993

حدیث افک پر اعتراضات۔۔۔4۔۔۔حافظ ابویحیی نور پوری

دفاعِ حدیث صحیح بخاری کا مطالعہ اور فتنہ انکارِ حدیث
حدیث ِ افک پر اعتراضات اور ان کے جوابات 4
اعتراض نمبر & : ”اس افسانہ کے فرضی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ام المؤمین حضرت جویریہ بنت ِ حارث رضی اللہ عنہا سے حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہئ بنی مصطلق سے واپس ہو کر ہی عقد فرمایا ہے ۔۔۔۔محمد بن اسحاق کی روایت یہ ہے کہ اولاً جویریہ خطیب ِ اسلام حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی تھیں ،یعنی مالِ غنیمت تقسیم کرتے وقت آپ نے جویریہ ثابت کو بخش دی تھیں ، حضرت جویریہ نے ثابت سے کتابت کا معاملہ کر لیا ، یعنی یہ کہ میں آپ کو اس قدر رقم دے دوں گی ، آپ مجھے آزاد کر دیں ، ثابت نے فوراً منظور کر لیا ۔۔۔۔جویریہ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میں بنی مصطلق کے سردار حارث کی بیٹی ہوں اور مشرف بہ اسلام ہوں ، ثابت بن قیس نے جس کے حصہ میں میں آئی ہوں ، مجھے مکاتب کر دیا ہے ، مجھے ثابت کو وہ رقم ادا کرنی ہے ، آپ نے فرمایا ، اگر تمہیں منظور ہو تو وہ پوری رقم میں ادا کر دوں اور تم سے نکاح کر لوں ، حضرت جویریہ نے عرض کیا ، مجھے بالکل منظور ہے ، آپ نے ثابت کو رقم ادا کر دی اور ان سے نکاح کر لیا ۔۔۔
پس اگر غزوہئ بنی مصطلق سے واپسی پر حضرت صدیقہ پر بہتان لگنے کا واقعہ ہوا ہوتا تو یہ زمانہ تو حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شدید رنج و غم کا تھا ، جو زہری کی روایت کے مطابق ایک ماہ تک چلا ہے ، تو کیا ایسے رنج و غم کے زمانے میں حضور ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نکاح فرماتے ؟ شادی و ناشادی تو ایک دوسرے کی نقیض ہیں ، ان کا اجتماع نہیں ہو سکتا ۔”

(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١٧٠۔١٧١)
K : 1 قارئین کرام ! شادی وناشادی یقینا ایک دوسرے کی نقیض ہیں اور ا ن کا اجتماع نہیں ہو سکتا ، لیکن اس حدیث میں تو اس اجتماع کا اشارہ تک موجود نہیں ،کیا کوئی منکر ِ حدیث کسی حدیث سے ہمیں یہ دکھا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عین اسی زمانے میں سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا سے شادی فرمائی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگائے جانے والے بہتان کے رنج و غم میں مبتلا تھے ؟
واقعہ یہ ہے سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا سے شادی یا تو سفر میں ہوگئی تھی یا سفرسے واپسی کے فوراً بعد ہوئی ہے، جب ابھی تک منافقین اپنے پروپیگنڈے کو ہوا دینے کی کوشش میں تھے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے واقف نہ ہوئے تھے ، میرٹھی صاحب کا کوئی جانشین ہمت کر کے کسی ایک روایت میں دونوں واقعات کا اجتماع ثابت کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ میرٹھی صاحب کے اس اعتراض کی بنیاد محض اس مفروضے پر