1,054

درود کے مستحب مقامات، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

درود کے مستحب مقامات

ابن الحسن محمدی

اب ہم وہ مقامات پیش کرتے ہیں،جن میں درود پڑھنا مستحب ہے:

1          دعا میں درود :

n          سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:

سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا یَّدْعُو فِي صَلَاتِہٖ، فَلَمْ یُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’عَجِلَ ہٰذَا‘، ثُمَّ دَعَاہُ، فَقَالَ لَہٗ أَوْ لِغَیْرِہٖ : ’إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ؛ فَلْیَبْدَأْ بِتَحْمِیدِ اللّٰہِ وَالثَّنَائِ عَلَیْہِ، ثُمَّ لْیُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لْیَدْعُ بَعْدُ بِمَا شَائَ‘ ۔

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص نماز کے دوران دُعا مانگتے ہوئے سنا۔اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں بھیجا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:اس نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شخص کو یا کسی دوسرے شخص کو فرمایا:جب کوئی شخص دُعا مانگے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود بھیجے، اس کے بعد جو چاہے دُعا مانگے۔‘‘

(مسند الإمام أحمد : 18/6؛ سنن أبي داوٗد : 1481؛ سنن الترمذي : 3477، وسندہٗ حسنٌ)

اس حدیث کو امام ترمذی  رحمہ اللہ نے ’’حسن صحیح‘‘،امام ابن خزیمہ(۷۱۰)اور امام ابن حبان(۱۹۶۰)Hنے ’’صحیح‘‘کہا ہے۔امام حاکم  رحمہ اللہ (۱/۲۳۰،۲۸۶)نے ’’امام بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے اور  حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

ملا علی قاری حنفی(۱۰۱۴ھ)نے بھی اس حدیث کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

(شرح الشفاء : 108/2)

n          سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

کُنْتُ أُصَلِّي وَالنَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ وَّعُمَرُ مَعَہٗ، فَلَمَّا جَلَسْتُ بَدَأْتُ بِالثَّنَائِ عَلَی اللّٰہِ، ثُمَّ الصَّلَاۃِ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ دَعَوْتُ لِنَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’سَلْ تُعْطَہْ، سَلْ تُعْطَہْ‘ ۔

’’میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا۔سیدنا ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما بھی آپ کے ساتھ تھے۔جب بیٹھا تو میں نے اللہ کی ثنا اور پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ کر آغاز کیا ۔اس کے بعد میں نے اپنے لیے دعا کی۔اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ یہ فرمایا : آپ سوال کیجیے،آپ کو عطا کیا جائے گا۔‘‘

(سنن الترمذي : 593، وسندہٗ حسنٌ)

امام ترمذی   رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’حسن صحیح‘‘کہا ہے۔

n          خالد بن سلمہ  رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

إِنَّ عَبْدَ الْحَمِیدِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ دَعَا مُوسَی بْنَ طَلْحَۃَ حِینَ عَرَّسَ عَلَی ابْنِہٖ، فَقَالَ : یَا أَبَا عِیسٰی، کَیْفَ بَلَغَکَ فِي الصَّلاۃِ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ مُوسٰی : سَأَلْتُ زَیْدَ بْنَ خَارِجَۃَ عَنِ الصَّلاۃِ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ زَیْدٌ : أَنَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَفْسِي : کَیْفَ الصَّلَاۃُ عَلَیْکَ؟ قَالَ : ’صَلُّوا وَاجْتَہِدُوا، ثُمَّ قُولُوا : اللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ‘ ۔

’’عبد الحمید بن عبد الرحمن نے جب اپنے بیٹے کا ولیمہ کیا تو موسیٰ بن طلحہ سے کہا : ابو عیسیٰ!نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے حوالے سے آپ کے پاس کیا تعلیم پہنچی ہے؟موسیٰ کہنے لگے : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے بارے میں سیدنا زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ  سے پوچھا تھا۔انہوں نے کہا تھا : میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : آپ پر درود کیسے پڑھا جائے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نماز پڑھو اور (ذکرِ الٰہی میں)خوب کوشش کرو،پھر کہو : اے اللہ!تُو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر اس طرح برکت نازل فرما،جس طرح تُو نے ابراہیم  علیہ السلام پر برکت نازل فرمائی تھی،بلاشبہ تُو قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے۔‘‘

(مسند الإمام أحمد : 199/1؛ سنن النسائي : 1292، وسندہٗ صحیحٌ)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔

أَیُّمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ لَّمْ یَکُنْ عِنْدَہٗ صَدَقَۃٌ؛ فَلْیَقُلْ فِي دُعَائِہٖ : اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ، عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ، وَصَلِّ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ، وَالْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ، فَإِنَّہَا لَہٗ زَکَاۃٌ ۔

’’جس مسلمان شخص کے پاس صدقہ(کرنے کے لیے مال)نہ ہو،وہ اپنی دعا میں یوں کہے : اے اللہ!اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرما،نیز مؤمن مردوں عورتوں اور مسلمان مردوں عورتوں پر بھی رحمت فرما۔یہ الفاظ کہنا اس کے لیے صدقہ بن جائے گا۔‘‘(الأدب المفرد للبخاري : 640، وسندہٗ حسنٌ)

اس حدیث کو امام ابن حبان  رحمہ اللہ (۹۰۳)نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

حافظ نووی  رحمہ اللہ (۶۳۱۔۶۷۶ھ) لکھتے ہیں:

