675

درود کے بدعی مقامات، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

1    اذان سے قبل درود :
اذان سے پہلے الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللّٰہ وغیرہ پڑھنا بدعت ہے۔ شریعت محمدیہq میں اس کی کوئی اصل نہیں۔صحابہ کرام،تابعین عظام، تبع تابعین اعلام اور ائمہ اسلام سے اس کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ملتا۔اگر اذان سے پہلے ان کلمات کو پڑھنا جائز ہوتا تو صحابہ کرام ضرور اس کا اہتمام فرماتے۔
جناب غلام رسول بریلوی صاحب نے اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے کہ اذان سے پہلے درود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔
(شرح صحیح مسلم، جلد : ١، ص : 1092)
بریلویوں کے ممدوح،علامہ، ابن حجر،ہیتمی(م:٩٧٤ھ) لکھتے ہیں:
وَلَمْ نَرَ فِي شَيْءٍ مِّنْہَا التَّعَرُّضَ لِلصَّلَاۃِ عَلَیْہِ قَبْلَ الْـأَذَانِ، وَلَا إِلٰی مُحَمَّدٍ رَّسُولِ اللّٰہِ بَعْدَہ،، وَلَمْ نَرَ أَیْضًا فِي کَلَامِ أَئِمَّتِنَا تَعَرُّضًا لِّذٰلِکَ أَیْضًا، فَحِینَئِذٍ کُلُّ وَاحِدٍ مِّنْ ہٰذَیْنِ لَیْسَ بِسُنَّۃٍ فِي مَحَلِّہِ الْمَذْکُورِ فِیہِ، فَمَنْ أَتٰی بِوَاحِدٍ مِّنْہُمَا فِي ذٰلِکَ مُعْتَقِدًا سُنِّیَّتَہ، فِي ذٰلِکَ الْمَحَلِّ الْمَخْصُوصِ؛ نُہِيَ عَنْہُ وَمُنِعَ مِنْہُ، لِأَنَّہ، تَشْرِیعٌ بِغَیْرِ دَلِیلٍ، وَمَنْ شَرَّعَ بِلَا دَلِیلٍ؛ یُزْجَرُ عَنْ ذٰلِکَ وَیُنْہٰی عَنْہُ .
”ہم نے کسی بھی حدیث میں اذان سے پہلے اور (دورانِ اذان)محمدرسول اللہ (کے کلمات کہنے)کے بعد درود پڑھنے کی دلیل نہیں دیکھی۔اسی طرح ائمہ کرام کے کلام میں بھی ایسے کوئی بات نہیں ملتی۔لہٰذا ان دونوں مقامات پر درود پڑھنا مسنون نہیں ہے۔جو شخص ان میں سے کسی مقام پر درود کو مسنون سمجھتے ہوئے پڑھے گا،اسے منع کیا جائے اور روکا جائے،کیوں کہ ایسا کرنا بغیردلیل کے شریعت سازی ہے۔جو شخص بلا دلیل شریعت بناتا ہے،اسے ڈانٹا اور روکا جائے گا۔”
(الفتاوی الفقہیّۃ الکبرٰی : 131/1)
b    علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ (م:٧٣٧ ھ)لکھتے ہیں:
فَالصَّلَاۃُ وَالتَّسْلِیمُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْدَثُوہَا فِي أَرْبَعَۃِ مَوَاضِعَ؛ لَمْ تَکُنْ تُفْعَلُ فِیہَا فِي عَہْدِ مَنْ مَّضٰی، وَالْخَیْرُ کُلُّہ، فِي الِاتِّبَاعِ لَہُمْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ۔۔۔ .
