1,764

خلیفہ بلا فصل کون، شمارہ 28، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

اہلِ سنت والجماعت کا اتفاقی واجماعی عقیدہ ہے کہ سیدنا ومولانا علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ چوتھے برحق خلیفہ اور امیر المومنین ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہکے بے شمار فضائل ومناقب ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہسے محبت عین ایمان اور آپ سے بغض نفاق ہے ۔ اس کے برعکس بعض لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلافصل کہتے ہیں ۔ وہ اس حوالے سے بعض قرآنی آیات بھی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ان آیات سے ان کا موقف ثابت ہوتا ہے یا نہیں ؟
قرآنی دلیل نمبر 1 : فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ ) (المائدۃ : ٥٥)
”بلاشبہ تمہارے دوست ، اللہ ، اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ رکوع کرنے والے ہیں ۔ ”
شیعہ عالم طوسی کہتے ہیں : وأمّا النصّ علی إمامتہ من القرآن ، فأقوی ما یدلّ علیہ قولہ تعالیٰ : ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ ) (المائدۃ : ٥٥)
”رہی قرآنِ کریم سے سیدنا علی  رضی اللہ عنہکی امامت کی دلیل تو اس پر سب سے قوی دلیل یہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ ) (المائدۃ : ٥٥) (بلاشبہ تمہارے دوست ، اللہ ، اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکاہ ادا کرتے ہیں اور وہ رکوع کرنے والے ہیں )۔۔۔۔۔۔”(تلخیص الشافی : ٢/١٠)
مشہور شیعہ طبرسی لکھتے ہیں : وہذہ الآیۃ من أوضح الدلائل علی صحّۃ إمامۃ علیّ بعد النبیّ بلا فصل ۔ ”یہ آیت اس بات کی سب سے واضح دلیل ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا علی  رضی اللہ عنہکی امامت بلافصل کا قول درُست ہے۔”
(مجمع البیان للطبرسی : ٢/١٢٨)
اسی طرح ابن المطہر الحلی نے اپنی منہاج الکرامۃ (ص ١٤٧) میں سب سے پہلی دلیل یہی ذکر کی ہے ۔
بعض نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے : ” اس آیت کے حضرت علی uکے حق میں نازل ہونے پر تمام مفسرین ومحقق محدثین کا اتفاق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب علامہ حلی نے کتاب کشف الحق میں اس کے نزول کے متعلق یہ دعویٰ کیا کہ أجمعوا علی نزولہا فی علیّ یعنی مفسرین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت علی uکے حق میں نازل ہوئی ہے ۔ ”
(اثبات الامامت از محمد حسین ڈھکو : ص ١٤٤،١٤٨)
تبصرہ : یہ کائنات کا بدترین جھوٹ ہے ۔ یہ بات لکھنے والے نے اپنے علم اور عقل پر ظلم کیا ہے ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) نے سچ فرمایا ہے : وقد رأینا فی کتبہم من الکذب والإفتراء علی النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وصحابتہ وقرابتہ أکثر ممّا رأینا من الکذب فی کتب أھل الکتاب من التــوراۃ والإنجیل ۔ ”ہم نے ان لوگوں (رافضیوں)کی کتابوں میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے صحابہ کرام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت پر جو جھوٹ پایا ہے ، وہ توراۃ وانجیل میں اہلِ کتاب کے (شامل کیے ہوئے)جھوٹ سے بھی بڑھ کر ہے۔ ”(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٢٨/٤٨٢)
نیز فرماتے ہیں : وقد اتّفق أھل العلم بالنقل والروایۃ والإسناد أنّ الرافضۃ من أکذب الطوائف ، والکذب فیہم قدیم ۔ ”حدیث ، روایت اور اسناد کے علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روافض سب فرقوں سے بڑھ کر جھوٹے ہیں اور جھوٹ ان میں بہت قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔”(منہاج السنۃ لابن تیمیۃ : ١/٥٩)
جواب نمبر 1 : یہ آیت ِ کریمہ عام ہے اور سارے کے سارے اہلِ ایمان کو شامل ہے ۔ حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (٧٠٠۔٧٧٤ھ) فرماتے ہیں :
ولم ینزل فی علیّ شیء من القرآن بخصوصیّتہ ۔
”قرآنِ کریم کی کوئی آیت خاص سیدنا علی رضی اللہ عنہکے بارے میں نازل نہیں ہوئی۔ ”
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : ٧/٣٩٤)
مفسر فخر الدین رازی رحمہ اللہ (٥٤٤۔٦٠٦ھ) اس قول کا بطلان ثابت کرتے ہوئے کہ یہ آیت سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ،لکھتے ہیں : إنّ علیّ بن أبی طالب کان أعرف بتفسیر القرآن من ہؤلاء الروافض ، فلو کانت ہذہ الآیۃ دالّۃ علی إمامتہ لاحتجّ بہا فی محفل من المحافل ، ولیس للقوم أن یقول : إنّہ ترکہ للتقیّۃ ، فإنّہم ینقلون عنہ أنّہ تمسّک یوم الشوری بخبر الغدیر وخبر المباہلـــۃ وجمیع فضائلہ ومناقبہ ، ولم یتمسّک ألبتّۃ بہذہ الآیۃ فی إثبات إمامتہ ، وذلک یوجب القطع بسقوط قول ہؤلاء الروافض لعنہم اللّٰہ ۔
”یقینا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہقرآن کی تفسیر ان رافضیوں سے زیادہ جانتے تھے ۔ اگر اس آیت میں ان کی امامت کی کوئی دلیل ہوتی تو سیدناعلی رضی اللہ عنہکسی نہ کسی محفل میں اس سے دلیل ضرور لیتے ۔ رافضیوں کا یہ کہنا درُست نہیں کہ انہوں نے تقیہ کی وجہ سے ایسا نہ کیا ۔ وہ ان سے نقل کرتے ہیں کہ وہ شوریٰ والے دن غدیر ، مباہلہ اور اپنے فضائل ومناقب کی کو بیان کرنے سے رُک گئے تھے ۔ انہوں نے اپنی امامت کے اثبات میں قطعاً اس آیت سے استدلال نہیں کیا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان رافضیوں کی بات قطعی طور پر غلط ہے ۔ ”(تفسیر الرازی : ١٢/٢٥)
