1,121

کن مواقع پر درود فرض ہے؟ غلام مصطفی ظہیر امن پوری


درود کے فرض ہونے کے مواقع
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

1 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر سن کر درود :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سن کر درود پڑھنا فرض ہے،کیوں کہ ایسے شخص کے بارے میں وعید وارد ہوئی ہے،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنتا ہے،لیکن درود نہیں پڑھتا،جیسا کہ :
1 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَہٗ؛ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَيَّ‘ ۔
’’اس آدمی کا ناک خاک آلود ہو،جس کے سامنے میرا تذکرہ ہو،لیکن وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 254/2؛ سنن الترمذي : 3545؛ فضل الصلاۃ علی النبي للقاضي إسماعیل : 16، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن غریب‘‘ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (908)نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
n سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت یوں بیان ہوئی ہے :
صَعِدَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَہٗ عَلٰی مِرْقَاۃٍ قَالَ : ’آمِینَ‘، ثُمَّ صَعِدَ، فَقَالَ : ’آمِینَ‘، ثُمَّ صَعِدَ، فَقَالَ : ’آمِینَ‘، فَقَالَ : ’أَتَانِي جِبْرِیلُ، فَقَالَ : مَنْ أَدْرَکَ شَہْرَ رَمَضَانَ؛ فَمَاتَ فَلَمْ یُغْفَرْ لَہُ، فَأَبْعَدَہُ اللّٰہُ، قُلْتُ : آمِینَ، قَالَ : وَمَنْ أَدْرَکَ أَبَوَیْہِ أَوْ أَحَدَہُمَا؛ فَمَاتَ فَلَمْ یُغْفَرْ لَہٗ، فَأَبْعَدَہُ اللّٰہُ، قُلْتُ : آمِینَ، قَالَ : وَمَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَہٗ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْکَ، فَأَبْعَدَہُ اللّٰہُ، قُلْتُ : آمِینَ‘ ۔
’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔جب پہلی سیڑھی پر پاؤں مبارک رکھا تو آمین کہا،پھر (دوسری سیڑھی پر)چڑھے تو دوبارہ آمین کہا،پھر (تیسری سیڑھی پر) چڑھے تو پھر آمین کہا۔پھر ارشاد فرمایا : میرے پاس جبریل آئے تھے اور (جب میں پہلی سیڑھی پر چڑھا تو)انہوں نے کہا : جو شخص رمضان کا مہینہ پائے اور پھر اس حالت میں مر جائے کہ (رمضان کی عبادت کی وجہ سے)اس کی مغفرت نہ ہو سکے،تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دُور کر دے۔میں نے آمین کہا۔ (جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو) انہوں نے کہا : جو شخص اپنے ماں باپ دونوں کو یا کسی ایک کو پائے ،پھر اس حالت میں مر جائے کہ (ان کی خدمت کی بنا پر) اس کی مغفرت نہ ہو سکے،تو اسے بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دُور کر دے۔ میں نے آمین کہا۔(جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو)انہوں نے کہا : جس شخص کے پاس آپ کا ذکر ہو اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے،اسے بھی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دُور کر دے۔اس پر بھی میں نے آمین کہا۔
(المعجم الأوسط للطبراني : 8131؛ مسند أبي یعلٰی : 5922، وسندہٗ حسنٌ)
n ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَقِيَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ : ’آمِینَ، آمِینَ، آمِینَ‘، فَقِیلَ لَہٗ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَا کُنْتَ تَصْنَعُ ہٰذَا، فَقَالَ : ’قَالَ لِي جِبْرِیلُ : أَرْغَمَ اللّٰہُ أَنْفَ عَبْدٍ ـــ أَوْ بَعُدَ ـــ دَخَلَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرْ لَہٗ، فَقُلْتُ : آمِینَ، ثُمَّ قَالَ : رَغِمَ أَنْفُ عَبْدٍ ــــ أَوْ بَعُدَ ــــ أَدْرَکَ وَالِدَیْہِ أَوْ أَحَدَہُمَا لَمْ یُدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ، فَقُلْتُ : آمِینَ، ثُمَّ قَالَ : رَغِمَ أَنْفُ عَبْدٍ ــــ أَوْ بَعُدَ ــــ ذُکِرْتَ عِنْدَہٗ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْکَ، فَقُلْتُ : آمِینَ‘
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے تو تین دفعہ آمین کہا۔پوچھا گیا کہ اللہ کے رسول! آپ پہلے تو ایسا نہیں کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے جبریل علیہ السلام نے کہا : اللہ تعالیٰ اس شخص کو ذلیل کرے جو رمضان میں موجود ہو لیکن اس کی مغفرت نہ ہو سکے۔میں نے آمین کہا۔ پھر جبریل علیہ السلام نے کہا : وہ شخص بھی ذلیل ہو، جو اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو پائے،لیکن ان کی خدمت اسے جنت میں داخل نہ کرے۔میں نے آمین کہا۔پھر جبریل علیہ السلام نے کہا : وہ شخص بھی ذلیل ہو جائے جس کے پاس آپ کا ذکر ہو،لیکن وہ آپ پر درود نہ پڑھے۔میں نے اس پر بھی آمین کہا۔‘‘(صحیح ابن خزیمۃ : 1888، وسندہٗ حسنٌ)
2 سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’احْضُرُوا الْمِنْبَرَ‘، فَحَضَرْنَا، فَلَمَّا ارْتَقٰی دَرَجَۃً قَالَ : ’آمِینَ‘، فَلَمَّا ارْتَقَی الدَّرَجَۃَ الثَّانِیَۃَ قَالَ : ’آمِینَ‘، فَلَمَّا ارْتَقَی الدَّرَجَۃَ الثَّالِثَۃَ قَالَ : ’آمِینَ‘، فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، لَقَدْ سَمِعْنَا مِنْکَ الْیَوْمَ شَیْئًا مَّا کُنَّا نَسْمَعُہٗ، قَالَ : ’إِنَّ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَرَضَ لِي، فَقَالَ : بُعْدًا لِّمَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرْ لَہٗ، قُلْتُ : آمِینَ، فَلَمَّا رَقِیتُ الثَّانِیَۃَ قَالَ : بُعْدًا لِّمَنْ ذُکِرْتَ عِنْدَہٗ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْکَ، قُلْتُ : آمِینَ، فَلَمَّا رَقِیتُ الثَّالِثَۃَ قَالَ : بُعْدًا لِّمَنْ أَدْرَکَ أَبَوَاہُ الْکِبَرَ عِنْدَہٗ أَوْ أَحَدُہُمَا فَلَمْ یُدْخِلَاہُ الْجَنَّۃَ، قُلْتُ : آمِینَ‘ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : منبر لاؤ۔ہم منبر لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی سیڑھی پر چڑھے اور آمین کہا۔جب دوسری سیڑھی پر چڑھے تو آمین کہا۔جب تیسری سیڑھی پر چڑھے تو پھر آمین کہا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول!آج ہم نے آپ سے ایسی چیز سنی ہے،جو پہلے نہیں سنتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا : اس شخص کے لیے ہلاکت ہو،جو رمضان کو پائے،لیکن اس کی مغفرت نہ ہوسکے۔میں نے آمین کہہ دیا۔ جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریل علیہ السلام نے کہا : وہ شخص بھی ہلاک ہو، جس کے پاس آپ کا تذکرہ ہو،لیکن وہ آپ پر درود نہ پڑھے۔میں نے آمین کہا۔جب میں تیسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریل علیہ السلام نے کہا : وہ شخص بھی ہلاک ہو، جس کے پاس اس کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک بوڑھا ہو اور وہ اس کے جنت میں داخلے کا سبب نہ بن سکیں۔میں نے پھر آمین کہہ دیا۔‘‘
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 153/4، وسندہٗ حسنٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’صحیح الاسناد‘‘اور حافظ ذہبی نے ’’صحیح‘‘کہا ہے۔
ان احادیث کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ سن کر درود پڑھنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔
علامہ ابو عبداللہ،حسین بن حسن،حلیمی رحمہ اللہ (م:۴۰۳ھ) فرماتے ہیں:
قَدْ تَظَاہَرَتِ الْـأَخْبَارُ بِوُجُوبِ الصَّلَاۃِ عَلَیْہِ کُلَّمَا جَرٰی ذِکْرُہٗ، فَإِنْ کَانَ یَثْبُتُ إِجْمَاعٌ یَّلْزَمُ الْحُجَّۃَ بِمِثْلِہٖ عَلٰی أَنَّ ذٰلِکَ غَیْرُ فَرْضٍ؛ وَإِلَّا فَہُوَ فَرْضٌ ۔
’’بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہو،آپ پر درود پڑھنا فرض ہے۔اگر ایسا معتبر اجماع ثابت ہو جائے کہ یہ فرض نہیں تو(یہ مستحب ہو جائے گا)،ورنہ یہ فرض ہی ہے۔‘‘
(شعب الإیمان للبیہقي : 149/3)
2 آخری تشہد میں درود فرض ہے:
