1,212

اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

اہل کتاب کی پاک دامن عورتیں، خواہ وہ ذمی ہوں یا حربی،ان سے نکاح جائز ہے،جیسا کہ ؛
n اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ} (المائدۃ 5 : 5)
’’تم سے پہلے اہل کتاب کی پاک دامن خواتین (تمہارے لیے حلال کر دی گئی ہیں)،بشرطیکہ تم عقد ِزواج کی نیت سے ان کا مہر ادا کر چکے ہو،اعلانیہ زنا،یا پوشیدہ طور پر آشنائی کی نیت نہ ہو۔‘‘
n ترجمانِ قرآن،سیدنا عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
لَمَّا نَزَلَتْ ہٰذِہِ الْـآیَۃُ : {وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ} قَالَ : فَحَجَزَ النَّاسُ عَنْہُنَّ، حَتّٰی نَزَلَتِ الَّتِي بَعْدَہَا : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ}، فَنَکَحَ النَّاسُ (مِنْ) نِّسَائِ أَہْلِ الْکِتَابِ ۔
’’جب یہ آیت نازل ہوئی:{وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ}
(البقرۃ 2 : 221) (تم مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو،جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں)،تو لوگ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنے سے رُک گئے،یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوگئی:{وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ} (المائدۃ 5 : 5) (تم سے پہلے اہل کتاب کی پاک دامن عورتوں سے نکاح جائز ہے)،تولوگوں نے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا شروع کر دیا۔‘‘
(تفسیر ابن أبي حاتم، نقلًا عن تفسیر ابن کثیر : 42/3، وسندہ حسنٌ، ت : سلامۃ)
اھل کتاب کون ہیں؟
یاد رہے کہ اہل کتاب سے مراد صرف اہل تورات واہل انجیل ہیں،جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
{اَنْ تَقُوْلُوْا اِنَّمَا اُنْزِلَ الْکِتَابُ عَلٰی طَائِفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا}
(الأنعام 6 : 156)
’’(ہم نے قرآن اس لیے نازل کیا ہے)کہ کہیں تم یہ نہ کہو کہ کتاب تو ہم سے پہلے دو گروہوں پر نازل کی گئی تھی۔‘‘
لہٰذا عیسائیوں،یہودیوں کے علاوہ مجوسیوں،ہندوؤں،سکھوں،بدھ متوں اور دیگر کافر اقوام کی پاک عورتوں سے بھی نکاح قطعاً جائز نہیں ہے،الا یہ کہ وہ مسلمان ہو جائیں۔
صحابہ کرام اور کتابیّات سے نکاح :
n مشہور سنی مفسر و محدث،علامہ،حافظ،ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَقَدْ تَّزَوَّجَ جَمَاعَۃٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ مِنْ نِّسَائِ النَّصَارٰی وَلَمْ یَرَوْا بِذٰلِکَ بَأْسًا، أَخْذًا بِہٰذِہِ الْـآیَۃِ الْکَرِیمَۃِ : {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ
الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ}، فَجَعَلُوا ہٰذِہٖ مُخَصِّصَۃً لِّلْـآیَۃِ الَّتِي فِي الْبَقَرَۃِ : {وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ}، إِنْ قِیلَ بِدُخُولِ الْکِتَابِیَّاتِ فِي عُمُومِہَا، وَإِلَّا فَلَا مُعَارَضَۃَ بَیْنَہَا وَبَیْنَہَا؛ لِـأَنَّ أَہْلَ الْکِتَابِ قَدْ یُفْصَلُ فِي ذِکْرِہِمْ عَنِ الْمُشْرِکِینَ فِي غَیْرِ مَوْضِعٍ، کَمَا قَالَ تَعَالٰی : {لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَالْمُشْرِکِینَ مُنْفَکِّینَ حَتّٰی تَاْتِیَھُمُ الْبَیِّنَۃُ} ( البینۃ 98 : 1)، وَکَقَوْلِہٖ : {وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ وَالْاُمِّیِّیْنَ ئَ اَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا} (آل عمران 3 : 20) ۔
’’صحابہ کرام کی ایک جماعت نے عیسائی عورتوں سے نکاح کیے ہیں اور اس میں کوئی حرج خیال نہیں کیا۔اگر اہل کتاب کی عورتوں کو سورہ بقرہ کی آیت:{وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ}(مشرک عورتوں سے نکاح نہ کروجب تک وہ ایمان نہ لے آئیں)کے عموم میں داخل سمجھا جائے تو صحابہ کرام نے انہیں اس آیت سے خاص سمجھا:{وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ} (تم سے پہلے جن لوگوں کو کتاب دی گئی،ان کی پاک دامن عورتوں سے نکاح کر سکتے ہو)۔اگر اہل کتاب کی عورتوں کو سورۂ بقرہ والی آیت کے عموم میں داخل نہ سمجھا جائے تودونوں آیات میں کوئی معارضہ ہے ہی نہیں۔کیوں کہ اور بھی بہت سی آیات میں عام مشرکین سے اہل کتاب کو الگ بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:{لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنْفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَھُمُ الْبَیِّنَۃُ}(البیّنۃ 98 : 1)(جولوگ کافر ہیں اہل کتاب میں سے اور
مشرکین میں سے وہ[کفر سے] باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان
کے پاس کھلی دلیل(نہ)آتی۔)نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ وَالْاُمِّیِّیْنَ ئَ اَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا} (آل عمران 3 : 20) (اہل کتاب اور اَن پڑھ لوگوں سے کہو کہ تم بھی (اللہ کے فرمانبردار بنتے اور) اسلام لاتے ہو؟اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پا لیں گے)۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر : 42/3، ت : سلامۃ)
n امام اہل سنت،ابو عبداللہ،احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمانِ باری تعالیٰ{وَلَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ}کے بارے میں فرماتے ہیں:
مُشْرِکَاتُ الْعَرَبِ الَّذِینَ یَعْبُدُونَ الْـاَوْثَانَ ۔
’’اس سے مراد مشرکین عرب کی عورتیں تھیں جو کہ بتوں کے پجاری تھے۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر : 584/1)
n سیدنا علی بن ابو طالبرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
تَزَوَّجَ طَلْحَۃُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ یَہُودِیَّۃً ۔
’’سیدنا طلحہرضی اللہ عنہ نے ایک یہودیہ عورت سے نکاح کیا۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 172/7، وسندہٗ حسنٌ)
n عبداللہ بن عبدالرحمان انصاری اشہلی تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
إِنَّ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ نَکَحَ یَہُودِیَّۃً ۔
’’سیدناحذیفہ بن یمانرضی اللہ عنہ نے ایک یہودیہ عورت سے نکاح کیا۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 172/7، وسندہٗ حسنٌ)
n ابو وائل شقیق بن سلمہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

