762

معرکہ حق و باطل، شمارہ 42، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

قارئین کرام جانتے ہیں کہ اس ماہنامہ کا ایک اہم مقصد باطل شکنی ہے۔ اسی سلسلے میں اہل باطل کے باطل نظریات کا سنجیدہ علمی ردّ ”معرکہ حق و باطل” کے نام سے قسط وار جاری و ساری ہے۔اس کی ایک اور قسط ملاحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ حق کس کے پاس ہے۔

عقیدہ نمبر % : ”امیر المومنین عمر لوگوں کو دوزخ میں گرنے سے روکے ہوئے تھے۔” إنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ دَعَا أُمَّ کُلْثُومَ بِنْتِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہَا، وَکَانَتْ تَحْتَہ،، فَوَجَدَہَا تَبْکِي، فَقَالَ : مَا یُبْکِیکِ؟ فَقَالَتْ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ! ہٰذَا الْیَہُودِيُّ، تَعْنِي کَعْبَ الْـأَحْبَارِ، یَقُولُ : إِنَّکَ عَلٰی بَابٍ مِّنْ أَبْوَابِ جَہَنَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ : مَا شَاءَ اللّٰہُ، وَاللّٰہِ ! إِنِّي لَـأَرْجُو أَنْ یَکُونَ رَبِّي خَلَقَنِي سَعِیدًا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلٰی کَعْبٍ فَدَعَاہُ، فَلَمَّا جَاء َہ، کَعْبٌ قَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ! لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ، وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ، لَا یَنْسَلِخُ ذُو الْحِجَّۃِ حَتّٰی تَدْخُلَ الْجَنَّۃَ، فَقَالَ عُمَرُ : أَيُّ شَيْء ٍ ہٰذَا؟ مَرَّۃً فِي الْجَنَّۃِ، وَمَرَّۃً فِي النَّارِ، فَقَالَ : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ! وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ، إِنَّا لَنَجِدُکَ فِي کِتَابِ اللّٰہِ عَلٰی بَابٍ مِّنْ أَبْوَابِ جَہَنَّمَ، تَمْنَعُ النَّاسَ أَنْ یَّقَعُوا فِیہَا، فَإِذَا مُتَّ لَمْ یَزَالُوا یَقْتَحِمُونَ فِیہَا إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ .
”سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجہ محترمہ ام کلثوم رضی اللہ عنہادختر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلایا، انہیں روتے پایا،سبب پوچھا ، کہا : اے امیر المومنین!یہ یہودی کعب احباررحمہ اللہ (جو بعد میں مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے)کہتا ہے کہ آپ جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر ہیں۔ امیر المومنین نے فرمایا : جو خدا چاہے، اللہ کی قسم !بے شک مجھے امید ہے کہ میرے رب نے مجھے سعید پیدا کیا ہے۔ پھر کعب احبار کو بلا بھیجا۔ انہوں نے حاضر ہو کر عرض کی : امیر المومنین! مجھ پر جلدی نہ فرمائیں۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ذی الحجہ کا مہینہ ختم نہ ہونے پائے گا کہ آپ جنت میں تشریف لے جائیں گے۔ فرمایا : یہ کیا بات کہ کبھی جنت میں ، کبھی نار میں؟ عرض کی : اے امیر المومنین! قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ہم آپ کو کتاب اللہ میں جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پاتے ہیں کہ آپ لوگوں کو جہنم میں گرنے سے روکے ہوئے ہیں، جب آپ فوت ہو جائیں گے ، قیامت تک لوگ نار میں گرا کریں گے۔”(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 332/3)
