1,009

فرض و مستحب غسل، غلام مصطفی ظہیر امن پوری


فرض و مستحب غسل

دین اسلام طہارت و نظافت کا دین ہے۔اس نے زندگی کے سفر میں انسان کو کئی حوالے سے غسل کی تاکید کی ہے۔غسل کی کئی قسمیں ہیں،مثلاً فرض و واجب،مسنون و مستحب اور مباح۔آئیے ان سب اقسام کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں،لیکن اس سے پہلے غسل کی تعریف ملاحظہ فرمائیں :
غسل کی تعریف :
وَحَقِیقَۃُ الِاغْتِسَالِ غَسْلُ جَمِیعِ الْـأَعْضَائِ، مَعَ تَمْیِیزِ مَا لِلْعِبَادَۃِ عَمَّا لِلْعَادَۃِ نِیَّۃً ۔
’’حقیقت میں غسل جسم کے سارے اعضا کو اس طرح دھونے کا نام ہے کہ نیت میں یہ فرق موجود ہو کہ غسل عبادت کے لیے کیا جا رہا ہے یا عادت کے طور پر۔‘‘
(فتح الباري : 360/1)
اب ہر قسم کے غسل کی الگ الگ وضاحت پیشِ خدمت ہے :
فرض غسل :
1 اخراجِ منی پر غسل :
منی کے خارج ہونے پر غسل فرض ہو جاتا ہے،خواہ وہ مجامعت کی وجہ سے ہو یا احتلام کی بنا پر،جیسا کہ :
1 فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{وَإِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا} (المائدۃ 5 : 6)
’’اور اگر تم جنبی ہو،تو غسل کرو۔‘‘
2 نیز فرمایا :
{یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا} (النساء 4 : 43)
’’ایمان والو!نشے کی حالت میں نماز کے قریب(مساجد میں)نہ جاؤ،حتی کہ جو تم کہہ رہے ہو،اس کا تمہیں ادراک ہونے لگے،اور نہ جنابت کی حالت میں، حتی کہ غسل کر لو،الا یہ کہ تم نے صرف راستہ عبور کرنا ہو۔‘‘
یہ آیات امامِ بخاری رحمہ اللہ نے وجوب ِغسل کے اثبات کے لیے پیش کی تھیں، اس کے تحت شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-771ھ) فرماتے ہیں :
قَالَ الْکَرْمَانِيُّ : غَرَضُہٗ بَیَانُ أَنَّ وُجُوبَ الْغُسْلِ عَلَی الْجُنُبِ مُسْتَفَادٌ مِنَ الْقُرْآنِ، قُلْتُ : وَقَدَّمَ الْآیَۃَ الَّتِي مِنْ سُورَۃِ الْمَائِدَۃِ عَلَی الْآیَۃِ الَّتِي مِنْ سُورَۃِ النِّسَائِ لِدَقِیقَۃٍ؛ وَہِيَ أَنَّ لَفْظَ الَّتِي فِی الْمَائِدَۃِ {فَاطَّھَّرُوْا} فَفِیہَا إِجْمَالٌ، وَلَفْظَ الَّتِي فِي النِّسَائِ {حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا} فَفِیہَا تَصْرِیحٌ بِالِاغْتِسَالِ، وَبَیَانٌ لِّلتَّطْہِیرِ الْمَذْکُورِ، وَدَلَّ عَلٰی أَنَّ الْمُرَادَ بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {فَاطَّھَّرُوْا} فَاغْتَسِلُوا، قَوْلُہٗ تَعَالٰی فِي الْحَائِضِ : {وَلَا تَقْرَبُوھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ فَاِذَا تَطَھَّرْنَ} أَيِ اغْتَسَلْنَ اتِّفَاقًا ۔
’’کرمانی کہتے ہیں : امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ جنبی پر غسل کا وجوب قرآنِ کریم سے ثابت ہے۔میں(ابن حجر)کہتا ہوں: امام صاحب نے سورۂ مائدہ والی آیت کو سورۂ نسا والی آیت سے پہلے ذکر کیا ہے،اس میں ایک باریک نکتہ ہے۔وہ یہ کہ سورۂ مائدہ کا لفظ {فَاطَّھَّرُوْا} (طہارت حاصل کرو) مجمل ہے،جبکہ سورۂ نسا کے لفظ {حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا}(حتی کہ تم غسل کر لو) میں غسل کی صراحت اور مذکورہ طہارت کی وضاحت ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرمانِ باری تعالیٰ{فَاطَّھَّرُوْا}کی یہی مراد ہے کہ غسل کرو،جیسا کہ حائضہ عورت کے بارے میں فرمانِ باری تعالیٰ {وَلَا تَقْرَبُوھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ فَاِذَا تَطَھَّرْنَ} (تم ان کے قریب نہ جاؤ،حتی کہ وہ طہارت حاصل کر لیں،جب وہ خوب پاک ہو جائیں)سے مراد اتفاقی طور پر یہی ہے کہ وہ غسل کر لیں۔‘‘(فتح الباري : 359/1)
مشہور لغوی،علامہ ابن اثیر،جزری رحمہ اللہ (606-544ھ)جنبی کی تعریف میں لکھتے ہیں :
اَلْجُنُبُ الَّذِي یَجِبُ عَلَیْہِ الْغُسْلُ بِالْجِمَاعِ وَخُرُوجِ الْمَنِيِّ ۔
’’جنبی وہ ہے،جس پر مجامعت اور منی کے خروج کی وجہ سے غسل واجب ہو جائے۔‘‘(النہایۃ في غریب الحدیث والأثر : 302/1)
3 ام المومنین،سیدہ امِ سلمہrبیان کرتی ہیں کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی زوجہ سیدہ امِ سُلَیْمrنے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ حق بیان کرنے سے حیا نہیں کرتا۔فرمائیے کہ جب عورت کو احتلام ہو جائے،تو کیا اس پر غسل فرض ہوتا ہے۔اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’نَعَمْ، إِذَا رَأَتِ الْمَائَ‘ ۔
’’ہاں،جب وہ پانی دیکھے۔‘‘(صحیح البخاري : 282، صحیح مسلم : 313)
4 سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : مجھے بہت زیادہ مذی(بوسہ یا مداعبت کے باعث بلا ارادہ پیشاب کی نالی سے نکلنے والا مادہ) آتی تھی۔میں نے اس کے خروج پر غسل کرنا شروع کر دیا۔اس سے میری کمر میں درد نکلنے لگا۔میں نے اس سلسلے میں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’لَا تَفْعَلْ، إِذَا رَأَیْتَ الْمَذْيَ؛ فَاغْسِلْ ذَکَرَکَ، وَتَوَضَّأْ وُضُوئَکَ لِلصَّلَاۃِ، فَإِذَا فَضَخْتَ الْمَاء َ؛ فَاغْتَسِلْ‘ ۔
’’آپ غسل نہ کیا کریں،بلکہ جب مذی دیکھیں،تو اپنی شرمگاہ کو دھو لیں اور نماز والا وضو کر لیں اور جب منی خارج ہو،تو پھر غسل کیا کریں۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 206، سنن النسائي : 193، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(20)اور امام ابن حبان(193) نے ’’صحیح‘‘کہا ہے۔
5 سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک حدیث کے الفاظ یوں ہیں :
’إِذَا خَذَفْتَ؛ فَاغْتَسِلْ مِنَ الْجَنَابَۃِ، وَإِذَا لَمْ تَکُنْ خَاذِفًا؛ فَلَا تَغْتَسِلْ‘ ۔
’’جب منی خارج ہو،تو غسل جنابت کریں اور جب ایسا نہ ہو،تو غسل نہ کریں۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 107/1، وسندہٗ حسنٌ)
ان دونوں حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر احتلام محسوس ہو اور منی خارج نہ ہو، تو غسل واجب نہیں ہوتا،لیکن اگر نیند سے بیدار ہونے پر تری محسوس ہو،لیکن احتلام کے بارے میں یاد نہ ہو،تو غسل فرض ہو جاتا ہے۔اس حکم میں مردوزن برابر ہیں۔
6 سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
ہُوَ الْمَنِيُّ وَالْمَذْيُ وَالْوَدْيُ، فَأَمَّا الْمَذْيُ وَالْوَدْيُ؛ فَإِنَّہٗ یَغْسِلُ ذَکَرَہٗ وَیَتَوَضَّأُ، وَأَمَّا الْمَنِيُّ؛ فَفِیہِ الْغُسْلُ ۔
’’(مرد کی شرمگاہ سے خارج ہونے والے پانی)منی،مذی اور ودی(پیشاب کے بعد نکلنے والا سفید اور رقیق مادہ)ہیں۔مذی اور ودی خارج ہونے کی صورت میں شرمگاہ کو دھو کر وضو کر لیا جائے اور منی کے خروج پر غسل کرنا ضروری ہے۔‘‘