نیز فرماتے ہیں : وأمّا استدلالہم بأنّ ہذہ الآیۃ نزلت فی حقّ علیّ فہو ممنوع ، وقد بیّنّا أنّ أکثر المفسّرین زعموا أنّہ فی حقّ الأمّۃ ۔
”رافضیوں کا اس آیت سے استدلال کرنا کہ یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہکے بارے میں نازل ہوئی ، غلط ہے ۔ ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ آیت پوری امت کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ ”(تفسیر الرازی : ١٢/٢٥)
سنی امام طبری  رحمہ اللہ (٢٢٤۔ ٣١٠ھ) لکھتے ہیں : فیہا قولان : الأوّل أنّ المراد عامّۃ المسلمین ، لأنّ الآیۃ نزلت علی وفق ما مرّ من قصّۃ عبادۃ بن الصامت رضی اللّٰہ عنہ ، والقول الثانی أنّہا فی شخص معیّن ورُری أنّہ أبو بکر ورُوی أنّہ علیّ ۔ ”اس میں دو قول ہیں ۔ پہلا تو یہ کہ اس سے مراد عام مسلمان ہیں ، کیونکہ یہ آیت سیدنا عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ کے مذکور قصہ کے مطابق نازل ہوئی ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ایک معین شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ ایک روایت میں وہ شخص سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ایک روایت کے مطابق وہ سیدناعلی رضی اللہ عنہہیں۔”(تفسیر الطبری : ٦/٢٨٨)
پھر امام طبری  رحمہ اللہ نے دوسرے قول کا ردّ بھی کیا ہے ۔
امام سدّی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہم المؤمنون ، وعلیّ منہم ۔
”اس سے مراد سب مؤمن ہیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہانہی میں سے ہیں۔”
(تفسیر ابن ابی حاتم : ٥/١١٠، وسندہ، حسنٌ)
مشہور مفسر علامہ قرطبی  رحمہ اللہ (٦٠٠۔ ٦٧١ھ) فرماتے ہیں : والذین عامّ فی جمیع المؤمنین ۔ ” الذین کا لفظ سب مؤمنوں کے لیے عام ہے ۔ ”
(تفسیر القرطبی : ٦/٢٢١)
عبدالملک بن ابی سلیمان  رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : سألت أبا جعفر محمّد ابن علیّ عن قولہ عزّ وجلّ : ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ ) (المائدۃ : ٥٥) ، قال : أصحاب محمّد صلی اللہ علیہ وسلـم ، قلت : یقولون : ہو علیّ ، قال : علیّ منہم ۔
”میں نے ابوجعفر محمد بن علی الباقر رحمہ اللہ سے اس فرمانِ باری تعالیٰ کے بارے میں پوچھا : ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ ) (المائدۃ : ٥٥) انہوں نے فرمایا : اس سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں ۔ میں نے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد سیدنا علی رضی اللہ عنہہیں ۔ انہوں نے فرمایا : علی  رضی اللہ عنہبھی صحابہ کرام میں شامل ہیں۔”(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی : ٣/١٥٨، وسندہ، حسنٌ)
لو جناب ! یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہکے پڑپوتے ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن علی کی بیان کردہ تفسیر ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہ آیت ِ کریمہ خاص طور پر سیدنا علی رضی اللہ عنہکے حق میں نازل نہیں ہوئی ۔
نیز عبدالملک بن سلیمان بیان کرتے ہیں : قلت : من الذین آمنوا ؟ قال : الذین آمنوا ! قلنا : بلغنا أنّہ نزلت فی علیّ بن أبی طالب ، قال : علیّ من الذین آمنوا ۔ ”میں نے (امام ابوجعفر الباقر رحمہ اللہ سے )عرض کیا : اس آیت میں الذین آمنوا سے مراد کون لوگ ہیں ۔ انہوں نے جواب دیا : مؤمن لوگ ۔ ہم نے عرض کیا : ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ یہ آیت سیدنا علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہکے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ انہوں نے فرمایا : علی  رضی اللہ عنہبھی مؤمن لوگوں میں سے ایک ہیں۔” (تفسیر الطبری : ٦/٢٨٨، وسندہ، صحیحٌ)
نحاس کہتے ہیں : وہذا قول بیّن ، لأنّ الذین آمنوا جماعۃ ۔
”یہ بات(اس آیت سے تمام صحابہ کرام کا مراد ہونا) بہت واضح ہے ، کیونکہ الذین آمنوا سے ایک جماعت مراد ہے ۔ ” (تفسیر القرطبی : ٦/٢٢١)
فائدہ : یہ آیت ِ کریمہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہکے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (تفسیر الطبری : ٦/٢٨٨، سیرۃ ابن ہشام : ٣/٥٢۔٥٣، وسندہ، حسنٌ)
مفسر رازی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لمّا نہی فی الآیات المتقدّمۃ عن موالاۃ الکفّار ، أمر فی ہذہ الآیۃ بموالاۃ من تجب موالاتہ ۔
”چونکہ گذشتہ آیات میںاللہ تعالیٰ نے کفار کی دوستی سے منع کیا تھا ، اس آیت میں ان لوگوں سے دوستی کا حکم دیا ہے جن سے دوستی ضروری ہے ۔ ”(تفسیر الرازی : ١٢/٢٥)
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : إنّہ من المعلوم المستفیض عند أھل التفسیر خلفا عن سلف أنّ ہذہ الآیۃ نزلت فی النہی عن موالاۃ الکفّار ، والأمر بموالاۃ المؤمنین ۔ ”سلف سے لے کر خلف تک تمام مفسرین کے ہاں یہ بات معلوم ومشہور ہے کہ یہ آیت کفار کی دوستی سے ممانعت اور مؤمنوں سے دوستی کے حکم کے بارے میں نازل ہوئی ۔ ”(منہاج السنۃ لابن تیمیۃ : ٤/٥)
