1,621

حدیث عود روح اور ڈاکٹر عثمانی کی جہالتیں، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق قبر میں مُردے سے سوال و جواب کیے جاتے ہیں تو اس وقت مُردے کی رُوح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’وَتُعَادُ رُوحُہٗ فِي جَسَدِہٖ، وَیَأْتِیہِ مَلَکَانِ، فَیُجْلِسَانِہٖ، فَیَقُولَانِ لَہٗ : مَنْ رَّبُّکَ؟۔۔۔‘
’’ مُردے کی رُوح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے،اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں،وہ اسے بٹھا دیتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : تیرا ربّ کون ہے؟۔۔۔‘‘
(مسند أبي داوٗد الطیالسي : 114/2، ح : 789، طبعۃ دار ھجر، مصر، الزہد والرقائق لابن المبارک والزہد لنعیم ابن حمّاد المروزي : 1219، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت، مصنف ابن أبي شیبۃ : 54/3، ح : 12062، طبعۃ مکتبۃ الرشد، الریاض، مسند أحمد : 499/30، طبعۃ مؤسّسۃ الرسالۃ، الزہد لہناد بن السريّ : 205/1، ح : 339، طبعۃ دار الخلفاء للکتاب الإسلامي، الکویت، سنن أبي داوٗد السجستاني : 4753، الردّ علی الجہمیّۃ للدارمي : 110، طبعۃ دار ابن الأثیر، الکویت، تفسیر الطبري : 660/13، طبعۃ دار ھجر، مستخرج أبي عوانۃ (إتّحاف المہرۃ لابن حجر : 459/2، طبعۃ مجمع الملک فہد، المدینۃ)، مسند الرویاني : 263/1، 392، طبعۃ مؤسّسۃ القرطبۃ، القاہرۃ، الشریعۃ للآجري : 1294/3، طبعۃ دار الوطن، الریاض، الإیمان لابن مندۃ : 1064، طبعۃ مؤسّسۃ الرسالۃ، بیروت، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 93/1، ح : 107، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت، إثبات عذاب القبر للبیہقي : 20، 21، طبعۃ دار الفرقان، عمان)
قارئین کرام نے ملاحظہ فرما لیا ہے کہ اس حدیث کو تدوین حدیث کے شروع سے لے کر ہر دور میں متقدمین و متاخرین محدثین نے عقیدے اور دیگر موضوعات پر مبنی کتب میں ذکر کیا ہے۔محدثین کرام نے اس حدیث سے عقیدے کے بہت سے مسائل کا استنباط کیا ہے۔ اہل فن اور نقاد محدثین میں سے کسی ایک نے بھی اس حدیث کو ناقابل اعتبار قرار نہیں دیا۔اس کے تمام راوی جمہور محدثین کرام کے ہاں ثقہ و صدوق ہیں۔اس حدیث کے صحیح ہونے کے لیے یہی بات کافی تھی، اس پر مستزاد کہ کئی ایک محدثین نے اس کے صحیح ہونے کی صراحت بھی کر دی ہے، جیسا کہ :
1 امام ابو عبد اللہ،محمد بن اسحاق بن محمد بن یحییٰ، ابن مندہ،عبدی رحمہ اللہ (م : 395ھ) اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ہٰذَا إِسْنَادٌ مُّتَّصِلٌ مَّشْہُورٌ، رَوَاہُ جَمَاعَۃٌ عَنِ الْبَرَائِ، وَکَذٰلِکَ رَوَاہُ عِدَّۃٌ عَنِ الْـأَعْمَشِ، وَعَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو، وَالْمِنْہَالُ أَخْرَجَ عَنْہُ الْبُخَارِيُّ مَا تَفَرَّدَ بِہٖ، وَزَاذَانُ أَخْرَجَ عَنْہُ مُسْلِمٌ، وَہُوَ ثَابِتٌ عَلٰی رَسْمِ الْجَمَاعَۃِ ۔ وَرُوِيَ ہٰذَا الْحَدِیثُ عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي ہُرَیْرَۃَ، وَأَبِي سَعِیدٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، وَعَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ۔
’’یہ متصل اور مشہور سند ہے۔اسے کئی راویوں نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔اسی طرح بہت سے راویوں نے اسے اعمش اور منہال بن عمرو سے بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے (صحیح بخاری میں)منہال بن عمرو کی ایک ایسی حدیث بھی بیان کی ہے، جسے بیان کرنے میںوہ اکیلا ہے۔زاذان راوی کی روایت امام مسلم رحمہ اللہ نے (اپنی صحیح)میں ذکر کی ہے۔یوں یہ حدیث،متواتر حدیث کی طرح ثابت ہے۔یہ حدیث دیگر صحابہ کرام، سیدنا جابر، سیدنا ابوہریرہ،سیدنا ابوسعید،سیدنا انس بن مالک اور سیدہ عائشہy سے بھی مروی ہے۔‘‘
(الإیمان لابن مندۃ : 962/2، ح : 1064، طبعۃ مؤسّسۃ الرسالۃ، بیروت)
2 امام ابو نُعَیم،احمد بن عبد اللہ،اصبہانی رحمہ اللہ (430-336ھ)فرماتے ہیں :
وَأَمَّا حَدِیثُ الْبَرَائِ فَحَدِیثٌ مَّشْہُورٌ، رَوَاہُ عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو الْجَمُّ الْغَفِیرُ، وَہُوَ حَدِیثٌ أَجْمَعَ رُوَاۃُ الْـأَثَرِ عَلٰی شُہْرَتِہٖ وَاسْتِفَاضَتِہٖ ۔
’’سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث مشہور کے درجے پر ہے،اسے منہال بن عمرو سے محدثین کی بہت بڑی جماعت نے روایت کیا ہے۔اس کے مشہور اور مستفیض ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔‘‘(مجموع الفتاوٰی لابن تیمیّۃ : 439/5، طبعۃ مجمع الملک فہد، المدینۃ)
3 امام ابو عبداللہ،محمد بن عبد اللہ، حاکم،نیشاپوری رحمہ اللہ (405-321ھ)فرماتے ہیں:
ہٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ، فَقَدِ احْتَجَّا جَمِیعًا بِالْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو وَّزَاذَانَ أَبِي عُمَرَ الْکِنْدِيِّ، وَفِي ہٰذَا الْحَدِیثِ فَوَائِدُ کَثِیرَۃٌ لِأَہْلِ السُّنَّۃِ، وَقَمْعٌ لِّلْمُبْتَدِعَۃِ، وَلَمْ یُخَرِّجَاہُ بِطُولِہٖ، وَلَہٗ شَوَاہِدُ عَلٰی شَرْطِہِمَا، یُسْتَدَلُّ بِہَا عَلٰی صِحَّتِہٖ ۔
’’یہ حدیث امام بخاری و مسلم;کی شرط پر صحیح ہے۔امام بخاری و مسلم دونوں نے منہال بن عمرو اور زاذان ابوعمرکندی کی روایات کو دلیل بنایا ہے(منہال کی روایت بخاری میں،جبکہ زاذان کی مسلم میں ہے)۔اس حدیث میں اہل سنت کے لیے بہت سے فوائد ہیں اور یہ بدعت شکن ہے۔امام بخاری و مسلم نے اسے تفصیلاً بیان نہیں کیا ،البتہ بخاری و مسلم کی شرط پر اس حدیث کے کئی شواہد ہیں، جن سے اس کی (مزید)صحت پر استدلال کیا جاتا ہے۔‘‘
(المستدرک علی الصحیحین : 96/1، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت)
4 امام ابوبکر،احمدبن حسین بن علی، بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ)فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحُ الْإِسْنَادِ ۔ ’’اس حدیث کی سند صحیح ہے۔‘‘
(شعب الإیمان للبیہقي : 610/1، ح : 390، طبعۃ مکتبۃ الرشد، الریاض)
5 حافظ ابومحمد،زکی الدین، عبد العظیم بن عبد القوی،منذری رحمہ اللہ (656-581ھ) لکھتے ہیں : ہٰذَا الحَدِیثُ حَدِیثٌ حَسَنٌ، رُوَاتُہٗ مُحْتَجٌٌ بِّہِمْ فِي الصَّحِیحِ ۔
’’یہ حدیث حسن ہے،اس کے راویوں سے صحیح(بخاری ومسلم)میں حجت لی گئی ہے۔‘‘
(الترغیب والترہیب للمنذري : 197/4، ح : 5396، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت)
6 مشہور مفسر،علامہ ،ابو عبداللہ،محمد بن احمد،قرطبی رحمہ اللہ (م : 671ھ)فرماتے ہیں:
وَھُوَ حَدِیثٌ صَحِیحٌ، لَہٗ طُرُقٌ کَثِیرَۃٌ ۔
’’یہ حدیث صحیح ہے،اس کی بہت سی سندیں ہیں۔‘‘
(التذکرۃ بأحوال الموتٰی وأمور الآخرۃ، ص : 359، طبعۃ دار المنہاج، الریاض)
7 شیخ الاسلام،تقی الدین،احمد بن عبد الحلیم ،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ) فرماتے ہیں: وَھُوَ عَلٰی شَرْطِہِمَا ۔
’’یہ حدیث امام بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔‘‘
(شرح حدیث النزول، ص : 83، طبعۃ المکتب الإسلامي، بیروت)
8 علامہ ،ابو عبد اللہ،محمد بن احمد بن عبد الہادی دمشقی رحمہ اللہ (744-705ھ) فرماتے ہیں: وَقَدْ ثَبَتَ فِي حَدِیثِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ الطَّوِیلِ الْمَشْہُورِ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ، فِي شَأْنِ الْمَیِّتِ وَحَالِہٖ، أَنَّ رُوحَہٗ تُعَادُ إِلٰی جَسَدِہٖ ۔ ’’سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی عذاب و ثواب ِقبر کے بارے میں بیان کردہ طویل اور مشہور حدیث میں میت کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ رُوح اس کی طرف لوٹائی جاتی ہے۔‘‘
(الصارم المنکي في الردّ علی السبکي، ص : 223، طبعۃ مؤسّسۃ الریّان، بیروت)
9 علامہ ،شمس الدین،ابوعبداللہ،محمد بن احمدبن عثمان ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ) لکھتے ہیں : عَلٰی شَرْطِہِمَا ۔ ’’یہ حدیث امام بخاری و مسلم کی شرط پر ہے۔‘‘
(المستدرک علی الصحیحین مع تلخیص الذہبي : 96/1، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت)
0 شیخ الاسلام ثانی،علامہ محمد بن ابوبکر بن ایوب،ابن قیم رحمہ اللہ (751-691ھ) فرماتے ہیں : وَہٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ ۔ ’’یہ حدیث صحیح ہے۔‘‘
(إعلام الموقّعین : 137/1، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت)
نیز فرماتے ہیں : وَذَہَبَ إِلَی الْقَوْل بِمُوجِبِ ہٰذَا الْحَدِیثِ جَمِیعُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْحَدِیثِ مِنْ سَائِرِ الطَّوَائِفِ ۔
’’اہل سنت وحدیث کے تمام گروہ بالاتفاق اس حدیث کے مطابق عقیدہ رکھتے ہیں۔‘‘
(الروح في الکلام علی أرواح الأموات والأحیائ، ص : 42، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت)
ایک مقام پر فرماتے ہیں : ہٰذَا حَدِیثٌ ثَابِتٌ، مَّشْہُورٌ، مُسْتَفِیضٌ، صَحَّحَہٗ جَمَاعَۃٌ مِّنَ الْحُفَّاظِ، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِّنْ أَئِمَّۃِ الْحَدِیثِ طَعَنَ فِیہِ، بَلْ رَوَوْہُ فِي کُتُبِہِمْ، وَتَلَقَّوْہُ بِالْقُبُولِ، وَجَعَلُوہُ أَصْلًا مِّنْ أُصُولِ الدِّینِ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ، وَمُسَائَلَۃِ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ، وَقَبْضِ الْـأَرْوَاحِ وَصَعُودِہَا إِلٰی بَیْنِ یَدَيِ اللّٰہِ، ثُمَّ رُجُوعِہَا إِلَی الْقَبْرِ ۔
’’ یہ حدیث ثابت،مشہور اور مستفیض ہے۔اسے بہت سے حفاظ ائمہ کرام نے صحیح قرار دیا ہے۔ہمارے علم کے مطابق ائمہ حدیث میں سے کسی نے اس میں طعن نہیں کی،بلکہ انہوں نے اسے اپنی کتابوں میں روایت کر کے اسے قبول کیا ہے اور عذاب و ثوابِ قبر،منکر نکیر کے سوالات،قبضِ روح،اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف جانے اور پھر قبر کی طرف واپس لوٹنے کے بارے میں بنیادی دینی حیثیت دی ہے۔‘‘
(الروح في الکلام علٰی أرواح الأموات والأحیائ، ص : 48، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت)
! علامہ ابو الحسن، علی بن ابوبکر بن سلیمان ہیثمی(807-735ھ)لکھتے ہیں :
ھُوَ فِي الصَّحِیحِ وَغَیْرِہٖ بِاخْتِصَارٍ، رَوَاہُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُہٗ رِجَالُ الصَّحِیحِ ۔
’’یہ حدیث صحیح بخاری وغیرہ میں اختصار کے ساتھ موجود ہے۔اسے امام احمد رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے اور اس کے راوی صحیح(بخاری و مسلم) والے ہیں۔‘‘
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 50/3، 4266، طبعۃ مکتبۃ القدسي، القاہرۃ)
@ حافظ،ابوالفضل،احمد بن علی،ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)اس کی صحت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وَصَحَّحَہٗ أَبُو عَوَانَۃَ وَغَیْرُہٗ ۔
’’اسے امام ابوعوانہ وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے۔‘‘(فتح الباري : 234/3)
# علامہ عبد الرحمن بن ابوبکر،سیوطی (911-849ھ)لکھتے ہیں :
أَخْرَجَ أَحْمَدُ، وَابْنُ أَبِي شَیْبَۃَ فِي الْمُصَنَّفِ، وَالطَّیَالِسِيُّ، وَعَبْدُ اللّٰہِ فِي مُسْنَدَیْہِمَا، وَہَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ فِي الزُّہْدِ، وَأَبُو دَاوٗدَ فِي سُنَنِہٖ، وَالْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ، وَابْنُ جَرِیرٍ، وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ، وَالْبَیْہَقِيُّ فِي کِتَابِ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَغَیْرُہُمْ مِّنْ طُرُقٍ صَحِیحَۃٍ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ ۔
’’اس حدیث کو امام احمد نے(اپنی مسند میں)،امام ابن ابو شیبہ نے اپنی مصنف میں،امام(ابوداؤد)طیالسی اور امام عبد اللہ(؟)نے اپنی مسند میں،امام ہناد بن سری نے اپنی کتاب الزہد میں،امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں، امام حاکم نے اپنی مستدرک میں،امام ابن جریر،امام ابن ابوحاتم نے اورامام بیہقی نے کتاب ِعذاب ِقبر میں،نیز دیگر ائمہ کرام نے(اپنی اپنی کتب میں)سیدنا براء بن عازب سے صحیح سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔‘‘
(شرح الصدور بشرح حال الموتٰی والقبور، ص : 61، طبعۃ دار المعرفۃ، لبانان)
$ علامہ،ابوالحسن،عبیداللہ بن محمدعبدالسلام،مبارکپوری رحمہ اللہ (1414-1327ھ) فرماتے ہیں: وَالْحَدِیثُ نَصٌّ فِي أَنَّ الرُّوحَ تُعَادُ إِلَی الْمَیِّتِ فِي قَبْرِہٖ وَقْتَ السُّؤَالِ، وَھُوَ مَذْہَبُ جَمِیعِ أَھْلِ السُّنَّۃِ مِنْ سَائِرِ الطَّوَائِفِ ۔
’’یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ قبر میں میت سے سوال کے وقت اس کی روح لوٹائی جاتی ہے۔اہل سنت کے تمام گروہوں کا یہی مذہب ہے۔‘‘
(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : 331/5، طبعۃ إدارۃ البحوث العلمیّۃ، الھند)
% علامہ،ابوعبد الرحمن،محمد ناصر الدین بن الحاج نوح،البانی رحمہ اللہ (1420-1332ھ) فرماتے ہیں: وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِیحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ، وَأَقَرَّہُ الذَّہَبِيُّ، وَہُوَ کَمَا قَالَا ۔ ’’امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔حقیقت بھی یہی ہے(کہ یہ حدیث صحیح ہے)۔‘‘(أحکام الجنائز، ص : 159، طبعۃ المکتب الإسلامي)
قارئین غور فرمائیں کہ مختلف ادوار کے ایک درجن سے زائد محدثین اور اہل علم کی طرف سے اس حدیث کی صحت کی توثیق ہو چکی ہے۔کسی ایک بھی اہل فن محدث نے اسے ’’ضعیف‘‘قرار نہیں دیا۔اہل سنت والجماعت کا ہر دور میں اتفاقی طور پر یہی عقیدہ رہا ہے، لیکن موجودہ دور میں ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کے دو راویوں منہال بن عمرو اور زاذان ابوعمر کے بارے میں جرح ذکر کی ہے۔
اپنے زعم میں ڈاکٹر عثمانی نے بڑی علمی کاوش کی ہے، لیکن حقیقت میں انہوں نے محدثین کرام کی مخالفت مُول لے کر بہت بڑی جہالت کا ارتکاب کیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ محدثین کرام جنہوں نے خود قرآن و سنت کی روشنی میں روایات کے قبول و ردّ کے قوانین وضع کیے اور کمال احتیاط سے راویانِ حدیث کے مراتب طَے کیے،وہ اس حدیث کی علتوں سے واقف نہ ہو سکے اور جو لوگ رجالِ حدیث سے اچھی طرح واقف بھی نہیں تھے، ان کے سامنے اس حدیث میں موجود ’’خرابیاں‘‘عیاں ہو گئیں؟اور اسی بنا پر ان لوگوں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جیسے امام اہل سنت اور دیگر محدثین و اکابرین امت کے بارے میں کفر و شرک کے فتوے داغنے شروع کر دئیے!
