446

حلال جانوروں کا پیشاب، شمارہ، 39 حافظ ابویحیی نور پوری حفظہ اللہ

مستقل قارئین کرام جانتے ہیں کہ ہم گزشتہ اقساط میں صحیح احادیث، فہم سلف اور فقہائے کرام کی تصریحات کے ذریعے یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ حلال جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔شریعت کی کوئی ایک دلیل بھی حلال جانوروں کے پیشاب کو ناپاک نہیں کہتی۔ بعض لوگ اس حوالے سے جو مزعومہ دلائل پیش کرتے ہیں، ان کا تجزیہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
دلیل نمبر 3 : صفدر صاحب اپنی آخری دلیل میں لکھتے ہیں :
وفي مسند البزّار عن عبادۃ بن الصامت : سألنا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن البول ، فقال : إذا مسّکم شيء فاغسلوہ ، فإنّی أظنّ أنّ منہ عذاب القبر ، وإسنادہ حسن ۔ نیل الأوطار (١/١٠٧) ۔(خزائن السنن : ١/١٥٩)
تبصرہ : 1 اس روایت کی سند میں عمر بن اسحاق بن یسار ”مجہول الحال” راوی ہے۔اس کی توثیق کسی معتبر ذریعے سے ثابت نہیں ہو سکی۔جس شخص کے دین اور کردار سے ہم بخوبی آگاہ نہیں ، اس سے دین کا ایک اہم مسئلہ کیسے اخذ کر سکتے ہیں؟
2 قاضی شوکانی جن سے صفدر صاحب نے یہ حدیث نقل کی ہے ، وہ لکھتے ہیں :
والظاھر طھارۃ الأبوال والأزبال من کلّ حیوان یؤکل لحمہ تمسّکا بالأصل ، واستصحابا للبراء ۃ الأصلیّۃ ، والنجاسۃ حکم شرعيّ ناقل عن الحکم الذی یقتضیہ الأصل والبراء ۃ ، فلا یقبل قول مدّعیھا إلّا بدلیل یصلح للنقل عنھما ، ولم نجد للقائلین بالنجاسۃ دلیلا کذلک ، وغایۃ ما جاء وا بہ حدیث صاحب القبر ، وھو مع کونہ مراد بہ الخصوص عموم ظنّيّ الد لالۃ ، لا ینتھض علی معارضۃ تلک الأدلّۃ المعتضدۃ کما سلف ۔
”اصل(طہارت ہے ، اسے)اور براء ت اصلیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ظاہری بات یہی ہے کہ ان تمام جانوروںکے پیشاب اور گوبر پاک ہیں جن کا گوشت کھایا جاتا ہے کیونکہ نجاست ایک ایسا شرعی حکم ہے ، جو چیز کو اصل اور براء ت اصلیہ کے مقتضیٰ سے خارج کر دیتا ہے ، لہٰذا نجاست کے مدعی کی بات اسی وقت قبول کی جائے گی جب وہ کوئی ایسی دلیل لائے جو اس چیز کو اصل اور براء ت اصلیہ دونوں سے نکال سکے ۔ ہم ما کول اللحم جانوروں کے پیشاب اور گوبر کو نجس کہنے والوں کے پاس ایسی کوئی دلیل نہیںدیکھتے۔ زیادہ سے زیادہ وہ قبر والی حدیث پیش کرتے ہیںلیکن ایک تو اس سے خصوصی انسانی پیشاب مراد ہے ، دوسرے اس میں عموم ظنی ہے ، جو حلال جانوروں کے پیشاب کی طہارت ثابت کرنے والی زبردست دلیلوں کے مقابلے میں پیش نہیں ہو سکتا۔ (نیل الاوطار : ١/٤٤)
بڑے افسوس کی بات ہے کہ صفدر صاحب جس سے بھی حدیث نقل کرتے ہیں، وہ اسی حدیث کے فہم میں صفدر کا ساتھ نہیں دیتا۔ کیا صفدر صاحب حدیث کو بہتر سمجھتے ہیں یا وہ لوگ جن کے ذریعے حدیث ان تک پہنچی تھی؟
دلیل نمبر 4 : جناب انوار خورشید دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
