601

صحیح بخاری کا مطالعہ، حدیث تحویل قبلہ حافظ ابویحیی نور پوری، شمارہ 19

اعتراض نمبر 2 :     ”پس بخاری کی روایت کے مطابق عبیداللہ بن موسیٰ کی بیان کردہ یہ حدیث تین حدیثوں پر مشتمل ہے ۔(١) صلح حدیبیہ کا قصہ (٢) جب حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  مکہ سے روانہ ہوئے تو حمزہ کی بیٹی کا یا عمّ ، یا عمّ      پکارتے ہوئے آپ کے پیچھے لگ جانا۔۔۔ (٣) حضرت علی کا آپ سے درخواست کرنا کہ حمزہ کی بیٹی کو اپنی زوجیت میں لے لیں اور آپ کا یہ فرمانا کہ رضاعی رشتہ سے میری بھتیجی ہونے کی وجہ سے وہ میرے لیے جائز نہیں ہے ۔
عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ تینوں حدیثیں بخاری کوایک ہی سیاق وسند کے ساتھ سنائی تھیں ، جس سے بخاری نے سمجھ لیا کہ تینوں قصوں پر مشتمل یہ ایک ہی حدیث ہے ، جو براء بن عازب صحابی سے مروی ہے ۔ اورامام بخاری کے علاوہ محمد بن سعد اورحافظ احمد بن حازم بن ابی غرزہ غفاری نے بھی عبیداللہ بن موسیٰ سے یہ حدیث روایت کی ہے ، مگر ان دونوں کی روایت میں صلح حدیبیہ کا قصہ نہیں ہے۔۔۔اور عبیداللہ بن موسیٰ کے علاوہ اسرائیل بن یونس سے یہ حدیث اسود بن عامر ، یحییٰ بن آدم ، حجاج بن محمد اور اسماعیل بن جعفر نے بھی روایت کی ہے ۔ ان میں سے کسی کی روایت میں صلح حدیبیہ کا قصہ نہیں ، صرف حمزہ کی بیٹی کا قصہ مذکور ہے ۔۔۔
پس اسرائیل کے اس حدیث میں پانچ تلامذہ ہیں : 1 اسود بن عامر 2 یحییٰ بن آدم 3 حجاج بن محمد 4 اسماعیل بن جعفر اور 5 عبیداللہ بن موسیٰ ۔
اوّل الذکر چار اشخاص کی روایت میں بس دختر حمزہ کا ذکر ہے ، صلح حدیبیہ کا نہیں اور ان کی اسناد بتاتی ہے کہ ابواسحاق کو دختر حمزہ کا یہ قصہ ہبیرہ بن یریم اور ہانی بن ہانی سے معلوم ہوا تھا اور یہ دونوں شخص غیر ثقہ ، ضعیف ومجروح اور رافضی ہیں ۔ دونوں نے متعدد اناپ شناپ باتیں حضرت علی کی طرف منسوب کر کے لوگوں میں پھیلانے کا جرم کیا تھا ۔عبیداللہ بن موسیٰ نے اپنے رفض وبداعتقادی کو زہد اور تقیہ کے ذریعہ چھپانے کی بلیغ کوشش کی تھی اور وہ اس بات سے واقف تھا کہ اہل علم ہبیرہ بن یریم اور ہانی بن ہانی کو غیر ثقہ سمجھتے ہیں ، مگر ان کی روایت میں مذکور ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے أنت منّی وأنا منک (تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں)فرمایا تھا ۔ عبیداللہ نے اسے صحیح ثابت کرنے کی غرض سے دوطرح کی تلبیس کی تھی ۔ ایک یہ ہبیرہ اورہانی کے ساتھ حضرت براء بن عازب کا بھی ذکر کردیا ، چنانچہ اس نے محمد بن سعد کو یہی بتایا تھا کہ ابواسحاق نے یہ دختر حمزہ کا قصہ حضرت براء بن عازب سے بھی روایت کیا ہے اور ہبیرہ بن یریم اورہانی سے بھی اور ان دونوں (ہبیرہ وہانی)نے حضرت علی سے ۔ مقصد یہ تھا کہ ہبیرہ وہانی کے ضعیف وغیرثقہ ہونے کو نظر انداز کر دیا جائے ۔ یہ سمجھ کر کہ جو بات ان دوضعیف شخصوں نے بیان کی ہے ، وہی حضرت براء بن عازب صحابی نے بھی بیان کی ہے ۔ دوم یہ کہ اسناد سے ہبیرہ وہانی کا نام ہی سرے سے حذف کردیا اورابواسحاق نے حضرت براء بن عازب سے صلح حدیبیہ کے متعلق جو حدیث روایت کی ہے اورابواسحاق نے ہبیرہ وہانی سے دختر حمزہ کے متعلق جو حدیث روایت کی ہے ، دونوں کو ملا کر ایک حدیث براء بن عازب کی بیان کردہ حدیث بنا دیا۔ امام بخاری کو عبیداللہ نے یہ ہی دھوکا دیا تھا ۔
امام بخاری کے علم میں اسرائیل بن یونس کے دیگر تلامذہ کی روایات آگئی ہوتیں تو شاید وہ یہ دھوکا نہ کھاتے اورزکریا بن ابی زائدہ کی روایت نے تو عبیداللہ بن موسیٰ کی تلبیس کا پردہ چاک کردیا ہے ۔ یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ کہتے ہیں :     حدّثنا أبی وغیرہ عن أبی اسحاق عن البراء بن عازب ۔۔۔ اس روایت سے روز ِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ ابواسحاق نے دخترِ حمزہ کا قصہ ہبیرہ بن یریم وہانی بن ہانی سے سنا تھانہ کہ براء بن عازب سے اورعبیداللہ بن موسیٰ عبسی نے فریب دینے کی خاطر جھوٹ بول کر اُسے براء بن عازب کی طرف منسوب کردیاتھااورعبیداللہ بن موسیٰ کی بیان کردہ یہ حدیث صحیح بخاری میں جگہ پانے کے لائق نہ تھی ۔”
(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٦٧۔٧٠)