أَجْمَعَ الْعُلَمَائُ عَلَی اسْتِحْبَابِ ابْتِدَائِ الدُّعَائِ بِالْحَمْدِ لِلّٰہِ تَعَالٰی وَالثَّنَائِ عَلَیْہِ، ثُمَّ الصَّلَاۃِ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَذٰلِکَ تُخْتَمُ الدُّعَائُ بِہِمَا ۔

’’اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ دعا کو اللہ تعالیٰ کی حمد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے ساتھ شروع کرنا اور اسی طرح اس کا اختتام کرنا مستحب ہے۔‘‘

(الأذکار : 99، وفي نسخۃ : 117)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ   رحمہ اللہ کھتے ہیں:

وَاَلَّذِینَ یَتَوَسَّلُونَ بِذَاتِہٖ لِقَبُولِ الدُّعَائِ عَدَلُوا عَمَّا أُمِرُوا بِہٖ وَشُرِعَ لَہُمْ، وَہُوَ مِنْ أَنْفَعِ الْـأُمُورِ لَہُمْ، إلٰی مَا لَیْسَ کَذٰلِکَ، فَإِنَّ الصَّلَاۃَ عَلَیْہِ مِنْ أَعْظَمِ الْوَسَائِلِ الَّتِي بِہَا یُسْتَجَابُ الدُّعَائُ، وَقَدْ أَمَرَ اللّٰہُ بِہَا، وَالصَّلَاۃُ عَلَیْہِ فِي الدُّعَائِ ہُوَ الَّذِي دَلَّ عَلَیْہِ الْکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ وَالْإِجْمَاعُ ۔

’’جو لوگ دُعا کی قبولیت کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا وسیلہ دیتے ہیں، وہ اس چیز کو چھوڑ کر،جس کا انہیں حکم تھا اور جو ان کے لیے شریعت بنائی گئی تھی،ایسی چیز کی طرف چلے گئے ہیں،جس کا نہ انہیں حکم ہے اور نہ وہ ان کے لیے مشروع کی گئی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا دُعا کی قبولیت کے بڑے اسباب میں سے ہے،اس کا اللہ تعالیٰ نے حکم بھی فرمایا ہے۔نیز دُعا میں درود پڑھنے (کے استحباب) پرقرآن، حدیث اور اجماعِ امت دلیل ہیں۔‘‘(مجموع الفتاوی : 347/1)

2          دعائے قنوت میں درود :

n          سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ  کے بارے میں ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ  قنوت کرتے تو:

ثُمَّ یُصَلِّي عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔

’’پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھا کرتے تھے۔‘‘

(صحیح ابن خزیمۃ : 1100، وسندہٗ صحیحٌ)

فائدہ :

سنن نسائی(۱۷۴۷)میں دُعا کے اختتام پر وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ کے الفاظ بھی ہیں۔

ان الفاظ کو عبداللہ بن علی  رحمہ اللہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما  سے بیان کر رہے ہیں۔

حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:

وَأَمَّا رِوَایَتُہٗ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ؛ فَلَمْ یَثْبُتْ ۔

’’سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما  سے اس کی روایت ثابت نہیں۔‘‘

(تہذیب التہذیب : 284/5)

یہ روایت ’’انقطاع‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔

لہٰذاحافظ نووی کا (المجموع شرح المہذب:۳/۴۴۱)اس کی سند کو ’’صحیح‘‘کہنا صحیح نہیں۔

فقہ حنفی اور قنوت میں درود :

اب اس کے خلاف فقہ حنفی کا فتویٰ بھی ملاحظہ ہو:

وَلَا یُصَلّٰي عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْقُنُوتِ، وَہُوَ اخْتِیَارُ مَشَایِخِنَا ۔

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر قنوت میں درود نہ پڑھا جائے۔ہمارے مشایخ کا پسندیدہ مسلک یہی ہے۔‘‘(فتاوی عالمگیری : 111/1)

ابن نجیم حنفی(م:۹۷۰ھ) لکھتے ہیں:

وَمِنَ الْعَجِیبِ مَا وَقَعَ فِي فَتَاوٰی قَاضِي خَانْ فِي آخِرِ بَابِ الْوِتْرِ وَالتَّرَاوِیحِ، حَیْثُ قَالَ : وَإِذَا صَلّٰی عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْقُنُوتِ، قَالُوا : لَا یُصَلِّي فِي الْقَعْدَۃِ الْـأَخِیرَۃِ، وَکَذَا لَوْ صَلّٰی عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْقَعْدَۃِ الْـأُولٰی سَاہِیًا؛ لَا یُصَلِّي فِي الْقَعْدَۃِ الْـأَخِیرَۃِ ۔

’’فتاویٰ قاضی خان میں وترو تراویح کے بیان کے آخر میں بڑی عجیب بات لکھی ہے،انہوں نے یہ کہہ دیا ہے :جب کوئی شخص قنوت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ لے تو ہمارے مفتی حضرات کہتے ہیں کہ پھر وہ آخری تشہد میں درود نہ پڑھے۔ اسی طرح اگر وہ بھول کر پہلے تشہد میں درود پڑھ لے تو پھر بھی دوسرے تشہد میں درود نہیں پڑھ سکتا۔‘‘(البحر الرائق شرح کنز الدقائق : 348/1)