وَالصَّلَاۃُ وَالتَّسْلِیمُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ لَا یَشُکُّ مُسْلِمٌ أَنَّہَا مِنْ أَکْبَرِ الْعِبَادَاتِ وَأَجَلِّہَا، وَإِنْ کَانَ ذِکْرُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَسَنًا، سِرًّا وَّعَلَنًا، لٰکِنْ لَّیْسَ لَنَا أَنْ نَّضَعَ الْعِبَادَاتِ إِلَّا فِي مَوَاضِعِہَا الَّتِي وَضَعَہَا الشَّارِعُ فِیہَا، وَمَضَی عَلَیْہَا سَلَفُ الْـأُمَّۃِ .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کو بھی انہوں ایسے چار مقامات پر بدعت کے طور پر رائج کیا ہے،جن مقامات پر صحابہ وتابعین اور ائمہ دین کے عہد میں درود وسلام نہیں پڑھا جاتا تھا۔جب کہ ساری کی ساری بھلائی اسلافِ امت کی پیروی ہی میں ہے۔کوئی مسلمان اس بات میں شک نہیں کر سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بہت عظیم اور جلیل القدر عبادت ہے،نیز ذکر ِالٰہی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام سری اور علانیہ دونوں طرح سے نیکی ہے،لیکن ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ عبادات کو ایسے مقامات سے ہٹا دیں،جن میں شارعuنے انہیں رکھاہے اور جن میں اسلافِ امت انہیں بجا لاتے تھے۔”(المدخل : 249/2، 250)
یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ بدعت اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے۔زمان و مکان کے ساتھ اس میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔سنت کا یہی تو امتیاز ہے کہ وہ ہر جگہ ایک ہی رہتی ہے،کیوں کہ اس میں صرف اور صرف پیروی کی جاتی ہے،جب کہ بدعت تو ہوتی ہی خانہ ساز ہے،اس لیے ہر شخص اپنے علاقے اور دور کے اعتبار سے اس میں تبدیلیاں کرتا رہتا ہے۔
اذان سے پہلے درود والی بدعت بھی اپنے آغاز سے لے کر اب تک مختلف سانچوں میں ڈھلتی رہی ہے۔دسویں صدی ہجری میں اپنے آغاز کے وقت اس کی صورت کیسی تھی؟اس حوالے سے بریلوی احباب کے ممدوح،علامہ،ابن حجر،ہیتمی(٩٧٤ھ) لکھتے ہیں:
قَدْ أَحْدَثَ الْمُؤَذِّنُونَ الصَّلَاۃَ وَالسَّلَامَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ عَقِبَ الْـأَذَانِ لِلْفَرَائِضِ الْخَمْسِ؛ إلَّا الصُّبْحَ وَالْجُمُعَۃَ، فَإِنَّہُمْ یُقَدِّمُونَ ذٰلِکَ فِیہِمَا عَلَی الْـأَذَانِ؛ وَإِلَّا الْمَغْرِبَ، فَإِنَّہُمْ لَا یَفْعَلُونَہ، غَالِبًا لِّضِیقِ وَقْتِہَا، وَکَانَ ابْتِدَاءُ حُدُوثِ ذٰلِکَ فِي أَیَّامِ السُّلْطَانِ النَّاصِرِ صَلَاحِ الدِّینِ بْنِ أَیُّوبَ وَبِأَمْرِہٖ فِي مِصْرَ وَأَعْمَالِہَا، وَسَبَبُ ذٰلِکَ أَنَّ الْحَاکِمَ الْمَخْذُولَ لَمَّا قُتِلَ؛ أَمَرَتْ أُخْتُہُ الْمُؤَذِّنِینَ أَنْ یَّقُولُوا فِي حَقِّ وَلَدِہِ السَّلَامَ عَلَی الْإِمَامِ الطَّاہِرِ، ثُمَّ اسْتَمَرَّ السَّلَامُ عَلَی الْخُلَفَاءِ بَعْدَہ، إِلٰی أَنْ أَبْطَلَہ، صَلَاحُ الدِّینِ الْمَذْکُورُ، وَجَعَلَ بَدَلَہُ الصَّلَاۃَ وَالسَّلَامَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَنِعْمَ مَا فَعَلَ، فَجَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا، وَلَقَدِ اسْتُفْتِيَ مَشَایِخُنَا وَغَیْرُہُمْ فِي الصَّلَاۃِ وَالسَّلَامِ عَلَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْـأَذَانِ عَلَی الْکَیْفِیَّۃِ الَّتِي یَفْعَلُہَا الْمُؤَذِّنُونَ، فَأَفْتَوْا بِأَنَّ الْـأَصْلَ سُنَّۃٌ وَّالْکَیْفِیَّۃُ بِدْعَۃٌ، وَہُوَ ظَاہِرٌ .