J :      1    قارئین کرام !میرٹھی صاحب کے اس دعویٰ کو آپ دوبارہ پڑھ لیں کہ اسرائیل کے اس حدیث میں پانچ اساتذہ ہیں اور اسرائیل بن یونس سے صلح حدیبیہ والا واقعہ صرف عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ہے ، کسی اور راوی نے نہیں ۔
لیکن یہ دونوں باتیں سفید جھوٹ ہیں ۔پہلی بات یوں کہ اس حدیث میں اسرائیل کے صرف پانچ نہیں ہیں ، بلکہ منکرینِ حدیث اگر انکار ِ حدیث کی عینک اتار کرکتب ِ احادیث کا مطالعہ کرتے تو انہیں اسرائیل کے دو اورشاگرد حجین بن مثنیٰ اور محمد بن یوسف فریابی،مسند احمد (٤/٢٩٨) اورسنن دارمی (٢٥٠٧)میں نظر آجاتے ۔دوسری بات کہ اسرائیل بن یونس سے صلح حدیبیہ والا قصہ صرف عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ہے، یوں جھوٹ ہے کہ مذکورہ دونوں شاگردوں نے اسرائیل بن یونس سے صلح حدیبیہ والا قصہ ہی بیان کیا ہے ۔اب تو کوئی شبہ نہیں رہا کہ میرٹھی صاحب کا عبیداللہ بن موسیٰ پر اعتراض فضول ہے ۔
اوریہاں ایک مزے کی بات آپ کو بتاتے چلیں کہ میرٹھی صاحب کو اس اعتراض کے بعد معلوم ہوگیا تھا کہ اسرائیل کے اس حدیث میں دو اور شاگرد بھی موجود ہیں اور وہ یہی صلح حدیبیہ والا قصہ بیان کرتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے اس کا تذکرہ بھی کیا ہے ۔(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٧٤)
لیکن افسوس کہ انہوں نے اپنی اس صریح غلط بیانی کو جانتے بوجھتے برقرار رکھا ہے ۔اس سے رجوع کر کے اسے اپنی کتاب سے خارج کرنے کی ہمت نہیں کرسکے ۔
2    میرٹھی صاحب کا ہبیرہ بن یریم اور ہانی بن ہانی کو غیرثقہ ، ضعیف اور مجروح قرار دینا بھی جھوٹ ہے ، کیونکہ:
(١)     ہبیرہ بن یریم کے بارے میں امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا بأس بحدیثہ ، ھو أحسن استقامۃ من غیرہ ۔ ”اس کی حدیث میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ وہ اپنے علاوہ دوسرے راویوں سے بہتر استقامت والا ہے ۔
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٩/١٠٩، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      وأرجوا أن لا بأس بہ ۔     ”اورمجھے امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔”(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٧/١٣٣)
امام عجلی  رحمہ اللہ اسے ثقہ قرار دیتے ہیں ۔(معرفۃ الثقات للعجلی : ١٨٨٥)
امام ِ ترمذی  رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کو ”حسن صحیح” کہا ہے(جامع الترمذی : ٧٩٥، ٢٨٠٨) ، جو کہ اصولِ محدثین کے مطابق اس کی توثیق کو مستلزم ہے۔
امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ نے بھی اسے اپنی کتاب الثّقات میں ذکر کرکے ثقہ قرار دیا ہے۔
(الثقات لابن حبان : ٥٩٨٩)
اما م نسائی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      أرجوا أن لا یکون بہ بأس ، ویحییٰ وعبد الرّحمن لم یترکا حدیثہ ۔۔۔     ”میں امید کرتا ہوں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ امام یحییٰ(بن سعید القطان)اور عبدالرحمن (بن مہدی )نے اس کی حدیث کو نہیں چھوڑا ۔”
(تہذیب التھذیب لابن حجر : ١١/٢٣)
اما م حاکم  رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کو بخاری ومسلم کی شرط پر ”صحیح” قراردیا ہے ۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٣٧٧٣، ٨٠٠٣)، نیز اس کی سند کو ”صحیح” بھی کہا ہے (٦٤١٤)،حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
علامہ ہیثمی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     وھو ثقۃ ۔    ”وہ ثقہ ہیں ۔”
(مجمع الزوائد : ٣/٢٠٨، ٥/٢٠٣، ٢٩٧)
سب اقوال کو مدّ ِ نظر رکھ کر حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ کا اس کے بارے میں فیصلہ یہ ہے کہ :
لا بأس بہ ، وقد عیب بالتّشیّع ۔     ”اس میں کوئی حرج نہیں ، اس میں شیعہ ہونے کا عیب بیان کیا گیا ہے ۔”(تقریب التھذیب لابن حجر : ٧٢٦٨)
یہ وضاحت تو ہم قارئین کرام کی نظر کر ہی چکے ہیں کہ محض شیعہ (سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا قائل )ہونا محدثین کی نظر میں حدیث میں کسی ضعف کا سبب نہیں بنتا ۔
عبدالرحمن بن یوسف بن خراش کا اس راوی کو ”ضعیف” قرار دینا کوئی حیثیت نہیں رکھتا ، کیونکہ خودابنِ خراش رافضی خبیث تھا ۔(لسان المیزان لابن حجر : ٣/٤٤٤)
میرٹھی صاحب کے معتقدین کسی محدث سے ہبیرہ بن یریم کو ”رافضی” کہنا ثابت نہیں کرسکتے !