آخری تشہد میں درود پڑھنا فرض و واجب ہے۔
1 سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَقْبَلَ رَجُلٌ حَتّٰی جَلَسَ بَیْنَ یَدَيْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ عِنْدَہٗ، فَقَالَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَمَّا السَّلَامُ عَلَیْکَ فَقَدْ عَرَفْنَاہُ، فَکَیْفَ نُصَلِّي عَلَیْکَ إِذَا نَحْنُ صَلَّیْنَا فِي صَلَاتِنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ؟ قَالَ : فَصَمَتَ حَتّٰی أَحْبَبْنَا أَنَّ الرَّجُلَ لَمْ یَسْأَلْہُ، قَالَ : ’إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَيَّ؛ فَقُولُوا : اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْـأُمِّيِّ، وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ، وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْـأُمِّیِّ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ‘ ۔
’’ایک شخص آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی موجود تھے۔اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول!آپ پر سلام کا طریقہ توہم جان چکے ہیں،لیکن جب نماز میں ہم آپ پر درود پڑھنا چاہیں تو کس طرح پڑھیں؟ اللہ آپ پر رحمت نازل فرمائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حتی کہ ہم نے خواہش کی، کاش یہ شخص آپ سے سوال نہ کرتا۔(پھر)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم مجھ پر درود پڑھو تو یوں کہو : اے اللہ!نبیِ اُمِّی،محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما، جس طرح تُو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمت نازل فرمائی تھی،نیز تُو نبیِ اُمِّی،محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل فرما،جس طرح تُو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل فرمائی تھی۔بلاشبہ تُو قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 119/4؛ سنن الدارقطني : 354/1، 355، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(۷۱۱) اور امام ابن حبان(۱۹۵۹)Hنے ’’صحیح‘‘کہا ہے۔امام حاکم رحمہ اللہ (۱/۲۶۸)نے اسے ’’امام مسلم کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہٰذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ مُّتَّصِلٌ ۔
’’یہ سند حسن اور متصل ہے۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَإِنْ تَشَہَّدَ وَلَمْ یُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَوْ صَلّٰی عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ یَتَشَہَّدْ؛ فَعَلَیْہِ الْإِعَادَۃُ حَتّٰی یَجْمَعَہُمَا جَمِیعًا ۔
’’اگر کوئی شخص تشہد پڑھے،لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود تو پڑھے،لیکن تشہد نہ پڑھے،اس پر نماز دوبارہ پڑھنا واجب ہے،حتی کہ تشہد اور درود دونوں کو جمع کر لے۔‘‘
(الأمّ : 117/1، باب التشہّد والصلاۃ علی النبيّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم)
امام محمد بن مواز،مالکی رحمہ اللہ (م:۲۸۱ھ) کا بھی یہی موقف ہے۔
(أحکام والقرآن لابن العربي : 623/3، حسن المحاضرۃ في تاریخ مصر والقاہرۃ للسیوطي : 310/1)
علامہ ابن العربی،مالکی رحمہ اللہ (۴۶۸۔۵۴۳ھ)لکھتے ہیں:
وَالصَّحِیحُ مَا قَالَہٗ مُحَمَّدُ بْنُ الْمَوَّازِ لِلْحَدِیثِ الصَّحِیحِ ۔
’’صحیح حدیث کی بنا پر جو بات محمد بن موّاز نے کہی ہے،وہی ہے صحیح ہے۔‘‘
(أحکام القرآن : 623/3)
امام ابو اسحاق، ابراہیم بن احمد،مروزی رحمہ اللہ (م:۳۴۰ھ) فرماتے ہیں:
أَنَا أَعَتْقَدُ أَنَّ الصَّلَاۃَ عَلٰی آلِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاجِبَۃٌ فِي التَّشَہُّدِ الْـأَخِیرِ مِنَ الصَّلَاۃِ ۔
’’میرا اعتقاد یہ ہے کہ نماز کے آخری تشہد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر درود پڑھنا واجب ہے۔‘‘(شعب الإیمان للبیہقي : 150/3، وسندہٗ حسنٌ)
امام ابو بکر، محمد بن حسین آجری(م:۳۶۰ھ) فرماتے ہیں:
وَاعْلَمُوا، رَحِمَنَا اللّٰہُ وَإِیَّاکُمْ، لَوْ أَنَّ مُصَلِّیًا صَلّٰی صَلَاۃً، فَلَمْ یُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہَا فِي تَشَہُّدِہِ الْـأَخِیرِ؛ وَجَبَ عَلَیْہِ إِعَادَۃُ الصَّلَاۃِ ۔
’’اللہ ہم پر اور آپ پر رحم کرے،یہ جان لیجیے کہ اگر کوئی نمازی نماز پڑھے، لیکن اس کے آخری تشہد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھے،تو اس پر نماز کو دوبارہ پڑھنا فرض ہے۔‘‘(الشریعۃ : 1403/3)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَلِلْقَوْلِ بِوُجُوبِہٖ ظَوَاہِرُ الْحَدِیثِ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ۔
’’آخری تشہد میں درود کے فرض ہونے پر احادیث کے ظاہری الفاظ دلالت کرتے ہیں۔واللہ اعلم!‘‘(تفسیر ابن کثیر : 460/6، بتحقیق سلامۃ)
بعض اہل علم نے اس کے خلاف اجماع کا دعویٰ کر رکھا ہے کہ آخری تشہد میں درود کے فرض نہ ہونے پر امت کا اجماع ہے۔
ان کے ردّ میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فَلَا إِجْمَاعَ عَلٰی خِلَافِہٖ فِي ہٰذِہِ الْمَسْأَلَۃِ، لَا قَدِیمًا وَّلَا حَدِیثًا ۔
’’اس مسئلہ میں درود کے فرض ہونے کے خلاف کوئی اجماع نہیں ہوا، نہ پرانے دور میں نہ ہی نئے دور میں۔‘‘(تفسیر ابن کثیر : 460/6، بتحقیق سلامۃ)
2 سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا یَّدْعُو فِي صَلَاتِہٖ، فَلَمْ یُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَجِلَ ہٰذَا، ثُمَّ دَعَاہُ، فَقَالَ لَہٗ أَوْ لِغَیْرِہٖ : ’إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ؛ فَلْیَبْدَأْ بِتَحْمِیدِ اللّٰہِ وَالثَّنَائِ عَلَیْہِ، ثُمَّ لْیُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لْیَدْعُ بَعْدُ بِمَا شَائَ‘ ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز کے دوران دُعا مانگتے ہوئے سنا۔اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں پڑھا،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس شخص نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بلایا اور اسے یا کسی دوسرے شخص کو فرمایا:جب کوئی شخص دُعا مانگے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے ، اس کے بعد جو چاہے دُعا مانگے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 18/6؛ سنن أبي داوٗد : 1481، سنن الترمذي : 3477؛ وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن صحیح‘‘،امام ابن خزیمہ(۷۱۰)اور امام ابن حبان(۱۹۶۰)Hنے’’صحیح‘‘کہاہے،جب کہ امام حاکم رحمہ اللہ (۱/۲۳۰،۲۸۶)نے ’’امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر صحیح‘‘ کہا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
ملا علی قاری حنفی(م : ۱۰۱۴ھ)نے بھی اس کی سند کو ’’صحیح‘‘کہا ہے۔
(شرح الشفاء : 108/2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَقَدْ وَرَدَ فِي الصَّلَاۃِ عَلَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَا یَدُلُّ عَلَی الْوُجُوبِ حَدِیثُ فَضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ ۔۔۔ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے وجوب پر دلائل موجود ہیں،(ان میں سے ایک) سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے۔۔۔‘‘
(الدرایۃ في تخریج أحادیث الہدایۃ : 157/1، ح : 89)
3 عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں:
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی،کہنے لگے:کیا میں آپ کو عظیم الشان تحفہ نہ دوں،جسے میں نے رسول اللہ سے سن رکھا ہے؟میں نے عرض کیا: جی ضرور!کہنے لگے:ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:اللہ کے رسول!(اللہ تعالیٰ نے ہمیں درود وسلام کا حکم دیا ہے)آپ کے اہل بیت پر کیسے درود بھیجا جائے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر سلام کے متعلق تو تعلیم دے دی ہے(درود کی تعلیم نہیں دی گئی)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوں کہا کرو:
’اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ، وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ، اللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاہِیمَ، وَعَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ‘ ۔
’’اے اللہ! تومحمد صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کی آل پر رحمت نازل کر، جیسا کہ تُونے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمت نازل کی،یقینا توقابلِ تعریف،بڑی شان والا ہے۔اے اللہ!تومحمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر برکت نازل کر، جیسا کہ تُونے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل کی،یقینا توقابلِ تعریف،بڑی شان والا ہے۔‘‘(صحیح البخاري : 3370، صحیح مسلم : 406)
احناف کا نظریہ
علامہ،ابن نجیم،حنفی(م:۹۷۰ھ) لکھتے ہیں:
وَمِنَ الْعَجِیبِ مَا وَقَعَ فِي فَتَاوٰی قَاضِي خَانْ فِي آخِرِ بَابِ الْوِتْرِ وَالتَّرَاوِیحِ، حَیْثُ قَالَ : وَإِذَا صَلّٰی عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْقُنُوتِ، قَالُوا : لَا یُصَلِّي فِي الْقَعْدَۃِ الْـأَخِیرَۃِ، وَکَذَا لَوْ صَلّٰی عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْقَعْدَۃِ الْـأُولٰی سَاہِیًا؛ لَا یُصَلِّي فِي الْقَعْدَۃِ الْـأَخِیرَۃِ ۔
’’فتاویٰ قاضی خان میں وترو تراویح کے بیان کے آخر میں بڑی عجیب بات لکھی ہے،انہوں نے یہ کہہ دیا ہے :جب کوئی شخص قنوت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ لے تو ہمارے مفتی حضرات کہتے ہیں کہ پھر وہ آخری تشہد میں درود نہ پڑھے۔ اسی طرح اگر وہ بھول کر پہلے تشہد میں درود پڑھ لے تو پھر بھی دوسرے تشہد میں درود نہیں پڑھ سکتا۔‘‘(البحر الرائق شرح کنز الدقائق : 348/1)
نیز حنفی مذہب کی معتبر کتاب میں لکھا ہے:
وَلَوْ سَلَّمَ الْإِمَامُ قَبْلَ أَنْ یَّفْرُغَ الْمُقْتَدِي مِنَ الدُّعَائِ الَّذِي یَکُونُ بَعْدَ التَّشَہُّدِ، أَوْ قَبْلَ أَنْ یُّصَلِّيَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ فَإِنَّہٗ یُسَلِّمُ مَعَ الْإِمَامِ ۔
’’اگر امام تشہد کے بعد دعا سے مقتدی کے فارغ ہونے سے پہلے سلام پھیر دے یا مقتدی کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے سے پہلے سلام پھیر دے،تو مقتدی امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دے گا۔‘‘
(الفتاوی الہندیۃ، المعروف بہ فتاویٰ عالمگیری : 90/1)
کیا پہلے قعدہ میں درود فرض ہے؟
نماز کی دو رکعتیں مکمل کرنے کے بعد بیٹھنا قعدہ کہلاتا ہے۔چار رکعتوں والی نماز میں دو قعدے ہوتے ہیں۔پہلا دو رکعتوں کے بعد اور دوسرا چار رکعتیں مکمل کرنے کے بعد۔
قعدہ پہلا ہو یا دوسرا اس میں تشہد (التحیّات۔۔۔،جس میں اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت ہوتی ہے)پڑھا جاتا ہے۔تشہد سے زائد مثلاً درود پڑھنا اور دُعا کرنا صرف دوسرے تشہد کے ساتھ خاص ہے یا پہلے تشہد میں بھی اس کی اجازت ہے؟ اسی سوال کا جواب دینے کے لیے یہ تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
ہماری تحقیق میں پہلے قعدہ میں تشہد پر اکتفا کر لیا جائے یا تشہد سے زائد بھی کچھ پڑھ لیا جائے،دونوں صورتیں جائز ہیں۔جو لوگ کہتے ہیں کہ اگر پہلے تشہد میں درود پڑھا گیا،تو سجدۂ سہو لازم آ جائے گا،ان کی بات بے دلیل ہے، کیونکہ دونوں طریقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِمبارکہ سے ثابت ہیں، ملاحظہ فرمائیں :
تشہد پر اقتصار و اکتفا :
1 سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگردوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشہد سکھایا۔ان کے ایک شاگرد اسود بن یزید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
ثُمَّ إِنْ کَانَ فِي وَسَطِ الصَّلَاۃِ؛ نَہَضَ حِینَ یَفْرُغُ مِنْ تَشَہُّدِہٖ، وَإِنْ کَانَ فِي آخِرِہَا؛ دَعَا بَعْدَ تَشَہُّدِہٖ مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ یَّدْعُوَ، ثُمَّ یُسَلِّمُ ۔
’’آپ اگر نماز کے درمیانے تشہد میں ہوتے،تو تشہد سے فارغ ہوتے ہی (اگلی رکعت کے لیے)کھڑے ہو جاتے اور اگر آخری تشہد میں ہوتے، تو تشہد کے بعد جو دُعا مقدر میں ہوتی،کرتے،پھر سلام پھیرتے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 459/1، وسندہٗ حسنٌ)
امام الائمہ،ابن خزیمہ رحمہ اللہ (708)نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
امام موصوف اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں :
بَابُ الِاقْتِصَارِ فِي الْجَلْسَۃِ الْـأُولٰی عََلَی التَّشَہُّدِ، وَتَرْکِ الدُّعَائِ بَعْدَ التَّشَہُّدِ الْـأَوَّلِ ۔
’’اس بات کا بیان کہ پہلے قعدہ میں تشہد پر اکتفا کرنا اور دُعا کو ترک کرنا جائز ہے۔‘‘(صحیح ابن خزیمۃ : 708)
2 ام المومنین،سیدہ عائشہr کا بیان ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لَا یَزِیدُ فِي الرَّکْعَتَیْنِ عَلَی التَّشَہُّدِ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد (عام طور پر)تشہد سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘(مسند أبي یعلی الموصلي : 4373، وسندہٗ صحیح)
پہلے قعدہ میں تشہد کے علاوہ درود و اذکار :
پہلے قعدہ میں تشہد سے زائد اذکار،مثلاً درود،دُعا وغیرہ مستحب ہیں،جیسا کہ :
1 ام المومنین، سیدہ عائشہr رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کا حال بیان فرماتی ہیں :
وَیُصَلِّي تِسْعَ رَکَعَاتٍ لَّا یَجْلِسُ فِیہَا إِلَّا فِي الثَّامِنَۃِ، فَیَذْکُرُ اللّٰہَ وَیَحْمَدُہٗ وَیَدْعُوہُ، ثُمَّ یَنْہَضُ وَلَا یُسَلِّمُ، ثُمَّ یَقُومُ فَیُصَلِّي التَّاسِعَۃَ، ثُمَّ یَقْعُدُ فَیَذْکُرُ اللّٰہَ وَیَحْمَدُہٗ وَیَدْعُوہُ، ثُمَّ یُسَلِّمُ تَسْلِیمًا یُّسْمِعُنَا ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعت(وتر)ادا فرماتے اور صرف آٹھویں رکعت کے بعد بیٹھتے تھے۔پھر اللہ کا ذکر کرتے،اس کی حمد بجالاتے اور اس سے دُعا کرتے۔ پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت ادا فرماتے۔پھر بیٹھ جاتے اور اللہ کا ذکر، اس کی حمد اور اس سے دُعا کرتے۔پھر اتنی بلند آواز سے سلام پھیرتے کہ ہم سن لیتے تھے۔‘‘(صحیح مسلم : 139/746)
n اسی حدیث کے یہ الفاظ بھی مروی ہیں :
ثُمَّ یُصَلِّي تِسْعَ رَکَعَاتٍ لَّا یَجْلِسُ فِیہِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَۃِ، فَیَدْعُو رَبَّہٗ وَیُصَلِّي عَلٰی نَبِیِّہٖ، ثُمَّ یَنْہَضُ وَلَا یُسَلِّمُ، ثُمَّ یُصَلِّي التَّاسِعَۃَ فَیَقْعُدُ، ثُمَّ یَحْمَدُ رَبَّہٗ وَیُصَلِّي عَلٰی نَبِیِّہٖ وَیَدَعُو، ثُمَّ یُسَلِّمُ تَسْلِیمَۃً یُّسْمِعُنَا ۔
’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعات ادا فرماتے اور ان میں سے صرف آٹھویں کے بعد بیٹھتے، اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے۔پھر سلام پھیرے بغیر اٹھتے اور نویں رکعت ادا کرنے کے بعد بیٹھتے۔پھر اپنے رب کی حمد و ثنا کرتے اور اس کے نبی پر درود پڑھ کر دعا کرتے۔پھر بلند آواز سے سلام پھیرتے۔‘‘
(سنن النسائي : 1721، السنن الکبرٰی للبیہقي : 500/2، واللّفظ لہٗ، وسندہٗ صحیحٌ)
2 سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا:
’إِذَا قَعَدْتُّمْ فِي کُلِّ رَکْعَتَیْنِ، فَقُولُوا : التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِيُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ، ثُمَّ لِیَتَخَیَّرْ أَحَدُکُمْ مِّنَ الدُّعَائِ أَعْجَبَہٗ إِلَیْہِ، فَلْیَدْعُ بِہٖ رَبَّہٗ عَزَّ وَجَلَّ‘ ـ