ہے کہ یہ دونوں کام غزوہئ بنی مصطلق کے بعد ہوئے ہیں ، لہٰذا ان کا ”اجتماع” ہو گیا ہے ،حالانکہ اس مفروضے کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ، کیا صرف ایسے کمزور شبہ کی بنا پر بے ابر دن کے سورج کی طرح روشن واقعہ کا انکار کر دیا جائے جسے تمام صحابہ وتابعین،ائمہ دین ،محدثین ، مفسرین ، فقہاء اور اصولیین اپنے عقیدہ وعمل کی بنیاد بناتے چلے آئے ہیں اور جس کا چودہ سو سال میںآج تک کسی مسلمان نے انکار نہیں کیا ؟
کیا میرٹھی صاحب کے خیال میں چودہ سو سال میں ان کے علاوہ کوئی ایک انسان بھی اتنا زیرک پیدا نہیں ہوا تھاکہ جس کے ذہن میں ”اس افسانے کے فرضی ہونے کی ایک دلیل یہ ” ہی آجاتی ؟
2 سنن ابی داؤد(٣٩٣١) کی جس روایت سے استدلال کرکے صحیح بخاری کی متفق علیہ حدیث پر اعتراض کیا گیا ہے ،میرٹھی صاحب کے قاعدے کے مطابق وہ ناقابل التفات ہے ، اس میں وہی محمد بن اسحاق بن یسار امام المغازی رحمہ اللہ موجود ہیں ، جن کے بارے میں میرٹھی صاحب اپنی اسی کتاب میں لکھ چکے ہیں :
”اس کی روایت مؤرّخ محمد بن اسحاق نے کی ہے جو ثقہ نہ تھا ، ضعیف و غلط بیان اور بات کا بتنگڑ بنا دینے والا آد می تھا ۔”(”مطالعہ” : ١/٢٥)
اب میرٹھی صاحب کا کوئی معتقدہی بتائے کہ ان کی ”میٹھا میٹھا ہپ اور کوڑا کوڑا تھُوہ” والی اس پالیسی کو کیا نام دیا جائے ؟ کیا اب بزعم ِ خود ان کے مطلب کی بات آئی ہے تو وہی ”ضعیف و غلط بیان اور بات کا بتنگڑ بنا دینے والے ”محمد بن اسحاق رحمہ اللہ عین ثقہ ہو گئے ہیں کہ ان کی روایت کو بنیاد بنا پر ساری امت ِ مسلمہ کی مسلّم حدیث کا انکار کر دیا ہے ؟ تِلْکَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی ۔ ”تب تویہ بندر بانٹ ہے۔”
اعتراض نمبر * : ”اس گھڑی ہوئی بے بنیاد کہانی کو اس لیے بھی رد کرنا ضروری ہے کہ یہ عصمت ِ انبیاء کے منافی ہے ، توضیح اس کی یہ ہے کہ عصمت نبوّت کا وصف ِ لازم ہے ، اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی مبعوث فرمایا ، وہ معصوم تھا ، یعنی ان تمام جسمانی واخلاقی عیوب سے قطعاً محفوظ جو لوگوں کی نگاہ میں ذلت و حقارت کا باعث ہوں ۔۔۔۔۔۔
کوئی جسمانی واخلاقی عیب کسی نبی میں نہ ظہور ِ نبوت سے قبل پایا گیا نہ ظہور ِ نبوت کے بعد تاوفات حادث ہوا اور ان عیوب میں سے ناپارسائی ، یعنی زنا کی وجہ سے پیدا شدہ ذلت و حقارت متعدی ہوتی ہے اور دیگر عیوب سے پیدا شدہ ذلت و حقارت اسی شخص کی ذات تک محدود رہتی ہے ، جس میں وہ عیب ہو ، مثلاً کوئی مرد چور ہو اوراس کے اعزا و اقربا ، بھائی ، بہن ، اولاد ، ماں ، باپ ، دادا ، دادی چور نہ ہو ں تو اسی چور مرد سے نفرت کی جاتی ہے اور اسے ہی گری ہوئی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ، اس کے اعزا واقربا سے محض اس کے جرم کی وجہ سے نفرت نہیں کی جاتی ، الا یہ کسی طرح اس چور کی اعانت و حمایت کرتے ہوں ۔۔۔۔