اب قارئین کرام ہی بتائیں کہ اقوالِ محدثین سے بالکل بے خبر ہوکر ہبیرہ بن یریم کو بلادلیل غیر ثقہ ، ضعیف ومجروح اور رافضی کہنے والے میرٹھی صاحب کی بات مانی جائے گی یا اقوالِ محدثین کے مطابق فیصلہ کرکے ہبیرہ بن یریم کو قابل اعتبار کہنے والے ، ماہرِ فن علامہ ہیثمی  رحمہ اللہ اور حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ کی ؟فیصلہ خود کریں!
(٢) ہانی بن ہانی کے بارے میں امام نسائی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      لیس بہ بأس ۔
”اس میں کوئی عیب نہیں ۔”(تہذیب التھذیب لابن حجر : ١١/٢٢)
امام عجلی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      کوفیّ ، تابعیّ ، ثقۃ ۔    ”کوفہ کے رہنے والے تابعی ہیں ۔ ثقہ (قابل اعتبار) آدمی تھے ۔”(معرفۃ الثقات : ١٨٨٣)
امام ِ ترمذی  رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کو ”حسن صحیح” کہا ہے ، جو کہ اصولِ محدثین کے مطابق اس کی توثیق کو مستلزم ہے۔(جامع الترمذی : ٣٧٧٩، ٣٧٩٨)
امام الضیاء المقدسی  رحمہ اللہ نے بھی اس کی حدیث کو صحیح قرار دے کر اس کی توثیق کی ہے ۔
(الاحادیث المختارۃ للضیاء المقدسی : ٧٨٨، ٧٩١)
امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ بھی اس کو ثقہ قرار دیتے ہیں ۔(الثقات لابن حبان : ٥٩٧٩)
امام حاکم  رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کو ”صحیح الاسناد” قراردیا ہے ۔ حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤٧٧٣، ٤٧٨٣)
علامہ ہیثمی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      وھو ثقۃ ۔ ”وہ ثقہ ہے۔”(مجمع الزوائد : ٨/١٠٢)
علامہ ذہبی  رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ راوی ”حسن الحدیث ” ہے ۔(الکاشف للذھبی : ٥٩٣٨)
امام ابن مدینی رحمہ اللہ  کا اسے ”مجہول” اور امام ابنِ سعد  رحمہ اللہ کا اسے ”منکرالحدیث” کہنا جمہور کی توثیق کے مقابلے میں قابل التفات نہیں ہے ۔
آج تک کسی ناقد ِ رجال محدث نے ہانی بن ہانی کو ”رافضی” نہیں کہا۔ اگر میرٹھی صاحب کی کسی معتقد میں ہمت ہے تو آزمائے !
اب قارئین کرام ہی بتائیں کہ راویانِ حدیث کے بارے میں بات ائمہ حدیث اورمحدثین کی مانی جائے گی یا میرٹھی صاحب کی ؟
3     ہم پوری وضاحت سے ثابت کر چکے ہیں کہ عبید اللہ بن موسیٰ کو رافضی وبدعقیدہ کہنا میرٹھی صاحب کی اپنی بدعقیدگی اورتلبیس وعیاری کی بدترین مثال ہے ۔
نیز یہ بات بھی میرٹھی صاحب کے اعتراف کے ساتھ مکمل طور پر واضح ہوچکی ہے کہ صرف عبیداللہ بن موسیٰ نے ہی اس طرح روایت بیان نہیں کی ، بلکہ دو اور راوی بھی صلح حدیبیہ والا قصہ اسرائیل سے بیان کرتے ہیں ، لہٰذا اسے عبیداللہ بن موسیٰ کی تلبیس ، دھوکا دہی اور عیاری کہنا بجائے خودابلیسی ہتھکنڈا ، بہت بڑا فراڈ اور شیطان کی یاری ہے !