آئندہ سطور میں ہم اسی بات کا جائزہ لیں گے اور اصولِ محدثین کی روشنی میں انتہائی انصاف کے ساتھ واضح کریں گے کہ یہ ساری کارروائی ڈاکٹر عثمانی نے اپنی جہالت کی وجہ سے کی ہے۔اگر ان کو فن حدیث ورجال میں ادنیٰ سا بھی درک ہوتا تو وہ ہرگز ایسی جاہلانہ کاوش نہ کرتے۔
محدثین کرام اور منہال بن عمرو کی توثیق
منہال بن عمرو کی حدیث صحیح ہے،اس بارے میں ایک درجن سے زائد محدثین و نقاد اہل فن کی آراء ہم ذکر کر چکے ہیں۔ان سب کے نزدیک منہال بن عمرو ثقہ راوی ہے۔اب اس کے بارے میں مزید محدثین کرام کی شہادتیں ملاحظہ فرمائیں :
1 امام جرح و تعدیل،یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (233-158ھ)فرماتے ہیں :
اَلْمِنْہَالُ بْنُ عَمْرٍو ثِقَۃٌ ۔ ’’منہال بن عمرو ثقہ راوی ہے۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 357/8، طبعۃ مجلس دائرۃ المعارف العثمانیّۃ، الھند، وسندہٗ صحیحٌ، تاریخ ابن معین بروایۃ الدوري : 407/3، طبعۃ مرکز البحث العلمي، مکۃ المکرمۃ)
2 امام اہل سنت،ابو عبد اللہ،احمدبن حنبل رحمہ اللہ (241-164ھ)فرماتے ہیں :
أَبُو بِشْرٍ أَوْثَقُ، إِلَّا أَنَّ الْمِنْہَالَ أَمْتَنُ ۔
’’ابوبشر زیادہ ثقہ ہے،لیکن منہال زیادہ مضبوط راوی ہے۔‘‘
(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 236/4، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت)
یعنی امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک اگرچہ منہال بن عمرو کی نسبت ابوبشر زیادہ ثقہ ہے، لیکن ان کے نزدیک منہال بن عمرو بھی مضبوط راوی ہے۔
3 امام بخاری رحمہ اللہ (256-194ھ)نے صحیح بخاری میں منہال بن عمرو سے حدیث نقل کی ہے(دیکھیں حدیث نمبر: 3371)۔یہ امام بخاری رحمہ اللہ کے منہال بن عمرو پر اعتماد کرنے کی دلیل ہے، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں صرف صحیح احادیث ذکر کی ہیں اور اپنی کتاب کا نام بھی ’’صحیح‘‘ رکھا ہے اور امت ِمسلمہ نے اتفاقی طور پر اس کے صحیح ہونے کا اعتراف بھی کیا ہے۔
شارحِ بخاری،ابو الفضل،احمد بن علی بن محمد،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م : 852ھ)فرماتے ہیں:
یَنْبَغِي لِکُلِّ مُنْصِفٍ أَنْ یَّعْلَمَ أَنَّ تَخْرِیجَ صَاحِبِ الصَّحِیحِ لِأَيِّ رَاوٍ، کَانَ مُقْتَضٍ لِّعَدَالَتِہٖ عِنْدَہٗ، وَصِحَّۃِ ضَبْطِہٖ، وَعَدَمِ غَفْلَتِہٖ، وَلَا سِیَّمَا مَا انْضَافَ إِلٰی ذٰلِکَ مِنْ إِطْبَاقِ جُمْہُورِ الْـأَئِمَّۃِ عَلٰی تَسْمِیَۃِ الْکِتَابَیْنِ بِالصَّحِیحَیْنِ، وَہٰذَا مَعْنًی لَّمْ یَحْصُلْ لِّغَیْرِ مَنْ خُرِّجَ عَنْہُ فِي الصَّحِیحِ، فَہُوَ بِمَثَابَۃِ إِطْبَاقِ الْجُمْہُورِ عَلٰی تَعْدِیلِ مَنْ ذُکِرَ فِیہِمَا ۔
’’ہر منصف شخص کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امام بخاری و مسلم; کے کسی راوی سے حدیث نقل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی ان کے نزدیک کردار کا سچا اور حافظے کا پکّاہے ،نیز وہ حدیث کے معاملے میں غفلت کا شکار بھی نہیں۔خصوصاً جب کہ جمہور ائمہ کرام متفقہ طور پر بخاری و مسلم کی کتابوں کو ’صحیح‘ کا نام بھی دیتے ہیں۔یہ مقام اس راوی کو حاصل نہیں ہو سکتا جس کی روایت صحیح(بخاری و مسلم) میں موجود نہیں۔گویا جس راوی کا صحیح بخاری و مسلم میں ذکر ہے،وہ جمہور محدثین کرام کے نزدیک قابل اعتماد راوی ہے۔‘‘
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 384/1، طبعۃ دار المعرفۃ، بیروت)
معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک منصف شخص وہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم کے راویوں کو امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر جمہور ائمہ حدیث کی توثیق کی بنا پر ثقہ اور قابل اعتماد سمجھے۔اب ڈاکٹر عثمانی کی طرح کا جو شخص صحیح بخاری کے راویوں کو ’’ضعیف،مجروح اور متروک‘‘کہتا ہے،وہ بقول ابن حجر،منصف نہیں،بلکہ خائن ہے۔
محدث العصر،علامہ محمدناصر الدین،البانی رحمہ اللہ منہال بن عمرو پر جرح کا ردّ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وَیَکْفِي فِي رَدِّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ مِنْ رِّجَالِ الْبُخَارِيِّ ۔
’’اس کے ردّ میں یہی کافی ہے کہ منہال بن عمرو صحیح بخاری کا راوی ہے۔‘‘
(تحقیق الآیات البیّنات في عدم سماع الأموات، ص : 84، طبعۃ المکتب الإسلامي، بیروت)
4 امام احمد بن عبد اللہ بن صالح،عجلی رحمہ اللہ (261-181ھ)فرماتے ہیں:
مِنْہَالُ بْنُ عَمْرٍو، کُوفِيٌّ، ثِقَۃٌ ۔
’’منہال بن عمرو، کوفے کا رہائشی اور قابل اعتماد شخص تھا۔‘‘
(تاریخ العجلي : 300/2، طبعۃ مکتبۃ الدار، المدینۃ)
5 امام ابوداؤد،سلیمان بن اشعث،سجستانی رحمہ اللہ (275-202ھ)منہال بن عمرو کی ایک حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
ہٰذَا دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الْقُرْآنَ لَیْسَ بِمَخْلُوقٍ ۔
’’یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم مخلوق نہیں۔‘‘
(سنن أبي داوٗد، تحت الحدیث : 4737)
امام ابوداؤد رحمہ اللہ منہال بن عمرو کی حدیث کو اس بات کی دلیل بنا رہے ہیں کہ قرآن مخلوق نہیں ہے۔اس سے دو باتیں ثابت ہوئیں۔ایک تو یہ کہ قرآن کو مخلوق کہنے والا امام ابوداؤد کے نزدیک سنت کا مخالف ہے۔اسی لیے ائمہ دین نے ایسے شخص کو کافر قرار دیا ہے۔ دوسرے یہ کہ منہال بن عمرو امام صاحب کے نزدیک ثقہ و قابل اعتماد ہیں اور ان کی حدیث دین کے بنیادی معاملات،یعنی عقائد میں بھی دلیل ہوتی ہے۔
6 امام،ابوعیسیٰ،محمد بن عیسیٰ،ترمذی رحمہ اللہ (279-209ھ)منہال بن عمرو کی ایک حدیث پر حکم لگاتے ہوئے فرماتے ہیں: ھٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ ۔
’’یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘(سنن الترمذي، تحت الحدیث : 2060)
بھلا کسی ’’ضعیف،مجروح اور متروک‘‘شخص کی حدیث حسن صحیح ہوتی ہے؟ظاہر ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک منہال بن عمرو ثقہ راوی ہیں، اسی لیے ان کے نزدیک اس کی حدیث حسن صحیح کے درجے کو پہنچتی ہے۔
7 امام،ابوبکر،احمد بن عمروبن عبد الخالق،بزار رحمہ اللہ (م : 292ھ)منہال بن عمرو کی بیان کردہ ایک حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وَإِسْنَادُہٗ حَسَنٌ ۔ ’’اس کی سند حسن ہے۔‘‘
(مسند البزّار المنشور باسم البحر الزخّار : 321/11، طبعۃ مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ)
8 امام الائمہ،ابوبکر،محمد بن اسحاق،ابن خزیمہ رحمہ اللہ (311-223ھ)نے بھی منہال بن عمرو کی بیان کردہ کئی احادیث (مثلاً دیکھیں صحیح ابن خزیمہ: 1194، 2830)کو صحیح قرار دیا ہے۔
9 امام ابو عوانہ،یعقوب بن اسحاق،نیشاپوری رحمہ اللہ (م : 316ھ)بھی منہال بن عمرو کی بیان کردہ حدیث(دیکھیں مستخرج ابو عوانہ : 7764)کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
0 امام،ابوجعفر،احمدبن محمدبن سلامہ،طحاوی حنفی رحمہ اللہ (321-238ھ)منہال بن عمرو کی بیان کردہ ایک حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وَکَانَ فِي ذٰلِکَ دَلِیلٌ ۔۔۔ ۔ ’’اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ۔۔۔‘‘
(شرح مشکل الآثار : 347/1، طبعۃ مؤسّسۃ الرسالۃ، بیروت)
امام طحاوی حنفی کے نزدیک منہال بن عمرو کی بیان کردہ حدیث عقیدے میں بھی دلیل بنتی ہے،جیسا کہ وہ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
فَکَانَ ہٰذَا الْحَدِیثُ فِیہِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ ۔
’’اس حدیث سے عذابِ قبر کا اثبات ہوتا ہے۔‘‘(أیضًا : 177/13)
! امام،ابو حاتم، محمد بن حبان بن احمد،ابن حبان رحمہ اللہ (م : 354ھ)نے بھی منہال بن عمرو کی بہت سی احادیث (مثلاً دیکھیں صحیح ابن حبان : 1012، 1013، 1757، 2978، 5617)کو صحیح قرار دیا ہے۔
@ ناقد رجال، امام ابوالحسن،علی بن عمر،دارقطنی رحمہ اللہ (385-306ھ)سے امام حاکم رحمہ اللہ نے منہال بن عمرو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا : صَدُوقٌ ۔
’’وہ سچا اور قابل اعتمادشخص تھا۔‘‘
(سؤالات الحاکم للدارقطني، ص : 273، طبعۃ مکتبۃ المعارف، الریاض)
# امام،ابوحفص،عمر بن احمد،ابن شاہین رحمہ اللہ (385-297ھ)فرماتے ہیں:
وَالْمِنْہَالُ بْنُ عَمْرٍو ثِقَۃٌ ۔ ’’منہال بن عمرو ثقہ ہے۔‘‘
(تاریخ أسماء الثقات، ص : 230، ت : 1412، طبعۃ الدار السلفیّۃ، الکویت)
$ امامِ اندلس،ابو عمر، یوسف بن عبداللہ،ابن عبد البر رحمہ اللہ (463-368ھ) فرماتے ہیں :
وَالْـأَحَادِیثُ فِي أَعْلَامِ نُبُوَّتِہٖ أَکْثَرُ مِنْ أَنْ تُحْصٰی، وَقَدْ جَمَعَ قَوْمٌ کَثِیرٌ کَثِیرًا مِّنْہَا، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ، وَمِنْ أَحْسَنِہَا، وَکُلُّہَا حَسَنٌ، مَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سُفْیَانَ ۔۔۔ عَنِ الْمِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو ۔۔۔ ۔
’’علامات ِنبوت کے بارے میں بے شمار احادیث مروی ہیں۔الحمدللہ! بہت سے لوگوں نے ان میں سے بہت سی احادیث جمع کی ہیں۔یہ ساری کی ساری حسن ہیں،لیکن ان سب میں سے بہترین حدیث وہ ہے،جو ہمیں عبد الوارث بن سفیان نے ۔۔۔ منہال بن عمرو کے واسطے سے بیان کی ہے۔۔۔‘‘
(التمہید لما في المؤطّأ من المعاني والأسانید : 221/1، طبعۃ وزارۃ عموم الأوقاف، المغرب)
% حافظ،ابو القاسم،علی بن حسن، ابن عساکر رحمہ اللہ (571-499ھ)نے منہال کی بیان کردہ حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔(معجم ابن عساکر : 340/1، طبعۃ دار البشائر، دمشق)
^ علامہ،ابو عبداللہ،محمد بن عبد الواحد،ضیاء الدین،مقدسی رحمہ اللہ (643-569ھ) نے منہال بن عمرو کی بہت سی احادیث (مثلاً دیکھیں الاحادیث المختارۃ : 455، 760)کو صحیح کہاہے۔
& حافظ،ابو فدائ،عماد الدین،اسماعیل بن عمر،ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ) کچھ روایات، جن میں منہال بن عمرو کی بیان کردہ روایت بھی تھی،کے بارے میں فرماتے ہیں:
فَہٰذِہٖ طُرُقٌ جَیِّدَۃٌ، مُفِیدَۃٌ لِّلْقَطْعِ فِي ہٰذِہِ الْقَضِیَّۃِ ۔
’’یہ عمدہ سندیں ہیں جو کہ اس معاملے کی قطعیت کو ثابت کرتی ہیں۔‘‘
(مسند الفاروق : 391/1، طبعۃ دار الوفائ، المنصورۃ)
* حافظ،ابو عبداللہ،محمد بن احمدبن عثمان،ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ)نے منہال بن عمرو کا ترجمہ ذکر کرنے سے پہلے [صح]لکھا ہے۔اس رمز کے بارے میں وہ خود فرماتے ہیں: إِذَا کَتَبْتُ [صح] أَوَّلَ الِاسْمِ، فَھِيَ إِشَارَۃٌ إِلٰی أَنَّ الْعَمَلَ عَلٰی تَوْثِیقِ ذٰلِکَ الرَّجُلِ ۔ ’’جب میں کسی اسم سے پہلے ’صح‘لکھ دوں تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اس آدمی کی توثیق ہی پر اعتماد کیا جائے گا۔‘‘
(لسان المیزان لابن حجر : 9/1، طبعۃ مؤسّسۃ الأعلمي للمطبوعات، بیروت)
نیز منہال بن عمرو کی بیان کردہ ایک روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
فَہٰذَا إِسْنَادُہٗ صَالِحٌ ۔ ’’اس کی سند حسن ہے۔‘‘
(تاریخ الإسلام : 107/4، طبعۃ دار الغرب الإسلامي)
( حافظ،ابوالفضل،احمد بن علی،ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)منہال بن عمرو پر کی گئی ایک جرح کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں : وَبِہٰذَا لَا یُجَرَّحُ الثِّقَۃُ ۔
’’ثقہ راوی کو ایسی بات کے ذریعے مجروح قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
(ہُدی الساري : 446/1، طبعۃ دار المعرفۃ، بیروت)
) علامہ،محمد ناصر الدین،البانی رحمہ اللہ (1420-1332ھ)منہال بن عمرو کی ایک حدیث ذکر کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں: وَہٰذَا إِسْنَادٌ صَحِیحٌ، اَلْمِنْہَالُ بْنُ عَمْرٍو ثِقَۃٌ مِّنْ رِّجَالِ الْبُخَارِيِّ ۔
