486

عیسی بن مریم، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

عیسی بن مریم علیہ السلام

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(إِنَّ مَثَلَ عِیسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہ، مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ، کُنْ فَیَکُونُ)(آل عمران : ٥٩)
” اللہ کے ہاں عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے، اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے تخلیق کیا، کہا : ہو جاؤ، پس ہو گئے۔”
اس آیت کی تفسیر و تشریح میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  (م : ٧٢٨ھ) فرماتے ہیں:
فَأَعْنٰی بِقَوْلِہٖ : (مَثَلَ عِیسٰی)(آل عمران : ٥٩) إِشَارَۃً إِلَی الْبَشَرِیَّۃِ الْمَأْخُوذَۃِ مِنْ مَّرْیَمَ الطَّاہِرَۃِ، لِـأَنَّہ، لَمْ یَذْکُرْ ہَاہُنَا اسْمَ الْمَسِیحِ، إِنَّمَا ذَکَرَ عِیسٰی فَقَطْ . کَمَا أَنَّ آدَمَ خُلِقَ مِنْ غَیْرِ جِمَاعٍ وَلَا مُبَاضَعَۃٍ، فَکَذَالِکَ جَسَدُ السَّیِّدِ الْمَسِیحِ خُلِقَ مِنْ غَیْرِ جِمَاعٍ وَلَا مُبَاضَعَۃٍ، وَکَمَا أَنَّ جَسَدَ آدَمَ ذَاقَ الْمَوْتَ، فَکَذَالِکَ جَسَدُ الْمَسِیحِ ذَاقَ الْمَوْتَ، وَقَدْ یُبَرْہَنُ بِقَوْلِہٖ أَیْضًا قَائِلًا : إِنَّ اللّٰہَ أَلْقٰی کَلِمَتَہ، إِلٰی مَرْیَمَ، وَذَالِکَ حَسْبَ قَوْلِنَا مَعْشَرَ النَّصَارٰی : إِنَّ کَلِمَۃَ اللّٰہِ الْـأَزَلِیَّۃَ الْخَالِقَۃَ حَلَّتْ فِي مَرْیَمَ وَتَجَسَّدَتْ بِإِنْسَانٍ کَامِلٍ، وَعَلٰی ہٰذَا الْمِثَالِ نَقُولُ : فِي السَّیِّدِ الْمَسِیحِ طَبِیعَتَانِ : طَبِیعَۃٌ لَّاہُوتِیَّۃٌ الَّتِي ہِيَ طَبِیعَۃُ کَلِمَۃِ اللّٰہِ وَرُوحُہ،، وَطَبِیعَۃٌ نَّاسُوتِیَّۃٌ الَّتِي أُخِذَتْ مِنْ مَّرْیَمَ الْعَذْرَاءَ وَاتَّحَدَتْ بِہٖ، وَلِمَا تَقَدَّمَ بِہِ الْقَوْلُ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلٰی لِسَانِ مُوسَی النَّبِيِّ، إِذْ یَقُولُ : (أَلَیْسَ ہٰذَا الْـأَبُ الَّذِي خَلَقَکَ وَبَرَاکَ وَاقْتَنَاکَ) قِیلَ : وَعَلٰی لِسَانِ دَاوُدَ النَّبِيِّ (رُوحُکَ الْقُدُسُ لَا تُنْزَعُ مِنِّي) وَأَیْضًا عَلٰی لِسَانِ دَاوُدَ النَّبِيِّ : (بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ تَشَدَّدَتِ السَّمَاوَاتُ وَبِرُوحِ فَاہِ جَمِیعُ قُوَاہُنَّ) وَلَیْسَ یَدُلُّ ہٰذَا الْقَوْلُ عَلٰی ثَلَاثَۃِ خَالِقِینَ، بَلْ خَالِقٍ وَّاحِد ٍ: الْـأَبُ وَنُطْقُہ، : أَيْ کَلِمَتُہ، وَرُوحُہ، : أَيْ حَیَاتُہ، . وَالْجَوَابُ مِنْ وُّجُوہٍ : أَحَدُہَا : أَنَّ قَوْلَہ، تَعَالٰی : (إِنَّ مَثَلَ عِیسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہ، مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ، : کُنْ فَیَکُونُ)(آل عمران : ٥٩) کَلَامٌ حَقٌّ، فَإِنَّہ، سُبْحَانَہ، خَلَقَ ہٰذَا النَّوْعَ الْبَشَرِيَّ عَلَی الْـأَقْسَامِ الْمُمْکِنَۃِ لِیُبَیِّنَ عُمُومَ قُدْرَتِہٖ، فَخَلَقَ آدَمَ مِنْ غَیْرِ ذَکَرٍ وَّلَا أُنْثَی، وَخَلَقَ زَوْجَتَہ، حَوَّاءَ مِنْ ذَکَرٍ بِّلَا أُنْثٰی، کَمَا قَالَ تَعَالٰی : (وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا) (النساء : ١) وَخَلَقَ الْمَسِیحَ مِنْ أُنْثٰی بِلَا ذَکَرٍ، وَخَلَقَ سَائِرَ الْخَلْقِ مِنْ ذَکَروَأُنْثٰی، وَکَانَ خَلْقُ آدَمَ وَحَوَّاءَ أَعْجَبَ مِنْ خَلْقِ الْمَسِیحِ، فَإِنَّ حَوَّاءَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعِ آدَمَ، وَہٰذَا أَعْجَبُ مِنْ خَلْقِ الْمَسِیحِ فِي بَطْنِ مَرْیَمَ، وَخَلْقُ آدَمَ أَعْجَبُ مِنْ ہٰذَا وَہٰذَا، وَہُوَ أَصْلُ خَلْقِ حَوَّائَ، فَلِہٰذَا شَبَّہَہُ اللّٰہُ بِخَلْقِ آدَمَ الَّذِي ہُوَ أَعْجَبُ مِنْ خَلْقِ الْمَسِیحِ، فَإِذَا کَانَ سُبْحَانَہ، قَادِرًا أَنْ یَّخْلُقَہ، مِنْ تُرَابِ، وَالتُّرَابُ لَیْسَ مِنْ جِنْسِ بَدَنِ الْإِنْسَانِ، أَفَلَا یَقْدِرُ أَنْ یَّخْلُقَہ، مِنَ امْرَأَۃٍ ہِيَ مِنْ جِنْسِ بَدَنِ الْإِنْسَانِ؟ وَہُوَ سُبْحَانُہُ خَلَقَ آدَمَ مِنْ تُرَابٍ، ثُمَّ قَالَ لَہ، : کُنْ فَیَکُونُ، لَمَّا نَفَخَ فِیہِ مِنْ رُّوحِہٖ، فَکَذَالِکَ الْمَسِیحُ نَفَخَ فِیہِ مِنْ رُّوحِہٖ وَقَالَ لَہ، : کُنْ فَیَکُونُ، وَلَمْ یَکُنْ آدَمُ بِمَا نُفِخَ مِنْ رُّوحِہٖ لَاہُوتًا وَّنَاسُوتًا، بَلْ کُلُّہ، نَاسُوتٌ، فَکَذَالِکَ الْمَسِیحُ کُلُّہ، نَاسُوتٌ، وَاللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی ذَکَرَ ہٰذِہِ الْآیَۃَ فِي ضِمْنِ الْآیَاتِ الَّتِي أَنْزَلَہَا فِي شَأْنِ النَّصَارٰی، لَمَّا قَدِمَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَصَارَی نَجْرَانَ وَنَاظَرُوہُ فِي الْمَسِیحِ، وَأَنْزَلَ اللّٰہُ فِیہِ مَا أَنْزَلَ، فَبَیَّنَ فِیہِ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي اخْتَلَفَتْ فِیہِ الْیَہُودُ وَالنَّصَارٰی، فَکَذَّبَ اللّٰہُ الطَّائِفَتَیْنِ : ہٰؤُلَاءِ فِي غُلُوِّہِمْ فِیہِ، وَہٰؤُلَاءِ فِي ذَمِّہِمْ لَہ، . وَقَالَ عَقِبَ ہٰذِہِ الْآیَۃِ : (فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَّعْدِ مَا جَاءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَ نَا وَأَبْنَاءَ کُمْ وَنِسَاءَ نَا وَنِسَاءَ کُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِینَ . إِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ وَمَا مِنْ إِلٰہٍ إِلَّا اللّٰہُ وَإِنَّ اللّٰہَ لَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ . فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللّٰہَ عَلِیمٌ بِّالْمُفْسِدِینَ . قُلْ یَاأَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَاءٍ بَّیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللّٰہِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْہَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ)(آل عمران : ٦١۔