1,186

اتباع رسول ہی کیوں؟ علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیوں ؟

ہم پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرض ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اللہ کادین ہیں ۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے یوں فرمایا :
انّی قد ترکت فیکم ما إن اعتصمتم بہ فلن تضلّوا أبدا : کتاب اللّٰہ وسنّۃ نبیّہ ۔
”یقینا میں نے تم میں ایسی چیزیں چھوڑدی ہیں کہ اگر تم ان کو تھام لو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے ، ایک اللہ کی کتاب اوردوسرے اس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکی سنت ۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/٩٣، وسندہ، حسنٌ)
اس کا راوی عبداللہ بن عبداللہ بن اویس بن مالک جمہور کے نزدیک ”حسن الحدیث” ہے ۔
حافظ نووی رحمہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں : وثّقہ الأکثرون ، واحتجّوا بہ ۔
”اکثر محدثین نے اسے ثقہ کہا ہے اور ان کی روایات سے حجت لی ہے ۔”
(شرح صحیح مسلم : ٢/١٩٧، تحت حدیث : ٢٠٩٤)
دوسرا راوی اسماعیل بن ابی اویس بھی جمہور کے نزدیک ”ثقہ” ہے ۔
b فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ ) (النساء : ٤/٨٠)
”جس شخص نے رسول کی اطاعت کی ، اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ۔”
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (م ١٩٨ھ)فرمایا کرتے تھے : إنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ھو المیزان الأکبر ، فعلیہ تعرض الأشیاء علی خلقہ وسیرتہ وھدیہ ، فما وافقھا فھو الحقّ وما خالفھا فھو الباطل ۔     ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑی کسوٹی ہیں ، لہٰذا آپ ہی کے اخلاق ، سیرت اور طریقہ پر تمام اشیاپیش کی جاتی ہیں ۔ جوان کے موافق ہو ، وہ حق اور جو ان کے مخالف ہو ، وہ باطل ہیں ۔”(الجامع لاخلاق الراوی للخطیب : ٨ ، وسندہ، صحیحٌ)
b اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ( اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذَا دُعُوْا إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ أَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ )    (النور : ٢٤/٥١)
”جب مؤمنوں کو اللہ اور رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو ان کا قول یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور پیروی کی ۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔”
b نیز ارشاد ہے : ( فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہٖ أَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ) (النور : ٢٤/٦٣)
”جو لوگ اس (نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)کے امرکی خلاف ورزی کرتے ہیں ، ان کو ڈرنا چاہیے کہ ان کو کوئی عظیم فتنہ یا دردناک عذاب پہنچ جائے گا۔”
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ اس آیت ِ کریمہ کے تحت لکھتے ہیں :