اس اثر کو بنیاد بناتے ہوئے جناب احمد رضا خان بریلوی یوں شہ سرخی لگاتے ہیں:
”امیر المومنین عمر لوگوں کو دوزخ میں گرنے سے روکے ہوئے تھے۔”
(الأمن والعلٰی، ص : 218)
تبصرہ : 1 اس کی سند ”ضعیف” ہے۔اس کا راوی سعد الجاری غیر مشہور اور غیر موثق ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ اس نے عبد اللہ بن دینار کا زمانہ پایا ہے یا نہیں۔ جو شخص اس کو صحیح سمجھتا ہے ، اس پر سعد الجاری کی توثیق ثابت کرنا لازم ہے۔
2 اس ”ضعیف” اثر میں بھی بریلوی حضرات کے لیے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی حیات ِ مبارکہ میں دینِ اسلام کی تبلیغ کرتے تھے اور بہت سے لوگ ان کی تبلیغ سے متاثر ہو کر جہنم میں گرنے سے بچے ہوئے تھے۔ اس سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کی ذات کی وجہ سے آپ کی زندگی میں تمام لوگ جہنم سے آزاد ہو گئے تھے، ورنہ آپ کے زمانے میں ہی مرنے والے ہزاروں لاکھوں کفار جہنم میں جائیں گے۔
3 اسی روایت سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عالم الغیب نہ تھے کیونکہ انہیں کعب احباررحمہ اللہ کی بات کا صحیح مفہوم معلوم نہ ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ کعب کو اپنی بات کی وضاحت کرنا پڑی۔کیا بریلوی حضرات اس روایت کی بنا پر مخلوق سے علم غیب کی نفی کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو اپنی مطلب برآری کے لیے اسے کیوں پیش کرتے ہیں؟
عقیدہ نمبر ^ : ــ”فاروقِ اعظم زمین کے مالک ہیں۔”
محمد بن سیرین تابعیرحمہ اللہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں:
لَنَا رِقَابُ الْـأَرْضِ . ”اس زمین کا انتظام و انصرام ہمارے ہاتھ میں ہے۔”
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 218/3)
اس اثر سے اپنی دلیل تراشتے ہوئے جناب احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں :
ــ”فاروقِ اعظم فرماتے ہیں زمین کے مالک ہم ہیں۔”(الأمن والعلٰی، ص : 219)
تبصرہ : 1 اس اثر کی سند ”ضعیف” ہے ، کیونکہ محمد بن سیرین کی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہی نہیں ہوئی،یوںیہ روایت منقطع ہے۔
2 دوسری بات یہ ہے کہ اس ”ضعیف” روایت کا مفہوم وہ نہیں جو جناب بریلوی نے اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کاش کہ اس ”ضعیف” روایت کا مفہوم سمجھنے کے لیے احمد رضا خان صاحب اپنے ان بڑے ائمہ کی طرف ہی رجوع کر لیتے جن کی تقلید کا وہ دم بھرتے ہیں۔ اسی روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام طحاوی حنفی(م 321ھ)لکھتے ہیں :
قَالَ عُمَرُ : لَنَا رِقَابُ الْـأَرْضِ، قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ : فَدَلَّ ذٰلِکَ أَنَّ رِقَابَ الْأَرْضِینَ کُلَّہَا إِلٰی أَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ، وَأَنَّہَا لَا تَخْرُجُ مِنْ أَیْدِیہِمْ إِلَّا بِإِخْرَاجِہِمْ إِیَّاہَا إِلٰی مَا رَأَوْا ، عَلٰی حُسْنِ النَّظَرِ مِنْہُمْ لِلْمُسْلِمِینَ، فِي عِمَارَۃِ بِلَادِہِمْ وَصَلَاحِہَا، فَہٰذَا قَوْلُ أَبِي حَنِیفَۃَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ .
”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے معلوم ہوا کہ (خراج والی)تمام زمینوں کا تصرف مسلمانوں کے حکمرانوں کے پاس ہے۔ یہ زمینیں ان کے تصرف سے صرف اسی صورت نکل سکتی ہیں کہ وہ خود انہیں اپنی فہم و فراست کے ذریعے مسلمانوں کی آبادی اور ان کی خوشحالی کے لیے صَرف کر دیں۔یہ امام ابوحنیفہرحمہ اللہ کا قول ہے۔”(شرح معاني الآثار : 270/3)
یاد رہے کہ امام طحاوی حنفیرحمہ اللہ نے یہ کتاب صرف اسی لیے لکھی ہے کہ احادیث و آثار کا معنیٰ و مفہوم بیان کریں اور اس کا نام بھی یہی ہے کہ شرح معاني الآثار (احادیث وآثار کے معانی کی تشریح)۔ اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے اس روایت کا مفہوم خود بیان نہیں کیا بلکہ امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے۔
امام ابوحنیفہ کی تقلید کا جواز احناف کے پاس یہی ہوتا ہے کہ جی اتنے علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنا ہمارے بس کی بات نہیں جتنے علوم و فنون قرآن و سنت کے فہم کے لیے ضروری ہیں، اسی لیے ان ہم ماہرینِ فن ائمہ کی تقلید پر ہی اکتفا کرتے ہیں جو تیسری صدی ہجری سے پہلے پہلے گزر گئے ہیں۔وہ یہی بہانہ بنا کر خود قرآن و سنت کے فہم کی کوشش نہیں کرتے۔ یہاں نہ جانے جناب بریلوی صاحب کو اپنے انہی ائمہ کا فہم پسند کیوں نہیں آیا اور انہوں نے کس مجبوری کو مدنظر رکھ کر ایک ”ضعیف” اور منقطع روایت کا ایسا مفہوم لیا ہے جو ان سے پہلے تاریخ اسلام میں کسی نے بھی نہیں لیا اور جس کا فقہِ اسلامی میں دور دور تک کہیں نام و نشان تک نہیں ملتا؟؟؟
معلوم ہوا کہ اس ”ضعیف” روایت سے بھی اولیاء اللہ کے وہ اختیارات و تصرفات ثابت نہیں ہوتے جن کے ثبوت کے لیے بریلوی حضرات ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور جن پر ان کے مذہب کا دارومدار ہے۔ اس روایت سے تو دنیوی لحاظ سے زیرنگین علاقے کا تصرف ثابت ہوتا ہے جو کفار بھی اپنے اپنے علاقوں میں رکھتے ہیں۔
عقیدہ نمبر & : ”غیر اللہ سے استعانت شرک نہیں۔”
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : إِنَّ النَّبيّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلٰی عُثْمَانَ یَسْتَعِینُہ، فِي غَزَاۃٍ غَزَاہَا، قَالَ : فَبَعَثَ إِلَیْہِ عُثْمَانُ بِعَشْرَۃِ آلافِ دِینَارٍ، فَوَضَعَہَا بَیْنَ یَدَیْہِ، قَالَ : فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَلِّبُہَا بِیَدَیْہِ وَیَدْعُو لَہ،، وَیَقُولُ : ‘غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا عُثْمَانُ ! مَا أَسْرَرْتَ، وَمَا أَعْلَنْتَ، وَمَا أَخْفَیْتَ، وَمَا ہُوَ کَائِنٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، مَا یُبَالِي عُثْمَانُ مَا عَمِلَ بَعْدَ ہٰذَا’ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ ایک غزوے کے لیے آپ کی مدد کریں۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے دس ہزار دینار بھیجے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے سامنے رکھا اور انہیں دونوں ہاتھوں سے چومنے لگے اور سیدنا عثمان کے لیے دعا کرنے لگے اور فرمانے لگے : اے عثمان ! اللہ نے تیری مخفی اور علانیہ اور قیامت تک ہونے والی تمام لغزشوں کو معاف فرما دیا ہے۔ عثمان کو آج کے بعد اپنے کسی عمل کی پرواہ نہیں۔”(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 340/1، ت : 169، تاریخ دمشق لابن عساکر : 65/39، کنز العمّال : 36189)
