1,282

جبری طلاق واقع نہیں ہوتی، شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

جبری طلاق واقع نہیں ہوتی
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

جبری طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ اس پر قرآن وحدیث کی دلائل شاہد ہیں، نیز ائمہ محدثین کرام رحمہم اللہ کی تصریحات بھی موجود ہیں:
دلیل نمبر 1 : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
( مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِہِ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِیمَانِ )(النحل : ١٠٦)
”جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے(اس پر اللہ کا غضب ہے)، سوائے اس شخص کے جسے مجبور کردیا جائے ، حالانکہ اس کادل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو۔”
جس کے دل میں ایمان پختہ ہو ،ا س کوکفر پرمجبور کیاجائے تو وہ کافر نہیں ہوتا ، اسی طرح طلاق کا ارادہ نہ ہو توجبری طلاق بالاولیٰ واقع نہیں ہوگی۔
امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں : الشرک أعظم من الطلاق ۔
”شرک طلاق سے بڑا معاملہ ہے۔” (سنن سعید بن منصور : ١١٤٢، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح” قراردیا ہے۔(فتح الباری : ٩/٣٩٠)
امام شافعی رحمہ اللہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فلمّا وضع اللّٰہ عنہ سقطت أحکام الإکراہ عن القول کـلّہ ، لأنّ الأعظم إذا سقط عن الناس سقط ما ہو أصغر منہ ۔
”جب اللہ تعالیٰ نے انسان سے(مجبوری کی صورت میں ) کفر معاف کردیا ہے تو مجبوری کی صورت میں کہے گئے تمام دیگر اقوال بھی معاف ہیں ، کیونکہ جب لوگوں کوبڑی چیز معاف کردی جائے تو چھوٹی چیز خود بخود معاف ہوجاتی ہے۔”(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/١٢٢)
علامہ ابنِ رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں : فأمّا الخطأ والنسیان ، فقد صرّح القرآن بالتجاوز عنہما ۔۔۔ وأمّا الإکراہ فصرّح القرآن أیضا بالتجاوز عنہ ۔
”خطا اورنسیان سے تجاوز کے بارے میں قرآنِ کریم نے صراحت کرد ی ہے ، اسی طرح مجبوری کی صورت میں کیے گئے کام سے معافی کے بارے میں قرآنِ کریم نے صراحت کی ہے۔”
(جامع العلوم والحکم لابن رجب : ص ٤٥٢۔٤٥٣)
دلیل نمبر 2 : سیدنا ابنِ عباسw سے روایت ہے کہ رسولِ اکرمeنے فرمایا: إنّ اللّٰہ وضع عن أمّتی الخطأ والنسیان وما استکرہوا علیہ ۔ ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطا ، نسیان اور اس چیز کو معاف کردیا ہے ، جس پر انہیں مجبور کردیا جائے۔”(شرح معانی الآثار للطحاوی : ٣/٩٥، الإقناع لابن المنذر : ١٩٦، المعجم الصغیر للطبرانی : ٧٦٥، سنن الدارقطنی : ٤/١٧٠۔١٧١، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٧/٣٥٦، ١٠/٦٠۔٦١، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان(٧٢١٩)نے ”صحیح” کہا ہے اور امام حاکم (٢/١٩٨)نے اسے بخاری ومسلم کی شرط پر”صحیح”قراردیا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ عبدالحق الاشبیلی نے اس کی سند کو”صحیح” کہا ہے۔(تفسیر القرطبی : ١٠/١٨٢)