’’جب تم ہر دو رکعتوں کے بعد بیٹھو، تو یہ کہو : التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِيُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ۔پھر ہر شخص وہ دُعا منتخب کرے، جو اسے زیادہ محبوب ہو اور اس کے ذریعے اپنے ربّ عزوجل سے مانگے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 437/1، مسند الطیالسي : 304، سنن النسائي : 1164، المعجم الکبیر للطبراني : 47/10، ح : 9912، شرح معاني الآثار للطحاوي : 237/1، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(720)اور امام ابن حبان(1951)Hنے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
3 نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ یَتَشَہَّدُ، فَیَقُولُ : بِسْمِ اللّٰہِ، التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ، الصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ، الزَّاکِیَاتُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، شَہِدْتُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، شَہِدْتُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ، یَقُولُ ہٰذَا فِي الرَّکْعَتَیْنِ الْـأُولَیَیْنِ، وَیَدْعُو إِذَا قَضٰی تَشَہُّدَہٗ، بِمَا بَدَا لَہٗ ۔
’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تشہد میں یہ دُعا پڑھتے : بِسْمِ اللّٰہِ، التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ، الصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ، الزَّاکِیَاتُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، شَہِدْتُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، شَہِدْتُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ ۔ پہلی دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھنے کے ساتھ جو دل میں آتی ،وہ دُعا بھی کرتے۔‘‘
(المؤطّا للإمام مالک : 191/1، وسندہٗ صحیحٌ)
یعنی جلیل القدر صحابی،سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی پہلے قعدہ میں تشہد سے زائد پڑھتے تھے۔
امام مالک اور امام شافعیHکا بھی یہی مذہب ہے۔(الأمّ : 117/1)
حافظ نووی رحمہ اللہ (۶۳۱۔۶۷۶ھ) کہتے ہیں:
وَأَمَّا التَّشَہُّدُ الْـأَوَّلُ؛ فَلَا تَجِبُ فِیہِ الصَّلَاۃُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِلَا خِلَافٍ، وَہَلْ تُسَتَحَبُّ؟ فِیہِ قَوْلَانِ؛ أَصَحُّہُمَا : تُسْتَحَبُّ ۔
’’جہاں تک پہلے تشہد کی بات ہے تو اس میں بلااختلاف درود فرض نہیں۔ اب مستحب ہے کہ نہیں؟اس میں دو قول ہیں،صحیح ترین بات یہی ہے کہ پہلے قعدہ میں درود مستحب ہے۔‘‘(الأذکار : 67، بتحقیق الأرنؤوط)
تنبیہات :
1 سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ فِي الرَّکْعَتَیْنِ الْـأُولَیَیْنِ، کَأَنَّہٗ عَلَی الرَّضْفِ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعتوں کے بعد (تشہد کے لیے بیٹھتے)، تو (بہت جلد اٹھنے کی وجہ سے)ایسے لگتا کہ گرم پتھر پر بیٹھے ہیں۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 386/1، سنن أبي داوٗد : 995، سنن النسائی : 1177، سنن الترمذي : 366)
اس کی سند ’’مرسل‘‘ ہونے کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ ابو عبیدہ کا اپنے والد سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَالرَّاجِحُ أَنَّہٗ لَا یَصِحُّ سَمَاعُہٗ مِنْ أَبِیہِ ۔
’’راجح بات یہی ہے کہ ابو عبیدہ کا اپنے والد ِگرامی سے سماع ثابت نہیں۔‘‘
(تقریب التہذیب : 8231)
نیز فرماتے ہیں : فَإِنَہٗ عِنْدَ الْـأَکْثَرِ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیہِ ۔
’’جمہور اہل علم کے نزدیک انہوں نے اپنے والد ِگرامی سے سماع نہیں کیا۔‘‘
(موافقۃ الخبر الخبر : 364/1)
لہٰذا امام حاکم رحمہ اللہ (296/1)کا اس روایت کو ’’امام بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح‘‘ قرار دینا صحیح نہیں۔
اس روایت کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہُوَ مُنْقَطِعٌ، لِأَنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیہِ ۔
’’یہ روایت منقطع ہے،کیونکہ ابو عبیدہ نے اپنے والد ِگرامی سے سماع نہیں کیا۔‘‘
(التلخیص الحبیر : 263/1، ح : 406)
دوسری بات یہ ہے کہ اس سے پہلے تشہد میں دورد پڑھنے کی نفی نہیں ہوتی،بل کہ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلا تشہد،دوسرے سے چھوٹا تھا۔یعنی پہلا تشہد درود سمیت بھی دوسرے کے مقابلے میں چھوٹا ہو سکتا ہے۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ (1250-1173ھ)لکھتے ہیں :
وَلَیْسَ فِیہِ إِلَّا مَشْرُوعِیَّۃُ التَّخْفِیفِ، وَہُوَ یَحْصُلُ بِجَعْلِہٖ أَخَفَّ مِنْ مُّقَابِلِہٖ ۔
’’اس حدیث میں صرف پہلے تشہد کو چھوٹا کرنے کی مشروعیت ہے اور وہ تو اسے دوسرے تشہد کے مقابلے میں چھوٹا کرنے سے حاصل ہو جاتی ہے۔‘‘
(نیل الأوطار : 333/2)
2 تمیم بن سلمہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
کَانَ أَبُو بَکْرٍ إِذَا جَلَسَ فِي الرَّکْعَتَیْنِ؛ کَأَنَّہٗ عَلَی الرَّضْفِ، یَعْنِي حَتّٰی یَقُومَ ۔
’’امیر المومنین،سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے،تو یوں ہوتے جیسے گرم پتھر پر ہوں،حتی کہ اٹھ جاتے۔‘‘(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 295/1)
اس کی سند بھی ’’انقطاع‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ تمیم بن سلمہ کا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
لہٰذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (التلخیص الحبیر : 263/1، تحت الحدیث : 406)کا اس کی سند کو ’’صحیح‘‘قرار دینا صحیح نہیں۔
3 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے :
مَا جُعِلَتِ الرَّاحَۃُ فِي الرَّکْعَتَیْنِ إِلَّا لِلتَّشَہُّدِ ۔
’’دو رکعتوں کے بعد بیٹھنے کا موقع صرف تشہد پڑھنے کے لیے ہے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 295/1)
اس کی سند بھی ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ عیاض بن مسلم راوی ’’مجہول الحال‘‘ہے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 265/5)کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
4 امام حسن بصری رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے :
لَا یَزِیدُ فِي الرَّکْعَتَیْنِ الْـأُولَیَیْنِ عَلَی التَّشَہُّدِ ۔
’’نمازی دو رکعتوں کے بعد تشہد سے زیادہ نہ پڑھے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 296/1)
یہ قول امام حسن بصری رحمہ اللہ سے ثابت نہیں،کیونکہ حفص بن غیاث ’’مدلس‘‘ہے اور اس نے امام موصوف سے سماع کی کوئی صراحت نہیں کی۔
نیز اس سند میں اشعث راوی کا تعین بھی درکار ہے۔
5 امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَنْ زَادَ فِي الرَّکْعَتَیْنِ الْـأُولَیَیْنِ عَلَی التَّشَہُّدِ؛ فَعَلَیْہِ سَجْدَتَا سَہْوٍ ۔
’’جس شخص نے دو رکعتوں کے بعد تشہد کے علاوہ کچھ اور پڑھ لیا،اس پر سہو کے دو سجدے لازم ہو جائیں گے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 296/1، وسندہٗ صحیحٌ)
امام شعبی رحمہ اللہ کا یہ اجتہاد بے دلیل اور صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے خطا پر مبنی ہے۔
فقہ حنفی اور پہلا تشہد :
فقہ حنفی کے مطابق بھی پہلے تشہد کے ساتھ درود پڑھنے سے سجدۂ سہو لازم آتا ہے۔
(کبیري : 460)
علامہ ابن نجیم حنفی(مـ:۹۷۰ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي الْمُجْتَبٰی : وَفِي الْـأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّہْرِ وَالْجُمُعَۃِ وَبَعْدَہَا لَا یُصَلِّي عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْقَعْدَۃِ الْـأُولٰی ۔
’’المجتبیٰ میں ہے کہ (حنفی)نمازی ظہر کی چار رکعتوں میں،جمعہ کی نماز میں اور جمعہ کے بعد کے نوافل میں پہلے قعدہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں پڑھ سکتا۔‘‘
(البحر الرائق شرح کنز الدقائق : 53/2)
علامہ حصکفی حنفی(۱۰۲۵۔۱۰۸۸ھ)لکھتے ہیں:
وَلَا یُصَلِّي عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْقَعْدَۃِ الْـأُولٰی فِي الْـأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّہْرِ وَالْجُمُعَۃِ وَبَعْدَہَا، وَلَوْ صَلّٰی نَاسِیًا فَعَلَیْہِ السَّہْوُ ۔
’’(حنفی)نمازی ظہر کی چار رکعتوں میں،جمعہ کی نماز میں اور جمعہ کے بعد کے نوافل میں پہلے قعدہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں پڑھ سکتا۔اگر بھول کر پڑھ بیٹھے تو اس پر سجدۂ سہو واجب ہو جائے گا۔‘‘
(الدرّ المختار، ص : 95، باب الوتر والنوافل)
حنفی مذہب کی معتبر ترین کتاب میں لکھا ہے:
وَلَوْ کَرَّرَ التَّشَہُّدَ فِي الْقَعْدَۃِ الْـأُولٰی؛ فَعَلَیْہِ السَّہْوُ، وَکَذَا لَوْ زَادَ عَلَی التَّشَہُّدِ الصَّلَاۃَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَذَا فِي التَّبْیِینِ، وَعَلَیْہِ الْفَتْوٰی، کَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ، وَاخْتَلَفُوا فِي قَدْرِ الزِّیَادَۃِ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ : یَجِبُ عَلَیْہِ سُجُودُ السَّہْوِ بِقَوْلِہٖ : اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ : لَا یَجِبُ عَلَیْہِ حَتّٰی یَقُولَ : وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، وَالْـأَوَّلُ أَصَحُّ، وَلَوْ کَرَّرَہٗ فِي الْقَعْدَۃِ الثَّانِیَۃِ؛ فَلَا سَہْوَ عَلَیْہِ، کَذَا فِي التَّبْیِینِ ۔
’’اگر کوئی(حنفی)پہلے قعدہ میں تشہد کو تکرار سے پڑھ بیٹھے تو اس پر سجدۂ سہو لازم آئے گا۔اسی طرح اگر تشہد پر درود کا اضافہ کر دیا تو بھی سجدۂ سہو واجب ہو جائے گا۔تیبین میں یہی لکھا ہے۔مضمرات میں ہے کہ فتویٰ بھی اسی پر ہے۔البتہ اضافے کی مقدار کے بارے میں احناف نے اختلاف کیا ہے۔بعض نے کہا ہے کہ ’ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ‘ ہی کہہ دیا تو سجدۂ سہو واجب ہو جائے گا، لیکن بعض کہتے ہیں کہ جب تک ’وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ‘تک نہ کہے،سجدۂ سہو واجب نہیں ہو گا۔مگر پہلی بات ہی صحیح ترین ہے(کہ ’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ‘کہہ دینے سے ہی سجدۂ سہو واجب ہو جائے گا)۔ہاں اگر دوسرے قعدہ میں درود کو تکرار کے ساتھ پڑھے تو اس پر سجدۂ سہو واجب نہیں ہو گا۔‘‘
(الفتاوی الہندیۃ، المعروف بہ فتاویٰ عالمگیری : 127/1)
علامہ عبد الحي لکھنوی حنفی لکھتے ہیں:
’’حنفیہ کے نزدیک دوسری رکعت میں درود پڑھنے سے جو تاخیر قیام کا باعث ہوتا ہے،سجدئہ سہو واجب ہوتا ہے۔جب بقدر اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کے پڑھے اور بعض کے نزدیک جب اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کے بقدر پڑھے۔زیلعی نے اولیٰ کو اور رملی نے ثانی کو ترجیح دی ہے اور جس نے سہواً سجدہ ترک کیا،اس پر اس نماز کا اعادہ واجب ہے۔‘‘
(مجموع الفتاویٰ، جلد اول،ص:303)
عبدالشکور فاروقی،لکھنوی، دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
’’کوئی شخص قعدۂ اولیٰ میں بعد التحیات کے اتنی ہی دیر تک چپ بیٹھا رہے یا درود شریف پڑھے یا کوئی دعا مانگے،ان سب صورتوں میں سجدئہ سہو واجب ہو گا۔‘‘
(علم الفقہ، حصہ دوم،ص:283،نماز میں سہو کا بیان)
جناب رضاء الحق دیوبندی، مفتی دار العلوم زکریا،جنوبی افریقاکہتے ہیں:
’’سنن مؤکدہ کے قعدۂ اولیٰ میں بھول سے،درود شریف پڑھنے سے سجدئہ سہو واجب ہو گا۔‘‘(فتاویٰ دار العلوم زکریا،جلد دوم،صفحہ : 461)
اس مسئلہ کی تفصیل احسن الفتاویٰ از مفتی رشید احمد دیوبندی صاحب(جلد:۴،ص:۲۹) میں دیکھی جا سکتی ہے۔
امجد علی بریلوی لکھتے ہیں:
’’فرض و وتر سنن رواتب کے قعدئہ اولیٰ میں اگر تشہد کے بعد اتنا کہہ لیا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ یا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا تو اگر سہواً ہو تو سجدئہ سہو کرے، عمداً ہو تو اعادہ واجب ہے،(درمختار)۔‘‘
(بہار شریعت، حصہ سوم،ص:76،واجبات نماز)
یہ کتاب ’’اعلیٰ حضرت‘‘ بریلوی کی تصدیق شدہ ہے۔
یہ بات صحیح احادیث اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔
ایک جھوٹا خواب :
علامہ شامی حنفی لکھتے ہیں:
وَفِي الْمَنَاقِبِ : أَنَّ الْإِمَامَ رَحِمَہُ اللّٰہُ رَأَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ، فَقَالَ : کَیْفَ أَوْجَبْتَ السَّہْوَ عَلٰی مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ؟ فَقَالَ : لِأَنَّہٗ صَلّٰی عَلَیْک سَہْوًا، فَاسْتَحْسَنَہٗ ۔
’’المناقب میں لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر درود پڑھنے والے پر آپ نے سجدۂ سہو کیسے واجب کر دیا؟تو امام صاحب نے جواب دیا : کیوں کہ اس نے آپ پر سہواً (بھول کر) درود پڑھا ہوتاہے۔‘‘(ردّ المحتار علی الدّرّ المختار لابن عابدین الحنفي : 81/2)
قارئین کرام غور فرمائیں کہ یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی پر جھوٹ باندھنے میں کتنے جرأت مند ہیں؟کوئی ان سے پوچھے کہ امام ابو حنیفہ نے پہلے تشہد میں درود پڑھنے والے پر سجدہ سہو کہاں واجب کیا ہے؟نیز امام صاحب نے اپنا یہ خواب کسے بیان کیا تھا؟
فائدہ :
علامہ،ابن نجیم،حنفی(م:۹۷۰ھ) لکھتے ہیں:
وَمِنَ الْعَجِیبِ مَا وَقَعَ فِي فَتَاوٰی قَاضِي خَانْ فِي آخِرِ بَابِ الْوِتْرِ وَالتَّرَاوِیحِ، حَیْثُ قَالَ : وَإِذَا صَلّٰی عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْقُنُوتِ، قَالُوا : لَا یُصَلِّي فِي الْقَعْدَۃِ الْـأَخِیرَۃِ، وَکَذَا لَوْ صَلّٰی عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْقَعْدَۃِ الْـأُولٰی سَاہِیًا؛ لَا یُصَلِّي فِي الْقَعْدَۃِ الْـأَخِیرَۃِ ۔
’’فتاویٰ قاضی خان میں وترو تراویح کے بیان کے آخر میں بڑی عجیب بات لکھی ہے،انہوں نے یہ کہہ دیا ہے :جب کوئی شخص قنوت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ لے تو ہمارے مفتی حضرات کہتے ہیں کہ پھر وہ آخری تشہد میں درود نہ پڑھے۔ اسی طرح اگر وہ بھول کر پہلے تشہد میں درود پڑھ لے تو پھر بھی دوسرے تشہد میں درود نہیں پڑھ سکتا۔‘‘(البحر الرائق شرح کنز الدقائق : 348/1)
نیز حنفی مذہب کی معتبر کتاب میں لکھا ہے:
وَلَوْ سَلَّمَ الْإِمَامُ قَبْلَ أَنْ یَّفْرُغَ الْمُقْتَدِي مِنَ الدُّعَائِ الَّذِي یَکُونُ بَعْدَ التَّشَہُّدِ، أَوْ قَبْلَ أَنْ یُّصَلِّيَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ فَإِنَّہٗ یُسَلِّمُ مَعَ الْإِمَامِ ۔
’’اگر امام تشہد کے بعد دعا سے مقتدی کے فارغ ہونے سے پہلے سلام پھیر دے یا مقتدی کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے سے پہلے سلام پھیر دے،تو مقتدی امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دے گا(اور اس کی نماز درست ہو گی)۔‘‘
(الفتاوی الہندیۃ، المعروف بہ فتاویٰ عالمگیری : 90/1)
فقہ حنفی کی ایک اور معتبر و مستند کتاب میں لکھا ہے:
فِي التَّتَارْخَانِیَّۃِ عَنِ الْمُحِیطِ : وَعَلٰی ہَذَا الْخِلَافِ لَوْ سَبَّحَ بِالْفَارِسِیَّۃِ فِي الصَّلَاۃِ أَوْ دَعَا، أَوْ أَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ تَعَالٰی، أَوْ تَعَوَّذَ، أَوْ ہَلَّلَ أَوْ تَشَہَّدَ أَوْ صَلّٰی عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْفَارِسِیَّۃِ فِي الصَّلَاۃِ أَيْ یَصِحُّ عِنْدَہٗ ۔
’’فتاویٰ تاتارخانیہ میں المحیط کے حوالے سے لکھا ہے : اس اختلاف کی بنا پر اگر کوئی (حنفی)نماز میں فارسی زبان میں تسبیح،دعا،ثنا،تعوذ،تہلیل،تشہد یا درود پڑھ لے تو اُن کے نزدیک اس کی نماز درست ہو گی۔‘‘
(ردّ المحتار علی الدّرّ المختار لابن عابدین الحنفي : 81/2)
الحاصل پہلے قعدہ میں تشہد پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے اور تشہد کے علاوہ مثلاً درود اور دُعائیں وغیرہ بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔
3 طویل مجالس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود :
تمام طویل مجالس ومحافل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا فرض ہے،جیسا کہ :