3          جمعہ کے دن بہ کثرت درود :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پرجمعہ کے دن بہ کثرت درود پڑھنا مستحب ہے۔

n          سیدنااوس بن اوس رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَیَّامِکُمْ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ؛ فِیہِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِیہِ النَّفْخَۃُ، وَفِیہِ الصَّعْقَۃُ، فَأَکْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاۃِ فِیہِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَّعْرُوضَۃٌ عَلَيَّ‘ ۔

’’بلاشبہ تمہارے دنوں میں جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔اس دن سیدنا آدم  علیہ السلام  پیدا ہوئے، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔لہٰذا اس دن مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو ،کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا۔‘‘

ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ کی وفات کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟کیا آپ کا جسد ِمبارک خاک میں نہیں مل چکا ہو گا؟

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’إِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ عَلَی الْـأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْـأَنْبِیَائِ‘ ۔

’’یقینا اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاے کرام کے جسموں کو کھانا حرام فرمادیا ہے۔ ‘‘

(مسند الإمام أحمد : 8/4؛ سنن أبي داوٗد : 1047، 1531؛ سنن النسائي : 1375؛ سنن ابن ماجہ : 1085، 1636؛ فضل الصلاۃ علی النبيّ للقاضي إسماعیل : 22، وسندہٗ صحیحٌ)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(1733)،امام ابن حبان(910) اور حافظ ابن قطان فاسی(بیان الوہم والایہام : 574/5)  رحمہم اللہ نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

امام حاکم  رحمہ اللہ (278/1)نے اسے ’’امام بخاری  رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے اور حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

حافظ نووی  رحمہ اللہ نے بھی اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

(ریاض الصالحین : 1399، خلاصۃ الأحکام : 441/1، 814/2)

حافظ ابن قیم الجوزیہ  رحمہ اللہ (م : 751ھ)لکھتے ہیں :

وَمَنْ تَأَمَّلَ ہٰذَا الْإِسْنَادَ؛ لَمْ یَشُکَّ فِي صِحَّتِہٖ، لِثِقَۃِ رُوَاتِہٖ، وَشُہْرَتِہِمْ، وَقُبُولِ الْـأَئِمَّۃِ أَحَادِیثَہُمْ ۔

’’جو شخص اس روایت کی سند پر غور کرے گا،وہ اس کی صحت میں شک نہیں کرے گا،کیونکہ اس کے راوی ثقہ، مشہور ہیں اور ائمہ حدیث کے ہاں ان کی بیان کردہ احادیث مقبول ہیں۔‘‘(جلاء الأفہام : 81)

4          خطبہ میں درود :

n          عون بن ابی جحیفہ  رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:

فَحَدَّثَنِي أَبِي أَنَّہٗ صَعِدَ الْمِنْبَرَ، یَعْنِي عَلِیًّا، فَحَمِدَ اللّٰہَ تَعَالٰی وَأَثْنٰی عَلَیْہِ، وَصَلّٰی عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ : خَیْرُ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا أَبُو بَکْرٍ، وَالثَّانِي عُمَرُ، وَقَالَ : یَجْعَلُ اللّٰہُ تَعَالَی الْخَیْرَ حَیْثُ أَحَبَّ ۔

’’میرے والد نے بیان کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ  منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا اور فرمایا : اس امت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد سب سے بہتر ہستی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ہے اور دوسرا نمبر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  کا ہے۔نیز فرمایا : اللہ تعالیٰ جہاں چاہے بھلائی رکھ دیتا ہے۔‘‘

(زوائد مسند الإمام أحمد : 106/1، ح : 837، وسندہٗ صحیحٌ)

b          امام شافعی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

وَأَقَلُّ مَا یَقَعُ عَلَیْہِ اسْمُ خُطْبَۃٍ مِّنَ الْخُطْبَتَیْنِ؛ أَنْ یَّحْمَدَ اللّٰہَ تَعَالٰی وَیُصَلِّيَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَیُوصِيَ بِتَقْوَی اللّٰہِ، وَیَدْعُوَ فِي الْآخِرَۃِ؛ لِأَنَّ مَعْقُولًا أَنَّ الْخُطْبَۃَ جَمْعُ بَعْضِ الْکَلَامِ مِنْ وُّجُوہٍ إِلٰی بَعْضٍ، وَہٰذَا أَوْجَزُ مَا یُجْمَعُ مِنَ الْکَلَامِ ۔

’’(جمعہ کے)دونوں خطبوں میں سے ہر خطبہ کا مصداق ایسا وعظ ہوتا ہے جس میں کم از کم اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی جائے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا جائے، اللہ سے ڈرنے کی وصیت کی جائے اور اس کے آخر میں دُعا کی جائے۔کیوں کہ عقلی طور پر بھی کلام کی کچھ اقسام کو باہم جمع کرنے کا نام ہے۔کلام کے جمع کرنے کا یہ سب سے مختصر طریقہ ہے۔‘‘(معرفۃ السنن والآثار للبیہقي : 6467، وسندہٗ صحیحٌ)

ثابت ہوا کہ ہر خطبہ میں درود شریف پڑھنا مشروع اور مستحب ہے۔

فائدہ:

سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کی طرف منسوب ہے :

لَیْسَ مِنَ السُّنَّۃِ الصَّلَاۃُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْجُمُعَۃَ عَلَی الْمِنْبَرِ ۔

’’جمعہ کے دن منبر پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا مسنون نہیں ہے۔‘‘