[عن عمّار بن یاسر ، قال : أتی عليّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وأنا علی بئر أدلو ماء في رکوۃ لي ، فقال : یا عمّار ! ما تصنع ؟ قلت : یا رسول اللّٰہ ! بأبي وأمّي ، أغسل ثوبي من نخامۃ أصابتہ ، فقال : یا عمّار ! إنّما یغسل الثوب من خمس ؛ من الغائط ، والبول ، والقییء ، والدم ، والمنيّ ، یا عمّار ! ما نخامتک ودموع عینیک والماء الذي في رکوتک إلّا سواء ۔(دار قطني : ١/١٢٧)
حضرت عمار بن یاسر فرماتے ہیں کہ میں کنویں پر اپنی چھاگل میں پانی کھینچ رہا تھا کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : عمار کیا کر رہے ہو ؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ!میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ،میںاپنا کپڑا دھو رہا ہوں ، اسے تھوک لگ گیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عمار! کپڑے کو پانچ چیزیں لگ جانے کی وجہ سے دھونا چاہیے؛ پیشاپ، پاخانہ ، قے ، خون اور منی۔ عمار! تمہارا تھوک ، تمہاری آنکھوں کے آنسو اور وہ پانی جو تمہاری چھاگل میںہے سب برابر،یعنی پاک ہیں۔]
(حدیث اور اہلحدیث، ص : ١٦٧۔١٦٨)
تبصرہ : 1 یہ روایت سخت ترین ”ضعیف” بلکہ موضوع (من گھڑت) درجے کی ہے۔ خود امام دار قطنی رحمہ اللہ نے اس کے راویوں پر جرح کر رکھی ہے جو جناب دیوبندی صاحب ”دیانت ِ علمی” کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہضم کر گئے ۔
اس روایت کے تین راوی ”ضعیف” ہیں ، ملاحظہ فرمائیں :
1 ثابت بن حماد ۔ اس کے بارے میں :
امام دار قطنی فرماتے ہیں : ضعیف جدّا ۔ ”یہ سخت ضعیف راوی ہے ۔”
(سنن الدار قطني : ١/١٣٤)
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ولثابت أحادیث یخالف فیھا ، وفي أسانیدھا الثقات ، وھی مناکیر ۔ ”ثابت بن حماد ایسی احادیث بیان کرتا ہے جن میں ثقات اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کی سندوں میں ثقہ راوی ہوتے ہیں لیکن وہ منکر روایات ہوتی ہیں۔” (الکامل لابن عدی : ٢/٩٨)
امام بیہقی رحمہ اللہ ثابت بن حماد کی اسی حدیث کو جو انوار صاحب نے پیش کی ہے ، نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ھذا الحدیث باطل ، لا اصل لہ ، ثابت بن حماد متھم بالوضع ۔ ”یہ حدیث باطل ہے ، اس کی کوئی اصل نہیں اور ثابت بن حماد پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے۔” (السنن الکبرٰی للبیہقي : ١/١٤)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : إنّ ھذا الحدیث کذب عند أھل المعرفۃ بالحدیث ۔ ”حدیث کی معرفت رکھنے والوں کے ہاں یہ حدیث جھوٹی ہے۔”
(تنقیح التحقیق لابن عبدالھادی : ١/١٣٩)
ابن عبد الہادی ابو الخطاب سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یرویہ ثابت بن حمّاد ، وأنّ أہل النقل أجمعوا علی ترک حدیثہ ۔
”اس روایت کو ثابت بن حماد بیان کرتا ہے اور محدثین کرام نے اس کی حدیث کے ترک پر اجماع کر لیا ہے۔”(تنقیح التحقیق لابن عبد الہادي : ١/١٣٩)
2 ابو اسحاق ضریر ابراہیم بن زکریا۔ اس کے بارے میں :
امام دار قطنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ ”ضعیف” راوی ہے ۔ (السنن الدار قطني : ١/١٣٤)