1 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’مَا قَعَدَ قَوْمٌ مَّقْعَدًا لَّا یَذْکُرُونَ فِیہِ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ، وَیُصَلُّونَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ إِلَّا کَانَ عَلَیْہِمْ حَسْرَۃً یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَإِنْ دَخَلُوا الْجَنَّۃَ، لِلثَّوَابِ‘ ۔
’’لوگ کسی جگہ بیٹھیں اور وہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کریں،نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجیں تو یہ کوتاہی ان کے لیے روز ِقیامت باعث حسرت ہو گی۔اگرچہ وہ (اپنے ایمان کے)ثواب کی بنا پر جنت میں داخل بھی ہو جائیں۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 463/2، عمل الیوم واللیلۃ للنسائي : 409، 410، وسندہٗ صحیحٌ)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (591،592)نے اس حدیث کو جب کہ حافظ منذری رحمہ اللہ (الترغیب والترھیب : 410/2) نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رَوَاہُ أَحْمَدُ، وَرِجَالُہٗ رِجَالُ الصَّحِیْحٌ ۔
’’اسے امام احمد رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی صحیح بخاری کے ہیں۔‘‘
(مجمع الزوائد : 79/10)
2 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أَیُّمَا قَوْمٍ جَلَسُوا فَأَطَالُوا الْجُلُوسَ، ثُمَّ تَفَرَّقُوا قَبْلَ أَنْ یَّذْکُرُوا اللّٰہَ، وَیُصَلُّوا عَلَی نَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ إِلَّا کَانَتْ عَلَیْہِمْ مِنَ اللّٰہِ تِرَۃٌ، إِنْ شَائَ اللّٰہُ عَذَّبَہُمْ، وَإِنْ شَائَ غَفَرَ لَہُمْ‘ ۔
’’جو لوگ کافی دیر کہیں بیٹھیں اور پھر اللہ کا ذکر کیے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے بغیر منتشر ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر حسرت رہے گی۔ اگر اللہ چاہے تو انہیں عذاب کرے گا اور چاہے تو انہیں معاف کر دے گا۔‘‘
(الصلاۃ علی النبيّ لابن أبي عاصم : 86، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنّي : 449، الدعاء للطبراني : 1924، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 496/1، شعب الإیمان للبیہقيّ : 1468، وسندہٗ حسنٌ)
3 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَّجْلِسًا لَّمْ یَذْکُرُوا اللّٰہَ فِیہِ، وَلَمْ یُصَلُّوا عَلٰی نَبِیِّہِمْ؛ إِلَّا کَانَ عَلَیْہِمْ تِرَۃً‘ ۔
’’لوگ کہیں مل کر بیٹھیں لیکن وہاں اللہ کا ذکر نہ کریں اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھیں تو ضرور یہ کوتاہی (روز ِقیامت)ان پر حسرت بنی رہے گی۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 453/2، وسندہٗ حسنٌ)
4 سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَّجْلِسًا لَّا یُصَلُّونَ فِیہِ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ إِلَّا کَانَ عَلَیْہِمْ حَسْرَۃً، وَإِنْ دَخَلُوا الْجَنَّۃَ ۔
’’لوگ کہیں مل کر بیٹھیں لیکن وہاںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھیں تو ضرور یہ کوتاہی (روز ِقیامت)ان پر حسرت بنی رہے گی،اگرچہ وہ جنت میں داخل بھی ہو جائیں۔‘‘
(مسند أحمد بن منیع، نقلاً عن اتّحاف الخیرۃ المہرۃ للبوصیري : 6069، وسندہٗ صحیحٌ)
ناصر السنۃ،محدث العصر،علامہ،البانی رحمہ اللہ (م:۱۴۲۰ھ) کہتے ہیں:
لَقَدْ دَّلَ ہٰذَا الْحَدِیثُ الشَّرِیفُ وَمَا فِي مَعْنَاہُ عَلٰی وُجُوبِ ذِکْرِ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ، وَکَذَا الصَّلَاۃُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي کُلِّ مَجْلِسٍ، وَدَلَالَۃُ الْحَدِیثِ عَلٰی ذٰلِکَ مِنْ وُّجُوہٍ :
أَوَّلًا : قَوْلُہٗ ’فَإِنْ شَائَ عَذَّبَہُمْ، وَإِنْ شَائَ غَفَرَ لَہُمْ‘، فَإِنَّ ہٰذَا لَا یُقَالُ إِلَّا فِیمَا کَانَ فِعْلُہٗ وَاجِبًا وَّتَرْکُہٗ مَعْصِیَۃً ۔
ثَانِیًا : قَوْلُہٗ ’وَإِنْ دَخَلُوا الْجَنَّۃَ، لِلثَّوَابِ‘، فَإِنَّہٗ ظَاہِرٌ فِي کَوْنِ تَارِکِ الذِّکْرِ وَالصَّلَاۃِ عَلَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَسْتَحِقُّ دُخُولَ النَّارِ، وَإِنْ کَانَ مَصِیرُہٗ إِلَی الْجَنَّۃِ ثَوَابًا عَلٰی إِیمَانِہٖ ۔۔۔ ۔
فَعَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ أَنْ یَّتَنَبَّہَ لِذٰلِکَ، وَلَا یَغْفُلَ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَالصَّلَاۃِ عَلٰی نَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فِي کُلِّ مَجْلِسٍ یَّقْعُدُہٗ، وَإِلَّا کَانَ عَلَیْہِ تَرَۃً وَّحَسْرَۃً یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔
’’یہ حدیث شریف اور اس کے ہم معنیٰ احادیث واضح طور پر بتاتی ہیں کہ ہر مجلس میں اللہ سبحانہ کا ذکر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود فرض ہے۔یہ حدیث کئی طرح سے اس بات پر دلیل ہے :
اوّلاً : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اللہ اگرچاہے تو انہیں عذاب دے اور چاہے تو انہیں معاف کر دے۔ایسا صرف اسی فعل کے بارے میں کہا جا سکتا ہے ،جسے کرنا فرض اور جسے چھوڑنا گناہ ہو۔
ثانیاً : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اگرچہ وہ ثواب کی بنا پرجنت میں داخل ہو بھی جائیں۔یہ الفاظ اس بات میں واضح ہیں کہ ذکر ِالٰہی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کا تارک جہنم میں داخلے کا مستحق ہے،اگرچہ اپنے ایمان کے ثواب کی بنا پر وہ جنت میں داخل بھی ہو جائے گا۔۔۔
چنانچہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس وعید سے خبردار رہے اور اپنی کسی بھی مجلس و محفل میں ذکر ِالٰہی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سے غافل نہ رہے۔ورنہ یہ کوتاہی قیامت کے دن اس کے لیے نقصان اور حسرت کا باعث ہو گی۔‘‘
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ وشيء من فقہہا وفوائدہا : 161/1)
فائدہ :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے :
إِنَّ قَوْمًا اجْتَمَعُوا فِي مَسْجِدٍ یُّہَلِّلُونَ وَیُصَلُّونَ عَلَی النَّبِيِّ عَلَیْہِ السَّلَامُ، وَیَرْفَعُونَ أَصْوَاتَہُمْ، فَذَہَبَ إِلَیْہِمُ ابْنُ مَسْعُودٍ، وَقَالَ : مَا عَہِدْنَا ہٰذَا عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ، وَمَا أَرَاکُمْ إِلَّا مُبْتَدِعِینَ، فَمَا زَالَ یَذْکُرُ ذٰلِکَ حَتّٰی أَخْرَجَہُمْ مِّنَ الْمَسْجِدِ ۔
’’کچھ لوگ ایک مسجد میں جمع ہو کر بآوازِ بلند ’لا الہ الا اللہ‘ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے لگے ۔سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور فرمایا : ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں ایسا عمل نہیں دیکھا۔میں تو تمہیں بدعتی ہی سمجھتا ہوں۔آپ مسلسل یہی بات دوہراتے رہے،حتی کہ انہیں مسجد سے نکال دیا۔‘‘
(المحیط البرہاني في الفقہ النعماني لابن مازۃ الحنفي : 314/5)
اگرچہ لوگوں کا مل کر بلند آواز سے ذکر کرنا اور درود پڑھنا بے اصل اور بدعت ہی ہے، جو بہت سی نصوصِ شرعیہ اور صحابہ کرام کے فتاوی کی بنا پر مردود ہے،لیکن یہ قول بے سند ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف جھوٹا منسوب کیا گیاہے۔
اس کے باوجود بعض حنفی فقہا نے اپنی کتابوں میں اسے ذکر کرنے کے بعد’ قد صح‘ کے الفاظ لکھے ہیں۔
دیکھیں (المحیط البرہاني في الفقہ النعماني لابن مازۃ الحنفي : 314/5، ردّ المحتار : 398/6، غمز عیون البصائر في شرح الأشباہ والنظائر للحموي الحنفي : 60/4، بریقۃ محمودیۃ للخادمي الحنفي : 54/4، درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ از محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی : 30)
یاد رہے کہ سرفراز صفدر صاحب نے ’قد صح‘ کا ترجمہ ’’صحیح سند‘‘ کیا ہے۔کوئی بتائے گا کہ جس قول کی سند دنیا جہاں میں نہ ہو اور جسے بعض ’’فقہا‘‘نے خود گھڑ لیا ہو،اس کی سند کیسے ’’صحیح‘‘ ہو جاتی ہے؟