جواب نمبر 2    :
آیت ِ مذکورہ میں لفظ ِ ولی کی تفسیر وتعبیر میں علامہ رازی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لم لا یجوز أن یکون المراد من لفظ الولیّ فی ہذہ الآیۃ الناصر والمــحبّ ؟ ونحن نقیم الدلالۃ علی أنّ حمل لفظ الولیّ علی ہذا المعنی أولی من حملہ علی معنی المتصرّف ، ثمّ نجیب عمّا قالوہ ، فنقول : الذی یدلّ علی أنّ حملہ علی الناصر أولی وجوہ ، الأول : أنّ اللائق بما قبل ہذہ الآیۃ وبما بعدہا ، لیس إلّا ہذا المعنی ، أمّا ما قبل ہذہ لآیۃ ، فلأنّہ تعالی قـــــــــــال 🙁 یٰۤاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی أَوْلِیَاءَ ) (المائدۃ : ٥١)، ولیس المراد لا تتّخذوا الیہود والنصاری أئمّۃ متصرّفین فی أرواحکم وأموالکم ، لأنّ بطلان ہذا کالمعلوم بالضرورۃ ، بل المراد لا تتّخذوا الیہود والنصاری أحباباً وأنصاراً ، ولا تخالطوہم ولا تعاضدوہم ، ثمّ لمّا بالغ فی النہی عن ذلک قال : إنّما ولیّکم اللّٰہ ورسولہ والمؤمنون والموصوفون ، والظاہر أنّ الولایۃ المأمور بہا ہہنا ہی المنہیّ عنہا فیما قبل ، ولمّا کانت الولایۃ المنہیّ عنہا فیما قبل ہی الولایۃ بمعنی النصرۃ ، کانت الولایۃ المأمور بہا ہی الولایۃ بمعنی النصرۃ ، وأمّا ما بعد ہذہ الآیۃ فہی قولہ : ( یٰۤاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ہُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِینَ أُوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ أَوْلِیَاءَ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ )(المائدۃ : ٥٧) ، فأعاد النہی عن اتّخاذ الیہود والنصاری والکفّار أولیاء ، ولا شکّ أنّ الولایۃ المنہیّ عنہا ہی الولایۃ بمعنی النصرۃ ، فکذلک الولایۃ فی قولہ ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ ) یجب أن تکون ہی بمعنی النصرۃ ، وکلّ من أنصف وترک التعصّب وتأمّل فی مقدّمۃ الآیۃ وفی مؤخّرہا قطع بأنّ الولی فی قولہ ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ ) لیس إلّا بمعنی الناصر والمحبّ ، ولا یمکن أن یکون بمعنی الإمام ، لأنّ ذلک یکون إلقاء کلام أجنبیّ فیما بین کلامین مسوقین لغرض واحد ، وذلک یکون فی غایۃ الرکاکۃ والسقوط ، ویجب تنزیہ کلام اللّٰہ تعالی عنہ ۔
الحجّۃ الثانیۃ : أنّا لو حملنا الولایۃ علی التصرّف والإمامۃ لما کان المؤمنون المذکورین فی الآیۃ موصوفین بالولایۃ حال نزول الآیۃ ، لأنّ علیّ ابن أبی طالب کرّم اللّٰہ وجہہ ما کان نافذ التصرّف حال حیاۃ الرسول ، والآیۃ تقتضی کون ہؤلاء المؤمنون موصوفین بالولایۃ فی الحال ، أمّا لو حملنا الولایۃ علی المحبّۃ والنصرۃ کانت الولایۃ حاصلۃ فی الحال ، فثبت أنّ حمل الولایۃ علی المحبّۃ أولی من حملہا علی التصرّف ، والّذی یؤکد ما قلناہ أنّہ تعالی منع المؤمنین من اتّخاذ الیہود والنصاری أولیاء ، ثمّ أمرہم بموالاۃ ہؤلاء المؤمنین ، فلا بدّ أن تکون موالاۃ ہؤلاء المؤمنین حاصلۃ فی الحال حتّی یکون النفی والإثبات متواردین علی شیء واحد ، ولمّا کانت الولایۃ بمعنی التصرّف غیر حاصلۃ فی الحال امتنع حمل الآیۃ علیہا ۔
”اس آیت میں لفظ ِ ولی کو ناصر اور محب کے معنیٰ میں کرنا کیوں جائز نہیں ؟ ہم دلائل دیتے ہیں کہ اس آیت میں لفظ ِ ولی کو اس معنیٰ پر محمول کرنا اس کو ولایت وتصرف کے معنیٰ پر محمول کرنے سے زیادہ بہتر ہے ۔ اس کے بعد ہم مخالفین کی باتوں کا جواب دیں گے ۔ ہم کہتے ہیں کہ اس آیت میں لفظ ِ ولی کو ناصر کے معنیٰ پر محمول کرنے پر کئی دلائل ہیں ۔ پہلی دلیل تو یہ ہے کہ ماقبل اور مابعد والی آیت کو مد نظر رکھنے سے صرف یہی معنیٰ درُست رہتا ہے ، اس سے پہلے والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ( یٰۤاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی أَوْلِیَاءَ ) (المائدۃ : ٥١) (اے ایمان والو! تم یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ) ۔ یہاں یہ مراد نہیں کہ تم یہود ونصاریٰ کو اپنی جانوںاور مالوں پر تصرف کرنے والے مت بناؤ ، اس معنیٰ کا بطلان تو بالکل واضح ہے ۔ بلکہ یہاں مراد یہ ہے کہ تم یہود ونصاریٰ کو دوست احباب اور مددگار نہ بناؤ ۔ ان سے مل جل کر نہ رہو اور باہمی تعاون نہ کرو ۔ پھر جب اس ممانعت میں مبالغہ کرنا چاہا تو فرمایا : اے ایمان والو ! تمہارے دوست اور مددگار تو صرف اللہ ورسول اور وہ مؤمن لوگ ہیں جو ان صفات سے موصوف ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ یہاں جس ولایت کا حکم دیا گیا ہے ، وہی ہے جس سے پچھلی آیت میں منع کیا گیا تھا ۔ جب گذشتہ آیت میں یہود ونصاریٰ سے محبت والی ولایت سے منع کیا گیاتھا تو اس آیت میں اللہ ورسول اور مؤمنوں کے ساتھ جس ولایت کا حکم دیا گیا ہے ، وہ نصرت والی ولایت ہی ہے ۔ بعد والی آیت کو دیکھیں تو اس میں فرمان ہے : ( یٰۤاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ہُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِینَ أُوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ أَوْلِیَاءَ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ )(المائدۃ : ٥٧) (اے ایمان والو! تم ان اہل کتاب کو ولی مت بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل تماشا بنایا ہے ۔ اللہ سے ڈرتے رہو اگر تم مؤمن ہوتو)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ کو ولی بنانے کی ممانعت دہرائی ہے ۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اس آیت میں بھی ولایت سے وہی ولایت مراد ہے جس سے گذشتہ آیت میں منع کیا گیا تھا ۔ ضروری ہے کہ بالکل یہی ولایت اس آیت میں مراد ہو : ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ ۔۔۔) (یقینا تمہارا ولی اللہ تعالیٰ ، اس کا رسول اور وہ مؤمن ہیں ،جو۔۔۔۔۔۔) ہر منصف اور غیر متعصب شخص جو اس آیت کے آغاز اور اختتام میں غور کرے گا ،یہی قطعی فیصلہ کرے گا کہ فرمانِ باری تعالیٰ : ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ )میں لفظ ِ ولی سے مراد ناصر اور محب کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا ۔ یہاں لفظ ِ ولی امام کے معنیٰ میں نہیں ہوسکتا، کیونکہ ایسا کرنا تو دو ہم معنیٰ کلاموں میں ایک غیر متعلقہ بات کو داخل کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ چیز بہت بڑی کمزوری اور غلطی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی کلام کو اس چیز سے منزہ قرار دینا واجب ہے ۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر ہم ولایت کو اس آیت میں امامت کے معنیٰ پر محمول کریں تو وہ مؤمن جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے ، اس آیت کے نزول کے وقت وہ اس ولایت سے متصف نہیں تھے ۔ کیونکہ سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ،رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں تصرف کو نافذ کرنے والے نہیں تھے ۔ یہ آیت تو تقاضا کرتی ہے کہ آیت کے نزول کے وقت مؤمن ولایت سے متصف تھے ۔ ہاں ! اگر ہم اس آیت میں ولایت کو محبت ونصرت پر محمول کریں تو اس وقت مؤمنوں کو ولایت حاصل تھی۔ ثابت ہوا کہ اس آیت میں ولایت کو محبت ونصرت پر محمول کرنا امامت پر محمول کرنے سے بہتر اور راجح ہے ۔ ہماری بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو یہود ونصاریٰ کی ولایت سے روکا ہے ، پھر ان کو مؤمنوں کی ولایت کا حکم دیا ہے ۔ ضروری ہے کہ اس وقت مؤمنوں کو وہ ولایت حاصل ہو جس کے ساتھ انہیں متصف کیا گیا تھا تاکہ نفی اور اثبات کا تسلسل ایک ہی چیز پر قائم ہوسکے ۔ جب اس وقت ولایت بمعنی ئ تصرف حاصل نہیں تھی تو اس آیت کو اس پر محمول کرنا ممنوع ہے ۔ ”(تفسیر الرازی : ١٢/٢٨۔٣٢)
اگر کوئی کہے کہ یہ آیت سیدناعلی رضی اللہ عنہکی امامت پر دلیل ہے ۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نہیں ، بلکہ بعد میں تو اس کے جواب میں مفسر رازی لکھتے ہیں :
ومتی قالوا ذلک فنحن نقول بموجبہ ، ونحملہ علی إمامتہ بعد أبی بکر وعمر وعثمان ، إذ لیس فی الآیۃ ما یدلّ علی تعیین الوقت ۔
”جب وہ (رافضی )ایسا کہیں تو ہم بھی یہی بات کہتے ہیں ، لیکن ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہکی امامت کو سیدنا ابوبکر ، عمر اور عثمانy کے بعد محمول کرتے ہیں ، کیونکہ اس آیت میں وقت کی تعیین پر کوئی دلیل نہیں ۔ ”(تفسیر الرازی : ١٢/٢٨)
جواب نمبر 3 : سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ میں نے ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ِ ظہر پڑھی ۔ ایک سائل نے سوال کیا مگر جب کسی نے اسے کچھ نہ دیا تو سائل نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہا: اے اللہ!تو گواہ رہنا ، میں نے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں سوال کیا مگر کسی نے مجھے کچھ نہ دیا ۔ اس وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہرکوع کی حالت میں تھے ۔ آپ نے اپنے داہنے ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے جس میں انگوٹھی تھی ،اشارہ کیا۔ سائل آیا اور اس نے انگوٹھی اتار لی ۔ یہ منظر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ۔ دعا ختم نہ ہونے پائی تھی کہ جبریل یہ آیت ِ مبارکہ لے کر نازل ہوئے : ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ ۔۔۔)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔”(تفسیر الثعلبی : ٤/٨٠۔٨١)
تبصرہ : یہ دنیا کی جھوٹی روایت ہے ۔ سوائے (سلیمان بن مہران )الاعمش کے اس میں کوئی ثقہ راوی نہیں ۔
١۔    یحییٰ بن عبدالحمید الحمانی راوی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف” راوی ہے۔
امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وکان یکذب جہارا ۔
”یہ کھلم کھلا جھوٹ بولتا تھا۔” (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٩/١٦٩)
اسماعیل بن موسیٰ نسیب السدی کہتے ہیں : ہو کذّاب ۔
”یہ جھوٹا راوی ہے ۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٩/١٦٩، وسندہ، صحیحٌ)
اس کو امام ابوحاتم الرازی ، امام ابوزرعہ الرازی ، امام علی بن الحسین بن الجنید ، امام عبداللہ بن نمیر ، امام علی بن المدینی اور جمہور نے ”ضعیف” کہا ہے ، جیسا کہ حافظ ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : فإنّ جماعۃ ، وہم الأکثرون یضعّفونہ ۔
