1,291

امام ابوحنیفہ کی کتابیں، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

امام ابو حنیفہ کی طرف تین کتابیں اور دو رسالے منسوب ہیں، وہ یہ ہیں :
1 الفقہ الأکبر 2 العالم والمتعلّم 3 کتاب الحیل
4 الوصیّۃ 5 رسالۃ إلی عثمان البتّی
ان میں سے کتاب الحیل کے علاوہ کوئی بھی کتاب امام صاحب سے ثابت نہیں بلکہ محض جھوٹی نسبت کی بنا پر مشہور ہیں۔ان کا تفصیل جائزہ پیش خدمت ہے :
1 الفقہ الأکبر : (ا) اس کی ایک سند یہ ہے :
محمّد بن مقاتل الرازي، عن عصام بن یوسف، عن حمّاد بن أبي حنیفۃ، عن أبي حنیفۃ .
کسی کتاب کی نسبت صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مصنف تک با سند صحیح ثابت ہو، اب ہم اس کتاب کی سند کا علمی اور تحقیقی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ اس کے راویوں کے حالات بالترتیب ملاحظہ فرمائیں :
1 محمد بن مقاتل رازی کو حافظ ذہبیa(المغني في الضعفاء : 2/635)اور حافظ ابن حجرa(تقریب التہذیب : 6319)نے ”ضعیف” کہا ہے۔اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں، نیز حافظ ذہبیaاس کے بارے میں فرماتے ہیں :
وَہُوَ مِنَ الضُّعَفَاءِ الْمَتْرُوکِینَ . ”یہ راوی متروک درجے کے ضعیف راویوں میں سے ہے۔”(تاریخ الإسلام للذہبي : 5/1247)
2 عصام بن یوسف بلخی راوی کے بارے میں امام ابن عدیaفرماتے ہیں:
وَقَدْ رَوٰی عِصَامٌ ہٰذَا عَنِ الثَّوْرِيِّ وَعَنْ غَیْرِہٖ أَحَادِیثَ لَا یُتَابَعُ عَلَیْہَا .
”اس عصام نے امام سفیان ثوری اور دیگر اساتذہ سے ایسی احادیث روایت کی ہیں جن کی کسی نے متابعت نہیں کی۔”
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 5/371، وفي نسخۃ : 5/2008)
امام ابن حبانaفرماتے ہیں : وَکَانَ صَاحِبَ حَدِیثٍ، ثَبْتًا فِي الرِّوَایَۃِ، رُبَّمَا أَخْطَأَ . ”یہ محدث تھا اور روایت میں قابل اعتماد تھا، کبھی کبھار غلطی کر لیتا تھا۔”(الثقات لابن حبان : 8/521)
امام خلیلی فرماتے ہیں : وَہُوَ صَدُوقٌ . ”یہ سچا راوی ہے۔”
(الإرشاد للخلیلي : 3/937)
تنبیہ : حافظ ابن حجر a، امام ابن سعدaسے نقل کرتے ہیں :
کَانَ عِنْدَہُمْ ضَعِیفًا فِي الْحَدِیثِ . ”یہ راوی محدثین کرام کے ہاں حدیث کے معاملے میں کمزور تھا۔”(لسان المیزان لابن حجر : 4/168)
لیکن یہ حوالہ طبقات ابن سعد سے نہیں مل سکا۔
3 حماد بن ابی حنیفہ”ضعیف” راوی ہے۔ اس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں۔ امام ابن عدیaاس کے بارے میں فرماتے ہیں :
لَا أَعْلَمُ لَہ، رِوَایَۃً مُسْتَوِیَۃً فَأَذْکُرَہَا . ”میں اس کی ایک بھی درست روایت نہیں جانتا جسے ذکر کر سکوں۔”(الکامل لابن عدي : 2/253، وفي نسخۃ : 2/669)
نیز فرماتے ہیں : وَإِسْمَاعِیلُ بْنُ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حَنِیفَۃَ لَیْسَ لَہ، مِنَ الرِّوَایاَتِ شَيْئٌ، لَیْسَ ہُوَ، وَلَا أَبُوہُ حَمَّادٌ، وَلَا جَدُّہ، أَبُو حَنِیفَۃَ مِنْ أَہْلِ الرِّوَایَاتِ، وَثَلَاثَتُہُمْ قَدْ ذَکَرْتُہُمْ فِي کِتَابِي ہٰذَا فِي جُمْلَۃِ الضُّعَفَاءِ .
”اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ نے کوئی حدیث بیان نہیں کی۔ اسماعیل بن حماد ، اس کے والد حماد اور اس کے دادا ابوحنیفہ ، تینوں ہی احادیث کے قابل (محدث) نہیں تھے۔ (یہی وجہ ہے کہ)میں نے ان تینوں کو اپنی کتاب میں ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔”
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 1/314)
حافظ ذہبیaفرماتے ہیں : ضَعَّفَہُ ابْنُ عَدِيٍّ وَغَیْرُہ، مِنْ قِبَلِ حِفْظِہٖ .
”اسے امام ابن عدی وغیرہ نے حافظے کی کمزوری کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے۔”
(میزان الاعتدال للذہبي : 1/590)
یہ تو تھا کتاب کی سند کا حال۔ علمی دنیا میں دل کیسے مطمئن ہو سکتا ہے کہ یہ تصنیف امام ابوحنیفہ کی ہے؟ یہ جھوٹی نسبت ہے ، اسی لیے محدثین اور علمائے حق نے اس کی طرف التفات تک نہیں کیا۔
پھر یہ پانچ چھ صفحات پر مشتمل رسالہ گمراہی و ضلالت سے لبریز ہے۔اس میں گمراہ کن اشعری عقیدہ درج ہے۔ ملا علی قاری حنفی معتزلی نے اس کی شرح میں معتزلی عقیدہ کا اضافہ کر کے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ اس میں اہل سنت والجماعت ، اہل حق کے عقائد کے موافق کوئی بات نہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ جہالت و ضلالت اور کذب و زُور کا پلندہ ہے۔
2 (ب) اس کی دوسری سند یہ ہے :
الحسین بن علي الکاشغري، عن أبي مالک نصران بن نصر الختلي، عن أبي الحسن علي بن أحمد الفارسي، عن نصر بن یحیٰی، عن أبي مطیع . (مقدمۃ کتاب العالم والتعلّم للکوثري)
اس کے راویوں کا مختصر حال بھی ملاحظہ ہو :
1 حسین بن علی کاشغری سخت جھوٹا راوی ہے۔یہ خود احادیث گھڑ لیتا تھا۔
n اس کے بارے میں حافظ ذہبیaفرماتے ہیں :
مُتَّہَمٌ بِالْکِذْبِ . ”اس پر جھوٹ کا الزام ہے۔”(میزان الاعتدال : 1/544)
n حافظ سمعانی فرماتے ہیں : یَضَعُ الْحَدِیثَ .
”یہ خود حدیث گھڑ لیتا ہے۔”(لسان المیزان لابن حجر : 2/305)
n ابن نجار کہتے ہیں : کَانَ شَیْخًا صَالِحًا مُتَدَیِّنًا، إِلَّا أَنَّہ، کَتَبَ الْغَرَائِبَ، وَقَدْ ضَعَّفُوہُ وَاتَّہَمُوہُ بِالْوَضْعِ .