’’یہ سند صحیح ہے۔منہال بن عمرو ثقہ ہے اور صحیح بخاری کا راوی ہے۔‘‘
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 442/2، طبعۃ مکتبۃ المعارف، الریاض)
ایک درجن سے زائد محدثین کرام اور اہل علم نے عود ِروح والی حدیث کو صحیح کہا اور اب بیس محدثین و ماہرین فن حدیث سے منہال بن عمرو کو ثقہ اور قابل اعتماد ثابت کیا جا چکا ہے۔جن ائمہ دین نے منہال بن عمروکو ثقہ قرار دیا ہے اور اس کی احادیث پر اعتماد کیا ہے، ان کے نزدیک بھی منہال کی بیان کردہ عودِ روح والی حدیث بھی بالکل صحیح ہے۔
کیا یہ تمام ائمہ دین بھی عثمانی فرقے کے ہاں مُردہ پرست اور مشرک قرار پا ئیں گے؟ اب یہ لوگ ان ائمہ کی بیان کردہ احادیث کو کس منہ سے اپنی دلیل بناتے ہیں؟اب ڈاکٹر عثمانی کو صراط ِمستقیم پر ماننے والے لوگ بتائیں کہ ان کے وار سے کون سا امام بچا ہے؟
ڈاکٹر عثمانی کے جہالت پر مبنی اعتراضات
ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’دراصل مردے کے جسم میں رُوح کے لوٹائے جانے کی روایت شریعت جعفریہ کی روایت ہے، جو اس روایت کے راوی زاذان(شیعہ)نے وہاں سے لے کر براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے منسوب کر دی ہے۔اس کی سند دیکھیے تو اس کے اندر ضعفائ، مجروحین، متروکین اور شیعہ ملیں گے۔‘‘(’’ایمان خالص‘‘،دوسری قسط،ص : 17)
ملاحظہ کیا قارئین نے کہ اس عبارت میں ڈاکٹر عثمانی نے اس حدیث کو زاذان راوی کی کارروائی قرار دیا ہے۔یعنی ان کے نزدیک اس حدیث کو بیان کرنے کا قصور وار صرف زاذان راوی ہے،لیکن اگلی ہی سطر میں منہال بن عمرو پرجرح نقل کرنا شروع کر دی۔جب زاذان ہی اس روایت کا ذمہ دار تھا تو پہلے منہال بن عمرو پر جرح کا سبب سوائے ہٹ دھرمی کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
منہال بن عمرو پر جرح کی حقیقت
درجنوں ائمہ حدیث کا منہال بن عمرو کو ثقہ کہنا اور اس کی حدیث پر عقیدے میں بھی اعتماد کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ ثقہ راوی ہے اور اس کی بیان کردہ روایات اصولِ محدثین کے مطابق بالکل صحیح ہیں،نیز اس پر جو جرح کی گئی ہے،وہ مردود ہے، جیسا کہ :
علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک منہال بن عمرو پرجرح قابل قبول نہیں، بلکہ اس کی توثیق ہی راجح ہے۔(میزان الاعتدال في نقد الرجال : 192/4، طبعۃ دار المعرفۃ، بیروت)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اَلْمِنْہَالُ بْنُ عَمْرٍو تُکُلِّمَ فِیہِ بِلَا حُجَّۃٍ ۔
’’منہال بن عمرو پر کی گئی جرح بے دلیل ہے۔‘‘
(ہُدی الساري : 464/1، طبعۃ دار المعرفۃ، بیروت)
علامہ البانی رحمہ اللہ منہال بن عمرو کے بارے میں فرماتے ہیں :
وَفِیہِ کَلَامٌ لَّا یَضُرُّ ۔ ’’اس پر کی گئی جرح اس کو کوئی نقصان نہیں دیتی۔‘‘
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : 442/2، طبعۃ مکتبۃ المعارف، الریاض)
عصر حاضر کے محقق،دکتور بشار عواد معروف لکھتے ہیں :
وَلَمْ یُجَرَّحْ بِجَرْحٍ حَقِیقِيٍّ، وَبَعْضُ مَا نُسِبَ إِلٰی جَرْحِہٖ لَا یَصِحُّ بِسَبَبِ ضُعْفِ الرَّاوِي ۔ ’’منہال بن عمرو پر کوئی قابل قبول جرح نہیں کی گئی، اس پر کی گئی بعض جرحیں تو بیان کرنے والے کے کمزور ہونے کی بنا پر ثابت ہی نہیں۔‘‘
(حاشیۃ تہذیب الکمال في أسماء الرجال : 572/28)
اس بارے میں اہل علم و فن کے مزید اقوال ہم آئندہ سطور میں ذکر کریں گے۔ڈاکٹر عثمانی نے منہال بن عمرو پر جو جرح ذکر کی ہے،ہم اگر اس کو قارئین کی آسانی کے لیے اپنے الفاظ میں ترتیب دیں تو اس کا خلاصہ کچھ یوں ہو گا۔(ڈاکٹر عثمانی کے الفاظ ہم تفصیلی تجزئیے میں ذکر کریں گے):
1 امام حاکم کا کہنا ہے کہ منہال بن عمرو کی حیثیت یحییٰ بن سعید گراتے تھے۔
2 ابن معین منہال کی شان کو گراتے تھے۔
3 امام شعبہ نے منہال بن عمرو کے گھر سے گانے کی آواز سنی تو اسے ترک کر دیا۔
4 جوزجانی نے منہال بن عمرو کو بدمذہب لکھا ہے۔
5 ابن حزم نے اس کی تضعیف کی ہے اور اس کی قبر میں سوال و جواب والی رایت کو ردّ کیا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ سمیت درجنوں محدثین کی واضح توثیق کے خلاف ڈاکٹر عثمانی کے پاس یہی جمع پونجی تھی۔اصولِ حدیث کے مطابق اتنے زیادہ محدثین کی توثیق کے مقابلے میں یہ پانچوں جروح اگر ثابت اور مؤثر بھی ہوتیں تو ان کی کوئی وقعت نہیں تھی۔چہ جائیکہ ان میں سے پہلی دو تو سرے سے ثابت ہی نہیں،یعنی امام یحییٰ بن سعید قطان اور امام یحییٰ بن معین نے منہال پر کوئی جرح کی ہی نہیں،جبکہ باقی تینوں سے منہال بن عمرو کی حدیث پر کوئی آنچ نہیں آتی۔آئیے تفصیلاً ملاحظہ فرمائیں:
1 امام یحییٰ بن سعید اور منہال بن عمرو
ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’الذہبی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کہ حاکم کا کہنا ہے کہ منہال کی حیثیت یحییٰ بن سعید گراتے تھے۔‘‘(’’ایمانِ خالص‘‘، دوسری قسط، ص : 17)
اس بات کا تذکرہ نہ امام حاکم رحمہ اللہ کی کسی کتاب میں ملتا ہے،نہ امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ سے کسی نے باسند ایسی کوئی بات ذکر کی ہے۔علامہ ذہبی رحمہ اللہ اور امام حاکم رحمہ اللہ کے درمیان تقریباً ساڑھے تین صدیوں کا فاصلہ ہے ،جبکہ امام حاکم اور امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ کے درمیان قریباً دو صدیاں حائل ہیں۔بغیر کسی سند کے کیسے مان لیا جائے کہ واقعی امام یحییٰ بن سعید نے منہال کی حیثیت گرائی تھی؟عجیب منطق ہے ڈاکٹر عثمانی کی کہ جمہور محدثین ایک حدیث کو صحیح قرار دیں تو بھی وہ اسے ردّ کرنے کے لیے اس کی سند کو زیر بحث لاتے ہیں،لیکن خود جرح نقل کرنے کے لیے کسی سند کا التزام نہیں کرتے۔
یاد رہے کہ جس طرح حدیث کو سند کے بغیر یا ضعیف سند کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا،اسی طرح حدیث کے ردّ وقبول کے بارے میں اقوال اور راویانِ حدیث کی توثیق و جرح بھی سند کے بغیر یا ضعیف سند کے ساتھ قبول نہیں ہو سکتی،کیونکہ یہ اُمور بلاواسطہ حدیث سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین ہمارے منہج کو بھی ملحوظ رکھیں کہ ہم جس طرح حدیث کے بارے میں صحت ِسند کا اہتمام کرتے ہیں،بالکل اسی طرح کسی بھی حوالے سے کسی بھی امام کا قول ذکر کرتے ہوئے بھی یہ اہتمام کرتے ہیںکہ وہ قول یا تو خود اس امام کی کسی ثابت شدہ کتاب میں موجود ہو یا پھر کسی اور نے اس کو محدثین کے ہاں قابل حجت سند کے ساتھ ذکر کیا ہو۔اس کے برعکس گمراہ لوگ اپنی تائید میں متاخرین کی کتب سے اندھا دھند بے سند اقوال ذکر کرتے رہتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے منہال بن عمرو پر ابن قطان کی کوئی جرح ثابت نہیں ہوتی،کیونکہ یہ مبہم سی بات ہے، ہو سکتا ہے کہ کسی زیادہ ثقہ راوی کے مقابلے میں ابن قطان اس کی حیثیت کو کم کرتے ہوں اور یہ کوئی جرح نہیں۔
اس بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَحِکَایَۃُ الْحَاکِمِ عَنِ الْقَطَّانِ غَیْرُ مُفَسَّرَۃٍ ۔ ’’امام حاکم کی امام یحییٰ بن سعید قطان سے روایت مبہم ہے۔‘‘(فتح الباري : 446/1)
پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ خود منہال پر جرح کے خلاف تھے۔وہ تو منہال بن عمرو کو ثقہ قرار دیتے تھے، جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں۔ڈاکٹر عثمانی کی ’’دیانت ِعلمی‘‘ ملاحظہ فرمائیں کہ منہال بن عمرو کی توثیق کے بارے میں امام حاکم رحمہ اللہ کے ثابت شدہ قول اور ابن قطان کی جرح پر ابن حجر کے تبصرے کو بالکل نظر انداز کر دیا ،جبکہ منہال پر جرح کے بارے میں بے سند و بے ثبوت قول کو سینے سے لگا لیا۔سبحان اللہ،کیا تحقیق ہے !
2 امام یحییٰ بن معین اور منہال
ڈاکٹر عثمانی نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب ’تہذیب التہذیب‘ کے حوالے سے لکھا ہے :
’’ابن معین،منہال کی شان کو گراتے تھے۔‘‘(’’ایمانِ خالص‘‘، دوسری قسط، ص : 18)
گزشتہ کی طرح یہ بات بھی بے سند ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ،امام بن معین رحمہ اللہ سے چھ صدیاں بعد پیدا ہوئے ہیں۔انہوں نے ابن معین تک اس قول کی کوئی سند بھی ذکر نہیں کی۔ بغیر کسی سند کے کیسے مان لیا جائے کہ واقعی ابن معین رحمہ اللہ ،منہال کی شان کو گراتے تھے؟اس سلسلے میں ابن حجر رحمہ اللہ نے جس نقل پر اعتماد کیا ہے،شاید وہ یہ ہے :
حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ (571-499ھ)نے منہال بن عمرو کے حالات میں لکھا ہے:
قَالَ الْمُفَضَّلُ بْنُ غَسَّانَ الْغُلَابِيُّ : ذَمَّ یَحْیَی بْنُ مَعِینٍ الْمِنْہَالَ بْنَ عَمْرٍو ۔
’’مفضل بن غسان غلابی کا کہنا ہے کہ امام یحییٰ بن معین نے منہال بن عمرو کی مذمت کی ہے۔‘‘(تاریخ دمشق : 374/60، طبعۃ دار الفکر، بیروت)
اس حکایت کا راوی ابو بکر محمد بن احمد بن محمد بن موسیٰ بابسیری ’’مجہول ‘‘ ہے۔
اگر یہ قول ثابت بھی ہو تو یہ منہال پر جرح نہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَأَمَّا حِکَایَۃُ الْغُلَابِيِّ، فَلَعَلَّ بْنُ مَعِینٍ کَانَ یَضَعُ مِنْہُ بِالنِّسْبَۃِ إِلٰی غَیْرِہٖ، کَالْحِکَایَۃِ عَنْ أَحْمَدَ، وَیَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ أَنَّ أَبَا حَاتِمٍ حَکٰی عَنِ ابْنِ مَعِینٍ أَنَّہٗ وَثَّقَہٗ ۔ ’’رہی غلابی کی حکایت،تو شاید امام ابن معین کسی اور (زیادہ ثقہ)راوی کی نسبت اس کی شان کو گراتے ہوں،جیسا کہ امام احمد سے بھی ثابت ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابوحاتم نے امام ابن معین سے منہال کا ثقہ ہونا بھی ذکر کیا ہے۔‘‘
(فتح الباري : 446/1، طبعۃ دار المعرفۃ، بیروت)
یعنی جرح کے برعکس امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کی طرف سے منہال بن عمرو کی واضح توثیق ثابت ہے، جیسا کہ توثیق کے ضمن میں سب سے پہلے نمبر پر ہم بیان کر چکے ہیں۔
ہم ذکر کر چکے ہیں کہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے منہال پر جرح کا ردّ کیا ہے۔ ڈاکٹر عثمانی نے ابن حجر سے ان کی مردود بتائی ہوئی جرح بغیر ردّ نقل کیے ذکر کر دی ، لیکن جو بات ابن معین اور ابن حجر سے ثابت تھی،یعنی منہال کی توثیق،اپنے خلاف پا کر اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ایسے لوگوں سے انصاف کی توقع عبث ہے۔
3 امام شعبہ اور منہال بن عمرو
امام شعبہ رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو طرح کی روایات بیان کی گئی ہیں۔ایک یہ کہ انہوں نے منہال بن عمرو کے گھر سے قرآنِ کریم کو سُرکے ساتھ پڑھنے کی آواز سنی۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 357/8، طبعۃ دار إحیاء التراث العربي، بیروت)
دوسرے یہ کہ انہوں نے منہال کے گھر سے گانے کی آواز سنی تھی۔
(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 236/4، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت، وسندہٗ صحیحٌ)
جو روایت ڈاکٹر عثمانی نے ذکر کی ہے، اس میں گانے کا کوئی ذکر نہیں۔الفاظ یہ ہیں:
لِأَنَّہٗ سَمِعَ مِنْ دَارِہٖ صَوْتَ قِرَائَ ۃٍ بِالتَّطْرِیبِ .
’’کیونکہ شعبہ رحمہ اللہ نے منہال کے گھر سے سُرکے ساتھ قرآن کی قراء ت سنی تھی۔‘‘
ثابت ہوا کہ اس روایت میں گانے کا نہیں، بلکہ قرآنِ کریم کی قراء ت کا ذکر ہے، جیسا کہ ڈاکٹر عثمانی کی محولہ کتاب میں ایک اور جگہ تصریح ہے :
سَمِعَ صَوْتَ قِرَائَ ۃٍ بِأَلْحَانٍ، فَتَرَکَ الْکِتَابَۃَ عَنْہُ لِأَجْلِ ذٰلِکَ ۔
’’امام شعبہ رحمہ اللہ نے ترنم کے ساتھ قراء ت کی آواز سنی،اسی بنا پر اس سے حدیث لکھنا چھوڑ دیا۔‘‘(الجرح والتعدیل : 172/1)
یہ عالم ہے ڈاکٹر عثمانی کی عربی دانی اور کتب کی ورق گردانی کا!
