1,443

گھوڑا حلال ہے، شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری،

گھوڑا حلال ہے ، کیونکہ :
1    سیدہ اسماء بنت ِ ابی بکر رضی اللہ عنہما  بیان کرتی ہیں : نحرنا فرسا علی وعہد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فأکلناہ ۔ ”ہم نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد ِ مبارک میں گھوڑا ذبح کیا ، پھر اس کو کھالیا۔”
(صحیح البخاری : ٢/٨٢٩، ح : ٥٥١٩، صحیح مسلم : ٢/١٥٠، ح : ١٩٤٢)
سنن النسائی (٤٤٢٦، وسندہ، صحیح)کی روایت میں ہے : ونحن بالمدینۃ ، فأکلناہ ۔ ”ہم اس وقت مدینہ میں تھے ، پھر ہم نے اسے کھایا۔”
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ  (٧٠١۔٧٧٤ھ)یہ روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
فھذہ أدلّ وأقوی وأثبت ، وإلی ذلک صار جمہور العلماء ، مالک ، والشافعیّ ، وأحمد ، وأصحابھم ، وأکثر السلف والخلف ۔
”یہ حدیث زیادہ بہتر دلیل، زیادہ قوی اورزیادہ ثابت ہے ، جمہور علمائے کرام ،جیسے امام مالک ، امام شافعی، امام احمد اور ان کے اصحاب  رحمہم اللہ  اسی طرف گئے ہیں اور اکثر سلف وخلف کا یہی مذہب ہے۔”(تفسیر ابن کثیر : ٤/٣٤، بتحقیق عبد الرزاق المھدی)
2    سیدنا جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے : إنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نھی یوم خیبر عن لحوم الحمر الأہلیّۃ ، وأذن فی لحوم الخیل ۔ ”بے شک رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خیبرکے دن گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا اور گھوڑوں کے گوشت کھانے کی اجازت فرمائی۔”
(صحیح البخاری : ٢/٨٢٩، ح : ٥٥٢٠، صحیح مسلم : ٢/١٥٠، ح : ١٩٤١)
علامہ سندھی حنفی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : یدلّ علی حلّ لحوم الخـیل ، وعلیہ الجمہور ۔ ”یہ حدیث گھوڑے کے گوشت کے حلال ہو نے پردلالت کرتی ہے ، جمہور کا یہی مذہب ہے۔”(حاشیۃ السندی علی سنن النسائی : ٧/٢٠١)
3    امام عطاء بن ابی رباح  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : رأیت أصحاب المسجد ، أصحاب ابن الزبیر یأکلون الفرس والبرذون ، قال : وأخبرنی أبو الزبیر أنّہ سمع جابر بن عبد اللّٰہ یقول : أکلنا زمن خیبر الخیل وحمیر الوحـش ، ونہانا النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن أکل الحمار ۔
”میں نے اس مسجد والوں ، یعنی (صحابی ئ رسول)سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کے اصحاب کو دیکھا ہے کہ وہ عربی اور عجمی گھوڑا کھاتے تھے ، نیز مجھے ابوالزبیر نے بتایا کہ انہوں نے سیدنا جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہما  کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ ہم خیبر کے زمانے میں گھوڑے اور وحشی (جنگلی)گدھے کھاتے تھے ، نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گھریلو گدھوں کو کھانے سے منع فرمایا تھا۔”
(مصنف عبد الرزاق : ٨٧٣٧، وسندہ، صحیحٌ ، صحیح مسلم : ٢/١٥٠، ح : ١٩٤١)
4    سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں : نھی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن لحوم الحمر ، وأمر رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بلحوم الخیل أن یؤکل ۔ ”رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا اور گھوڑے کے گوشت کو کھانے کا حکم فرمایا ۔”(المعجم الکبیر للطبرانی : ١٢٨٢٠، سنن الدارقطنی : ١/٢٩٠، ح : ٤٧٣٧، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”قوی” کہا ہے۔ (فتح الباری لابن حجر : ٩/٦٥٠)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ورجالھما رجال الصحیح خلا محمد ابن عبید المحاربیّ ، وھو ثقۃ ۔ ”اس کے ساری راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں ، سوائے محمدبن عبید المحاربی کے اور وہ ثقہ ہے۔”(مجمع الزوائد : ٥/٤٧)