وقولہ تعالیٰ : ( فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہٖ ) ، أی أمر رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وھو سبیلہ ومنھاجہ وطریقتہ وشریعتہ ، فتوزن الأقوال والأعمال بأقوالہ وأعمالہ ، فما وافق ذلک قبل وما خالفہ فھو مردود علی قائلہ وفاعلہ ، کائنا من کان ۔    ”فرمانِ باری تعالیٰ ( فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہ )(النور : ٢٤/٦٣) سے مراد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلمکا امر ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے راستہ ، منہج ، طریقہ اورآپ کی شریعت کانام ہے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے اقوال وافعال کے ساتھ ہی (سب لوگوں کے)اقوال وافعال پرکھے جاتے ہیں ۔ جو قول وفعل آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے اقوال وافعال کے موافق ہو ،قبول کیا جائے گا اور جو ان کے خلاف ہو ، اسے اس کے قائل وفاعل پر ردّ کر دیا جائے گا ، خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔”
(تفسیر ابنِ کثیر : ٥/٥٧٨، بتحقیق عبد الرزاق المہدی)
b مزید فرمایا :      ( فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ) (النساء : ٤/٦٥)
”(اے نبی !)تیرے رب کی قسم ! وہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے ، جب تک وہ آپ کو اپنے جھگڑوں میں فیصل وحاکم تسلیم نہ کرلیں ، پھر وہ آپ کے فیصلے پر اپنے نفسوںمیں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اسے دل سے تسلیم کریں ۔”
علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:      ھذہ کافیۃ لمن عقل وحذر وآمن باللّٰہ والیوم الآخر ، وأیقن أنّ ھذا العھد عھد ربّہ تعالیٰ الیہ ووصیّتہ عزّ وجلّ الواردۃ علیہ ، فلیفتّش الإنسان نفسہ ، فإن وجد فی نفسہ ممّا قضاہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی کلّ خبر یصحّحہ ممّا قد بلغہ ، أو وجد نفسہ غیر مسلمۃ لما جاء ہ عن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ووجد نفسہ مائلۃ إلی قول فلان وفلان ، أو إلی قیاسہ واستحسانہ ، أو وجد نفسہ تحکّم فیما نازعت فیہ أحدا دون رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم من صاحب فمن دونہ ، فلیعلم أنّ اللّٰہ تعالیٰ قد أقسم ، وقولہ الحقّ ، إنّہ لیس مؤمنا ، وصدق اللّٰہ تعالیٰ ، وإذا لم یکن مؤمنا فھو کافر ، ولا سبیل إلی قسم ثالث ۔۔۔     ”یہی آیت اس شخص کے لیے کافی ہے ، جو عقل مند اور ہوشیار ہو ، نیز اللہ اور یوم ِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور یہ یقین رکھتا ہو کہ یہ وعدہ اس کے رب نے اس سے لیا ہے اور یہ وصیت اس کی طرف سے اس پر لاگو ہے ۔ انسان کو اپنے نفس کی تشخیص کرنی چاہیے ۔ اگروہ صحیح حدیث میں موجود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے فیصلے کے بارے میں اپنے نفس میں تنگی محسوس کرے یا اپنے نفس کو پائے کہ وہ اس چیزکو تسلیم ہی نہیں کرتی ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی طرف سے اس تک پہنچی ہے یا اپنے نفس کو فلاں اورفلاں کے قول یا اپنے ذاتی قیاس واستحسان کی طرف مائل ہونے والا پائے یا اپنے نفس کو پائے کہ وہ اختلاف میں فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی بجائے کسی صحابی یا بعد والے کی طرف لے کر جاتی ہے تووہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھائی ہے اوراس کا فرمان حق ہے کہ وہ مؤمن نہیں ۔ اللہ نے سچ فرمایا ہے ،جب وہ مؤمن نہیں تو کافر ہی ہے ۔ کسی تیسری قسم کی طرف تو کوئی راستہ ہی نہیں ہے ۔”(الاحکام لابن حزم : ١/١١١)
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا )(النساء : ٥٩)
”پھر اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور روز ِ آخرت پر ایمان رکھتے ہوتو ، یہی بہتر اور احسن کام ہے انجام کے اعتبار سے ۔”
