919

کیا یتیم کے مال میں زکوۃ ہے؟ شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

یتیم کے مال پر زکوٰۃ واجب ہے ، جیسا کہ :
1    زکوٰۃ کے متعلق عمومی دلائل سے ثابت ہے ، یتیم کے بارے میں استثنیٰ ثابت نہیں ہے ۔
2    سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  رضی اللہ عنہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں : ابتغوا بأموال الیتامی ، لا تأکلھا الصّدقۃ ۔ ”تم یتیموں کے مالوں میں کاروبار کرو ، کہیں ان کو زکوٰۃ ختم نہ کردے۔”(سنن الدارقطنی : ١/١١٠، ح : ١٩٥٤، السنن الکبری للبیہقی : ٤/١٠٧، وسندہ، صحیحٌ)
امام بیہقی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ھذا إسناد صحیح ۔     ” یہ سند صحیح ہے۔”(السننن الکبری للبیہقی : ٤/١٠٧)
شبہ :      ابنِ ترکمانی حنفی (٦٨٣۔٧٥٠ھ)نے یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ صحیح کیسے ؟ جبکہ صحیح کے لیے سند کا متصل ہونا شرط ہے ، اس کی سند متصل نہیں ہے ۔
(الجوہر النقی لابن الترکمانی : ٤/١٠٧)
J : سعید بن مسیب  رحمہ اللہ کا سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  سے سماع ثابت ہے۔(دیکھیں المؤطا للامام مالک : ١٣٤٩، وسندہ، صحیح ، ١٦٥٣، وسندہ، صحیحٌ)
امام حاکم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      وأکثر أئمّتنا علی أنّہ قد سمع منہ ۔
” ہمارے اکثر ائمہ اسی موقف پر ہیں کہ انہوں نے سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ سے سماع کیا ہے۔”
(المستدرک للحاکم : ١/٢١٥، طبع دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : وصحّ سماع سعید من عمر ۔
”سعید بن مسیب  رحمہ اللہ کا سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  سے سماع ثابت ہے ۔”
(زوائد مختصر مسند البزار لابن حجر : ٢/٤١٩)
لہٰذا اعتراض رفع ہوا ۔
3    قاسم بن محمد  رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :      کانت عائشۃ تلینی أنا وأخا لی یتیمین فی حجرھا ، فکانت تخرج من أموالنا الزّکاۃ ۔
”سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  مجھے اور میرے ایک بھائی کی پروش کرتی تھیں ، ہم دونوں یتیم تھے ، وہ ہمارے مالوں سے زکوٰۃ نکالتی تھیں ۔”(المؤطا للامام مالک : ٥٩٠، وسندہ، صحیحٌ)
4    سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما  کے بارے میں روایت ہے : أنّہ کان یزکّی مال الیتیم ۔     ”آپ یتیم کے مال سے زکوٰۃ ادا کرتے تھے ۔”
(الاموال لابی عبید القاسم بن سلام : ١٣٠٨، وسندہ، صحیحٌ)
5    ابوالزبیر  رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہما  کو ایسے شخص کے متعلق فرماتے ہوئے سنا ،جس کے پاس یتیم کا مال ہو : یعطی زکاتہ ۔
”وہ اس (یتیم کے مال )کی زکوٰۃ ادا کرے گا ۔”
(الاموال لابی عبید القاسم بن سلام : ١٣١٠، وسندہ، صحیحٌ)
6، 7     مشہور تابعی مجاہد بن جبر اور عطاء بن ابی رباح  رحمہمااللہ  فرماتے ہیں :
أدّ زکاۃ مال الیتیم ۔ ”یتیم کے مال کی زکوٰۃ ادا کرو۔”
(الاموال لابی عبید القاسم بن سلام : ١٣١٢، وسندہ، صحیحٌ)
8    ابو یونس الحسن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے امام طاؤس بن کیسان تابعی رحمہ اللہ  سے مالِ یتیم سے زکوٰۃ کے بارے میں پوچھا ، تو آپ نے فرمایا : زکّہ ، فإن لم تفعل فالإثم فی عنقک ۔     ”زکوٰۃ دو ، ورنہ گناہ تمہارے سر ہوگا ۔”
(الاموال لابی عبید القاسم بن سلام : ١٣١٤، وسندہ، صحیحٌ)
9    امام شعبی تابعی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : فی مال الیتیم زکاۃ ۔