حافظ سیوطی(۸۴۹۔۹۱۱ھ)لکھتے ہیں:
قُلْتُ : ہٰذَا الْـأَثَرُ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ یَّحْتَاجُ إِلٰی بَیَانِ سَنَدِہٖ، وَمَنْ أَخْرَجَہٗ مِنَ الْـأَئِمَّۃِ الْحُفَّاظِ فِي کُتُبِہِمْ ۔
’’میں کہتا ہوں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ روایت اس بات کی محتاج ہے کہ اس کی سند بیان کی جائے اور یہ بتایا جائے کہ کن ائمہ حفاظ نے اسے اپنی کتب میں جگہ دی ہے؟‘‘(الحاوي للفتاوي : 472/1)
ابن حجر ہیتمی(۹۰۹۔۹۷۴ھ)لکھتے ہیں:
فَلَمْ یَصِحَّ عَنْہُ، بَلْ لَّمْ یَرِدْ ۔
’’یہ روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں،بل کہ اس کا کتب ِمحدثین میں کہیں وجود ہی نہیں۔‘‘(الفتاوی الفقہیّۃ الکبرٰی : 177/1)
علامہ عبدالرؤوف مناوی(۹۵۲۔۱۰۳۱ھ)لکھتے ہیں:
فَغَیْرُ ثَابِتٍ ۔
’’یہ روایت غیر ثابت ہے۔‘‘(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر : 457/1)
علامہ آلوسی حنفی(۱۲۱۷۔۱۲۷۰ھ)لکھتے ہیں:
لَا یَصِحُّ عِنْدَ الْحُفَّاظِ مِنَ الْـأَئِمَّۃِ الْمُحَدِّثِینَ ۔
’’یہ روایت حفاظ ائمہ محدثین کے ہاں ثابت نہیں۔‘‘(روح المعاني : 479/8)
مجالس اہل حدیث کا اعزاز :
محدثین کرام اور ان کے پیروکاروں،یعنی اہل حدیثوں کی مجالس و محافل کا یہ اعزاز ہے کہ ان میں بکثرت درود پڑھا جاتا ہے۔
سابقہ سطور میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ ہر طویل مجلس میں ایک بار درود پڑھنا فرض ہے۔ اہل حدیث کی مجالس میں یہ فرض بھی پورا ہوتا ہے اور بطور ِاستحباب بھی کئی دفعہ درود پڑھ لیا جاتا ہے۔یہ اعزاز و شرف کی بات ہے،جیسا کہ :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ عَلَيَّ صَلَاۃً‘ ۔
’’روز ِقیامت سب لوگوں سے بڑھ کر میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر زیادہ درود پڑھتے ہوں گے۔‘‘(سنن الترمذي : 484، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی اور حافظ بغوی(شرح السنۃ:۶۸۶)Hنے ’’حسن غریب‘‘، جب کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ (۹۱۱)نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اس کا راوی موسیٰ بن یعقوب زمعی راوی جمہور کے نزدیک ’’حسن الحدیث‘‘ہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ (م:۳۵۴ھ) اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
فِي ہٰذَا الْخَبَرِ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْقِیَامَۃِ یَکُونُ أَصْحَابُ الْحَدِیثِ، إِذْ لَیْسَ مِنْ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ قَوْمٌ أَکْثَرَ صَلَاۃٍ عَلَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُمْ ۔
’’یہ حدیث بتاتی ہے کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے اہل الحدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریبی ہوں گے،کیوں کہ اس امت میں کوئی گروہ اہل حدیث سے بڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہیں پڑھتا۔‘‘
(صحیح ابن حبّان : 911)
حافظ محمد بن عبدالرحمن بن زیاد،ابو جعفر،اصبہانی رحمہ اللہ (م:۳۲۲ھ) فرماتے ہیں:
فِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی تَفْضِیلِ أَصْحَابِ الْحَدِیثِ، لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَکْثَرَ صَلاۃً عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُمْ ۔
’’اس حدیث میں اہل الحدیث کی فضیلت کی دلیل موجود ہے۔ہمارے علم میں ان سے بڑھ کر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے والا کوئی نہیں۔‘‘
(طبقات المحدّثین بأصبہان والواردین علیہا : 223/4)
امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ (م:۴۳۰ھ)فرماتے ہیں:
وَہٰذِہٖ مَنْقَبَۃٌ شَرِیفَۃٌ یَّخْتَصُّ بِہَا رُوَاۃُ الْآثَارِ وَنَقَلَتُہَا؛ لِأَنَّہٗ لَا یُعْرَفُ لِعِصَابَۃٍ مِّنَ الْعُلَمَائِ مِنَ الصَّلَاۃِ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَکْثَرُ مِمَّا یُعْرَفُ لِہٰذِہِ الْعِصَابَۃِ نَسْخًا وَّذِکْرًا ۔
’’یہ اعزاز والی منقبت ہے جو احادیث کو روایت اور نقل کرنے والے لوگوں کے ساتھ خاص ہے،کیوں کہ علما کے کسی بھی طبقہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنا زیادہ درود معلوم نہیں،جتنا اس گروہ کا لکھ اور بول کر درود پڑھنا معلوم ہے۔‘‘
(شرف أصحاب الحدیث للخطیب البغدادي : 35، وسندہٗ صحیحٌ)
امام سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ (۹۷۔۱۶۱ھ) فرماتے ہیں:
لَوْ لَمْ یَکُنْ لِّصَاحِبِ الْحَدِیثِ فَائِدَۃٌ إِلَّا الصَّلَاۃُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّہٗ یُصَلِّي عَلَیْہِ مَا دَامَ فِي الْکِتَابِ ۔
’’اگر اہل حدیث کو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے ہی کا فائدہ ہو(تویہی شرف سب سے عظیم ہے)،کیوں کہ وہ جب تک پڑھنے لکھنے میں مصروف رہتا ہے،درود پڑھتا ہی رہتا ہے۔‘‘
(شرف أصحاب الحدیث للخطیب البغدادي، ص : 35، وسندہٗ صحیحٌ)
علامہ عمر بن علی،ابو حفص،بزار رحمہ اللہ (م:۷۴۹ھ)شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (۶۶۱۔۷۲۸ھ) کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَکَانَ لَا یَذْکُرُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَطُّ؛ إِلَّا وَیُصَلِّي وَیُسَلِّمُ عَلَیْہِ، وَلَا وَاللّٰہِ، مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَشَدَّ تَعْظِیمًا لِّرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَحْرَصَ عَلٰی أَتْبَاعِہٖ، وَنَصْرِ مَا جَائَ بِہٖ مِنْہُ ۔
’’شیخ الاسلام رحمہ اللہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام ضرور پڑھتے۔اللہ کی قسم!میں نے ان سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ تعظیم کرنے والا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر زیادہ حرص رکھنے والا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی زیادہ نصرت کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
(الأعلام العلیّۃ في مناقب ابن تیمیّۃ، ص : 28)
4 نماز جنازہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود :
نماز ِجنازہ میں بھی درود پڑھنا فرض ہے،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے نماز میں درود پڑھنے کا جو حکم دیا ہے،نماز ِجنازہ اس سے خارج نہیں۔یہی وجہ ہے کہ نماز ِجنازہ کا نبوی طریقہ درود سے خالی نہیں۔
n سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
السُّنَّۃُ فِي الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ أَنْ تُکَبِّرَ، ثُمَّ تَقْرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، ثُمَّ تُصَلِّيَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ تُخْلِصَ الدُّعَائَ لِلْمَیِّتِ، وَلَا تَقْرَأَ إِلَّا فِي التَّکْبِیرَۃِ الْـأُولٰی، ثُمَّ تُسَلِّمَ فِي نَفْسِہٖ عَنْ یَّمِینِہٖ ۔
’’نماز جنازہ میں نبوی طریقہ یہ ہے کہ آپ تکبیر کہیں،پھر سورۂ فاتحہ کی قراء ت کریں،پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھیں،پھر میت کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کریں، پہلی تکبیر کے علاوہ قراء ت نہ کریں۔پھر اپنے دل میںاپنی دائیں طرف سلام پھیر دیں۔‘‘(المنتقیٰ لابن الجارود : 540، وسندہٗ صحیحٌ)
n امام زہری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