4    زکریا بن ابی زائدہ کی اس روایت نے تو الٹا میرٹھی صاحب کی تلبیس کا پردہ چاک کیا ہے ، کیونکہ انہوں نے ابواسحاق کی سند سے صلح حدیبیہ اور دخترِ حمزہ دونوں کا قصہ بیان کیا ہے اور وہ سیدنا براء بن عازب  رضی اللہ عنہ سے ہی بیان کررہے ہیں۔یہ تو اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ اس پرعبیداللہ بن موسیٰ کی وجہ سے اعتراض کرنا انتہائی فضول ہے اور عبیداللہ بن موسیٰ عبسی کی یہ حدیث صحیح بخاری میں جگہ پانے کے بالکل قابل تھی ۔
ہاں !البتہ میرٹھی صاحب کی علمی اورعقلی قابلیت امت ِ مسلمہ کے اتفاقی فیصلے صحیح بخاری پر اعتراض کرنے کے قابل نہیں تھی ۔
5    سچ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ،وہ ایک صورت میں قائم نہیں رہ سکتا ، بلکہ ہمیشہ شکل بدلتا ہی رہتا ہے ۔میرٹھی صاحب نے ابواسحاق کی حدیث ِ تحویل قبلہ پر ابواسحاق کے اختلاط کا اعتراض کیا تھا ، لیکن اب ”دروغ گو را حافظہ نہ باشد” کی عملی تصویر بن کراس کانام تک نہیں لیا ، بلکہ عبیداللہ بن موسیٰ ، ہبیرہ بن یریم اور ہانی بن ہانی پر بلادلیل طبع آزمائی کرکے اس حدیث کو ”ضعیف” قرار دینے کی کوشش میں ہیں ۔
حدیث ِ تحویل قبلہ میں بھی ابواسحاق کے ایک شاگرد اسرائیل بن یونس تھے، جن کے بارے میں میرٹھی صاحب کا اصرار تھا کہ انہوں نے ابو اسحاق سے اختلاط کے بعداحادیث سنی تھیں ، لیکن ہم نے بفضل اللہ ایک درجن محدثین سے ان کا اختلاط سے قبل سننا ثابت کیا تھا ۔ اب وہی اسرائیل یہاں اسی ابواسحاق سے بیان کررہے ہیں ، مگر میرٹھی صاحب نے ان کا نام تک نہیں لیا ۔معلوم ہوا کہ میرٹھی صاحب کا وہ اعتراض جاہلانہ تھا۔ اگر ابواسحاق کے اختلاط والا اعتراض کوئی علمی حیثیت رکھتا ہوتا تو وہ یہاں بھی اسے ضرور ذکر کرتے !وہاں اگر یہ حدیث کے ”ضعف” کا سبب تھا تو یہاں کیوں نہیں ؟
قارئین کرام ! اللہ سے ڈر کر فیصلہ کریں کہ حق کس کے ساتھ ہے ؟ امام بخاری  رحمہ اللہ ، پوری امت ِ مسلمہ اور صحیح بخاری کا دفاع کرنے والوں کے ساتھ یا محدثین اورپوری امت ِ مسلمہ کے اتفاقی فیصلے صحیح بخاری اور پر بلادلیل اعتراض کرنے والے منکرینِ حدیث کے ساتھ ؟
فائدہ :      صحیح بخاری وصحیح مسلم کے علاوہ دوسری کتب ِ حدیث میںاس حدیث کی دو سندوں میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے بشارت سن کر سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  ، سیدنا زید اورسیدنا جعفر کے ناچنے کا ذکر ہے ۔(مسند الامام احمد : ١/١٠٨، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٨/٦)
اس کی تین سندیں ہیں ، ایک مسند احمد میں اور دو بیہقی میں ، لیکن یہ سب کی سب ”ضعیف” ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ  والی سند ابواسحاق السبیعی کی ”تدلیس” کی بنا پر ”ضعیف” ہے ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی دوسندیں پیش کی ہیں ۔ پہلی سند(٨/٥۔٦)میں اگرچہ ابواسحاق السبیعی نے سماع کی تصریح کی ہے ، مگر اس سند کا ایک راوی عبد اللہ بن محمد (بن سعید)بن ابی مریم سخت ”ضعیف” ہے ۔
امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :     عبد اللّٰہ بن محمّد بن سعید بن أبی مریم مصریّ ، یحدّث عن الفریابیّ وغیرہ بالبواطیل ۔۔۔
”عبداللہ بن محمد بن سعید بن ابی مریم مصری ہے ۔ یہ فریابی وغیرہ سے باطل روایات بیان کرتا ہے۔”
نیز لکھتے ہیں :     وعبد اللّٰہ بن محمّد بن سعید بن أبی مریم ھذا إمّا أن یکون مغفّلا لا یدری ما یخرج من رأسہ أو یتعمّد ، فإنّی رأیت لہ غیر حدیث ممّا لم أذکرہ أیضا ھاھنا غیر محفوظ ۔     ”یہ عبداللہ بن محمد بن سعید بن ابی مریم راوی یاتو اتنا غیر حاضر دماغ تھا کہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کے سر سے کیا نکل رہا ہے یا پھر یہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتا تھا ، کیونکہ میں نے جو احادیث یہاں ذکرنہیں کیں، ان میں بھی اس کی کئی غیر محفوظ احادیث دیکھی ہیں۔”
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٤/٢٥٥)
علامہ ہیثمی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      وھو ضعیف جدّا ۔ ”یہ سخت ضعیف راوی ہے۔”(مجمع الزوائد : ٢/٣٨٩)
اس میں دوسری علت یہ ہے کہ ابواسحاق السبیعی ”مختلط” ہیں ،ان سے بیان کرنے والے راوی زکریا بن ابی زائدہ ہیں ، جو کہ ان سے اختلاط کے بعد بیان کرتے ہیں ۔
اوردوسری سند(١٠/٢٦٦) میںان سے اختلاط سے پہلے بیان کرنے والے راوی اسرائیل بن یونس بیان کرتے ہیں ، لیکن وہاں ابواسحاق ”عن” سے بیان کررہے ہیں اور وہ ”مدلس” بھی ہیں، لہٰذا یہ واقعہ تمام سندوں سے مردود ہے ۔        والحمد للّٰہ !