حافظ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :      وفی ھذہ الآیات أنواع من العبر الدّالّۃ علی ضلال من تحاکم إلی غیر الکتاب والسّنّۃ وعلیٰ نفاقہ ، وإن زعم أنّہ یرید التّوفیق بین الأدلّۃ الشّرعیّۃ وبین ما یسمّیہ ھو عقلیّات ، من الأمور المأخوذۃ عن بعض الطّواغیت من المشرکین وأھل الکتاب وغیر ذلک من أنواع الاعتبار ۔    ”ان آیات میں کئی قسم کی عبرتیں ہیں ، جو اس شخص کی گمراہی اور اس کے نفاق پر دلیل ہیں، جس نے کتاب وسنت کے علاوہ سے اپنے مسئلے کا فیصلہ کروایا ہے ، اگرچہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ وہ شرعی دلائل اور اپنے تئیں عقلیات کے درمیان تطبیق چاہتا ہے ۔ یہ وہ امور اور کئی دوسرے اعتبارات ہیں ، جو بعض مشرک طاغوتوں اور اہل کتاب سے لیے گئے ہیں ۔”(درء تعارض العقل والنقل : ١/٥٨)
علامہ ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ (م ٧٩٢ھ)لکھتے ہیں :      فالواجب کمال التّسلیم للرّسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم والانقیاد لأمرہ ، وتلقّی خبرہ بالقبول والتّصدیق ، دون أن نعارضہ بخیال باطل نسمّیہ معقولا أو نحملہ شبہۃ أو شکًّا ، أو نقدّم علیہ آراء الرّجال ، وذبالۃ أذھانھم ، فنوحّدہ بالتّحکیم والتّسلیم والانقیاد والإذعان ، کما نوحّد المرسل بالعبادۃ والخضوع والذّل والإنابۃ والتّوکّل ، فھما توحیدان لا نجاۃ للعبد من عذاب اللّٰہ الّا بھما ، توحید المرسل وتوحید متابعۃ الرّسول ۔۔۔
”چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے لیے کمال تسلیم ،آپ کے حکم کے لیے کمال فرمانبرداری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو قبولیت وتصدیق کے ساتھ لینا واجب ہے ، بغیر اس کے کہ ہم اس کے مقابلے میں کوئی خیالِ باطل لائیں ، جسے ہم معقول کا نام دیتے ہوں یا ہم اس میں کوئی شبہ یا شک پیدا کریں یا اس پر لوگوں کی آراء اور ان کے اذہان کے کوڑے کرکٹ کو مقدم کریں ، لہٰذا ہم فیصلے ، تسلیم، اطاعت اور فرمانبرداری میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توحید کے قائل ہیں ، جیسا کہ ہم عبادت ، خشوع وخضوع ، عاجزی ، انابت اورتوکل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو بھیجنے والے (اللہ تعالیٰ )کی توحید کے قائل ہیں ۔ یہ دوقسم کی توحید ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بندے کی نجات اس دوقسم کی توحید کے بغیر ممکن نہیں ، یعنی بھیجنے والے اللہ کی توحید اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی اطاعت وفرمانبرداری کی توحید ۔”(شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ص ١٦٠)
نیز لکھتے ہیں :     ومن المحال أن لا یحصل الشّفاء والھدی ، والعلم والیقین من کتاب اللّٰہ وکلام رسولہ ، ویحصل من کلام ھؤلاء المتحیّرین ، بل الواجب أن یجعل ما قالہ اللّٰہ ورسولہ ھو الأصل ، ویتدبّر معناہ ، ویعقلہ ، ویعرف برھانہ ، ودلیلہ العقلیّ والخبریّ السّمعیّ ، ویعرف دلالتہ علی ھذا وھذا ، ویجعل أقوال النّاس الّتی توافقہ وتخالفہ متشابھۃ مجملۃ ، فیقال لأصحابھا : ھذہ الألفاظ تحتمل کذا وکذا ، فإن أرادوا بھا ما یوافق خبر الرّسول قبل ، وإن أرادوا بھا ما یخالفہ ردّ ۔