”یہ نیک اور دیندار شیخ تھا لیکن اس نے منکر روایات لکھیں۔ محدثین کرام نے اسے ضعیف قرار دیا اور اس کو حدیثیں گھڑنے کے ساتھ متہم کیا۔”(لسان المیزان : 3/305)
2 نصران بن نصر ختلی راوی ”مجہول” ہے۔ اس کی توثیق تو درکنار اس کا ذکر تک کہیں سے نہیں ملتا۔
3 علی بن احمد فارسی راوی بھی ”مجہول”ہے۔کتب ِ رجال میں اس کا ذکر تک نہیں ملتا۔
4 نصر بن یحییٰ بلخی راوی بھی نامعلوم ہے۔اس کا بھی رجال کی کتب میں نام و نشان نہیں۔
5 ابو مطیع حکم بن عبد اللہ بلخی راوی سخت ترین مجروح اور ”ضعیف” ہے۔

ثابت ہوا کہ فقہ اکبر جھوٹی کتاب ہے جو امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کر دی گئی ہے۔ لہٰذا جناب سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی صاحب کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ :
”بعض حضرات کو یہ شبہ ہوا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہaکی اپنی کوئی تصنیف نہیں اور خصوصاً الفقہ الأکبر ان کی نہیں، لیکن یہ ان حضرات کا نِرا وہم ہے۔”
(مقام أبی حنیفہ از صفدر، ص : 108)
معلوم ہوا کہ فقہ اکبر کو امام صاحب کی تصنیف قرار دینا صفدر صاحب کا ”نِرا وہم” ہے۔
2 العالم والمتعلّم : اس کتاب کی بھی نسبت امام ابوحنیفہ کی طرف بالکل غلط ہے۔ اس کی سند یہ ہے :
أبو محمّد الحارثيّ البخاريّ، عن محمّد بن یزید، عن الحسن بن صالح، عن أبي مقاتل، عن أبي حنیفۃ . (مقدمۃ کتاب العالم والمتعلّم للکوثري)
اس سند کے راویوں کے مختصر حالات یہ ہیں :
1 ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن یعقوب حارثی بخاری سخت مجروح راوی ہے۔
n امام ابو زرعہ احمد بن حسین رازیa(م :357ھ) فرماتے ہیں :
ضَعِیفٌ . ”یہ ضعیف راوی تھا۔”
(سوالات السہمي للدارقطني، ص : 228، ت : 318، تاریخ بغداد للخطیب : 10/127)
n علامہ ابن الجوزیaکہتے ہیں : قَالَ أَبُو سَعِیدٍ الرُّؤَاسُ : یُتَّہَمُ بِوَضْعِ الْحَدِیثِ . ”ابو سعید رواس کا کہنا ہے کہ یہ متہم بالکذب راوی تھا۔”
(میزان الاعتدال للذہبي : 4/496)
n احمد سلیمانی کہتے ہیں : کَانَ یَضَعُ ہٰذَا الْإِسْنَادَ عَلٰی ہٰذَا الْمَتْنِ، وَہٰذَا الْمَتْنَ عَلٰی ہٰذَا الْإِسْنَادِ . ”یہ شخص ایک سند کو دوسرے متن کے ساتھ اور ایک متن کو دوسری سند کے ساتھ لگا دیتا تھا۔”(میزان الاعتدال : 4/496)
n حافظ ذہبیaفرماتے ہیں : وَہٰذَا ضَرْبٌ مِّنَ الْوَضْعِ .
”ایسا کرنا حدیث گھڑنے کی ایک قسم ہے۔”(میزان الاعتدال : 4/496)
n امام حاکمaفرماتے ہیں : ہُوَ صَاحِبُ عَجَائِبَ وَأَفْرَادَ عَنِ الثِّقَاتِ . ”یہ ثقہ راویوں سے عجیب و غریب روایات بیان کرنے والا شخص تھا۔”
(میزان الاعتدال : 4/496)
n حافظ خطیب بغدادیaفرماتے ہیں : صَاحِبُ عَجَائِبَ وَمَنَاکِیرَ وَغَرَائِبَ . ”یہ شخص عجیب وغریب اور منکر روایات بیان کرنے والا تھا۔”
(تاریخ بغداد للخطیب : 10/127)
نیز فرماتے ہیں : وَلَیْسَ بِمَوْضِعِ الْحُجَّۃِ . ”یہ حجت پکڑنے کے قابل نہیں۔”(تاریخ بغداد للخطیب : 10/127)
n حافظ خلیلیaفرماتے ہیں : یُعْرَفُ بِالْـأُسْتَاذِ، لَہ، مَعْرِفَۃٌ بِہٰذَا الشَّأْنِ، ہُوَ لَیِّنٌ، ضَعَّفُوہُ، یَأْتِي بِأَحَادِیثَ یُخَالَفُ فِیہَا، حَدَّثَنَا عَنْہُ الْمَلَاحِمِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ الْبَصِیرِ بِعَجَائِبَ .