لیکن زنا ایسا جرم ہے کہ اس کی وجہ سے پیدا شدہ نفرت و حقارت زانی و زانیہ کے اصول و فروع اور اہل و عیال کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ، زانیہ عورت کے جرم کی وجہ سے اس کے ماں ، باپ ، دادا ، دادی کی ، اس کے شوہر کی ، اس کی اولاد کی بھی بے عزتی ہوتی ہے ۔۔۔۔
پس جس طرح کوئی بھی نبی کبھی جرم ِ زنا کا مرتکب نہیں ہوا ، اسی طرح کسی نبی کے والدین اور بھائیوں ، بہنوں اور اہل وعیال سے بھی کوئی اس کا مرتکب نہیں ہوا ۔
نبی کی بیوی کافرہ ہو سکتی تھی ، مگر زانیہ نہیں، نبی کے بیٹے یا بیٹی سے کفر کا صدور ہو سکتا تھا ، مگر زنا کا نہیں ، نبی کے ماں باپ مبتلائے کفر ہو سکتے تھے ، مگر ان کا مبتلائے زنا ہونا ممکن نہ تھا ، پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آپ کی تمام ازواجِ مطہرات اور جملہ بنات ِ طیبات کے لیے بھی عصمت تکوینی طور پر مقدر ولازم کر دی گئی تھی ، جیسے تکوینی طور پر ہر زندہ انسان کے لیے سانس لینا لازم ومقدر کر دیا گیا ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ کو اس امر میں اپنے نبی کی عصمت اس قدر عزیز رہی ہے کہ کسی بے ہودہ شخص یا اشخاص نے اگر کسی نبی کی ذات یا نبی سے قرابت ِ قریبہ رکھنے والی کسی ہستی کی عفت پر الزام لگایا تو علی الفور اس قدر واضح طریق سے اس کی تردید فرما دی جیسے بے ابر دن میں نصف النہار کا سورج واضح ہوتا ہے ۔
عزیز مصر کی بیوی نے اپنے شوہر کے سامنے اپنے بچاؤ کے لیے حضرت یوسف uپر ارادہئ بد کا الزام لگایا تو علی الفور عزیز کے سامنے اس کی پول کھول دی گئی ، حضرت عیسی uکو کنواری مریم صدیقہ کی گود میں دیکھ کر لوگ بپھر گئے اور ان پر الزام رکھنے لگے تو علی الفور حق تعالیٰ نے شیر خوار مسیح بن مریم کی زبان پر وہ سنجیدہ و باوقار تقریر جاری فرما دی جسے سن کر سب لوگ مبہوت رہ گئے اور پہلے سے بھی کہیں زیادہ حضرت مریم کے معتقد بن گئے ، بلکہ انبیائے کرام کے علاوہ نیک و صالح بندوں پر بھی اللہ تعالیٰ کی یہ نوازش رہتی ہے ۔
چنانچہ صحیح بخاری وغیرہ میں ایک عابد وزاہد جریج نامی شخص کا قصہ مذکور ہے جو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان فرمودہ ہے کہ شیر خوار بچہ نے جو اپنی حرام کار ماں کی گود میں تھا ، برملا جریج کی بے گناہی ظاہر کر دی اور عامۃ الناس یہ کرامت دیکھ کر جریج کے بے حد معتقد ہو گئے ، پس اگر ام المؤمنین پر الزام لگایا گیا ہوتا تو سنت اللہ تعالیٰ سنت ِ انبیاء کے مطابق علی الفور کوئی ایسی ہی قطعی اور غیبی نشانی رونما فرمادیتا جس سے اس بہتان کے پرخچے اُڑ جاتے ، ایک ماہ تک مسلسل اپنے حبیب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جانکاہ غم میں مبتلا نہ رکھتا ، اس لیے میں اس کہانی کو از اوّل تا آخر غلط سمجھتا ہوں ۔۔۔۔”(”مطالعہ” : ١/١٧١۔١٧٤)
K : 1اگر عقل ہی معیار ہے تو میرٹھی صاحب اور ان کے ہمنوااس رافضی اور قرآنِ کریم میں (نعوذباللہ)تحریف کے دعویٰ دار آدمی کو کیا جواب دیں گے جو قرآنِ کریم پر یہی اعتراض کر دے اور کہہ دے کہ : (نقل کفر کفر نہ باشد)
