1,102

دعائے استفتاح، شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

دعائے استفتاح!
ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  تکبیر تحریمہ کے بعد اور سورہ فاتحہ کی قراء ت سے پہلے چپکے چپکے درج ذیل دعائیں پڑھتے تھے:
1 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تکبیر (تحریمہ) اور (سورہ فاتحہ کی) قراء ت کے درمیان تھوڑی دیر خاموشی اختیار کرتے تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اس خاموشی میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: میں یہ دعا پڑھتا ہوں:
اللَّہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ، کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ، اللَّہُمَّ نَقِّنِی مِنَ الخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الأَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّہُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِالْمَاء ِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ .
”اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اس طرح دوری ڈال دے، جس طرح مشرق و مغرب کے درمیان تو نے دوری ڈالی ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے پاک و صاف کر دے، جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میری خطاؤں کو پا نی، برف اور اولوں سے دھو ڈال۔”
(صحیح البخاری : ٧٤٤، صحیح مسلم : ٥٩٨)
2 سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر یہ دعا پڑھتے:
سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالَی جَدُّکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرَکَ .
”اے اللہ! تو پاک ہے، تیری ہی تعریف و ثنا ہے، تیرا نام با برکت ہے، تیری شان بہت بلند و برتر ہے، تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔”
اس کے بعد تین بارلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہ ”اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔”اور تین بار اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا ”اللہ سب سے بڑا ہے۔” پڑھتے تھے۔
اس کے بعد (یوں تعوذ) پڑھتے تھے:
أَعُوذُ بِاللَّہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ ہَمْزِہِ، وَنَفْخِہِ، وَنَفْثِہِ .
”میں شیطان مردود اور اس کے وسوسے، جنون و تکبر اور فریب و سحر سے اللہ کی پناہ لیتا ہوں جو خوب سننے اور خوب جاننے والا ہے۔”
پھر آپ سورہ فاتحہ کی قراء ت کرتے تھے۔
(سنن ابی داو،د : ٧٧٥، واللفظ لہ، سنن النسائی : ٩٠٠، سنن الترمذی : ٢٤٢، سنن ابن ماجہ : ٨٠٤، مسند الامام احمد : ٣/٥٠، ٦٩، وسندہ، حسن)
اس کے راوی جعفر بن سلیمان الضبعی کی جمہور نے توثیق کر رکھی ہے۔ یہ صحیح مسلم کا راوی ہے اور ”حسن الحدیث” ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ  اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
صدوق، صالح، ثقۃ مشھور .
”سچا ہے، نیک ہے، مشہور ثقہ ہے۔”
(المغنی للذھبی : ١/٢٠٩)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے بھی اس کو ” ثقہ” کہا ہے۔
(تغلیق التعلیق لابن حجر : ٢/٥٣)
اس حدیث کے دوسرے راوی علی بن علی الرفاعی کو امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابو زرعہ الرازی، امام ابو حاتم الرازیs نے ”ثقہ” قرار دیا ہے۔
اس حدیث کے تیسرے راوی علی بن داؤد ابو المتکل الناجی ”ثقہ” ہیں۔
(تقریب التھذیب لابن حجر : ٤٧٣١)
اس حدیث کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
رواہ أحمد، ورجالہ ثقات .
”اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔”
(مجمع الزوائد : ٤/٢٣٨)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
ھذا حدیث حسن، وقد وثق علی بن علی ابن معین وأحمد وأبو حاتم و آخرون، وسائر رواتہ رواۃ الصحیح .
”یہ حدیث حسن ہے۔ علی بن علی کو امام ابن معین، امام احمد بن حنبل، امام ابو حاتم اور دیگر ائمہ کرام s نے ثقہ قرار دیا ہے۔ اس کے باقی راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں۔”
(نتائج الافکار لابن حجر : ١/٤١٣،٤١٤)
3 سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز شروع کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:
سُبْحَانَکَ اللہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالَی جَدُّکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ، وَجَّہْتُ وَجْہِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ، إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی، وَمَحْیَایَ، وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ، لَا شَرِیکَ لَہُ
”اے اللہ! تو پاک ہے، تیری ہی تعریف و ثنا ہے۔ تیر ا نام با برکت ہے، تیری شان بہت بلند و برتر ہے۔ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں نے اپنا چہرہ اس (اللہ) کی طرف متوجہ کیا ہے، جو ارض و سماء کو پیدا کرنے والا ہے۔ میں حنیف ہوں، شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے، جو تمام جہانوں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔”
(السنن الکبرٰی للبیھقی : ٢/٥، وسندہ، صحیح)
4سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز میں کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:
وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ، إِنَّ صَلَاتِی، وَنُسُکِی، وَمَحْیَایَ، وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ، لَا شَرِیکَ لَہُ، وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ، اللہُمَّ أَنْتَ الْمَلِکُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ أَنْتَ رَبِّی، وَأَنَا عَبْدُکَ، ظَلَمْتُ نَفْسِی، وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِی، فَاغْفِرْ لِی ذُنُوبِی جَمِیعًا، إِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاہْدِنِی لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا یَہْدِی لِأَحْسَنِہَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّی سَیِّئَہَا لَا یَصْرِفُ عَنِّی سَیِّئَہَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ کُلُّہُ فِی یَدَیْکَ، وَالشَّرُّ لَیْسَ إِلَیْکَ، أَنَا بِکَ وَإِلَیْکَ، تَبَارَکْتَ وَتَعَالَیْتَ، أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَیْکَ .
”میں نے اپنا چہرہ اس (اللہ) کی طرف متوجہ کیا ہے، جو ارض و سماء کو پیدا کرنے والا ہے۔ میں حنیف (ہر مذہب سے الگ ہو کر اسلام کو ماننے اور اس پر ثابت قدم رہنے والا) ہوں۔ میں مشرک نہیں ہوں۔ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میر موت اللہ ہی کے لیے ہے، جو تمام جہانوں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں۔ تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں۔ میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اور اپنے گناہ کا اعتراف کیا ہے، لہٰذا تو مجھے معاف فرما دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرتا۔ اچھے اخلاق کی طرف میری راہنمائی کر کہ تیرے سوا کوئی بھی اچھے اخلاق کی طرف راہنمائی نہیں کر سکتا اور برے اخلاق سے مجھے باز رکھ کہ تیرے سوا کوئی بھی برے اخلاق کو دور نہیں کر سکتا۔ میں بار بار حاضر ہوں۔ ہر بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ برائی تیر ی طرف منسوب نہیں ہے۔ میں تیرے ساتھ ہی قائم ہوں اور تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں۔ تو بہت بابرکت اور بلند ہے۔ میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔”
(صحیح مسلم : ٧٧١)
5 محمد بن سلمہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جب نوافل کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ کہتے :
اللَّہُ أَکْبَر، وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ، إِنَّ صَلَاتِی، وَنُسُکِی، وَمَحْیَایَ، وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ، لَا شَرِیکَ لَہُ، وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ، اللہُمَّ أَنْتَ الْمَلِکُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْت، سُبْحَانَکَ وَ بِحَمْدِکَ .
”اللہ سب سے بڑا ہے۔ میں نے اپنا چہرہ اس (اللہ) کی طرف متوجہ کیا ہے، جو ارض و سماء کو پیدا کرنے والا ہے۔ میں حنیف (ہر مذہب سے الگ ہو کر اسلام کو ماننے اور اس پر ثابت قدم رہنے والا) ہوں۔ میں مشرک نہیں ہوں۔ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میر موت اللہ ہی کے لیے ہے، جو تمام جہانوں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں۔مجھے اسی کا حکم ہے۔ میں پہلا مسلمان ہوں۔ اے اللہ! تو بادشاہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود (برحق)نہیں۔ تو پاک ہے، تیری ہی تعریف و ثنا ہے۔”
اس کے بعد آپ قراء ت کرتے۔
(سنن النسائی : ٨٩٩، وسندہ، حسن)
فائدہ نمبر1 :
اسود بن یزید تابعی رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر یہ دعا پڑھتے:
سُبْحَانَکَ اللہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالَی جَدُّکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرُک .
پھر اس کے بعد تعوذ پڑھتے تھے۔
(سنن الداقطنی : ١/٣٠٠، ح : ١١٣٣، وسندہ، صحیح)
فائدہ نمبر2:
ابو وائل (شقیق بن سلمہ) تابعی رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ  جب نماز شروع کرتے تو کہتے:
سُبْحَانَکَ اللہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالَی جَدُّکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرُک .
آپ ہمیں یہ دعا سناتے (بلند آواز سے پڑھتے) تھے۔
(سنن الدارقطنی : ١/٣٠٢، ح : ١١٤١، وسندہ، حسن)
اس کے راوی ابو بکر بن عیاش جمہور کے نزدیک ”حسن الحدیث” ہیں۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
أحد الأعلام، ثقۃ، یغلط .