”محدثین کی ایک جماعت جو کہ زیادہ ہیں ، وہ اسے ضعیف قرار دیتے ہیں ۔ ”
(بیان الوہم والایہام لابن القطان : ١٤٠٤)
حافظ ابن الملقن  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعّفہ الجمہور ۔ ”اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔”(البدر المنیر لابن الملقن : ٣/٢٢٤)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وضعّفہ الجمہور ۔ ”اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے ۔”(لسان المیزان لابن حجر : ٧/٤٣٤)
٢۔    اس روایت کا دوسرا راوی قیس بن الربیع بھی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔
حافظ عراقی  رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : ضعّفہ الجمہور ۔
”اسے جمہور نے ضعیف قراردیا ہے۔”
(المغنی عن حمل الاسفار للعراقی : ٤/٧٠، فیض القدیر للمناوی : ٣/٩٢)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعّفہ الناس ۔ ”اسے لوگوں نے ضعیف قراردیا ہے۔”(مجمع الزوائد : ٢/١٩٠)
٣۔    اس روایت کی سند کا تیسرا راوی عبایۃ بن ربعی ”متکلم فیہ” ہے ۔ امام عقیلی رحمہ اللہ  نے اسے ”غالی ملحد” قراردیا ہے۔(الضعفاء الکبیر للعقیلی : ٣/٤١٥)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ”غالی شیعہ” قرار دیا ہے۔(میزان الاعتدال للذہبی : ٢/٣٨٧)
امام ابوحاتم الرازی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کان من عتق الشیعۃ ، قلت : ما حالہ ؟ قال : شیخ ۔ ”پرانے شیعوں میں سے تھا ۔ (ابن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں)میں نے عرض کیا : اس کی حالت کیسی تھی؟ فرمایا : وہ شیخ تھا۔”
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٧/٢٩)
٤۔    اس میں اعمش راوی مدلس ہیں جو کہ ”عن” سے روایت کررہے ہیں ۔ سماع کی تصریح نہیں کی ، لہٰذا یہ روایت ”ضعیف” ہے۔
٥۔    اس کے راوی السری بن علی الوراق ٦۔     المظفر بن الحسن الانصاری
٧۔    ابوعلی احمد بن علی بن رزین     ٨۔    ابومحمد عبداللہ بن احمد الشعرانی
٩۔    ابوالحسن محمد بن القاسم
کی توثیق درکار ہے ، لہٰذا یہ روایت ”موضوع ومکذوب” ہے ۔
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس سند کو ”ساقط” قرار دیا ہے ۔
(الکاف الشاف فی تخریج احادیث الکشاف لابن حجر : ١/٦٤٩)
2    رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ ۔۔۔) نازل ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے ۔ لوگ نماز پڑھ رہے تھے ۔ ایک سائل آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اے سوالی ! آپ کو کسی نے کچھ دیا ہے ؟ اس نے جواباً عرض کیا : لا ، إلّا ہذا الراکع ــ لعلیّ ــ أعطانی خاتما ۔ (نہیں ، سوائے علی کے کہ انہوں نے مجھے انگوٹھی دی ہے)۔”(علوم الحدیث للحاکم : ص ١٠٢، تاریخ ابن عساکر : ٤٢/٣٥٧)
تبصرہ : یہ جھوٹی روایت ہے ۔ اس روایت کو گھڑنے والا شخص عیسیٰ بن عبداللہ بن محمد بن عمر ہے ۔ اس کے بارے میں امام ابوحاتم الرازی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لم یکن بقویّ الحدیث ۔ ”اس کی حدیث قوی نہیں تھی ۔ ”
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٦/٢٨٠)
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی ”متروک الحدیث ” ہے ۔
(سنن الدارقطنی : ٢/٢٦٣)
امام ابنِ عدی رحمہ اللہ اس کی منکر احادیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وعامّۃ ما یرویہ ما یتابع علیہ ۔ ”اس کی بیان کردہ اکثر روایات پر متابعت نہیں کی گئی ۔ ”(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٥/٢٤٥)
امام ابنِ حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : یروی عن أبیہ عن آبائہ أشیاء موضوعۃ ، لا یحلّ الاحتجاج بہ ، کأنّہ کان یہم ویخطیء ۔
”یہ اپنے والد کے واسطے سے اپنے اجداد سے من گھڑت روایات بیان کرتا تھا ۔ اس سے دلیل لینا حرام ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہمی اور خطاکار راوی تھا۔”
(المجروحین لابن حبان : ٢/١٢١)
نیز امام موصوف اسے اپنی کتا ب”الثقات”(٨/٤٩٢) میں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: فی حدیثہ بعض المناکیر ۔ ”اس کی بعض حدیثیں منکر ہیں۔”
امام ابنِ حبان رحمہ اللہ کا پہلا قول ہی راجح ہے ، کیونکہ وہ جمہور کے موافق ہے۔
امام ابونعیم اصبہانی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :         روٰی عن أبیہ عن آبائہ أحادیث مناکیر ، لا یکتب حدیثہ ، لا شیء ۔ ”یہ اپنے والد کے واسطے سے اپنے اجداد سے منکر احادیث بیان کرتا ہے ۔ اس کی حدیث لکھی بھی نہیں جائے گی ۔یہ حدیث میں کچھ بھی نہیں ۔ ”(کتاب الضعفاء لابی نعیم : ١٧٥)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی ایک دوسری روایت کے بارے میں کہا ہے :
ہذا لعلّہ موضوع ۔ ”شاید یہ موضوع روایت ہے۔”
(میزان الاعتدال للذہبی : ٣/٣١٥)
ثابت ہوا کہ اس راوی کے حق میں کوئی توثیق ثابت نہیں ۔
3    سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ سیدناعلی رضی اللہ عنہکے پاس ایک سوالی کھڑا ہوا تھا ۔ آپ  رضی اللہ عنہحالت ِ رکوع میں تھے ، نماز نفلی تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہنے اپنی انگوٹھی اتار کر اس سوالی کو دے دی ۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں آگاہی دی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی : ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ ۔۔۔) (المعجم الکبیر للطبرانی : ٦٢٢٨)