”یہ راوی استاذ کے نام سے معروف ہے۔ یہ علم حدیث کی معرفت رکھتا تھا۔ لیکن کمزور تھا ، محدثین کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ یہ ایسی احادیث بیان کرتا ہے جن میں ثقہ راوی اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہمیں اس سے ملاحمی اور احمد بن محمد بن حسین بصیر نے منکر روایات بیان کی ہیں۔”(الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث للخلیلی : 3/185)
یہ تو استاذ حارثی کا حال ہے جس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔
2 محمد بن یزید ”مجہول” اور نامعلوم راوی ہے۔کتب ِ رجال میں اس کا ذکر نہیں مل سکا۔
3 حفص بن اسلم سمرقندی ”کذاب” اور ”وضّاع” راوی ہے۔
n امام قتیبہ بن مسلم فرماتے ہیں :میںنے ابو مقاتل سے اس کی ایک حدیث کے بارے میں کہا : یَا أَبَا مُقَاتِلٍ ! ہُوَ مَوْضُوعٌ ؟، قَالَ : بَابَا، ہُوَ فِي کِتَابِي، وَتَقُولُ : ہُوَ مَوْضُوعٌ ؟ قَالَ : قُلْتُ : نَعَمْ، وَضَعُوہُ فِي کِتَابِکَ .
”اے ابو مقاتل! کیا یہ من گھڑت ہے؟ اس نے کہا : بابا! یہ میری کتاب میں درج ہے اور تم کہتے ہو کہ کیا یہ موضوع ہے؟ میں نے کہا : ہاں ،جھوٹے لوگوںنے اس حدیث کو تیری کتاب میں ڈال دیا ہے۔”(الکامل لابن عدي : 2/393,392، وسندہ، صحیحٌ)
n احمد سلیمانی کہتے ہیں : فِي عِدَادِ مَنْ یَّضَعُ الْحَدِیثَ .
”اس راوی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو خود احادیث گھڑ لیتے تھے۔”
(لسان المیزان لابن حجر : 2/323)
n امام جوزجانی کہتے ہیں : کَانَ یُنْشِیئُ لِلْکَلَامِ الْحَسَنِ إِسْنَادًا .
” یہ راوی اچھی بات کو کوئی سند لگا کر حدیث بنا دیتا تھا۔”(أحوال الرجال : 345)
n امام ابن عدیaفرماتے ہیں : وَلَیْسَ ہُوَ مِمَّنْ یُّعْتَمَدُ عَلٰی رِوَایَاتِہٖ . ”یہ ان راویوں میں سے نہیں جن کی روایات پر اعتماد کیا جاسکے۔”
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 2/394)
n امام ابن حبانaفرماتے ہیں : یَأْتِي بِالْـأَشْیَاءِ الْمُنْکَرَۃِ الَّتِي یُعْلَمُ مِنْ کُتُبِ الْحَدِیثِ أَنَّہ، لَیْسَ لَہَا أَصْلٌ یُّرْجَعُ إِلَیْہِ .
”یہ ایسی منکر روایات بیان کرتا ہے کہ کتب ِ حدیث کی طرف رجوع کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کوئی ایسی اصل نہیں جس پر اعتماد کیا جا سکے۔”(المجروحین : 1/256)
n امام حاکمaفرماتے ہیں : حَدَّثَ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ، وَأَیُّوبَ السُّخْتَیَانِيِّ، وَمِسْعَرٍ، وَغَیْرِہٖ بَأَحَادِیثَ مَوْضُوعَۃٍ .
”اس نے عبید اللہ ، امام ایوب سختیانی ، مسعر وغیرہ کی طرف منسوب کر کے من گھڑت احادیث بیان کی ہیں۔” (المدخل إلی الصحیح للحاکم، ص : 131,130)
n امام بیہقیaنے اس کی ایک حدیث کو ”غیرقوی” قرار دیا ہے۔
(شعب الإیمان للبیہقي : 6/187، ح : 7861)
n حافظ ابونعیم اصبہانیaفرماتے ہیں : حَدَّثَ عَنْ أَیُّوبَ السُّخْتَیَانِيِّ، وَعُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، وَمِسْعَرٍ بِالْمَنَاکِیرِ . ”اس نے امام ایوب سختیانی، عبیداللہ بن عمر اور مسعر کی طرف منسوب کر کے منکر روایات بیان کی ہیں۔”
(الضعفاء للأصبہاني : 52)
n حافظ ذہبیaنے اسے کذاب قرار دیا ہے۔(الکشف الحثیث : 718)
نیز فرماتے ہیں : أَحَدُ الْمَتْرُوکِینَ . ”یہ ایک متروک راوی ہے۔”
(المغني للذہبي : 2/809)
مزید فرماتے ہیں : وَہُوَ مُتَّہَمٌ، وَاہٍ . ”یہ متہم بالکذب اور کمزور راوی ہے۔”(تاریخ الإسلام للذہبي : 6/458)
n ابن طاہر مقدسیaکہتے ہیں : مَتْرُوکُ الْحَدِیثِ .
