1,852

فضائل درود، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


فضائل درود
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ} (الشرح 94 : 4)
’’(اے نبی!)ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔‘‘
اہل علم اس کے تین معانی بیان کرتے ہیں؛
1 نبوت ورسالت کے لازوال اعزاز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو بلندی نصیب فرمائی۔
2 آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کیا،جیسا کہ دنیا میں بلندی عطا فرمائی۔
3 اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر ہو گا۔
n سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أَتَانِي جِبْرِیلُ، فَقالَ : إِنَّ رَبِّي وَرَبُّکَ یَقُولُ : کَیْفَ رَفَعْتُ لَکَ ذِکْرَکَ؟ قَالَ : اللّٰہُ أَعْلَمُ، قَالَ : إِذَا ذُکِرْتُ ذُکرتَ مَعِيَ ۔
’’جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور بتایا : آپ کا اور میرا رب فرماتا ہے : میں نے آپ کا ذکر کیسے بلند کیا ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ آپ کا ذکر بھی کیا جائے گا۔‘‘
(تفسیر الطبري : 235/30)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (3382)نے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِبابرکات پر درود وسلام پڑھنا ایک مؤمن کا حق ہے،جو ماں باپ کے حق سے بڑھ کر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی قدر پر درود وسلام پڑھنا دراصل حکم ِالٰہی کی تعمیل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت وعقیدت کی علامت ونشانی ہے، کیوں کہ محب اپنے محبوب کے ذکر ِخیر میں مشغول رہتا ہے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر ِخیر سے کوئی غافل ہی محروم ہو سکتا ہے۔یہ مبارک عمل اللہ اور اس کے فرشتوں کی سنت ہے۔
قرآنِ کریم کی روشنی میں :
n اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَآاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیمًا} (الأحزاب : 56)
’’بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں، مومنو! تم بھی ان پر درود اور سلام بھیجا کرو۔‘‘
b امامِ مفسرین،علامہ طبری رحمہ اللہ (۲۲۴۔۳۱۰ھ) فرماتے ہیں:
وَقَدْ یَحْتَمِلُ أَنْ یُّقَالَ : إِنَّ مَعْنٰی ذٰلِکَ أَنَّ اللّٰہَ یَرْحَمُ النَّبِيَّ، وَتَدْعُو لَہٗ مَلَائِکَتُہٗ وَیَسْتَغْفِرُونَ ۔
’’اس آیت کا یہ معنیٰ کرنا بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرماتا ہے اور اللہ کے فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دُعا و استغفار کرتے ہیں۔‘‘
(جامع البیان في تأویل آي القرآن، المعرف بــ تفسیر الطبري : 174/19)
b شارح صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۷۷۳۔۸۵۲ھ) علامہ حلیمی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مَعْنَی الصَّلَاۃِ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَعْظِیمُہٗ، فَمَعْنٰی قَوْلِنَا : اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ؛ عَظِّمْ مُّحَمَّدًا، وَالْمُرَادُ تَعْظِیمُہٗ فِي الدُّنْیَا بِإِعْلَائِ ذِکْرِہٖ وَإِظْہَارِ دِینِہٖ وَإِبْقَائِ شَرِیعَتِہٖ، وَفِي الْآخِرَۃِ بِإِجْزَالِ مَثُوبَتِہٖ وَتَشْفِیعِہٖ فِي أُمَّتِہٖ وَإِبْدَائِ فَضِیلَتِہٖ بِالْمَقَامِ الْمَحْمُودِ، وَعَلٰی ہٰذَا؛ فَالْمُرَادُ بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی {صَلُّوْا عَلَیْہِ} : اُدْعُوا رَبَّکُمْ بِالصَّلَاۃِ عَلَیْہِ ۔
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درُود کا معنیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے۔ہم جب اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمََّدٍکہتے ہیں تو مراد یہ ہوتی ہے کہ اے اللہ!محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عظمت عطا فرما۔دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عظمت دینے سے مراد آپ کے ذکر کو بلند کرنا،آپ کے دین کو غالب کرنااور آپ کی شریعت کو باقی رکھناہے،جب کہ آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عظمت دینے سے مراد آپ کے ثواب میں اضافہ،آپ کی اپنی امت کے لیے شفاعت کو قبول کرنا اور مقامِ محمود کے ذریعے آپ کی فضیلت کو ظاہر کرنا ہے۔ اس معنیٰ کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان : {صَلُّوْا عَلَیْہِ}کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ربّ سے دُعا کرو کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عظمت عطا فرمائے۔‘‘