تبصرہ : یہ باطل روایت ہے ۔ اس کے راوی خالد بن یزید العمری کے بارے میں امام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٣/٣٦٠، وسندہ، صحیح) نے”کذاب” کہا ہے ۔ امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کان کذّابا ، أتیتہ بمکّۃ ، ولم أکتب عنہ ، وکان ذاہب الحدیث ۔
”وہ بہت جھوٹا شخص تھا ۔ میں اس کے پاس مکہ میں آیاتھا ، لیکن اس سے کچھ نہیں لکھا ۔ وہ حدیث میں بالکل ناکارہ تھا۔”(الجرح والتعدیل : ٣/٣٦٠)
امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ نے اس سے روایت لینا ترک کر دیا تھا۔(ایضاً)
امام ابنِ حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یروی الموضوعات عن الأثبات ۔
”یہ ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرکے من گھڑت روایات بیان کرتا تھا ۔”
(المجروحین لابن حبان : ١/١١٤،٢٢٤)
کسی ثقہ امام سے اس کی توثیق ثابت نہیں ، بلکہ باتفاقِ محدثین مجروح ہے۔
4    سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں : کان علیّ بن أبی طالب قائما یصلّی ، فمرّ سائل وہو راکع ، فأعطاہ خاتمہ ، فنزلت : ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ ۔۔۔)      ”سیدنا علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔ ایک سائل گزرا ۔ آپ رضی اللہ عنہاس وقت رکوع کی حالت میں تھے ۔ آپ نے اسے اپنی انگوٹھی دے دی ۔ اس پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی : ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ ۔۔۔) (تفسیر ابن کثیر : ٢/٥٦٧)
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف وباطل ” ہے ، کیونکہ :
١۔    سفیان ثوری رحمہ اللہ بالاجماع مدلس ہیں اور انہوں نے اس روایت میں سماع کی تصریح نہیں کی ۔ جب ثقہ مدلس صحیح بخاری ومسلم میں محتمل الفاظ سے روایت کرے ، سماع کی تصریح نہ کرے تو وہ ”ضعیف” ہوتی ہے۔
٢۔    امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ خود لکھتے ہیں : الضحّاک لم یلق ابن عبّاس ۔
”امام ضحاک کی سیدناابنِ عباس رضی اللہ عنہسے ملاقات نہیں ہوئی ۔”(ایضاً)
٣۔    تیسری بات یہ ہے کہ نیچے سے سند بھی غائب ہے ۔
5    سیدنا ابورافع  رضی اللہ عنہبیان کرتے ہیں کہ میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سور ہے تھے یا آپ پر وحی نازل ہورہی تھی ۔ گھر کے ایک کونے میں سانپ تھا ۔ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بیدار ہوئے تو یہ آیت ِ کریمہ تلاوت کر رہے تھے : ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ ۔۔۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یا أبا رافع ! سیکون بعدی قوم یقاتلون علیّا ، حقّا علی اللّٰہ جہادہم ، فمن لم یستطع جہادہم بیدہ ، فبلسانہ ، فمن لم یستطع بلسانہ فبقلبہ ، لیس وراء ذلک شیء ۔ ”اے ابورافع ! عنقریب میرے بعد کچھ لوگ علی ( رضی اللہ عنہ)سے لڑائی کریں گے ۔ ان سے مقابلہ کرنا اللہ پر لازم ہوگا ۔ جو اپنے ہاتھ سے ان کے مقابلے کی سکت نہ رکھتا ہو ، وہ اپنی زبان سے مقابلہ کرے ، جو زبان سے مقابلے کی بھی سکت نہ رکھتا ہو، وہ اپنے دل کے ساتھ ان سے نفرت کرے ۔ اس سے کم کچھ مرتبہ نہیں۔”
(المعجم الکبیر للطبرانی : ١/٣٢١، ح : ٩٥٥)
تبصرہ : یہ روایت سخت ترین باطل ہے ۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فیہ محمّد بن عبید اللّٰہ بن أبی رافع ، ضعّفہ الجمہور ، ووثّقہ ابن حبّان ، ویحیی بن الحسن بن الفرات لم أعرفہ ، وبقیّۃ رجالہ ثقات ۔
”اس میں محمد بن عبیداللہ بن ابی رافع راوی ہے ۔ اسے جمہور محدثین نے ضعیف کہا ہے، لیکن امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ نے اسے ثقہ قراردیا ہے ۔ یحییٰ بن الحسن بن الفرات کو میں نہیں جانتا ۔ اس کے باقی راوی ثقہ ہیں۔ ”(مجمع الزوائد : ٩/١٣٤)
محمد بن عبیداللہ بن ابی رافع کے بارے میں اما م بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
منکر الحدیث ۔ ”یہ منکر الحدیث راوی ہے۔”(کتاب الضعفاء : ٣٤٢)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حدیثہ لیس بشیء ۔
”اس کی حدیث کسی کام کی نہیں ۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٨/٢)
امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعیف الحدیث ، منکر الحدیث جدّا ذاہب ۔ ” یہ ضعیف الحدیث اور سخت منکر الحدیث ، نیز بہت کمزور راوی ہے۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٨/٢)
امام دارقطنی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : متروک ۔ ”یہ متروک راوی ہے۔”
(سوالات البرقانی : ٤٧٤)
امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہو فی عداد شیعیۃ الکوفۃ ، ویروی من الفضائل أشیاء لا یتابع علیہا ۔ ”اس کا شمار کوفہ کے شیعہ میں ہوتا ہے ۔ اس سے ایسے فضائل مروی ہیں جن پر اس کی متابعت نہیں کی گئی ۔”
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٦/١١٤)
