963

حواء علیہا السلام، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

حواء [

کلام الٰہی کے مفاہیم و معانی میں سلف صالحین کا اتباع ضروری ہے۔ قرآن فہمی میں خود رائے زنی کرنا جہالت و ضلالت ہے۔ قرآن کریم کو اپنی آرا کا نشانہ بنانے والے سلف صالحین کی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔ سیدہ حوائ[ کے بارے میں بعض اہل علم سے تسامح ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حوائ[ کی تخلیق سیدنا آدم علیہ السلام  سے نہیں ہوئی،۔یہ باطل نظریہ محمد بن بحر اصبہانی ابو مسلم معتزلی (٢٥٤۔٣٢٢ھ) کاہے۔ لگتا ہے کہ یہی اس نظریہ کا بانی ہے۔ دور حاضرین کے مفسرین میں سے محمد رشید رضا (١٢٨٢۔١٣٥٤ھ) ”تفسیر المنار” (٨/٣٨) احمد بن مصطفی (١٣٧١ھ) ”تفسیر المراغی” (٨/١١٩) وغیرہ اسی کے قائل ہیں۔
دیوبندی عالم عبدالماجد دریا بادی صاحب لکھتے ہیں:
”یہ روایت کہ حضرت حواء کی پیدائش حضرت آدم کی پسلی سے ہوئی ہے، توریت کی ہے۔ بعض حدیثی روایتیں، جو اس مضمون کی مروی ہوئی ہیں، ان میں سے کوئی ایسی نہیں ہے، جسے قطعی صحت کا درجہ حاصل ہو اور قرآن مجید نے اس سلسلہ میںسورۃ النساء اور سورۃ الاعراف میں جو کچھ کہا ہے، اس کی تعبیر اور طریقوں سے بھی ہو سکتی ہے۔” (تفسیر ماجدی، ص : ٧٧)
ان کے رد و جواب میں جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”یہاں فاضل مصنف سے سخت تسامح ہوا ہے۔ یہ روایت صحیح بخاری و مسلم دونوں میں مختلف طریقوں سے مروی ہے۔ اگر صحیح احادیث حجت ہیں، تو اسی صحیح اور قوی الاسناد حدیث کو کیسے رد کیاجا سکتا ہے؟ قرآن کریم نے سورۃ النساء اور سورۃ الاعراف میں جو کچھ فرمایا ہے، اس کی اور تعبیریں ہو تو سکتی ہیں، مگر ظاہر، متبادر اور مقبول عام تعبیر تو یہی ہے کہ حضرت حواء کو حضرت آدم کی پسلی سے پیدا کیا گیا تھا ہم بالکل نہیں سمجھ پائے کہ مولانا نے اس روایت کی تردید کی کیا ضرورت محسوس فرمائی۔” (تبصرے، ص : ١٨٢)
سید ابو الاعلی مودودی لکھتے ہیں:
”اس جان سے اس کا جوڑا بنایا۔ اس کی تفصیلی کیفیت ہمارے علم میں نہیں ہے۔ عام طور پر جو بات اہل تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائبل میں بھی بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ آدم کی پسلی سے ہوا کو پیدا کیا گیا۔ تلمود میں اور زیادہ تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت حواء کو حضرت آدم علیہ السلام  کی دائیں جانب کی تیرہویں پسلی سے پیدا کیا گیا تھا، لیکن کتاب اللہ اس بارے میں خاموش ہے اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے، اس کا مفہوم وہ نہیں ہے، جو لوگوں نے سمجھا ہے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ بات کو اسی طرح مجمل رہنے دیا جائے، جس طرح اللہ نے اسے مجمل رکھا ہے اور اس کی تفصیلی کیفیت متعین کرنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے۔” (تفہیم القرآن : ١/٣١٩۔٣٢٠)
مودودی صاحب کی رائے انتہا پسندی پر مبنی ہے، اس باب میں وارد شدہ احادیث واضح ہیں۔ اہل سنت کے مشہور مفسر امام طبری اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  نے اس فرمان باری تعالیٰ : (وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا) کا یہی معنی بیان کیا ہے کہ حوائ[ کو سیدنا آدم علیہ السلام  کی پسلی سے پیدا کیا گیا، علامہ فخر رازی نے اس قول کو قوی قرار دے کر لکھا ہے:
وَہُوَالَّذِي عَلَیْہِ الْـأَکْثَرُونَ .