5    اسماء بنت ِ ابی بکر رضی اللہ عنہما  کہتی ہیں : کان لنا فرس علی عہد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فأرادت أن تموت ، فذبحناہا ، فأکلناھا ۔
”رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِ مبارک میں ہمارا ایک گھوڑ اتھا ، وہ مرنے لگا تو ہم نے اسے ذبح کرلیا ، پھر اس کو کھالیا۔”(سنن الدارقطنی : ٤/٢٨٩، ح : ٤٧٣٩، وسندہ، حسنٌ)
6    اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما  بیان کرتی ہیں : ذبحنا فرسا علی عہد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فأکلنا نحن وأھل بیتہ ۔ ”ہم نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ ئ مبارک میں گھوڑا ذبح کیا ،پھر ہم نے بھی اسے کھایا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اہل بیت نے بھی۔”(سنن الدارقطنی : ٤/٢٨٩، ح : ٤٧٤١، وسندہ، حسنٌ)
7    امام ابراہیم بن یزید النخعی  رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : نحر أصحاب عبد اللّٰہ فرسا ، فقسموہ بینھم ۔ ”سیدنا عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ ) کے شاگردوں نے گھوڑا ذبح کیا، پھر اسے آپس میں تقسیم کرلیا۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٢٥٦، وسندہ، صحیحٌ)
8    نیز فرماتے ہیں : إنّ الأسود أکل لحم فرس ۔
”امام اسود بن یزیدتابعی رحمہ اللہ نے گھوڑے کا گوشت کھایا ۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٢٥٦، وسندہ، صحیحٌ)
9    امام حکم بن عتیبہ بیان کرتے ہیں : إنّ شریحا أکل لحم فرس ۔ ”امام شریح رحمہ اللہ نے گھوڑے کا گوشت کھایا۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٢٥٦، وسندہ، صحیحٌ)
0    عبداللہ بن عون کہتے ہیں : سألت محمّدا عن لحوم الخیـل ، فلم یر بھا بأسا ۔ ”میں نے امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ سے گھوڑوں کے گوشت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اس میں کوئی حرج خیال نہیں کیا۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٢٥٧، وسندہ، صحیحٌ)
!    امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا بأس بلحم الفرس ۔
”گھوڑے کے گوشت کو کھانے میں کوئی حرج نہیں ۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٢٥٧، وسندہ، صحیحٌ)
ان صحیح احادیث وآثار سے ثابت ہوا کہ گھوڑا حلال ہے ۔ ان احادیث کے بارے میں امام طحاوی حنفی  رحمہ اللہ (٢٣٨۔٣٢١ھ) کا ارشاد بھی سن لیں : فذہب قوم إلی ہذہ الآثار ، فأجازوا أکل لحوم الخیل ، وممّن ذہب إلی ذٰلک أبو یوسف ومحمّد رحمہما اللّٰہ ، واحتجّوا بذلک بتواتر الآثار فی ذلک وتظاہرہا ، ولو کان ذلک مأخوذا من طریق النظر لما کان بین الخیل الأہلیّۃ والحمر الأہلیۃ فـرق ، ولکن الآثار عن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إذا صحّت وتواترت أولی أن یقال بہا من النظر ، ولا سیّما إذ قد أخبر جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہما فی حدیث أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أباح لہم لحوم الخیل فی وقت منعہ إیّاہم من لحوم الحمر الأہلیّۃ ، فدلّ ذلک علی اختلاف حکم لحومہما ۔ ”ایک گروہ کا مذہب ان آثار کے مطابق ہے ، لہٰذا انہوں نے گھوڑوں کے گوشت کو حلال قرار دیا ہے ، ان لوگوں میں سے ابویوسف اور محمد بن حسن الشیبانی ;بھی ہیں، ان لوگوں نے ان آثار کے متواتر ومتظاہر ہونے کی وجہ سے استدلال کیا ہے ، اگر یہ معاملہ عقل وقیاس سے طے کیا گیا ہوتا تو گھریلو گھوڑوں اورگھریلو گدھوں میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ لیکن رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث جب صحیح ثابت ہوجائیں اور تواتر کو پہنچ جائیں تو قیاس کرنے سے ان پر عمل کرنا اولیٰ ہے ، خصوصاً جب سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما  نے ایک حدیث میں بتایا ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کے لیے گھوڑے کے گوشت کو اسی وقت حلال قراردیا تھا ، جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع کیا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ ان دونوں کے گوشت میں فرق ہے۔”(شرح معانی الآثار للطحاوی : ٤/٢١٠)
جو لوگ گھوڑے کو حرام یا مکروہ کہتے ہیں ، ان کے دلائل کا مختصر تحقیقی جائزہ پیشِ خدمت ہے:
دلیل نمبر 1 : (ا)     سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  فرمانِ باری تعالیٰ ( وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْہَا )(النحل : ٨) کے بارے میں فرماتے ہیں: ہذہ للرکوب ۔ ”یہ سواری کے لیے ہیں۔” اور فرمانِ باری تعالیٰ : ( وَالْأَنْعَامَ خَلَقَہَا لَکُمْ فِیْہَا دِفْء ٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَأْکُلُونَ ) (النحل : ٥) کے بارے میں فرمایا : ہذہ للأکل ۔ ”یہ کھانے کے لیے ہیں۔”
(تفسیر الطبری : ١٧/١٧٣)
تبصرہ : یہ قول سخت ترین ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
1    محمدبن حمید الرازی ”ضعیف” راوی ہے۔(تقریب التھذیب : ٥٨٣٤)
2    ابواسحاق راوی مدلس اور مختلط ہے۔
3    اس میں ”رجل مبہم” بھی موجود ہے۔
(ب)    تفسیر الطبری (١٧/١٧٣)
تبصرہ : اس کی سند بھی ”ضعیف” ہے ، کیونکہ اس میں یحییٰ بن ابی کثیر راوی مدلس ہے۔
(ج)    تفسیر الطبری (١٧/١٧٣)
تبصرہ :      اس کی سند بھی ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
1    سفیان بن وکیع راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔
2    ابن ابی لیلیٰ راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” اور ”سیء الحفظ” ہے۔
(د)    تفسیر الطبری (١٧/١٧٣)
تبصرہ : اس قول کی سند بھی ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
1    قیس بن ربیع راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف”ہے ۔
2    ابنِ ابی لیلیٰ ”ضعیف” اور ”سیء الحفظ ”ہے۔
معلوم ہوا کہ سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  سے یہ قول جمیع سندوں سے ”ضعیف” ہے۔
فائدہ نمبر 1 : امام حکم بن عتیبہ تابعی کہتے ہیں کہ گھوڑے کی حرمت کتاب اللہ سے ثابت ہے ، اس پر یہ آیت ِ کریمہ پیش کی ۔
(تفسیر الطبری : ١٧/١٧٣، وسندہ، صحیحٌ)
فـــائدہ نمبر 2 : امام مجاہد تابعی رحمہ اللہ  سے گھوڑے کے گوشت کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے یہ آیت ِ کریمہ تلاوت کی ، گویا آپ نے اس کے گوشت کو مکروہ خیال کیا۔(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٢٥٩، وسندہ، صحیحٌ)
فائدہ نمبر 3 : امام مالک  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أحسن ما سمعت فی الخیل والبغال والحمیر أنّہا لا تؤکل ۔
”سب سے بہترین بات جو میں نے گھوڑوں اورخچروں کے بارے میں سنی ہے کہ ان کو کھایا نہیں جائے گا ۔” پھر آپ رحمہ اللہ نے یہ آیت پڑھی ۔
(مشکل الآثار للطحاوی : ٨/٧٤۔٧٥، وسندہ، صحیحٌ)