”یہ متروک الحدیث راوی ہے۔”(معرفۃ التذکرۃ في الأحادیث الموضوعۃ : 1/214)
البتہ اس کے بارے میں حافظ خلیلیaفرماتے ہیں : مَشْہُورٌ بِالصِّدْقِ وَالْعِلْمِ . ”یہ شخص صدق اور علم کے ساتھ مشہور ہے۔”(الإرشاد للخلیلي : 3/975)
یہ حافظ خلیلیaکا تسامح ہے، انہیں اس کی شخصیت کے بارے میں علمائے کرام کی جروح کا علم نہیں ہو سکا ہو گا۔محدثین کرام کے اتفاقی فیصلے کے خلاف ان کی یہ رائے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔
ثابت ہوا کہ یہ کتاب بھی امام ابوحنیفہ کی طرف جھوٹی منسوب ہے۔یہ کتاب بھی ضلالت و گمراہی سے اٹی پڑی ہے۔اس میں بھی اہل سنت والجماعت کے اتفاقی عقائد کی واضح طور پر خلاف ورزی کی گئی ہے۔
3 کتاب الحِیَل : یہ کتاب امام ابوحنیفہ سے ثابت ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا میں باقی نہیں رکھا۔ اس کا اب کوئی وجود نہیں ملتا۔
اس کتاب کے بارے میں امام خطیب بغدادیaفرماتے ہیں :
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ الحَنَّائِيُّ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الشَّافِعِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ السُّلَمِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَۃَ الرَّبِیعُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ، قَالَ : مَنْ نَّظَرَ فِي کِتَابِ الْحِیَلِ لِأَبِي حَنِیفَۃَ، أَحَلَّ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ، وَحَرَّمَ مَا أَحَلَّ اللّٰہُ .
”ہمیں محمد بن عبیداللہ حنائی نے بتایا ، وہ کہتے ہیں : ہمیں محمد بن عبد اللہ شافعی نے خبر دی، انہوں نے کہا : ہمیں محمدبن اسماعیل سلمی نے بتایا، وہ بیان کرتے ہیں : ہمیں ابوتوبہ ربیع بن نافع نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں : ہمیں امام عبد اللہ بن مبارکaنے فرمایا : جو شخص امام ابوحنیفہ کی کتاب الحیل کا مطالعہ کرے گا ، وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کوحلال کہنے لگے گا اور اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے لگے گا۔”(تاریخ بغداد : 13/426، وسندہ، صحیحٌ)
اس روایت کی سند کے راویوں کے بارے میں ملاحظہ فرمائیے !
1 امام ابوبکر احمد بن علی، المعروف خطیب بغدادیaثقہ امام ہیں۔ان کے بارے میں حافظ ذہبیaیوں رقمطراز ہیں : أَحَدُ الْحُفَّاظِ الْـأَعْلَامِ، وَمَنْ خَتَمَ بَہِ اتْقَانُ ہٰذَا الشَّأْنِ، وَصَاحِبُ التَّصَانِیفِ الْمُنْتَشِرَۃِ فِي الْبُلْدَانِ .
”آپaان علمائے کرام میں سے تھے جو حافظ الحدیث اور علامہ تھے۔ان پر علم کی پختگی ختم ہو گئی۔آپ کی بہت ساری تصانیف ہیں جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔”
(تاریخ الإسلام للذہبي : 10/175)
2 محمد بن عبیداللہ بن یوسف حنائی کے بارے میں امام خطیب فرماتے ہیں :
کَتَبْنَا عَنْہُ، وَکَانَ ثِقَۃً مَّأْمُونًا، زَاہِدًا، مُلَازِمًا لِّبَیْتِہٖ .