”یہ ناممکن بات ہے کہ شفا ، ہدایت اورعلم ویقین اللہ ورسول کے کلام سے حاصل نہ ہو اور ان حیران وپریشان لوگوں کی کلام سے حاصل ہوجائے ، بلکہ ضروری ہے کہ اللہ ورسول کے فرمان کو اصل بنایاجائے ، اس کے معنیٰ میں غور وفکر کیا جائے ، اسے سمجھا جائے ، اس کی عقلی اور خبری وسمعی دلیل وبرہان کو پہچانا جائے، اِس اور اُس کلام پر اس کی دلالت سمجھا جائے اور لوگوں کے وہ اقوال ، جو اس کے موافق اور مخالف ہوں ، ان کو متشابہ ومجمل قرار دے کر ان کے قائلین سے کہا جائے ، یہ الفاظ اس اس بات کا احتمال رکھتے ہیں ۔ اگر انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلمکی حدیث کے موافق مراد لی ہو تو قبول کر لیا جائے اور اگران کی مراد اس کے خلاف ہوتو اسے ردّ کردیا جائے ۔”(شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ص ١٦٧)
b فرمانِ باری تعالیٰ ہے :     ( إِنّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَإِذَا کَانُوْا مَعَہ، عَلٰی أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْہَبُوْا حَتّٰی یَسْتَأْذِنُوْہُ ) (النور : ٢٤/٦٢)
”مؤمن تو وہ لوگ ہیں ، جو اللہ ورسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب وہ اس (نبی )کے ساتھ کسی اجتماعی امر میں ہوتے ہیں تو اس وقت تک نہیں جاتے ، جب تک اس سے اجازت نہ لے لیں ۔”
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ اس آیت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
فإذا جعل من لوازم الإیمان أنّھم لا یذھبون مذھبا إذا کانوا معہ ، إلّا باستئذانہ، فأوّل أن یکون من لوازمہ أن لا یذھبوا إلی قول ولا مذھب علمیّ إلّا بعد استئذانہ، وإذنہ یعرف بدلالۃ ما جاء بہ علی أنّہ أذن فیہ ۔     ”جب یہ بات ایمان کے لوازمات میں سے کر دی گئی ہے کہ وہ جب نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی اجازت کے بغیرکسی طرف نہیں جاسکتے۔ سب لوازم میں سے پہلا تو یہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی اجازت کے بغیر کسی قول اور علمی راستے کی طرف نہ جائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین سے معلوم ہوگاکہ آپصلی اللہ علیہ وسلمنے اس بارے میں اجازت دی ہے ۔”(اعلام الموقعین عن رب العالمین : ١/٥١۔٥٢)
فرمانِ باری تعالیٰ : ( ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلَا تَتَّبِعْ أَھْوَاءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ) (الجاثیۃ : ٤٥/١٨)     ”پھر ہم نے آپ کو دین کے کھلے راستے پر قائم کردیا ، آپ اس کی پیروی کر یں اور جاہل لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں ۔”
امام ِ اوزاعی رحمہ اللہ (م١٥٧ھ)نے مخلد بن حسین سے کہا :      یا أبا محمّد إذا بلغک عن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم حدیث فلا تظنن غیرہ ، ولا تقولن غیرہ ، فإنّ محمّدا إنّما کان مبلغا عن ربہ ۔ ”اے ابو محمد ! جب تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی حدیث پہنچ جائے تو کسی دوسری بات کا نہ سوچ ، نہ اس کے علاوہ کوئی اوربات کہہ ، کیونکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم تواپنے ربّ کی طرف سے وحی پہنچائے جاتے تھے ۔”(الفقیہ والمتفقہ للخطیب : ١/١٤٩، وسندہ، حسنٌ)
عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنھما سے کہا :      أضللت النّاس ! قال : وما ذاک یا عریۃ ؟ قال : تأمر بالعمرۃ فی ھؤلاء العشر ، ولیست فیھنّ عمرۃ ، فقال : أولا تسأل أمّک عن ذلک ؟ فقال عروۃ : فإنّ أبا بکر وعمر لم یفعلا ذلک ، فقال ابن عبّاس : ھذا الّذی أھلککم ـ واللّٰہ ـ ما أری الّا سیعذّبکم ، إنّی أحدّثکم عن النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وتجیؤنی بأبی بکر وعمر ، فقال : عروۃ : ھما واللّٰہ ! کانا أعلم بسنّۃ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وأتبع لھا منک ۔