”بڑے بڑے علمائے کرام میں سے ایک تھے، ثقہ تھے، کبھی غلطی کرتے تھے۔”
(المغنی : ٢/٥٧٢)
فائدہ نمبر3 :
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
فَإِذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلَاۃِ الْمَکْتُوبَۃِ، فَکَبِّرْ، وَارْفَعْ یَدَیْکَ، ثُمَّ قُلْ :
سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ تَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالَی جَدُّکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ . ثُمَّ اقْرَأْ : بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ فِی نَفْسِکَ، ثُمَّ اجْہَرْ بِـالْحَمْدِ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ، یَعْنِی فِی صَلَاۃِ الْجَہْرِ
”جب تو (امام) فرض نماز کے لیے کھڑا ہو تو اللہ اکبر کہہ اور رفع الیدین کر، پھر یہ دعا پڑھ:
سُبْحَانَکَ اللہُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالَی جَدُّکَ، وَلَا إِلَہَ غَیْرُک .
پھر جہری نماز میں آہستہ آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ، پھر سورہ فاتحہ اونچی آواز سے پڑھ۔
(الانصاف لابن عبدالبر : ٣١، وسندہ، صحیح)
6 سیدہ ام رافع رضی اللہ عنھا  بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیا : مجھے ایسے عمل کی طرف راہنمائی دیں، جس پر اللہ تعالیٰ مجھے اجر و ثواب سے نوازے۔ (فرمایا) جب تو نماز کے لیے کھڑی ہو تو دس بار سبحان اللہ،دس بار لا الہ الا اللہ، دس بار الحمدللہ، دس بار اللہ اکبر اور دس بار استغفراللہ کہہ۔ جب تو دس بار سبحان اللہ کہے گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ میرے لیے ہے۔ جب تو لا الہ الا اللہ کہے گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ میرے لیے ہے۔ جب تو الحمدللہ کہے گی تو اللہ فرمائے گا: یہ میرے لیے ہے۔ جب تو اللہ اکبر کہے گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ میرے لیے ہے۔ جب تو استغفراللہ کہے گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یقینا میں نے تجھے معاف فرما دیا ہے۔
(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی : ١٠٨، وسندہ، حسن)
اس کا راوی عطاف بن خالد ”حسن الحدیث” ہے۔ اس کو امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ ابن معین، امام ابو زرعہ، امام عجلی، امام ابن عدی اور جمہورs نے ”ثقہ” قرار دیا ہے۔
7 سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز میں داخل ہوئے تو یہ کلمات پڑھ رہے تھے:
تین بار (اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا) ”اللہ سب سے بڑا ہے۔” تین بار (اَلْحَمْدُلِلہِ کَثِیْرا) ”اللہ تعالیٰ کی بکثرت تعریفیں ہیں۔” اور تین بار(سُبْحَانَ اللَّہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلًا) ”میں صبح وشام اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہوں۔” اس کے بعد یوں تعوذ پڑھتے تھے:
اللھُمَ إِنِیْ أَعُوذُ بِکَ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ ہَمْزِہِ، وَنَفْخِہِ، وَنَفْثِہِ .
”اے اللہ! میں مردود شیطان اور اس کے وسوسوں، جنون و تکبر اور فریب و سحر سے تیری پناہ لیتا ہوں۔”
(مسند الامام احمد : ٤/٨٥، سنن ابی داو،د : ٧٦٤، مسند علی بن الجعد : ١٠٥، وسندہ، حسن)
اس حدیث کو امام ابن الجارود (١٨٠)، امام ابن خزیمہ (٤٦٨)، امام ابن حبان (١٧٧٩،١٧٨٠) اور امام حاکم (١/٢٣٥)s نے ”صحیح” کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے امام حاکم رحمہ اللہ  کی موافقت کی ہے۔ اس کے راوی عاصم بن عمیر العنزی کی امام ابن الجارود، امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام حاکم اور دیگر ائمہ کرامs نے ان کی حدیث کی تصحیح کر کے توثیق کی ہے، لہٰذا یہ ”حسن الحدیث” ہیں۔
صحیح ابن حبان وغیرہ میں یہ الفاظ بھی ثابت ہیں:
أَعُوذُ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ نَفْخِہِِ وَہَمْزِہِ وَنَفْثِہ .
8 سیدنا ابن عمرw بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نماز ادا کر رہے تھے کہ قوم میں سے ایک آدمی نے یہ کلمات کہے:
اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ کَثِیرًا، وَسُبْحَانَ اللَّہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلًا ثَلَاثًا .
”اللہ سب سے بڑا ہے، اس کی بکثرت تعریفیں ہیں، میں صبح و شام اس کی پاکی بیان کرتا ہوں۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ایسے کلمات کہنے والا کون تھا؟ قوم میں سے ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ان کلمات کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ بات سنی ہے، تب سے ان کلمات کو کبھی نہیں چھوڑا۔
(صحیح مسلم : ٦٠١)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.