”اذان دینے والوں نے دین میں اضافہ کرتے ہوئے پانچوں فرض نمازوں کی اذان کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کا اضافہ کر لیا ہے۔ہاں صبح اور جمعہ میں وہ اذان سے پہلے درود وسلام پڑھتے ہیں اور مغرب کی اذان میں وقت کی کمی کی وجہ سے پڑھتے ہی نہیں۔اس بدعت کی ابتدا سلطان ناصر صلاح الدین بن ایوب کے دور میں ہوا اور اسی کے حکم سے مصر اور اس کی عمل داری والے علاقوں میں اس کا اجرا ہوا۔اس بدعت کی پیدائش کا سبب یہ ہوا کہ جب حاکم مخذول قتل ہوا تو اس کی بہن نے مؤذنوں کو حکم دیا کہ وہ اس کے بیٹے امام طاہر پر سلام کہیں۔پھر بعد والے خلفا پر بھی سلام کہا جاتا رہا،یہاں تک کہ مذکور صلاح الدین نے اسے ختم کر کے اس کی جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام شروع کرا دیا۔اس نے بہت اچھا کیا ۔اللہ تعالیٰ اسے جزاے خیر عطا فرمائے۔ہمارے مشایخ اور دیگر اہل علم سے پوچھا گیا کہ ان مؤذنوں کی طرح اذان کے بعد درود وسلام کیسا ہے؟تو انہوں نے فتویٰ دیا کہ درود وسلام فی نفسہٖ تو سنت ہے،لیکن یہ طریقہ کار بدعت ہے۔یہ بات بالکل واضح ہے۔”
(الفتاویٰ الفقہیۃ الکبریٰ:131/1)
یعنی اگرچہ اذان کے بعد درود وسلام مسنون ہے، لیکن اس کا من پسند طریقہ کار بدعت ہو گا۔اذان سے پہلے کے دروووسلام کی بدعت کا آغاز بھی اسی طرح ہوا کہ فجر ومغرب کے علاوہ باقی نمازوں کی اذان کے بعد ہی درودوسلام پڑھا جاتا تھا،لیکن فجر میں اذان سے پہلے پڑھا جاتا تھا،پھر آہستہ آہستہ یہ سب اذانوں سے پہلے شروع کر دیا گیا۔نیز آغاز میں حکم رانوں پر سلام پڑھا جاتا تھا اور ایک حاکم نے اس بدعت کو ختم کرنے کے لیے اس کی جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام شروع کروا دیا۔اس حاکم کی نیت بہت اچھی تھی کہ وہ ایک بدعت کو ختم کرنا چاہتا تھا،لیکن اس دور کے اہل علم کی دور اندیشی دیکھیں کہ انہوں نے اس وقت ہی اس کی کیفیت کو بدعت ہی قرار دیا۔آج دیکھ لیجیے کہ اس بدعت میں کس قدر اضافہ ہو گیا ہے!
دین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات و ارشادات کا نا م ہے ، اعمال کی قبولیت کے لیے بنیادی شرط قرآن وسنت کی پیروی ہے۔ درود وسلام اگرچہ بہت مبارک اور نیک عمل ہے،لیکن اس کے لیے وہی طریقہ کار ضروری ہے،جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ اس سے ہٹ کر کوئی بھی طریقہ اسے بدعت بنا دے گا،جیسا کہ :
نافع رحمہ اللہ  سے روایت ہے:
عَطَسَ رَجُلٌ إِلٰی جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ : الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : وَأَنَا أَقُولُ : الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلٰکِنْ لَّیْسَ ہٰکَذَا، أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَّقُولَ : إِذَا عَطَسْنَا؛ أَمَرَنَا أَنْ نَّقُولَ : الْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ .
”ایک آدمی نے سیدنا عبداللہ بن عمرwکے پہلو میں چھینک لگائی اور کہا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ(تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر سلام ہو)۔سیدناعبداللہ بن عمرwنے فرمایا: میں بھی اللہ کی تعریف کرتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر سلام بھیجتا ہوں، لیکن (اس موقع پر)ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یوں نہیں سکھایا،بل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں چھینک کے وقت یہ دُعا سکھائی ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ(ہر حال میں ساری کی ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں) ۔”
(سنن الترمذي : ٢٧٣٨، مسند الحارث (بغیۃ الباحث : ٨٠٧)، المستدرک للحاکم : ٤/٢٦٥۔٢٦٦، شعب الإیمان للبیہقي : ٨٨٨٤، وسندہ، حسنٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ  نے اس حدیث کو ”صحیح الاسناد ” قرار دیا ہے ،جب کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے ”صحیح”کہا ہے۔
اس کے راوی حضرمی بن عجلان مولیٰ جارود کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات:٦/٢٤٩) نے ”ثقہ ” کہا ہے۔امام حاکم رحمہ اللہ  نے اس کی حدیث کی سند کو ”صحیح ”قرار دیا ہے۔یہ اس کی توثیق ہے۔
اسی لیے حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے اسے ”صدوق ”کہا ہے۔(الکاشف : 239/1)
مستدرک حاکم میں حضرمی بن لاحق چھپ گیا ہے۔یہ وہم ہے۔
مسند شامیین طبرانی (٣٢٣) میں ”حسن ”سند کے ساتھ اس کا ایک شاہد بھی مروی ہے۔
علامہ سیوطی(٨٤٩۔٩١١ھ) کہتے ہیں:
لِأَنَّ الْعُطَاسَ وَرَدَ فِیہِ ذِکْرٌ یَّخُصُّہ،، فَالْعُدُولُ إِلٰی غَیْرِہٖ أَوِ الزِّیَادَۃُ فِیہِ؛ عُدُولٌ عَنِ الْمَشْرُوعِ وَزِیَادَۃٌ عَلَیْہِ، وَذٰلِکَ بِدْعَۃٌ وَّمَذْمُومٌ .
”(سیدنا عبد اللہ بن عمرwنے بجا اعتراض فرمایا)کیوں کہ چھینک کے بارے میں خاص ذکر وارد ہے،اسے چھوڑ کر کوئی ذکر کرنا یا اس میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا شریعت کے بتائے گئے طریقے سے ہٹنا اور اس میں اضافہ کرنے کی کوشش ہے۔یہ کام بدعت اور قابل مذمت ہے۔”
(الحـــــــــــــاوي للفتــــــــــــــــــــــــــــــاوي : 254/1، 255)
2    اذان کے بعد بدعی درود :
اذان کے بعد اگرچہ درود پڑھنا مستحب ہے،جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں،البتہ بعض مؤذن اذان کے بعد بآواز بلند الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللّٰہ پڑھتے ہیں،جو کہ بدعت ہے۔شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہیں،خیر القرون کے سلف صالحین اس سے ناواقف تھے۔
ملا علی قاری حنفی(م : ١٠١٤ھ)لکھتے ہیں:
فَمَا یَفْعَلُہُ الْمُؤَذِّنُونَ الْآنَ عَقِبَ الْـأَذَانِ مِنَ الْإِعْلَانِ بِالصَّلَاۃِ وَالسَّلَامِ مِرَارًا أَصْلُہ، سُنَّۃٌ، وَالْکَیْفِیَّۃُ بِدْعَۃٌ .