”آپ نے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے ، سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا ، اے عروہ !کیا بات ہے ؟ کہا ، آپ ان دس دنوں (عشرہئ ذی الحجہ )میں عمرہ کا حکم دیتے ہیں ، حالانکہ ان میں عمرہ نہیں ہوتا ، آپ رضی اللہ عنھما نے فرمایا ، کیا آپ اپنی والدہ سے اس بارے میں سوال نہیں کرلیتے ؟ عروہ نے کہا ، سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھما نے یہ کام نہیں کیا ، سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا ،اللہ کی قسم ! اسی چیز نے تمہیں ہلاک کردیا ہے ، میرے خیال میں اللہ تم پر عذاب نازل کرے گا ۔ میں تمہیں نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تم ابوبکر وعمررضی اللہ عنھما (کی بات)کو میرے پاس لاتے ہو ؟ عروہ نے کہا ، اللہ کی قسم ! وہ دونوں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی سنت کو زیادہ جاننے والے تھے اور اس کی پیروی آپ سے زیادہ کرنے والے تھے ۔”
(الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی : ١/١٤٥، وسندہ، صحیحٌ)
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ اس قول کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :      قد کان أبو بکر وعمر علی ما وصفھما بہ عروۃ إلّا أنّہ لا ینبغی أن یقلّد أحد فی ترک ما ثبتت بہ سنّۃ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔    ”سیدنا ابوبکر وسیدنا عمر رضی اللہ عنھما اسی طرح تھے ، جیسا کہ عروہ نے بیان کیا ہے ، مگر کسی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی اس چیز کو چھوڑنے میں ان کی بھی تقلید کرے ، جو سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلمسے ثابت ہوجائے ۔”
نوٹ : یہ ثابت نہیں کہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنھما نے ان دس دنوں میں عمرہ سے روکا ہو ۔ ایک غیرواجب کام کانہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ اس آدمی کے نزدیک جائز نہیں،اگر شیخین ان دنوں میں عمرہ کو ناجائز بھی سمجھتے ہوں تواسے مخالفت نہ کہیںگے، بلکہ اسے عدم ِ علم پر محمول کریں گے ،کیونکہ صحابہ کرام ] حدیث پہنچ جانے کے بعد قطعاً مخالفت نہیں کرتے تھے ۔
امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے لوگوں کی طرف خط لکھا :      لا رأی لأحد مع سنّۃ سنّھا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔     ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کی موجودگی میں کسی کی کوئی رائے معتبر نہیں ۔”(التاریخ الکبیر لابن ابی خیثمۃ : ٩٣٣٥، وسندہ، صحیحٌ)
امام مالک بن انس رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :      کلّما جاء نا رجل أجدل من رجل أرادنا أن نردّ ما جاء بہ جبریل إلی النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔
”جب بھی ہمارے پاس کوئی سخت جھگڑالو شخص آتا ہے ، وہ ہم سے اس چیز کو ردّ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے ، جس کو جبریل u ، نبی ئ کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی طرف لے کر آئے تھے ۔”