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 47/1، وسندہٗ صحیحٌ)
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہُوَ قَوْلُ عَامَّۃِ أَہْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ وَالتَّابِعِینَ، وَبِہٖ یَقُولُ سُفْیَانَ وَالشَّافِعِيِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ ۔
’’اکثر اہل علم صحابہ کرام اور تابعین کا یہی قول ہے ،نیز امام سفیان،امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ کا یہی فتویٰ ہے۔‘‘
(سنن الترمذي، تحت الحدیث : 114)
منی کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے :
’إِنَّ مَائَ الرَّجُلِ غَلِیظٌ أَبْیَضُ، وَمَائُ الْمَرْأَۃِ رَقِیقٌ أَصْفَرُ‘ ۔
’’مرد کا پانی گاڑھا سفید ہوتا ہے،جبکہ عورت کا پانی پتلا زرد ہوتا ہے۔‘‘
(صحیح مسلم : 311)
الحاصل منی خارج ہونے سے غسل فرض ہو جاتا ہے،خواہ وہ خروج جماع کرنے سے ہو یا احتلام وغیرہ سے۔
2 مجامعت پر غسل :
1 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’إِذَا جَلَسَ أَحَدُکُمْ بَیْنَ شُعَبِہَا الْـأَرْبَعِ، ثُمَّ جَہَدَہَا، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ‘ ۔
’’جب تم میں سے کوئی عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھے،پھر زور لگائے،تو غسل فرض ہو جاتا ہے۔‘‘
(صحیح البخاري : 291، صحیح مسلم : 348/87)
صحیح مسلم اور مسند احمد(348/2) میں یہ الفاظ بھی ہیں :
وَإِنْ لَّمْ یَنْزِلْ ۔ ’’اگرچہ انزال نہ بھی ہو۔‘‘
2 ام المومنین،سیدہ عائشہrسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’إِذَا جَلَسَ بَیْنَ شُعَبِہَا الْـأَرْبَعِ، وَمَسَّ الْخِتَانُ الْخِتَانَ؛ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ‘ ۔
’’جب کوئی عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھے اور ختنہ ختنے سے مل جائے، تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم : 349)
ختنے سے ختنہ ملنے کی مراد واضح کرتے ہوئے حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَقَالَ الْعُلَمَائُ : مَعْنَاہُ غَیَّبْتَ ذَکَرَکَ فِي فَرْجِہَا ۔
’’علمائِ کرام کہتے ہیں : اس کا معنیٰ یہ ہے کہ مرد کی شرمگاہ عورت کی شرمگاہ میں غائب ہو جائے۔‘‘(شرح صحیح مسلم : 42/4)
نیز فرماتے ہیں :
وُجُوبُ الْغُسْلِ وَجَمِیعُ الْـأَحْکَامِ الْمُتَعَلِّقَۃِ بِالْجِمَاعِ؛ یُشْتَرَطُ فِیہَا تَغْیِیبُ الْحَشَفَۃِ بِکَمَالِہَا فِي الْفَرْجِ، وَلَا یُشْتَرَطُ زِیَادَۃٌ عَلَی الْحَشَفَۃِ، وَلَا یَتَعَلَّقُ بِبَعْضِ الْحَشَفَۃِ وَحْدَہٗ شَيْئٌ مِّنَ الْـأَحْکَامِ ۔
’’غسل کے فرض ہونے اور جماع کے متعلقہ تمام احکام کے لاگو ہونے کے لیے شرط ہے کہ مرد کا حشفہ مکمل طور پر عورت کی فرج میں غائب ہو جائے۔ نہ حشفہ سے زیادہ دخول شرط ہے،نہ حشفہ کے بعض حصے کا کسی حکم سے کوئی تعلق ہے۔‘‘
(المجموع شرح المہذّب : 133/2)
3 سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ، أَنَّ الْفُتْیَا الَّتِي کَانُوا یُفْتُونَ، أَنَّ الْمَائَ مِنَ الْمَائِ، کَانَتْ رُخْصَۃً رَّخَّصَہَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي بَدْئِ الْإِسْلَامِ، ثُمَّ أَمَرَ بِالِاغْتِسَالِ بَعْدُ ۔
’’مجھے اُبَی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ اہل علم جو یہ فتویٰ دیتے تھے کہ پانی (غسل) پانی(خروجِ منی)سے ہی فرض ہوتا ہے،دراصل یہ رخصت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائِ اسلام میں دی تھی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دخول پر ہی) غسل کا حکم دے دیا۔‘‘(سنن أبي داوٗد : 215، وسندہٗ صحیحٌ)
4 حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اِعْلَمْ أَنَّ الْـأُمَّۃَ مُجْتَمِعَۃٌ الْآنَ عَلٰی وُجُوبِ الْغُسْلِ بِالْجِمَاعِ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ مَّعَہٗ إِنْزَالٌ، وَعَلٰی وُجُوبِہٖ بِالْإِنْزَالِ کَانَ جَمَاعَۃٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ عَلٰی أَنَّہٗ لَا یَجِبُ إِلاَّ بِالْإِنْزَالِ، ثُمَّ رَجَعَ بَعْضُہُمْ وَانْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ بَعْدَ الْـآخَرِینَ ۔
’’جان لیجیے کہ اب امت ِمسلمہ جماع کی وجہ سے غسل کے واجب ہونے پر متفق ہے،اگرچہ انزال نہ بھی ہوا ہو۔صحابہ کرام کی ایک جماعت یہ کہتی تھی کہ غسل صرف انزال کی وجہ سے فرض ہوتا ہے،لیکن ان میں سے کچھ نے اس بات سے رجوع بھی کر لیا تھا اور بعد میں اس پر اجماع ہو گیا تھا۔‘‘
(شرح صحیح مسلم : 36/4)
3 حیض کے بعد غسل :
1 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{وَیَسْاَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیضِ قُلْ ھُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَائَ فِی الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ فَاِذَا تَطَھَّرْنَ فَاْتُوھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِینَ ٭} (البقرۃ 2 : 222)
’’(اے نبی!)وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔آپ کہہ دیجیے کہ یہ نجاست ہے۔حیض میں عورتوں (کے ساتھ جنسی تعلق)سے دُور رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں،(جماع کی نیت سے)ان کے قریب نہ جاؤ۔جب وہ غسل کر لیں،تو جیسے اللہ نے حکم دیا ہے،ان کے پاس آؤ۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ــ‘‘
2 ام المومنین،سیدہ عائشہrسے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت ِابو حُبَیْشr کو استحاضہ کا خون آتا تھا۔انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’إِنَّمَا ذٰلِکِ عِرْقٌ، وَلَیْسَ بِحَیْضٍ، فَإِذَا أَقْبَلَتْ حَیْضَتُکِ؛ فَدَعِي الصَّلاَۃَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ؛ فَاغْسِلِي عَنْکِ الدَّمَ، ثُمَّ صَلِّي‘ ۔
’’یہ رَگ کا خون ہے،حیض نہیں۔جب آپ کو حیض آئے،تو نماز کو چھوڑ دیجیے اور جب حیض ختم ہو جائے،تو غسل کر کے نماز ادا کیجیے۔‘‘
(صحیح البخاري : 228، صحیح مسلم : 333)
4 نفاس کے بعد غسل :
حائضہ اور نفاس والی عورت کا حکم ایک ہی ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فَأَجْمَعَ الْعُلَمَائُ عَلٰی وُجُوبِ الْغُسْلِ بِسَبَبِ الْحَیْضِ وسَبَبِ النِّفَاسِ، وَمِمَّنْ نَّقَلَ الْإِجْمَاعَ فِیہَا؛ ابْنُ الْمُنْذِرِ وَابْنُ جَرِیرٍ الطَّبَرِيُّ وَآخَرُونَ ۔