”یتیم کے مال میں زکوٰۃ ہوگی ۔”(الاموال لابن زنجویہ : ١٤٣١، وسندہ، صحیحئ)
فائدہ : الاموال لابن زنجویہ (١٤٤٧)میں ہے کہ امام شعبی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مالِ یتیم میں زکوٰۃ نہیں ۔ یہ قول مجالد بن سعید ، جوکہ جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے ، کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ۔
0    امام سفیان ثوری  رحمہ اللہ کے بارے میں آیا ہے کہ : أنّہ کان یری فی مال الیتیم الزّکاۃ ۔     ”وہ مالِ یتیم میں زکوٰۃ کوواجب سمجھتے تھے۔”
(الاموال لابن زنجویہ : ١٤٣٢، وسندہ، صحیحٌ)
تلک عشرۃ کاملۃ ۔ یہ سلف کے پورے دس اقوال ہیں ، جن میں سے پانچ صحابہ کرام ہیں ۔
یاد رہے کہ ائمہ ثلاثہ ، یعنی امام احمد بن حنبل ، امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ  کے نزدیک بھی یتیم کے مال پر زکوٰۃ واجب ہے ،نیز امام اسحاق بن راہویہ  رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔
(سنن الترمذی ، تحت حدیث : ٦٤١)
مانعین کے دلائل اور ان کا جائزہ
جو لوگ مالِ یتیم میں زکوٰۃ کے قائل نہیں ، ان کے دلائل کا جائزہ پیشِ خدمت ہے :
دلیل نمبر 1 : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں :
أحص ما فی مال الیتیم من الزّکاۃ ، فإذا بلغ وآنست منہ رشدا فأخبرہ ، فإن شاء زکّی وإن شاء ترک ۔ ”تو یتیم کے مال کا حساب لگاؤ ، جب وہ بالغ ہوجائے تو اسے بتادو ، وہ چاہے تو زکوٰۃ نکالے ، چاہے تو رہنے دے ۔”
(الاموال لابی عبید : ١٣١٥، السنن الکبری للبیہقی : ٤/١٠٨)
تبصرہ :      اس کی سند سخت ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
1    اس میں لیث بن ابی سلیم راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” اور ”سییئ الحفظ” ہے ۔ امام احمد بن حنبل ، امام دارقطنی ، اما م یحییٰ بن مَعین ، امام ابوحاتم الرازی ، امام ابو زرعہ الرازی ، امام نسائی ، امام ابن عدی اور جمہور محدّثین نے اسے حدیث میں ناقابلِ اعتبار قرار دیا ہے ۔
اس کے بارے میں حافظ عراقی (٧٢٥۔٨٠٦)لکھتے ہیں : ضعّفہ الجمہور۔
” جمہور نے اس کو ضعیف کہا ہے۔”
(المغنی عن حمل الاسفار فی الاسفار : ٢/١٧٨، تخریج احادیث الاحیاء للحداد : ١٦٤٨)
حافظ ہیثمی لکھتے ہیں :      وضعّفہ الأکثر ۔ ” اکثر محدثین نے اس کو ضعیف کہا ہے ۔”
(مجمع الزوائد : ١/٩٠،٩١،٢/١٧٨)
حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ضعیف عند الجمہور۔
”جمہور کے نزدیک ضعیف ہے ۔”(البدر المنیر لابن الملقن : ٢/١٠٤)
بوصیری کہتے ہیں : ضعّفہ الجمہور۔ ” اس کو جمہور نے ضعیف کہا ہے ۔”
(زوائد ابن ماجہ : ٥٤)
حافظ ابنِ حجر نے اس کو ”ضعیف الحفظ ” کہا ہے ۔(تغلیق التعلیق لابن حجر : ٢/٣٣٧)
2    اس کی سند ”منقطع” بھی ہے ۔ مجاہد  رحمہ اللہ کا سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
ربیع بن سلیمان کہتے ہیں :      قال الشّافعیّ فی مناظرۃ جرت بینہ وبین من خالفہ ، وجوابہ عن ھذا الأثر مع أنّک تزعم أنّ ھذا لیس بثابت عن ابن مسعود من وجھین ، أحدھما : أنّہ منقطع ، وأنّ الّذی رواہ لیس بحافظ ۔
”امام شافعی  رحمہ اللہ اور ان کے ایک مخالف کے درمیان ایک مناظرہ ہوا ، اس اثر کے بارے میں امام صاحب کا جواب یہ تھا ، باوجود اس بات کے کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے دو ووجہ سے ثابت نہیں ہے ، ایک تو یہ منقطع ہے ، دوسرے اس کو بیان کرنے والا (لیث بن ابی سلیم)حافظ نہیں ہے ۔”(السنن الکبری للبیہقی : ٤/١٠٨، وسندہ، صحیحٌ)