امام بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : جوّد إسنادہ، بشر بن بکر ، وہو من الثقات ۔
”اس کی سند کو بشر بن بکر نے عمدہ بیان کیا ہے اور وہ ثقہ راویوں میں سے ہیں۔”
حافظ نووی رحمہ اللہ نے اسے ”حسن” کہا ہے ۔(روضۃ الطالبین : ٨/١٩٣)
نیز حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ”حسن” کہا ہے۔(موافقۃ الخبر الخبر : ١/٥١٠)
فائدہ : امام حسن بصری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : إنّ اللّٰہ تجاوز لہذہ الأمّۃ عن النسیان ، والخطأ ، وما أکرہوا علیہ ۔ ”اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نسیان ، خطا اور مجبوری معاف کردی ہے۔”(سنن سعید بن منصور : ١١٤٤، وسندہ، صحیحٌ)
دلیل نمبر 3 : سیدنا ابنِ عباسw خود فرماتے ہیں :
لیس لمکرہ ، ولا لمضطہد طلاق ۔ ”مجبور ومقہور کی کوئی طلاق نہیں۔”
(سنن سعید بن منصور : ١١٤٣، وسندہ، حسنٌ)
اس کے راوی عبیداللہ بن طلحہ الخزاعی کوامام عجلی رحمہ اللہ (الثقات: ١٠٥٦)اور امام ابنِ حبان رحمہ اللہ (الثقات : ٧/١٣٧)نے ”ثقہ” کہا ہے۔
اس کے دوسرے راوی ابویزید المدنی کوامام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ نے ”ثقہ ” قراردیاہے۔
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٩/٤٥٩، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابوحاتم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یکتب حدیثہ ۔ ”اس کی حدیث لکھی جائے گی۔”(الجرح والتعدیل : ٩/٤٥٩)
دلیل نمبر 4،5 : ثابت بن الاحنف سے روایت ہے :
أنّہ تزوّج أمّ ولد لعبد الرحمن بن زید بن الخطّاب ، قال : فدعانی عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن بن زید بن الخطّاب ، فجئتہ ، فدخلت علیہ ، فإذا سیاط موضوعۃ ، وإذا قیدان من حدید ، وعبدان لہ قد أجلسہما ، فقال : طلقہا وإلّا والذی یحلف بہ فعلت بک کذا وکذا ، قال : فقلت : ہی الطلاق ألفا ، قال : فخرجت من عندہ ، فأدرکت عبد اللّٰہ بن عمر بطریق مکّۃ ، فأخبرتہ بالذی کان من شأنی ، فتغیّظ عبد اللّٰہ وقال : لیس ذلک بطلاق ، وإنّہا لم تحرّم علیک ، فارجع إلی أہلک ، قال : فلم تقرّرنی نفسی حتّی أتیت عبد اللّٰہ بن الزبیر ، وہو یومئذ بمکّۃ أمیر علیہا ، فأخبرتہ بالذی کان من شأنی ، وبالذی قال لی عبد اللّٰہ بن عمر ، قال : فقال لی عبد اللّٰہ بن الزبیر : لم تحرّم علیک ، فارجع إلی أہلک ۔ ”میںنے عبدالرحمن بن زیدبن الخطاب کی ام ولد لونڈی سے نکاح کیا۔ میں اس کے پاس آیااور اس پرداخل ہوا تو کوڑے لٹکے ہوئے تھے ۔ لوہے کی دو بیڑیاں تھیںاور دو غلام بٹھائے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے کہا : اپنی بیوی کو طلاق دے دے ورنہ اللہ کی قسم تجھے ایسا ایسا کردوں گا۔