”اعلیٰ حضرت” بریلوی اس روایت سے اپنا شرکیہ عقیدہ ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”کیوں وہابی صاحبو! غیر خدا سے استعانت شرک تو نہیں؟ (إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ) کے کیا معنیٰ کہتے ہو؟”(الأمن والعلٰی، ص : 220)
تبصرہ : 1 اس روایت کی سند ”ضعیف” ہے۔ امام ابن عدیرحمہ اللہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: وہٰذَا الْحَدِیثُ بِہٰذَا الْإِسْنَادِ غَیْرُ مَحْفُوظٍ . ”اس سند کے ساتھ یہ حدیث غیر محفوظ ہے۔”
حافظ ذہبیرحمہ اللہ نے اس روایت کو ”منکر” قرار دیا ہے۔(میزان الاعتدال : 176/1)
اس کے راوی ابویعقوب اسحاق بن ابراہیم ثقفی کوفی کے بارے میں امام ابن عدیرحمہ اللہ لکھتے ہیں: رَوٰی عَنِ الثِّقَاتِ بِمَا لَا یُتَابَعُ عَلَیْہِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَأَحَادِیثُہ، غَیْرُ مَحْفُوظَۃٍ . ”یہ ثقہ راویوں سے منکر روایات بیان کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی احادیث غیر محفوظ ہیں۔”(الکامل في ضعفاء الرجال : 340/1)
حافظ ذہبی (الکاشف : 60/1)اور حافظ ابن حجر(التقریب : 336)Hفرماتے ہیں کہ یہ راوی ”ضعیف” ہے۔
سوائے امام ابنِ حبانرحمہ اللہ کے اس کی توثیق کسی نے نہیں کی اور علم حدیث و رجال سے تمسک رکھنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ امام ابنِ حبانرحمہ اللہ کے تساہل کی بنا پر ان کی منفرد توثیق مفید نہیں ہوتی۔
2 اس ”ضعیف” روایت سے بھی غیراللہ سے استعانت کا جوازثابت نہیں ہوتا۔یہ دراصل خلط مبحث کی کوشش ہے۔ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ قرآن و سنت میں جہاں جہاں غیراللہ کی طرف سے مدد کی نفی کی گئی ہے وہ ما فوق الاسباب پر محمول ہے۔ یعنی اسباب و وسائل کے بغیر کوئی غیر اللہ کسی کی کوئی مدد نہیں کر سکتا، جبکہ اللہ تعالیٰ بغیر اسباب و وسائل کے بھی مدد کرتا ہے۔مثلاً سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جب تک زندہ تھے ان سے مسلمانوں کے اجتماعی و انفرادی مفاد کے لیے مالی تعاون طلب کیا جاتا رہا لیکن جب آپ وفات پا گئے تو کسی صحابی و تابعی نے آپ سے کسی قسم کی کوئی مدد طلب نہیں کی۔وجہ صرف یہی تھی کہ جب آپ بقید حیات تھے تو ان کے پاس اپنا کاروبار اور وسیلہ موجود تھا اور وہ مدد کر سکتے تھے۔ جب آپ وفات پا گئے تو آپ بجائے ممد ہونے کے دوسروں کے محتاج ہو گئے۔اپنے کفن و دفن اور غسل سے لے کر قبر تک جانے اور اس میں داخل ہونے تک میں وہ خود اپنی مدد بھی نہ کر سکے۔ اس کے بعد ان سے مدد کیسے طلب کی جا سکتی ہے؟ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ حی و قیوم ذات ہے۔ وہ اسباب کے ساتھ بھی دیتا ہے اور بغیر اسباب کے بھی عطا فرماتا ہے۔ سیدہ مریم[ کی ہی مثال لیجیے ۔ اللہ تعالیٰ بغیر موسمی اسباب کے ان کو محراب میں پھلوں سے بھی نواز دیتا ہے اور بغیر جنسی اسباب کے ان کو اولاد بھی دے دیتا ہے۔نیز سوکھے ہوئے کھجور کے درخت سے ان کے لیے کھجوریں گرانا اور وہیں پر پینے کے لیے پانی جاری کرنا بھی اسباب کے بغیر تھا۔ ایسی مدد سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں کر سکتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی سب سے بہترین ہستی ہیں۔ آپ بھی بغیر اسباب کے کسی کی کوئی مدد نہ کر سکتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی چیز نہ ہوتی تو صحابہ کرام کے ساتھ خود بھی باہر کھانے کی تلاش میں نکل پڑتے۔(صحیح مسلم : 2038) اور جب کچھ ہوتا تو عنایت فرما دیتے۔