(المعجم الکبیر للطبراني : 114/13، ح : 280، 235/14، ح : 14863، جامع المسانید والسنن لابن کثیر : 6390، مجمع الزوائد للہیثمي : 188/2)

لیکن اس کی سند میں لیث بن ابو سلیم راوی کے جمہور کے نزدیک ’’سییٔ الحفظ‘‘ہونے کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔

پھر امام ابو الشیخ اصبہانی  رحمہ اللہ کی کتاب ’’ذکر الاقران‘‘(ح:337)میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کی جگہ ابن ابو ملیکہ کا ذکر ہے۔

5          صفا و مروہ پر درود :

نافع  رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

إِنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یُکَبِّرُ عَلَی الصَّفَا ثَلَاثًا یَّقُولُ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیرٌ، ثُمَّ یُصَلِّي عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ یَدْعُو وَیُطِیلُ الْقِیَامَ وَالدُّعَائَ، ثُمَّ یَفْعَلُ عَلَی الْمَرْوَۃِ نَحْوَ ذٰلِکَ ۔

’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  صفا پر تین مرتبہ یہ کہتے ہوئے تکبیر پڑھتے: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیرٌ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں،وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت بھی اسی کی اور تعریف بھی۔وہ ہر چیز پر قادر بھی ہے)۔پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھتے،پھر دُعا کرتے اور کافی دیر تک کھڑے دُعا کرتے رہتے۔پھر مروہ پر بھی اسی طرح کرتے۔‘‘

(فضل الصلاۃ علی النبيّ للإمام  إسماعیل بن إسحاق القاضي، ص : 185، بتحقیق عبد الحقّ الترکماني، وسندہٗ صحیحٌ)

6          نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر مبارک پر درود :

n          عبداللہ بن دینار  رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:

رَأَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ یَقِفُ عَلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَیُصَلِّي عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَعَلٰی أَبِي بَکْرٍ وَّعُمَرَ ۔

’’میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے اور  سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو سلام کہتے تھے۔‘‘

(المؤطّأ للإمام مالک : 166/1، السنن الکبرٰی للبیہقي : 245/5، وسندہٗ صحیحٌ)

جس طرح قبرستان میں جا کر فوت شدگان کو سلام کہا جاتا ہے،یہ بعینہٖ وہی سلام ہے۔

ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی سفر سے واپس آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس جا کر یہ الفاظ کہتے:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَا بَکْرٍ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَتَاہُ ۔

’’اے اللہ کے رسول!آپ پر سلامتی ہو!اے ابو بکر!آپ پرسلامتی ہو اور میرے ابا جان!آپ پر سلامتی ہو۔‘‘

(فضل الصلاۃ علی النبيّ للقاضي إسماعیل بن إسحاق، ص : 81۔82، ح : 99؛ السنن الکبرٰی للبیہقي : 245/5، وسندہٗ صحیحٌ)

ان روایات کے الفاظ سے واضح ہے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ درودو سلام قبر مبارک پر کھڑے ہو کر تھا۔فوت شدگان کو دُور سے اس طرح سلام کہنا درست نہیں۔

اگر آج بھی کسی شخص کو حجرۂ عائشہ رضی اللہ عنہا میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہو جائے تو اس کے لیے ان الفاظ سے سلام کہنا مستحب ہو گا۔

7          اذان کے بعد درود پاک :

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

’إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ؛ فَقُولُوا مِثْلَ مَا یَقُولُ، ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّہٗ مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ صَلَاۃً؛ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللّٰہَ لِيَ الْوَسِیلَۃَ، فَإِنَّہَا مَنْزِلَۃٌ فِي الْجَنَّۃِ، لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِّنْ عِبَادِ اللّٰہِ، وَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَنَا ہُوَ، فَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِیلَۃَ؛ حَلَّتْ لَہُ الشَّفَاعَۃُ‘ ۔

’’جب تم مؤذن کو (اذان دیتے ہوئے) سنو تو وہی کلمات کہو جو مؤذن کہہ رہا ہو، پھر مجھ پر درود بھیجو،کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس شخص پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے ’’الوسیلہ‘‘ کی دعا کرو۔’’الوسیلہ‘‘جنت میں ایک مخصوص مقام ہے،جو اللہ کے تمام بندوں میں سے صرف ایک بندے کو نصیب ہو گا اور میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ ایک بندہ میں ہوں گا۔جو شخص میرے لیے ’’الوسیلہ‘‘کی دعا مانگے گا،اسے میری شفاعت ضرور نصیب ہو گی۔‘‘(صحیح مسلم : 384)

اس حدیث ِمبارک سے ثابت ہواکہ اذان کا جواب دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر درود پڑھنا مسنون ہے۔

8          مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت سلام :

مسجد میں داخل ہوتے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجنا مسنون ومستحب ہے،جیسا کہ :

n          سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب تم میں کوئی مسجد میں داخل ہو، وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کے بعد یہ دُعا پڑھے:

’اَللّٰہُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ‘ ۔

(اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کا دروازہ کھول دے)۔

نیز مسجد سے نکلتے وقت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر سلام پڑھ کر یہ دعا پڑھے:

’اَللّٰہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ‘ ۔

(اے اللہ! میں آپ سے آپ کے فضل کا سوال کرتاہوں)۔‘‘

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :

’’مسجد سے نکلنے والا اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے:

’اَللّٰہُمَّ اعْصِمْنِي مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ‘ ۔

