551

درود نہ پڑھنے کی سزا، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

درود نہ پڑھنے کی سزا

ابن الحسن محمدی


1. سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’اَلْبَخِیلُ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہٗ؛ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَيَّ‘ ۔ (مسند الإمام أحمد  : 201/1؛ سنن الترمذي : 3546؛ فضل الصلاۃ علی النبي للإمام إسماعیل القاضي : 32؛ المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 549/1، وسندہٗ حسنٌ)

’’جس شخص کے پاس میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے تو وہ بخیل ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ (3546) نے ’’حسن صحیح غریب‘‘،امام ابن حبان رحمہ اللہ  (909) نے ’’صحیح‘‘اور امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صحیح الاسناد‘‘ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَلاَ یَقْصُرُ عَنْ دَرَجَۃِ الْحَسَنِ ۔ (فتح الباري : 186/11)

’’یہ حدیث حسن درجہ سے کم نہیں۔‘‘

2. سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَہٗ؛ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَيَّ‘ ۔ (مسند الإمام أحمد : 254/2؛ سنن الترمذي : 3545؛ فضل الصلاۃ علی النبي للقاضی إسماعیل : 16، وسندہٗ حسنٌ)

’’اس آدمی کا ناک خاک آلود ہو،جس کے سامنے میرا تذکرہ ہو،لیکن وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن غریب‘‘ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ  (908)نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

3          سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:

صَعِدَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَہٗ عَلٰی مِرْقَاۃٍ قَالَ : ’آمِینَ‘، ثُمَّ صَعِدَ، فَقَالَ : ’آمِینَ‘، ثُمَّ صَعِدَ، فَقَالَ : ’آمِینَ‘، فَقَالَ : ’أَتَانِي جِبْرِیلُ، فَقَالَ : مَنْ أَدْرَکَ شَہْرَ رَمَضَانَ؛ فَمَاتَ فَلَمْ یُغْفَرْ لَہٗ؛ فَأَبْعَدَہُ اللّٰہُ، قُلْتُ : آمِینَ، قَالَ : وَمَنْ أَدْرَکَ أَبَوَیْہِ أَوْ أَحَدَہُمَا، فَمَاتَ فَلَمْ یُغْفَرْ لَہٗ؛ فَأَبْعَدَہُ اللّٰہُ، قُلْتُ : آمِینَ، قَالَ : وَمَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَہٗ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْکَ، فَأَبْعَدَہُ اللّٰہُ، قُلْتُ : آمِینَ‘۔ (المعجم الأوسط للطبراني : 8131؛ مسند أبي یعلٰی : 5922، وسندہٗ حسنٌ)

’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔جب پہلی سیڑھی پر پاؤں مبارک رکھا تو آمین کہا،پھر (دوسری سیڑھی پر)چڑھے تو دوبارہ آمین کہا،پھر (تیسری سیڑھی پر) چڑھے تو پھر آمین کہا۔پھر ارشاد فرمایا : میرے پاس جبریل آئے تھے اور (جب میں پہلی سیڑھی پر چڑھا تو)انہوں نے کہا : جو شخص رمضان کا مہینہ پائے اور پھر اس حالت میں مر جائے کہ (رمضان کی عبادت کی وجہ سے)اس کی مغفرت نہ ہو سکے،تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دُور کر دے۔میں نے آمین کہا۔ (جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو) انہوں نے کہا : جو شخص اپنے ماں باپ دونوں کو یا کسی ایک کو پائے ،پھر اس حالت میں مر جائے کہ (ان کی خدمت کی بنا پر) اس کی مغفرت نہ ہو سکے،تو اسے بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دُور کر دے۔ میں نے آمین کہا۔(جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو)انہوں نے کہا : جس شخص کے پاس آپ کا ذکر ہو اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے،اسے بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دُور کر دے۔اس پر بھی میں نے آمین کہا۔

ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :

إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَقِيَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ : ’آمِینَ، آمِینَ، آمِینَ‘، فَقِیلَ لَہٗ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَا کُنْتَ تَصْنَعُ ہٰذَا، فَقَالَ : ’قَالَ لِي جِبْرِیلُ : أَرْغَمَ اللّٰہُ أَنْفَ عَبْدٍ ـــ أَوْ بَعُدَ ـــ دَخَلَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرْ لَہٗ، فَقُلْتُ : آمِینَ، ثُمَّ قَالَ : رَغِمَ أَنْفُ عَبْدٍ ــــ أَوْ بَعُدَ ــــ أَدْرَکَ وَالِدَیْہِ أَوْ أَحَدَہُمَا لَمْ یُدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ، فَقُلْتُ : آمِینَ، ثُمَّ قَالَ : رَغِمَ أَنْفُ عَبْدٍ ــــ أَوْ بَعُدَ ــــ ذُکِرْتَ عِنْدَہٗ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْکَ، فَقُلْتُ : آمِینَ‘ (صحیح ابن خزیمۃ : 1888، وسندہٗ حسنٌ)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے تو تین دفعہ آمین کہا۔پوچھا گیا کہ اللہ کے رسول! آپ پہلے تو ایسا نہیں کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے جبریل  علیہ السلام  نے کہا : اللہ تعالیٰ اس شخص کو ذلیل کرے جو رمضان میں موجود ہو لیکن اس کی مغفرت نہ ہو سکے۔میں نے آمین کہا۔ پھر جبریل  علیہ السلام نے کہا : وہ شخص بھی ذلیل ہو، جو اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو پائے،لیکن ان کی خدمت اسے جنت میں داخل نہ کرے۔میں نے آمین کہا۔پھر جبریل  علیہ السلام نے کہا : وہ شخص بھی ذلیل ہو جائے جس کے پاس آپ کا ذکر ہو،لیکن وہ آپ پر درود نہ پڑھے۔میں نے اس پر بھی آمین کہا۔‘‘

4. سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’احْضُرُوا الْمِنْبَرَ‘، فَحَضَرْنَا، فَلَمَّا ارْتَقٰی دَرَجَۃً قَالَ : ’آمِینَ‘، فَلَمَّا ارْتَقَی الدَّرَجَۃَ الثَّانِیَۃَ قَالَ : ’آمِینَ‘، فَلَمَّا ارْتَقَی الدَّرَجَۃَ الثَّالِثَۃَ قَالَ : ’آمِینَ‘، فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، لَقَدْ سَمِعْنَا مِنْکَ الْیَوْمَ شَیْئًا مَّا کُنَّا نَسْمَعُہٗ، قَالَ : ’إِنَّ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَرَضَ لِي، فَقَالَ : بُعْدًا لِّمَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرْ لَہٗ، قُلْتُ : آمِینَ، فَلَمَّا رَقِیتُ الثَّانِیَۃَ قَالَ : بُعْدًا لِّمَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَہٗ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْکَ، قُلْتُ : آمِینَ، فَلَمَّا رَقِیتُ الثَّالِثَۃَ قَالَ : بُعْدًا لِّمَنْ أَدْرَکَ أَبَوَاہُ الْکِبَرَ عِنْدَہٗ أَوْ أَحَدُہُمَا فَلَمْ یُدْخِلَاہُ الْجَنَّۃَ، قُلْتُ : آمِینَ‘ ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 153/4، وسندہٗ حسنٌ)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منبر لاؤ۔ہم منبر لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی سیڑھی پر چڑھے اور آمین کہا۔جب دوسری سیڑھی پر چڑھے تو آمین کہا۔جب تیسری سیڑھی پر چڑھے تو پھر آمین کہا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول!آج ہم نے آپ سے ایسی چیز سنی ہے،جو پہلے نہیں سنتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جبریل  علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا : اس شخص کے لیے ہلاکت ہو،جو رمضان کو پائے،لیکن اس کی مغفرت نہ ہوسکے۔میں نے آمین کہہ دیا۔ جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریل  علیہ السلام نے کہا : وہ شخص بھی ہلاک ہو، جس کے پاس آپ کا تذکرہ ہو،لیکن وہ آپ پر درود نہ پڑھے۔میں نے آمین کہا۔جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریل  علیہ السلام نے کہا : وہ شخص بھی ہلاک ہو، جس کے پاس اس کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک بوڑھا ہو اور وہ اس کے جنت میں داخلے کا سبب نہ بن سکیں۔میں نے پھر آمین کہہ دیا۔‘‘

امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’صحیح الاسناد‘‘اور حافظ ذہبی نے ’’صحیح‘‘کہا ہے۔

تنبیہ :

سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما  سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہٗ، فَخَطِیَٔ الصَّلَاۃَ عَلَيَّ؛ خَطِیَٔ طَرِیقَ الْجَنَّۃِ‘ ۔ (الذریۃ الطاہرۃ للدولابي، ص : 88، المعجم الکبیر للطبراني : 128/3)

’’جس شخص کے پاس میرا ذکر کیا جائے، لیکن مجھ درود نہ پڑھے،وہ جنت کے راستے سے بھٹک گیا۔‘‘

اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے۔ اس میں محمد بن بشیر کندی راوی غیر ثقہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.