”ہم نے ان سے احادیث لکھی ہیں۔ وہ ثقہ مامون ، عابد و زاہد تھے اور اپنے گھر میں ہی مقیم رہتے تھے۔”(تاریخ بغداد للخطیب البغدادي : 3/336)
3 امام ابوبکر محمد بن عبد اللہ بن ابراہیم شافعی کے بارے میں ناقد رجال حافظ ذہبیaفرماتے ہیں : اَلْإِمَامُ، الْمُحَدِّثُ، الْمُتْقِنُ، الْحُجَّۃُ، الْفَقِیہُ، مُسْنِدُ الْعِرَاقِ . ”آپ امام ، محدث، راسخ فی العلم ، حجت ، فقیہ اور عراق کے محدث تھے۔”(سیر أعلام النبلاء للذہبي : 16/40,39)
4 محمد بن اسماعیل سلمی ثقہ حافظ ہیں۔(تقریب التہذیب لابن حجر : 5738)
5 ابو توبہ ربیع بن نافع ثقہ حجت ہیں۔(تقریب التہذیب لابن حجر : 1902)
6 امام عبد اللہ بن مبارک ثقہ ، ثبت ، فقیہ ، عالم ، جواد اور مجاہد ہیں۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : 3570)
4 کتاب الوصِیَّۃ : یہ کتاب بھی امام ابوحنیفہ کی طرف غلط منسوب کی گئی ہے۔امام صاحب تک اس کتاب کی سند یہ ہے:
أبو طاہر محمّد بن المہديّ الحسینيّ، عن إسحاق بن منصور المسیاريّ، عن أحمد بن عليّ السلیماني، عن حاتم بن عقیل الجوہريّ، عن أبي عبد اللّٰہ محمد بن سماعۃ التمیميّ، عن أبي یوسف، عن الإمام أبي حنیفۃ . (أصول الدین عن أبي حنیفۃ للدکتور محمّد الخمیس، ص : 139)
اب اس سند کے راویوں کے بارے میں مختصر جائزہ پیش خدمت ہے :
4۔1 محمد بن مہدی حسینی ، اسحاق مسیاری، احمد سلیمانی اور حاتم جوہری، چاروں نامعلوم و مجہول ہیں۔کتب ِ رجال میں ان کا ذکر نہیں ملتا۔
5 قاضی ابویوسف جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف” راوی ہے۔
یہ کتاب اہل سنت والجماعت کے عقائد کے خلاف خرافات سے بھری پڑی ہے۔
5 رسالۃ أبي حنیفۃ إلی عثمان البتّي : یہ رسالہ گمراہ کن عقیدہ ”ارجائ” پر مشتمل ہے۔ اس کی سند امام ابوحنیفہ تک یہ بیان کی گئی ہے :
یحیی بن مطرّف البلخيّ، عن أبي صالح محمّد بن الحسین السمرقنديّ، عن أبي معید سعدان بن محمّد البستي، عن أبي الحسن عليّ بن أحمد الفارسيّ، عن نصیر بن یحیی البلخيّ، عن محمّد بن سماعۃ التمیميّ، عن أبي یوسف، عن أبي حنیفۃ .
(مقدمۃ کتاب العالم والمتعلّم للکوثري، ص : 6,5)
اس کے راویوں کا مختصر حال درج ذیل ہے :
1۔4 یحییٰ بن مطرف بلخی، محمد بن حسین سمرقندی ، سعدان بن محمد بستی، علی بن احمد فارسی ، چاروں میں سے کسی کا کسی بھی کتاب میں تذکرہ نہیں ملتا۔یہ مجہول انسان ہیں۔
5 نصیر بن یحییٰ بلخی راوی بھی ”مجہول” ہے۔ اس کے متعلق ادنیٰ کلمہ توثیق بھی چابت نہیں ہو سکا۔
6 قاضی ابو یوسف جمہور کے نزدیک ”ضعیف” راوی ہے۔ خود امام ابوحنیفہ نے ابویوسف سے فرمایا تھا : لَا تَرْوِ عَنِّي شَیْئًا، فَإِنِّي وَاللّٰہِ مَا أَدْرِي أُخْطِیئُ أَنَا أَمْ أُصِیبُ ؟ ”تم مجھ سے کوئی بات روایت نہ کرنا کیونکہ اللہ کی قسم ، میں نہیں جانتا کہ غلط بات کہہ رہا ہوتا ہوں یا درست !”(تاریخ بغداد للخطیب : 13/424، وسندہ، صحیحٌ)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.