6    سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں : خرج رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إلی المسجد ، والناس یصلّون بین راکع وساجد وقائم وقاعد ، وإذا مسکین یسأل ، فدخل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقال : أعطاک أحد شیأا ؟ قال : نعم ، قال : من ؟ قال : ذلک الرجل القائم ، قال : علی أیّ حال أعطاکہ ؟ قال : وہو راکع ، قال : وذلک علیّ بن أبی طالب ۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی طرف نکلے ۔ لوگ نماز پڑھ رہے تھے ، کچھ رکوع میں ، کچھ سجدے میں کچھ قیام اورکچھ قعود میں تھے ۔ اچانک ایک مسکین شخص سوال کرنے لگا ۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  داخل ہوئے تو فرمایا : کیا تجھے کسی نے کچھ دیا ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! فرمایا : کس نے ؟ عرض کیا: اس قیام کرنے والے شخص نے ۔ فرمایا : اس نے کس حال میں تجھے دیا ہے ؟ عرض کیا : رکوع کی حالت میں ۔ فرمایا : وہ علی بن ابی طالب ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”(تفسیر ابن کثیر : ٢/٥٦٧)
تبصرہ : یہ جھوٹی اوروضعی ومن گھڑت روایت ہے ۔ یہ محمد بن السائب الکلبی کی کارستانی ہے ۔ یہ راوی باتفاقِ محدثین ”ضعیف” اور ”متروک” ہے ۔
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں : وہو متروک ۔ ”یہ متروک راوی ہے۔”(تفسیر ابن کثیر : ٢/٥٦٧)
اس روایت میں کلبی کا استاذ ابوصالح باذام بھی ”ضعیف” ہے ۔ (تقریب التہذیب : ٦٣٤)
حافظ نووی رحمہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں : قال الأکثرون : لا یحتجّ بہ ۔
”اکثر محدثین کرام کا کہنا ہے کہ اس سے حجت نہیں لی جاسکتی ۔”(خلاصۃ الاحکام : ٢/١٠٤٤)
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہذا إسناد لا یفرح بہ ، ثمّ رواہ ابن مردویہ من حدیث علیّ بن أبی طالب رضی اللّٰہ عنہ نفسہ ، وعمّار بن یاسر ، وأبی رافع ، ولیس یصحّ شیء منہا بالکلیّۃ لضعف أسانیدہا وجہالۃ رجالہا ۔
”اس سند کے ساتھ خوش نہیں ہوا جاسکتا ۔ پھر اس کو ابنِ مردُوَیہ نے سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا عمار بن یاسر ، سیدنا ابورافع yکی حدیث سے بھی بیان کیا ہے ، لیکن ان میں سے کچھ بھی صحیح ثابت نہیں ، کیونکہ ان کی سندیں ضعیف ہیں اور راوی مجہول ہیں۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٢/٥٦٧)
فائدہ : سلمہ بن کہیل کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لقاء وسماع ثابت نہ ہوسکا ۔ اس لیے یہ قول ”ضعیف” ہے ، نیز عقبہ بن ابی حکیم (تفسیر ابن ابی حاتم : ٤/١١٦٢) کا قول بھی ”ضعیف” ہے۔ اس میں ایوب بن سوید راوی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔
مجاہد رحمہ اللہ (تفسیر الطبری : ٦/٢٨٨) سے روایت ہے کہ وہ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ۔ لیکن یہ جھوٹا قول ہے ۔اس کا راوی غالب بن عبیداللہ بالاتفاق ”ضعیف” اور ”متروک” راوی ہے۔ اس کے حق میں ادنیٰ کلمہئ توثیق بھی ثابت نہیں ہے۔
سدّی (تفسیر الطبری : ٦/٢٨٨، وسندہ، حسن) فرماتے ہیں کہ یہ آیت سارے کے سارے مؤمنوں کے بارے میں نازل ہوئی ، نیز اس قول کے ساتھ ہی فرماتے ہیں :
ولکن علیّ بن أبی طالب مرّ بہ سائل ، وہو راکع فی المسجد ، فأعطاہ خاتمہ ۔ ”لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہکے پاس سے ایک سائل گزرا ، آپ مسجد میں رکوع کی حالت میں تھے ۔ آپ نے اسے اپنی انگوٹھی دے دی ۔”
قول کا یہ حصہ ”منقطع” ہے ، کیونکہ سدی کا سیدناعلی رضی اللہ عنہسے سماع ثابت نہیں ۔
قارئین کرام ! آیت ِ کریمہ ( إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ ۔۔۔) (المائدۃ : ٥٥) کی تفسیر کے حوالے سے بعض لوگوں کی یہ کل کائنات تھی ، جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا ہے ۔ ایک بھی قول ثابت نہیں ہوسکا ۔ لہٰذا یہ کہنا کہ یہ آیت سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، اس پر مفسرین کا اجماع ہے ، یہ کائنات کا کالا جھوٹ ہے جو بعض لوگوں کے حصہ میں آیا ہے ۔ اس آیت کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلا فصل ثابت کرنے کے لیے بطور ِ نص پیش کرنا جہالت کا لَک توڑنے کے مترادف ہے اورقرآنِ کریم کی واضح معنوی تحریف ہے جو کہ اہل حق کو زیبا نہیں ۔
علامہ ابنِ حیان اندلسی رحمہ اللہ (٦٥٤۔٧٤٥ھ) اللہ تعالیٰ کے فرمان ( وَہُمْ رَاکِعُوْنَ)کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ہذہٖ أوصاف میّز بہا المؤمن الخالص الإیمان من المنافق ، لأنّ المنافق لا یدوم علی الصلاۃ ولا علی الزکاۃ قال تعالی : ( إِنَّ الْمُنَافِقِینَ یُخَادِعُونَ اللّٰہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ ) ، وقال تعالی : (أَشِحَّۃً عَلَی الْخَیْرِ ) ، ولمّا کانت الصحابۃ وقت نزول ہذہ الآیۃ من مقیمی صـــلاۃ ومؤتی زکاۃ ، وفی کلتا الحالتین کانوا متّصفین بالخضوع للّٰہ تعالی والتذلّل لہ ، نزلت الآیۃ بہذہ الأوصاف الجلیلۃ ، والرکوع ہنا ظاہرہ الخضوع ، لا الہیئۃ الّتی فی الصلاۃ ۔ ”ان اوصاف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے خالص ایمان والے مؤمنوں کومنافقوں سے ممتاز کیا ہے، کیونکہ منافق نماز اور زکاۃ پر دوام نہیں کرسکتا ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( إِنَّ الْمُنَافِقِینَ یُخَادِعُونَ اللّٰہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ ) (منافق اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کو دھوکہ دیتا ہے)، نیز فرمایا : (أَشِحَّۃً عَلَی الْخَیْرِ ) (وہ بھلائی پر کنجوس ہیں)۔ جب صحابہ کرام اس آیت کے نزول کے وقت نماز قائم کرنے والے اورزکاۃ ادا کرنے والے تھے اور ان دونوں حالتوں میں وہ اللہ تعالیٰ کے لیے خشوع وخضوع کے ساتھ متصف تھے تو ان صفات جلیلہ کے ساتھ یہ آیت نازل ہوگئی ۔ اس آیت میں رکوع سے مراد اطاعت وفرمانبرداری ہے ، نہ کہ نماز کی خاص حالت ۔”