’’علماء ِکرام کا حیض اور نفاس کی وجہ سے غسل فرض ہونے پر اجماع ہے۔جن اہل علم نے اس بارے میں اجماع نقل کیا ہے،ان میں امام ابن منذر،امام ابن جریر طبری اور دیگر شامل ہیں۔‘‘(المجموع شرح المہذّب : 148/2)
5 میت کا غسل :
اس غسل کے بارے میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَجِبُ عَلَی الْـأَحْیَائِ، إِذْ لَا وُجُوبَ بَعْدَ الْمَوْتِ مِنَ الْوَاجِبَاتِ الْمُتَعَلِّقَۃِ بِالْبَدَنِ ۔
’’یہ زندہ لوگوں پر فرض ہے،کیونکہ موت کے بعد بدن کے متعلقہ واجبات میں سے کوئی چیز واجب نہیں ہوتی۔‘‘(الدراريّ المضیّۃ : 70/1)
1 سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
بَیْنَمَا رَجُلٌ وَّاقِفٌ مَّعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَۃَ، إِذْ وَقَعَ مِنْ رَّاحِلَتِہٖ، فَأَقْصَعَتْہُ، أَوْ قَالَ : فَأَقْعَصَتْہُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’اغْسِلُوہُ بِمَائٍ وَّسِدْرٍ‘ ۔
’’ایک صحابی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفہ میں کھڑے تھے کہ اچانک اپنی سواری سے گر گئے اور موقع پر ہی فوت ہو گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا : انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دیں۔‘‘
(صحیح البخاري : 1266، صحیح مسلم : 1206)
2 سیدہ امِ عطیہr کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فوت ہوئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابیات سے فرمایا :
’اِغْسِلْنَہَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ، إِنْ رَأَیْتُنَّ، بِمَائٍ وَّسِدْرٍ‘ ۔
’’انہیں پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ تین یا پانچ یا ضروری سمجھیں تو اس سے بھی زیادہ دفعہ غسل دیں۔‘‘(صحیح البخاري : 1253، صحیح مسلم : 939)
3 امام ابن منذر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَأَجْمَعُوا أَنَّ الْمَیِّتَ یُغَسَّلُ غُسْلَ الْجَنَابَۃِ ۔
’’امت ِمسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ میت کو غسلِ جنابت کی طرح غسل دیا جائے گا۔‘‘(الإجماع، ص : 42)
مستحب غسل :
1 قبولِ اسلام پر غسل :
جب کوئی کافر مسلمان ہو جائے، تو اس پر غسل کرنا مستحب ہے،جیسا کہ :
n سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إِنَّ ثُمَامَۃَ الْحَنَفِيَّ أَسْلَمَ، فَأَمَرَہٗ أَنْ یَّغْتَسِلَ، فَاغْتَسَلَ وَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’لَقَدْ حَسُنَ إِسْلَامُ أَخِیکُمْ‘ ۔
’’سیدنا ثمامہ حنفی رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غسل کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے غسل کیا اور دورکعت نماز ادا کی۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: تمہارے بھائی کا اسلام بہترین ہو گیا ہے۔‘‘
(مصنّف عبد الرزّاق : 318/10، ح : 19226، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن جارود (15)اور امام ابنِ خزیمہ (253)نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
2 جمعۃ المبارک کے دن غسل :
جمعہ کے دن غسل کرنا مستحب ہے،جیسا کہ :
1 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’إِذَا جَائَ أَحَدُکُمُ الْجُمُعَۃَ؛ فَلْیَغْتَسِلْ‘ ۔
’’جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھنے آئے،تو غسل کر کے آئے۔‘‘
(صحیح البخاري : 877، صحیح مسلم : 844)
2 سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’غُسْلُ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍ‘ ۔
’’جمعہ کے دن غسل ہر بالغ مسلمان پر واجب(متاکد)ہے۔‘‘
(صحیح البخاري : 879، صحیح مسلم : 846)
3 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’لِلّٰہِ تَعَالٰی عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ حَقٌّ أَنْ یَّغْتَسِلَ فِي کُلِّ سَبْعَۃِ أَیَّامٍ یَوْمًا‘ ۔
’’اللہ تعالیٰ کا ہر مسلمان پر حق ہے کہ وہ ہر سات دنوں میں ایک دن غسل کرے۔‘‘(صحیح البخاري : 898، صحیح مسلم : 849)
ان احادیث کا معنیٰ درجِ ذیل احادیث وآثار سے واضح ہو جاتا ہے :
4 ام المومنین،سیدہ عائشہr فرماتی ہیں :
کَانَ النَّاسُ یَنْتَابُونَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ مِنْ مَّنَازِلِہِمْ وَالعَوَالِيِّ، فَیَأْتُونَ فِي الْغُبَارِ یُصِیبُہُمُ الْغُبَارُ وَالْعَرَقُ، فَیَخْرُجُ مِنْہُمُ الْعَرَقُ، فَأَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنْسَانٌ مِّنْہُمْ، وَہُوَ عِنْدِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’لَوْ أَنَّکُمْ تَطَہَّرْتُمْ لِیَوْمِکُمْ ہٰذَا‘ ۔
’’لوگ جمعہ کے دن اپنے گھروں اور دُور کے علاقوں سے گرد وغبار سے گزر کر آتے تھے۔وہ گرد وغبار میں اَٹے ہوتے تھے اور پسینے سے شرابور ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے پاس تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم اس دن کے لیے غسل کرتے (تو اچھا ہوتا)۔‘‘(صحیح البخاري : 902، صحیح مسلم : 847)
5 سیدہ عائشہr ہی سے روایت ہے :
کَانَ النَّاسُ مَہَنَۃَ أَنْفُسِہِمْ، وَکَانُوا إِذَا رَاحُوا إِلَی الْجُمُعَۃِ؛ رَاحُوا فِي ہَیْئَتِہِمْ، فَقِیلَ لَہُمْ : ’لَوِ اغْتَسَلْتُمْ‘ ۔
’’صحابہ کرام محنت و مزدوری کرنے والے لوگ تھے،جب وہ جمعہ کے لیے آتے،تو اپنی اسی حالت میں آتے۔اس پر انہیں یہ فرمایا گیا کہ اگر تم غسل کرو، تو بہتر ہے۔‘‘(صحیح البخاري : 903، صحیح مسلم : 847)
6 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، بَیْنَمَا ہُوَ قَائِمٌ فِي الْخُطْبَۃِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِّنَ الْمُہَاجِرِینَ الْـأَوَّلِینَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَنَادَاہُ عُمَرُ : أَیَّۃُ سَاعَۃٍ ہٰذِہٖ؟ قَالَ : إِنِّي شُغِلْتُ، فَلَمْ أَنْقَلِبْ إِلٰی أَہْلِي حَتّٰی سَمِعْتُ التَّأْذِینَ، فَلَمْ أَزِدْ أَنْ تَوَضَّأْتُ، فَقَالَ : وَالْوُضُوئُ أَیْضًا، وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَأْمُرُ بِالْغُسْلِ ۔
’’سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ مہاجرینِ اوّلین میں سے ایک صحابی مسجد میں داخل ہوئے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں پکارا : یہ کون سا وقت ہے؟انہوں نے کہا : میں کام میں مصروف تھا اور گھر لوٹا ہی تھا کہ اذان سنی،صرف وضو ہی کیا اور آ گیا۔فرمایا : اور کیا بھی صرف وضو،جبکہ آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو غسل کا حکم فرماتے تھے۔‘‘
(صحیح البخاري : 878، صحیح مسلم : 845)