بہرحال قرآنِ کریم کو تغنی،یعنی سُراور خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھنا کوئی قابل جرح بات نہیں، جیسا کہ عرب محقق ڈاکٹر بشار عواد معروف فرماتے ہیں :
ہٰذَا جَرْحٌ مَّرْدُودٌ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ، وَمَا أَدْرِي کَیْفَ جَوَّزَ شُعْبَۃُ لِنَفْسِہٖ أَنْ یَّتْرُکَہٗ لِلتَّطْرِیبِ بِالْقِرَائَ ۃِ، إِنْ صَحَّ ذٰلِکَ عَنْہُ، فَقَدْ ثَبَتَ عَنِ الْمُصْطَفٰی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَرُورَۃَ تَحْسِینِ الصَّوْتِ وَالتَّطْرِیبِ بِالْقِرَائَ ۃِ ۔
’’یہ جرح مردود ہے۔اگر امام شعبہ رحمہ اللہ سے یہ بات ثابت ہے تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ انہوں نے نرم اور خوبصورت آواز سے قراء ت کو بنیاد بنا کر منہال کو چھوڑنا جائز کیسے سمجھ لیا؟حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ قرآنِ کریم کی قراء ت خوبصورت آواز اور سُر میں ہونی چاہیے۔‘‘(حاشیۃ تہذیب الکمال في أسماء الرجال : 570/28، طبعۃ مؤسّسۃ الرسالۃ)
دوسری روایت جس میں منہال کے گھر سے گانے کی آواز آنے کا ذکر ہے،اس کے مطابق بھی منہال بن عمرو پر کوئی قدغن نہیں آتی۔یہی وجہ ہے کہ جب امام شعبہ رحمہ اللہ نے وہب بن جریر رحمہ اللہ کے سامنے یہ ماجرا بیان کیا تو وہب بن جریر رحمہ اللہ نے امام شعبہ رحمہ اللہ کے اس طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے ایک سوال کیا،جس پر امام شعبہ رحمہ اللہ خاموش ہو گئے اور ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔وہب بن جریر رحمہ اللہ امام شعبہ سے اپنا مکالمہ یوں بیان کرتے ہیں:
عَنْ شُعْبَۃَ، قَالَ : أَتَیْتُ مَنْزِلَ مِنْہَالِ بْنِ عَمْرٍو، فَسَمِعْتُ مِنْہُ صَوْتَ الطُّنْبُورِ، فَرَجَعْتُ، وَلَمْ أَسْأَلْہُ، قُلْتُ : وَہَلَّا سَأَلْتَہٗ ! فَعَسٰی کَانَ لَا یَعْلَمُ ۔
’’امام شعبہ رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ میں منہال بن عمرو کے گھر آیا تو مجھے گھر سے گانے کی آواز سنائی دی۔میں لوٹ آیا اور منہال سے اس بارے میں نہیںپوچھا۔میں نے کہا: آپ نے اس سے کیوں نہ پوچھا؟ ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے لاعلم ہو۔‘‘
(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 236/4، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت، وسندہٗ صحیحٌ)
امام شعبہ رحمہ اللہ کی منہال پرجرح کا سب سے پہلے ردّ تو وہب بن جریر رحمہ اللہ نے ان کے سامنے کر دیا اور ان کو لاجواب بھی کر دیا۔وہب بن جریر رحمہ اللہ کی بات بالکل درست تھی کہ ہو سکتا ہے،منہال کو اس بات کا علم ہی نہ ہو،وہ گھر پر نہ ہو،یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے پڑوسیوں کے گھر سے یہ آواز آ رہی ہو اور امام شعبہ رحمہ اللہ کو غلط فہمی ہو گئی ہو۔پھر کسی کے گھر سے گانے کی آواز آنا جرح کا سبب تو نہیں،کیونکہ ہو سکتا ہے کہ گھر کا جو فرد ایسا کر رہا ہے، منہال اس سے راضی نہ ہو۔بعض انبیائے کرام کے گھر والے بھی تو ان کے نافرمان ہوئے ہیں۔کیا اس بنا پر ان کو بھی الزام دیا جائے گا؟ وہب بن جریر رحمہ اللہ کے مطابق امام شعبہ رحمہ اللہ کو منہال کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے ان سے استفسار کرنا چاہیے تھا۔
بعد والے اہل علم بھی امام شعبہ رحمہ اللہ کی اس بے جا سختی کا ردّ کرتے آئے ہیں،جیسا کہ :
علامہ،ابوالحسن،علی بن محمد،ابن قطان،فاسی رحمہ اللہ (628-562ھ) منہال کی نرم آواز میں قراء ت پر امام شعبہ کے ردّ عمل والی روایت ذکر کر کے فرماتے ہیں:
فَإِنَّ ہٰذَا لَیْسَ بِجَرْحِہٖ، إِلَّا أَنْ یَّتَجَاوَزَ إِلٰی حَدِّ یُّحَرَّمُ، وَلَمْ یُذْکَرْ ذٰلِکَ فِي الْحِکَایَۃِ ۔ ’’یہ (سُرسے قراء ت)کوئی جرح نہیں،الا یہ کہ حرمت کی حد تک پہنچ جائے(یعنی اس میں تکلف اور غلطی آ جائے)،اور ایسی کوئی بات اس واقعے میں مذکور نہیں۔‘‘
اور گانے کی آواز سن کر شعبہ کے ترک کرنے والی روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :
فَہٰذَا، کَمَا تَرٰی، التَّعَسُّفُ فِیہِ ظَاہِرٌ ۔
’’جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، امام شعبہ کا یہ رویہ واضح طور پر بے جا ہے۔‘‘
(بیان الوہم والإیہام في کتاب الأحکام : 363/3، طبعۃ دار طیبۃ، الریاض)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)امام شعبہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَأَمَّا قَوْلُ مَنْ قَالَ : تَرَکَہٗ شُعْبَۃُ، فَمَعْنَاہُ أَنَّہٗ لَمْ یَرْوِ عَنْہُ، کَمَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ : لَمْ یَسْمَعْ شُعْبَۃُ مِنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَۃَ شَیْئًا، وَشُعْبَۃُ، وَیَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَہْدِيٍّ، وَمَالِکٌ، وَنَحْوُہُمْ، قَدْ کَانُوا یَتْرُکُونَ الْحَدِیثَ عَنْ أُنَاسٍ لِّنَوْعِ شُبْہَۃٍ بَلَغَتْہُمْ، لَا تُوجِبُ رَدَّ أَخْبَارِہِمْ، فَہُمْ إذَا رَوَوْا عَنْ شَخْصٍ کَانَتْ رِوَایَتُہُمْ تَعْدِیلًا لَہٗ، وَأَمَّا تَرْکُ الرِّوَایَۃِ فَقَدْ یَکُونُ لِشُبْہَۃٍ لَا تُوجِبُ الْجَرْحَ، وَہٰذَا مَعْرُوفٌ فِي غَیْرِ وَاحِدٍ قَدْ خُرِّجَ لَہٗ فِي الصَّحِیحِ ۔
’’جس نے امام شعبہ رحمہ اللہ کے کسی راوی کو ترک کر دینے کی بات کی ہے،اس کی مراد یہ تھی کہ امام شعبہ نے اس سے احادیث روایت نہیں کیں،جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ شعبہ نے عمر بن ابو سلمہ سے کوئی حدیث نہیں سنی۔امام شعبہ،امام یحییٰ بن سعید،امام عبد الرحمن بن مہدی،امام مالک وغیرہ جیسے ائمہ کسی شبہ کی بنا پر بھی لوگوں سے روایت کرنا چھوڑ دیتے تھے۔یہ ائمہ جس راوی سے روایت کریں،اس کے ثقہ ہونے کی یہ دلیل ہو گی، لیکن ان کا کسی سے روایت چھوڑ دینا بسا اوقات کسی شبہ کے وجہ سے ہوتا ہے جو حقیقت میں جرح کا سبب نہیں ہوتا۔صحیح بخاری کے کئی راویوں کے بارے میں امام شعبہ رحمہ اللہ کا ایسا طرز عمل ثابت ہے۔‘‘(الفتاوی الکبرٰی : 53/3، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751-691ھ)اس بارے میں فرماتے ہیں:
إِنَّ مُجَرَّدَ تَرْکِ شُعْبَۃَ لَہٗ لَا یَدُلُّ عَلٰی ضَعْفِہٖ، فَکَیْفَ وَقَدْ قَالَ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ : إِنَّمَا تَرَکَہٗ شُعْبَۃُ لِأَنَّہٗ سَمِعَ فِي دَارِہٖ صَوْتَ قِرَاء َۃٍ بِالتَّطْرِیبِ، وَرُوِيَ عَنْ شُعْبَۃَ، قَالَ : أَتَیْتُ مَنْزِل الْمِنْہَالِ، فَسَمِعْتُ صَوْتَ الطَّنْبُورِ، فَرَجَعْتُ، فَہٰذَا سَبَبُ جَرْحِہٖ، وَمَعْلُومٌ أَنَّ شَیْئًا مِّنْ ہٰذَا لَا یَقْدَحُ فِي رِوَایَتِہٖ، لِأَنَّ غَایَتَہٗ أَنْ یَّکُونَ عَالِمًا بِہٖ، مُخْتَارًا لَّہٗ، وَلَعَلَّہٗ مُتَأَوِّلٌ فِیہِ، فَکَیْفَ وَقَدْ یُمْکِنُ أَنْ لَّا یَکُونَ ذٰلِکَ بِحُضُورِہٖ، وَلَا إِذْنِہٖ، وَلَا عِلْمِہٖ، وَبِالْجُمْلَۃِ فَلَا یُرَدُّ حَدِیثُ الثِّقَاتِ بِہٰذَا وَأَمْثَالِہٖ ۔
’’امام شعبہ رحمہ اللہ کا چھوڑ دینا منہال پر کے ضعیف ثابت ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا، جبکہ امام ابن ابوحاتم نے یہ بیان بھی کر دیا ہے کہ امام شعبہ نے منہال کے گھر سے قرآنِ کریم کی قراء ت سُرسے ہو رہی تھی،اسی بنا پر انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ایک روایت کے مطابق امام شعبہ بیان کرتے ہیں کہ میں منہال کے گھر گیا تو وہاں مجھے گانے کی آواز سنائی دی۔یہ تھا امام شعبہ کی جرح کا سبب۔مسلَّم بات ہے کہ ان میں سے کوئی بھی چیز منہال کی روایت کو عیب دار نہیں کرتی۔زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ منہال کو اس بارے میں علم ہو اور اس کے اختیار سے یہ کچھ ہو رہا ہو،البتہ وہ اس بارے میں تاویل کرتا ہو(یعنی اسے بعض دلائل کی بنا پر جائز سمجھتا ہو،جیسا کہ ابن حزم رحمہ اللہ کا خیال ہے)۔جبکہ یہ بھی بعید نہیں کہ یہ کچھ نہ اس کی موجودگی میں ہوا ہو،نہ اس کی اجازت سے اور نہ اس کے علم میں یہ بات آئی ہو۔الغرض،اس طرح کی باتوں سے ثقہ راویوں کی روایات کو ردّ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
(حاشیۃ ابن القیّم علی سنن أبي داوٗد مع عون المعبود : 64/13، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ)
حافظ،ابو عبداللہ،محمد بن احمد بن عثمان،ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ)فرماتے ہیں :
وَہٰذَا لَا یُوجِبُ غَمْزَ الشَّیْخِ ۔ ’’یہ بات شیخ(منہال بن عمرو) کو مجروح نہیں کرتی۔‘‘(میزان الاعتدال : 192/4، طبعۃ دار المعرفۃ،بیروت)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ،امام شعبہ رحمہ اللہ پر وہب بن جریر رحمہ اللہ کے اعتراض کے بارے میں لکھتے ہیں: وَہٰذَا اعْتِرَاضٌ صَحِیحٌ، فَإِنَّ ہٰذَا لَا یُوجِبُ قَدْحًا فِي الْمِنْہَالِ ۔ ’’وہب بن جریر کا یہ اعتراض صحیح تھا،کیونکہ امام شعبہ کی ذکر کردہ بات منہال کے بارے میں جرح کا سبب نہیں بنتی۔‘‘(فتح الباري : 446/1)
علامہ ،محمد بن عبد الرحمن،سخاوی رحمہ اللہ (902-831ھ)فرماتے ہیں :
وَجَرْحُہٗ بِھٰذَا تَعَسُّفٌ ظَاہِرٌ ۔ ’’امام شعبہ کا اس بنا پر منہال پر جرح کرنا واضح طور پر بے جا ہے۔‘‘(فتح المغیث بشرح ألفیۃ الحدیث : 24/2، طبعۃ مکتبۃ السنّۃ، مصر)
یہ ساری باتیں ڈاکٹر عثمانی نے خیانت کرتے ہوئے ہڑپ کر لیں اور صرف جرح والی بات کو ذکر کر کے شور ڈال دیا کہ منہال بن عمرو ’’ضعیف‘‘راوی ہے۔
معلوم ہوا کہ امام شعبہ رحمہ اللہ کا منہال بن عمرو کو چھوڑ دینا قابل جرح بات نہیں،یہ امام شعبہ رحمہ اللہ کی راویوں کے بارے میں حد سے زیادہ سختی کی دلیل ہے۔
علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بالکل صحیح فرمایا ہے کہ : شُعْبَۃُ مُتَعَنِّتٌ ۔
’’امام شعبہ رحمہ اللہ (راویوں کے بارے میں) بہت سخت مزاج ہیں۔‘‘
(المغني في الضعفاء : 792/2، بتحقیق الدکتور نور الدین عتر)
موسیقی اور ابن حزم رحمہ اللہ :
پھر جو لوگ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کی منہال بن عمرو پر جرح کو دلیل بنا کر اس حدیث کو ردّ کرتے ہیں، ان کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے اور ان دونوں میں سے ایک بات کو ترک کر دینا چاہیے،یعنی یا وہ منہال بن عمرو پر گانے والی روایت کی وجہ سے جرح نہ کریں، یا ابن حزم کی باتوں کو ذکر کرنا چھوڑ دیں، کیونکہ ابن حزم گانے اور آلات ِموسیقی کی خریدو فروخت کو جائز قرار دیتے تھے۔(دیکھیں المحلّٰی : 599/7، طبعۃ دار الفکر، بیروت)
عود ِروح والی حدیث کو دنیا میں سب سے پہلے پانچویں صدی ہجری میں ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا۔ان سے پہلے تمام محدثین اور اہل علم اسے صحیح ہی قرار دیتے رہے تھے،جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔ڈاکٹر عثمانی کی بندربانٹ ملاحظہ فرمائیں کہ جو شخص صریح طور پر گانے کو جائز کہے اور آلات ِموسیقی کی خرید و فروخت کو بھی حلال قرار دے،ان کے نزدیک اس کی جرح و تعدیل بھی قبول اور اس کی حدیث بینی بھی عین دلیل،لیکن جس کے بارے میں یہ بھی ثابت نہ ہو سکے کہ اسے علم بھی تھا کہ اس کے گھر میں گانا گایا گیا،اس کے خلاف یہ غلط پروپیگنڈا!کیا یہی انصاف ہے؟ اور کیا ایسے لوگوں میں امانت و دیانت کی کوئی رتّی موجود ہو سکتی ہے؟
امام شعبہ رحمہ اللہ اور دیگر ثقہ راویوں کا ترک :
امام شعبہ رحمہ اللہ نے اپنی حد سے زیادہ احتیاط کی بنا پر معمولی سے شبہے کی وجہ سے دیگر کئی ثقہ راویوں کو بھی ترک کر دیا تھا۔ہم یہاں پر صرف ایک مثال عرض کرتے ہیں:
محمدبن مسلم،ابو الزبیر مکی:
ابوالزبیرمکی صحیح بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔محدثین عظام کے ایک جم غفیر نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے،لیکن امام شعبہ رحمہ اللہ ان سے بھی روایت نہیں لیتے تھے۔ورقاء کا بیان ہے:
قُلْتُ لِشُعْبَۃَ : مَا لَکَ تَرَکْتَ حَدِیثَ أَبِي الزُّبَیْرِ؟ قَالَ : رَأَیْتُہٗ یَزِنُ وَیَسْتَرْجِحُ فِي الْمِیزَانِ ۔ ’’میں نے شعبہ سے کہا : آپ نے ابوالزبیر کی حدیث کیوں چھوڑ دی؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے ان کو وزن کرتے دیکھا،وہ زیادہ وزن طلب کر رہے تھے۔‘‘(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 130/4، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، وسندہٗ صحیحٌ)
امام شعبہ رحمہ اللہ کے اس طرز عمل کے ردّ میں امام ابن حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَلَمْ یَنْصِفْ مَنْ قَدَحَ فِیہِ، لِأَنَّ مَنِ اسْتَرْجَحَ فِي الْوَزْنِ لِنَفْسِہٖ، لَمْ یَسْتَحِقَّ التَّرْکَ مِنْ أَجْلِہٖ ۔ ’’جس نے ابوالزبیر پر جرح کی،اس نے انصاف سے کام نہیں لیا،کیونکہ جو شخص اپنے لیے زیادہ وزن طلب کرتا ہے،وہ اس بنا پر ترک کر دئیے جانے کا مستحق نہیں ہو جاتا۔‘‘(الثقات : 352/5، طبعۃ دائرۃ المعارف العثمانیّۃ، الہند)
کیا امام شعبہ رحمہ اللہ کے ترک کر دینے کی وجہ سے ابوالزبیر مکی بھی ’’ضعیف‘‘قرار پائیں گے؟اس طرح تو صحیح بخاری و مسلم میں موجود ان کی سینکڑوں احادیث سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔کیا ڈاکٹر عثمانی کے پیروکار ابوالزبیر مکی کی احادیث کو بھی چھوڑ دیں گے؟
معلوم ہوا کہ جب جمہور محدثین کرام کسی راوی کو ثقہ قرار دے رہے ہوں تو امام شعبہ رحمہ اللہ کا اسے ترک کر دینا اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتا۔
4 ابواسحاق جوزجانی اور منہال
ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’الجوزجانی نے اپنی کتاب ’الضعفائ‘ میں لکھا ہے کہ وہ بدمذہب تھا۔‘‘(’’ایمانِ خالص‘‘، دوسری قسط، ص : 17، 18)
پہلی بات تو یہ ہے کہ جوزجانی کے اصل الفاظ کیا ہیں؟ ذکر کرنے والوں کا اس میں اختلاف ہے۔علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر وغیرہ نے تو جوزجانی سے منہال کے بارے میں [سَيِّئُ الْمَذہَبِ](بدمذہب) کے الفاظ نقل کیے ہیں،جبکہ علامہ عینی حنفی(858-762ھ) نے منہال بن عمرو کے بارے میں جوزجانی کا تبصرہ ان الفاظ میں ذکر کیا ہے :