٦٤) وَقَدِ امْتَثَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْلَ اللّٰہِ فَدَعَاہُمْ إِلَی الْمُبَاہَلَۃِ فَعَرَفُوا أَنَّہُمْ إِنْ بَاہَلُوہُ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ لَعْنَتَہ،، فَأَقَرُّوا بِالْجِزْیَۃِ وَہُمْ صَاغِرُونَ، ثُمَّ کَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی ہِرَقْلَ مَلِکِ الرُّومِ بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی : (قُلْ یَاأَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا)(آل عمران : ٦٤) إِلٰی آخِرِہَا . وَکَانَ أَحْیَانًا یَّقْرَأُ بِہَا فِي الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ مِنْ رَّکْعَتَيِ الْفَجْرِ، وَیَقْرَأُ فِي الْـأُولٰی بِقَوْلِہٖ : (قُولُوا آمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلٰی إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْـأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسٰی وَعِیسٰی وَمَا أُوتِيَ النَّبِیُّونَ مِنْ رَّبِّہِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْہُمْ وَنَحْنُ لَہ، مُسْلِمُونَ)(البقرۃ : ١٣٦) وَہٰذَا کُلُّہ، یُبَیِِّنُ بِہٖ أَنَّ الْمَسِیحَ عَبَدٌ لَّیْسَ بِإِلٰہٍ، وَأَنَّہ، مَخْلُوقٌ کَمَا خُلِقَ آدَمَ .
”اس (آل عمران : ٥٩) میں بشریت عیسی کی طرف اشارہ ہے، جو کہ سیدہ مریم[ سے ماخوذ ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ‘المسیح’ نہیں کہا بل کہ صرف عیسی پر اکتفا کیا ہے۔ جیسے آدم علیہ السلام  کو بغیر کسی جوڑے کے ملاپ سے پیدا کیا ایسے عیسی علیہ السلام  کو پیدا کیا، جیسے آدم علیہ السلام  کو موت آئی، ایسے ہی عیسی علیہ السلام  کو بھی موت آئے گی۔ پھر اپنی بات کو یہ کہتے ہو ئے مبرہن کیا کہ سیدہ مریم[ کی طرف ہم نے کلمہ القا کیا۔ یہ بات ہمارے عیسائی بھائیوں کے موافق ہے ، جب کہ وہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کا ازلی و تخلیقی کلمہ سیدہ مریم[ میں حلول کر گیا اور ایک کامل انسان کی صورت میں متشکل ہو گیا۔ لہٰذا ہم عیسی علیہ السلام  کے متعلق کہیں گے کہ آپ میں دو خصوصیات تھیں1 طبیعت لاہوتیہ (الٰہی خصوصیت) جسے کلمۃ اللہ تا روح اللہ کہاں جاتا ہے۔2 طبیعت ناسوتی (انسانی خصوصیت) جسے مریم کنواری سے لے کر ان سے ملا دیا گیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان موسی نبی کی زبانی گزر چکا ہے کہ اللہ نے فرمایا : (أَلَیْسَ ہٰذَا الْـأَبُ الَّذِي خَلَقَکَ وَبَرَاکَ وَاقْتَنَاکَ) ‘کیا یہ وہ ابو نہیں ہے، جس نے آپ کو پیدا کیا، بری کیا اور مال دار بنایا۔’ نبی داؤد کی زبانی فرمایا : (رُوحُکَ الْقُدُسُ لَا تُنْزَعُ مِنِّي) ‘تیری پاک روح مجھ سے کھینچی نہ جائے۔’ اور نبی داؤد ہی کی زبانی فرمایا: (بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ تَشَدَّدَتِ السَّمَاوَاتُ وَبِرُوحِ فَاہِ جَمِیعُ قُوَاہُنَّ) ‘اللہ کے کلمہ سے آسمان مضبوط ہوئے اور اس کی روح سے ان کے ستون بنے۔’
