878

خلع والی عورت کی عدت کتنی ہو گی؟ ۔ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے کیونکہ :
١٭ ثابت بن قیس بن شماس نے اپنی بیوی جمیلہ بنت ِ عبداللہ بن اُبی کو مار ا ، اس کا ہاتھ توڑ دیا ، ان کا بھائی نبی ئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ا س کی شکایت لے کر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف آدمی بھیجا ، اسے فرمایا :
خذ الّذی لھا علیک وخلّ سبیلھا ، قال : نعم ، فأمر رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أن تتربّص حیضۃً واحدۃً ، فتلحق بأھلھا ۔
”تم وہ حق مہر رکھ لو جو اس عورت کا تمہارے ذمہ ہے اور اس کا راستہ چھوڑ دو ، اس نے کہا ، ٹھیک ہے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (جمیلہ )کو ایک حیض انتظا ر کرنے کا حکم دیا ، پھر وہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی جائے ۔”(سنن نسائی : ٣٥٢٧، وسندہ، صحیح)
٢٭ عن عبادۃ بن الصّامت عن الرّبیع بنت معوّذ بن عفراء ، قال : قلت لھا : حدّثینی حدیثک ، قالت : اختلعت من زوجی ، ثمّ جئت عثمان ، فسألت : فماذا علی من العدّۃ ؟ فقال : لا عدّۃ علیک الّا أن یکون حدیث عہد بک فتمکثین عندہ، حتّٰی تحیضین حیضۃً ، قالت : وانّما تبع فی ذٰلک قضاء رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی مریم المُغَالِیَۃِ وکانت تحت ثابت ابن قیس ، فاختلعت منہ ۔
”سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ ربیع بنت ِ معوّذ بن عفرا سے کہا کہ مجھ سے اپنی آپ بیتی بیان کرو ، اس نے کہا ، میں نے اپنے خاوند سے خلع لے لیا ، پھر میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور سوال کیا کہ کیا مجھ پر کوئی عدّت ہے ؟ آپ نے فرمایا ، تجھ پر کوئی عدت نہیں ، ہاں شروع شروع میں تو اس کے پاس ٹھہر حتی کہ ایک حیض گزار لے ، کہتی ہیں کہ سید نا عثمان نے اس فیصلے میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلے کی پیروی کی ہے ، جو آپ نے مریم المغالیہ کے بارے میں فرمایا تھا ، وہ ثابت بن قیس کے نکاح میں تھیں ، پھر ان سے خلع لے لیا ۔”
(سنن ابن ماجہ : ٢٠٥٨، السنن الصغرٰی للنسائی : ٣٥٢٨، السنن الکبرٰی للنسائی : ٥٦٩٢، المعجم الکبیر للطبرانی : ٢٤/٢٦٥۔٢٦٦، وسندہ، حسن)
٣٭ عن الرّبیع بنت معوّذ بن عفراء أنّھا اختلعت علیٰ عھد النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فأمرھا النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أو أمرت أن تعتدّ بحیضۃٍ ۔
”ربیع بنت ِ معوّذ بن عفرا سے روایت ہے کہ انہوںنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِ مبارک میں خلع لیا ،ان کو نبی ئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیایا اسے ایک حیض عدت گزارنے کاحکم دیاگیا۔” (سنن ترمذی : ١١٨٥، وسندہ، صحیح وصححہ ابن الجارود : ٧٦٣)
٤٭ عن ابن عباس أن امراۃ ثابت بن قیس اختلعت من زوجھا علٰی عھد النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فأمرھا النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أن تعتدّ بحیضۃٍ ۔
”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نے نبی ئاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِ مبارک میں اپنے خاوند سے خلع لیا ، آپ نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔” (سنن أبی داؤد : ٢٢٢٩، سنن ترمذی : ١١٨٥/ م، وسندہ، صحیح)
امام ترمذی نے اس حدیث کو ”حسن غریب” قرار دیا ہے ۔
ابنِ عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : عدّۃ المختلعۃ حیضۃٌ ۔ ”حائضہ کی عدت ایک حیض ہے ۔” (موطا الامام مالک بروایۃ یحییٰ : ٢/٥٦٥، سنن أبی داؤد : ٢٢٣٠، وسندہ، صحیح)
نافع بیان کرتے ہیں : وکان ابن عمر یقول : تعتدّ ثلاث حیض ، حتّٰی قال ھٰذا عثمان ، فکان یُفتی بہ ویقول : خیرنا وأعلمنا ۔
”سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما (پہلے )فرماتے تھے کہ وہ (خلع والی عورت )تین حیض عدت گزارے گی ، یہاں تک کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ (ایک حیض عدت کا حکم )فرمایا تو آپ اسی (ایک حیض )کے مطابق فتوٰی دینے لگے اور فرمایا کرتے تھے ، آپ (عثمان رضی اللہ عنہ )ہم میں سے بہتر اور زیادہ علم والے ہیں ۔” (مصنف ابن ابی شیبۃ : ٥/١١٤، وسندہ، صحیح)
تنبیہ :
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فقال أکثر أہل العلم من أصحاب النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وغیرھم : انّ عدّۃ المختلعۃ عدّۃ المطلّقۃ ، ثلاث حیض ۔
”صحابہ کرام اوران کے علاوہ اکثر اہلِ علم کا کہنا ہے کہ خلع والی عورت کی عدت مطلقہ عورت کی طرح تین حیض ہے۔”(جامع ترمذی تحت حدیث : ١١٨٥/ م)
امام ترمذی کی یہ بات محلِّ نظر ہے ، کسی صحابی سے خلع والی عورت کی عدت تین حیض ہونا ثابت نہیں ، سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے جوروایت ہے ، اس سے آپ کا رجوع بھی ثابت ہے ، والحمد للّٰہ !