وَقَالَ إِبْرَاہِیمُ بْنُ یَعْقُوبَ الْجُوزْجَانِيُّ : الْمِنْہَالُ بْنُ عَمْرٍو سُنِّيُّ الْمَذْہَبِ ۔
’’ابراہیم بن یعقوب جوزجانی نے کہا ہے کہ منہال بن عمرو مذہب کے لحاظ سے سنی تھا۔‘‘
(مغاني الأخیار في شرح أسامي رجال معاني الآثار : 85/3، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت)
معلوم ہوتا ہے کہ جوزجانی کی کتاب کا جو نسخہ علامہ عینی کے پاس تھا،اس میں یہی الفاظ تھے،پھرعلامہ عینی حنفی کے ذکر کردہ الفاظ بعید از قیاس بھی نہیں،کیونکہ منہال بن عمرو اہل سنت والے عقائد کے حامل تھے،رافضی نہیںتھے۔ان سے سیدہ عائشہ کو ’’ام المومنین‘‘ کہنا اور ان کے بارے میں’’ رضی اللہ عنہا‘‘کے دعائیہ الفاظ ذکر کرنا ثابت ہے۔
(دیکھیں سنن أبي داوٗد : 5217)
جبکہ رافضی شیعہ تو دشمنانِ صحابہ ہوتے ہیں،وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے بارے میں ایسی پُرتعظیم رائے کا اظہار نہیں کر سکتے۔علامہ عینی کی کتاب سے ناواقفیت یا مجرمانہ چشم پوشی ڈاکٹر عثمانی کی ’’وسعت ِمطالعہ‘‘ یا ’’دیانت ِعلمی‘‘کا خوب پتا دیتی ہے۔
پھر اگر منہال بن عمرو کے بارے میں جوزجانی کے ’’بدمذہب‘‘ والے الفاظ ہی صحیح ہوں تو ڈاکٹر عثمانی نے یہ بات علامہ ذہبی اور حافظ ابن حجر،دونوں کی کتابوں سے ذکر کی ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ خود ان دونوں اہل علم کا جوزجانی کی اس جرح کے بارے میں کیا تاثر تھا۔ان دونوں نے جوزجانی کی اس جرح کو قابل التفات نہیں سمجھا۔علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے جوزجانی کی جرح نقل کرنے سے قبل ہی ’صح‘لکھ کر بتا دیا کہ اس پر کی گئی کسی کی کوئی جرح،بشمول جوزجانی،مؤثر نہیں،جبکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بہت تفصیل کے ساتھ جوزجانی کے متعصبانہ رویے کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ سچے اور ایمان دار اہل کوفہ کو بھی بدمذہب قرار دینا جوزجانی کا متعصبانہ وطیرہ ہے،اس سے متنبہ رہنا چاہیے۔جوزجانی کے بارے میں حافظ موصوف کی سخت تنبیہ محققین کے لیے لازمِ مطالعہ ہے،وہ فرماتے ہیں:
وَمِمَّنْ یَّنْبَغِي أَنْ یُّتَوَقَّفَ فِي قُبُولِ الْجَرْحِ مَنْ کَانَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ مَنْ جَرَّحَہٗ عَدَاوَۃٌ سَبَبُھَا الِاخْتِلَافُ فِي الِاعْتِقَادِ، فَإِنَّ الْحَاذِقَ إِذَا تَأَمَّلَ ثَلْبَ أَبِي إِسْحَاقَ الْجُوزْجَانِيِّ لِأَھْلِ الْکُوفَۃِ رَأَی الْعَجَبَ، وَذٰلِکَ لِشِدَّۃِ انْحِرَافِہٖ فِي النَّصَبِ، وَشُھْرَۃِ أَھْلِھَا بِالتَّشَیُّعِ، فَتَرَاہُ لاَ یَتَوَقَّفُ فِي مَنْ ذَکَرَہٗ مِنْھُمْ، بِلِسَانٍ ذَلْقَۃٍ وَّعِبَارَۃٍ طَلْقَۃٍ، حَتّٰی إِنَّہٗ یُلَیِّنُ مِثْلَ الْـأَعْمَشِ، وَأَبِي نُعَیْمٍ، وَعُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ مُوسٰی، وَأَسَاطِینِ الْحَدِیثِ، وَأَرْکَانِ الرِّوَایَۃِ، فَھٰذَا إِذَا عَارَضَہٗ مِثْلُہٗ أَوْ أَکْبَرُ مِنْہُ، فَوَثَّقَ رَجُلاً ضَعَّفَہٗ قُبِلَ التَّوْثِیقُ ۔۔۔ ۔
’’جن لوگوں کے جرح والے قول کو قبول کرنے میں توقف کرنا ضروری ہے،ان میں سے وہ شخص بھی ہے،جس کی مجروح راوی سے بسبب ِاختلاف ِ عقیدہ عداوت ہو،چنانچہ جب کوئی ماہر (رِجال)ابواسحاق جوزجانی کی اہل کوفہ کے خلاف جرح پرغور کرے گا تووہ عجیب طرز عمل دیکھے گا،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقیدۂ نصب(اہل بیت سے عداوت)میں سخت انحراف کا شکار ہیں،جبکہ کوفہ والے تشیع(اہل بیت سے زیادہ محبت )میں مشہور ہیں، لہٰذا آپ دیکھیں گے کہ اہل کوفہ میں سے جس کو بھی ابواسحاق جوزجانی نے ذکر کیا ہے،اس پرتیز زبان اور سخت عبارت کے ساتھ جرح کرنے میں توقف نہیں کیا،یہاں تک کہ وہ امام اعمش،ابونعیم اور عبیداللہ بن موسیٰ جیسے راویانِ حدیث پر بھی جرح کر گئے،جو کہ حدیث کے دارومدار اور روایت کے ستون تھے۔چنانچہ جب ان کا کوئی ہم پلہ امام یاان سے بڑا امام اس آدمی کو ثقہ کہہ دے،جس کو جوزجانی نے ضعیف کہا ہو، تو توثیق کو قبول کیاجائے گا۔۔۔‘‘
(لسان المیزان : 16/1، طبعۃ مؤسّسۃ الأعلمي، بیروت)
یعنی یہ حقیقت ہے کہ اہل کوفہ میں سے کچھ لوگ حب ِاہل بیت میں انتہا پسندی کا شکار ہو کر باقی صحابہ کرام کے بارے میں بدگمان ہو گئے تھے، لیکن یہ اس سے بھی واضح حقیقت ہے کہ سب اہل کوفہ کا معاملہ ایسا نہیں تھا۔اگر حب ِاہل بیت میں غلو کرتے ہوئے باقی صحابہ کرام کی گستاخی پر اُتر آنا ایک انتہا ہے تو باقی صحابہ کرام کی طرفداری میں اہل بیت کی تنقیص میں ملوث ہو جانا اور سب صحابہ کرام کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اہل بیت سے محبت رکھنے والے اہل کوفہ سے عداوت رکھنا اور ان پر عیب جوئی کرنا دوسری انتہا ہے۔پہلی انتہا کو پہنچنے والے ’’رافضی‘‘اور دوسری انتہا والوں کو اصطلاحاً ’’ناصبی‘‘ کہا جاتا ہے۔جوزجانی اپنے علم و فضل کے باوجود متعصب ناصبی تھے۔اہل کوفہ اور محبانِ اہل بیت پر ناحق جرح کرنا ان کا معمول ہے۔اگر کوئی ایک بھی معتبر محدث کسی کوفی راوی کو ثقہ قرار دے تو جوزجانی کی جرح ردّی کی ٹوکری میں پھینک دی جائے گی،چہ جائیکہ منہال کو درجنوں محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے اور ڈاکٹر عثمانی جوزجانی کی جرح کو سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔محققین نے معتدل محدثین کے مقابلے میں متعصب جوزجانی کے قول کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
علامہ،محمد ناصر الدین،البانی رحمہ اللہ جوزجانی کی جرح کے بارے میں فرماتے ہیں :
وَیَکْفِي فِي رَدِّ ذٰلِکَ أَنَّہٗ مِنْ رِّجَالِ الْبُخَارِيِّ ۔
’’جوزجانی کے ردّ کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ صحیح بخاری کا راوی ہے۔‘‘
(تحقیق الآیات البیّنات في عدم سماع الأموات، ص : 84، طبعۃ المکتب الإسلامي، بیروت)
اس منصفانہ انداز تحقیق کے برعکس ڈاکٹر عثمانی کے اندازِ تحقیق کو جہالت و بددیانتی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔
منہال بن عمرو پر جوزجانی کی جرح کا ردّ کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَأَمَّا الْجُوزْجَانِيُّ، فَقَدْ قُلْنَا غَیْرَ مَرَّۃٍ : إِنَّ جَرْحَہٗ لَا یُقْبَلُ فِي أَھْلِ الْکُوفَۃِ، لِشِدَّۃِ انْحِرَافِہٖ، وَنَصْبِہٖ ۔ ’’رہی جوزجانی کی بات،تو ہم کئی مرتبہ یہ بتا چکے ہیں کہ سخت ناصبی ہونے اور راہ اعتدال سے ہٹ جانے کی بنا پر اہل کوفہ کے بارے میں اس کی جرح کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔‘‘(فتح الباري : 446/1، طبعۃ دار المعرفۃ، بیروت)
ابن حجر رحمہ اللہ کئی مرتبہ کیا،کئی لاکھ مرتبہ بھی بتائیں، لیکن ڈاکٹر عثمانی جیسے ’’محققین‘‘ کو انصاف اور دیانت سے کیا لینا دینا؟انہوں نے تو جوزجانی کی طرح یہی متعصبانہ وطیرہ اپنایا ہوا ہے کہ جہاں سے اپنے مطلب کی بات ملی،اسے بیان کرنے والے کے سیاق و سباق سے کاٹ کر اپنی تائید میں پیش کر لیا اور صاحب ِ کتاب کا اس بارے میں کوئی تاثر بھی نقل نہ کیا۔ان کی اس روش کا ہم قارئین کو مسلسل مشاہدہ کروا رہے ہیں۔
5 ابن حزم رحمہ اللہ اور منہال بن عمرو
ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’اسی طرح ابن حزم نے اس کی تضعیف کی ہے اور اس کی(اسی)قبر کی آزمائش اور سوال و جواب والی روایت کو ناقابل احتجاج ٹھہرایا۔‘‘
(’’ایمانِ خالص‘‘، دوسری قسط، ص : 17)
اپنی دیانت و انصاف سے پاک روش کے مطابق ڈاکٹر عثمانی نے ابن حزم کی جرح تو حافظ ذہبی سے لے لی،لیکن اس کے بارے میں ان کا اپنا موقف نقل کرنا گوارا نہیں کیا۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ایک تو شروع میں ’صح‘ لکھ کر بتا دیا کہ اس پر ابن حزم کی جرح قابل قبول نہیں،بلکہ مردود ہے۔دوسرے منہال کی اسی عذاب ِقبر اور عودِ روح والی حدیث کو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا،جیسا کہ ہم نے بیان کر دیا ہے۔تیسرے یہ کہ ابن حزم کی جرح نقل کرنے کے بعد منہال کی ایک حدیث ذکر کر کے اس کی سند کو صالح قراد دے دیا۔ ڈاکٹر عثمانی نے ان سب باتوں سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں اور سمجھ لیا کہ شاید کوئی ان تک پہنچ نہیں پائے گا۔اللہ تعالیٰ دشمنانِ حدیث کی کارروائیوں کو لوگوں کے سامنے ضرور لاتا ہے۔
حافظ،ابو فدائ،اسماعیل بن عمر،ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ)فرماتے ہیں:
وَتَکَلَّمَ فِیہِ ابْنُ حَزْمٍ، وَرَدَّ حَدِیثَہٗ عَنْ زَاذَانَ، عَنِ الْبَرَائِ، فِي السُّؤَالِ فِي الْقَبْرِ، فَأَخْطَأَ ابْنُ حَزْمٍ . ’’حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے منہال بن عمرو پر جرح کی ہے اور قبر میں سوال و جواب کے بارے میں اس کی بواسطہ زاذان،سیدنا برائ رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ حدیث کو ردّ کیا ہے۔یہ ابن حزم کی غلطی ہے۔‘‘
(التکمیل في الجرح والتعدیل : 211/1، طبعۃ مرکز النعمان للبحوث، الیمن)
درجنوں محدثین کے عودِ روح والی حدیث کو صحیح کہنے اور بیسیوں اہل علم کے منہال کو ثقہ کہنے کے خلاف ڈاکٹر عثمانی ابن حزم کی غلطی پر ڈٹ گئے ہیں۔یہ ہے ان کی انمول تحقیق!
حافظ ابن حزم کا جرح و تعدیل میں مقام :
ابن حزم رحمہ اللہ اگرچہ مجتہد و فقیہ تھے،لیکن بہرحال وہ متاخر تھے اور جرح و تعدیل میں ان کی حیثیت صرف ایک ناقل کی تھی۔وہ صرف کسی متقدم امام کے قول کو بنیاد بنا کر ہی کسی راوی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کے اہل تھے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَضَعَّفَہٗ أَبُو مُحَمَّدِ ابْنُ حَزْمٍ، فَأَخْطَأَ، لِأَنَّا لَا نَعْلَمُ لَہٗ سَلَفًا فِي تَضْعِیفِہٖ ۔۔۔
’’اسے(مروان بن محمد دمشقی کو) ابومحمدابن حزم نے ضعیف قرار دیا ہے اور یہ ان کی غلطی ہے،کیونکہ ہمارے علم کے مطابق ابن حزم سے پہلے اسے کسی نے ضعیف نہیں کہا۔۔۔‘‘
(لسان المیزان : 96/10، طبعۃ مجلس دائرۃ المعارف النظامیّۃ، الھند)
لہٰذاامام بخاری وغیرہ جیسے ماہرین فن محدثین کے مقابلے میں ان کی بات کو کوئی وقعت نہیں دی جا سکتی۔ہاں! اگر ابن حزم رحمہ اللہ کسی متقدم محدث کے قول کو دلیل بنا کر کسی راوی کو ’’ثقہ‘‘ یا ’’ضعیف‘‘ قرار دیں تو ان کی دلیل ضرور قابل غور ہو گی۔منہال بن عمرو کو ’’ضعیف‘‘ قرار دینے کے حوالے سے بھی ابن حزم نے ایک دلیل ذکر کی ہے، اس کا جائزہ ہم آئندہ سطور میں لیں گے۔ ان شاء اللہ!
پھر یہ بات بھی مسلَّم ہے کہ جرح و تعدیل اور صحت و سقمِ حدیث کی معرفت ابن حزم رحمہ اللہ کا میدان نہیں تھا۔ایک ناقل ہونے کے ناطے بھی وہ جرح و تعدیل میں طاق نہیں تھے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے صحیح بخاری کی حرمت ِموسیقی والی روایت کو ’’ضعیف‘‘قرار دیا،حالانکہ متقدمین و متاخرین محدثین اس کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
اس سے بڑھ کر یہ کہ انہوںنے امام ترمذی رحمہ اللہ کو بھی ’’مجہول‘‘قرار دے دیا،حالانکہ وہ حدیث کے ایک مشہور و معروف امام ہیں۔متقدمین و متاخرین نے ان کی توصیف کی ہے۔
اس بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ثِقَۃٌ مُّجْمَعٌ عَلَیْہِ، وَلَا الْتِفَاتَ إِلٰی قَوْلِ أَبِي مُحَمَّدِ بْنِ حَزْمٍ فِیہِ، فِي الْفَرَائِضِ، مِنْ کِتَابِ الْإِیصَالِ : إِنَّہٗ مَجْہُولٌ، فَإِنَّہٗ مَا عَرَفَہٗ، وَلَا دَرٰی بِوُجُودِ الْجَامِعِ، وَلَا الْعِلَلِ اللَّذَیْنِ لَہٗ ۔ ’’امام ترمذی رحمہ اللہ کی ثقاہت پر امت کا اتفاق ہے۔ان کے بارے میں ابو محمد ابن حزم کا کتاب الایصال کے باب الفرائض میں یہ قول ناقابل التفات ہے کہ وہ مجہول ہیں۔(حیرت ہے کہ)ابن حزم نہ امام صاحب کو پہچان سکے،نہ ان کی جامع کو اور ان کی عللِ حدیث پر تصنیف کی گئی دو کتب کو۔‘‘
(میزان الاعتدال في نقد الرجال : 678/3، طبعۃ دار المعرفۃ، بیروت)
اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کے کئی راویوں کو ابن حزم نے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔مثلاً :
1 ابراہیم بن طہمان صحیح بخاری و مسلم کی بیسیوں صحیح احادیث کے راوی ہیں۔ ان کے بارے میں کسی معتبر امام کی کوئی جرح ثابت نہیں،لیکن ابن حزم رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔(المحلّٰی بالآثار : 65/10، طبعۃ دار الفکر، بیروت)
اسرائیل بھی صحیح بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔ان پر بھی علامہ ابن حزم نے جرح کی ہے۔
(دیکھیں المحلّٰی بالآثار : 284/1)
حالانکہ ان کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ :
ثِقَۃٌ، تُکُلِّمَ فِیہِ بِلَا حُجَّۃٍ ۔ ’’یہ ثقہ راوی ہے۔ان پر کی گئی جرح بے دلیل ہے۔‘‘
(تقریب التہذیب، ص : 104، ت : 401، طبعۃ دار الرشید، سوریا)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
ثِقَۃٌ إِمَامٌ، ضَعَّفَہٗ ابْنُ حَزْمٍ، وَرَدَّ أَحَادِیثَہٗ، مَع کَوْنِہَا کَثِیرَۃَ الصِّحَاحِ ۔
’’اسرائیل ثقہ امام ہیں۔ابن حزم رحمہ اللہ نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے،حالانکہ صحیح احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ ان کا بیان کردہ ہے۔‘‘
(من تکلّم فیہ وھو موثّق، ص : 44، ت : 32، طبعۃ مکتبۃ المنار، الزرقائ)
اگر ابراہیم بن طہمان اور اسرائیل بن یونس وغیرہ کے بارے میں ابن حزم کا فیصلہ مان لیں تو بخاری و مسلم کا ایک بڑا حصہ ضعیف اور ناقابل حجت ہو جائے گا۔
اس لیے جرح و تعدیل میں ابن حزم رحمہ اللہ کا قول اسی وقت قبول کیا جائے گا،جب وہ جمہور متقدمین محدثین کے قول کے موافق ہو، بصورت ِدیگر اسے ردّ کر دیا جائے گا،جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے منہال کے بارے میں ان کے محدثین کے خلاف قول کو غلط کہہ کر ردّ کر دیا۔
ابن حزم رحمہ اللہ کی دلیل :
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے منہال بن عمرو پر جرح کی دلیل بھی ذکر کی ہے،وہ یہ ہے :