”اکثر مفسرین یہی کہتے ہیں۔”
(تفسیر الرازی : ٩/٤٧٧)
مشہور مفسر، اسماعیل بن عبدالرحمن بن ابی کریمہ، سدی رحمہ اللہ  (م :١٢٧ھ) فرماتے ہیں:
خَلَقَہَا اللّٰہُ مَنْ ضِلَعِہٖ .
”اللہ نے انہیں سیدنا آدم علیہ السلام  کی پسلی سے پیدا کیا ۔”
(تفسیر الطبری : ٦/٣٤١)
نیز فرماتے ہیں:
خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا، جَعَلَ مِنْ آدَمَ حَوَّاءَ .
”’ان سے ان کی بیوی پیدا کی ‘اس کا معنی یہ ہے کہ حوائ[ کو آدم سے پیدا کیا۔”
(تفسیر الطبری : ١/٣٤٢، وسندہ، حسنٌ)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  (٦٦١۔٧٢٨ھ) سورۃ النساء کی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وَمَعْلُومٌ أَنَّ النَّفْسَ الْوَاحِدَۃَ الَّتِي خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا ہُوَ آدَمُ وَحَوَّاءُ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعِ آدَمَ القُصَیرَائَ، مِنْ جَسَدِہٖ خُلِقَتْ لَمْ تُخْلَقْ مِنْ رُّوحِہٖ حَتّٰی یَقُولَ الْقَائِلُ الْوَحْدَۃَ .
”یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ وہ اکیلی جان، جس سے اس کی زوجہ پیدا کی گئیں، آدم علیہ السلام  ہیں۔ حوائ[ آدم علیہ السلام  کے جسم کی نچلی پسلی سے پیدا کی گئی ہیں۔ جسم سے پیدا کی گئی ہیں، روح سے نہیں کہ کوئی کہنے والا انہیں ایک ہی کہنے لگے۔”
(بَیان تِلبیس الجہمیہ في تاسیس بدعہم الکلامیہ : ٣/١٦٥)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حوائ[ کو مٹی سے پیدا کرنے پر قادر ہے، تو آدم علیہ السلام  کی پسلی سے پیدا کرنے کا کیا فائدہ؟ ”منہا” سے مراد انہیں علیحدہ آدم علیہ السلام  کی جنس سے پیدا کیا گیا۔ اگر ان کی بات تسلیم کی جائے، تو اس سے لازم آئے گا کہ انسانی تخلیق دو جانوں سے ہوئی۔ یہ نص قرآنی کے خلاف ہے، قرآن کے مطابق سیدنا آدم علیہ السلام  سے اول تو حواء کو (ان کی پسلی) سے پیدا کیا گیا، پھر ان دونوں سے تمام مرد اور عورتوںکو پیدا کیا گیا۔ حوائ[ کا واقعہ خاص ہے، جب کہ دوسرے انسانوں کے بارے میں فرمایا:
(وَمِنْ آیَاتِہٖ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوا إِلَیْہَا)
”اللہ کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے آپ کی تسکین کے لئے آپ کی جنس سے آپ کی بیویاں پیدا کیں۔”
اس کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
أَيْ : خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ جِنْسِکُمْ إِنَاثًا یَّکُنَّ لَکُمْ أَزْوَاجًا .
