دلیل ہے اور اسلامی اقدار کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔
بسیار خوری سے بچیں ، ضرورت کے مطابق کھانا ڈالیں، طلب ہو تو دوبارہ بھی لیا جاسکتا ہے۔ جب ضرورت سے زائد کھانا لیا جائے گا تو ضائع ہوجائے گا۔ صبروتحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے ۔ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمانِ گرامی ہے :
”ایک کا کھانا دو کو ، دو کا کھانا چار کو اور چار کا کھانا آٹھ آدمیوں کا کفایت کرتاہے۔”(صحیح مسلم : ٢٠٥٩)
کھانا ضائع کرنا کفرانِ نعمت ہے، اسے ضائع ہونے سے بچائیے ، برتن اچھی طرح صاف کیا جائے ، سیدنا جابر   رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جب لقمہ گر جائے تو(کھانے والا) اسے اٹھا لے اور پونچھ کر کھالے، اس کو شیطان کے لیے نہ چھوڑ ے ، اپنے ہاتھ کو رومال سے نہ پونچھے ، جب تک انگلیاں نہ چاٹ لے ، وہ نہیں جانتا کہ کھانے کے کون سے حصے میں برکت رکھی گئی ہے؟”(صحیح مسلم : ٢٠٣٣/١٣٤)
جب لقمہ اٹھا کرکھانے کا حکم ہے تو پلیٹ میں کھانا چھوڑ کر ضائع کردینا کہاں کاادب ہے؟
حدیث ِ پاک میں تو انگلیاں چاٹنے سے پہلے رومال وغیرہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں، کہیں انگلیوں کے ساتھ لگا ہوا کھانا ضائع کرکے برکت کو ضائع نہ کردیں۔
سیدنا ابنِ عباس   رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جب کوئی کھانا کھائے تو اپنی انگلیوں کو (رومال یا ٹشو پیپر)سے صاف نہ کرے، یہاں تک کہ وہ انگلیاں خود چاٹ لے یا دوسرے کو چٹادے۔”
(صحیح البخاری : ٥٤٥٦، صحیح مسلم : ٢٠٣١/١٢٩)
یہ حسنِ معاشرت کی بے نظیر مثال ہے کہ ایک مسلمان کا دل دوسرے کے بارے میں اتنا صاف ہو کہ وہ اس کی انگلیاں چاٹ کر صاف کرنے میں بھی تنفیر وتحقیر محسوس نہ کرے۔
جب کھانا ایک ہی جنس کا ہو تو اپنے سامنے سے کھانا چاہیے ، سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
”جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو پیالے (برتن) کے کناروں سے کھائے ، کیونکہ برکت درمیان میں نازل ہوتی ہے۔”
(سنن ابی داو،د : ٣٧٧٢، وسندہ، صحیحٌ)
چھوٹے چھوٹے لقمے لیے جائیں ، خوب چبا کر کھانا کھایا جائے ، منہ بند کر کے چبایا جائے، گرم کھانے سے اجتناب کیاجائے ، سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  کا فرمان ہے :
”بھاپ نکلنے تک کھانا نہ کھایا جائے۔”(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٧/٢٨٠، وسندہ، حسنٌ)
کھانے کے ساتھ ہاتھ صاف کرنا قبیح عادت ہے ، کھانا بیٹھ کر کھایا جائے ، البتہ کھڑے ہوکر کھانا پینا جائز ہے۔
سیدنا انس بن مالک   رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو یا تین سانسوں میں پانی پیتے تھے۔ (صحیح البخاری : ٥٦٣١، صحیح مسلم : ٢٠٢٨)
پانی پیتے وقت برتن میں سانس لینا اورپھونکنا منع ہے۔(مسند الحمیدی : ٥٢٥، سنن ابی داو،د : ٣٧٢٨، سنن الترمذی : ١٨١٨، سنن ابن ماجہ : ٣٤٢٩، وسندہ، صحیحٌ)
کھانے میں عیب مت ٹٹولیں ، سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں :
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا ، اگر کوئی چیز اچھی لگے توکھالیتے ، اگر ناپسند ہوتی تو چھوڑ دیتے تھے۔”(صحیح البخاری : ٥٤٠٩، صحیح مسلم : ٢٠٦٤)
کھانا کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی تعریف کریں ، اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے ، جو دعائیں نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سکھائی ہیں ، وہ پڑھیں ۔
سیدنا معاذ بن انس  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو شخص کھانا کھا کر یہ دعا پڑھے گا ، اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف فرمادے گا:
اَلْحَمْدُ لَلّٰہِ الَّذِیْ أَطْعَمَنِیْ ہٰذَا الطَّعَامَ وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِّنِّیْ وَلَا قُوَّۃٍ ۔
”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں ، جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور میری طاقت وقوت کے بغیر مجھے یہ رزق عطا فرمایا۔”(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی : ٤٦٦، وسندہ، حسنٌ)
کھانا کھلانے یا پیش کرنے والے کے حق میں بھی دعا کریں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.