”میں قرآن میں مذکور یوسف uکا واقعہ غلط اور کسی کا اپنی طرف سے گھڑا ہوا سمجھتا ہوں ، کیونکہ یہ عصمت ِ انبیاء اور سنت الٰہی کے خلاف معلوم ہوتا ہے ، وہ یوں کہ کسی نبی پر یا کسی ولی پر کبھی ناپارسائی کا کوئی الزام لگا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فوراً علی الاعلان سب کے برملا اس کی براء ت کی ہے ، جبکہ سورہئ یوسف میں یہ بتایا گیا ہے کہ یوسف uکی براء ت کا برملا اعلان عزیز مصر کی بیوی نے اس وقت کیا ، جب آپ چند سال تک قید کاٹ چکے تھے ، پھر اس نے کہا تھا : اَلْئٰنَ حَصْحَصَ الْحَقَّ ، أَنَا رَاوَتُّہ، عَنْ نَّفْسِہٖ وَاِنَّہ، لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ \ (یوسف : ٥١) ”اب حق آشکارا ہوا ہے ، میں نے ہی اسے اس کے نفس کے بارے میں بہلایا تھا اور بلاشبہ وہ سچے لوگوں میں سے ہیں ۔”
پھر یوسف uکا یہ مقولہ ذکر کیا گیا ہے : ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ أَنِّیْ لَمْ أَخُنْہُ بِالْغَیْبِ وَأَنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ کَیْدَ الْخَائِنِیْنَ\ (یوسف : ٥٢) ”یہ (میری طرف سے کیا گیا تحقیق کا مطالبہ ) اس لیے تھا کہ وہ (عزیز مصر) یقین کر لے کہ میں نے اس کی غیر موجودگی میں اس سے خیانت نہیں کی اور یقینا اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کی تدبیر کو چلنے نہیں دیتا ۔”
سنت ِ الٰہی کے مطابق تو یوں ہونا چاہیے تھا کہ اسی وقت سب لوگوں کوسرِ عام یوسف uکی براء ت سے آگاہ کیا جاتا ،جیسا کہ مریم [کی گود میں سیدنا عیسیٰ uنے برملا سب لوگوں کے سامنے ان کی براء ت کا اظہار کیا تھا اور سب لوگ اسی وقت ان کی پارسائی پر ایمان لے آئے تھے ، لیکن یہاںمذکور ہے کہ کئی سال بعد سب لوگوں کے سامنے یہ حقیقت آشکارا ہوئی تھی،بلکہ خود یوسف uنے اس امر کی ضرورت محسوس کی اور بادشاہ کو یہ پیغام بھجوایا کہ پہلے اس کیس کی تحقیقات کروائیں تاکہ بادشاہ اور تمام لوگوں کو آپ uکی براء ت کا یقین ہو جائے اور کسی قسم کا کوئی شبہ باقی نہ رہے۔۔۔”
2 جریج راہب کے قصہ میں بھی ”علی الفور” والی کوئی بات نہیں ہے ، جس کا میرٹھی صاحب نے دعویٰ کیا ہے، بلکہ لوگوں نے عورت کے الزام پر یقین کر کے اس کے عبادت خانے کو مسمار کر دیا تھا اور اسے گالیاں بھی دی تھیں ، صحیح بخاری ہی کے الفاظ ہیں :
فأتوہ ، فکسروا صومعتہ ، وأنزلوہ ، وسبّوہ ۔۔۔ ”لوگ اس کی طرف آئے ، اس کے عبادت خانے کو ڈھا دیا ، اس کو باہر نکالا اور اسے گالی گلوچ کیا ۔۔۔”(صحیح بخاری : ٣٤٣٦)
اس واقعہ کو تو خود میرٹھی صاحب نے اپنے مؤقف کی تائید کے لیے پیش کیا ہے ، اگر کوئی آدمی کہہ دے کہ ”اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے نیک بندوں کو اس طرح کے الزام کی وجہ سے کوئی گزند پہنچنے سے پہلے ہی بری کر دیتا ہے ، لیکن جریج کے واقعہ کو میں غلط سمجھتا ہوں ، کیونکہ اس میں یہ مذکور ہے کہ لوگوں نے اس کا عبادت خانہ مسمار کر دیا تھا ، اسے باہر نکال دیا تھا اور اسے گالی گلوچ بھی کی تھی ، حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ علی الفور اس کی براء ت کا اظہار فرماتا ۔” تو میرٹھی صاحب اور ان کے ہمنواؤں کے پاس اس کا کیا جواب ہے ؟