(اے اللہ! مجھے شیطان مردود سے محفوظ فرمالے)۔‘‘

ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں :

’’مسجد میں داخل ہونے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر سلام پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے:

’اَللّٰہُمَّ أَجِرْنِي مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ‘ ۔

(اے اللہ! مجھے شیطان مردود سے بچا لے)۔‘‘

(سنن ابن ماجہ : 773؛ عمل الیوم واللیلۃ للنسائي : 90، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنّي : 87، وسندہٗ حسنٌ)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(۴۵۲،۲۷۰۶)وامام ابن حبان(۲۰۴۷،۲۰۵۰)Hنے ’’صحیح‘‘،جب کہ امام حاکم  رحمہ اللہ (۱/۲۰۷)نے اسے ’’امام بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے۔ حافظ ذہبی  رحمہ اللہ  نے ان کی موافقت کی ہے۔

حافظ بوصیری  رحمہ اللہ کہتے ہیں:           ہٰذَا إِسْنَادٌ صَحِیْحٌ، وَرِجَالُہٗ ثِقَاتٌ ۔

’’اس کی سند صحیح ہے، اس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘(مصباح الزجاجۃ : 97/1)

درود کے بدعی مقامات

ابو عبد اللہ صارم

1          اذان سے قبل درود :

اذان سے پہلے الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللّٰہ وغیرہ پڑھنا بدعت ہے۔ شریعت محمدیہq میں اس کی کوئی اصل نہیں۔صحابہ کرام،تابعین عظام، تبع تابعین اعلام اور ائمہ اسلام سے اس کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ملتا۔اگر اذان سے پہلے ان کلمات کو پڑھنا جائز ہوتا تو صحابہ کرام ضرور اس کا اہتمام فرماتے۔

جناب غلام رسول بریلوی صاحب نے اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے کہ اذان سے پہلے درود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔

(شرح صحیح مسلم، جلد : ۱، ص : 1092)

بریلویوں کے ممدوح،علامہ، ابن حجر،ہیتمی(م:۹۷۴ھ) لکھتے ہیں:

وَلَمْ نَرَ فِي شَيْئٍ مِّنْہَا التَّعَرُّضَ لِلصَّلَاۃِ عَلَیْہِ قَبْلَ الْـأَذَانِ، وَلَا إِلٰی مُحَمَّدٍ رَّسُولِ اللّٰہِ بَعْدَہٗ، وَلَمْ نَرَ أَیْضًا فِي کَلَامِ أَئِمَّتِنَا تَعَرُّضًا لِّذٰلِکَ أَیْضًا، فَحِینَئِذٍ کُلُّ وَاحِدٍ مِّنْ ہٰذَیْنِ لَیْسَ بِسُنَّۃٍ فِي مَحَلِّہِ الْمَذْکُورِ فِیہِ، فَمَنْ أَتٰی بِوَاحِدٍ مِّنْہُمَا فِي ذٰلِکَ مُعْتَقِدًا سُنِّیَّتَہٗ فِي ذٰلِکَ الْمَحَلِّ الْمَخْصُوصِ؛ نُہِيَ عَنْہُ وَمُنِعَ مِنْہُ، لِأَنَّہٗ تَشْرِیعٌ بِغَیْرِ دَلِیلٍ، وَمَنْ شَرَّعَ بِلَا دَلِیلٍ؛ یُزْجَرُ عَنْ ذٰلِکَ وَیُنْہٰی عَنْہُ ۔

’’ہم نے کسی بھی حدیث میں اذان سے پہلے اور (دورانِ اذان)محمدرسول اللہ (کے کلمات کہنے)کے بعد درود پڑھنے کی دلیل نہیں دیکھی۔اسی طرح ائمہ کرام کے کلام میں بھی ایسے کوئی بات نہیں ملتی۔لہٰذا ان دونوں مقامات پر درود پڑھنا مسنون نہیں ہے۔جو شخص ان میں سے کسی مقام پر درود کو مسنون سمجھتے ہوئے پڑھے گا،اسے منع کیا جائے اور روکا جائے،کیوں کہ ایسا کرنا بغیردلیل کے شریعت سازی ہے۔جو شخص بلا دلیل شریعت بناتا ہے،اسے ڈانٹا اور روکا جائے گا۔‘‘

(الفتاوی الفقہیّۃ الکبرٰی : 131/1)

b          علامہ ابن الحاج  رحمہ اللہ (م:۷۳۷ ھ)لکھتے ہیں:

فَالصَّلَاۃُ وَالتَّسْلِیمُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحْدَثُوہَا فِي أَرْبَعَۃِ مَوَاضِعَ؛ لَمْ تَکُنْ تُفْعَلُ فِیہَا فِي عَہْدِ مَنْ مَّضٰی، وَالْخَیْرُ کُلُّہٗ فِي الِاتِّبَاعِ لَہُمْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ۔۔۔ ۔

وَالصَّلَاۃُ وَالتَّسْلِیمُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ لَا یَشُکُّ مُسْلِمٌ أَنَّہَا مِنْ أَکْبَرِ الْعِبَادَاتِ وَأَجَلِّہَا، وَإِنْ کَانَ ذِکْرُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَسَنًا، سِرًّا وَّعَلَنًا، لٰکِنْ لَّیْسَ لَنَا أَنْ نَّضَعَ الْعِبَادَاتِ إِلَّا فِي مَوَاضِعِہَا الَّتِي وَضَعَہَا الشَّارِعُ فِیہَا، وَمَضَی عَلَیْہَا سَلَفُ الْـأُمَّۃِ ۔