(البحر المحیط لابن حیان الغرناطی : ٣/٥١٤)
نیز حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (٧٠٠۔٧٧٤ھ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
فقد توہّم بعضہم أنّ ہذہ الجملۃ فی موضع الحال من قولہ : ( وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ ) أی فی حال رکوعہم ، ولو کان ہذا کذلک ، لکان دفع الزکاۃ فی حال الرکوع أفضل من غیرہ ، لأنّہ ممدوح ، ولیس الأمر کذلک عند أحد من العلماء ممّن نعلمہ من أئمّۃ الفتوی ۔ ”بعض لوگوں کو یہ وہم ہوا ہے کہ یہ جملہ ( وَہُمْ رَاکِعُوْنَ)(وہ رکوع کرنے والے ہوتے ہیں) ( وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ ) (اور وہ زکاۃ ادا کرتے ہیں) سے حال بن رہا ہے ۔ یعنی مؤمن رکوع کی حالت میں زکاۃ ادا کرتے ہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو رکوع کی حالت میں زکاۃ ادا کرنا باقی طریقوں سے افضل ہوتا ، کیونکہ اس کی تعریف کی گئی ہے ، لیکن ہم جن مفتی ائمہ کو جانتے ہیں ، ان میں سے کسی کے ہاں ایسا نہیںہے۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٢/٥٦٦)
اس آیت سے شیعہ کا سیدنا علی رضی اللہ عنہکو خلیفہ بلافصل ثابت کرنے کے استدلال کو شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ)نے ١٩ طرح سے باطل قرار دیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں :
قولہ (ابن مطہّر الحلی) : قد أجمعوا أنّہا نزلت فی علیّ ، من أعظم الدعاوی الکاذبۃ ، بل أجمع أھل العلم بالنقل علی أنّہا لم تنزل فی علیّ بخصوصہ ، وأنّ الحدیث من الکذب الموضوع ، وأنّ تفسیر الثعلبیّ فیہ طائفۃ من الموضوعات ، وکان حاطب لیل ، وفیہ خیر ودین ، ولکن لا خبرۃ لہ بالصحیح والسقیم من الأحادیث ، ثمّ نعفیک من دعوی الإجماع ، ونطالبک بسند واحد صحیح ، وما أوردتہ عن الثعلبیّ واہ ، فیہ رجال متّہمون ۔ ”ابنِ مطہر حلی کا یہ قول کہ مفسرین کا اس آیت کے سیدنا علی رضی اللہ عنہکے بارے میں نازل ہونے پر اجماع ہے ، جھوٹے دعاوی میں سے ایک ہے ۔ اس کے برعکس ماہرینِ اسناد علمائے کرام کا تو اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت خاص سیدنا علی رضی اللہ عنہکے بارے میں نازل نہیں ہوئی اور اس بارے میں جو حدیث ہے ، وہ گھڑی ہوئی اورجھوٹی روایت ہے ، نیز تفسیر ثعلبی میں بہت سی من گھڑت روایات ہیں ۔ ثعلبی حاطب ِ لیل (رات کو لکڑیاں جمع کرنے والے جو خشک وتَرمیں کوئی فرق نہیں کر پاتے )تھے ۔ اس تفسیر میں بھلائی اوردین کی باتیں موجود ہیں ، لیکن ان کو صحیح وضعیف میں فرق کرنے کی کوئی مہارت نہیں تھی ۔ پھر ہم آپ کو دعویئ اجماع چھوڑتے ہیں اور کوئی ایک صحیح سند کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ ثعلبی نے جو روایت بیان کی ہے ، وہ کمزور ہے ۔ اس میں متہم بالکذب راوی موجود ہیں۔ ”(منہاج السنۃ : ٤/٤، المنتقٰی للذہبی : ص ٤١٩)
نیز فرماتے ہیں : ولو کان المراد بالآیۃ أن یؤتی الزکاۃ فی حالۃ الرکوع لوجب أن یکون ذلک شرطا فی الموالاۃ ، ولا یتولّی المسلم إلا علیّا فقط ، فلا یتولی الحسن ولا الحسین ، ثمّ قولہ ( الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ ) صیغۃ جمع فلا تصدّق علی واحد فرد ، وأیضا فلا یثنی علی المرء إلا بمحمود ، وفعل ذلک فی الصــلاۃ لیس بمستحبّ ، ولو کان مستحبّا لفعلہ الرسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ولحض علیہ ولکرّر علی فعلہ ، وإن فی الصلاۃ لشغلا ، فکیف یقـال : لا ولیّ لکم إلّا الذین یتصدّقون فی حال الرکوع ؟
”اگر اس آیت سے مراد یہ ہوتی کہ حالت ِ رکوع میں زکاۃ دی جائے تو یہ چیز موالاۃ میں شرط قرار پاتی اور مسلمان صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہکو ہی ولی بنا سکتے ۔ سیدنا حسن وحسین رضی اللہ عنہما بھی ولایت کے قابل نہ ہوتے ۔ پھر قرآنِ کریم میں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے جو کہ فرد ِ واحد پر صادق نہیں آسکتا۔ نیز یہ بات بھی ہے کہ کسی کی تعریف کسی قابلِ مدح کام کے ساتھ ہی کی جاسکتی ہے ، جبکہ نماز میں زکاۃ دینا کوئی مستحب کام نہیں ۔ اگر یہ کام مستحب ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام کو کرتے ، اس پر ترغیب دیتے اور بار بار ایسا کرتے ۔ پھرنماز میں ایک اپنی مشغولیت ہوتی ہے ، لہٰذا کیسے کہا جاسکتا ہے کہ تمہارے ولی صرف وہ لوگ بن سکتے ہیں جو رکوع کی حالت میں صدقہ کرتے

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.