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 156/11)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ (751-691ھ)لکھتے ہیں :
بَلِ الصَّلَاۃُ الْمَأْمُورُ بِہَا فِیہَا ہِيَ الطَّلَبُ مِنَ اللّٰہِ مَا أَخْبَرَ بِہٖ عَنْ صَلَاتِہٖ وَصَلَاۃِ مَلَائِکَتِہٖ، وَہِيَ ثَنَائٌ عَلَیْہِ وَإِظْہَارٌ لِّفَضْلِہٖ وَشَرَفِہٖ، وَإِرَادَۃُ تَکْرِیمِہٖ وَتَقْرِیبِہٖ، فَہِيَ تَتَضَمَّنُ الْخَبَرَ وَالطَّلَبَ، وَسُمِّيَ ہٰذَا السُّؤَالُ وَالدُّعَائُ مِنَّا نَحْنُ صَلَاۃً عَلَیْہِ لِوَجْہَیْنِ؛ أَحَدُہُمَا أَنَّہٗ یتَضَمَّنُ ثَنَائَ الْمُصَلِّي عَلَیْہِ والْإِرَادَۃَ بِذِکْرِ شَرَفِہٖ وَفَضْلِہٖ وَالْإِرَادَۃَ وَالْمَحَبَّۃَ لِذٰلِکَ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی، فَقَدْ تَضَمَّنَتِ الْخَبَرَ وَالطَّلَبَ، وَالْوَجْہُ الثَّانِي أَنَّ ذٰلِکَ سُمِّيَ مِنَّا صَلَاۃً لِّسُؤَالِنَا مِنَ اللّٰہِ أَنْ یُّصَلِّيَ عَلَیْہِ، فَصَلَاۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ؛ ثَنَاؤُہٗ وَإِرَادَتُہٗ لِرَفْعِ ذِکْرِہٖ وَتَقْرِیبِہٖ، وَصَلَاتُنَا نَحْنُ عَلَیْہِ؛ سُؤَالُنَا اللّٰہَ تَعَالٰی أَنْ یَّفْعَلَ ذٰلِکَ بِہٖ ۔
’’اس آیت ِکریمہ میں جس درود کا حکم دیا گیا ہے،وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے اس کے اور اس کے فرشتوں کے درود کی طلب ہے۔اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا، آپ کے فضل وشرف کا اظہار اور آپ کی تکریم و قربت کا ارادہ ہے۔اس درود میں خبر(آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت کا اظہار) اور طلب(اللہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سوال) دونوں چیزیں موجود ہیں۔ہماری طرف سے اس سوال ودعا کو درود دو وجہ سے کہا گیا ہے؛ایک تو اس لیے کہ جب نمازی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہے تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح اور آپ کی شرف وفضیلت کا ذکر ہوتا ہے،نیز اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا ارادہ ہوتا ہے۔یوں اس میں خبروطلب دونوں موجود ہیں، ہمارے سوال اور ہماری دعا کو درود کہے جانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کرنے کی دعا کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا درود درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو بلند کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا قرب عطا فرمانا ہوتا ہے۔جب کہ ہمارے درود پڑھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے ایسا کرنے کی دعا کرتے ہیں۔‘‘(جلاء الأفھام، ص : 162)
امام اہل سنت،مؤرّخِ اسلام،حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ)فرماتے ہیں :
وَالْمَقْصُودُ مِنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ أَنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی أَخْبَرَ عِبَادَہٗ بِمَنْزِلَۃِ عَبْدِہٖ وَنَبِیِّہٖ عِنْدَہٗ فِي الْمَلَإِ الْـأَعْلٰی؛ بِأَنَّہٗ یُثْنِي عَلَیْہِ عِنْدَ الْمَلَائِکَۃِ الْمُقَرَّبِینَ، وَأَنَّ الْمَلَائِکَۃَ تُصَلِّي عَلَیْہِ، ثُمَّ أَمَرَ تَعَالٰی أَہْلَ الْعَالَمِ السُّفْلِيِّ بِالصَّلَاۃِ وَالتَّسْلِیمِ عَلَیْہِ، لِیَجْتَمِعَ الثَّنَائُ عَلَیْہِ مِنْ أَہْلِ الْعَالَمِینَ؛ الْعُلْوِيِّ وَالسُّفْلِيِّ جَمِیعًا ۔
’’اس آیت سے مقصود اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو یہ خبر دینا ہے کہ اس کے ہاں آسمانوں میں اس کے بندے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقام ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی مقرب فرشتوں کے پاس تعریف کرتا ہے،نیز فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رحمت کی دُعا کرتے ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ خاکی جہان والوں کو بھی حکم دیتا ہے کہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھیں،تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف عالم بالا اور عالم خاکی دونوں جہانوں سے جمع ہو جائے۔‘‘(تفسیر ابن کثیر : 457/6، ت سلامۃ)