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کو بھی انہوں ایسے چار مقامات پر بدعت کے طور پر رائج کیا ہے،جن مقامات پر صحابہ وتابعین اور ائمہ دین کے عہد میں درود وسلام نہیں پڑھا جاتا تھا۔جب کہ ساری کی ساری بھلائی اسلافِ امت کی پیروی ہی میں ہے۔کوئی مسلمان اس بات میں شک نہیں کر سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بہت عظیم اور جلیل القدر عبادت ہے،نیز ذکر ِالٰہی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام سری اور علانیہ دونوں طرح سے نیکی ہے،لیکن ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ عبادات کو ایسے مقامات سے ہٹا دیں،جن میں شارع  علیہ السلام نے انہیں رکھاہے اور جن میں اسلافِ امت انہیں بجا لاتے تھے۔‘‘(المدخل : 249/2، 250)

یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ بدعت اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے۔زمان و مکان کے ساتھ اس میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔سنت کا یہی تو امتیاز ہے کہ وہ ہر جگہ ایک ہی رہتی ہے،کیوں کہ اس میں صرف اور صرف پیروی کی جاتی ہے،جب کہ بدعت تو ہوتی ہی خانہ ساز ہے،اس لیے ہر شخص اپنے علاقے اور دور کے اعتبار سے اس میں تبدیلیاں کرتا رہتا ہے۔

اذان سے پہلے درود والی بدعت بھی اپنے آغاز سے لے کر اب تک مختلف سانچوں میں ڈھلتی رہی ہے۔دسویں صدی ہجری میں اپنے آغاز کے وقت اس کی صورت کیسی تھی؟اس حوالے سے بریلوی احباب کے ممدوح،علامہ،ابن حجر،ہیتمی(۹۷۴ھ) لکھتے ہیں:

قَدْ أَحْدَثَ الْمُؤَذِّنُونَ الصَّلَاۃَ وَالسَّلَامَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ عَقِبَ الْـأَذَانِ لِلْفَرَائِضِ الْخَمْسِ؛ إلَّا الصُّبْحَ وَالْجُمُعَۃَ، فَإِنَّہُمْ یُقَدِّمُونَ ذٰلِکَ فِیہِمَا عَلَی الْـأَذَانِ؛ وَإِلَّا الْمَغْرِبَ، فَإِنَّہُمْ لَا یَفْعَلُونَہٗ غَالِبًا لِّضِیقِ وَقْتِہَا، وَکَانَ ابْتِدَائُ حُدُوثِ ذٰلِکَ فِي أَیَّامِ السُّلْطَانِ النَّاصِرِ صَلَاحِ الدِّینِ بْنِ أَیُّوبَ وَبِأَمْرِہٖ فِي مِصْرَ وَأَعْمَالِہَا، وَسَبَبُ ذٰلِکَ أَنَّ الْحَاکِمَ الْمَخْذُولَ لَمَّا قُتِلَ؛ أَمَرَتْ أُخْتُہُ الْمُؤَذِّنِینَ أَنْ یَّقُولُوا فِي حَقِّ وَلَدِہِ السَّلَامَ عَلَی الْإِمَامِ الطَّاہِرِ، ثُمَّ اسْتَمَرَّ السَّلَامُ عَلَی الْخُلَفَائِ بَعْدَہٗ إِلٰی أَنْ أَبْطَلَہٗ صَلَاحُ الدِّینِ الْمَذْکُورُ، وَجَعَلَ بَدَلَہُ الصَّلَاۃَ وَالسَّلَامَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَنِعْمَ مَا فَعَلَ، فَجَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا، وَلَقَدِ اسْتُفْتِيَ مَشَایِخُنَا وَغَیْرُہُمْ فِي الصَّلَاۃِ وَالسَّلَامِ عَلَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْـأَذَانِ عَلَی الْکَیْفِیَّۃِ الَّتِي یَفْعَلُہَا الْمُؤَذِّنُونَ، فَأَفْتَوْا بِأَنَّ الْـأَصْلَ سُنَّۃٌ وَّالْکَیْفِیَّۃُ بِدْعَۃٌ، وَہُوَ ظَاہِرٌ ۔

’’اذان دینے والوں نے دین میں اضافہ کرتے ہوئے پانچوں فرض نمازوں کی اذان کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کا اضافہ کر لیا ہے۔ہاں صبح اور جمعہ میں وہ اذان سے پہلے درود وسلام پڑھتے ہیں اور مغرب کی اذان میں وقت کی کمی کی وجہ سے پڑھتے ہی نہیں۔اس بدعت کی ابتدا سلطان ناصر صلاح الدین بن ایوب کے دور میں ہوا اور اسی کے حکم سے مصر اور اس کی عمل داری والے علاقوں میں اس کا اجرا ہوا۔اس بدعت کی پیدائش کا سبب یہ ہوا کہ جب حاکم مخذول قتل ہوا تو اس کی بہن نے مؤذنوں کو حکم دیا کہ وہ اس کے بیٹے امام طاہر پر سلام کہیں۔پھر بعد والے خلفا پر بھی سلام کہا جاتا رہا،یہاں تک کہ مذکور صلاح الدین نے اسے ختم کر کے اس کی جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام شروع کرا دیا۔اس نے بہت اچھا کیا ۔اللہ تعالیٰ اسے جزاے خیر عطا فرمائے۔ہمارے مشایخ اور دیگر اہل علم سے پوچھا گیا کہ ان مؤذنوں کی طرح اذان کے بعد درود وسلام کیسا ہے؟تو انہوں نے فتویٰ دیا کہ درود وسلام فی نفسہٖ تو سنت ہے،لیکن یہ طریقہ کار بدعت ہے۔یہ بات بالکل واضح ہے۔‘‘