لیکن اس آیت سے گھوڑے کے گوشت کا حرام ہونا یا مکروہ ہونا محل نظر ہے ، جیسا کہ امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : والصواب من القول فی ذلک عندنا ما قالہ أہل القول الثانی ۔۔۔ وفی إجماع الجمیع علی أنّ رکوب ما قال تعالی ذکرہ : ( وَمِنْہَا تَأْکُلُونَ ) جائز حلال غیر حرام ، دلیل واضح علی أنّ أکل ما قال : ( لِتَرْکَبُوْہَا ) جائز حلال غیر حرام ، إلّا بما نصّ علی تحریمہ أو وضع علی تحریمہ دلالۃ من کتاب أو وحی إلی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فأمّا بہذہ الآیۃ فلا یحرّم أکل شیء ، وقد وضع الدلالۃ علی تحریم لحوم الحمر الأہلیّۃ بوحیہ إلی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وعلی البغال بما قد بیَّنّا فی کتابنا ، کتاب الأطعمۃ بما أغنی عن إعادتہ فی ہذا الموضع ، إذ لم یکن ہذا الموضع من مواضع البیان عن تحریم ذلک ، وإنّما ذکرنا ما ذکرنا لیدلّ علی أنّہ لا وجہ لقول من استدلّ بہذہ الآیۃ علی تحریم لحم الفرس ۔۔۔
”اس بارے میں ہمارے نزدیک دوسرے قول والوں کی بات درست ہے (یعنی گھوڑا حلال ہے)۔۔۔ اس لیے کہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جن جانوروں کاگوشت کھایا جاتا ہے ، ان پرسواری کرنا جائز ہے ، حرام نہیں ، یہ واضح دلیل ہے کہ جن جانوروں کوسواری کے لیے پیدا کیا گیا ہے ، ان کو کھانا بھی حلال وجائز ہے ، سوائے ان چیزوں کے ، جن کی حرمت پر کتاب وسنت میں نص قائم کردی گئی ہو ۔ رہی یہ آیت ِ کریمہ تو اس سے کسی چیز کی حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔ گھریلو گدھوں اور خچروں کی حرمت پر دلالت وحی ئ رسول   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذریعے کردی گئی ہے ، جس کی وضاحت ہم اپنی کتاب ، کتاب الاطعمہ میں کرچکے ہیں ، جس کا اعادہ کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں ، کیونکہ یہ مقام اس کی حرمت بیان کرنے کا نہیں ۔ یہ باتیں جو ہم نے کی ہیں ، وہ صرف یہ بتانے کے لیے کی ہیں کہ گھوڑے کی حرمت پر اس آیت ِ کریمہ سے استدلال کرنے کا کوئی تُک نہیں۔۔۔”(تفسیر الطبری : ١٧/١٧٣)
حافظ قرطبی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں : الصحیح الذی یدلّ علیہ النظر والخبر جواز أکل لحوم الخیل ، وأنّ الآیۃ والحدیث لا حجّۃ فیہما لازمۃ ، أمّا الآیۃ فلا دلیل فیہا علی تحریم الخیل ، إذ لو دلّت علیہ لدلّت علی تحریم لحوم الحمر ، والسورۃ مکیّۃ ، وأیّ حاجۃ کانت إلی تجدید تحریم لحوم الحمر عام خیبر ، وقد ثبت فی الأخبار تحلیل الخیل علی ما یأتی ، وأیضا لمّا ذکر تعالی الأنعام ذکر الأغلب من منافعہا وأہمّ ما فیہا ، وہو حمل الأثقال والأکـل ، ولم یذکر الرکوب ولا الحرث بہا ولا غیر ذلک مصرّحا بہ ، وقد ترکب ویحرث بہا ، قال اللّٰہ تعالی : (الذی جعل لکم الانعام لترکبوا منہا ومنہا تأکلون ) ، وقال فی الخیل : ( لترکبوہا وزینۃ ) ، فذکر أیضا أغلب منافعہا والمقصود منہا ، ولم یذکر حمل الأثقال علیہا ، وقد تحمل کما ہو مشاہد ، فلذلک لم یذکر الأکل ، وقد بیّنہ علیہ السلام ، الذی جعل إلیہ بیان ما أنزل علیہ ما یأتی ، ولا یلزم من کونہا خلقت للرکوب والزینۃ ألّا تؤکل ، فہذہ البـقــرۃ قد أنطقہا خالقہا الذی أنطق کلّ شیء ، فقالت : إنّما خلقت للحرث ، فیلزم من علل أنّ الخیل لا تؤکل ، لأنّہا خلقت للرکوب ، وألّا تؤکل البقر لأنّہا خلقت للحرث ، وقد أجمع المسلمون علی جواز أکلہا ، فکذلک الخیل بالسنّۃ الثابتۃ فیہا ۔ ”صحیح بات جس پر عقل ونقل دلیل ہیں، وہ یہ ہے کہ گھوڑے کا گوشت حلال ہے ، نیز اس آیت اور حدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں ، رہی آیت تو اس میں دلیل اس لیے نہیں کہ یہ آیت مکی ہے ، اگر یہ آیت حرمت پردلالت کرتی ہوتی تو خیبر والے سال دوبارہ حرمت بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر احادیث میں گھوڑے کی حلت ذکر ہوگئی ہے ، جیسا کہ ہم بیان کریں گے ۔اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے جانوروں کے فوائد بیان کیے ہیں تو اہم اوراغلب فوائد، یعنی کھانا اور بوجھ اٹھانا، بیان کیے ہیں ، سواری اور ہل چلانے وغیرہ والے فوائد صراحت سے بیان نہیں کیے، حالانکہ ان پر کبھی سواری اور ہل چلانے کا کام بھی لیاجاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (اَللّٰہُ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْکَبُوا مِنْہَا وَمِنْہَا تَأْکُلُونَ ) (غافر : ٧٩) (اللہ وہ ذات ہے، جس نے تمہارے لیے چوپائے بنائے ہیں ، تاکہ تم ان پر سواری کرو اور کچھ کو تم کھاتے ہو) ، گھوڑوں کے بارے میں فرمایا : ( لِتَرْکَبُوْہَا وَزِیْنَۃً) (النحل : ٨)(تاکہ تم ان پرسوار ہوجاؤ اور تاکہ وہ زینت کا سامان ہوں)، یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کے اہم اور اغلب فوائد ذکرکیے ہیں ، بوجھ اٹھانے کا ذکر نہیں کیا گیا ، حالانکہ ان پر کبھی بوجھ لادا جاتا ہے، جیسا کہ مشاہدہ میں آتا رہتا ہے، بالکل اسی طرح اس کو کھانے کا بھی ذکر نہیں کیا گیا ۔نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم جن کے ذمہ قرآن کی وضاحت لگائی گئی ہے ، انہوں نے اس کی وضاحت کی ہے ، جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا ۔ گھوڑے کے سواری اور زینت کے لیے پیدا کیے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کا گوشت نہ کھایا جائے ، یہ گائے ہے ،جس کو اس ذات نے گویا کیا تھا ، جس نے ہر چیز کو قوت ِ گویائی دی ہے اور اس نے بول کر کہا تھا(جیسا کہ حدیث میں بیان ہے )کہ وہ ہل چلانے کے لیے پیداکی گئی ہے۔جن علتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گھوڑے کو نہیں کھایا جائے گا ، ان ہی علتوں سے یہ ثابت ہو گا کہ گائے کو بھی نہیں کھایا جائے گا ، کیونکہ وہ ہل چلانے کے لیے پیدا کی گئی ہے، حالانکہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اس کو کھانا جائز ہے ، اسی طرح گھوڑوں کے بارے میں بھی سنت ِ ثابتہ ہے(کہ اس کو کھانا جائز ہے)۔”(تفسیر القرطبی : ١٠/٧٦)
ایک شبہ اور اس کا ازالہ :
حافظ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فإن قیل : الروایۃ عن جابر بأنّہم أکلوہا فی خیبر حکایۃ حال وقضیۃ فی عین ، فیحتمل أن یکونوا ذبحوا لضرورۃ ، ولا یحتجّ بقضایا الأحوال ، قلنا : الروایۃ عن جابر وإخبارہ بأنّہم کانوا یأکلون لحوم الخیل علی عہد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یزیل ذلک الاحتــمال ، ولئن سلّمناہ فمعنا حدیث أسماء ، قالت : نحرنا فرسا علی عہد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، ونحن بالمدینۃ ، فأکلناہ ، رواہ مسلم ۔
وکلّ تأویل من غیر ترجیح فی مقابلۃ النصّ ، فإنّما ہو دعوی ، لا یلتفت إلیہ ، ولا یعرج علیہ ، وقد روی الدارقطنیّ زیادۃ حسنۃ ترفع کلّ تأویل فی حدیث أسماء ، قالت أسماء : کان لنا فرس علی عہد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أرادت أن تموت ، فذبحناہا ، فأکلناہا ، فذبحہا إنّما کان لخوف الموت علیہا ، لا لغیر ذلک من الأحوال ۔ ”اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ خیبر میںگھوڑے کو کھانے والی سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ  کی حدیث حکایت حال ہے اور ایک خاص واقعہ ہے۔ ممکن ہے کہ صحابہ کرام نے گھوڑے کو ضرورت کی بناپر ذبح کیا ہو، لہٰذا مخصوص حالات میں پیش آنے والے واقعات سے دلیل نہیں لی جاتی ۔ ہماری طرف سے اس کا جواب یہ ہے کہ سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ  کی روایت اور یہ بیان کہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِ مبارک میں گھوڑے کا گوشت کھاتے تھے ، اس احتمال کو دور کردیتا ہے ۔ اگر پھر بھی اس احتمال کو تسلیم کرلیاجائے تو ہمارے پاس سیدہ اسماء  رضی اللہ عنہا کی حدیث موجود ہے ، انہوں نے بیان کیاہے کہ ہم نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ ئ مبارک میں مدینہ میں ایک گھوڑا ذبح کیا ، پھر اس کو کھایا ، یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے ۔
نص کے مقابلے میں بغیر کسی وجہ ترجیح کے کی گئی ہر تاویل محض دعویٰ ہوتا ہے ، جس کی طرف التفات نہیں کیاجائے گا اور اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔ امام دارقطنی  رحمہ اللہ  نے اس حدیث میں ایک خوبصورت زیادت بیان کی ہے ، جو سیدہ اسماء  رضی اللہ عنہا  کی حدیث میں ہونے والی ہرتاویل کو ختم کرتی ہے، سیدہ اسماء نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِ مبارک میں ہمارا ایک گھوڑا تھا ، وہ مرنے لگا تو ہم نے اسے ذبح کرلیا ، پھر ہم نے اسے کھایا ، چنانچہ اس کو ذبح کرنا صرف اس کے مرنے کے ڈر سے تھا ، کسی اور وجہ سے نہ تھا۔”(تفسیر القرطبی : ١٠/٧٦)
دلیل نمبر 2 : سیدنا خالد بن ولید  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں :
أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نھی عن أکل لحوم الخیل والبغال والحمیر ، وکلّ ذی ناب من السباع ۔ ”بلاشبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے گھوڑے ، خچر اور گھریلو گدھے کے گوشت اور ہر کچلی والے درندے کو کھانے سے منع فرمایا۔”
(مسند الامام احمد : ٤/٨٩، سنن ابی داو،د : ٣٧٩، سنن ابن ماجہ : ٣١٩٨، شرح معانی الاثار للطحاوی : ٤/٢١٠، المعجم الکبیر للطبرانی : ٣٨٢٢، سنن الدارقطنی : ٤/٢٨٧، التمہید لابن عبد البر : ١٠/١٢٨)
تبصرہ : یہ حدیث ”ضعیف” ہے ، علامہ سندھی حنفی بلا ردّ وتردید لکھتے ہیں :
اتّفق العلماء علی أنّہ حدیث ضعیف ، ذکرہ النوویّ ۔ ”علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، اس بات کو حافظ نووی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔”
(حاشیۃ السندی علی النسائی : ٧/٢٠٢)
اس حدیث کی سند کا دارومدار صالح بن یحییٰ بن المقدام راوی پر ہے۔ اس کے بارے میں اما م بخاری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فیہ نظر ۔ ”اس راوی میں کلام ہے۔”
(التاریخ الکبیر للبخاری : ٤/٢٩٣)
حافظ موسیٰ بن ہارون الحمال  رحمہ اللہ (٢١٤۔٢٩٤ھ)فرماتے ہیں :
لا یعرف صالح بن یحیی ، ولا أبوہ إلا بجدّہ ، وھذا حدیث ضعیف ۔
”صالح بن یحییٰ اور اس کے باپ کی روایت صرف اس(صالح) کے دادا(مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ )سے ہی معلوم ہوئی ہے، اور یہ حدیث ضعیف ہے۔”
(سنن الدارقطنی : ٤/٢٧٨، وسندہ، صحیحٌ)
علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ نے اسے ”مجہول” کہا ہے۔(المحلی لابن حزم : ٨/١٠٠)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ”مجہول” کہا ہے۔(دیوان الضعفاء للذہبی)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے ”لین” کہا ہے۔(تقریب التہذیب لابن حجر : ٢٨٩٤)
صرف امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ  نے اسے اپنی کتاب الثقات(٦/٤٥٩) میں ذکر کیا ہے، نیز کہا ہے : یخطیء ۔ لہٰذا یہ راوی ”مجہول” ہے ۔