جب یہ اقوال تین الہ پر دلالت نہیں کرتے، بل ان سے بھی ایک ہی الٰہ ثابت ہوتا ہے۔ باپ اور اس کا کلام یعنی اس کی روح اور کلمہ یا کہہ سکتے ہیں : اس کی حیات۔ اس کا جواب کئی طرح دیا جا سکتا ہے۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان (آل عمران : ٥٩) حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی نسل کو مختلف صورتوں سے پیدا کیا تا کہ اپنے اپنی قدرت کاملہ کے کرشمے دکھائے۔ آدم علیہ السلام  کو کسی مرد و زن کے اختلاط کے بغیر پیدا کیا، بی بی حوا کو بغیر عورت کے پیداکیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا) (النساء : ١) ‘اور ان سے ان کی بیوی کو پیدا کیا۔’ عیسی علیہ السلام  کو بغیر مرد کے عورت سے پیدا کیا۔ باقی ساری انسانیت کو مرد و زن سے پیدا کیا۔ آدم و حواi کی تخلیق عیسی علیہ السلام  کی تخلیق سے زیادہ تعجب خیز ہے۔ حوا کی تخلیق آدم کی پسلی سے ہوئی، یہ عیسی کی بطن مریم سے پیدائش کی بہ نسبت زیادہ تعجب خیز ہے۔ آدم علیہ السلام  کی پیدائش دونوں کی پیدائش سے زیادہ عجیب ہے، نیز آپ حوا کی پیدائش کی اصل ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام  کے تخلیق سے مشابہت دے ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ اسے مٹی سے پیدا کرنے پر قادر ہے جب کہ مٹی جنس انسان میں سے بھی نہیںہے۔ کیا وہ ایک عورت کے بطن سے پیدا نہیں کر سکتا ، جب کہ وہ جنس انسان میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام  کو مٹی سے تخلیق کرکے کہا کہ ہو جائیں، تو ہو گئے، جب روح پھونکی۔ اسی طرح عیسی علیہ السلام  میں روح پھونک کر کہا ہو جائیں، وہ ہو گئے۔ جب نفخ روح سے آدم علیہ السلام  کے لاہوت و ناسوت دو اجزا نہیں بنے، بل کہ صرف ناسوت تھے، ایسے ہی عیسی علیہ السلام  بھی صرف ناسوت تھے۔ اس آیت کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ضمن میں نازل کیا ہے، جن کا شان نزول یہ ہے کہ جب نجران کے عیسائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے آکر عیسی علیہ السلام  کے متعلق مناظرہ کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات ناز ل کردیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ حق بات کو واضح کردیا کہ جس میں یہود و نصاری متردد تھے۔ ان دونوں گروہوں کا جھوٹ واضح کرکے فرمایا کہ عیسائی اپنے غلو پر اترے ہوئے ہیں اور یہودی تقصیر پر۔ تو اللہ تعالیٰ نے (سورۃ آل عمران : ٦١۔٦٤) نازل کیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمان باری تعالیٰ پر عمل کرتے ہوئے نصاریئ نجران کو مباہلے کا چیلنج دے دیا۔ عیسائی جان گئے کہ اگر انہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  سے مباہلہ کیا تو اللہ کی لعنت آن لے گی۔ تو انہوں نے ذلیل ہو کر جزیہ ادا کیا ۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے شاہ روم ہرقل کو بھی (سورت آل عمران : ٦٤) خط میں لکھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اس آیت کو کبھی کبھار فجر کی دوسری رکعت میں تلاوت فرماتے اور پہلی رکعت میں (سورت بقرہ : ١٣٦) کی تلاوت فرماتے تھے۔ ان سب دلائل سے عیاں ہوتا ہے کہ عیسی علیہ السلام  اللہ کے بندے ہیں الہ نہیںہے اور آدم علیہ السلام  کی طرح ان کی بھی تخلیق ہوئی ہے۔”
(الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح : ٢/٢٩٣۔٢٩٥)
مشہور مفسر اہل سنت، عماد الدین حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  (٧٠٠۔٧٧١ھ) لکھتے ہیں:
یَقُولُ تَعَالٰی : (إِنَّ مَثَلَ عِیسٰی عِنْدَ اللّٰہِ) فِي قُدْرَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی حَیْثُ خَلَقَہ، مِنْ غَیْرِ أَبٍ (کَمَثَلِ آدَمَ) فَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی خَلَقَہ، مِنْ غَیْرِ أَبٍ وَّلَا أُمٍّ، بَلْ (خَلَقَہ، مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ، کُنْ فَیَکُونُ)، وَالَّذِي خَلَقَ آدَمَ قَادِرٌ عَلٰی خَلْقِ عِیسٰی بِطَرِیقِ الْـأَوْلٰی وَالْـأَحْرٰی، وَإِنْ جَازَ ادِّعَاءُ الْبُنُوَّۃِ فِي عِیسٰی بِکَوْنِہٖ مَخْلُوقًا مِّنْ غَیْرِ أَبٍ، فَجَوَازُ ذَالِکَ فِي آدَمَ بِالطَّرِیقِ الْـأَوْلٰی، وَمَعْلُومٌ بِّالِاتِّفَاقِ أَنَّ ذَالِکَ بَاطِلٌ، فَدَعْوَاہَا فِي عِیسٰی أَشَدُّ بُطْلَانًا وَّأَظْہَرُ فَسَادًا، وَلٰکِنَّ الرَّبَّ، عَزَّ وَجَلَّ، أَرَادَ أَنْ یُّظْہِرَ قُدْرَتَہ، لِخَلْقِہٖ، حِینَ خَلَق آدَمَ لَا مِنْ ذَکَرٍ وَّلَا مِنْ أُنْثٰی؛ وَخَلَقَ حَوَّاءَ مِنْ ذَکَرٍ بِّلَا أُنْثٰی، وَخَلَقَ عِیسٰی مِنْ أُنْثٰی بِلَا ذَکَرٍ کَمَا خَلَقَ بَقِیَّۃَ الْبَرِیَّۃَ مِنْ ذَکَرٍ وَّأُنْثٰی، وَلِہٰذَا قَالَ تَعَالٰی فِي سُورَۃِ مَرْیَمَ : (وَلِنَجْعَلَہ، آیَۃً لِّلنَّاسِ) (مَرْیَمَ : ٢١) .
”اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا کرشمہ بیان کررہا ہے کہ اس نے عیسی علیہ السلام  کو بغیر باپ کے پیدا کیا جیساکہ آدم علیہ السلام  کو بغیر ماں و باپ کے پیدا کیا، بل انہیں مٹی سے پیدا کرکے اپنی ‘کن فیکون ‘قدرت سے زندگی دے۔ جس نے آدم کو پیدا کیا وہ عیسی کو تو بالاولی پیدا کرنے پر قادر ہے۔ نیز اگر عیسی کو بغیر باپ کے پیدا ہو نے کی بنا پر اللہ کا بیٹا قرار دیا جا سکتاہے تو آدم بغیر ماں و باپ کے پیدا ہو نے کی بنا پر بالاولی اللہ کے بیٹے ہوں گے۔ جب آدم علیہ السلام  کے متعلق یہ کہنا بالاتفاق باطل ہے تو عیسی علیہ السلام  کے متعلق ایسا کہنا بالاولیٰ باطل ہوگا، لیکن در حقیقت اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام  کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا، عیسیٰ علیہ السلام  کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور دیگر انسانوں کو ماں باپ سے پیدا کیا۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے سورت مریم میں فرمایا ہے: (وَلِنَجْعَلَہ، آیَۃً لِّلنَّاسِ) (مریم : ٢١) ‘تاکہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام  کو لوگوں کے لیے نشانی بنا دے۔”’