اعتراض نمبر 3 :      ”اس حدیث کے مضامین کا جائزہ ” کی سرخی جما کر میرٹھی صاحب لکھتے ہیں :      ”عبیداللہ کی بیان کردہ حدیث تین قصوں پر مشتمل ہے ۔
پہلا قصہ صلح حدیبیہ کا ہے ، جوجھوٹ اور سچ اور صحیح وغلط کا ملغوبہ ہے ۔ اس روایت میں جو کمیاں اورغلط بیانیاں ہیں ، اس کے ترجمہ میں جگہ جگہ بین القوسین میں نے ان کی تصحیح کردی ہے ۔ ان غلط بیانیوں کی تفصیل یہ ہے :
(١)    عبیداللہ بن موسیٰ کی اس حدیث میں ہے :     حتی قاضاھم علیّ أن یقیم بھا ثلثۃ أیّام ۔ اس سے یہی مفہوم ہوتا ہے کہ حدیبیہ میں کہن سنن کے بعد نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے اسی سال کے لیے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کی بات طے کرلی تھی ، بشرطیکہ تین دن سے زائد قیام نہ کریں ۔ اورپرتلوں میں تلواروں کے علاوہ اورہتھیار لے کر داخل نہ ہوں اوراہل مکہ میں سے کوئی ساتھ جانا چاہے تو اسے نہ روکیں ۔ آپ نے یہ شرطیں منظور فرمالیں اور مع اصحاب مکہ تشریف لے گئے ۔تین دن مکہ میں رہے ۔ اہل مکہ نے حضرت علی سے کہا کہ اپنے صاحب سے کہدو کہ مد ت پوری ہوگئی ، لہٰذا یہاں سے چلے جائیں ۔ آپ نے ان کی بات مان لی اورمکہ سے نکل گئے ۔
یقینا یہ بات غلط ہے ۔ مکہ والوں سے توحضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال تک کے لیے ناجنگی کا معاہدہ کیا تھا ۔ اس کے لیے انہوں نے متعدد شرطیں رکھی تھیں ۔ ان میں سے ایک اہم شرط یہ تھی کہ اس سال اہل اسلام یہیں سے واپس چلے جائیں ۔ آئندہ سال آسکتے ہیں ۔ آپ نے انہیں ہرطرح سمجھایا کہ ہم لڑائی کی غرض سے نہیں آئے ،ہم تو خانہئ کعبہ کی زیارت کرنا اور لائے ہوئے جانوروں کی قربانی کرنا چاہتے ہیں ، عمرہ اداکرتے ہی واپس ہوجائیں گے ، لیکن مکہ والوں نے ایک نہ سنی اورکہا اگر یہ بات آپ نہیں مانتے تو ہم صلح نہیں کرسکتے اورمکہ جانے کے لیے آپ کو ہماری لاشوں پرسے گزرنا ہوگا ۔ آخر آپ نے ان کی یہ شرط مان لی اور حدیبیہ میں ہی قربانیاں کرکے سرمنڈوا کر احرام کھول کر واپس ہوگئے ۔”
(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٧٢۔٧٣)
J :      1    قارئین کرام ! میرٹھی صاحب نے صحیح بخاری کے جن الفاظ سے ”مفہوم” نکال کر اعتراض کیا ہے ، ان سے ہرگز ہزگز یہ ”مفہوم” نہیں نکلتا ۔میرٹھی صاحب کے پیش کیے ہوئے صحیح بخاری کے الفاظ اور عربی قواعد کے مطابق ان کا صحیح ترجمہ پیشِ خدمت ہے :
اعتمر النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی ذی القعدۃ ، فأبی أھل مکّۃ أن یدعوہ یدخل مکّۃ حتّی قاضاھم علی أن یقیم بھا ثلاثۃ أیّام ۔۔۔