وَالْمِنْہَالُ ضَعِیفٌ، وَرُوِيَ عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ مِقْسَمٍ أَنَّہٗ قَالَ : لَمْ یَثْبُتْ لِلْمِنْہَالِ شَہَادَۃٌ فِي الْإِسْلَامِ ۔ ’’منہال بن عمرو ضعیف ہے، مغیرہ بن مقسم سے منقول ہے کہ اسلام میں منہال کی گواہی ثابت نہیں ہوتی۔‘‘(المحلّٰی بالآثار : 216/9)
مغیرہ بن مقسم کی وفات سے لے کر ابن حزم رحمہ اللہ کی پیدائش تک کوئی اڑھائی صدیوں کا فاصلہ ہے۔ابن حزم رحمہ اللہ نے اس قول کی کوئی سند بیان نہیں کی۔البتہ اس کی سند ابن ابوخیثمہ نے بیان کی ہے۔شاید ابن حزم رحمہ اللہ نے وہیں سے اسے نقل کیا ہو، لیکن انہیں معلوم نہ ہو سکا کہ وہ سند صحیح نہیں۔اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَرَوَی ابْنُ أَبِي خَیْثَمَۃَ بِسَنَدٍ لَّہٗ عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ مِقْسَمٍ ۔۔۔ وَہٰذِہِ الْحِکَایَۃِ لَا تَصِحُّ، لِأَنَّ رَاوِیَہَا مُحَمَّدَ بْنَ عُمَرَ الْحَنَفِيَّ لاَ یُعْرَفَ ۔
’’ابن ابی خیثمہ نے اپنی سند کے ساتھ مغیرہ بن مقسم سے بیان کیا ہے۔۔۔لیکن یہ حکایت ثابت نہیں،کیونکہ اس کا راوی محمد بن عمر حنفی مجہول ہے۔‘‘(فتح الباري : 446/1)
جب ابن حزم رحمہ اللہ کی دلیل ہی ثابت نہ ہوئی تو اس پر کھڑی جرح کی عمارت بھی زمین بوس ہو گئی۔شاید کسی کے ذہن میں یہ بات آ جائے کہ منہال کے گھر سے گانے کی آواز سن کر امام شعبہ رحمہ اللہ نے جو اسے چھوڑ دیا تھا،وہ تو ثابت ہے ،شاید وہ بھی ابن حزم رحمہ اللہ کے سامنے ہو اور اس بنا پر انہوں نے منہال کو ’’ضعیف‘‘ کہا ہو،لیکن یہ بات کسی لطیفے سے کم نہیں،کیونکہ خود ابن حزم رحمہ اللہ گانے کو بھی جائز سمجھتے تھے اور آلات ِموسیقی کی خرید و فروخت کو بھی حلال کہتے تھے۔پھر گھر سے گانے کی آواز آنے پر وہ منہال پر جرح کیسے کر سکتے تھے؟
ابن حزم اور ڈاکٹر عثمانی :
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صرف منہال کی وجہ سے ردّ کیا تھا اور فرمایا تھا : وَلَمْ یَرْوِ أَحَدٌ أَنَّ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ رَدُّ الرُّوحِ إِلَی الْجَسَدِ إلَّا الْمِنْہَالُ بْنُ عَمْرٍو، وَلَیْسَ بِالْقَوِيِّ ۔
’’عذاب ِقبر والی حدیث میں جسم کی طرف روح لوٹنے کا ذکر صرف منہال بن عمرو نے کیا ہے اور وہ قوی نہیں۔‘‘(المحلّٰی بالآثار : 42/1)
مذکورہ قول سے ثابت ہوا کہ ابن حزم کے نزدیک اگر منہال ’’ضعیف‘‘نہ ہوتا یا کوئی ثقہ راوی ایسی حدیث بیان کر دیتا تو وہ اسے قبول کر لیتے۔اس سے ثابت ہوا کہ ڈاکٹر عثمانی نے منہال کے استاذ زاذان پر بھی جرح کی ہے،لیکن ابن حزم اس معاملے میں ڈاکٹر عثمانی کے مخالف ہیں،کیونکہ ان کے نزدیک یہ حدیث صرف منہال کی بنا پر ’’ضعیف‘‘ ہے۔اس کے برعکس ڈاکٹر عثمانی نے سارا الزام زاذان کو دیا ہے،جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں۔
اب ایک تو منہال بن عمرو ثقہ ثابت ہو گیا ہے اور دوسرے منہال کے علاوہ بھی ثقہ راویوں سے بیان کردہ احادیث میں عود ِروح کا ذکر ہے، جیسا کہ ہم بیان کرنے والے ہیں، لہٰذا اہل انصاف کو چاہیے کہ وہ حق و باطل میں سے حق کا امتیاز کریں۔
الحاصل
منہال بن عمرو کے بارے میں بیسیوں محدثین کرام اور اہل فن کی توثیق کے خلاف پورے ذخیرۂ کتب ِرجال سے ڈاکٹر عثمانی کو صرف پانچ جروح ملی تھیں۔ان میں سے دو،یعنی امام یحییٰ بن سعید قطان اور امام یحییٰ بن معین; کی جروح تو سرے سے ثابت ہی نہیں ہو سکیں۔اس کے برعکس امام یحییٰ بن معین کی واضح توثیق ہم نے ذکر کر دی ہے۔باقی تین میں سے ایک یہ تھی کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے ان سے روایت چھوڑ دی تھی۔اس کے بارے میں بتا دیا گیا کہ امام شعبہ رحمہ اللہ کا یہ فیصلہ درست نہیں تھا،امام وہب بن جریر رحمہ اللہ نے جب اس بات پر ان کا مناقشہ کیا تو امام شعبہ رحمہ اللہ لاجواب ہو گئے۔پھر یہ کام انہوں نے اپنی سختی کی وجہ سے کیا،جس کا بہت سے ائمہ دین نے ردّ کیا اور اسے ان کی حد سے زیادہ احتیاط پر مبنی قرار دیا۔پھر ہم نے بتایا کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے صحیح بخاری و مسلم کے کئی اورراویوں سے بھی روایات چھوڑ دی تھیں،جبکہ ان کی بیان کردہ روایات کو ڈاکٹر عثمانی بھی صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن منہال بن عمرو کے بارے میں بیسیوں محدثین کے خلاف ڈاکٹر عثمانی نے امام شعبہ کی اس روش کو اپنی دلیل بنا لیا۔
دوسری جرح علامہ جوزجانی کی تھی۔ہم نے بتایا کہ ایک تو ان کے الفاظ دو طرح سے ہم تک پہنچے ہیں، جن میں سے ایک جرح پر نہیں،بلکہ توثیق پر دلالت کرتے ہیں۔دوسرے ہم نے ائمہ دین کی زبانی واضح کر دیا کہ جوزجانی ناصبی تھے اور جرح و تعدیل میں اہل کوفہ کے بارے میں غیرجانبدار نہیں رہ سکے۔ان کی اہل کوفہ پر جرح ائمہ دین قبول نہیں کرتے، لیکن بیسیوں معتبر ائمہ دین کی مخالفت میں ڈاکٹر عثمانی نے اسے اپنے گلے کا ہار بنایا۔
تیسری جرح حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کی تھی،جس کے بارے میں ہم نے بتا دیا کہ منہال پر جرح کرنے کے بارے میں ابن حزم نے جو دلیل پیش کی تھی،اس کی سند ثابت نہیں،نیز ابن حزم فن رجال میں چنداں ماہر نہیں تھے۔متقدمین محدثین کی مخالفت میں ابن حزم کی جرح قابل التفات ہی نہیں۔ابن حزم نے تو صحیح بخاری و مسلم کے کئی راویوں کو بھی ’’ضعیف‘‘ قرار دیاہے،حالانکہ ان کی بیان کردہ روایات کو ڈاکٹر عثمانی بھی صحیح سمجھتے ہیں، لیکن یہاں اپنی مطلب برآری کے لیے ڈاکٹر عثمانی نے ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘کے مصداق بنتے ہوئے ابن حزم کے قول کو بلاتامل قبول کر لیا۔
اب اہل انصاف خود ہی فیصلہ کر لیں کہ بیسیوں محدثین کرام کی توثیق کی بنا پر منہال بن عمرو کی حدیث کو قبول کریں گے یا ڈاکٹر عثمانی کی ان پانچ جروح کو مدنظر رکھ کر اس کی حدیث کو ردّ کریں گے، جن میں سے دو سرے سے ثابت ہی نہیں اور باقی تین محدثین کی نظر میں منہال کی حدیث کو کوئی نقصان نہیں دیتیں!
اب آتے ہیں عود ِروح والی حدیث پر ڈاکٹر عثمانی کے دوسرے اعتراض کی طرف۔ انہوں نے اس حدیث میں منہال بن عمرو کے استاذ زاذان پر بھی جرح نقل کی ہے،بلکہ انہوں نے اس روایت کی ساری ذمہ داری ہی زاذان پر ڈالی تھی،جیسا کہ ہم نے ذکر کیا تھا، پھر نہ جانے منہال پر ناحق کیوں برس پڑے؟
محدثین ومحققین کی طرف سے زاذان ابوعمر کی توثیق
قارئین کرام پہلے بھی ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ اپنے خود ساختہ عقیدے کے خلاف کسی بھی حدیث کو ردّ کرنے کے لیے ڈاکٹر عثمانی کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔کتب ِجرح و تعدیل میں سے ثقہ راویوں کے بارے میں محدثین کے اقوال کو وہ اپنی ’’دیانت‘‘ کی چھلنی میں ڈالتے ہیں جس میں سے بیسیوں واضح توثیقی اقوال گزر ہی نہیں پاتے، صرف چند ایک مبہم اور غیرمؤثر جروح ان کی کتاب کے اوراق تک پہنچ پاتی ہیں اور ان کے جاہل مقلدین ان کے اسی دیانتی کارنامے کو تحقیقِ انیق شمار کرتے ہوئے عَش عَش کر اٹھتیہیں۔
زاذان کے بارے میں بھی ڈاکٹر عثمانی نے یہی روش اپنائی ہے۔ہم ذکر کر چکے ہیں کہ درجنوں محدثین و محققین نے عودِ روح والی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور اس سے عقیدے کے مسائل اخذ کرتے ہوئے عذاب و ثوابِ قبر کے معاملے میں اسے اساسی حیثیت دی ہے۔ان میں سے تیرہ کا ذکر ہم باحوالہ کر چکے ہیں۔یہ سب کہتے ہیں کہ زاذان ابوعمرثقہ راوی ہے۔ اب مزید کچھ اہل علم کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :
1 امام،ابو عبداللہ،محمد بن سعد بن منیع،بغدادی رحمہ اللہ (230-168ھ)فرماتے ہیں:
وَکَانَ ثِقَۃً، قَلِیلَ الْحَدِیثِ ۔ ’’یہ ثقہ راوی تھا۔اس نے تھوڑی حدیثیں بیان کی ہیں۔‘‘(الطبقات الکبرٰی : 217/6، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت)
2 امام جرح و تعدیل،ابو زکریا،یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (233-158ھ)فرماتے ہیں:
ثِقَۃٌ، ۔۔۔، لَا یُسْأَلُ عَنْ مِّثْلِ ھٰؤُلَائِ ۔
’’یہ ثقہ راوی ہیں،ان جیسے راویوں کے بارے میں تو پوچھا ہی نہیں جانا چاہیے۔‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 290/18، طبعۃ دار الفکر، بیروت، وسندہٗ صحیحٌ)
3 مشہور محدث،امام،ابوالحسن،مسلم بن حجاج،نیشاپوری رحمہ اللہ (261-204ھ) نے زاذان سے روایت(صحیح مسلم : 1657وغیرہ) لے کر اس کی توثیق کی ہے۔
4 مؤرّخِ رجال،امام،ابو الحسن،احمد بن عبد اللہ بن صالح،عجلی رحمہ اللہ (261-181ھ) نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔(الثقات، ص : 63، ت : 450، طبعۃ دار الباز)
5 امام،ابوعیسیٰ،محمدبن عیسیٰ،ترمذی رحمہ اللہ (279-209ھ)نے زاذان کی بیان کردہ ایک حدیث کے بارے میں لکھا ہے : ہٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ ۔
’’یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘(سنن الترمذي، تحت الحدیث : 1868)
6 امام الائمہ،ابوبکر،محمد بن اسحاق،ابن خزیمہ رحمہ اللہ (311-223ھ)نے اپنی صحیح میں روایت(2791)لے کر اس کی توثیق کی ہے۔
7 امام،ابو عوانہ،یعقوب بن اسحاق،اسفرائینی رحمہ اللہ (م : 316ھ)نے اپنی صحیح (مستخرج علی صحیح مسلم)میں اس کی روایت(6050وغیرہ)ذکر کی ہے، جو کہ توثیق ضمنی ہے۔
8 امام،ابو حاتم،محمد بن حبان،بستی رحمہ اللہ (م : 354ھ)نے بھی اپنی صحیح میں اس کی روایت (914)ذکر کی ہے،جو کہ ان کی طرف سے زاذان کی توثیق ہے۔
9 امام،ابو احمد،عبد اللہ بن عدی،جرجانی رحمہ اللہ (365-277ھ)فرماتے ہیں:
وَأَحَادِیثَہٗ لَا بَأْسَ بِہَا إِذَا رَوٰی عَنْہُ ثِقَۃٌ ۔
’’جب اس سے بیان کرنے والا راوی ثقہ ہو تو اس کی حدیث میں کوئی خرابی نہیں ہوتی۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 210/4، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ)
0 امام، ابوبکر،احمد بن علی،خطیب بغدادی رحمہ اللہ (463-392ھ)فرماتے ہیں:
وَکَانَ ثِقَۃً ۔ ’’زاذان ثقہ راوی تھا۔‘‘(تاریخ بغداد : 515/9، طبعۃ دار الغرب)
! حافظ،ابوعبد اللہ، محمد بن عبد الواحد، ضیاء الدین،مقدسی رحمہ اللہ (643-569ھ) نے اس کی حدیث کی تصحیح کی ہے۔(الأحادیث المختارۃ : 451، طبعۃ دار خضر، بیروت)
@ علامہ،ابو محمد،عبد العظیم بن عبد القوی،منذری رحمہ اللہ (م : 656ھ)فرماتے ہیں:
وَزَاذَانُ ثِقَۃٌ مَّشْہُورٌ ۔ ’’زاذان مشہور ثقہ راوی ہے۔‘‘
(الترغیب والترھیب من الحدیث الشریف : 198/4، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ)
# شیخ الاسلام،ابو العباس،احمد بن عبد الحلیم،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م:728ھ) فرماتے ہیں : وَحَدِیثُ زَاذَانَ مِمَّا اتَّفَقَ السَّلَفُ وَالْخَلَفُ عَلٰی رِوَایَتِہٖ، وَتَلَقِّیہِ بِالْقُبُولِ ۔ ’’زاذان کی حدیث کو بیان کرنے اور قبول کرنے پر سلف و خلف کا اتفاق ہے۔‘‘(شرح حدیث النزول، ص : 89، طبعۃ المکتب الإسلامي، بیروت)
$ حافظ،ابو عبداللہ،محمد بن احمد،ابن عبد الہادی رحمہ اللہ (744-705ھ)نے زاذان کی بیان کردہ حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے۔(الصارم المنکي، ص : 202، طبعۃ مؤسّسۃ الریّان)
% حافظ،ابو عبداللہ،محمد بن احمد بن عثمان،ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ)فرماتے ہیں:
وَکَانَ ثِقَۃً، صَادِقًا ۔ ’’یہ ثقہ اور سچا شخص تھا۔‘‘
(سیر أعلام النبلاء : 280/4، طبعۃ مؤسّسۃ الرسالۃ، بیروت)
^ حافظ،ابوالحسن،علی ابن ابوبکر،ہیثمی(807-735ھ)نے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے۔(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 116/9، طبعۃ مکتبۃ القدسي، القاہرۃ)
درجنوں ائمہ نے زاذان کی حدیث کو صحیح کہہ کر اس کی توثیق کی تھی،اس پر مستزاد ائمہ دین کی زاذان کی صریح توثیق پر مبنی یہ درجنوں شہادتیں ہیں۔آئیے اب ڈاکٹر عثمانی کی طرف سے نقل کی گئی جروح کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں :
زاذان پر جرح کی حقیقت
ڈاکٹر عثمانی نے کئی درجن محدثین و محققین کی توثیق کے خلاف زاذان پر جو جروح نقل کی ہیں،ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے :
1 حکم سے پوچھا گیا کہ آپ زاذان سے روایت کیوں نہیں لیتے؟انہوں نے کہا کہ وہ باتیں بہت کرتا تھا،اس لیے۔
2 ابن حبان نے کہا کہ وہ بہت غلطیاں کرتا تھا۔
3 ابو احمدحاکم کہتے ہیں کہ وہ اہل علم کے نزدیک مضبوط نہیں۔
4 سلمہ بن کہیل نے کہا کہ ابو البختری کو میں اس سے اچھا سمجھتا ہوں۔
5 ابن حجر نے کہا ہے کہ زاذان میں شیعیت ہے۔
یہ تھا امام مسلم،امام یحییٰ بن معین ،امام ترمذی اور امام ابن خزیمہ وغیرہ سمیت درجنوں محدثین کے مقابلے میں زاذان کے خلاف ڈاکٹر عثمانی کا سارا سرمایہ۔اصولِ حدیث کی رُو سے درجنوں محدثین کے مقابلے میں یہ جروح اگر مؤثر بھی ہوں تو ناقابل التفات ہیں۔چہ جائیکہ محدثین کے ہاں ان کی کوئی وقعت نہیں۔ملاحظہ فرمائیں :
1 زاذان اور امام حکم بن عُتَیْبَہ
ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے الحکم سے کہا کہ آپ زاذان سے کیوں روایت نہیں لیتے؟انہوں نے کہا کہ وہ باتیں بہت زیادہ کرتا ہے، اس لیے۔‘‘
(’’ایمانِ خالص‘‘،دوسری قسط،ص : 18)
باتیں زیادہ کرنا یا امام حَکَم کا ان سے روایات نہ لینا کوئی جرح نہیں۔یہی وجہ ہے کہ محدثین و محققین نے حَکَم کی اس بات کو نقل بھی کیا ہے،لیکن اسے پھر بھی ثقہ ہی قرار دیا ہے۔ کسی نے بھی اسے زاذان پر کوئی جرح خیال نہیں کیا۔پھر بعض ائمہ کی تصریح اس پر مستزاد ہے:
حدیث اور رجالِ حدیث کے امام ،ابواحمد،ابن عدی رحمہ اللہ (365-277ھ)فرماتے ہیں:
وَأَحَادِیثُہٗ لَا بَأْسَ بِہَا إِذَا رَوٰی عَنْہُ ثِقَۃٌ، ۔۔۔، وَإِنَّمَا رَمَاہُ مَنْ رَّمَاہُ بِکَثْرَۃِ کَلَامِہٖ ۔ ’’جب اس سے بیان کرنے والا راوی ثقہ ہو تو اس کی احادیث میں کوئی خرابی نہیں ہوتی۔اسے جس نے الزام دیا ہے،صرف زیادہ باتیں کرنے کا دیا ہے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 210/4، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت)
