519

درود نبی کریمﷺ پر پیش ہوتا ہے، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

درود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش ہوتا ہے

ابن الحسن محمدی

n          سیدنااوس بن اوس رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَیَّامِکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فِیہِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِیہِ النَّفْخَۃُ، وَفِیہِ الصَّعْقَۃُ، فَأَکْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاۃِ فِیہِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَّعْرُوضَۃٌ عَلَيَّ‘ ۔

’’بلاشبہ تمہارے دنوں میں جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔اس دن سیدنا آدم  علیہ السلام  پیدا ہوئے، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔لہٰذا اس دن مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو ،کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا۔‘‘

ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ کی وفات کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟کیا آپ کا جسد ِمبارک خاک میں نہیں مل چکا ہو گا؟اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’إِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ عَلَی الْـأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْـأَنْبِیَائِ‘ ۔

’’یقینا اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام کے جسموں کو کھانا حرام فرمادیا ہے۔ ‘‘

(مسند الإمام أحمد : 8/4؛ سنن أبي داوٗد : 1047، 1531؛ سنن النسائي : 1375؛ سنن ابن ماجہ : 1085، 1636؛ فضل الصلاۃ علی النبيّ للقاضي إسماعیل : 22، وسندہٗ صحیحٌ)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(1733)،امام ابن حبان(910) اور حافظ ابن قطان فاسی(بیان الوہم والإیہام : 574/5) رحمہم اللہ نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔

امام حاکم رحمہ اللہ (278/1)نے اسے ’’امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

(ریاض الصالحین : 1399، خلاصۃ الأحکام : 441/1، 814/2)

حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (م : 751ھ)لکھتے ہیں :

وَمَنْ تَأَمَّلَ ہٰذَا الْإِسْنَادَ؛ لَمْ یَشُکَّ فِي صِحَّتِہٖ، لِثِقَۃِ رُوَاتِہٖ، وَشُہْرَتِہِمْ، وَقُبُولِ الْـأَئِمَّۃِ أَحَادِیثَہُمْ ۔

’’جو شخص اس روایت کی سند پر غور کرے گا،وہ اس کی صحت میں شک نہیں کرے گا،کیونکہ اس کے راوی ثقہ، مشہور ہیں اور ائمہ حدیث کے ہاں ان کی بیان کردہ احادیث مقبول ہیں۔‘‘(جلاء الأفہام : 81)

n          سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

’لَا تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ قُبُورًا، وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِیدًا، وَصَلُّوا عَلَيَّ؛ فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تَبْلُغُنِي حَیْثُ کُنْتُمْ‘ ۔

’’تم اپنے گھروں کو قبرستان مت بنائو، نہ ہی میری قبر کو میلہ گاہ بنانا،(بل کہ جہاں بھی ہو)مجھ پر درود پڑھو تم جہاں بھی ہو گے تمہارا درود مجھ تک پہنچے گا۔‘‘

(مسند الإمام أحمد : 367/2،ح : 8790؛ سنن أبي داوٗد : 2042، واللفظ لہٗ، وسندہٗ حسنٌ)

n          سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’إِنَّ لِلّٰہِ فِي الْـأَرْضِ مَلَائِکَۃً سَیَّاحِینَ، یُبَلِّغُونِّي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ‘ ۔

’’اللہ تعالیٰ کے زمین میں ایسے فرشتے ہیں جو گشت کر تے رہتے ہیں اور  میری امت کی طرف سے پیش کیا گیا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔‘‘

(مسند الإمام أحمد : 387/1، 441، 452؛ سنن النسائي الصغرٰی : 44/3، ح : 1282؛ سنن النسائي الکبرٰی : 22/6، وسندہٗ حسنٌ)

اس حدیث کی بہت سے ائمہ نے تصحیح کی ہے، مثلاً امام ابن حبان رحمہ اللہ  (914)نے اسے ’’صحیح‘‘ اور امام حاکم رحمہ اللہ (456/2)نے ’’صحیح الاسناد‘‘قرار دیا ہے، جب کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے ان کی موافقت کی ہے۔

n          سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  فرمایا کرتے تھے:

إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَحْسِنُوا الصَّلَاۃَ عَلَیْہِ، فَإِنَّکُمْ لَا تَدْرُونَ، لَعَلَّ ذٰلِکَ یُعْرَضُ عَلَیْہِ، قَالَ : فَقَالُوا لَہٗ : فَعَلِّمْنَا، قَالَ، قُولُوا : اللّٰہُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَکَ، وَرَحْمَتَکَ، وَبَرَکَاتِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِینَ، وَإِمَامِ الْمُتَّقِینَ، وَخَاتَمِ النَّبِیِّینَ، مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ، إِمَامِ الْخَیْرِ، وَقَائِدِ الْخَیْرِ، وَرَسُولِ الرَّحْمَۃِ، اللّٰہُمَّ ابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُودًا، یَغْبِطُہٗ بِہِ الْـأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ، اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ، وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ، وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ، اللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ، وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ، وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ ۔

’’جب تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو تو اچھے الفاظ میں درود پڑھا کرو، کیوں کہ تمہیں معلوم نہیں کہ شاید وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا جائے۔لوگوں نے کہا : پھر آپ ہمیں وہ الفاظ سکھا دیجیے۔انہوں نے فرمایا: یوں کہا کرو: اے اللہ!تُو سید المرسلین، امام المتقین اور خاتم النبیین،جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما،جو تیرے بندے ورسول،امام الخیر،قائد الخیر اور رسولِ رحمت ہیں۔اے اللہ!تُو انہیں اس مقامِ محمود پر فائز فرما،جس کی وجہ سے اولین و آخرین ان سے رشک کریں گے۔ اے اللہ!محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر اس طرح رحمت فرما،جس طرح تُو نے ابراہیم  علیہ السلام اور ان کی آل پر فرمائی تھی،بلاشبہ تُو ہی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر اس طرح برکت نازل فرما،جس طرح تُو نے ابراہیم  علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل فرمائی تھی،بلاشبہ تُو ہی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔‘‘

(سنن ابن ماجہ :906؛ المعجم الکبیر للطبراني : 115/9؛ ح : 8594، مسند الشاشي : 611؛ الدعوات الکبیر للبیہقي : 177، وسندہٗ صحیحٌ)

فائدہ :

n          سیدنا عبداللہ بن عباس کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ :

لَیْسَ أَحَدٌ مِّنْ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی عَلَیْہِ صَلَاۃً؛ إِلَّا وَہِيَ تَبْلُغُہٗ، یَقُولُ لَہُ الْمَلَکُ : فُلَانٌ یُصَلِّي عَلَیْکَ کَذَا وَکَذَا صَلَاۃً ۔

’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے کوئی بھی درود پڑھتا ہے تو وہ ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر عرض کرتا ہے : فلاں شخص آپ پر یہ یہ درود پڑھ رہا ہے۔‘‘

(شعب الإیمان للبیہقي : 1482؛ حیاۃ الأنبیاء في قبورہم للبیہقي : 17؛ مسند إسحاق بن راہویہ، نقلا عن المطالب العالیۃ لابن حجر : 3333)

لیکن اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس میں ابو یحییٰ قتات راوی جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف‘‘اور غیر ثقہ ہے۔

nnnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.