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حدّث عن الثقات بالبواطیل ۔
” یہ ثقہ راویوں سے باطل روایات بیان کرتا ہے ۔”(الکامل لابن عدي : ١/٢٥٦)
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : الحدیث الذی رواہ منکر ۔
”جو حدیث یہ بیان کرتا ہے وہ منکر ہے۔”(کتاب الجرح والتعدیل : ٢/١٠١)
3 علی بن زید بن جدعان۔ اس کے بارے میں :
امام اہل سنت ،امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ”ضعیف” راوی ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : ٦/١٨٦، وسندہ، صحیحٌ)
علامہ جوزجانی فرماتے ہیں : واھي الحدیث ، ضعیف ۔۔۔ لا یحتجّ بحدیثہ ۔
”یہ حدیث میں کمزور ہے ، ضعیف ہے۔۔۔ اس کی حدیث سے حجت نہیں لی جا سکتی۔”
(أحوال الرجال للجوزجاني : ١/١٩٤، ت : ١٨٥)
امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لیس بقويّ ۔ ”حدیث میں بالکل مضبوط نہیں۔”(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : ٦/١٨٧)
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لیس بقويّ ، یکتب حدیثہ ، ولا یحتجّ بہ ۔ ”یہ حدیث میں کمزور ہے ، اس کی حدیث لکھی تو جائے گی لیکن اس سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی۔”(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : ٦/١٨٧)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا أحتجّ بہ لسوء حفظہ ۔
”اس کا حافظہ کمزور ہونے کی وجہ سے میں اس سے حجت نہیں لیتا۔”
(سیر أعلام النبلاء للذہبي : ٥/٥١٠، وفي نسخۃ : ٥/٢٠٧)
امام دار قطنی رحمہ اللہ بھی اسے حدیث میں کمزور بتاتے ہیں۔(العلل للدارقطني : ٥/٣٤٦)
امام حماد بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حدثنا عليّ بن زید ، وکان یقلّب الأحادیث ۔ ”ہمیں علی بن زید نے حدیثیں سنائیں ، وہ حدیثوں کو الٹ پلٹ کر دیتا تھا۔”(تاریخ ابن عساکر : ٤١/٤٩٦، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں : وضعّفہ الجمہور ۔ ”اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔”(مجمع الزوائد : ٨/٢٠٦،٢٠٩)
حافظ ابن العراقی بھی یہی کہتے ہیں۔(طرح التثریب : ١/٨٢)
حافظ ابن الملقن کہتے ہیں : وادّعی عبد الحقّ أنّ الأکثر علی تضعیف علی بن زید ۔ ”اور عبدالحق نے دعوی کیا ہے کہ اکثر محدثین علی بن زید کو ضعیف قرار دیتے ہیں ۔”(البدر المنیر : ٤/٤٣٤)
قارئین ! ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ آل دیوبند کے دلائل کتنے پختہ ہیں! اس کے باوجود جناب انوار خورشید دیوبندی صاحب اپنی سعی لا حاصل ”حدیث اور اہلحدیث” میں لکھتے ہیں :
1 جو صاحب جواب لکھیں اگر وہ اس کتاب میں مذکور احادیث پر جرح کریں تو جرح مفسر کریں اور جرح کا ایسا سبب بیان کریں جو متفق علیہ ہو نیز جارح فاصح ہونا چاہیے نہ کہ متعصب ، اس چیز کا خاص خیال رکھیں کہ کوئی ایسی جرح نہ ہو جو بخاری و مسلم کے راویوں پر ہو چکی ہو ۔