رہی ماتحت الاسباب مدد ، یعنی اسباب و وسائل کی موجودگی میں کسی کی مدد کرنا تو وہ ہر شخص کرتا ہے ، چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم اور خواہ نیک ہو یا گناہگار۔ اس میں کسی کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں۔آپ نے کئی دفعہ مشاہدہ کیا ہو گا کہ اپنی زندگی میں اور اسباب و وسائل کے تحت کوئی غیرمسلم کسی مسلمان کی یا کوئی گناہگار کسی نیک شخص کی اخلاقی و مالی مدد کرتا ہے۔ کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ غیراللہ سے ما فوق الاسباب مدد مانگنا جائز ہے؟ کیا غیر مسلم این جی اوز مسلمانوں کو بددین کرنے کے لیے ان کی مالی معاونت نہیں کرتیں؟ کیا ہمارے بریلوی بھائی کسی غیرمسلم کو بھی اس کی موت کے بعد مدد کے لیے پکاریں گے؟
معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم نے غیراللہ سے جس مدد کی نفی کی ہے ،وہ ما فوق الاسباب، یعنی اسباب و وسائل کے بغیر ہے۔قرآنِ کریم کی درج ذیل اور اسی مفہوم کی دیگر آیات کا یہی مفہوم ہے :
(إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ) (الفاتحۃ 1: 5)
”ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔”
(وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ) (آل عمران 3: 126)
”مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو کہ غالب اور حکمت والا ہے۔”
(وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ) (الأنفال 8: 10)
”مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔”
3 یہ روایت تو الٹا ان غیراللہ کے پجاریوں پر ضربِ کاری ہے جو کہتے ہیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ”مختارِ کل” تھے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختارِ کل تھے تو آپ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مدد کیوں مانگی؟ نیز بریلوی حضرات کے نزدیک ولایت اور نیکی ہی وہ سبب ہے جس کی بنا پر کوئی غیراللہ مدد کر سکتا ہے۔ اس میں کسی مسلمان کی کوئی شک و شبہ نہیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ساری کائنات سے بڑھ کر نیک تھے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدد کے لیے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے رابطہ کیوں کرنا پڑا؟
یہ بھی ثابت ہوا کہ غیراللہ اسباب و وسائل کی موجودگی میں مدد کر سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسباب نہ ہونے کی بنا پر اپنی مدد آپ نہ کر سکے بلکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے تعاون طلب کیا۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس مالی وسائل تھے ، لہٰذا انہوں نے مدد کر دی۔ ایسا نہیں ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ یا کسی صحابی کے پاس کوئی چیز موجود نہ ہو اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود اس بات کا علم ہونے کے اس سے وہ چیز مانگی ہو۔ یہی حال صحابہ کرام کا تھا۔ انہوں نے آپ کی حیات ِ مبارکہ میں بھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی چیز طلب نہ کی جس کے اسباب و وسائل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ تھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مدد نہیں مانگی۔
4 عجیب بات ہے کہ بریلوی اپنی دلیل میں تو یہ ذکر کر رہے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدد کے لیے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے رابطہ کیا، لیکن وہ خود ”یاعلی!” کے نعرے لگاتے ہیں۔ کبھی بھی ان کے زبان و بیان سے ”یاعثمان!”کا نعرہ نہیں نکلا!آج تک کسی بریلوی بھائی کو اس نعرے کی جرأت نہیں ہوئی۔ کیا وجہ ہے؟ کیا اب بریلوی بھائیوں کے نزدیک بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ مدد نہیں کر سکتے؟یاپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا کہ میں عثمان رضی اللہ عنہ سے مدد مانگتا ہوں اور تم علی رضی اللہ عنہ سے مانگنا؟؟؟