(شرف اصحاب الحدیث للخطیب : ١، وسندہ، صحیحٌ)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      کلّ شیء خالف أمر رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سقط ، ولا یقوم معہ رأی ولا قیاس ، فإنّ اللّٰہ تعالیٰ قطع العذر بقول رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فلیس لأحد معہ أمر ولا نھی غیر ما أمر ھو بہ ۔ ”ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے فرمان کی مخالفت کرتی ہے ، وہ ساقط ہے ، اس (حدیث ِ رسول) کے مقابلے میں کوئی رائے اور قیاس نہیں ٹھہر سکتا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے قول کے ساتھ اس عذر کو ختم کردیا ہے ، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے امر ونہی کے ساتھ کسی کے لیے کوئی امر ، کوئی نہی قبول نہیں ۔”(کتاب الام للشافعی : ٢/١٩٣)
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :      ومن المعلوم أنّک لا تجد أحدا ممّن یردّ نصوص الکتاب والسّنّۃ بقولہ إلّا وھو یبغض ما خالف قولہ ویودّ أنّ تلک الآیۃ لم تکن نزلت وأنّ ذلک الحدیث لم یرد ، لو أمکنہ کشط ذلک من المصحف لفعلہ ۔     ”یہ پکی بات ہے کہ آپ کسی ایسے شخص کو نہیں پائیں گے ، جو اپنے قول کے ساتھ کتاب وسنت کی نصوص کو رد کرتا ہے ، مگر وہ اپنے قول کے خلاف آنے والی بات کو ناپسند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ آیت نازل نہ ہوتی اور یہ حدیث وارد نہ ہوئی ہوتی ۔ اگر اس کے بس میں ہو تو وہ اس آیت کو مصحف سے کھرچ ڈالتا ۔”(درء تعارض العقل والنقل : ٥/٢١٧)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      فمن عرض أقوال العلماء علی النّصوص ووزنھا بھا وخالف منھا ما خالف النّص ، لم یھدر أقوالھم ولم یھضم جانبھم ، بل اقتدی بھم ، فإنّھم کلّھم أمروا بذلک ، فمتّبعھم حقّا من امتثل ما أوصوا بہ ، لا من خالفھم ، فخلافھم فی القول الّذی جاء النّص بخلافہ أسھل من مخالفتھم فی القاعدۃ الکلّیۃ الّتی أمروا ودعوا الیھا من تقدیم النّص علی أقوالھم ومن ھھنا یتبیّن الفرق بین تقلید العالم فی کلّ ما قال وبین الاستعانۃ بفھمہ والاستضاء ۃ نبور علمہ ، فالأوّل یأخذ قولہ من غیر نظر فیہ ولا طلب لدلیلہ من الکتاب والسّنّۃ ، بل یجعل ذلک کالحبل الّذی یلقیہ فی عنقہ یقلّدہ بہ ، ولذلک سمّی تقلیدا بخلاف ما استعان بفہمہ واستضاء بنور علمہ فی الوصول إلی الرّسول صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ ۔
”جس نے علمائے کرام کے اقوال کو نصوص پر پیش کیا اور نصوص کے ساتھ ان کا وزن کیا ، جن کی نصوص نے مخالفت کی ، ان کی اس نے بھی مخالفت کی تواس شخص نے ان اقوال کو رائیگاں قرار نہیں دیا اور نہ ہی ان کی شان میں کوئی کمی کی ہے ، بلکہ اس نے تو ان علمائے کرام کی پیروی کی ہے ، کیونکہ ان سب نے یہی حکم دیاتھا ، لہٰذا ان کا حقیقی پیروکار وہ ہے ، جو ان کی وصیت کی تعمیل کرتا ہے ، نہ کہ وہ جو ان کی مخالفت کرے ۔ان علمائے کرام کی اس قول میں مخالفت کرنا ، جو نصوص کے خلاف آیا ہو ، اس سے بہتر ہے کہ نص کو ان کے اقوال پر مقدم کرنے والے قاعدہ کلیہ میں ان کی مخالفت کی جائے ، جس کا انہوں نے حکم دیا ہے اور دعوت دی ہے ، اسی بات سے کسی عالم کے ہر قول میں اس کی تقلید کرنے اور اس کے فہم سے مدد اور اس کے علم سے روشنی حاصل کرنے کے درمیان فرق ہوجاتا ہے ۔ پہلی قسم کا شخص عالم کی بات کو بغیر تحقیق اور کتاب وسنت سے دلیل طلب کیے لے لیتا ہے ، بلکہ اسے رسی کی طرح اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے اور اس کا پٹہ بنالیتا ہے ، اسی لیے اس کا نام تقلید رکھا گیا ہے ، برخلاف اس شخص کے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمتک پہنچنے کے لیے عالم کے فہم سے مدد اور اس کے علم سے نور حاصل کرتا ہے ۔”(الروح لابن القیم : ٢٦٤)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.