امام اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ان ذھب ذاھب الٰی ھذا ، فھو مذہبٌ قویٌّ ۔
”جس کا یہ مذہب ہے کہ خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے تو یہ مذہب قوی ہے ۔”(جامع ترمذی تحت حدیث : ١١٨٥/ م)
اعتراض نمبر ١:
جناب تقی عثمانی دیوبندی حیاتی پہلی حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں :
[[جمہور کے نزدیک حدیث ِ باب میں’ ‘حیضۃ’ ‘ سے مراد جنسِ حیض ہے ، اس پر بعض ان روایات سے اشکال ہوتا ہے ، جن میں’ ‘حیضۃ’ ‘کے ساتھ ”واحدۃ” کی قید مصرح ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ راوی کا تصرف ہے ، دراصل اس ‘ ‘حیضۃ’ ‘ میں ”ۃ” تائے وحدت نہیں بلکہ بیانِ جنس کے لیے ”ۃ” لائی گئی ہے۔]] (درسِ ترمذی از تقی : ٣/٤٩٦)
تبصرہ :
یہ تحکمِ محض ہے ، آلِ تقلید اور منکرینِ حدیث کی مشترکہ کاوش ہے کہ جو حدیث اپنے مذہب کے خلاف پاتے ہیں ، اس کو ”راوی کا تصرف ” وغیرہ کہہ کر دینِ اسلام کو مطعون و مشکوک گردانتے ہوئے ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے ۔
”حیضۃ ” یہ حاض یحیض کا مصدر ہے ، یہ اصل میں ”حیض ” تھا ، اس میں ”ۃ” وحدت کی ہے ، ثلاثی مجرد کا مصدر ”فَعْلَۃٌ” کے وزن پر آئے تو وحدت کا فائدہ دیتا ہے ، ثلاثی مجرد کا مصدر یا تو ”ۃ” سے خالی ہو گا یا ”ۃ” کے سا تھ مستعمل ہو گا جیسے ”رحمۃ” ہے ، اگر ”ۃ” سے خالی ہواور اس سے وحدت مراد لینی ہو تو ”ۃ” لائی جائے گی ، اگر پہلے سے ”ۃ” کے ساتھ مستعمل ہوتو وحدت مراد لینے کے لیے ”واحدۃ ” کی قید بڑھائی جائے گی ، جیسے ”رَحِمْتُہ، رَحْمَۃً وَاحِدَۃً ” ۔
بالفرض والتقدیر ان کی یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ ”حیضۃ ” میں ”ۃ” جنس کے لیے ہے اور جنس واحد ، تثنیہ اور جمع کو شامل ہوتی ہے تو ہم روایت کے لفظ ”واحدۃ ” کے ساتھ جنس سے وحدت مراد لے لیں گے ، کیونکہ واحد بھی جنس کے افراد میں سے ہے ۔
نبوی فیصلے کی پیروی میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا بھی یہی فتوٰی ہے کہ خلع والی عورت کی عدت ایک حیض ہے ، سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اپنے فتوٰی سے رجوع کر کے اس عثمانی فتوٰی کو قبول فرمایا ، امام اسحاق اس کو قوی مذہب قرار دیتے ہیں ، اس کے باوجود ”بعض الناس ” حدیث میں ”واحدۃ ” کے لفظ کو راوی کا تصرف کہتے نہیں تھکتے ، اس پر سہاگہ یہ کہ ان سے پہلے یہ اعتراض کسی مسلمان سے ثابت نہیں ۔
اعتراض نمبر ٢:
جناب تقی عثمانی دیوبندی اس حدیث پر دوسرا اعتراض یوں وارد کرتے ہیں :
[[نیز یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ روایت جو خبرِ واحد ہے ، نصِّ قرآنی (وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْۤئٍ) (سورۃ البقرۃ : ٢٢٨)کا معارضہ نہیں کر سکتی ۔]] (درسِ ترمذی : ٣/٤٩٦)
تبصرہ :
١٭ یہ واضح طور پر منکرینِ حدیث کی روش ہے ، وہ یہی خطرناک ہتھیار صدیوں سے ردِّ حدیث کے لیے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں ، ثابت ہو ا کہ فتنہئ انکارِ حدیث دراصل تقلید ِ ناسدید کا پروردہ ہے ، حالانکہ آیت ِ کریمہ کا حکم عام ہے ، جس طرح نصِّ قرآنی سے حاملہ عورت کی عدت اس کے عموم سے مستثنیٰ ہے کہ: (وَاُولاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ)(الطلاق : ٤)یعنی : ” حمل والیوں کی عدت وضعِ حمل ہے” اسی طرح نصِّ حدیث سے خلع والی عورت کی عدت اس آیت کے عموم سے خاص ومستثنیٰ ہے ۔
٢٭ یہ آیت ”عام مخصوص منہ البعض” ہے تو احناف کے نزدیک ”عام مخصوص منہ البعض ” کی تخصیص خبرِ واحد سے بالاتفاق جائز ہے ، کیونکہ ان کے نزدیک ” عام مخصوص منہ البعض ” ظنّی ہے اور خبرِ واحد بھی ظنّی ہے ، ظنّی کی تخصیص ظنّی سے ان کے نزدیک بلا اختلاف جائز ہے ۔
٣٭ اس آیت ِ کریمہ کا تعلق طلاق سے ہے ، جبکہ حدیث ِ مذکورہ خلع کے متعلّق ہے اور خلع طلاق نہیں بلکہ فسخِ نکاح ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.