اس حدیث کے بارے میں ائمہ محدثین کے مزید اقوال ملاحظہ فرمائیں :
حافظ بیہقی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں : الحدیث غیر ثابت ، وإسنادہ، مضطرب ۔
” یہ حدیث ثابت نہیں او ر اس کی سند مضطرب ہے۔”
(السنن الصغرٰی للبیہقی : ٤/٦٣۔٦٤)
حافظ ابنِ عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ہذا حدیث لا تقوم بہ حجّۃ لضعف إسنادہ ۔ ”اس حدیث سے دلیل نہیں بنتی ، کیونکہ اس کی سند ضعیف ہے۔”
()
امام عقیلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : إسنادہما أصلح من ہذا الإسناد ۔
”ان دونوں (سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ  اور سیدہ اسماء  رضی اللہ عنہا  کی گھوڑے کی حلت والی حدیثوں)کی سند اس حدیث کی سند سے اچھی ہے۔”(الضعفاء الکبیر للعقیلی : ٢/٢٠٦)
علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ نے تو اسے ”موضوع” (من گھڑت) کہا ہے۔(المحلی : ٨/١٠٠)
حافظ بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : إسنادہ ضعیف ۔ ”اس کی سند ضعیف ہے۔”(شرح السنۃ للبغوی : ١١/٢٥٥)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں : حدیث خالد لا یصحّ ، فقد قال أحمــد : إنّہ حدیث منکر ، وقال أبوداو،د : إنّہ منسوخ ۔ ”سیدنا خالد رضی اللہ عنہ  کی حدیث صحیح نہیں ، امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے اور امام ابوداؤد  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ منسوخ ہے۔”(التلخیص الحبیر لابن حجر : ٤/١٤١)
دلیل نمبر 3 : سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے :
فحرّم رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم الحمر الإنسیّۃ ولحوم الخیل والبغال ۔ ”اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھوں کو اور گھوڑوں اورخچروں کے گوشت کو حرام قراردیا ہے۔”(مشکل الآثار للطحاوی : ٣٠٦٤)
تبصرہ : یہ حدیث ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
1    عکرمہ بن عمار (ثقہ)کی روایت یحییٰ بن ابی کثیرسے مضطرب (ضعیف)ہوتی ہے، یہ روایت بھی اسی سے ہے، امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : أھل الحدیث یضعّفون حدیث عکرمۃ عن یحیی ، ولا یجعلون فیہ حجّۃ ۔
” محدثین کرام نے عکرمہ کی یحییٰ سے حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے اور وہ اس سے دلیل نہیں لیتے۔”(مشکل الآثار للطحاوی : ٣٠٦٤)
امام یحییٰ بن سعید القطان(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٧/١٠، وسندہ، صحیح) ، امام احمد بن حنبل(ایضا: وسندہ، صحیح)، امام ابوحاتم الرازی(ایضا)، امام بخاری (الکامل لابن عدی : ٥/٢٧٢، وسندہ، حسن)وغیرہم رحمہم اللہ  عکرمہ کی یحییٰ بن ابی کثیرسے روایت کو مضطرب اور ”ضعیف” کہتے ہیں۔
2    امام یحییٰ بن ابی کثیر”مدلس” ہیں اور وہ ”عن” کے ساتھ روایت کررہے ہیں ۔ سماع کی کوئی تصریح نہیں کی ، لہٰذا یہ روایت ”ضعیف” ہے۔
الحاصل : گھوڑا حلال ہے ، کیونکہ اس کے حرام ہونے پر قرآن وحدیث میں کوئی ثبوت نہیں ،اس کے برعکس اس کی حلت پر قوی احادیث موجود ہیں۔
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں : ”گھوڑے کا کھانا جائز ہے، لیکن بہتر نہیں۔”(بہشتی زیور از تھانوی : حصہ سوم ، صفحہ نمبر ٥٦، مسئلہ نمبر ٢)
جناب مفتی کفایت اللہ دہلوی دیوبندی صاحب ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :
”سوال : کن جانوروں کا جوٹھا پانی پاک ہے؟
جواب : آدمی اورحلال جانوروں کا جوٹھا پانی پاک ہے ، جیسے گائے ، بکری ، کبوتر، گھوڑا !”(تعلیم الاسلام از کفایت ال

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.