7 سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’مَنْ تَوَضَّأَ؛ فَبِہَا وَنَعِمَتْ، وَیُجْزِیُٔ مِنَ الْفَرِیضَۃِ، وَمَنِ اغْتَسَلَ؛ فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ‘ ۔
’’جو شخص وضو کرے،اس نے سنت کو لیا اور یہ سنت اچھی ہے اور اس کا فرض بھی ادا ہو گیا،لیکن جو شخص غسل کرے،تو یہ عمل زیادہ بہترہے۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 295/1، وسندہٗ حسنٌ)
8 سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’مَنْ تَوَضَّأَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ؛ فَبِہَا وَنَعِمَتْ، وَمَنِ اغْتَسَلَ؛ فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ‘ ۔
’’جو شخص جمعہ کے دن وضو کرتا ہے،وہ سنت پر عمل کرتا ہے اور یہ اچھی سنت ہے، لیکن جو شخص غسل کرتا ہے،اس کا عمل زیادہ اچھا ہے۔‘‘
(مسند علي بن الجعد : 986، مسند الإمام أحمد : 11/5، 22، سنن أبي داوٗد : 354، سنن النسائي : 1381، سنن الترمذي : 497، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن‘‘،جبکہ امام ابن جارود(285) اور امام ابن خزیمہ(1757)Hنے ’’صحیح‘‘کہا ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ (شرح صحیح مسلم : 133/6)نے اسے ’’حسن‘‘ اور حافظ بوصیری (اتحاف : 268/2)نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
امام قتادہ رحمہ اللہ سے امام شعبہ رحمہ اللہ بیان کریں،تو’’تدلیس‘‘کا مسئلہ رفع ہو جاتا ہے۔ جبکہ حسن بصری رحمہ اللہ ،سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی کتاب سے بیان کرتے ہیں۔
9 عکرمہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ أُنَاسًا مِّنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ جَائُوا، فَقَالُوا : یَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَتَرَی الْغُسْلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَاجِبًا ؟ قَالَ : لَا، وَلٰکِنَّہٗ أَطْہَرُ، وَخَیْرٌ لِّمَنِ اغْتَسَلَ، وَمَنْ لَّمْ یَغْتَسِلْ؛ فَلَیْسَ عَلَیْہِ بِوَاجِبٍ، وَسَأُخْبِرُکُمْ کَیْفَ بَدْئُ الْغُسْلِ، کَانَ النَّاسُ مَجْہُودِینَ یَلْبَسُونَ الصُّوفَ وَیَعْمَلُونَ عَلٰی ظُہُورِہِمْ، وَکَانَ مَسْجِدُہُمْ ضَیِّقًا مُّقَارِبَ السَّقْفِ، إِنَّمَا ہُوَ عَرِیشٌ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي یَوْمٍ حَارٍّ، وَعَرِقَ النَّاسُ فِي ذٰلِکَ الصُّوفِ، حَتّٰی ثَارَتْ مِنْہُمْ رِیَاحٌ، آذٰی بِذٰلِکَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا، فَلَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تِلْکَ الرِّیحَ؛ قَالَ : ’أَیُّہَا النَّاسُ، إِذَا کَانَ ہٰذَا الْیَوْمَ فَاغْتَسِلُوا، وَلْیَمَسَّ أَحَدُکُمْ أَفْضَلَ مَا یَجِدُ مِنْ دُہْنِہٖ وَطِیبِہٖ‘، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : ثُمَّ جَائَ اللّٰہُ بِالْخَیْرِ وَلَبِسُوا غَیْرَ الصُّوفِ، وَکُفُوا الْعَمَلَ، وَوُسِّعَ مَسْجِدُہُمْ، وَذَہَبَ بَعْضُ الَّذِي کَانَ یُؤْذِي بَعْضُہُمْ بَعْضًا مِّنَ الْعَرَقِ ۔
’’اہل عراق میں سے کچھ لوگ آئے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہنے لگے : ابن عباس! کیا آپ جمعہ کے دن غسل کو واجب سمجھتے ہیں؟انہوں نے فرمایا : نہیں، لیکن یہ زیادہ پاکیزگی کا سبب ہے اور زیادہ بہتر ہے۔جو شخص غسل نہ کرے، اس پر فرض نہیں۔میں تمہیں بتاتا ہوں کہ غسل کیسے شروع ہوا؟ لوگ کام میں انتہائی مصروف تھے،اون کے کپڑے پہنے کمر پر بوجھ اٹھاتے تھے۔ان کی مسجد تنگ تھی اور اس کی چھت نیچی تھی اور وہ تھا بھی چھپر۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سخت گرمی والے دن تشریف لائے،لوگ اون کے کپڑوں میں پسینے سے شرابور تھے اور ان سے پسینے کی بدبو کے ببوکے اٹھ رہے تھے جس سے ایک دوسرے کو تکلیف ہو رہی تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بدبو محسوس کی، تو فرمایا : لوگو! جب جمعہ کا دن ہو،تو غسل کر لیا کرو اور ہر شخص کے پاس جو تیل اور خوشبو ہو،لگا لیا کرے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ اچھے دن لے آیا، لوگوں نے اونی کپڑے پہننا چھوڑ دیے،ان کا کام بھی ہلکا ہو گیا،ان کی مسجد بھی وسیع ہو گئی اور پسینے کی وجہ سے جو ایک دوسرے کو تکلیف ہوتی تھی،وہ بھی تقریباً ختم ہو گئی۔‘‘(سنن أبي داوٗد : 353، المعجم الکبیر للطبراني : 219/11، شرح معاني الآثار للطحاوي : 116/1، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1755) نے ’’صحیح‘‘ اور امام حاکم رحمہ اللہ (280/1، 189/4) نے ’’امام بخاری کی شرط پر صحیح‘‘قرار دیا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس بارے میں ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘کہا ہے۔(فتح الباري : 362/2)
0 سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
مِنَ السُّنَّۃِ الْغُسْلُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ ۔ ’’جمعہ کے دن غسل کرنا سنت ہے۔‘‘
(مسند البزّار [کشف الأستار : 627]، وسندہٗ حسنٌ)
3 عیدین کا غسل :
1 زاذان ابوعمر تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
سَأَلَ رَجُلٌ عَلِیًّا عَنِ الْغُسْلِ، قَالَ : اغْتَسِلْ کُلَّ یَوْمٍ إِنْ شِئْتَ، فَقَالَ : لَا، الْغُسْلُ الَّذِي ہُوَ الْغُسْلُ، قَالَ : یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، وَیَوْمَ عَرَفَۃَ، وَیَوْمَ النَّحْرِ، وَیَوْمَ الْفِطْرِ ۔
’’ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے غسل کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا : چاہو تو ہر روز غسل کر لیا کرو۔اس نے عرض کیا : نہیں، وہ غسل جو شرعی غسل ہے۔فرمایا : جمعہ کے دن،عرفہ کے دن،قربانی کے دن اور عید الفطر کے دن۔‘‘(السنن الکبرٰی للبیہقي : 278/3، وسندہٗ حسنٌ)
2 نافع تابعی رحمہ اللہ کا بیان ہے :
إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ یَغْتَسِلُ یَوْمَ النَّحْرِ، قَبْلَ أَنْ یَّغْدُوَ إِلَی الْمُصَلّٰی ۔
’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قربانی والے دن عیدگاہ جانے سے پہلے غسل فرماتے تھے۔‘‘(المؤطّأ للإمام مالک : 177/1، وسندہٗ صحیحٌ)
4 یوم عرفہ کا غسل :
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یومِ عرفہ کے دن غسل کو مشروع قرار دیا ہے،جیسا کہ گزشتہ سے پیوستہ روایت میں بیان کیا جا چکا ہے۔
5 احرام باندھنے کا غسل :