میں نے کہا: اسے ایک ہزار طلاق ۔میں اس کے پاس سے نکلا تو مکہ کے راستے میں سیدنا عبداللہ بن عمرwسے ملاقات ہوئی ۔میں نے ان کو اپناسارا واقعہ سنایا تو وہ غصے ہوگئے اورفرمایا : یہ کوئی طلاق نہیں ۔ وہ عورت تجھ پرحرام نہیں ہوئی۔ تواپنی بیوی کی طرف لوٹ جا۔ مجھے اطمینان نہ ہوایہاں تک کہ میں سیدنا عبداللہ بن زبیرwکے پاس آگیا اور ان سے اپنا واقعہ اور سیدنا عبداللہ بن عمرwکی بات کا ذکرکیا ۔ انہوں نے بھی کہا کہ تیری بیوی تجھ پرحرام نہیں ہوئی۔ تو اپنی بیوی کی طرف لوٹ جا۔”(الموطا للامام مالک : ٣٧٦، ح : ١٢٤٥، وسندہ، صحیحٌ)
ثابت ہوا کہ دو جلیل القدر صحابہ سیدناعبداللہ بن عمر اورسیدنا عبداللہ بن زبیرyکے نزدیک جبری طلاق واقع نہیں ہوتی۔
دلیل نمبر 6 :
ابوالزناد کہتے ہیں : حضرت عمر بن عبد العزیز أتی برجل کان یکون فی بنی حطمۃ یقال لہ : القمری ، ضربہ قومہ علی أن یطلّق امرأتہ ، وقالوا : لا ندعک واللّٰہ حتّی نقتلک ، أو تطلّقہا البتّۃ ، وجاء علی ذلک بالبیّنۃ ، فردّہا علیہ ۔ ”میں امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس حاضرہوا ۔ ان کے پاس ایک آدمی لایاگیا ، جوبنو حطمہ میں سے تھا ، اسے قمری کہا جاتا تھا۔ اس کی قوم نے اسے مارا کہ وہ اپنی بیوی کوطلاق دے ۔ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم !ہم تجھے نہیں چھوڑیں گے حتی کہ تو عورت پر تین طلاقِ بتہ دے یا ہم تجھے قتل کردیںگے ۔ وہ آدمی اس واقعہ پردلیل بھی لایا تو امام عمر ابن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس کی بیوی کو اس پرلوٹادیا۔”(سنن سعید بن منصور : ١١٣٢، وسندہ، حسنٌ)
دلیل نمبر 7 : مفتی ئ مکہ امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ :         انّہ کان لا یری طلاق المکرہ شیأا ۔
”وہ مجبور شخص کی طلاق کو کچھ بھی خیال نہیں کرتے تھے۔”
(سنن سعید بن منصور : ١١٤١، وسندہ، صحیحٌ)
نیز فرماتے ہیں : لیس بشیء ۔ ”ایسی طلاق کچھ بھی نہیں۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٥/٤٨، وسندہ، صحیحٌ)
دلیل نمبر 8،9 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ایسے انسان کے بارے میں فرماتے ہیں ، جسے طلاق پر مجبور کیاگیا ہو:
أرجو أن لا یکون علیہ شیء ۔ ”امید ہے کہ اس پر کچھ نہیںہوگا۔”
نیز فرماتے ہیں :     وحدّ المکرہ : إذا کان یخاف القتل ، أو ضربا شدیدا ، قال إسحاق : ہو کما قال بلا شکّ ۔ ”مجبور کی تعریف یہ ہے کہ اسے قتل کاڈر ہو یا سخت مار کا ڈر ہو۔ امام اسحق بن راہویہ فرماتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے جس طرح فرمایا ہے ، بلاشک وشبہ بات اسی طرح ہے۔”(مسائل الامام احمد واسحاق بروایۃ اسحاق بن منصور الکوسج : ٩٥٨)
دلیل نمبر 0 : امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک جبری طلاق واقع نہیں ہوتی، جیسا کہ بات گزرچکی ہے۔
تلک عشرۃ کاملۃ ۔        یہ پورے دس دلائل ہیں۔