جو وہ جواب اپنے ہاں اس تسلیم شدہ واقعہ کا دیں گے ، وہی حدیث ِ افک کا ہم دے دیں گے ۔
3 اگر کوئی منکر ِ قرآن کہہ دے کہ ”میں قرآن میں مذکور مریم[کا واقعہ تسلیم نہیں کرتا ، کیونکہ اس میں مذکور ہے کہ لوگوں نے سیدہ مریم [ پر بہتان رکھ دیا تھا کہ تیرے ماں باپ تو ایسے بدکار نہ تھے ، تُو نے کیا کیا ہے ؟؟؟ حالانکہ عقل کا تقاضا یہ ہے اللہ کے نیک بندوں کے بارے میں ایسی بات ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کوئی نشانی ظاہر کر کے لوگوں کو مطمئن کر دے ، اس لیے کہ ایسی بات کاایک دفعہ کہہ دیا جانا بھی انبیاء و صلحاء کی عصمت و عظمت کے منافی ہے ۔”
تو منکرینِ صحیح بخاری کے پاس اس کا کیا جواب ہو گا ؟ ؟؟ وہی ہمارا جواب سمجھ لیں !!!
4 قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت مذکور ہے اور ہر مسلمان اس کا اقراری بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی آزمائش کرتا ہے ، نیز ہر ذی شعور آدمی یہ سمجھتا ہے کہ جتنا کوئی انسان اللہ کے زیادہ قریب ہو گا ، اتنی ہی اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے ، تمام انبیاء و صلحاء مل کر نبی ئ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے ، آپ کا چونکہ مقام و مرتبہ سب سے اونچا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی آزمائش بھی سخت کی گئی ، لہٰذادیگر انبیاء وصلحاء کے اس طرح کے واقعات کے نسبت اللہ تعالیٰ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت کا اعلان کچھ دیر سے کیا ، نیز اس میں بہت سی بلیغ حکمتیں پوشیدہ تھیں ، جن کے تذکرے کا یہ مقام نہیں ہے ۔
تنبیہ : الحمد للہ ! میرٹھی صاحب کے صحیح بخاری کی حدیث ِ افک پرکیے گئے تمام اعتراضات کا ہم نے مفصل جواب دے دیا ہے ، ان اعتراضات کے آخر میں خلط ِ مبحث سے کام لیتے ہوئے دس سے زائد صفحات خوامخواہ سیاہ کیے ہیں ، کہتے ہیں : ” رہا یہ سوال کہ اس فرضی کہانی کا مصنف کون ہے اور وجہئ تصنیف کیا تھی؟ تو اس کا جواب دینے سے قبل میں ان تینوں روایتوں کی اسناد پر بحث کروں گا۔۔۔”
اسناد پر اعتراضات کا تو ہم نے تفصیلی جواب شروع میں ہی اصولی اعتراضات اور ان کے جوابات کے ضمن میں دے دیا ہے ، باقی میرٹھی صاحب نے خود یہ اعتراف بھی کر لیا ہے کہ ان کے نزدیک جو اس کہانی کا مصنف ہے ، اس کا نام وہ نہیں جانتے ، نہ معلوم پھر وہ اٹکل پچو سے کام کیوں لے رہے ہیں ۔
رہی وجہئ تصنیف تو اس میں انہوں نے نہایت بے بنیاد باتیں کی ہیں ، جن کا ان کے موضوع ، یعنی صحیح بخاری سے کوئی تعلق نہیں ۔
لہٰذا ہم ان کی اس فضول کاوش کی طرف التفات نہیں کر رہے،حالانکہ وہاں بھی جابجا ان پر گرفت کی جاسکتی ہے ، لیکن یہ سب کچھ ہمارے موضوع سے خارج ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.