تَزَوَّجَ حُذَیْفَۃُ یَہُودِیَّۃً، فَکَتَبَ إِلَیْہِ عُمَرُ : خَلِّ سَبِیلَہَا، فَکَتَبَ إِلَیْہِ : أَتَزْعُمُ أَنَّہَا حَرَامٌ، فَاُخَلَِّيَ سَبِیلَہَا؟ فَقَالَ : لَا أَزْعُمُ أَنَّہَا حَرَامٌ، وَلٰکِنْ أَخَافُ أَنْ تَعَاطَوُا الْمُومِسَاتِ مِنْہُنَّ ۔
’’سیدناحذیفہ بن یمانرضی اللہ عنہ نے ایک یہودیہ عورت سے نکاح کیا،توسیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ان کی طرف خط لکھا کہ آپ اس سے علیحدگی اختیار کر لیں۔سیدنا حذیفہرضی اللہ عنہ نے جواباً لکھاـ:کیا آپ اسے حرام خیال کرتے ہیں،اس لیے علیحدگی اختیار کر لوں؟ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے جواب دیا:میں اسے حرام تو خیال نہیں کرتا،البتہ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں تم بدکاریہودی عورتوں سے نکاح نہ کر لو۔‘‘
(تفسیر الطبري : 366/4، مصنّف ابن أبي شیبۃ : 157/4/2، وسندہٗ صحیحٌ)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘کہا ہے۔
b امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَہٰذَا مِنْ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلٰی طَرِیقِ التَّنْزِیہِ وَالْکَرَاہَۃِ ۔
’’سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا یہ اقدام تنزیہی اورکراہت کی بنا پر تھا۔‘‘
(السنن الکبرٰی : 280/7، دار الکتب العلمیّۃ، بیروت، 2003ئ)
b حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قَالَ أَبُو جَعْفَرِ بْنُ جَرِیرٍ رَّحِمَہُ اللّٰہُ، بَعْدَ حِکَایَتِہِ الْإِجْمَاعَ عَلٰی إِبَاحَۃِ تَزْوِیجِ الْکِتَابِیَّاتِ : وَإِنَّمَا کَرِہَ عُمَرُ ذٰلِکَ، لِئَلَّا یَزْہَدَ النَّاسُ فِي الْمُسَلَّمَاتِ، أَوْ لِغَیْرِ ذٰلِکَ مِنَ الْمَعَانِي ۔
’’امام ابو جعفربن جریر رحمہ اللہ نے کتابیہ کے ساتھ نکاح مباح ہونے پر اجماع
نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اسے صرف ناپسند کیا ہے،تاکہ لوگ مسلمان عورتوں کی طرف بے رغبتی کا مظاہرہ نہ کریں،یا اس کے علاوہ کوئی اور مصلحت بھی ہو سکتی ہے۔‘‘(تفسیر ابن کثیر : 583/1)
تنبیہ :
سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح جائز نہیں سمجھتے تھے۔
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 157/4/2، وسندہٗ حسنٌ)
دراصل سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہما مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت والی آیت کو عام سمجھتے تھے، اہل کتاب کی عورتوں کو اس سے خاص نہیں کرتے تھے، جبکہ باقی تمام صحابہ کرام اس آیت سے اہل کتاب کی عورتوں کو مستثنیٰ قرار دیتے تھے اور یہی بات عین صواب ہے۔
امام حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ اہل کتاب کی حربی عورتوں سے نکاح ناجائز سمجھتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 158/4/2، وسندہٗ صحیحٌ)
لیکن حربی یا غیرحربی کی کوئی قید نہ کتاب و سنت میں مذکور ہے،نہ صحابہ کرام نے بیان کی۔
الحاصل: اہل کتاب کی پاک دامن عورتوں سے جائز ہے،خواہ حربی ہوں یا ذمی، واللہ تعالیٰ اعلم!

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.