أَخْبَرَنِي أَبُو أُمَامَۃَ بْنُ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، وَکَانَ مِنْ کُبَرَائِ الْـأَنْصَارِ وَعُلَمَائِہِمْ، وَأَبْنَائِ الَّذِینَ شَہِدُوا بَدْرًا مَّعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَہٗ رِجَالٌ مِّنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ، أَنْ یُکَبِّرَ الْإِمَامُ، ثُمَّ یُصَلِّيَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَیُخْلِصَ الصَّلَاۃَ فِي التَّکْبِیرَاتِ الثَّلَاثِ، ثُمَّ یُسَلِّمُ تَسْلِیمًا خَفِیًّا حِینَ یَنْصَرِفُ، وَالسُّنَّۃُ أَنْ یَّفْعَلَ مَنْ وَّرَائَہٗ مِثْلَ مَا فَعَلَ إِمَامُہٗ، قَالَ الزُّہْرِيُّ : حَدَّثَنِي بِذٰلِکَ أَبُو أُمَامَۃَ، وَابْنُ الْمُسَیِّبِ یَسْمَعُ، فَلَمْ یُنْکِرْ ذٰلِکَ عَلَیْہِ، قَالَ ابْنُ شِہَابٍ : فَذَکَرْتُ الَّذِي أَخْبَرَنِي أَبُو أُمَامَۃَ مِنَ السُّنَّۃِ فِي الصَّلَاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ لِمُحَمَّدِ بْنِ سُوَیْدٍ، قَالَ : وَأَنَا سَمِعْتُ الضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ یُّحَدِّثُ، عَنْ حَبِیبِ بْنِ مَسْلَمَۃَ فِي صَلَاۃٍ صَلَّاہَا عَلَی الْمَیِّتِ مِثْلَ الَّذِي حَدَّثَنَا أَبُو أُمَامَۃَ ۔
’’مجھے ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی۔ابو امامہ رضی اللہ عنہ انصار کے بزرگ ترین لوگوں اور علمائے کرام میں سے تھے،نیز غزوۂ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہونے والے صحابہ کرام کی اولاد میں سے تھے۔انہوں نے مجھے بتایا کہ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے ان کو یہ بیان کیا : نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے،پھر خاموشی سے سورۂ فاتحہ کی قراء ت کرے،پھر (پہلی تکبیر کے بعد)تین تکبیروں میں نماز ختم کرے۔امام کی اقتدا کرنے والے کے لیے بھی سنت یہی ہے کہ وہ اسی طرح کرے،جیسے اس کا امام کرتا ہے۔امام زہری بیان کرتے ہیں کہ جب ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ حدیث بیان فرمائی تو سعید بن مسیب رحمہ اللہ سن رہے تھے،لیکن انہوں نے اس کا ردّ نہیں فرمایا۔امام زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ نماز جنازہ کے نبوی طریقے والے حدیث محمد بن سوید کو سنائی تو انہوں نے کہا : میں نے سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ سے سنا ،وہ حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ کا وہی طریقہ بیان کر رہے تھے،جو ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔‘‘
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 360/1، السنن الکبرٰی للبیہقيّ : 40/4، وسندہٗ صحیحٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’امام بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ‘‘کہا ہے۔حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
n سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّہٗ سَأَلَ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ عَنِ الصَّلَاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ، فَقَالَ : أَنَا وَاللّٰہِ أُخْبِرُکَ، تَبْدَأُ فَتُکَبِّرُ، ثُمَّ تُصَلِّي عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُ : اللّٰہُمَّ إِنَّ عَبْدَکَ فُلَانًا کَانَ لَا یُشْرِکُ بِکَ شَیْئًا، أَنْتَ أَعْلَمُ بِہٖ، إِنْ کَانَ مُحْسِنًا؛ فَزِدْ فِي إِحْسَانِہٖ، وَإِنْ کَانَ مُسِیئًا؛ فَتَجَاوَزْ عَنْہُ، اللّٰہُمَّ، لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہٗ وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَہٗ ۔
انہوں نے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : اللہ کی قسم!میں ضرور آپ کو بتاؤں گا۔آپ تکبیر کہہ کر ابتدا کریں، پھر(فاتحہ پڑھنے کے بعد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پردرود پڑھیں اور کہیں : اے اللہ!تیرا یہ بندہ تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا تھا۔تو اس کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔اگر یہ نیکو کار تھا تو اس کی نیکی میں مزید اضافہ کر دے اور اگر یہ خطا کار تھا تو اس سے درگزر فرما۔اے اللہ!ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ رکھنا اور اس کے بعد ہمیں گم راہ نہ کر دینا۔‘‘(السنن الکبرٰی للبیہقي : 40/4، وسندہٗ صحیحٌ)
n عبید بن سباق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
صَلّٰی بِنَا سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ عَلٰی جَنَازَۃٍ، فَلَمَّا کَبَّرَ التَّکْبِیرَۃَ الْـأُولٰی؛ قَرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ حَتّٰی أَسْمَعَ مَنْ خَلْفَہٗ، قَالَ : ثُمَّ تَابَعَ تَکْبِیرَہٗ حَتَّی إِذَا بَقِیَتْ تَکْبِیرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ؛ تَشَہَّدَ تَشَہُّدَ الصَّلَاۃِ، ثُمَّ کَبَّرَ وَانْصَرَفَ ۔
’’ہمیں سیدنا سہل بن حنیف نے نماز ِجنازہ پڑھائی۔جب انہوں نے پہلی تکبیر کہی تو سورۂ فاتحہ (اتنی اونچی)پڑھی کہ مقتدیوں کو سنائی۔پھر باقی تکبیریں کہتے گئے۔ جب ایک تکبیر رہ گئی تو نماز کے تشہد کی طرح تشہد (درود وسلام)پڑھا۔ پھر تکبیر کہا اور سلام پھیر دیا۔‘‘
(سنن الدارقطني : 73/2، السنن الکبرٰی للبیہقي : 39/4، وسندہٗ حسنٌ)
n ابو سعید مقبری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّہٗ سَأَلَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ کَیْفَ تُصَلِّي عَلَی الْجَنَازَۃِ ؟ فَقَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ : أَنَا، لَعَمْرُ اللّٰہِ، أُخْبِرُکَ، أَتَّبِعُہَا مِنْ أَہْلِہَا، فَإِذَا وُضِعَتْ؛ کَبَّرْتُ، وَحَمِدْتُ اللّٰہَ وَصَلَّیْتُ عَلٰی نَبِیِّہٖ، ثُمَّ أَقُولُ : اللّٰہُمَّ إِنَّہٗ عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ، کَانَ یَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُولُکَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِہٖ، اللّٰہُمَّ إِنْ کَانَ مُحْسِنًا؛ فَزِدْ فِي إِحْسَانِہٖ، وَإِنْ کَانَ مُسِیئًا؛ فَتَجَاوَزْ عَنْ سَیِّئَاتِہٖ، اللّٰہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہٗ، وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہٗ ۔
’’انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نماز ِجنازہ کیسے اداکرتے ہیں؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم!میں آپ کو بتاتا ہوں۔میں میت کے گھر سے اس کے پیچھے چلتا ہوں،پھر جب اسے رکھ دیا جاتا ہے تو میں اللہ اکبر کہہ کر اللہ کی حمد(سورۂ فاتحہ) پڑھتا ہوں اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہوں۔پھر یہ دعا کرتا ہوں : اے اللہ!بلاشبہ یہ تیرا بندہ،تیرے بندے اور تیری بندی کا بیٹا ہے۔ یہ گواہی دیتا تھا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور رسول ہیں۔تو اسے بہتر جانتا ہے۔اے اللہ!اگر یہ نیک تھا تو اس کی نیکی میں اضافہ فرما دے اور اگر یہ خطاکار تھا تو اس سے درگزر فرما۔اے اللہ! ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ رکھنا اور اس کے بعد ہمیں فتنے کا شکار نہ بننے دینا۔‘‘
(المؤطّأ للإمام مالک : 228/1، فضل الصلاۃ علی النبي للقاضي إسماعیل : 93، وسندہٗ صحیحٌ)
n امام عامر شعبی تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَوَّلُ تَکْبِیرَۃٍ مِّنَ الصَّلَاۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ ثَنَائٌ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَالثَّانِیَۃُ صَلَاۃٌ عَلَی النَّبِيِّ، وَالثَّالِثَۃُ دُعَاء ٌ لِّلْمَیِّتِ، وَالرَّابِعَۃُ السَّلَامُ ۔
’’نماز ِجنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد اللہ تعالیٰ کی ثنا (سورۂ فاتحہ)ہے،دوسری کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود،تیسری کے بعد میت کے لیے دعا اور چوتھی کے بعد سلام ہے۔‘‘
(فضل الصلاۃ علی النبيّ للإمام إسماعیل بن إسحاق القاضي : 91، وسندہٗ صحیحٌ)
بعض لوگ نماز جنازہ کے درود میں کَمَا صَلَّیْتَ وَسَلَّمْتَ وَبَارَکْتَ وَرَحِمْتَ کا اضافہ کرتے ہیں۔یہ بالکل غلط ہے۔اس پر کوئی دلیل نہیں اور یہ بعد کی ایجاد ہے۔نماز کے الفاظ اپنی طرف سے نہیں بنائے جا سکتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.