1,023

کلام الہی ، غلام مصطفی ظہیر امن پوری


کلامِ الٰہی
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
اہل سنت والجماعت کا اجماعی واتفاقی عقیدہ ہے کہ جو صفات ِباری تعالیٰ قرآنِ کریم اور صحیح احادیث ِرسول میں بیان ہوئی ہیں،ان پر بغیر تاویل و تعطیل ایمان لانا ضروری ہے۔ کتاب و سنت کی نصوص کی روشنی میں قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کا حقیقی کلام ہے،نیز صوت و حروف کے ساتھ کلام کرنا اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت ہے، جو دلائل شرعیہ سے ثابت ہے۔ اس پر دو حدیثی دلائل ملاحظہ فرمائیں :
دلیل نمبر 1 :
b سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تشہد کے بعد یہ کلمات کہتے تھے:
’أَحْسَنُ الْکَلَامِ کَلَامُ اللّٰہِ، وَأَحْسَنُ الْہَدْيِ ہَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ‘ ۔
’’سب سے اچھا کلام اللہ کا کلام ہے اور سب سے بہتر طریقہ ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔‘‘(سنن النسائي : 1311، وسندہٗ صحیحٌ)
دلیل نمبر 2 :
b سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُ نَفْسَہٗ عَلَی النَّاسِ فِي الْمَوْقِفِ، فَقَالَ : ’أَلَا رَجُلٌ یَّحْمِلُنِی إِلٰی قَوْمِہٖ،
فَإِنَّ قُرَیْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ کَلَامَ رَبِّي‘ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو موقف(عرفات)میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا کوئی شخص ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے چلے،کیونکہ قریش نے تو مجھے اپنے رب کا کلام لوگوں تک پہنچانے سے روک دیا ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 390/3، سنن أبي داوٗد : 4734، سنن الترمذي : 2925، سنن ابن ماجہ : 201، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی ر حمہ اللہ نے’’حسن صحیح‘‘اور امام حاکم ر حمہ اللہ (613/2)نے امام بخاری ومسلم کی شرط پر ’’صحیح‘‘کہا ہے۔ حافظ ذہبی ر حمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
قرآنِ کریم کو مخلوق کہنے والا کافر ہے :
ان دونوں احادیث سے ثابت ہوا کہ قرآنِ کریم اللہ رب العزت کا کلام ہے،مخلوق نہیں۔ اسے مخلوق کہنے والے باتفاق ائمہ اسلام کافر ہیں،جیسا کہ :
1 علامہ سجزی ر حمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَاتَّفَقَ الْمُنْتَمُونَ إِلَی السُّنَّۃِ بِأَجْمَعِہِمْ عَلٰی أَنَّہٗ غَیْرُ مَخْلُوقٍ، وَأَنَّ الْقَائِلَ بِخَلْقِہٖ کَافِرٌ ۔
’’ائمہ اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآنِ کریم مخلوق نہیں،نیز اسے مخلوق کہنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
(الردّ علی من أنکر الحرف والصوت، ص : 106)
2 امام محمد بن حسین آجری ر حمہ اللہ فرماتے ہیں:
اِعْلَمُوا، رَحِمَنَا اللّٰہُ وَإِیَّاکُمْ، أَنَّ قَوْلَ الْمُسْلِمِینَ الَّذِینَ لَمْ یُزِغْ قُلُوبَہُمْ عَنِ الْحَقِّ، وُوُفِّقُوا لِلرَّشَادِ، قَدِیمًا وَّحَدِیثًا، أَنَّ الْقُرْآنَ کَلَامُ اللّٰہِ تَعَالٰی، لَیْسَ بِمَخْلُوقٍ؛ لِأَنَّ الْقُرْآنَ مِنْ عِلْمِ اللّٰہِ، وَعِلْمُ اللّٰہِ لَا یَکُونُ مَخْلُوقًا، تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ، دَلَّ عَلٰی ذٰلِکَ الْقُرْآنُ وَالسُّنَّۃُ، وَقَوْلُ الصَّحَابَۃِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، وَقَوْلُ أَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ، لَا یُنْکِرُ ہٰذَا إِلَّا جَہْمِيٌّ خَبِیثٌ، وَالْجَہْمِيُّ؛ فَعِنْدَ الْعُلَمَائِ کَافِرٌ ۔
’’جان لیجئے!اللہ ہم سب پر رحم فرمائے،جن مسلمانوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے حق سے دُور نہیں کیا اور جنہیں ہدایت نصیب کی ہے،ان کا قدیم و جدید ہر دور میں یہی قول تھا کہ قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، مخلوق نہیں،کیونکہ قرآن اللہ رب العزت کا علم ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم مخلوق نہیں۔اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند ہے۔قرآن و سنت، اقوال صحابہ اور فتاویٔ ائمہ مسلمین یہی بتاتے ہیں۔ صرف جہمی خبیثوں نے اس بات کا انکار کیا ہے۔ جہمی لوگ علمائِ حق کے نزدیک کافر ہیں۔‘‘(الشریعۃ : 489/1)
3 امام ابو عثمان صابونی ر حمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَیَشْہَدُ أَصْحَابُ الْحَدِیثِ وَیَعْتَقِدُونَ أَنَّ الْقُرْآنَ کَلَامُ اللّٰہِ، وَکِتَابُہٗ، وَوَحْیُہٗ، وَتَنْزِیلُہٗ، غَیْرُ مَخْلُوقٍ، وَمَنْ قَالَ بِخَلْقِہٖ وَاعْتَقَدَہٗ؛ فَہُوَ کَافِرٌ عِنْدَہُمْ ۔