احادیث کی روشنی میں :
1 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ وَاحِدَۃً؛ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرًا‘ ۔
’’جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے،اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم : 408)
دوسری روایت یوں ہے:
’مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ مَرَّۃً وَاحِدَۃً؛ کَتَبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہٗ بِہَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ‘ ۔
’’جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 262/2، وسندہٗ حسنٌ، وصحّحہ ابن حبّان : 905)
2 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ صَلَاۃً وَّاحِدَۃً؛ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَحَطَّ عَنْہُ بِہَا عَشْرَ سَیِّئَاتٍ، وَرَفَعَہٗ بِہَا عَشْرَ دَرَجَاتٍ‘ ۔
’’جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کی دس خطائیں مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجے بلند کر دیتا ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 102/3، 261؛ عمل الیوم واللیلۃ للنّسائي : 62، واللفظ لہٗ، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (904)نے ’’صحیح‘‘،جب کہ امام حاکم رحمہ اللہ (550/1) نے ’’صحیح الاسناد‘‘ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس پر ’’صحیح‘‘ کا حکم لگایا ہے۔
n مستدرک ِحاکم کے یہ الفاظ ہیں:
’مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ صَلَاۃً؛ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَشْرَ صَلَوَاتٍ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیئَاتٍ‘ ۔
’’جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درُود پڑھتا ہے،اللہ تعالیٰ اس پر دَس رحمتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے دَس گناہ معاف فرما دیتا ہے۔‘‘
امام ابن حبان رحمہ اللہ (907)نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
3 سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’إِنِّي لَقِیتُ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَبَشَّرَنِي، وَقَالَ : إِنَّ رَبَّکَ یَقُولُ : مَنْ صَلّٰی عَلَیْکَ صَلَّیْتُ عَلَیْہِ، وَمَنْ سَلَّمَ عَلَیْکَ سَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَسَجَدْتُ لِلّٰہِ شُکْرًا‘ ۔
’’میں جبریل علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے مجھے خوش خبری دیتے ہوئے کہا : آپ کا ربّ فرماتا ہے : جو شخص آپ پر درود پڑھے گا،میں اس پر رحمت نازل فرماؤں گا اور جو آپ پر سلام کہے گا،میں اس پر سلامتی نازل فرماؤں گا۔اس پر میں نے سجدۂ شکر کیا۔‘‘(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 550/1، وسندہٗ حسنٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
4 سیّدنا ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:ـ
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَائَ ذَاتَ یَوْمٍ، وَالْبِشْرُ یُرٰی فِي وَجْہِہٖ، فَقُلْنَا : إِنَّا لَنَرَی الْبِشْرَ فِي وَجْہِکَ، فَقَالَ : ’إِنَّہٗ أَتَانِي مَلَکٌ، فَقَالَ : یَا مُحَمَّدُ، إِنَّ رَبَّکَ یَقُولُ : أَمَا یُرْضِیکَ أَنْ لَّا یُصَلِّيَ عَلَیْکَ أَحَدٌ مِّنْ أُمَّتِکَ؛ إِلَّا صَلَّیْتُ عَلَیْہِ عَشْرًا، وَلَا یُسَلِّمُ عَلَیْکَ؛ إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَیْہِ عَشْرًا‘ ۔