(الفتاویٰ الفقہیۃ الکبریٰ:131/1)

یعنی اگرچہ اذان کے بعد درود وسلام مسنون ہے، لیکن اس کا من پسند طریقہ کار بدعت ہو گا۔اذان سے پہلے کے دروووسلام کی بدعت کا آغاز بھی اسی طرح ہوا کہ فجر ومغرب کے علاوہ باقی نمازوں کی  اذان کے بعد ہی درودوسلام پڑھا جاتا تھا،لیکن فجر میں اذان سے پہلے پڑھا جاتا تھا،پھر آہستہ آہستہ یہ سب اذانوں سے پہلے شروع کر دیا گیا۔نیز آغاز میں حکم رانوں پر سلام پڑھا جاتا تھا اور ایک حاکم نے اس بدعت کو ختم کرنے کے لیے اس کی جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام شروع کروا دیا۔اس حاکم کی نیت بہت اچھی تھی کہ وہ ایک بدعت کو ختم کرنا چاہتا تھا،لیکن اس دور کے اہل علم کی دور اندیشی دیکھیں کہ انہوں نے اس وقت ہی اس کی کیفیت کو بدعت ہی قرار دیا۔آج دیکھ لیجیے کہ اس بدعت میں کس قدر اضافہ ہو گیا ہے!

دین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات و ارشادات کا نا م ہے ، اعمال کی قبولیت کے لیے بنیادی شرط قرآن وسنت کی پیروی ہے۔ درود وسلام اگرچہ بہت مبارک اور نیک عمل ہے،لیکن اس کے لیے وہی طریقہ کار ضروری ہے،جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔ اس سے ہٹ کر کوئی بھی طریقہ اسے بدعت بنا دے گا،جیسا کہ :

نافع  رحمہ اللہ  سے روایت ہے:

عَطَسَ رَجُلٌ إِلٰی جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ : الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : وَأَنَا أَقُولُ : الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلٰکِنْ لَّیْسَ ہٰکَذَا، أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ نَّقُولَ : إِذَا عَطَسْنَا؛ أَمَرَنَا أَنْ نَّقُولَ : الْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ ۔

’’ایک آدمی نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں چھینک لگائی اور کہا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ(تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر سلام ہو)۔سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں بھی اللہ کی تعریف کرتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر سلام بھیجتا ہوں، لیکن (اس موقع پر)ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یوں نہیں سکھایا،بل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں چھینک کے وقت یہ دُعا سکھائی ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ(ہر حال میں ساری کی ساری تعریفیں اللہ کے لیے ہیں) ۔‘‘

(سنن الترمذي : ۲۷۳۸، مسند الحارث (بغیۃ الباحث : ۸۰۷)، المستدرک للحاکم : ۴/۲۶۵۔۲۶۶، شعب الإیمان للبیہقي : ۸۸۸۴، وسندہٗ حسنٌ)

امام حاکم  رحمہ اللہ  نے اس حدیث کو ’’صحیح الاسناد ‘‘ قرار دیا ہے ،جب کہ حافظ ذہبی  رحمہ اللہ  نے ’’صحیح‘‘کہا ہے۔

اس کے راوی حضرمی بن عجلان مولیٰ جارود کو امام ابن حبان  رحمہ اللہ (الثقات:۶/۲۴۹) نے ’’ثقہ ‘‘ کہا ہے۔امام حاکم  رحمہ اللہ  نے اس کی حدیث کی سند کو ’’صحیح ‘‘قرار دیا ہے۔یہ اس کی توثیق ہے۔

اسی لیے حافظ ذہبی  رحمہ اللہ  نے اسے ’’صدوق ‘‘کہا ہے۔(الکاشف : 239/1)

مستدرک حاکم میں حضرمی بن لاحق چھپ گیا ہے۔یہ وہم ہے۔

مسند شامیین طبرانی (۳۲۳) میں ’’حسن ‘‘سند کے ساتھ اس کا ایک شاہد بھی مروی ہے۔

علامہ سیوطی(۸۴۹۔۹۱۱ھ) کہتے ہیں:

لِأَنَّ الْعُطَاسَ وَرَدَ فِیہِ ذِکْرٌ یَّخُصُّہٗ، فَالْعُدُولُ إِلٰی غَیْرِہٖ أَوِ الزِّیَادَۃُ فِیہِ؛ عُدُولٌ عَنِ الْمَشْرُوعِ وَزِیَادَۃٌ عَلَیْہِ، وَذٰلِکَ بِدْعَۃٌ وَّمَذْمُومٌ ۔

’’(سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بجا اعتراض فرمایا)کیوں کہ چھینک کے بارے میں خاص ذکر وارد ہے،اسے چھوڑ کر کوئی ذکر کرنا یا اس میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا شریعت کے بتائے گئے طریقے سے ہٹنا اور اس میں اضافہ کرنے کی کوشش ہے۔یہ کام بدعت اور قابل مذمت ہے۔‘‘

(الحـــــــــــــاوي للفتــــــــــــــــــــــــــــــاوي : 254/1، 255)