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّہٗ رَأَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَجَرَّدَ لِإِہْلَالِہٖ وَاغْتَسَلَ ۔
’’انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کے لیے کپڑے اتار کر غسل فرمایا۔‘‘(سنن الترمذي : 830، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔(الصحیح : 2595)
اس کا راوی عبد اللہ بن یعقوب مدنی ’’حسن الحدیث‘‘ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وَقَدِ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ مِّنْ أَہْلِ الْعِلْمِ الِاغْتِسَالَ عِنْدَ الْإِحْرَامِ، وَبِہٖ یَقُولُ الشَّافِعِيُّ ۔
’’اہل علم کا ایک گروہ احرام کے وقت غسل کو مستحب سمجھتا ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔‘‘
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اِتَّفَقَ الْعُلَمَائُ عَلٰی أَنَّہٗ یُسْتَحَبُّ الْغُسْلُ عِنْدَ إرَادَۃِ الْإِحْرَامِ بِحَجٍّ أَوْ عُمْرَۃٍ أَوْ بِہِمَا، سَوَائٌ کَانَ إِحْرَامُہٗ مِنَ الْمِیقَاتِ الشَّرْعِيِّ أَوْ غَیْرِہٖ ۔
’’علماء ِکرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حج یا عمرہ یا دونوں کا اکٹھا احرام باندھتے وقت غسل کرنا مستحب ہے۔چاہے احرام میقات ِشرعی سے باندھا جائے یا کسی اور جگہ سے۔‘‘(المجموع شرح المہذّب : 212/3)
نیز حافظ ابن منذر رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أَجْمَعَ عَوَّامُ أَہْلِ الْعِلْمِ عَلٰی أَنَّ الْإِحْرَامَ بِغَیْرِ غُسْلٍ جَائِزٌ، وَأَجْمَعُوا عَلٰی أَنَّ الْغُسْلَ لِلْإِحْرَامِ لَیْسَ بِوَاجِبٍ ۔
’’اکثر اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ غسل کے بغیر احرام باندھنا جائز ہے اور اس بات پر بھی اجماع ہے کہ احرام کے لیے غسل فرض وواجب نہیں۔‘‘
(المجموع شرح المہذّب : 212/7)
6 مکہ میں داخل ہوتے وقت غسل :
n نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
کَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا إِذَا دَخَلَ أَدْنَی الْحَرَمِ أَمْسَکَ عَنِ التَّلْبِیَۃِ، ثُمَّ یَبِیتُ بِذِي طُوًی، ثُمَّ یُصَلِّي بِہِ الصُّبْحَ، وَیَغْتَسِلُ، وَیُحَدِّثُ أَنَّ نَبِيَّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَفْعَلُ ذٰلِکَ ۔
’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب حرم کی حدود میں داخل ہوتے، تو تلبیہ سے رُک جاتے،پھر ذی طویٰ مقام پر رات گزارتے،پھر وہیں صبح کی نماز ادا کرتے اور غسل کرتے۔یہ بیان بھی کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘(صحیح البخاري : 1573، صحیح مسلم : 1259)
n نافع تابعی رحمہ اللہ ہی کا بیان ہے :
إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ إِذَا دَنَا مِنْ مَکَّۃَ؛ بَاتَ بِذِي طُوًی بَیْنَ الثَّنِیَّتَیْنِ، حَتّٰی یُصْبِحَ، ثُمَّ یُصَلِّي الصُّبْحَ، ثُمَّ یَدْخُلُ مِنَ الثَّنِیَّۃِ الَّتِي بِأَعْلٰی مَکَّۃَ، وَلَا یَدْخُلُ إِذَا خَرَجَ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا، حَتّٰی یَغْتَسِلَ، قَبْلَ أَنْ یَّدْخُلَ مَکَّۃَ، إِذَا دَنَا مِنْ مَّکَّۃَ بِذِي طُوًی، وَیَأْمُرُ مَنْ مَّعَہٗ، فَیَغْتَسِلُونَ قَبْلَ أَنْ یَّدْخُلُوا ۔
’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب مکہ کے قریب پہنچتے،تو ذی طویٰ میں دو گھاٹیوں کے درمیان رات گزارتے،پھر صبح کی نماز پڑھتے،پھر اس گھاٹی سے داخل ہوتے،جو مکہ کی بالائی جانب ہے۔جب حج یا عمرہ کے لیے جا رہے ہوتے، تو مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ذی طویٰ مقام پر غسل ضرور کرتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی حکم فرماتے اور وہ بھی مکہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کر لیتے تھے۔‘‘(المؤطّأ للإمام مالک : 324/1، وسندہٗ صحیحٌ)
b شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ : الِاغْتِسَالُ عِنْدَ دُخُولِ مَکَّۃَ مُسْتَحَبٌّ عِنْدَ جَمِیعِ الْعُلَمَائِ، وَلَیْسَ فِي تَرْکِہٖ عَنْدَہُمْ فِدْیَۃٌ، وَقَالَ أَکْثَرُہُمْ : یُجْزِیُٔ عَنْہُ الْوُضُوئُ ۔
’’امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تمام اہل علم کے نزدیک مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت غسل کرنا مستحب ہے۔اس کو ترک کرنے کی بنا پر ان کے نزدیک کوئی فدیہ لازم نہیں ہوتا اور اکثر اہل علم کے بقول اس غسل سے وضو کفایت کرتا ہے۔‘‘(فتح الباري : 435/3)
7 میت کو غسل دینے والے کے لیے غسل :
میت کو غسل دینے والے کے لیے بھی غسل کرنا مستحب ہے،جیسا کہ :
1 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ، وَمَنْ حَمَلَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ‘ ۔
’’جو شخص میت کو غسل دے ، وہ خود بھی غسل کرے اور جو میت کو کندھا دے ، وہ وضو کرے۔‘‘
(سنن الترمذي : 933، وقال : حسنٌ، سنن ابن ماجہ : 1463، السنن الکبرٰی للبیہقي : 301/10، وصحّحہ ابن حبان : 1161، وسندہٗ حسنٌ)
اس کے راوی سہیل بن ابی صالح کے متعلق حافظ منذری رحمہ اللہ (656ھ)لکھتے ہیں:
وَثَّقَہُ الْجُمْہُورُ ۔ ’’اسے جمہور محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے۔‘‘
(الترغیب والترھیب : 110/3)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ثقہ‘‘ قرار دیا ہے۔(المغني في الضعفاء : 455/1)
نیز فرماتے ہیں: وَثَّقَہُ نَاسٌ ۔
’’اسے بہت سے لوگوں نے ثقہ قرار دیا ہے۔‘‘
(الکاشف في معرفۃ من لہ روایۃ في الکتب الستّۃ : 327/2)
2 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ، وَمَنْ حَمَلَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ‘ ۔
’’جو شخص میت کو غسل دے ، وہ خود بھی غسل کرے اور جو میت کو کندھا دے ، وہ وضو کرے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 269/3، مسند الإمام أحمد : 433/2، 454، مسند الطیالسي : 305/2، الجعدیات لأبي القاسم البغوي : 987,986/2، وسندہٗ حسنٌ)
مسند طیالسی وغیرہ میں یہ الفاظ بھی ہیں:
’وَمَنْ حَمَلَ جَنَازَۃً فَلْیَتَوَضَّأْ‘ ۔
’’جو شخص جنازے کو اٹھائے ، وہ وضو کرے۔‘‘
صالح مولی التوأمہ ، یعنی صالح بن نبہان مدنی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ثقہ‘‘ ہے۔اس پر جرح اس وقت پر محمول ہے جب وہ اختلاط کا شکار ہو گیا تھا۔
امام علی بن مدینی(سؤالات محمد بن عثمان، ص : 87,86)، امام یحییٰ بن معین(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 56/4، وسندہٗ حسنٌ)،حافظ جوزجانی(الشجرۃ في أحوال الرجال، ص : 144) اور امام ابن عدی(الکامل : 58/4) رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ ابن ابو ذئب نے صالح مولی التوأمہ سے اختلاط سے پہلے سماع کیا ہے۔
حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ (852-773ھ)لکھتے ہیں:
وَقَدِ اتَّفَقُوا عَلٰی أَنَّ الثِّقَۃَ إِذَا تُمُیِّزَ مَا حَدَّثَ بِہٖ قَبْلَ اخْتِلَاطِہٖ مِمَّا بَعْدَہٗ، قُبِلَ ۔
’’محدثین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ثقہ(مختلط)راوی کی اختلاط سے پہلے بیان کی ہوئی روایات اس وقت قابل قبول ہو جاتی ہیں جب وہ بعد والی روایات سے ممتاز ہو جائیں۔‘‘(نتائج الأفکار : 268/2)
حافظ موصوف مذکورہ حدیث کے بارے میں خلاصۃً فرماتے ہیں :
وَفِي الْجُمْلَۃِ ہُوَ بِکَثْرَۃِ طُرُقِہٖ أَسْوَأُ حَالِہٖ أَنْ یَّکُونَ حَسَنًا ۔
’’الحاصل یہ حدیث اپنی بہت سی سندوں کے ساتھ کم از کم حسن ہے۔‘‘
(التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الکبیر : 137/1، ح : 182)
3 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ، وَمَنْ حَمَلَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ ۔
’’جو شخص میت کو غسل دے ، وہ خود بھی غسل کرے اور جو میت کو کندھا دے ، وہ وضو کرے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 269/3، السنن الکبرٰی للبیہقي : 302/1، وسندہٗ حسنٌ)
سنن کبریٰ بیہقی میں یہ الفاظ زائد ہیں:
وَمَنْ مَّشٰی مَعَہَا فَلَا یَجْلِسْ حَتّٰی یَقْضِيَ دَفْنَہَا ۔
’’ جو جنازے کے ساتھ جائے وہ اس کی تدفین مکمل ہونے تک نہ بیٹھے۔‘‘
مذکورہ احادیث میں غسل کا حکم استحباب پر محمول ہے۔اسی طرح میت کی چارپائی اٹھانے والے شخص پر بھی وضو واجب نہیں بلکہ مستحب ہے،جیسا کہ:
حافظ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) فرماتے ہیں:
لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِّنَ الْفُقَہَائِ یُوجِبُ الِاغْتِسَالَ مِنْ غُسْلِ الْمَیِّتِ، وَلَا الْوُضُوئَ مِنْ حَمْلِہٖ، وَیُشْبِہُ أَنْ یَّکُونَ الْـأَمْرُ فِي ذٰلِکَ عَلَی الِاسْتِحْبَابِ ۔
’’میں فقہائے کرام میں سے کسی ایک بھی ایسے فقیہ سے واقف نہیں جو میت کو غسل دینے والے شخص پر غسل کو اور اسے کندھا دینے والے شخص پر وضو کو واجب قرار دیتا ہو۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس بارے میں (احادیث میں وارد) حکم استحباب پر محمول ہے۔‘‘(معالم السنن : 305/3)
یعنی اس مسئلہ میں جتنی بھی احادیث وارد ہیں، ان کے بارے میں سلف ، یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کا فیصلہ ہے کہ وہ ساری کی ساری استحباب پر محمول ہیں،جیسا کہ :
1 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
کُنَّا نُغَسِّلُ الْمَیِّتَ، فَمِنَّا مَنْ یَّغْتَسِلُ، وَمِنَّا مَنْ لَّا یَغْتَسِلُ ۔
’’ہم(صحابہ) میت کو غسل دیا کرتے تھے، بعض غسل کر لیتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے۔‘‘(السنن الکبرٰی للبیہقي : 306/1، وسندہٗ صحیحٌ)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس اثر کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔(التلخیص الحبیر : 137/1)
2 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی فرماتے ہیں:
مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا، فَأَصَابَہٗ مِنْہُ شَيئٌ؛ فَلْیَغْتَسِلْ، وَإِلَّا فَلْیَتَوَضَّأْ ۔
’’اگر کسی شخص کو مردہ نہلاتے ہوئے اس سے کوئی گندگی لگ جائے، تووہ غسل کرے ، ورنہ وضو ہی کر لے۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 306/1، وسندہٗ حسنٌ)
3 سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ ۔
’’جو شخص میت کو غسل دے ، وہ خود بھی غسل کر لے۔‘‘
(أیضًا : 305/1، وسندہٗ صحیحٌ)
n آپ رضی اللہ عنہ کا دوسرا قول بھی ملاحظہ فرمائیں،فرماتے ہیں:
لَیْسَ عَلَیْکُمْ فِي غُسْلِ مَیِّتِکُمْ غُسْلٌ إِذَا غَسَّلْتُمُوہُ، إِنَّ مَیِّتَکُمْ لَمُؤْمِنٌ طَاہِرٌ، وَلَیْسَ بِنَجَسٍ، فَحَسْبُکُمْ أَنْ تَغْسِلُوا أَیْدِیکُمْ ۔
’’جب تم اپنے مُردوں کو غسل دیتے ہو ،تو اس سے تمہارے لیے غسل فرض نہیں ہوتا،کیونکہ تمہارا مردہ مؤمن اور طاہر ہوتا ہے، نجس نہیں۔ لہٰذا تمہارے لیے اپنے ہاتھ دھو لینا ہی کافی ہے۔‘‘(أیضًا، 306/1، وسندہٗ حسنٌ)
n نیز فرماتے ہیں :
لَا تُنَجِّسُوا مَیِّتَکُمْ، یَعْنِي لَیْسَ عَلَیْہِ غُسْلٌ ۔
’’اپنے مُردوں کو پلید نہ سمجھو، یعنی مُردے کو نہلانے والے پر غسل (فرض) نہیں ہوتا۔‘‘ (مصنف ابن أبي شیبۃ : 267/3، وسندہٗ صحیحٌ)
n نیز جب آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیاکہ :
ہَلْ عَلٰی مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا غُسْلٌ؟(کیا مُردے کو غسل دینے والے پر غسل فرض ہے؟)،تو اس پر آپ نے فرمایا :
أَنَجَسْتُمْ صَاحِبَکُمْ؟ یَکْفِي فِیہِ الْوُضُوئُ ۔
’’کیا تم اپنے مردے کو پلید سمجھتے ہو؟ مردے کو نہلانے والے کے لیے وضو کر لینا ہی کافی ہے۔‘‘(السنن الکبرٰی للبیہقي : 305/1، وسندہٗ صحیحٌ)
4 نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں:
کُنَّا نُغَسِّلُ الْمَیِّتَ، فَیَتَوَضَّأُ بَعْضُنَا وَیَغْتَسِلُ بَعْضٌ، ثُمَّ یَعُودُ، فَنُکَفِّنُہٗ، ثُمَّ نُحَنِّطُہٗ، وَنُصَلِّي عَلَیْہِ، وَلَا نُعِیدُ الْوُضُوئَ ۔
’’ہم میت کو غسل دیتے ، پھر ہم میں سے کچھ لوگ وضو کرتے اور کچھ غسل کر لیتے تھے۔پھر وہ لوٹتے تو ہم میت کو کفن دیتے ، اسے خوشبو لگاتے اور اس کا جنازہ پڑھتے، ہم دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 307,306/1، وسندہٗ صحیحٌ)
5 سیدہ عائشہr سے جب مؤمن مُردوں کو غسل دینے والے شخص پر غسل (فرض) ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : ایسا نہیں ہے۔
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 268/3، وسندہٗ صحیحٌ)
6 عائشہ بنت سعد بیان کرتی ہیں:
أُوذِنَ سَعْدٌ بِجِنَازَۃِ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ وَہُوَ بِالْبَقِیعِ، فَجَائَ وَغَسَّلَہٗ، وَکَفَّنَہُ، وَحَنَّطَہُ، ثُمَّ أَتٰی دَارَہٗ، فَصَلّٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ دَعَا بِمَائٍ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ قَالَ : إِنِّي لَمْ أَغْتَسِلْ مِنْ غُسْلِہٖ، وَلَوْ کَانَ نَجِسًا مَّا غَسَّلْتُہٗ، وَلٰکِنِّي اغْتَسَلْتُ مِنَ الْحَرِّ ۔