’’ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرئہ مبارک پر خوشیجھلک رہی تھی۔ہم نے عرض کیا:ہم آپ کے چہرئہ مبارک پر خوشی کے آثار دیکھ رہے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے پاس ایک فرشتہ آیا ہے اور اس نے کہا ہے: اے محمد!آپ کا رب فرماتا ہے کہ کیا آپ اس بات سے خوش نہیں ہیں کہ کوئی بھی آپ پر درود پڑھے گا تو میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائوں گا اور کوئی بھی آپ پر سلام کہے گا تو میں اس پر بھی دس سلامتیاں نازل فرمائوں گا۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 29/4، 30؛ سنن النسائي : 1283، 1295؛ وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان(915)اور امام ضیاء مقدسی(الفتح الکبیر للسیوطي ح : 142)Hنے ’’صحیح‘‘کہا ہے، جبکہ حافظ عراقی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’جید‘‘ قرار دیا ہے۔
(تخریج أحادیث الإحیائ، ح : 1004)
اس کے راوی سلیمان مولیٰ حسن بن علی ثقہ ہیں۔امام ابن حبان، امام حاکم اور امام ضیاء مقدسی وغیرہم رحمہم اللہ نے ان کی حدیث کی تصحیح کر کے ان کی توثیق کی ہے۔
5 سیّدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کا ایک شاہد بھی مروی ہے، اس کی سند بھی حسن ہے۔(مسند الإمام أحمد : 191/1)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (810)نے ’’صحیح‘‘،امام حاکم رحمہ اللہ (345/1)نے امام بخاری و مسلم کی شرط پر ’’صحیح‘‘ کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
اس کے راوی ابو الحویرث عبدالرحمن بن معاویہ جمہور کے نزدیک ’’حسن الحدیث‘‘ہیں، کیونکہ امام مالک(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 309/4؛ الجرح والتعدیل : 284/5؛ وسندہٗ صحیحٌ)، امام نسائی(کتاب الضعفاء والمتروکین ت : 365؛ الکامل في ضعفاء الرجال :309/4)اور امام ابو حاتم رازی(الجرح والتعدیل : 284/5) رحمہم اللہ کی تضعیف کے مقابلے میںامام احمد بن حنبل(الجرح والتعدیل :284/5؛ وسندہٗ صحیحٌ)،امام ابن خزیمہ(145)،امام ابن حبان(الثقات : 406)،امام حاکم(72/3)اور امام ضیاء مقدسی(الأحادیث المختارۃ : 930) رحمہم اللہ کی توثیق مقدم ہو گی،نیز امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کے دو متعارض اقوال میں سے ان کا جمہور کے موافق توثیق والا قول(تاریخ ابن معین بروایۃ الدارمي : 603)قبول کیا جائے گا۔
6 سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’إِنَّ لِلّٰہِ فِي الْـأَرْضِ مَلَائِکَۃً سَیَّاحِینَ، یُبَلِّغُونِّي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ‘ ۔
’’زمین میںاللہ تعالیٰ کے فرشتے گشت کریں گے،جو میری امت کی طرف سے پیش کیا گیا سلام مجھ تک پہنچائیں گے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 387/1، 441، 452؛ سنن النسائي الصغرٰی : 44/3، ح : 1282؛ الکبرٰی لہٗ : 22/6، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کی بہت سے ائمہ نے ’’تصحیح‘‘کی ہے،مثلاً امام ابن حبان رحمہ اللہ (914)نے اسے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے،امام حاکم رحمہ اللہ (456/2)نے ’’صحیح الاسناد‘‘قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
یاد رہے کہ اس حدیث میں سفیان ثوری ’’تدلیس‘‘نہیں کر رہے،کیونکہ ان کے سماع کی صراحت موجود ہے،جیسا کہ فضل الصلاۃ علی النبي للقاضي إسماعیل (21)اور مسند البزّار(1924)میں اس حدیث کو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ بیان کر رہے ہیں۔وہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے وہی احادیث بیان کرتے ہیں، جن میں سماع کی صراحت ہوتی ہے۔
چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ،امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں :
مَا کَتَبْتُ عَنْ سُفْیَانَ شَیْئًا؛ إِلَّا مَا قَالَ : حَدَّثَنِي، أَوْ حَدَّثَنَا ۔
’’میں نے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے صرف وہ احادیث لکھی ہیں، جن میں انہوں نے ’’حدثنی‘‘ یا ’’حدثنا‘‘ کے الفاظ کہے ہیں۔‘‘(العلل ومعرفۃ الرجال : 517/1)
7 سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’مَا مِنْ أَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَيَّ؛ إِلَّا رَدَّ اللّٰہُ عَلَيَّ رُوحِي، حَتّٰی أَرُدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ‘ ۔