دلیل نمبر 2 :      سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں :
”مالِ یتیم پر زکوٰۃ واجب نہیں ، جب تک اس پر نماز واجب نہیں ہوتی ۔”
(الاموال لابن زنجویہ : ١٤٣٥، سنن الدارقطنی : ٢/١١١، ح : ١٩٦٢)
تبصرہ :      اس کی سند ا بنِ لہیعہ کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ، جمہور نے اسے ”ضعیف” قرار دیا ہے ۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وابن لھیعۃ ، ضعّفہ الجمہور ۔ ”اور ابنِ لہیعہ کو جمہور نے ضعیف قرارد یا ہے ۔”(مجمع الزوائد : ١٠/٣٧٥)
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وھو ضعیف بالاتفاق لاختلال ضبطہ ۔
”وہ بالاتفاق ضعیف ہے ،کیونکہ اس کا حافظہ خراب تھا۔”(خلاصۃ الاحکام : ٢/٦٢٥)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف” کہا ہے ۔(تغلیق التعلیق لابن حجر : ٣/٢٣٩)
یہ قول ذکر کرنے کے بعد امام دارقطنی  رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں : ابن لہیعۃ ، لا یحتجّ بہ ۔    ”ابن لہیعہ قابل حجت نہیں ہے ۔”(سنن الدارقطنی : ١/١١١)
الحاصل :      کسی صحابی سے یہ ثابت نہیں کہ وہ مالِ یتیم سے زکوٰۃ کے قائل نہ ہوں ۔ مالِ یتیم میں زکوٰۃ واجب ہے ، پاگل اورگونگے ، بہرے کا بھی یہی حکم ہے ۔
شبہ :      یتیم پر نماز فرض نہیں تو زکوٰۃ کیسے فرض ہوسکتی ہے ؟
ازالہ :      امام ابنِ عبدالبر  رحمہ اللہ (م ٤٦٣ھ) لکھتے ہیں :
وقد أجمعوا أیضا أن فی مال من لم یبلغ ولم تجب علیہ صلاۃ أرش ما یجنیہ من الجنایات وقیمۃ ما یتلفہ من المتلفات ، وأجمعوا علی أن الحائض والذی یجن أحیانا لا یراعی لہم مقدار أیام الحیض والجنون من الحول ، وہذا کلہ دلیل علی أن الزکاۃ حق المال لیست کالصلاۃ التی ہی حق البدن فإنہا تجب علی من تجب علیہ الصلاۃ وعلی من لا تجب علیہ ۔
”مسلمانوں کا اس بات پربھی اجماع ہے کہ جس پر نماز فرض نہیں ہوئی اس کے مال میں سے اس کے کیے ہوئے جرائم کی دیت اوراس کی تلف کی ہوئی چیزوں کی قیمت نکالنا ضروری ہے۔ اسی طرح ان کا اجماع ہے کہ حائضہ عورت کے حیض کے دنوں کی مقداراور وہ شخص جو کبھی کبھی جنون کا شکار ہوجاتا ہے، اس کے جنون کے دنوں کے مقدار (زکوٰۃ کے لیے گزرنے والے)سال سے خارج نہیں کی جائے گی ۔ یہ سب باتیں دلیل ہیں کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے ، یہ نماز کی طرح نہیں ہے، جو کہ بدن کا حق ہے ، لہٰذا زکوٰۃ اس شخص پر بھی واجب ہوگی ، جس پر نماز واجب ہے اور اس شخص پر بھی، جس پر نماز واجب نہیں ہے ۔”(الاستذکار لابن عبد البر : ٣/١٥٦)
نیز لکھتے ہیں : فھذا من طریق الإتباع ، وأمّا من طریق النظر والقیاس علی ما أجمع علماء المسلمین علیہ من زکاۃ ما تخرجہ أرض الیتیم من الزرع والثمار ، وھو ممّا لا یختلف فیہ حجازیّ ولا عراقیّ من العلماء ۔
”یہ (آثار ِصحابہ پر عمل کرکے یتیم کے مال میں زکوٰۃ کو لازم قرار دینا)تو اتباع کاطریقہ ہے ، رہا قیاس واجتہاد کا طریقہ تو مسلمان علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ یتیم کی زمین سے جو غلہ نکلتا ہے ، اس پر زکوٰۃ واجب ہے (اگرچہ اس پرنماز فرض نہ بھی ہوئی ہو)اور اس میں کسی حجازی یا عراقی عالم کو اختلاف نہیں ہے ۔”(الاستذکار لابن عبد البر : ٣/١٥٦)
دوسری بات یہ ہے کہ حنفی ودیوبندی حضرات، جو آثار ِ صحابہ کے متعلق اس قسم کے شبہات پیدا کرتے ہیں ، ان کے نزدیک بھی یتیم کی زمین جو غلہ اگاتی ہے ، اس میں زکوٰۃ ہے ۔ کیا ان کو اس وقت یہ خیال نہیں رہتا کہ اس پر تونماز فرض نہیں ہے ؟

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.