5 صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کا بہترین زمانہ گزر گیا لیکن کسی نے غیر اللہ سے مافوق الاسباب استعانت نہیں کی،یعنی کسی فوت شدہ سے کوئی مدد نہیں مانگی۔ کیا صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کو وہ بات سمجھ نہیں آ سکی جو بریلوی حضرات کو آ گئی ہے؟ اگر مخلوق سے مافوق الاسباب استعانت کیے بغیر،یعنی فوت شدگان اور اصحابِ قبور سے مدد مانگے بغیر صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کا گزارا ہو گیا تھا تو ہمارا کیوں نہیں ہوتا؟
عقیدہ نمبر * : ”غیر اللہ کی پناہ مانگنا جائز ہے۔”
ایک مصری نے امیرالمومنین سیدنا فاروقِ اعظم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی : یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ! عَائِذٌ بِکَ مِنَ الظُّلْمِ . ”امیر المومنین! آپ کی پناہ لیتا ہوں ظلم سے۔” امیر المومنین نے فرمایا : [عُذْتَ مَعَاذًا] ”تو نے درست پناہ گاہ ڈھونڈی ہے۔”(کنز العُمَّال لعلاء الدین علي بن حسام الدین المتّقي الہندي : 660/12)
تبصرہ : 1 یہ بے سند و بے سروپا روایت اہل سنت والجماعت کے خلاف عقیدہ رکھنے والوں کے منہ پر علمی طمانچہ ہے۔دین سند کا نام ہے۔بے سند دین کا کوئی اعتبار نہیں۔
2 دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص زندہ اور حاضر شخص سے ایسی پناہ مانگے جس پر وہ قادر ہو تو یہ ما تحت الاسباب استعانت ہے جو کہ مخلوق سے کرناجائز ہے۔ جو پناہ مخلوق نہ دے سکے ، وہ مخلوق سے طلب کرنا شرک ہے۔ اسباب و وسائل کے تحت ظلم سے پناہ تو کوئی مظلوم،وقت کے قاضی اور چیف جسٹس سے بھی مانگ لیتا ہے اور مانگنی بھی چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘فَمَنْ وَّجَدَ مَلْجَأً أَوْ مَعَاذًا، فَلْیَعُذْ بِہٖ’
”جو شخص کوئی پناہ پائے ، اس میں آ جائے۔”
(صحیح البخاري : 7082، صحیح مسلم : 2886)
کیا کوئی بریلوی بھائی آج کے کسی قاضی یا چیف جسٹس کے فوت ہونے کے بعد اس سے پناہ مانگے گا؟ اگر نہیں تو یہی فرق ہے جائز اور ناجائز استعانت میںکہ مخلوق سے اسباب و وسائل کی موجودگی میں مدد یا پناہ مانگنا جائز ہے جبکہ اسباب و وسائل کی عدم موجودگی میں مخلوق سے مدد یا پناہ مانگنا شرک ہے اور یہی صورت محل نزاع ہے۔ امید ہے کہ بریلوی بھائیوں کی سمجھ میں بات آ جائے گی۔
عقیدہ نمبر ( : ”مخلوق کو فریاد کرنا جائز ہے۔”
خلافت ِ فاروقی میں ایک سال مدینہ میں قحطِ عظیم پڑا۔ اس سال کا عام الرمادہ نام رکھا گیا(یعنی ہلاکت و تباہی ئ جان و مال کا سال)۔سیدنا امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے مصر میں فرمان بھیجا: یہ ابن عاص کی طرف عمر بن خطاب کا خط ہے : [سَلَامٌ، أَمَّا بَعْدُ! فَلَعَمْرِي، یَا عَمْرُو! مَا تُبَالِي إِذَا شَبِعْتَ أَنْتَ وَمَنْ مَّعَکَ أَنْ أَہْلِکَ أَنَا وَمَنْ مَّعِيَ، فَیَا غَوْثَاہْ، ثُمَّ یَا غَوْثَاہْ ] ”سلام کے بعد واضح ہو کہ مجھے اپنی جان کی قسم ! اے عمرو، جب آپ اور آپ کے ملک والے سیر ہوں تو آپ کو کوئی پرواہ نہیں کہ میں اور میرے ملک والے ہلاک ہو جائیں۔ اے فریاد کو پہنچ ، اے فریاد کو پہنچ۔”(کنز العمّال للمتقي الہندي : 615/12)
تبصرہ : 1 یہ بے سند اور بے ثبوت روایت ہے، اسی لیے بریلوی حضرات کے حصے میں آئی ہے۔