شاہ ولی اللہ الدہلوی رحمہ اللہ جبری طلاق کے مفاسد ان الفاظ میں ذکرکرتے ہیں :
ثانیہما : أنّہ لو اعتبر طلاقہ ــ أی المکرہ ــ طلاقا لکان ذلک فتحا لباب الإکراہ ، فعسی أن یختطف الجبّار الضعیف من حیث لا یعلم الناس ، ویخیفہ بالسیف ، ویکرہہ علی الطلاق إذا رغب فی امرأتہ ، فلو خیّبنا رجاء ہ وقلبنا علیہ مرادہ کان ذلک سببا لترک مظالم الناس فیما بینہم بالإکراہ ۔۔۔
”دوسری بات یہ ہے کہ اگر مجبور شخص کی طلاق کو معتبر سمجھ لیا جائے تو اس طرح مجبور کرنے کادروازہ کھل جائے گا ۔ قریب ہے کہ طاقتور شخص کمزور کو اس طرح سے قابو کرلے کہ لوگوں کو معلوم نہ ہو اور وہ اسے اسلحہ کے زورپر دھمکالے اور اس کی بیوی میں رغبت ہوتواسے طلاق پر مجبور کرلے۔اگر ہم اس کی ارادے کو ناکام بنا دیں اور اس کی مراد کو واپس کردیں تو یہ چیزلوگوں کے آپس میں مجبور کرکے کیے گئے ظلم کوروکنے کا سبب ہوگی۔۔۔”(حجۃ اللہ البالغۃ : ٢/١٣٨)
علامہ ابنِ تیمیہ(مجموع الفتاوی : ٣٣/١١٠)، علامہ ابن القیم (زاد المعاد : ٥/٢٠٤، اعلام الموقعین : ٣/١٠٨، تہذیب السنن : ٦/١٨٧)وغیرہما کے نزدیک بھی جبری طلاق واقع نہیںہوتی۔حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وذہب الجمہور إلی عدم اعتبار ما یقع فیہ ۔ ”جمہور اس طرف گئے ہیں کہ مجبوری میں جو چیز واقع ہوتی ہے ، اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔”
(فتح الباری لابن حجر : ٩/٣٩٠)
امام بخاری رحمہ اللہ (صحیح البخاری مع فتح الباری : ٩/٣٨٨)اور علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ (المحلی : ١٠/٢٠٢، ٢٠٣) کا یہی موقف ہے کہ جس آدمی کوطلاق پرمجبور کیا جائے ، اس کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔علامہ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ”اس بنا پر مجبور شخص کی ہرکلام لغو ہے ۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں ۔قرآنِ کریم نے بتایا ہے کہ کوئی شخص اگر مجبور ہوکر کلمہئ کفرکہہ دے تو وہ کافر نہیں ہوگااورجسے اسلام پرمجبور کیاجائے ، وہ مسلمان نہیں ہوگا۔سنت نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجبور شخص کومعاف کردیا ہے ، وہ اس سے مؤاخذہ نہیں کرے گا۔۔۔رہے مجبور شخص کے افعال تو ان میں تفصیل ہے: جوافعال مجبوری کے ساتھ مباح ہیں ، ان پر معافی ہے ، جیسا کہ رمضان کے دن میں کھانا ، نماز میں حرکت اور احرام کی حالت میں سلا ہوا کپڑا پہننا وغیرہ۔ اورجو چیزیں مجبوری کی وجہ سے مباح نہیں ، ان پر مؤاخذہ ہوگا ، جیسا کہ بے گناہ کوقتل کرنا ، اس کا مال تلف کرنا ۔ ۔۔اقوال اورافعال میں فرق یہ ہے کہ افعال جب واقع ہوجائیں تو ان کی خرابی ختم نہیں ہوسکتی ، بلکہ ان کی خرابی ان کے ساتھ ہی رہتی ہے، برعکس اقوال کے کہ ان کو لغو کرنااور سونے والے اورمجنون کی طرح شمارکرنا ممکن ہے۔ جو فعل مجبوری کے ساتھ مباح نہیں ، اس کی خرابی ثابت ہوتی ہے ،برعکس قول کی خرابی کے کہ وہ اسی وقت ثابت ہوتی ہے ، جب کہنے والا اس کو جانتا ہواور مجبور نہ ہو۔”(زاد المعاد لابن القیم : ٥/٢٠٥۔٢٠٦)
علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہذا تلاعب بالدین ، ونعوذ باللّٰہ من ذلک ۔ ”یہ (مجبور کی طلاق کوشمارکرنا)دین کے ساتھ مذاق ہے۔ ہم ایسے کاموں سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔”(المحلی لابن حزم : ١٠/٢٠٥)
احناف کے نزدیک جبری طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ ان کے دلائل کا علمی وتحقیقی مختصرجائزہ پیشِ خدمت ہے:
دلیل نمبر 1 : ایک صحابی سے روایت ہے :
أنّ رجلا کان نائما مع امرأتہ ، فقامت ، فأخذت سکّینا ، وجلست علی صدرہ ، ووضعت السکّین علی حلقہ ، فقالت لہ : طلّقنی ، أو لأذبحنّک ، فناشدہا اللّٰہ ، فأبت ، فطلّقہا ، فذکر ذلک لنبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقال النبیّ علیہ السلام : فلا قیلولۃ فی الطلاق ۔
”ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ سویا ہوا تھا کہ اس کی بیوی اُٹھی اورایک چھری پکڑی ۔ اس کے سینے پر بیٹھ کر چھری اس کے حلق پررکھ دی اور کہنے لگی : مجھے طلاق دے ، ورنہ تجھے ذبح کردوں گی۔ اس نے اسے اللہ کا واسطہ دیا ، لیکن وہ نہ مانی ۔ اس نے اسے تین طلاقیں دے دیں۔ پھراس نے نبیِ اکرمeسے اس بات کا ذکرکیا تو آپeنے فرمایا : طلاق میں کوئی واپسی نہیں ۔”
(الضعفاء الکبیر للعقیلی : ٢/٢١١، العلل المتناہیۃ لابن الجوزی : ٢/٦٤٧، ح : ١٠٧٤)
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف” ہے۔ اس کے راوی صفوان بن عمران الطائی کے بارے میں امام ابوحاتم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یکتب حدیثہ ، ولیس القویّ ۔
”اس کی حدیث (متابعات میں)لکھی جائے گی ، لیکن یہ قوی نہیں۔”
(الجرح والتعدیل : ٤/٤٢٢)
اس کے دوسرے راوی الغاز بن جبلہ کے بارے میں امام ابوحاتم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وہو منکر الحدیث ۔ ”یہ منکرالحدیث راوی ہے۔”
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٤/٤٢٢)
اس کے تیسرے راوی بقیہ بن الولید (ثقہ عند الجمہور) مدلس ہیں اور عن سے روایت کررہے ہیں، لہٰذا سند ”ضعیف” ہے۔
اس حدیث کے بارے میں امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہذا حدیث واہٍ جدّا ۔ ” یہ حدیث سخت ضعیف ہے۔”
(العلل لابن ابی حاتم : ١٣١٢)
امام ابنِ ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ نے اسے ”منکر” قرار دیاہے۔(الجرح والتعدیل : ٤/٤٢٢)
علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہذا خبر فی غایۃ السقوط ۔
”یہ حدیث حددرجہ ضعیف ہے۔”(المحلی لابن حزم : ١٠/٢٠٤)
حافظ ابن الجوزی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہذا حدیث لا یصحّ ۔
”یہ حدیث ثابت نہیں۔”(العلل المتناہیۃ : ٢/٦٤٧)
حافظ ابن الملقن  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فضعیف ۔ (البدر المنیر : ٨/١١٨)