’’(میری وفات کے بعد میری قبر پر آکر)جب بھی کوئی مسلمان مجھ پر سلام کہے گا تو اتنی دیر اللہ تعالیٰ میری روح لوٹا دے گا کہ میں اس پر جواب لوٹا دوں۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 2041)
اس حدیث کی سند کو حافظ نووی(خلاصۃ الأحکام : 441/1؛ح : 1440)،شیخ الاسلام ابن تیمیہ(اقتضاء الصراط المستقیم، ص :324)،علامہ ابن القیم(جلاء الأفہام : 53/1)،حافظ ابن ملقن(تحفۃ المحتاج : 190/2)وغیرہم رحمہم اللہ نے ’’صحیح‘‘،جب کہ حافظ عراقی (تخریج أحادیث الإحیاء : 1013)،حافظ ابن عبد الہادی(الصارم المنکي : 114/1)Hنے ’’جید‘‘ کہا ہے۔حافظ سخاوی(المقاصد الحسنۃ : 587/1) اور حافظ عجلونی(کشف الخفاء : 194/2)Hوغیرہم نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
اس حدیث کا تعلق اس شخص کے ساتھ ہے،جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک پر جا کر سلام کہے۔اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں موجود ہے۔
8 سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أَوْلَی النَّاسِ بِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ عَلَيَّ صَلَاۃً‘ ۔
’’روزِ قیامت لوگوں میں سے میرے زیادہ قریب وہ ہو گا جو مجھ پر زیادہ درود پڑھتا ہے۔‘‘(سنن الترمذي : 484، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی اور حافظ بغوی(شرح السنّۃ : 686)Hنے ’’حسن غریب‘‘، جب کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ (911) نے ’’صحیح‘‘کہا ہے۔
9 سیدنااوس بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَیَّامِکُمْ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ، فِیہِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِیہِ النَّفْخَۃُ، وَفِیہِ الصَّعْقَۃُ، فَأَکْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاۃِ فِیہِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَّعْرُوضَۃٌ عَلَيَّ‘ ـ
’’بلاشبہ تمہارے دنوں میں جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔اس دن سیدنا آدم علیہ السلام پیدا ہوئے،اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔لہٰذا اس دن مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو ،کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا۔‘‘
ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! ہمارا درود آپ کی وفات کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا؟کیا آپ کا جسد ِمبارک خاک میں نہیں مل چکا ہو گا؟اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’إِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَرَّمَ عَلَی الْـأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْـأَنْبِیَائِ‘ ۔
’’یقینا اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاے کرام کے جسموں کو کھانا حرام فرمادیا ہے۔ ‘‘
(مسند الإمام أحمد : 8/4، سنن أبي داوٗد : 1047، 1531، سنن النسائي : 1375، سنن ابن ماجۃ : 1085، 1636، فضل الصلاۃ علی النبيّ للقاضي إسماعیل : 22، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(1733)،امام ابن حبان(910) اور حافظ ابن قطان فاسی(بیان الوہم والإیہام : 574/5) رحمہم اللہ نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ (278/1)نے اسے ’’امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(ریاض الصالحین : 1399، خلاصۃ الأحکام : 441/1، 814/2)
حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (م : 751ھ)لکھتے ہیں :
وَمَنْ تَأَمَّلَ ہٰذَا الْإِسْنَادَ؛ لَمْ یَشُکَّ فِي صِحَّتِہٖ، لِثِقَۃِ رُوَاتِہٖ، وَشُہْرَتِہِمْ، وَقُبُولِ الْـأَئِمَّۃِ أَحَادِیثَہُمْ ۔
’’جو شخص اس روایت کی سند پر غور کرے گا،وہ اس کی صحت میں شک نہیں کرے گا،کیونکہ اس کے راوی ثقہ، مشہور ہیں اور ائمہ حدیث کے ہاں ان کی بیان کردہ احادیث مقبول ہیں۔‘‘(جلاء الأفہام : 81)
0 سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُوَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا یَقُولُ، ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّہٗ مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ صَلَاۃً؛ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللّٰہَ لِيَ الْوَسِیلَۃَ، فَإِنَّہَا مَنْزِلَۃٌ فِي الْجَنَّۃِ، لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِّنْ عِبَادِ اللّٰہِ، وَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَنَا ہُوَ، فَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِیلَۃَ حَلَّتْ لَہُ الشَّفَاعَۃُ‘ ۔