2 جو صاحب جواب لکھیں وہ تدلیس ، ارسال ، جہالت ، ستارت جیسی جرحیں نہ کریں ، کیونکہ اس قسم کی جرحیں متابعت اور شواہد سے ختم ہو جاتی ہیں ، اور متابع و شواہد اس کتاب میں پہلے ہی کثرت سے ذکر کر دیئے گئے ہیں ، ان باتوں کو ملحوظ رکھ کر جواب دیا جائے گا ، وہ یقینا دوخور اعتناء سمجھا جائے گا ورنہ بے جا اور فضول باتوں سے ہمیں کوئی سرو کار نہ ہو گا ۔(حدیث اور اہلحدیث : سخن گفتی، ص : ٤)
اب انوار صاحب سے گزارش ہے کہ وہ ان تینوں راویوں پر جرح کا مطالعہ کریں اور کسی راوی پر ہماری جرح کو غیر مضر ثابت کر دیں۔جرح کے ان تمام اسباب کو مختلف فیہ ثابت کر دیں،نیزایڑی چوٹی کا زور لگا کر ان جارحین کو متعصب ثابت کر دیں، یعنی کسی ایک جارح پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیں کہ اس جرح میں اس نے تعصب سے کام لیا ہے۔
اگر نہیں اور ہر گز نہیں تو مان لیں کہ ہمارے مذہب کا دارو مدار ہی ”ضعیف و منکر” روایات یا محض تاویلات باطلہ پر ہے ۔
پھر یہ بھی کہ انوار صاحب یہ ثابت کریں کہ ہم نے ان تینوں راویوں میں سے کسی پر تدلیس ، ارسال ، جہالت یا ستارت کی جرح کی ہو ، ورنہ مان لیں کہ مذکورہ راویوں پر جرح متابعات و شواہد سے ختم نہیں ہو گی۔ محدثین اس حدیث کو بے اصل ، باطل اور جھوٹ قرار دے رہے ہیںاور انوار صاحب اپنے تقلیدی مذہب کو ثابت کرنے کے لیے اسے اپنی کتاب میں ذکر کر رہے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس بے اصل روایت میں بھی حلال جانوروں کے پیشاب کی کوئی تصریح نہیں جبکہ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ صحیح و صریح احادیث اور محدثین کی تصریحات کے مطابق حلال جانوروں کا پیشاب پاک ہے اور وہ پیشاب سے وعید والی احادیث کے عموم میں داخل نہیں ، لہٰذا اس مسئلے میں کوئی صریح حدیث ہی قابل التفات ہو سکتی ہے۔
دلیل نمبر 5 : جناب محمد تقی عثمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”حنفیہ کا دوسرا استدلال مسند احمد میں حضرت سعد بن معاذ کی وفات کے واقعہ سے ہے جس میں آتا ہے کہ دفن کے بعد انہیں قبر نے زور سے بھینچا اور دبایا۔ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دینے کے بعد فرمایا کہ یہ ان کے عدم تحرز عن البول(پیشاب سے نہ بچنے) کی وجہ سے تھا۔” (درس ترمذی از تقی عثمانی : ١/٢٩٠)
تبصرہ : 1 مسند احمد کی روایت میں ایک راوی محمود بن عبدالرحمن بن عمرو بن جموح ہے۔ اس حدیث سے دلیل لینے والے دیوبندی بھائیوںسے گزارش ہے کہ ذرا اس راوی کے حالات تو تلاش کریں اور اس کی عدالت ثابت کریں،نیز اس روایت میں وہی محمد بن اسحاق راوی ہے جسے بقول جناب صفدر صاحب ٩٠ فیصد محدثین نے ”ضعیف” کہا ہے۔
جناب صفدر صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ : ”شاید ہی جرح کا کوئی ادنیٰ سے اعلیٰ تک ایسا لفظ ملے گا جو جمہور محدثین اور ارباب جرح و تعدیل نے محمد بن اسحاق کے بارے میں نہ کہا ہو۔”(احسن الکلام : ٢/٨٠)
اور یہ وہی راوی ہے جس کی کئی روایات فقہ حنفی کے پرخچے اڑاتی ہیں،وہاں اس کی جرح پر صفحات کالے کئے جاتے ہیں لیکن یہاں دیوبندی بڑے شوق سے اپنی نام نہاد فقہ کو بچانے کے لیے اسی کی روایات پیش کرتے ہیں۔کیا یہ انصاف ہے ؟
جناب تقی اور ناموس صحابہ کرام !