”مطلب تمہاری جنس سے مونث پیدا کیں۔ تاکہ وہ آپ کا جوڑا بن سکیں۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٦/٣٠٩)
اللہ نے آدم علیہ السلام  کو بغیر ماں باپ کے مٹی سے تخلیق فرمایا، حوائ[ کو ان کی پسلی سے نکالا، سیدنا عیسی علیہ السلام  کو بغیر باپ کے پیدا کیا، اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانیاں ظاہر فرماتے ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ (خَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا )یہ (خُلِقَ الْـإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ) (سورۃ الانبیاء : ٣٧) کی قبیل سے ہے، ان کی بات درست نہیں کیوں کہ ”من عجل”کی تفسیر دوسری آیت سے ہوتی ہے،(وَکَانَ الْـإِنْسَانُ عَجُولًا) (الاسراء : ١١) مطلب انسان بعض امور میں جلد باز ثابت ہوا ہے،”من ”بمعنی”علی ”ہے۔
1    سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
اِسْتَوْصُوا بِالنِّسَائِ، فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاہُ، فَإِنْ ذَہَبْتَ تُقِیمُہ، کَسَرْتَہ،، وَإِنْ تَرَکْتَہ، لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ .
”عورتوں کے ساتھ بھلائی کا سلوک روا رکھیں۔ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے اور اوپر والی پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھ پن ہوتا ہے، اسے سیدھا کرنے بیٹھو گے تو توڑ دو گے، اپنے حال پہ چھوڑ دو گے تو ٹیڑھی ہی رہے گی، لہٰذا عورتوں کو نصیحت کیجئے۔”
(صحیح البخاري : ٣٣٣١، صحیح مسلم : ١٤٦٨)
حافظ بغوی رحمہ اللہ  (م :٥١٦ھ) لکھتے ہیں:
ہٰذَا حَدِیثٌ مُّتَّفَقٌ عَلٰی حُجَّتِہٖ .
”یہ حدیث متفقہ طور پر حجت ہے۔” (شرح السنۃ : ٢٣٣٢)
2    سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
إِنَّ الْمَرْأَۃَ کَالضِّلَعِ، إِذَا ذَہَبْتَ تُقِیمُہَا کَسَرْتَہَا، وَإِنْ تَرَکْتَہَا اسْتَمْتَعْتَ بِہَا وَفِیہَا عِوَجٌ .
”عورت پسلی کی طرح ہے، اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ بیٹھو گے۔ آپ اسے اپنے حالت پہ چھوڑ دیجئے اور ٹیڑھ پن کے ساتھ ہی اس سے فائدہ اٹھاتے رہیے۔”
(صحیح مسلم : ١٤٦٨/٦٥، مسند الحمیدي : ١٢٠٢، مسند الإمام أحمد : ٢/٤٤٩)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ حوائ[ سیدنا آدم علیہ السلام  کی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں۔
تنبیہ:
ملا علی قاری حنفی ماتریدی (مرقاۃ المفاتیح : ٣/٤٦٠) دور حاضر میں ناصر السنۃ علامہ البانی رحمہ اللہ  (سلسۃ الاحادیث الضعیفۃ : ٦٤٩٩) علامہ شعیب الارنووط رحمہ اللہ  (تحقیق صحیح ابن حبان : ٩١٧٨) کہتے ہیں کہ ”من ضلع”میں استعارہ تمثیل اور تشبیہ ہے، حقیقت مراد نہیں، کیوں کہ صحیح البخاری (٥١٨٤) اور صحیح مسلم (١٤٦٨) میں ”المراۃ کالضلع ”کے الفاظ ہیں۔
الجواب :
صحیح مسلم کے الفاظ :         فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ .
”عورت کی اصل پیدائش تو پسلی ہی سے ہوئی۔”
ان علماء کرام کے نظرےے کی تردید کرتے ہیں، اس حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ درحقیقت عورت کی جدہ سیدہ حوا[ پسلی سے پیدا ہوئی ہیں، اس لئے عورت کے مزاج میں ٹیڑھ پن ہے، لہٰذا عام عورت کی بات ہوئی تو کہہ دیا گیا کہ یہ ٹیڑھی پسلی کی مانند ہے۔ سیدہ حوائ[ کی بات ہوئی تو صاف الفاظ میں سمجھا دیا گیا کہ انہیں پیدا ہی پسلی سے کیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.