’’محدثین کرام اس بات کی گواہی دیتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کا کلام، اس کی کتاب، اس کی وحی اور اس کی طرف سے نازل شدہ ہے، مخلوق نہیں۔جو شخص قرآنِ کریم کو مخلوق کہے اور یہ اعتقاد رکھے،وہ محدثین عظام کے نزدیک کافر ہے۔‘‘(عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث، ص : 165)
4 شیخ الاسلام، امام ابن تیمیہ ر حمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَإِنَّ مَذْہَبَ السَّلَفِ أَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَزَلْ مُتَکَلِّمًا إِذَا شَائَ، وَکَلِمَاتُہٗ لَا نِہَایَۃَ لَہَا، وَکُلُّ کَلَامٍ مَّسْبُوقٍ بِکَلَامٍ قَبْلَہٗ لَا إِلٰی نِہَایَۃٍ مَّحْدُودَۃٍ، وَہُوَ سُبْحَانَہٗ یَتَکَلَّمُ بِقُدْرَتِہٖ وَمَشِیئَتِہٖ ۔
’’بلاشبہ سلف کا مذہب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے جب چاہتا ہے، کلام کرتا ہے۔اس کے کلمات کی کوئی انتہا نہیں۔اللہ تعالیٰ کے ہر کلام سے پہلے اس کا ایک کلام موجود ہے اور یہ سلسلہ غیر متناہی ہے۔وہ اپنی قدرت و مشیئت کے ساتھ کلام کرتا ہے۔‘‘(مجموع الفتاوٰی : 535/5)
5 شیخ الاسلام ثانی،عالم ربانی، علامہ ابن قیم الجوزیہ ر حمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَدْ نَوَّعَ اللّٰہُ تَعَالٰی ہٰذِہِ الصِّفَۃَ فِي إِطْلَاقِہَا عَلَیْہِ تَنْوِیعًا یَّسْتَحِیلُ مَعَہٗ نَفْيُ حَقَائِقِہَا، بَلْ لَّیْسَ فِي الصِّفَاتِ الْإِلٰہِیَّۃِ أَظْہَرُ مِنْ صِفَۃِ الْکَلَامِ وَالْعُلُوِّ وَالْفِعْلِ وَالْقُدْرَۃِ، بَلْ حَقِیقَۃُ الْإِرْسَالِ تَبْلِیغُ کَلَامِ الرَّبِّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، وَإِذَا انْتَفَتْ عَنْہُ حَقِیقَۃُ الْکَلَامِ انْتَفَتْ حَقِیقَۃُ الرِّسَالَۃِ وَالنُّبُوَّۃِ، وَالرَّبُّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی یَخْلُقُ بِقَوْلِہٖ وَکَلَامِہٖ، کَمَا قَالَ تَعَالٰی : {اِنَّمَا أَمْرُہٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا أَنْ یَّقُولَ لَہٗ کُنْ فَیَکُونُ}(یٰسٓ 36 : 82)، فَإِذَا انْتَفَتْ حَقِیقَۃُ الْکَلَامِ عَنْہُ انْتَفَی الْخَلْقُ، وَقَدْ عَابَ اللّٰہُ آلِہَۃَ الْمُشْرِکِینَ بِأَنَّہَا لَا تُکَلَّمُ وَلَا تُکَلِّمُ عَابِدِیہَا، وَلَا تَرْجِعُ إِلَیْہِمْ قَوْلًا، وَالْجَہْمِیَّۃُ وَصَفُوا الرَّبَّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بِصِفَۃِ ہٰذِہِ الْآلِہَۃِ ۔
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت ِکلام کا اتنی طرح سے اطلاق کیا ہے کہ اس کے حقائق کی نفی کرنا ممکن نہیں رہا۔بلکہ صفات ِالوہیت میں جو صفات نمایاں ہیں، وہ کلام، علو، فعل اور قدرت ہیں۔ اسی طرح مقصد رسالت صفت ِکلام باری تعالیٰ کی تبلیغ کرنا ہی تو ہے،چنانچہ صفت ِکلام کی نفی کرنا دراصل نبوت و رسالت کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ ربّ العزت اپنی صفت ِکلام ہی کے ساتھ پیدا کرتا ہے،جیسا کہ اس کا فرمان ہے: {اِنَّمَا أَمْرُہٗ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا أَنْ یَّقُولَ لَہٗ کُنْ فَیَکُونُ}(یٰسٓ 36 : 82)(اللہ تعالیٰ جب کسی کام کے کرنے کا ارادہ فرماتا ہے، تو لفظ ِکن کہتا ہے ،تو وہ ہو جاتا ہے)۔ یوں حقیقت ِکلام کی نفی سے در اصل اللہ تعالیٰ کی صفت ِتخلیق کی نفی ہو جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے معبودوں کا یہ عیب بیان کیا ہے کہ ان سے کلام نہیں کی جا سکتی،نہ ہی وہ اپنے پجاریوں سے ہمکلام ہو سکتے ہیں اور ان کی بات کا جواب دیتے ہیں۔جہمیوں نے تو اللہ تعالیٰ کو (نعوذ باللہ!)اسی صفت سے متصف کیا ہے،جس سے مشرکین کے معبود متصف تھے۔‘‘
(مختصر الصواعق المرسلۃ، ص : 494)
n ابن قیم ر حمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
إِجْمَاعِ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ وَجَمِیعِ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَأَئِمَّۃِ الْفِقْہِ عَلٰی أَنَّ الْقُرْآنَ کَلامُ اللّٰہِ، مُنَزَّلٌ، غَیْرُ مَخْلُوقٍ ۔
’’صحابہ کرام،تابعین، تمام ائمہ اہل سنت اور فقہائِ کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی طرف سے نازل کردہ ہے، مخلوق نہیں۔‘‘(المنار المنیف : 119)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.