اس روایت کو صفوان بن عمران نے ”مرسل” بھی بیان کیا ہے۔
دلیل نمبر 2 : سیدنا ابوہریرہtسے روایت ہے کہ رسول اللہ eنے فرمایا : ثلاث جدّہنّ جدّ وہزلہنّ جدّ : النکاح والطلاق والرجعۃ ۔ ”تین کاموں کی سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور ان کامذاق بھی سنجیدگی ہے: نکاح ، طلاق اوررجوع۔”(سنن ابی داو،د : ٢١٩٤، سنن الترمذی : ١١٨٤، وقال : حسن ، سنن ابن ماجہ : ٢٠٣٩، المستدرک للحاکم : ٢/١٩٨، وقال : صحیح الاسناد ، وسندہ، حسنٌ)
جومذاق میں طلاق دیتا ہے ، اس کی نیت میں طلاق نہیں ہوتی ۔ صرف لفظ ادا کرتا ہے۔ فقط لفظ ادا کرنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے ، لہٰذا جبری طلاق کو اس پر قیاس کریں گے، کیونکہ ان دونوں کا طلاق کاارادہ نہیں ہوتا۔ فقط لفظ ادا کرتے ہیں۔
تبصرہ : یہ قیاس فاسد ہے ، جیسا کہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقیاسہم المکرہ علی الہازل ، فہو قیاس فاسد ، لأنّ المکرہ غیر قاصد للقول ولا لموجبہ ، وأمّا الہازل فإنّہ تکلّم باللفظ اختیارا وقصد بہ غیر موجبہ ، وہذا لیس إلیہ ، بل إلی الشارع ، فإنّ من باشر سبب ذلک باختیارہ لزمہ مسبّبہ ومقتضاہ ، وإن لم یردہ ، وأمّا المکرہ فإنّہ لم یرد ہذا ، ولا ہذا ، فقیاسہ علی الہازل غیر صحیح ۔ ”ان لوگوں کا مجبور کومذاق کرنے والے پرقیاس کرنا قیاسِ فاسد ہے ، کیونکہ مجبور آدمی کا قصد نہ بات کا ہوتا ہے ، نہ اس کے نتیجے کا ۔ جبکہ مذاق کرنے والا لفظ کا تکلم اپنے اختیار سے کرتا ہے ، لیکن اس کانتیجہ کچھ اور مراد لیتا ہے ۔حالانکہ یہ کام (نتیجے کا وقوع)اس کے اختیار میں نہیں، بلکہ شارع کے اختیار میں ہے۔ جو شخص طلاق کے سبب کو اختیار کرے گا ، اس کا نتیجہ اس کولازم ہوجائے گا ، اگرچہ وہ اس کاقصد نہ بھی کرے۔ رہا مجبور تو اس نے کسی بھی چیز کا قصد نہیں کیاہوتا، لہٰذا اس کو مذاق کرنے والے پرقیاس کرنا صحیح نہیں۔”
(تہذیب السنن لابن القیم : ٦/١٨٨، نیز دیکھیں اعلام الموقعین : ٣/١٠٨، زاد المعاد : ٥/٢٠٤، اغاثۃ اللہفان فی حکم طلاق الغضبان : ص ٥٠۔٦١)
مشہور مفسر علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہذا قیاس باطل ، فإنّ الہازل قاصد إلی إیقاع الطلاق راض بہ ، والمکرہ غیر راض ، ولا نیّہ لہ فی الطلاق ، وقد قال علیہ السلام : (( إنّما الأعمال بالنیّات )) ۔
”یہ قیاس باطل ہے ، کیونکہ مذاق کرنے والا طلاق واقع کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اس پر راضی ہوتا ہے ، جبکہ مجبور شخص راضی نہیں ہوتا ، نہ ہی اس کی طلاق کے بارے میں کوئی نیت ہوتی ہے ۔ فرمانِ نبوی ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔”(تفسیر القرطبی : ١٠/١٨٤)
سیدنا عمر t فرماتے ہیں : أربع مبہمات معقولات لیس فیہنّ ردّ : النکاح ، والطلاق ، والعتاق ، والصدقہ ۔ ”چار چیزیں مبہم اورمعقول ہوتی ہیں،ان میں واپسی نہیں ہوتی : نکاح ، طلاق ، عتاق(غلام کی آزادی)اور صدقہ۔”