’’جب تم مؤذن کو (اذان دیتے ہوئے) سنو تو وہی کلمات کہو جو مؤذن کہہ رہا ہو، پھر مجھ پر درود بھیجو،کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس شخص پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ سے میرے لیے ’’الوسیلہ‘‘ کی دعا کرو، ’’الوسیلہ‘‘ جنت میں ایک مخصوص مقام ہے،جو اللہ کے تمام بندوں میں سے صرف ایک بندے کو نصیب ہو گا اور میں اُمید کرتا ہوں کہ وہ بندہ میں ہوں گا۔جو شخص میرے لیے ’’الوسیلہ‘‘ کی دعا مانگے گا،اسے میری شفاعت ضرور نصیب ہو گی۔‘‘(صحیح مسلم : 384)
! سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے :
إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَحْسِنُوا الصَّلَاۃَ عَلَیْہِ، فَإِنَّکُمْ لَا تَدْرُونَ، لَعَلَّ ذٰلِکَ یُعْرَضُ عَلَیْہِ، قَالَ : فَقَالُوا لَہٗ : فَعَلِّمْنَا، قَالَ، قُولُوا : اللّٰہُمَّ اجْعَلْ صَلَاتَکَ، وَرَحْمَتَکَ، وَبَرَکَاتِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِینَ، وَإِمَامِ الْمُتَّقِینَ، وَخَاتَمِ النَّبِیِّینَ، مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ، إِمَامِ الْخَیْرِ، وَقَائِدِ الْخَیْرِ، وَرَسُولِ الرَّحْمَۃِ، اللّٰہُمَّ ابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُودًا، یَغْبِطُہٗ بِہِ الْـأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ، اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ، وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ، وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ، اللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ، وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ، وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ ۔
’’جب تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو تو اچھے الفاظ میں درود پڑھا کرو، کیوں کہ تمہیں معلوم نہیں کہ شاید وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا جائے۔لوگوں نے کہا : پھر آپ ہمیں وہ الفاظ سکھا دیجیے۔انہوں نے فرمایا: یوں کہا کرو: اے اللہ!تُو سید المرسلین، امام المتقین اور خاتم النبیین،جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما،جو تیرے بندے ورسول،امام الخیر،قائد الخیر اور رسولِ رحمت ہیں۔اے اللہ!تُو انہیں اس مقامِ محمود پر فائز فرما،جس کی وجہ سے اولین و آخرین ان سے رشک کریں گے۔ اے اللہ!محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر اس طرح رحمت فرما،جس طرح تُو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر فرمائی تھی،بلاشبہ تُو ہی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر اس طرح برکت نازل فرما،جس طرح تُو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل فرمائی تھی،بلاشبہ تُو ہی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔‘‘
(سنن ابن ماجہ :906؛ المعجم الکبیر للطبراني : 115/9؛ ح : 8594، مسند الشاشي : 611؛ الدعوات الکبیر للبیہقي : 177، وسندہٗ صحیحٌ)
فائدہ نمبر 1 :
سیدنا ابو دردائ رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ حِینَ یُصْبِحُ عَشْرًا وَّحِینَ یُمْسِي عَشْرًا؛ أَدْرَکَتْہُ شَفَاعَتِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ ۔
(مجمع الزوائد للہیثمي : 491/1، 120/10؛ الترغیب والترہیب للمنذري : 233/1؛ جلاء الأفہام لابن القیّم، ص : 63)
یہ روایت بلحاظ ِسند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کے راوی خالد بن معدان کا سیدنا ابو دردائ رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں، جیسا کہ :
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس کی نفی کی ہے۔
(المراسیل لابن أبي حاتم، ص : 52، جامع التحصیل، ص : 206)
حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَفِیہِ انْقِطَاعٌ ۔ ’’اس سند میں انقطاع ہے۔‘‘
(تخریج أحادیث الإحیاء : 398/3)
حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فِیہِ انْقِطَاعٌ لِأَنَّ خَالِدًا لَّمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، وَأَخْرَجَہُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ أَیْضًا، وَفِیہِ ضَعْفٌ ۔
’’اس سند میں انقطاع ہے،کیونکہ خالد بن معدان نے سیدناابودردائ رضی اللہ عنہ سے حدیث نہیں سنی۔اس حدیث کو ابن ابو عاصم نے بھی بیان کیا ہے،لیکن ان کی بیان کردہ سند میں بھی کمزوری ہے۔‘‘
(القول البدیع في الصّلاۃ علی الحبیب الشّفیع، ص : 121)
فائدہ نمبر 2 :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ منسوب ہے:میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ ثَمَانِینَ مَرَّۃً؛ غَفَرَ اللّٰہُ لَہٗ ذُنُوبَ ثَمَانِینَ عَامًا، فَقِیلَ لَہٗ : کَیْفَ الصَّلاۃُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ : تَقُولُ : اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَنَبِیِّکَ وَرَسُولِکَ النَّبِيِّ الْـأُمِّيِّ، وَتَعْقِدُ وَاحِدَۃً ۔
(تاریخ بغداد للخطیب : 463/13، العلل المتناہیۃ في الأحادیث الواہیۃ لابن الجوزي : 468/1، ح : 796، میزان الاعتدال للذہبي : 351/3)
اس روایت کی سند بھی’’ضعیف‘‘ ہے،کیونکہ اس کے راوی وہب بن دائود بن سلیمان ابو القاسم کے بارے میں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَکَانَ ضَرِیرًا، وَلَمْ یَکُنْ ثِقَۃً ۔
’’یہ نابینا تھا اور قابل اعتبار نہیں تھا۔‘‘(تاریخ بغداد : 463/13)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہٰذَا حَدِیثٌ لَّا یَصِحُّ ۔
’’یہ حدیث ثابت نہیں۔‘‘(العلل المتناہیۃ في الأحادیث الواہیۃ : 468/1)
حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَحَسَّنَہُ الْعِرَاقِيُّ، وَمِنْ قَبْلِہٖ أَبُو عَبْدِ اللّٰہِ بْنُ النُّعْمَانِ، وَیَحْتَاجُ إِلٰی نَظَرٍ ۔
’’حافظ عراقی رحمہ اللہ اور ان سے پہلے ابو عبد اللہ بن نعمان نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے،لیکن یہ بات تحقیق کی محتاج ہے۔‘‘
(القول البدیع في الصلاۃ علی الحبیب الشفیع، ص : 199)
فائدہ نمبر 3 :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ؛ بَلَغَتْنِي صَلَاتُہٗ، وَصَلَّیْتُ عَلَیْہِ، وَکُتِبَتْ لَہٗ سِوٰی ذٰلِکَ عَشْرُ حَسَنَاتٍ‘ ۔
’’جو شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے،مجھے اس کا درود پہنچ جاتا ہے اور میں اس پر رحمت کی دُعا کرتا ہوں،اس کے علاوہ اس کے لیے دس نیکیاں بھی لکھ دی جاتی ہیں۔‘‘
(المعجم الأوسط للطبراني : 1642)
اس روایت کی سند دو وجہسے ’’ضعیف‘‘ہے :
1 اسحاق بن زید بن عبدالکبیر خطابی راوی ’’مجہول الحال‘‘ہے۔ا مام ابن حبان (الثقات : 122/8)کے علاوہ کسی نے اسے ثقہ نہیں کہا۔
2 ابو جعفر رازی(حسن الحدیث)کی روایت بہ طور خاص ربیع بن انس سے ’’ضعیف‘‘ ہوتی ہے۔امام ابن حبان رحمہ اللہ ربیع بن انس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
وَالنَّاسُ یَتَّقُوْنَ حَدِیْثَہٗ؛ مَا کَانَ مِنْ رِّوَایَۃِ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْہُ، لِأَنَّ فِیْہَا اضْطِرَابٌ کَثِیْرٌ ۔
’’محدثین ربیع بن انس کی ان روایات سے بچتے ہیں جو ابو جعفر نے ان سے بیان کی ہیں،کیونکہ ان میں بہت اضطراب ہے۔‘‘(الثقات : 228/4)
مذکورہ بالا روایت بھی ربیع بن انس سے عیسیٰ بن ابی عیسیٰ بن ماہان ابو جعفر رازی بیان کر رہے ہیں۔یہ جرح مفسر ہے،جسے ردّ کرنا جائز نہیں۔
یاد رہے کہ مذکورہ حدیث کی سند میں امام طبرانی کے استاذ احمد بن نضر بن بحر، مقری، عسکری ’’ثقہ‘‘ ہیں۔
فائدہ نمبر 4 :
امام عبد الملک بن عبد العزیز،ابن جریج رحمہ اللہ سے بیان کیا جاتا ہے :
قُلْتُ لِعَطَائٍ : فَإِنْ لَّمْ یَکُنْ فِي الْبَیْتِ أَحَدٌ؟ قَالَ : سَلِّمْ، قُل : السَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، السَّلَامُ عَلٰی أَہْلِ الْبَیْتِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ۔