”نبی ئاکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ میں عمرہ (کا ارادہ)کیا ۔ اہل مکہ نے آپ کو تین دن قیام کا معاہدہ کرنے تک مکہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ۔”
اب قارئین کرام ہی بتائیں کہ اس عبارت میں کون سے الفاظ ہیں ، جن سے ”مفہوم ہوتا ہے” کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سال مکہ میں داخل ہونے کی بات طَے کرلی تھی ؟ بات صرف اتنی ہے کہ مکہ والوں نے یہ کہا تھا کہ اس وقت تک مکہ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ، جب تک ان سے صرف تین دن قیام کا معاہدہ نہ کیا جائے ۔جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زائد قیام نہ کرنے کا معاہدہ کر لیا تو مکہ والوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں داخلے کی اجازت دے دی تھی ۔یہ مکہ میں داخلے کے لیے ایک شرط تھی ، جیسا کہ انہوں نے یہ شرط بھی لگائی تھی کہ مسلمان مکہ میں اس سال داخل نہیں ہوں گے۔
صحیح بخاری کے ان الفاظ میں ان شرطوں میں سے کسی کی بھی نفی نہیں ہے ۔ یہ محض انکار ِ حدیث کا پروردہ اعتراض ہے ، ورنہ آج تک کسی مسلمان نے اس حدیث سے یہ بات نہیں سمجھی ۔
اس کے برعکس حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      قولہ : حتّی قاضاھم علی أن یقیم بھا ثلاثۃ أیّام ، أی من العام المقبل ، وصرّح بہ فی حدیث ابن عمر بعدہ ۔۔۔
”سیدنا براء بن عازب  رضی اللہ عنہ کا جو قول ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے تین دن قیام کرنے کا معاہدہ کرلیا ، اس سے مراد ہے کہ اگلے سال میں ۔ اس کی صراحت اس کے متصل بعد والی حدیث ِ ابنِ عمر رضی اللہ عنہما  میںکردی گئی ہے ۔”(فتح الباری لابن حجر : ٧/٥٠٢)
اب قارئین کرام ہی بتائیں کہ صحیح بخاری کا درست مفہوم سمجھنے کے لیے حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ جیسے نابغہئ روزگار شارحینِ حدیث کی بات مانی جائے گی یا عربی دانی میں بالکل فیل ہونے جانے والے میرٹھی صاحب کی ؟میرٹھی صاحب کی عربی دانی کا پورا اندازہ قارئین کرام اگلے اعتراض کے جواب میں بخوبی کرلیں گے ۔    ان شاء اللّٰہ !
2    باقی رہا میرٹھی صاحب کا یہ کہنا کہ ”یہ قصہ جھوٹ اورسچ اور صحیح وغلط کا ملغوبہ ہے ”تویہ دراصل میرٹھی صاحب کی اپنی غلط فہمی اورجہالت ہے۔ اس کی مکمل تشفی آئندہ اعتراضات کے ضمن میں ہوجائے گی ۔    ان شاء اللّٰہ !
اعتراض نمبر 4 :      ”(٢)     عبیداللہ کی روایت میں ہے کہ اہل مکہ نے کہا تھا : لو نعلم انّک رسول اللّٰہ ۔    لو نعلم     عربیت کے لحاظ سے غلط ہے ، صحیح لفظ لو علمنا ہے۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٧٣)
J :      انکار بخاری دراصل انکار قرآن ہے !