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے بات بالکل صاف کر دی ہے کہ زاذان پر صرف باتیں زیادہ کرنے کے حوالے سے اعتراض کیا گیا ہے،لیکن اس اعتراض سے اس کی ثقاہت پر کوئی اثر نہیں پڑتا،بلکہ اس کے باوجود وہ ثقہ ہے اور اس کی احادیث صحیح ہیں۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے(میزان الاعتدال : 63/2)زاذان کے بارے میں [صح]لکھ کر یہ بتا دیا کہ اس سے زاذان کی ثقاہت متاثر نہیں ہوتی۔
پھر ڈاکٹر عثمانی کے پیروکاروں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے زاذان کو شیعہ کہہ کر اس کی حدیث کو ردّ کیا ہے، حالانکہ یہ بات ثابت بھی نہیں،اس کی حقیقت تو ہم ترتیب کے مطابق آئندہ صفحات میں بیان کریں گے،البتہ یہاں پر ان سے اتنا ضرور پوچھیں گے کہ اگر شیعہ ہونا جرح ہے اور شیعہ کی بیان کردہ حدیث معتبر نہیں تو کیا کسی شیعہ کی سنی راویوں پر جرح و تعدیل معتبر ہوتی ہے؟اگر ہاں تو کیوں؟اور اگر نہیں تو جان لیں کہ زاذان کی روایات کو چھوڑنے والے امام حکم بن عُتَیْبَہ شیعہ تھے۔زاذان کا شیعہ ہونا تو ثابت نہیں ہوا ،البتہ امام حَکَم کا شیعہ ہونا ثابت ہے،جیسا کہ امام،ابو الحسن،احمد بن عبد اللہ،عجلی رحمہ اللہ (م:261ھ) فرماتے ہیں:
وَکَانَ فِیہِ تَشَیُّعٌ، إِلَّا أَنَّ ذٰلِکَ لَمْ یَظْہَرْ مِنْہُ إِلَّا بَعْدَ مَوْتِہٖ ۔
’’ان میں شیعیت تھی،البتہ اس کا علم ان کی وفات کے بعد ہی ہو سکا۔‘‘
(تاریخ الثقات، ص : 125، ت : 315، طبعۃ دار الباز)
ذرا سوچیں کہ بھلا کوئی شیعہ اپنے مذہب کا پرچار کرنے والے کسی شیعہ پر کیوں جرح کرے گا؟اور فیصلہ کریں کہ ڈاکٹر عثمانی نے کتنے فیصد انصاف سے کام لیا ہے؟
معلوم ہوا کہ اہل انصاف کے ہاں امام حَکَم بن عُتَیْبَہ شیعہ کا زاذان کو چھوڑنا کوئی جرح نہیں،نہ ہی اس سے زاذان کی حدیث پر کوئی زَد پڑتی ہے۔
2 ابن حبان اور زاذان
ڈاکٹر عثمانی کے الفاظ ہیں: [ابن حبان نے کہا کہ کَانَ یُخْطِیئُ کَثِیرًا ’’وہ بہت غلطیاں کرتا تھا۔‘‘](’’ایمانِ خالص‘‘،دوسری قسط،ص : 18)
پہلی بات تو یہ ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ ،زاذان کے بارے میں متذبذب تھے۔بھلا جو شخص بہت غلطیاں کرے،وہ ثقہ ہوتا ہے؟اسے ثقات میں ذکر کرنے کا کیا جواز؟ پھر خود ابن حبان رحمہ اللہ نے ’’ضعیف‘‘ راویوں کے بارے میں بھی ایک کتاب [المجروحین]لکھی ہے۔اگر زاذان ان کے نزدیک ’’ضعیف‘‘تھا تو انہوں نے اس کتاب میں ذکر کرنے کی بجائے اس کا شمار ثقہ راویوں میں کیوں کیا؟اس پر مستزاد یہ کہ خود ابن حبان رحمہ اللہ نے زاذان کی حدیث(صحیح ابن حبان : 914)کو صحیح قرار دیا ہے۔کیا بہت غلطیاں کرنے والے کی حدیث صحیح ہوتی ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ محققین کے ہاں امام مسلم،امام یحییٰ بن معین،امام ترمذیS کے مقابلے میں ابن حبان رحمہ اللہ کی جرح و تعدیل کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔جب ابن حبان ان درجنوں کبار ائمہ کی مخالفت کریں تو ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
تیسری بات یہ کہ اگر امام ابن حبان رحمہ اللہ کبار ائمہ دین کی موافقت میں منہال بن عمرو کی حدیث کو صحیح قرار دیں تو ڈاکٹر عثمانی اس کا ذکر تک نہ کریں اور جب وہ ان سب کی مخالفت میں زاذان پر جرح کریں تو ڈاکٹر عثمانی جھٹ سے اسے قبول کر لیں،حالانکہ وہ خود اسے ثقہ بھی قرار دے چکے ہوں اور اس کی حدیث کو صحیح بھی کہہ چکے ہوں، کیا اسے انصاف کہتے ہیں؟
معلوم ہوا کہ ابن حبان رحمہ اللہ کا زاذان پرجرح کرنا درجنوں کبار ائمہ کی توثیق اور خود اپنے فیصلے کے بھی خلاف ہے،لہٰذا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
3 ابو احمد الحاکم اور زاذان
ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’ابو احمد الحاکم کہتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک وہ مضبوط نہیں ہے۔‘‘(’’ایمانِ خالص‘‘،دوسری قسط،ص : 18)
یہ بات ابواحمد الحاکم کی علمی لغزش ہے۔وہ اہل علم کون ہیں جنہوں نے زاذان کو کمزور کہا ہو؟ڈاکٹر عثمانی کو شاید معلوم نہیں تھا کہ کئی درجن محدثین تو زاذان کو ثقہ قرار دیتے ہیں۔ان کی تفصیل ہم نے سپرد ِقارئین کر دی ہے۔انصاف سے بتائیں کہ کیا امام ابن سعد،امام مسلم، امام یحییٰ بن معین،امام ترمذی،امام ابن عدی،امام عجلی،امام ابن خزیمہ،امام ابوعوانہ،امام خطیب بغدادی،امام ابن مندہ،امام ابونعیم اصبہانی،امام ابو عبد اللہ حاکم، امام بیہقی،حافظ مقدسی،حافظ منذری،حافظ ابن عبدالہادی، علامہ ابن تیمیہ،حافظ ابن قیم،علامہ سیوطی،علامہ ذہبی،حافظ ہیثمی وغیرہ اہل علم نہیں ہیں؟اگر یہ اہل علم نہیں تو بتائیں کہ کون ہیں اہل علم؟یہ سارے تو کہتے ہیں کہ زاذان ثقہ راوی ہے۔
اب ڈاکٹر عثمانی کے پیروکار ہی کوئی نیا انکشاف کریں،جس سے ثابت ہو جائے کہ اہل علم زاذان کو کمزور سمجھتے تھے۔زاذان کو کمزور کہنے کے سلسلے میں ڈاکٹر عثمانی کی کل کائنات ہم نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے،اس میں سے تین جروح پر تبصرہ ہو چکا ہے، باقی دو جروح کا حال بھی ابھی آپ کے سامنے ہو گا۔ان میں سے سوائے ابن حبان کے کسی کی بات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کے نزدیک زاذان کمزور ہو ۔رہی ابن حبان کی بات ،تو وہ ان کے اپنے قول و فعل سے متصادم ہے۔کیا اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اہل علم زاذان کو کمزور قرار دیتے ہیں؟فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
4 سلمہ بن کُہَیل اور زاذان
ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’سلمہ بن کہیل نے کہا کہ ابو البختری کو میں اس سے اچھا سمجھتا ہوں۔‘‘(’’ایمانِ خالص‘‘،دوسری قسط،ص : 18)
کسی محدث کی طرف سے ایک راوی کا دوسرے راوی سے تقابل، توثیق نسبی یا تضعیف نسبی کہلاتا ہے۔اس تقابل کو توثیق یا تضعیف کی تناظر میں سمجھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس سے کسی کا تقابل کیا جا رہا ہے،اس کا مقام محدثین کے نزدیک کیا ہے؟ اسی بات کو لیجیے کہ سلمہ بن کہیل نے زاذان کا تقابل ابوالبختری سے کرتے ہوئے ابوالبختری کو زاذان سے بہتر خیال کیا ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ ابو البختری کا کیا مقام ہے۔اصولی بات ہے کہ اگر ابو البختری ثقہ ہے تو زاذان اس سے کچھ کم ثقہ ہو گا ،کیونکہ ابو البختری زاذان سے اچھا ہے اور اگر ابو البختری ’’کمزور‘‘ہے تو زاذان اس سے زیادہ ’’کمزور‘‘ ہو گا،کیونکہ ابوالبختری بہرحال اس سے اچھا ہے۔
ابو البختری سعید بن فیروز صحیح بخاری و مسلم کا راوی ہے۔اسے امام بخاری ومسلم کے علاوہ امام یحییٰ بن معین،امام ابوحاتم،امام ابوزعہ،امام ابن حبان،امام عجلی،وغیرہ نے ثقہ قرار دیا ہے۔اب اگر ابو البختری کو زاذان سے بہتر قرار دیا جائے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ زاذان کا مقام و مرتبہ ابوالبختری سے کچھ کم ہے۔اس تقابل سے یہ کشید کرنا کہ سلمہ بن کہیل کے نزدیک زاذان ’’ضعیف‘‘راوی ہے،نِری جہالت اور بے وقوفی ہے۔دو ثقہ راویوں کے تقابل سے کیا ایک ’’ضعیف‘‘یا کمزور ہو جاتا ہے؟
قارئین کرام یہاں یہ بات بھی یاد رکھیں کہ سلمہ بن کہیل،جن کی بات نقل کر کے ڈاکٹر عثمانی صاحب زاذان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں،وہ شیعہ تھے۔(الثقات للعجلي، ص : 198)
ڈاکٹر عثمانی نے زاذان کو شیعہ ہونے کا الزام دے کر عود ِروح والی حدیث کو ردّ کیا ہے۔ ہمارا سوال ہے کہ اگر شیعہ راوی کی بیان کردہ حدیث ’’ضعیف‘‘ ہے تو اس کی کسی راوی پر جرح کیسے قبول ہے؟یہ علمی حیثیت عودِ روح والی حدیث پر اعتراض کرنے والوں کی!
معلوم ہوا کہ سلمہ بن کہیل کے اس قول سے زاذان کی ثقاہت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
5 زاذان پر شیعیت کا الزام
ڈاکٹر عثمانی نے لکھا ہے : ’’زاذان میں شیعیت ہے۔‘‘(’’ایمانِ خالص‘‘،دوسری قسط،ص : 18)
ڈاکٹر عثمانی کی جہالت اور ان کا تعصب دیکھیں کہ انہوں نے غور و خوض کی زحمت نہیں کی اور زاذان کو فقہ جعفریہ کا پرچارک قرار دے دیا۔دنیا میں سب سے پہلے ابن حجر رحمہ اللہ نے زاذان میں شیعیت کا دعویٰ کیا۔ان سے پہلے کسی معتبر محدث نے یہ بات نہیں کہی۔ابن حجر رحمہ اللہ کی بات اگر درست ہے تو ان کی مُراد وہ اصطلاحی شیعہ نہیں تھا،جو دین محمدی کو چھوڑ کر فقہ جعفریہ کا پیروکار ہو۔
البتہ ابوبشر دولابی(310-224ھ)نے لکھا ہے : وَکَانَ مِنْ شِیعَۃِ عَلِيٍّ ۔
’’وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں شامل تھا۔‘‘(الکنٰی والأسماء : 773/2، طبعۃ دار ابن حزم)
شاید اس سے کوئی جاہل یہ سمجھ بیٹھے کہ زاذان شیعہ تھا۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں شامل ہونا گمراہ اور دشمن صحابہ شیعہ ہونے کا ثبوت نہیں۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ میں بہت سے صحابہ کرام بھی شامل تھے۔کیا ان کو بھی شیعہ کہا جائے گا؟
دراصل متقدمین محدثین اور متاخرین کی اصطلاحِ شیعہ میں بھی فرق ہے۔اس فرق کو بیان کرتے ہوئے خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہی لکھتے ہیں:
اَلتَّشَیُّعُ فِي عُرْفِ الْمُتَقَدِّمِینَ، ھُوَ اعْتِقَادُ تَفْضِیلِ عَلِيٍّ عَلٰی عُثْمَانَ، وَأَنَّ عَلِیًّا کَانَ مُصِیبًا فِي حُرُوبِہٖ، وَأَنَّ مُخَالِفَہٗ مُخْطِیٌٔ، مَعَ تَقْدِیمِ الشَّیْخَیْنِ وَتَفْضِیلِھِمَا، وَرُبَّمَا اعْتَقَدَ بَعْضُھُمْ أَنَّ عَلِیًّا أَفْضَلَ الْخَلْقِ بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَإِذَا کَانَ مُعْتَقِدُ ذٰلِکَ وَرِعًا، دَیِّنًا، صَادِقًا، مُجْتَھِدًا، فَلا تُرَدُّ رِوَایَتُہٗ بِھٰذَا ۔
’’متقدمین کی اصطلاح میں شیعیت سے مراد سیدنا ابوبکروعمر رضی اللہ عنہماکی فضیلت کا قائل ہونے کے ساتھ ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دینا اور یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ لڑائیوںمیں حق پر تھے اور آپ کے مخالفین غلطی پر تھے ۔ ان (متقد مین کی اصطلاح میں شیعہ لوگوں )میں سے کوئی(تمام صحابہ کرام ] کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ)بسا اوقات یہ عقیدہ بھی رکھ لیتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ،رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ہیں۔جب اس اعتقاد والا آدمی پرہیز گار،دین دار،سچا اور مجتہد ہو تو اس کی روایت کو ردّ نہیں کیا جائے گا ۔‘‘(تھذیب التھذیب : 81/1، طبعۃ دائرۃ المعارف النظامیّۃ، الہند)
یعنی اگر زاذان شیعہ ہیں بھی تو اس سے مراد فقہ جعفریہ کے ماننے والے شیعہ نہیں۔
ڈاکٹر عثمانی اور ان کے حواریوں نے زاذان کی کنیت پر بھی غور نہیں کیا۔زاذان کی کنیت ’’ابوعمر‘‘ تھی۔کیا دشمنانِ صحابہ شیعہ اپنی کنیت ابوعمر رکھ سکتے ہیں؟
دوسری بات یہ کہ وہ کیسا شیعہ ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکا شاگرد بن کر ان سے روایات بیان کرے اور انہیں [ رضی اللہ عنہا]کی دُعا دے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے باسند صحیح زاذان سے ایک روایت بیان کی ہے، اس کی سند ملاحظہ فرمائیں :
۔۔۔ عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہَا ۔۔۔ ۔
’’زاذان بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔‘‘
(الأدب المفرد، ص : 217، ح : 619، طبعۃ دار البشائر الإسلامیۃ، بیروت)
تیسری بات یہ کہ وہ کیسا شیعہ ہے جو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے امیرالمومنین ہونے کا اقراری ہو اور انہیں [ رضی اللہ عنہ ]کہتا ہو؟زاذان کی بیان کردہ ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں :
۔۔۔ عَنْ زَاذَانَ، قَالَ : کُنَّا عِنْدَ عَلِيٍّ، فَتَذَاکَرْنَا الْخِیَارَ، فَقَالَ : أَمَّا أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَدْ سَأَلَنِي عَنْہُ ۔۔۔ ۔
’’زاذان کہتے ہیں کہ ہم سیدنا علی کے پاس تھے۔ہم نے (طلاق میں)خیار کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا : امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں میری رائے پوچھی تھی۔۔۔‘‘
(شرح معاني الآثار للطحاوي الحنفي : 309/3، طبعۃ عالم الکتب، وسندہٗ حسنٌ)
دیکھیں کہ زاذان نے سیدنا علی کے بارے میں[امیرالمومنین]یا[ رضی اللہ عنہ ]کا لفظ نہیں بولا،جبکہ سیدنا عمر کو [امیرالمومنین]بھی کہا ہے اور[ رضی اللہ عنہ ]بھی۔کیا شیعہ ایسے ہوتے ہیں؟
زاذان اور فقہ جعفریہ کی روایت۔ایک لطیفہ :
یہاں پر ڈاکٹر عثمانی کی ذہنی حالت کے بارے میں ایک لطیفہ سنتے چلیے۔انہوں نے لکھا ہے : ’’دراصل قبر میں مردے کے جسم میں روح کے لوٹائے جانے کی روایت شریعت ِجعفریہ کی روایت ہے جو اس روایت کے راوی زاذان(شیعہ)نے وہاں سے لے کر براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے منسوب کر دی ہے۔‘‘(’’ایمانِ خالص‘‘،دوسری قسط،ص : 18)
اب ڈاکٹر عثمانی کے حواری ذرا دل تھام لیں کہ ان کی عقیدت کا بُت ٹوٹ کر گرنے والا ہے،ان شاء اللہ!۔ان سے گزارش ہے کہ اللہ کے لیے اس حقیقت کو ملاحظہ فرما کر ڈاکٹر عثمانی کے دجل و فریب سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔یہ حقیقت دیکھ کر بھی اگر انہوں نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو اللہ کے سامنے ان کا کوئی عذر کام نہ دے گا۔
فقہ جعفریہ امام ابوعبداللہ،جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابو طالب،صادق سے منسوب ہے۔وہ ائمہ رجال کے مطابق80ہجری میں پیدا ہوئے،جبکہ فقہ جعفریہ کے مدوّن کُلَیْنی(جس کی کتاب کا حوالہ ڈاکٹر عثمانی نے دیا ہے)کے مطابق83ہجری کو ان کی ولادت ہوئی اور 148میں فوت ہو گئے۔جبکہ زاذان کی وفات 82 ہجری میں ہوئی۔یعنی جب زاذان فوت ہوئے تو امام جعفر صادق یا تو پیدا ہی نہیں ہوئے تھے یا ان کی عمر صرف 2سال تھی اور جب تک جعفر صادق رحمہ اللہ جوان ہوئے اور فقہی خدمات انجام دینے کے قابل ہوئے، اس وقت تک زاذان کو فوت ہوئے بیسیوں سال گزر چکے تھے۔
اب ڈاکٹر عثمانی کا کوئی معتقد ہی بتائے کہ فقہ جعفریہ کی داغ بیل پڑنے سے بیسیوں سال پہلے فوت ہو جانے والا زاذان بیچارہ کئی عشرے بعد میں پیدا ہونے والوں کی فرمودہ باتیں کس طرح بیان کر سکتا تھا؟