جناب تقی عثمانی صاحب سے سوال ہے کہ اس غیر ثابت شدہ روایت کو پیش کرنے سے آپ کو کیا فائدہ ہوا؟اس سے ان کی نام نہاد فقہ تو رُسوائی سے نہیں بچ سکی،ہاں یہ ضرور ہوا کہ ایک جلیل القدر صحابی سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بد ظنی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔خدا نخواستہ کسی صحابی کے بارے میں کوئی ایسی بات باسند صحیح ثابت بھی ہو جائے تو مسلمانوں کو کسی نہ کسی طریقے سے صحابہ کا دفاع ہی کرنا چاہیے، نہ کہ ”ضعیف” روایات پیش کر کے صحابہ کے بارے ایسی بدگمانیاں شائع کی جائیں۔
2 رہی یہ بات کہ ایک روایت میں عذاب قبر کی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ سیدنا (نعوذ باللہ!)سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ پیشاب کے چھینٹوں سے احتراز نہیں کرتے تھے تو:
اولا ً : ایسی تمام روایات ”ضعیف” ہیں ، طبقات ابن سعد کی روایت کو خود ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب ”مرسل” قرار دے چکے ہیںاور ”مرسل” جمہور محدثین کے ہاں ”ضعیف” ہوتی ہے۔نیز اس کی سند میں ایک راوی ابو معشر نامی ہے ، جسے امام بخاری رحمہ اللہ ”منکر الحدیث”کہتے ہیں۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اسے ”ضعیف” قرار دیتے ہیں۔دیگر کئی ائمہ کرام نے بھی اس پر جرح کی ہے۔لہٰذا جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب کا اس کی سند کو ”حسن”کہنا جہالت یا ضد پر مبنی ہے۔
3 خود جناب ظفر احمد تھانوی صاحب لکھتے ہیں : ولکن لیس فیہ ذکر الغنم و نحوہ ۔ ”لیکن اس حدیث میں بکریوں وغیرہ کا ذکر نہیں۔”
(اعلاء السنن لظفر أحمد : ١/٤٤١)
جب اس باطل روایت میں بھی حلال جانوروں کے پیشاب کے نجس اور عذاب قبر کا سبب ہونے کا ذکر نہیں تو جناب تقی عثمانی صاحب کو صحابہ کرام کے بارے میں بے حقیقت و غلط باتیں شائع کرنے سے کتنے نوافل کا ثواب ہوا؟
لطیفہ : جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب رقمطراز ہیں :
ولکن لا یظنّ بسعد أنّہ کان لا یستنزہ من بول نفسہ ، لکونہ نجسا بالاتّفاق۔
”لیکن سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ نہیں سوچا جا سکتا کہ وہ اپنے پیشاب سے نہیں بچتے تھے ،کیونکہ انسانی پیشاب تو بالاتفاق نجس ہے۔”(اعلاء السنن : ١/٤٤١)
یعنی انسانی پیشاب تو بالاتفاق نجس تھا ، اس میں صحابہ کرام میں سے کسی کو اختلاف نہ تھا، البتہ جس پیشاب کا ذکر مذکورہ روایت میں ہے ، وہ حلال جانوروں کا پیشاب تھا کیونکہ اسی کے بارے میں اختلاف تھا اور ہے۔
قارئین! ذرا غور فرمائیں گے تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالی اہل باطل کے قلم سے ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی سچ نکلوا ہی دیتا ہے ۔تھانوی صاحب کی اس عبارت سے صاف طور پر ثابت ہو رہا ہے کہ ان کے نزدیک حلال جانوروں کا پیشاب بالاتفاق نجس نہیں تھا ، اسی لئے تو سعد رضی اللہ عنہ اس سے کما حقہ نہ بچ سکے ۔ اہل حدیث اور محدثین کے ہاں تو حلال جانوروں کا پیشاب صحابہ کرام کے نزدیک بالاتفاق پاک تھا۔ لیکن اب دیوبندی بھائیوںسے ہمارا سوال ہے کہ اگر بالفرض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین حلال جانوروں کا پیشاب نجس ہونے میں اختلاف تھا تو لازمی بات ہے کہ بعض اسے پاک اور بعض ناپاک سمجھتے ہوں گے، لہٰذا ان کے اپنے اقرار کے مطابق صحابہ کرام میں بھی حلال جانوروں کے پیشاب کو پاک سمجھنے والے موجود تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں انہوں نے خود ہی لکھ دیا ہے کہ وہ ایسا ہی سمجھتے تھے،اب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ کسی ایک ایسے صحابی کا نام بتا دیں جس سے باسند صحیح حلال جانوروں کے پیشاب کو ناپاک کہنا ثابت ہو!!
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے اور اس پر ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین ! جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
nnnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.