(فتح القدیر لابن الہمام الحنفی : ٣/٣٤٤)
یہ گھڑنتل ہے ۔ دنیاجہاں کی کسی کتاب میں اس کی سند کا ذکر نہیں ملتا۔
دلیل نمبر 4 : جب سیدنا حذیفہ اور ان کے باپ سے مشرکینِ مکہ نے حلف لیا تونبیِ اکرمeنے فرمایا : نفی لہم بعہدہم ، ونستعین اللّٰہ علیہم ۔
”ہم ان سے کیاہوا وعدہ پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ سے مدد مانگیں گے۔”
(مسند الامام احمد : ٥/٣٩٥، صحیح مسلم : ٢/١٠٦، ح : ١٧٨٧)
جبری طلاق کو عہد پر قیاس کریں گے ۔جب عہد میں فقط لفظ کااعتبار ہوتا ہے تو طلاقِ جبری میں بھی فقط لفظ کا اعتبار کیاجائے گا۔
تبصرہ : یہ قیاسِ فاسد ہے ، ورنہ سوتے ہوئے انسان یابھول کر طلاق دینے والے اورمجنون کی طلاق بھی واقع ہوجانی چاہیے ۔
دلیل نمبر 5 : عمر بن شراحیل المعافری کہتے ہیں :
کانت امرأۃ مبغضۃ لزوجہا ، فأرادتہ علی الطلاق ، فأبی ، فجاء ت ذات لیلۃ ، فلمّا رأتہ نائما ، قامت وأخذت سیفہ ، فوضعتہ علی بطنہ ، ثمّ حرّکتہ برجلہا ، فقال : ویلک ما لک ؟ قالت : واللّٰہ لتطلّقنی وإلّا أنفذتک بہ ، فطلّقہا ثلاثا ، فرفع ذلک إلی عمر بن الخطّاب رضی اللّٰہ عنہ ، فأرسل إلیہا فشتمہا ، فقال : ما حملک علی ما صنعت ؟ قالت بغضی إیّاہ ، فامضی طلاقــہا ۔ ”ایک عورت اپنے خاوند کو ناپسند کرتی تھی۔ اس نے اسے طلاق دینے پر آمادہ کیا ، لیکن وہ نہ مانا ۔ وہ ایک رات آئی ۔جب اس نے اسے سوئے ہوئے دیکھا تو کھڑی ہوئی اور اس کی تلوا ر پکڑلی ، اسے اس کے پیٹ پر رکھا ، پھرا سے پاؤں سے ہلایا ۔ اس نے کہا : تجھے کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا : اللہ کی قسم ! تو مجھے طلاق دے دے ، ورنہ میں تجھے قتل کردوں گی۔ اس نے اسے تین طلاقیں دیں۔ اس شخص نے یہ واقعہ سیدنا عمر بن خطابtکوبتایا تو آپ نے اس عورت کو بلا بھیجا ، پھر اسے برابھلا کہا اور فرمایا : تجھے اس کام پر کس چیز نے آمادہ کیا ہے ؟ وہ کہنے لگی : خاوند کو ناپسند کرنے نے ۔ آپtنے اس کی طلاق کو نافذ کردیا۔”(سنن سعید بن منصور : ١١٢٩)
تبصرہ : اس کی سند سخت ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
1    اس کاراوی الفرج بن فضالہ جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے ۔ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ ”ضعیف”راوی ہے۔(تقریب التہذیب لابن حجر : ٥٣٨٣)
2    راوی عمر بن شراحیل المعافری کی توثیق درکارہے۔
3    عمربن شراحیل کی سیدنا عمر سے روایت کو امام ابنِ ابی حاتم نے ”مرسل” قراردیاہے۔(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٦/١١٦)
رہا ابوقلابہ رحمہ اللہ  (مصنف ابن ابی شیبہ : ٥/٤٩، وسندہ، صحیح)اورامام شعبی رحمہ اللہ (مصنف ابنِ ابی شیبہ : ٥/٤٩، وسندہ، صحیح)کا طلاقِ مکرہ کو جائز سمجھنا تو یہ قرآن وحدیث اورجمہور سلف کے فہم کے خلاف ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.