قارئین کرام ! ہم جو وقتاً کہتے رہتے ہیں کہ انکار ِ حدیث دراصل انکار ِ قرآن ہے ، وہ محض ایک لفظی جملہ نہیں ہے ، بلکہ ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے ۔ اتمام ِ حجت کے لیے اس حقیقت کا اثبات اللہ تعالیٰ منکرینِ حدیث کے قلم سے کرواتے رہتے ہیں ۔میرٹھی صاحب کا مذکورہ اعتراض بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔میرٹھی صاحب نے جو اعتراض صحیح بخاری پر کیا ہے ، وہی قرآنِ کریم پر بھی آگیا ہے ۔
میرٹھی صاحب کا کہنا ہے کہ لو نعلم عربیت کے لحاظ سے غلط ہے ، صحیح لفظ علمنا ہے۔گویاوہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ لَوْ جوکہ عربی میں حرف ِ تمنا ہے ،وہ مضارع پر نہیں ، بلکہ ماضی پرداخل ہوتا ہے ۔لیکن ان کی وسعت ِ علمی اور عربی دانی کی داد دیجیے کہ جسے انہوں نے غلطی کہا ہے ، وہ قرآنِ کریم اور حدیث ِ نبوی میں بکثرت موجود ہے ۔
اگرچہ لَوْ کا ماضی پر داخل ہونا زیادہ ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مضارع پر اس کا داخل ہونا ممتنع ہے ۔ ایسا کہنا جہالت ونادانی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔قرآنِ کریم میں ہی بہت سے مقامات پر لَوْ مضارع پرداخل ہوا ہے ۔ تسلی کے لیے مثال کے طور پردرجِ ذیل مقامات کا مشاہدہ کرلیا جائے ۔
سورۃ البقرۃ (٢/١٦٥) ، سورۃ الأنعام (٦/٢٧،٣٠،٩٣) ، سورۃ الأنفال (٨/٥٠) ، سورۃ یونس (١٠/١١) ، سورۃ النّحل (١٦/٦١) ، سورۃ السّجدۃ (٣٢/١٢) ، سورۃ سبا (٣٤/٣١،٥١) ، سورۃ فاطر (٣٥/٤٥) ، سورۃ یٰسۤ (٣٦/٦٦،٦٧) ، سورۃ الزّخرف (٤٣/٦٠) ، سورۃ محمّد (٤٧/٤،٣٠) ۔
پھر اس پر طرہ یہ کہ جن الفاظ کو میرٹھی صاحب نے غلط کہا ہے ،بالکل وہی الفاظ بعینہٖ قرآنِ کریم میں موجودہیں۔ہم وہ الفاظ بھی ہدیہئ قارئین کرتے ہیں تاکہ منکرینِ حدیث کوئی پس وپیش نہ کرسکیں اور ان کے پاس غلطی تسلیم کرنے کے سوائے کوئی چارہ نہ رہے ۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
( قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاکُمْ ۔۔۔) (آل عمران : ٣/١٦٧)
قارئین کرام ! دیکھ لی آپ نے میرٹھی صاحب کی عربی دانی کہ جو چیز قرآنِ کریم میں بھی بکثرت مستعمل ہے ، وہ اسے بھی عربیت کے لحاظ سے غلط قراردے رہے ہیں ۔ یہ اعتراض کر کے میرٹھی صاحب نے عربی زبان سے اپنی جہالت پر قیامت تک کے لیے مہر ثبت کر دی ہے ۔
اللہ کے لیے غور کریں وہ لوگ جو میرٹھی صاحب کو ”مفسرقرآن” کے لقب سے یادکرتے ہیں ! اورغور کریں وہ لوگ جو ان کے جاہلانہ اعتراضات کی بھینٹ چڑھ کر پوری امت کے اتفاقی فیصلوں کو بھی ٹھوکر ماردیتے ہیں ! کیا کسی اس قدر جاہل شخص کو اس صحیح بخاری پر اعتراضات کرنے کا حق ہے ، جو خود اس کے نزدیک بھی (دیکھیں ”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/١٥)تحقیق وصحت کا شاہکار ہے ؟
معلوم ہوا کہ حدیث پر ،خصوصاً صحیح بخاری پر اعتراض ہٹ دھرمی ، جہالت ، شقاوت اور انکار ِ قرآن ہے ۔ جو اعتراض صحیح بخاری اور کسی بھی صحیح حدیث پر کیا جائے گا ، بعینہٖ وہی اعتراض قرآنِ کریم پر بھی آجائے گا ، لہٰذا امت کے اس اتفاقی فیصلے کو تسلیم کرلینے میں ہی عافیت ہے ۔
اعتراض نمبر 5 :      ”(٣) اس میں ہے کہ خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح نامہ میں لکھا تھا ، حالانکہ آپ اچھی طرح نہ لکھ سکتے تھے :      ھذا ما قاضی محمّد بن عبد اللّٰہ لا یدخل ۔۔۔ صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے پوچھا تھا کہ رسول اللہ کہاں لکھا ہے ۔ آپ کو بتایاگیا تو آپ نے اس لفظ کو قلم زد کردیا ، کیونکہ حضرت علی نے اسے قلم زد کرنے سے انکار کردیا تھا اورپھر محمد بن عبداللہ لکھوایا۔”(”صحیح بخاری کا مطالعہ” : ١/٧٣۔٧٤)
J :      1    قارئین کرام ! اس حدیث میں کسی لفظ کا وہ معنیٰ ومفہوم نہیں ، جو میرٹھی صاحب نے بیان کیا ہے کہ” خود رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح نامہ میں لکھا تھا ۔”
فَکَتَبَ کا یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لکھا ، بلکہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا ۔اس کا حقیقی معنیٰ اگرچہ لکھنا ہی ہے ، لیکن یہاں مجازی معنیٰ لکھوانا مقصود ہے ۔