(تفسیر ابن کثیر : ٢/٤٩)
نیز فرماتے ہیں:
قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی فِي سُورَۃِ ‘آلِ عِمْرَانَ’ الَّتِي أُنْزِلَ صَدْرُہَا، وَہُوَ ثَلَاثٌ وَّثَمَانُونَ آیَۃً مِّنْہَا، فِي الرَّدِّ عَلَی النَّصَارٰی، عَلَیْہِمْ لَعَائِنُ اللّٰہِ، الَّذِینَ زَعَمُوا أَنَّ لِلّٰہِ وَلَدًا، تَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یَقُولُونَ عُلُوًّا کَبِیرًا، وَکَانَ قَدْ قَدِمَ وَفْدُ نَجْرَانَ مِنْہُمْ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلُوا یَذْکُرُونَ مَا ہُمْ عَلَیْہِ مِنَ الْبَاطِلِ، مِنَ التَّثْلِیثِ فِي الْـأَقَانِیمِ، وَیَدَّعُونَ بِزَعْمِہِمْ أَنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلَاثَۃٍ، وَہُمُ الذَّاتُ الْمُقَدَّسَۃُ، وَعِیسٰی، وَمَرْیَمُ، عَلَی اخْتِلَافِ فِرَقِہِمْ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ، عَزَّوَجَلَّ، صَدْرَ ہٰذِہِ السُّورَۃِ بَیَّنَ فِیہَا، أَنَّ عِیسٰی عَبْدٌ مِّنْ عِبَادِ اللّٰہِ، خَلَقَہ، وَصَوَّرَہ، فِي الرَّحِمِ، کَمَا صَوَّرَ غَیْرَہ، مِنَ الْمَخْلُوقَاتِ، وَأَنَّہ، خَلَقَہ، مِنْ غَیْرِ أَبٍ، کَمَا خَلَقَ آدَمَ مِنْ غَیْرِ أَبٍ وَّلَا أُمٍّ وَقَالَ لَہ، : کُنْ فَکَانَ، وَبَیَّنَ تَعَالٰی أَصْلَ مِیلَادِ أُمِّہٖ مَرْیَمَ، وَکَیْفَ کَانَ مِنْ أَمْرِہَا، وَکَیْفَ حَمَلَتْ بِوَلَدِہَا عِیسٰی، وَکَذَالِکَ بَسَطَ ذَالِکَ فِي سُورَۃِ مَرْیَمَ .
”اللہ تعالیٰ نے سورت آل عمران کی ابتدائی ٣٣ آیات عیسائیوں کے رد میں اتاری ہیں (ان پر اللہ کی لعنتیں ہیں) جن کا کہنا ہے کہ اللہ کا بیٹا ہے ‘تَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یَقُولُونَ عُلُوًّا کَبِیرًا’ (اللہ تعالیٰ ان کی بہتان بازیوں سے بری ہے۔) ہوا کچھ یوں کہ نجران سے کچھ عیسائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے اور تثلیث جیسے باطل نظریات کا ذکر کرنے لگے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اللہ تعالیٰ تین میں سے تیسرا ہے۔ ان کے فرقوں کے اختلاف کے ساتھ تین الہ یہ ہیں ١۔ذات مقدسہ٢۔ مریم ٣۔ عیسی۔ اللہ تعالیٰ نے سورت کا ابتدائی حصہ نازل کر کے واضح کر دیا کہ عیسی علیہ السلام  بھی اللہ کے بندے ہی ہیں، انہیں بھی ماں مریم کے رحم میں تخلیقی مراحل سے گزارا اور صورت بخشی، جیسے دوسروں کو رحم مادر میں صورت عطا کی۔ بغیر باپ کے پیدا کیا جیسا آدم علیہ السلام  کو ماں باپ کے بغیر پیدا کیا اور انہیں کہا ہو جائیں، ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے مکمل تفصیل بیان کی کہ عیسی علیہ السلام  کی والدہ مریم[ کی پیدائش سے پہلے اور بعد کے احوال کیا تھے؟ ان پرکیا بیتی؟ اور انہیں عیسی علیہ السلام  کا حمل کیسے ٹھہرا؟۔ یہ تفصیل سورت مریم میں بھی ہے۔”
(البدایۃ والنھایۃ : ٢/٤١٦)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.