میں نے امام عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو(سلام کہوں)؟انہوں نے فرمایا : یوں سلام کہو: نبی اکرم پر سلام،اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں۔ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو۔اہل بیت پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو۔‘‘(تفسیر الطبري : 379/17، وفي نسخۃ : 174/18)
اس قول کی سند بھی ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کی سند میں قاسم بن حسن کون ہے؟معلوم نہیں۔
فائدہ نمبر 5 :
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان تک یہ بات پہنچی ہے :
إِذَا دُخِلَ الْبَیْتُ غَیْرُ الْمَسْکُونِ؛ یُقَالُ : السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ ۔
’’جب کسی غیر آباد گھر میں داخل ہوا جائے تو یوں کہا جائے:ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو۔‘‘(المؤطّأ للإمام مالک : 962/2)
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ تک اس قول کو پہنچانے والا نامعلوم و مجہول ہے۔
فائدہ نمبر 6 :
فقہ حنفی کی معتبر کتب میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:
مَعَ کُلِّ مُؤْمِنٍ خَمْسَۃٌ مِّنَ الْحَفَظَۃِ؛ وَاحِدٌ عَنْ یَمِینِہٖ یَکْتُبُ الْحَسَنَاتِ، وَآخَرُ عَنْ یَّسَارِہٖ یَکْتُبُ السَّیِّئَاتِ، وَآخَرُ أَمَامَہٗ یُلَقِّنُہُ الْخَیْرَاتِ، وَآخَرُ وَرَائَہٗ یَدْفَعُ عَنْہُ الْمَکَارِہَ، وَآخَرُ عِنْدَ نَاصِیَتِہٖ یَکْتُبُ مَا یُصَلِّي عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُبَلِّغُہٗ إِلَی الرَّسُولِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ ۔
’’ہر مؤمن کے ساتھ پانچ فرشتے ہوتے ہیں؛ ایک اس کی دائیں جانب ہوتا ہے جو نیکیاں لکھتا ہے،دوسرا اس کی بائیں جانب ہوتا ہے جو گناہ لکھتا ہے،تیسرا اس کے سامنے ہوتا ہے جو اسے نیکیوں کی تلقین کرتا ہے اور چوتھا اس کے پیچھے ہوتا ہے جو اس سے تکلیفوں کو دور کرتا ہے اور پانچواں اس کی پیشانی کے پاس ہوتا ہے جو اس کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑھے جانے والا درود لکھتا ہے اور اسے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتا ہے۔‘‘
(العنایۃ شرح الہدایۃ للبابرتي : 321/1؛ الجوہرۃ النیّرۃ للحدّاد : 56/1؛ تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق للزیلعي الحنفي : 126/1؛ البحر الرائق شرح کنز الدقائق لابن نجیم : 256/1؛ منحۃ السلوک للعیني الحنفي، ص : 142؛ حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح للطحطاوي : 275/1؛ مراقي الفلاح شرح نور الایضاح للشرنبلالي، ص : 102)
لیکن یہ بے سروپا قصہ اور سفید جھوٹ ہے ،جسے بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بے خوف و خطر ہوتے ہوئے اپنی طرف سے گھڑ کر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کر دیا ہے۔
فائدہ نمبر 7 :
ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ سیدہ حوائ[کا حق مہر یہ مقرر کیا گیا کہ سیدنا آدم علیہ السلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر درود پڑھیں۔
(بستان الواعظین وریاض السامعین لابن الجوزي، ص : 307، بحار الأنوار المجلسي الرافضي : 33/15)
لیکن آج تک کوئی مسلمان اس جھوٹی کہانی کی سند پر مطلع نہیں ہو سکا۔
فائدہ نمبر 8 :
جناب محمد زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب نے بلا تردید ایک جھوٹا خواب نقل کیا ہے :
’’(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:)میں ہر اس شخص کی فریاد کو پہنچتا ہوں،جو مجھ پر کثرت سے درود بھیجے۔‘‘(تبلیغی نصاب، ص : 791)
جناب زکریا صاحب نے اس جھوٹے خواب کو ردّ کرنے کی بجائے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعد از وفات فریاد کرنے کی دلیل بنایا ہے،جو کہ صریحاً شرک ہے۔
فائدہ نمبر 9 :
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی،بل کہ صحابہ کرام ٹولیوں کی صورت میں جاتے تھے اور درود پڑھ کر واپس آ جاتے تھے۔جب کہ یہ بات صحیح روایات اور اجماعِ امت کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز ِجنازہ پڑھی گئی،البتہ اس میں امام کوئی نہیں تھا،سب نے اپنے طور پر نماز ِجنازہ ادا کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.