2 اہل سنت والجماعت کا اہل بدعت سے اختلاف تحت الاسباب مدد طلب کرنے کے بارے میں نہیں بلکہ فوق الاسباب مدد طلب کرنے کے بارے میں ہے، یعنی جہاں کوئی مخلوق مدد کے وسائل و اسباب نہ رکھتی ہو ،وہاں اس سے مدد مانگنا شرک ہے لیکن جہاں مخلوق کے پاس اسباب و وسائل موجود ہوں ، وہاں اس سے مدد طلب کرنا شرک نہیں بلکہ جائز ہے۔ مثال کے طورپر قحط زدہ یا سیلاب زدہ لوگ اپنے مسلمان بھائیوں سے اس مصیبت میں مدد مانگیں اور وہ اسباب و وسائل کے ذریعے ان کی مدد کر سکتے ہوں تو یہ جائز ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی مخلوق سے ایسی چیز مانگے جس پر وہ قادر نہ ہو تو یہ شرکِ اکبر ہے جیسے کوئی کسی مخلوق سے زندگی ، صحت یا اولاد وغیرہ مانگے۔
3 اسی بے سند روایت پر ہی غور کیا جائے تو شرک و بدعت کے بخیے ادھڑ جاتے ہیں۔ بریلوی بھائی غور فرمائیں کہ یہاں مخلوق سے فریاد کرنے والا کون ہے؟ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی تو ہیں، یعنی اس روایت کے مطابق سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی مختار نہیں بلکہ محتاج ہیں۔ جو لوگ اپنے مُردہ پیروں سے ہر طرح کی حاجت روائی کا یقین رکھتے ہیں، انہیں زندہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا محتاج ہونا کیسے ہضم ہو گیا؟
عقیدہ نمبر ) : ”سیدنا علی کا دعویئ مشکل کشائی!”
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : [إِنِّي لَـأَسْتَحْیِی مِنَ اللّٰہِ أَنْ یَّکُونَ ذَنْبٌ أَعْظَمَ مِّنْ عَفْوِي، أَوْ جَہْلٌ أَعْظَمَ مِنْ حِلْمِي، أَوْ عَوْرَۃٌ لَّا یُوَارِیہَا سَتْرِي، أَوْ خُلَّۃٌ لَّا یَسُدُّہَا جُودِي] ”اللہ تعالیٰ سے شرم آتی ہے کہ کسی کا گناہ میری معافی سے بڑھ جائے،کسی کی جہالت میری بردباری اور حلیمی سے بڑھ جائے،کسی عیب یا شرم کی بات کو میرا پردہ نہ چھپائے،کسی کی حاجت کو میرا کرم بند نہ کرے۔”
(تاریخ بغداد للخطیب : 381/1، تاریخ دمشق لابن عساکر : 517/42، کنز العمّال : 36364)
تبصرہ : 1 یہ جھوٹ کا پلندا ہے۔ اس کو بیان کرنے والا راوی ہیثم بن عدی سخت جھوٹا اور ”متروک” راوی ہے۔ اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔ دوسرا راوی مجالد بن سعید بھی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔
2 اس جھوٹی روایت میں بھی بریلوی حضرات کے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ اس روایت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کر رہے کہ اگر کوئی ضرورت مند میرے پاس آئے تو ایسا نہ ہو کہ میرے پاس اس کی ضرورت پورا کرنے کے اسباب و وسائل نہ ہوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ باقی تمام زندہ انسانوں کی طرح اپنی زندگی میں اسباب و وسائل کے تحت کسی کی مدد کرتے تھے۔ اس کا کوئی انکاری نہیں لیکن اسباب و وسائل کے بغیر یا دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد ان کا مدد کرنا نہ ثابت ہے نہ ان سے ایسی مدد مانگنا جائز ہے۔
3 مشکل کشائی اور حاجت روائی کا جو عقیدہ بریلوی حضرات سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں رکھتے ہیں، وہ صحابہ وتابعین اور ائمہ دین سے قطعاً ثابت نہیں، البتہ رافضی شیعوں کے ہاں ایسی بہت سے باتیں مل جاتی ہیں۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے میدانِ کربلا میں بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نہیں پکارا۔ اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ مافوق الاسباب یا وفات کے بعد مدد کر سکتے ہوتے تو ان کے لخت ِ جگر ضرور انہیں مصیبت کے وقت میں پکارتے۔
عقیدہ نمبر ` : ”سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دعویئ حاجت روائی!”