”اب جو مؤذّن اذان کے بعد کئی دفعہ بلند آواز سے درود وسلام کہتے ہیں۔اس کی اصل تو سنت ہے(یعنی اذان کے بعد درود سنت سے ثابت ہے)،لیکن اس کی کیفیت بدعت ہے۔”(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : 350,349/2)
تنبیہ :
علامہ شامی حنفی نے لکھاہے:
یُسْتَحَبُّ أَنْ یُّقَالَ عِنْدَ سَمَاعِ الْـأُولٰی مِنَ الشَّہَادَۃِ : صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْک یَا رَسُولَ اللّٰہِ، وَعِنْدَ الثَّانِیَۃِ مِنْہَا : قَرَّتْ عَیْنِي بِکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، ثُمَّ یَقُولُ : اللّٰہُمَّ مَتِّعْنِي بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ بَعْدَ وَضْعِ ظُفْرَيِ الْإِبْہَامَیْنِ عَلَی الْعَیْنَیْنِ، فَإِنَّہ، عَلَیْہِ السَّلَامُ یَکُونُ قَائِدًا لَّہ، إِلَی الْجَنَّۃِ، کَذَا فِي کَنْزِ الْعِبَادِ .
”اذان میں پہلی شہادت (پہلی دفعہ أشہد أنّ محمّدا رسول اللّٰہ)سن کر صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِکہنا اور دوسری شہادت سن کر قَرَّتْ عَیْنِي بِکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ(اللہ کے رسول!آپ کے سبب میری آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں) کہنا مستحب ہے۔پھر اذان سننے والا اپنے انگوٹھوں کے ناخن اپنی دونوں آنکھوں پر رکھ کر یہ کلمات بھی کہے : اَللّٰہُمَّ مَتِّعْنِي بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ (اے اللہ! مجھے کانوں اور آنکھوں کے ساتھ فائدہ دے)تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی طرف جانے میں اس کی راہ نمائی فرمائیں گے۔کنز العباد میں اسی طرح لکھا ہے۔”
(ردّ المحتار المعروف بہ فتاویٰ شامی : 398/3)
نہ جانے بعض لوگ کیوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے دین پر راضی نہیں ہوتے اور اپنی طرف سے بدعات جاری کر کے دین سازی کرتے رہتے ہیں؟
3    دورانِ وضو درود :
پانچ سو حنفی فقہا کا فتویٰ ہے :
وَیُصَلِّي عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ غَسْلِ کُلِّ عُضْوٍ .
”وضو کرنے والا ہر عضو دھونے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے۔”
(الفتاوی الھندیّۃ المعروف بہ فتاویٰ عالمگیری : 9/1، ردّ المحتار : 127/1)
یہ وضو میں ایک بدعت متعارف کروائی گئی ہے،جس سے پہلے مسلمان ناواقف تھے۔ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں۔
4    نماز جمعہ کے بعد اجتماعی درود :
نماز جمعہ کے بعد کھڑے ہو کر اجتماعی درود وسلام پڑھنا کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں، بل کہ واضح گم راہی اور ضلالت ہے۔بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھنا باعث ِثواب اور موجب ِسعادت ہے،لیکن کسی جگہ وہیئت کے ساتھ اسے خاص کرنا جائز نہیں۔ صحابہ کرام اور ائمہ اسلام سب سے بڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھنے والے تھے،ان سے ایسا کرنا قطعاً ثابت نہیں،لہٰذا یہ محبت رسول کا تقاضا نہیں۔نیز یہ عقیدہ رکھنا کہ وقت ِدرود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  بنفس نفیس تشریف لاتے ہیں،یہ نِری ضلالت ہے۔پہلے مسلمان اس کے تصور سے بھی واقف نہ تھے۔
وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آنی موت (ایک لمحے کے لیے موت)کا نظریہ رکھنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی زندگی کو حقیقی دنیاوی زندگی سمجھنا قرآن وسنت اور اجماعِ امت کی مخالفت اور قبیح بدعت ہے۔
یہ وہ بدعی عقائد ونظریات ہیں جو سلف صالحین کے عقائد ونظریات کے خلاف گھڑے گئے ہیں۔سلف صالحین تو قرآن وسنت پر کاربند تھے،ان کا ان عقائد کا حامل نہ ہونا اس بات کی واضح اور ٹھوس دلیل ہے کہ یہ عقائد ونظریات بے اصل ہیں۔جب کہ سلف سب سے بڑھ کر قرآن وسنت کی نصوص کو سمجھنے اور اپنانے والے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.