2          اذان کے بعد بدعی درود :

اذان کے بعد اگرچہ درود پڑھنا مستحب ہے،جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں،البتہ بعض مؤذن اذان کے بعد بآواز بلند الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللّٰہ پڑھتے ہیں،جو کہ بدعت ہے۔شریعت میں اس کی کوئی دلیل نہیں،خیر القرون کے سلف صالحین اس سے ناواقف تھے۔

ملا علی قاری حنفی(م : ۱۰۱۴ھ)لکھتے ہیں:

فَمَا یَفْعَلُہُ الْمُؤَذِّنُونَ الْآنَ عَقِبَ الْـأَذَانِ مِنَ الْإِعْلَانِ بِالصَّلَاۃِ وَالسَّلَامِ مِرَارًا أَصْلُہٗ سُنَّۃٌ، وَالْکَیْفِیَّۃُ بِدْعَۃٌ ۔

’’اب جو مؤذّن اذان کے بعد کئی دفعہ بلند آواز سے درود وسلام کہتے ہیں۔اس کی اصل تو سنت ہے(یعنی اذان کے بعد درود سنت سے ثابت ہے)،لیکن اس کی کیفیت بدعت ہے۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : 350,349/2)

تنبیہ :

علامہ شامی حنفی نے لکھاہے:

یُسْتَحَبُّ أَنْ یُّقَالَ عِنْدَ سَمَاعِ الْـأُولٰی مِنَ الشَّہَادَۃِ : صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْک یَا رَسُولَ اللّٰہِ، وَعِنْدَ الثَّانِیَۃِ مِنْہَا : قَرَّتْ عَیْنِي بِکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، ثُمَّ یَقُولُ : اللّٰہُمَّ مَتِّعْنِي بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ بَعْدَ وَضْعِ ظُفْرَيِ الْإِبْہَامَیْنِ عَلَی الْعَیْنَیْنِ، فَإِنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ یَکُونُ قَائِدًا لَّہٗ إِلَی الْجَنَّۃِ، کَذَا فِي کَنْزِ الْعِبَادِ ۔

’’اذان میں پہلی شہادت (پہلی دفعہ أشہد أنّ محمّدا رسول اللّٰہ)سن کر  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِکہنا اور دوسری شہادت سن کر قَرَّتْ عَیْنِي بِکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ(اللہ کے رسول!آپ کے سبب میری آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں) کہنا مستحب ہے۔پھر اذان سننے والا اپنے انگوٹھوں کے ناخن اپنی دونوں آنکھوں پر رکھ کر یہ کلمات بھی کہے : اَللّٰہُمَّ مَتِّعْنِي بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ (اے اللہ! مجھے کانوں اور آنکھوں کے ساتھ فائدہ دے)تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی طرف جانے میں اس کی راہ نمائی فرمائیں گے۔کنز العباد میں اسی طرح لکھا ہے۔‘‘

(ردّ المحتار المعروف بہ فتاویٰ شامی : 398/3)

نہ جانے بعض لوگ کیوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے دین پر راضی نہیں ہوتے اور اپنی طرف سے بدعات جاری کر کے دین سازی کرتے رہتے ہیں؟

3          دورانِ وضو درود :

پانچ سو حنفی فقہا کا فتویٰ ہے :

وَیُصَلِّي عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ غَسْلِ کُلِّ عُضْوٍ ۔

’’وضو کرنے والا ہر عضو دھونے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے۔‘‘

(الفتاوی الھندیّۃ المعروف بہ فتاویٰ عالمگیری : 9/1، ردّ المحتار : 127/1)

یہ وضو میں ایک بدعت متعارف کروائی گئی ہے،جس سے پہلے مسلمان ناواقف تھے۔ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں۔

4          نماز جمعہ کے بعد اجتماعی درود :

نماز جمعہ کے بعد کھڑے ہو کر اجتماعی درود وسلام پڑھنا کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں، بل کہ واضح گم راہی اور ضلالت ہے۔بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھنا باعث ِثواب اور موجب ِسعادت ہے،لیکن کسی جگہ وہیئت کے ساتھ اسے خاص کرنا جائز نہیں۔ صحابہ کرام اور ائمہ اسلام سب سے بڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھنے والے تھے،ان سے ایسا کرنا قطعاً ثابت نہیں،لہٰذا یہ محبت رسول کا تقاضا نہیں۔نیز یہ عقیدہ رکھنا کہ وقت ِدرود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  بنفس نفیس تشریف لاتے ہیں،یہ نِری ضلالت ہے۔پہلے مسلمان اس کے تصور سے بھی واقف نہ تھے۔

وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آنی موت (ایک لمحے کے لیے موت)کا نظریہ رکھنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی زندگی کو حقیقی دنیاوی زندگی سمجھنا قرآن وسنت اور اجماعِ امت کی مخالفت اور قبیح بدعت ہے۔

یہ وہ بدعی عقائد ونظریات ہیں جو سلف صالحین کے عقائد ونظریات کے خلاف گھڑے گئے ہیں۔سلف صالحین تو قرآن وسنت پر کاربند تھے،ان کا ان عقائد کا حامل نہ ہونا اس بات کی واضح اور ٹھوس دلیل ہے کہ یہ عقائد ونظریات بے اصل ہیں۔جب کہ سلف سب سے بڑھ کر قرآن وسنت کی نصوص کو سمجھنے اور اپنانے والے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.