پھر فقہ جعفریہ امام جعفر صادق کے فوت ہونے کے کئی صدیوں بعد ترتیب دی گئی۔کُلَیْنی جس کی کتاب سے ایک شیعہ روایت ڈاکٹر عثمانی نے پیش کی ہے،وہ امام جعفر صادق کی وفات سے بھی کوئی ایک صدی بعد پیدا ہوا۔اس نے امام جعفر صادق سے یہ روایت بیان کی۔کوئی پاگل اور بے وقوف شخص ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ زاذان نے اپنی وفات کے کئی سو سال بعد معرضِ وجود میں آنے والی شیعی روایات اپنی زندگی میں بیان کر دی تھیں۔
یہ ہے عقلی حالت ڈاکٹر عثمانی کی!اب تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ اہل سنت والجماعت کے متفقہ عقیدے کو چھوڑ کر ایسے بددماغ شخص کی بات ماننا بدبختی کی انتہا ہے۔ جو شخص اہل سنت کے ائمہ کی گستاخی کرتے ہوئے انہیں مشرک و کافر قرار دینا شروع کر دے، اللہ تعالیٰ اس کی دماغی حالت ایسی ہی بنا دیتا ہے۔
الحاصل
زاذان محدثین کرام کے نزدیک ثقہ راوی ہے اور اس کی روایت محدثین کے اصولوں اور ان کی تصریحات کی روشنی میں بالکل صحیح ہے۔اس پر تمام اعتراضات باطل ہیں۔
ڈاکٹر عثمانی کا خود شیعہ اور بدمذہب راویوں کی روایات پر اعتماد
ہم ڈاکٹر عثمانی کی ’’دیانت و امانت‘‘کی کچھ جھلک قارئین کی خدمت میں پیش کر چکے ہیں۔وہ زاذان کو شیعہ کہہ کر اس کی بیان کردہ حدیث ردّ کرنے کے حوالے سے ایک اور ’’دیانت‘‘ ملاحظہ فرما لیں۔ڈاکٹر عثمانی کے رسالے’’تعویذات اور شرک(ص : 3)‘‘ میں پیش کی گئی سب سے پہلی حدیث کی سند پر نظر فرمائیں،جس میں تعویذات کی ممانعت وارد ہے۔ یہ سنن ابوداؤد کی حدیث ہے۔ اس کی سند یہ ہے :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَائِ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ، حَدَّثَنَا الْـأَعْمَشُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْجَزَّارِ، عَنِ ابْنِ أَخِي زَیْنَبَ امْرَأَۃِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ زَیْنَبَ امْرَأَۃِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ۔۔۔۔ ۔
اس سند کے دو راوی شیعہ اور دو راوی مرجی(ایک گمراہ فرقے سے تعلق رکھنے والے)ہیں۔
1 اس سند میں یحییٰ بن جزار نامی راوی تو نظر آ رہا ہو گا۔یہ شیعہ تھا،ایک نہیں، کئی ایک محدثین نے اسے شیعہ،بلکہ غالی شیعہ قرار دیا،لیکن ڈاکٹر عثمانی کی خائن قلم نے اس کا بالکل تذکرہ نہ کیا۔آئیے ہم بتاتے ہیں کہ اہل علم کی اس بارے میں کیا رائے تھی۔
امام شعبہ رحمہ اللہ کے استاذ امام حکم بن عُتَیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کَانَ یَحْیَی بْنُ الْجَزَّارِ یَغْلُو فِي التَّشَیُّعِ ۔
’’یحییٰ بن جزار کٹّر قسم کا شیعہ تھا۔‘‘
(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 396/4، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، وسندہٗ صحیحٌ)
معروف مؤرّخ،امام ابوالحسن،احمد بن عبداللہ بن صالح،عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَکَانَ یَتَشَیَّعُ ۔ ’’یہ شیعہ تھا۔‘‘(الثقات للعجلي : 1796، طبعۃ دار الباز)
اس کے بارے میں اسی ابواسحاق جوزجانی کا قول بھی ملاحظہ فرما لیں، ڈاکٹر عثمانی کے مطابق جس نے منہال بن عمرو کو ’’بدمذہب‘‘ قرار دیا تھا۔ڈاکٹر عثمانی کے معتقدین ذرا دل تھام کے دیکھیں کہ یحییٰ بن جزار کے بارے میں اسی جوزجانی کی کیا رائے ہے۔وہ لکھتے ہیں :
وَکَانَ یَحْیَی بْنُ الْجَزَّارِ غَالِیًا مُّفْرِطًا ۔
’’یحییٰ بن جزار غالی قسم کا شیعہ تھا اور گمراہی میں حد سے بڑھا ہوا تھا۔‘‘
(أحوال الرجال : 1796، طبعۃ حدیث اکادمي)
2 اسی سند کے دوسرے راوی سلیمان بن مہران اعمش کو بھی شیعہ کہا گیا ہے، ملاحظہ فرمائیں :
جوزجانی جو منہال بن عمرو کو بدمذہب قرار دیتے تھے،اس کے بارے میں بھی مَذْمُومُ الْمَذْہَبِ ’’بدمذہب‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔(أحوال الرجال : 105)
امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَکَانَ فِیہِ تَشَیُّعٌ ۔
’’اس میں شیعہ پن موجود تھا۔‘‘(الثقات للعجلي : 619، طبعۃ دار الباز)
واہ ! بہت خوب ۔عود ِروح والی حدیث کے ایک راوی کو جوزجانی نے بدمذہب کہا تو ڈاکٹر عثمانی نے اسے خوب اچھالا،لیکن ان کی اپنی بیان کردہ حدیث کے دو راویوں کو اسی جوزجانی نے بدمذہب کہا،پھر بھی انہوں نے اسے اپنی پہلی اور بنیادی دلیل کے طور پر ذکر فرمایا۔ اسے کہتے ہیں بندر بانٹ اور اسے ہی کہتے ہیں ’’میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تُھو تُھو۔‘‘
3 اسی سند کا عمرو بن مرہ نامی راوی مرجی تھا۔بتائیں مرجی کون ہوتا ہے؟
بقیہ بن ولید اور امام شعبہ(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : 148/1، وسندہٗ حسن) امام احمد(العلل : 1814)، امام یعقوب بن سفیان فسوی(المعرفۃ والتاریخ : 85/3)اورامام ابن حبان(الثقات : 183/5)وغیرہمS نے عمرو بن مُرہ کو مُرجی قرار دیا ہے۔
4 اسی سند کا راوی ابو معاویہ محمد بن خازم ضریر بھی مرجی تھا۔امام یعقوب بن شیبہ(تاریخ بغداد : 134/3، وسندہٗ حسن)، امام ابن سعد(الطبقات الکبریٰ : 364/6)، امام عجلی(الثقات : 1450)اورامام ابن حبان(الثقات : 442/7)وغیرہمSنے اس کے مُرجی ہونے کی صراحت کی ہے۔
ائمہ دین اور محدثین کے ہاں اس حدیث کے دو راویوں کے شیعہ،غالی شیعہ اور دو کے مرجی اور سخت گمراہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر عثمانی نے اس حدیث کو اپنی سب سے مرکزی دلیل کے طورپر نقل کیا ہے۔تصور کریں کہ یہی حدیث اگر ڈاکٹر عثمانی کے مزاج کے خلاف ہوتی اور ان کا کوئی مخالف اسے پیش کر دیتا تو ڈاکٹر عثمانی کا رویہ کیا ہوتا؟کیا انصاف اسی کا نام ہے؟
اللہ کے لیے اب ہی ڈاکٹر عثمانی کی بات ماننے والے لوگ ہوش کے ناخن لیں۔
اس سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ فن حدیث اور رجال کے بارے میں ڈاکٹر عثمانی کو کس قدر مہارت تھی!حقیقت وہی ہے جو ہم نے ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول بیان کر دی ہے کہ راوی اگر سچا ہو تو اس کا شیعہ ہونااس کی روایت کو نقصان نہیں دیتا۔لہٰذا زاذان کا شیعہ ہونا اگر ثابت بھی ہو جائے تو اس سے اس کی حدیث میں کوئی خرابی نہیں آتی۔
عودِ روح کے بارے میں ایک اور حدیث
ڈاکٹر عثمانی کے عود ِروح والی حدیث پر اعتراضات کے دندان شکن جوابات تو قارئین نے ملاحظہ فرما لیے ہیں۔اس کے ساتھ یہاں یہ بات بھی لازم الذکر ہے کہ عود ِروح کا بیان صرف اسی حدیث میں نہیں ہوا جس پر ڈاکٹر عثمانی نے اعتراضات کیے ہیں،بلکہ ایک اور حدیث میں بھی اس بات کا تذکرہ ہے۔آئیے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ میں نیک اور بد شخص کی موت اور قبر کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے ذکر فرماتے ہیں:
’فَتُرْسَلُ مِنَ السَّمَائِ، ثُمَّ تَصِیرُ إِلَی الْقَبْرِ، فَیُجْلَسُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ‘۔
’’پھر روح کو آسمان سے بھیج دیا جاتا ہے اور وہ قبر کی طرف آ جاتی ہے۔پھر نیک شخص کو بٹھا لیا جاتا ہے۔۔۔‘‘
(مسند أحمد : 378/14، طبعۃ مؤسّسۃ الرسالۃ، سنن ابن ماجہ : 4262، جامع البیان للطبري : 425/12، طبعۃ مؤسّسۃ الرسالۃ، الإیمان لابن مندۃ : 968/2، طبعۃ مؤسّسۃ الرسالۃ، إثبات عذاب القبر : 45/1، ح : 35، طبعۃ مؤسّسۃ الرسالۃ، وسندہٗ صحیحٌ)
اس کی سند کے سارے راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔
امام ابونعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہٰذَا حَدِیثٌ مُّتَّفَقٌ عَلٰی عَدَالَۃِ نَاقِلِیہِ ۔
’’اس حدیث کے راوی بالاتفاق ثقہ ہیں۔‘‘(شرح حدیث النزول لابن تیمیّۃ، ص : 87)
اس حدیث کے کسی راوی پر شیعہ ہونے کا جھوٹا الزام بھی نہیں ہے۔اب ڈاکٹرعثمانی کے پیروکار اسے کیسے شیعہ روایت قرار دیں گے؟
یوں ابن حزم رحمہ اللہ کا یہ کہنا بھی صحیح نہ رہا کہ منہال بن عمرو کے علاوہ کوئی بھی عذاب ِقبر کی حدیث میں روح کے لوٹنے کا ذکر نہیں کرتا۔(المحلّٰی : 42/1)
اگر ابن حزم رحمہ اللہ کے علم میں یہ حدیث آ جاتی تو وہ ضرور اس کی طرف رجوع فرما لیتے۔ وہ تو عدمِ علم کی بنا پر اللہ کے ہاں معذور و ماجور ہوں گے،لیکن جو لوگ صحیح احادیث کا علم ہو جانے کے بعد بھی انہیں جھٹلاتے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈر جانا چاہیے۔
الحاصل
عود ِروح والی حدیث کے دو راویوں، منہال بن عمرو اور زاذان پر ڈاکٹر عثمانی نے اعتراضات کیے تھے۔الحمدللہ! امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو مُردہ پرست ہونے کا الزام دینے والوں کے یہ اعتراضات ان کی اپنے علمی چہرے پر طمانچہ ثابت ہوئے ہیں۔ان اعتراضات سے ڈاکٹر عثمانی اور ان کے ہمنواؤں کی اپنی علمی کرتُوت اور بیمار ذہنی حالت لوگوں کے سامنے آ گئی ہے۔محدثین اور اہل علم کا فیصلہ ہی درست ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ مسلمانوں کو اسی کے مطابق اپنا عقیدہ بنانا چاہیے۔
ایک عقلی اعتراض
عود ِروح والی حدیث پر ایک عقلی اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مرنے والا تو قیامت کے دن سے پہلے زندہ نہیں ہو گا۔جسم سے رُوح نکلے تو وہ مردہ ہو گا اور اگر رُوح ڈال دی جائے تو وہ زندہ ہو جائے گا؟پھر قبروں والے مردہ تو نہ رہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ قبر میں رُوح کا جسم کے ساتھ اتصال کامل نہیں ہوتا،بلکہ جزوی قسم کا ہوتا ہے جس سے مردہ دنیاوی زندگی کی طرح زندہ نہیں ہوتا۔وہ مردہ ہی رہتا ہے۔ یوں کسی آیت ِقرآنی یا حدیث ِنبوی کی تکذیب لازم نہیں آتی۔جیسا کہ سوئے ہوئے زندہ انسان کی رُوح نکال لی جاتی ہے،لیکن وہ زندہ ہی رہتا ہے۔چونکہ رُوح کا یہ خروج کامل نہیں ہوتا، لہٰذا اسے حقیقی مَوت نہیں کہا جاتااور سویا ہوا انسان زندہ ہی کہلاتاہے،مردہ نہیں کہلاتا۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْـأَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِھَا فَیُمْسِکُ الَّتِيْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْـاُخْرٰیٓ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی اِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ} (الزمر39: 42)
’’وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا،(اس کی روح)نیند میں(قبض کر لیتا ہے)،پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے، اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقت ِمقرر کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔‘‘
اسی طرح حدیث ِنبوی میں سونے سے پہلے یہ دُعا سکھائی گئی ہے :
’بِاسْمِکَ رَبِّي، وَضَعْتُ جَنْبِي، وَبِکَ أَرْفَعُہٗ، إِنْ أَمْسَکْتَ نَفْسِي فَارْحَمْہَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَہَا فَاحْفَظْہَا، بِمَا تَحْفَظُ بِہٖ عِبَادَکَ الصَّالِحِینَ‘ ۔
’’میرے رب!میں نے تیرے ہی نام سے اپنا پہلو(بستر پر)رکھا اور تیری ہی مدد سے اس کو اٹھائوں گا۔اگرتو میری رُوح کو روک لے(یعنی مجھے موت دے دے)تو اس پر رحم کرنا،اور اگر تو اس کو چھوڑ دے(تا کہ پھر جسم میں آئے)تو اس کی اسی طرح حفاظت کر جس طرح تُو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘
(صحیح البخاري، کتاب الدعوات، باب التعوّذ والقراء ۃ عند المنام، ح : 6320، صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعائ، باب ما یقول عند النوم، ح : 2714)
اس طرح نیند کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں جن کا ذکر بہت طوالت کا باعث ہو گا،ان سے ثابت ہوتا ہے کہ نیند میں انسان کی رُوح نکال لی جاتی ہے اور مجازی طور پر اسے مردہ بھی کہا گیا ہے،لیکن اس کے باوجود کبھی کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ اس سے بے شمار موتیں لازم آتی ہیں،نہ کبھی کسی نے سوئے ہوئے انسان کو مردہ ہی کہا،کیونکہ رُوح کا یہ خروج کامل نہیں ہوتا،بلکہ جزوی طور پر ہوتا ہے۔
بالکل یہی معاملہ قبر میں رُوح کے لوٹائے جانے کا ہے کہ اس رُوح کا اصل ٹھکانہ تو جنت یا جہنم ہوتا ہے،لیکن اس کا جسم کے ساتھ ایک جزوی تعلق بنا دیا جاتا ہے تاکہ رُوح کو ملنے والے ثواب و عذاب کو وہ جسم بھی محسوس کرتا رہے،جو اس کے ساتھ نیکی و بدی میں شریک تھا۔اس اعادۂ روح سے تیسری زندگی لازم نہیں آتی۔ائمہ دین نے یہ بات بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان کی ہے اور ان لوگوں کے اعتراضات کا جواب دیا ہے جو اس حدیث کو دو زندگیوں اور دو موتوں کے قانون کے منافی سمجھتے ہیں۔(دیکھیں شرح حدیث النزول لابن تیمیۃ، ص : 89، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت، حاشیۃ ابن القیم علی سنن أبي داوٗد : 65/13، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، الصارم المنکي في الردّ علی السبکي لابن عبد الہادي، ص : 223، طبعۃ مؤسّسۃ الریّان، بیروت، شرح العقیدۃ الطحاویۃ لابن أبي العزّ الحنفي، ص : 399، طبعۃ دار السلام، الریاض، مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : 271/3، طبعۃ إدارۃ البحوث العلمیّۃ، الہند)
الحاصل
قبر میں رُوح کے لوٹائے جانے کے بارے میں وارد حدیث اصولِ حدیث کی رُو سے بالکل صحیح ہے۔ہر دور میں ائمہ دین اسے قبول کرتے رہے ہیں۔ڈاکٹر عثمانی کی طرف سے اس کے راویوں پر کیے گئے اعتراضات فضول ہیں،کیونکہ ایک تو وہ راوی صحیح بخاری و مسلم کے ہیں اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں،دوسرے یہ راوی عودِ روح کو بیان کرنے میں منفرد نہیں۔
ڈاکٹر عثمانی نے جو اعتراضات اس صحیح حدیث کے ثقہ راویوں پر کیے ہیں،وہی اعتراضات بطور کمال ان احادیث میں موجود ہیں،جنہیں وہ صحیح سمجھتے ہیں۔یہ تحریر ڈاکٹر عثمانی کی کوتاہ بینی اور کم علمی کی بین دلیل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر طرح کی گمراہی سے بچتے ہوئے حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
nnnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.