اگر میرٹھی صاحب کا کوئی معتقد اس پر اعتراض کرے کہ یہاں حقیقی معنیٰ ہی مراد ہے ، مجازی معنیٰ مراد لینا درست نہیں تو یہ اس کی کم علمی اورجہالت ہے ، ورنہ اس سے پچھلی حدیث ، جسے میرٹھی صاحب نے بھی صحیح تسلیم کیا ہے ، اس میں بھی یہی مجازی معنیٰ موجود ہے ۔ اس کے الفاظ ہیں :
فقال المشرکون : لا تکتب محمّد رسول اللّٰہ ، لو کنت رسولا لم نقاتلک ۔
”مشرکین نے (رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا)، آپ محمد رسول اللہ نہ لکھیں ، کیونکہ اگر آپ (ہمارے نزدیک)رسول ہوتے تو ہم آپ سے لڑائی نہ کرتے ۔”(صحیح بخاری : ٢٦٩٨)
اب کیا منکرینِ حدیث اپنے تئیں اس صحیح پر یہ اعتراض کریں گے کہ مشرکین نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے لکھنے کا کہہ سکتے ہیں ، حالانکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم تو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے ؟
اسی حدیث کے شروع میں اگر میرٹھی صاحب غور کر لیتے تو شاید اس اعتراض سے باز رہ جاتے۔ الفاظ ملاحظہ فرمائیں :      فلما کتبوا الکتاب کتبوا ۔۔۔۔    ”جب ان (مسلمانوں)نے عہد نامہ لکھا تو انہوں نے لکھا کہ ۔۔۔”(صحیح بخاری : ٢٦٩٩)
اگر کوئی شخص اس پر یہ اعتراض کر دے کہ لکھا تو ایک آدمی نے تھا ، سب نے تو نہیں لکھا تھا ، لہٰذا یہ غلطی ہے تو اس کی جہالت پر کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ یہاں مرادیہ ہے کہ سب نے رضامندی سے لکھوایا تھا ، لہٰذا سب کی طرف منسوب کر دیا گیا تھا۔
اسی طرح صحیح مسلم (١٧٧٤)کی حدیث میں ہے : أنّ نبیّ اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کتب إلی کسری وإلی قیصر وإلی النّجاشیّ وإلی کلّ جبّار یدعوہم إلی اللّٰہ تعالیٰ ۔
”آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے ہوئے کسریٰ ، قیصر ، نجاشی اور ہر جابر بادشاہ کی طرف خط لکھا۔”
کیا منکرینِ حدیث اس حدیث پر یہی اعتراض کرکے مختلف بادشاہوں کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوت ِ اسلام کے لیے لکھے گئے خطوط کا بھی انکار کردیں گے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم تو لکھنا نہیں جانتے تھے ، پھر کیسے لکھا تھا ؟ حالانکہ معلوم ہے کہ یہاں لکھنے سے مراد لکھوانا ہے ۔
اسی طرح قرآنِ کریم میں تیس سے زائد مقامات پر فرمانِ الٰہی ہے :
( تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْأَنْھَارُ ) (البقرۃ : ٢/٢٥۔٩٨/٨)
”اس (جنت ) کے نیچے سے نہریں چلتی ہیں۔”
اب اگر کوئی منکر ِ قرآن کہہ دے کہ نہریں توخود نہیں چلتیں ، بلکہ ان کے اندر پانی چلتا ہے تو اس کا یہ اعتراض اس کی اپنی عقل کا قصور ہے ۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالیٰ ہے :ـ
( وَاسْئَلِ الْقَرْیَۃَ الَّتِیْ کُنَّا فِیْھَا وَالْعِیْرَ الَّتِیْ أَقْبَلْنَا فِیْھَا) (یوسف : ١٢/٨٢)
”(یوسف uکے بھائیوں نے اپنے والد سے کہا) آپ اس بستی سے پوچھ لیں جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے پوچھ لیں جس میں ہم آئے ہیں ۔۔۔”
کیا کسی منکر ِ قرآن کا یہ اعتراض درست ہوگا کہ :
”اس میں ہے کہ آپ اس بستی سے پوچھیں اور اس قافلے سے پوچھیں ، حالانکہ پوچھا اس بستی کے باشندوں اور قافلے کے افراد سے جاسکتا ہے ، خود بستی اور قافلے سے نہیں ، صحیح یہ ہے کہ بستی کے باشندوں سے پوچھیں اور قافلے کے افراد سے استفسار کریں ۔۔۔”؟؟؟
حالانکہ سیدھی سی بات ہے کہ یہاں حقیقی معنیٰ نہیں ، بلکہ مجازی معنیٰ مراد ہے اور ہر زبان میں یہی کیفیت موجود ہے ۔بھلا جس شخص کو اتنی معمولی سی بات سمجھ نہ آئے ، جو کہ ہر زبان میںروزمرہ مستعمل ہے ، اسے صحیح بخاری پر اعتراض کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
2    یہ الفاظ صرف عبیداللہ بن موسیٰ عبسی نے نہیں کہے ، بلکہ صحیح مسلم (١٧٨٣)میں اسحاق بن ابراہیم الحنظلی ، جو کہ بالاتفاق ثقہ ومعتبر امام ہیں ، نے بھی عیسیٰ بن یونس سے بیان کیے ہیں ۔ لہٰذا لغت ِ عرب سے اپنی جہالت کی وجہ سے ان الفاظ کو آڑ بنا کر عبیداللہ بن موسیٰ پر اعتراض کرنا نِری ہٹ دھرمی ہے ۔اب منکرینِ حدیث کس کس راوی کو رافضی اوربداعتقاد کہیں گے ؟
جاری ہے ۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.