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : [مَا أَدْرِي أَيُّ النِّعْمَتَیْنِ أَعْظَمُ عَلَيَّ مِنَّۃً مِّنْ رَّبِّي، رَجُلٌ بَذَلَ مُصَاصَ وَجْہِہٖ إِلَيَّ، فَرَآنِي مَوْضِعًا لِّحَاجَتِہٖ، وَأَجْرَی اللّٰہُ قَضَائَہَا، أَوْ یَسَّرَہ، عَلٰی یَدِي، وَلَـأَنْ أَقْضِيَ لِامْرِءٍ مُّسْلِمٍ حَاجَۃً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مِّلْءِ الْـأَرْضِ ذَہَبًا وَّفِضَّۃً] ”میں نہیں جانتا کہ ان دونعمتوں میں سے کون سی مجھ پر میرے رب کی طرف سے زیادہ احسان ہے کہ ایک شخص مجھے اپنی حاجت روائی کا محل جان کر اپنا منہ میری طرف کرے اور اللہ تعالیٰ اس کی حاجت میرے ذریعے پوری کر دے تو یہ تمام روئے زمین بھر کر سونا چاندی ملنے سے مجھے زیادہ محبوب ہے کہ میں کسی مسلمان کی حاجت پوری کر دوں۔”(کنز العمّال : 17049)
اس روایت کو دلیل بناتے ہوئے ”اعلیٰ حضرت” بریلوی یوں سرخی جماتے ہیں:
”وہابیہ کے نزدیک مولیٰ علی خدائی بول بول رہے ہیں۔ اپنے آپ کو غفار ستار ، قاضی الحاجات بتا رہے ہیں۔”(الأمن والعلٰی، ص : 222)
تبصرہ : 1 یہ بھی بے سند روایت ہے۔ بے سند روایات بے سند لوگ ہی پیش کر سکتے ہیں۔
2 اس روایت میں بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو قاضی الحاجات نہیں بتا رہے بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کو قاضی الحاجات ثابت کر رہے ہیں۔ ان کے یہ الفاظ بریلوی بھائیوں کو بار بار پڑھنے چاہئیں کہ وَأَجْرَی اللّٰہُ قَضَائَہَا (اللہ تعالیٰ حاجت پوری کر دے)۔ نیز اس میں ماتحت الاسباب مدد کا ذکر ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں۔
قارئین کرام ان لوگوں کے دلائل اور ان دلائل سے مستنبط مسائل پر غور فرمائیں۔ کیا اہل حق کے دلائل اور استنباطات اس طرح کے ہوتے ہیں؟ جو لوگ قرآن و سنت کو سمجھنے سے قاصر ہونے کا بہانہ کر کے تقلید ِ شخصی کا پٹہ اپنے گلے میں ڈالتے ہیں، انہیں کس نے یہ حق دیا ہے کہ بے سند و من گھڑت روایات سے ان مسائل کا استنباط کریں جن کا صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی نے استنباط نہیں کیا؟؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.