’’سعد رضی اللہ عنہ کو سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے جنازے کی اطلاع ملی تو وہ اس وقت بقیع میں تھے۔آپ تشریف لائے، سعید رضی اللہ عنہ کو غسل دیا،ان کو کفن دیا، خوشبو لگائی، پھر گھر گئے،ان کا جنازہ ادا کیا ، پھر پانی منگوا کر غسل کیا اور فرمایا : میں نے سیدنا سعید رضی اللہ عنہ کو غسل دینے کی وجہ سے غسل نہیں کیا۔ اگر وہ نجس ہوتے تو میں انہیں غسل ہی نہ دیتا۔ میں نے تو گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 268/3، وسندہٗ صحیحٌ)
7 خزاعی بن زیاد کہتے ہیں :
أَوْصٰی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُغَفَّلٍ أَنْ لَّا یَحْضُرَہُ ابْنُ زِیَادٍ، وَأَنْ یَّلِیَنِي أَصْحَابِي، فَأَرْسَلُوا إِلٰی عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو وَّأَبِي بَرْزَۃَ، وَأُنَاسٍ مِّنْ أَصْحَابِہٖ، فَمَا زَادُوا عَلٰی أَنْ کَفُّوا أَکْمَامَہُمْ، وَجَعَلُوا مَا فَضُلَ عَنْ قُمُصِہِمْ فِي حُجَزِہِمْ، فَلَمَّا فَرَغُوا لَمْ یَزِیدُوا عَلَی الْوُضُوئِ ۔
’’سیدنا عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے یہ وصیت کی تھی کہ ابن زیاد ان کے جنازے پر حاضر نہ ہو، نیز ان کے ساتھی ان کے قریب آئیں۔سیدنا عائذ بن عمرو، سیدنا ابو برزہ اور سیدنا ابن مغفل رضی اللہ عنہ کے دیگر ساتھیوں کی طرف پیغام بھیجا گیا۔ انہوں نے آکر صرف یہ کیا کہ اپنی کفیں اوپر چڑھائیں اور ان کے قمیصوں کا جو کپڑا لٹک رہا تھا ، اسے اپنے کمربندوں میں ڈال لیا، پھر (غسل دینے سے)فراغت کے بعد صرف وضو کر لیا۔‘‘(أیضا، وسندہٗ صحیحٌ)
8 ابوقلابہ تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے :
إِنَّہٗ کَانَ إِذَا غَسَّلَ مَیِّتًا، اغْتَسَلَ ۔
’’جب وہ میت کو غسل دیتے تو خود بھی غسل کرتے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 268/3، وسندہٗ صحیحٌ)
9 امام ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کَانُوا یَقُولُونَ : إِنْ کَانَ صَاحِبُکُمْ نَجِسًا، فَاغْتَسِلُوا مِنْہُ ۔
’’لوگ (صحابہ کرام)کہا کرتے تھے کہ اگر تمہارا مردہ نجس ہے تو پھر اسے غسل دینے کی وجہ سے غسل کر لو۔‘‘(أیضًا، وسندہٗ صحیحٌ)
0 یونس بن عبید کہتے ہیں:
کَانَ الْحَسَنُ لَا یَرٰی عَلَی الَّذِي یَغْسِلُ الْمَیِّتَ غُسْلًا ۔
’’امام حسن بصری تابعی رحمہ اللہ میت کو غسل دینے والے پر غسل کو (فرض) خیال نہیں کرتے تھے۔‘‘(المطالب العالیۃ لابن حجر : 481، وسندہٗ صحیحٌ)
! امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی رائے یہ تھی :
إِنَّ مِنَ السُّنَّۃِ أَنْ یَّغْتَسِلَ مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا، وَیَتَوَضَّأَ مَنْ نَّزَلَ فِي حُفْرَتِہٖ حِینَ یُدْفَنُ، وَلَا وُضُوئَ عَلٰی أَحَدٍ مِّنْ غَیْرِ ذٰلِکَ مِمَّنْ صَلّٰی عَلَیْہِ، وَلَا مِمَّنْ حَمَلَ جِنَازَتَہٗ، وَلَا مِمَّنْ مَّشٰی مَعَہَا ۔
’’میت کو غسل دینے والے کے لیے غسل کرنا اور دفن کے وقت قبر میں اترنے والے کے لیے وضو کرنا مسنون ہے۔جنازہ پڑھنے والے ، کندھا دینے والے اور جنازے کے ساتھ چلنے والے ،کسی پر وضو (واجب)نہیں ۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 303/1، وسندہٗ صحیحٌ)
@ امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ (279-209ھ) فرماتے ہیں:
وَقَدِ اخْتَلَفَ أَہْلُ العِلْمِ فِي الَّذِي یُغَسِّلُ الْمَیِّتَ، فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَغَیْرِہِمْ : إِذَا غَسَّلَ مَیِّتًا؛ فَعَلَیْہِ الغُسْلُ، وقَالَ بَعْضُہُمْ : عَلَیْہِ الوُضُوئُ، وَقَالَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ : أَسْتَحِبُّ الغُسْلَ مِنْ غُسْلِ الْمَیِّتِ، وَلاَ أَرٰی ذٰلِکَ وَاجِبًا، وَہٰکَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ، وَقَالَ أَحْمَدُ : مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا أَرْجُو أَنْ لاَّ یَجِبَ عَلَیْہِ الغُسْلُ، وَأَمَّا الوُضُوئُ؛ فَأَقَلُّ مَا قِیلَ فِیہِ، وقَالَ إِسْحَاقُ : لاَ بُدَّ مِنَ الْوُضُوئِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُبَارَکِ أَنَّہٗ قَالَ : لاَ یَغْتَسِلُ وَلاَ یَتَوَضَّأُ مَنْ غَسَّلَ الْمَیِّتَ ۔
’’مردے کو نہلانے والے (پر غسل)کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحابہ کرام وغیرہ پر مشتمل بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب کوئی میت کو غسل دے تو اس پر بھی غسل ہے۔بعض کا کہنا ہے کہ اس پر وضو ہے۔ امام مالک بن انس فرماتے ہیں کہ میں مردے کو نہلانے والے کے لیے غسل کو مستحب سمجھتا ہوں، واجب نہیں۔امام شافعی بھی یہی فرماتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ میرے خیال میں میت کو غسل دینے والے پر غسل فرض نہیں ، البتہ اسے کم از کم وضو کا کہا گیا ہے۔امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں: اس کے لیے وضو ضروری ہے، جبکہ امام عبد اللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ اسے نہ غسل کرنے کی ضرورت ہے نہ وضو کرنے کی۔‘‘(سنن الترمذي، تحت الحدیث : 993)
8 دو مجامعتوں کے درمیان غسل :
سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَافَ ذَاتَ یَوْمٍ عَلٰی نِسَائِہٖ، یَغْتَسِلُ عِنْدَ ہٰذِہٖ وَعِنْدَ ہٰذِہٖ، قَالَ : قُلْتُ لَہٗ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَلَا تَجْعَلُہٗ غُسْلًا وَّاحِدًا ؟ قَالَ : ’ہٰذَا أَزْکٰی وَأَطْیَبُ وَأَطْہَرُ‘ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنی ازواجِ مطہرات کے پاس گئے۔سب کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا۔میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول!آپ نے ایک ہی دفعہ غسل کیوں نہیں کر لیا؟فرمایا : ہر دفعہ غسل کرنا زیادہ پاکیزگی اور زیادہ طہارت کا سبب ہے۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 219، سنن ابن ماجہ : 590، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کی راویہ سلمیٰ کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 184/3)نے ’’ثقہ‘‘کہا ہے۔امام حاکم رحمہ اللہ (مستدرک : 311/2)نے اس کی ایک حدیث کو ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔لہٰذا اس کی حدیث کم از کم ’’حسن‘‘ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَقَدْ أَجْمَعُوا عَلٰی أَنَّ الْغُسْلَ بَیْنَہُمَا لَا یَجِبُ ۔
’’اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ دو دفعہ مجامعت کے درمیان غسل کرنا فرض نہیں۔‘‘(فتح الباري : 376/1)
9 مستحاضہ کے لیے غسل :
مستحاضہ کے لئے انقطاعِ حیض کے بعد غسل کرنا فرض ہے۔اس غسل کے علاوہ اس پر کوئی غسل ضروری نہیں، البتہ :
ہر نماز کے لیے غسل :
اس کے لیے ہر نماز کے لئے غسل کرنا مشروع و مستحب ہے، جیسا کہ :
n ام المومنین،سیدہ عائشہrسے روایت ہے :
إِنَّ أُمَّ حَبِیبَۃَ بِنْتَ جَحْشٍ الَّتِي کَانَتْ تَحْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَأَنَّہَا اسْتُحِیضَتْ لَا تَطْہُرْ، فَذُکِرَ شَأْنُہَا لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ’إِنَّہَا لَیْسَتْ بِالْحَیْضَۃِ، وَلٰکِنَّہَا رَکْضَۃٌ مِّنَ الرَّحِمِ، فَلْتَنْظُرْ قَدْرَ قُرْئِہَا الَّتِي کَانَتْ تَّحِیضُ لَہَا، فَلْتَتْرُکِ الصَّلَاۃَ، ثُمَّ تَنْظُرْ مَا بَعْدَ ذٰلِکَ، فَلْتَغْتَسِلْ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ‘ ۔
’’سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیوی سیدہ امِ حبیبہ بنت ِجحش استحاضہ میں مبتلا رہتی تھیں اور پاک نہیں ہوتی تھیں۔ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ حیض کا خون نہیں بلکہ رحم کی ایک رگ کاخون ہے۔وہ استحاضہ شروع ہونے سے پہلے والے حیض کے دنوں کو شمار کر کے ان میں نماز چھوڑ دیں،اگر اس کے بعد بھی خون دیکھیں،تو ہر نماز کے لئے غسل کر لیں۔‘‘
(سنن النسائي :209، مسند الإمام أحمد : 128/6، شرح معاني الآثار للطحاوي : 198/1، السنن الکبرٰی للبیہقي : 349/1، وسندہٗ صحیحٌ)
صحیح بخاری(327)و صحیح مسلم (63/334)میں ہے :
فَکَانَتْ تَّغْتَسِلُ عِنْدَ کُلِّ صَلَاۃٍ ۔
’’وہ ہر نماز کے لئے غسل کرتی تھیں۔‘‘
دو نمازوں کے لیے ایک غسل :
مستحاضہ ظہر و عصر کے لئے ایک، مغرب و عشا کے لئے ایک اور فجر کے لئے ایک غسل کر سکتی ہے۔اس مستحب غسل کی صورت میں وہ جمع صوری کرے گی۔اس طرح کہ ظہر کو اس کے آخری وقت میں ادا کرے گی اور جونہی ظہر کاوقت ختم ہو گا اورعصر کا وقت شروع ہو گا، وہ نماز ِ عصر ادا کر لے گی۔ حقیقتاًہر نماز اپنے اپنے وقت میں ادا ہو گی،جبکہ صورتاً دونوں جمع ہو جائیں گی۔اسی طرح مغرب و عشا کی نمازوں کو ادا کرے گی۔
n سیدہ عائشہrہی کا بیان ہے :
اُسْتُحِیضَتِ امْرَأَۃٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأُمِرَتْ أَنْ تُعَجِّلَ الْعَصْرَ وَتُوَخِّرَ الظُّہْرَ، وَتَغْتَسِلَ لَہُمَا غُسْلاً، وَأَنْ تُوَخِّرَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلَ الْعِشَائَ، وَتَغْتَسِلَ لَہُمَا غُسْلاً، وَتَغْتَسِلَ لِصَلاَۃِ الصُّبْحِ غُسْلاً ۔
’’عہد ِرسالت میں ایک عورت کو استحاضہ کا خون آیا، اسے یہ حکم دیا گیا کہ عصر کی نماز کو مقدم اور نماز ظہر کو مؤخر کر کے ان دونوں کے لئے ایک ہی غسل کرلے،نماز مغرب کو موخر اور نماز عشا کو مقدم کر کے ان دونوں کے لئے ایک غسل کرلے اور نماز فجر کے لئے ایک غسل کر لے۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 294، سنن النسائي : 214، وسندہٗ صحیحٌ)
بغیر غسل کے نماز ادا کرنا بھی جائز ہے۔البتہ غسل کر لینا مشروع اور مستحب ہے۔
0 مشرک کو دفن کرنے والے کے لیے غسل :
خلیفہ راشد،سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي؛ أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّکَ قَدْ تُوُفِّيَ، قَالَ : ’اذْہَبْ فَوَارِہٖ‘، قُلْتُ : إِنَّہٗ مَاتَ مُشْرِکًا، قَالَ : ’اذْہَبْ فَوَارِہٖ، وَلَا تُحْدِثَنَّ شَیْئًا حَتّٰی تَأْتِیَنِي‘، فَفَعَلْتُ، ثُمَّ أَتَیْتُہٗ، فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ ۔
’’جب میرے والد کی وفات ہوئی،تومیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : آپ کے چچا وفات پا گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جائیے اور انہیں دفن کیجیے۔میں نے عرض کیا : وہ تو شرک کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا : جائیے اور انہیں دفن کیجیے لیکن میرے پاس واپس آنے تک کوئی اور کام نہ کیجیے۔میں فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غسل کا حکم فرمایا۔‘‘
(مسند أبي داوٗد الطیالسي، ص : 19، ح : 120، وسندہٗ حسنٌ متّصل)
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
إِنَّ عَمَّکَ قَدْ مَاتَ، أَوْ أَبِي قَدْ مَاتَ، قَالَ : ’اذْہَبْ فَوَارِہٖ‘، قُلْتُ : إِنَّہٗ مَاتَ مُشْرِکًا، قَالَ : ’اذْہَبْ فَوَارِہٖ‘، فَوَارَیْتُہٗ، ثُمَّ أَتَیْتُہٗ، قَالَ : ’اذْہَبْ فَاغْتَسِلْ‘ ۔
’’میں نے عرض کیا : آپ کے چچا یا میرے والد فوت ہو گئے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جائیے اور انہیں دفن کر دیجیے۔میں نے عرض کیا : وہ تو شرک کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جائیے اور انہیں دفن کیجیے۔ میں نے انہیں دفن کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جا کر غسل کر لیجیے۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 97/1، سنن أبي داوٗد : 3214، سنن النسائي : 190، 2008، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(کما في الإصابۃ لابن حجر : 114/7)اور امام ابن جارود(550)H نے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
! غشی کے بعد غسل :
عبد اللہ بن عتبہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ، فَقُلْتُ : أَلاَ تُحَدِّثِینِي عَنْ مَّرَضِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ : بَلٰی، ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ’أَصَلَّی النَّاسُ؟‘ قُلْنَا : لاَ، ہُمْ یَنْتَظِرُونَکَ، قَالَ : ’ضَعُوا لِي مَائً فِي الْمِخْضَبِ‘، قَالَتْ : فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ ۔۔۔
’’میں سیدہ عائشہrکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں نہیں بتائیں گی؟انہوں نے فرمایا : کیوں نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے، تو استفسار فرمایا : کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟ہم نے عرض کیا : نہیں،وہ تو آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔فرمایا : میرے لیے برتن میں پانی ڈالیے۔ہم نے ایسا کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا۔ تین دفعہ اسی طرح ہوا۔۔۔‘‘(صحیح البخاري : 687، صحیح مسلم : 418)
اس سے ثابت ہوا کہ غشی کے بعد غسل کرنا مستحب ہے۔
مباح غسل :
مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ باقی غسل کی باقی تمام صورتیں مباح اور جائز ہے۔
ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اسلامی احکام کے مطابق طہارت و نظافت کا پورا خیال رکھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.