466

معرکہ حق وباطل، شمارہ 30، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

عقیدہ نمبر 6 : ١۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے : إنّ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أمر الشمس ، فتأخّرت ساعۃ من نہار ۔ ” نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کو حکم دیا تو وہ دن کا کچھ حصہ لیٹ ہو گیا ۔ ”(المعجم الکبیر للطبرانی : ٤٠٥١)
تبصرہ : یہ باطل (جھوٹی) روایت ہے ، کیونکہ :
1    اس کے راوی احمد بن عبد الرحمن بن المفضل کے بارے میں حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لم أعرفہ ۔ ” میں اسے پہچان نہیں پایا۔”
(مجمع الزوائد للہیثمی : ٩/٤٦)
2    اس کے راوی ولید بن عبد الواحد التیمی کو سوائے امام ابنِ حبان (٩/٢٢٤) کے کسی نے ثقہ نہیں کہا ، لہٰذا یہ ”مجہول الحال” راوی ہے ۔
3    ابو الزبیر ”مدلس” راوی ہیں اور سماع کی صراحت نہیں کر رہے ۔
فائدہ : اگر کوئی کہے کہ احمدبن عبد الرحمن الحرانی کی محفوظ بن بحر راوی نے متابعت کی ہے ۔ (طرق حدیث ردّ الشمس لابی الحسن شاذان الفضلی بحوالہ اللآلی المصنوعۃ للسیوطی : ١/٣٤١) تواس کا جواب یہ ہے کہ محفوظ بن بحر کے بارے میں ابو عروبہ (م ٣١٨ھ)فرماتے ہیں : کان یکذب ۔ ”یہ جھوٹ بولا کرتا تھا ۔ ”
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٦/٤٤١)
نیز امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں : لہ أحادیث یوصلہا وغیرہ یرسلہا ، وأحادیث یرفعہا وغیرہ یوقفہا علی الثقات ۔
”اس نے بہت سی ایسی احادیث کو موصول بیان کر دیا ہے جن کو اس کے علاوہ دوسرے ثقہ راوی مرسل بیان کرتے ہیں ، نیز اس نے بہت سی ایسی احادیث کو مرفوع بیان کر دیا ہے جن کو دوسرے راوی ثقہ راویوں سے موقوف بیان کرتے ہیں ۔ ”
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٦/٤٤١)
سوائے امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ  (٩/٢٠٤)کے کسی نے اسے ثقہ نہیں کہا ، لہٰذا یہ راوی ”ضعیف” ہے ۔ اس کے باوجود حافظ ہیثمی(مجمع الزوائد : ٨/٢٩٧) اور حافظ ابنِ حجر(فتح الباری : ٦/٢٢١) کا اس کی سند کو ”حسن” قرار دینا تساہل پر مبنی ہے ۔
اس ”ضعیف” اور جھوٹی روایت کو بنیاد بنا کر ”اعلیٰ حضرت” احمد رضا خان بریلوی صاحب نے یوں سرخی جمائی ہے : ”نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حکم شمس و قمر ، تمام ملکوت السموات والارض پر حاوی ہے ، آفتاب کو حکم دیا کہ ٹھہر جا ، فوراً ٹھہر گیا ، اسی طرح چاند ”
(الامن والعلی از احمد رضا خان بریلوی : ص ١٢٢)
٢۔    سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں : ” میں نے نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا گہوارے میں چاند سے باتیں فرماتے انگشت ِ مبارک سے اشارہ کرتے ، چاند اُس طرف جھک جاتا ۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إنّی کنت أحدّثہ ویحدّثنی ویلہنی عن البکاء وسمع وجبتہ حین یسجد تحت العرش ۔ ہاں میں اس سے باتیں کرتا تھا ، وہ بھی مجھ سے باتیں کرتا اور مجھے رونے سے بہلاتا ۔ میں اس کے گرنے کا دھماکہ بھی سنتا تھا جب وہ زیر عرش سجدے میں گرتا ۔ ”
(دلائل النبوۃ للبیہقی : ٢/٤١، تاریخ ابن عساکر : ٤/٣٦٠)
تبصرہ : یہ جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ اس کے راوی احمد بن ابراہیم الحلبی کے بارے میں خود امام بیہقی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ”مجہول” ہے ، جبکہ یہ کذاب اور اپنی طرف سے جھوٹی حدیثیں گھڑ کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے والا راوی تھا ۔ اس کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا أعرفہ ، وأحادیثہ باطلۃ موضوعۃ کلّہا ، لیس لہا أصول ، یدل حدیثہ علی أنّہ کذّاب ۔
”میں اسے جانتا تو نہیں ، البتہ اس کی بیان کردہ تمام احادیث باطل اور جھوٹی ہیں ۔ ان کی کوئی اصل نہیں ۔ اس کی بیان کردہ حدیثیں بتاتی ہیں کہ یہ جھوٹا راوی تھا ۔ ”
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٢/٤٠)
حافظ ابن الجوزی  رحمہ اللہ نے اسے ”کتاب الضعفاء والمتروکین” میں ذکر کیا ہے ۔ صرف امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ (٩/١٠١)نے ”مجہول” راویوں کو ثقہ قرار دینے والے قاعدے کے تحت اسے ثقہ قرار دیا ہے ۔
جناب احمد رضا خان بریلوی صاحب ان باطل روایات پر اپنے عقیدے کی بنیاد رکھتے ہوئے لکھتے ہیں : ” جب دودھ پیتوں کی حکومت ِ قاہرہ ہے تو اب کہ خلافۃ اللہ الکبریٰ کا ظہور عین شباب پر ہے ۔ آفتاب کی کیا جان کہ ان کے حکم سے سرتابی کرے ۔ آفتاب و ماہتاب درکنار واللہ العظیم ملائکہ مدبرات الامر کہ تمام نظم و نسق عالم جن کے ہاتھوں پر ہے ، محمد رسول اللہ خلیفۃ اللہ الاعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دائرہئ حکم سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ ”
(الامن والعلیٰ از احمد رضا خان بریلوی : ص ١٢٣)
ظاہر ہے کہ جن عقائد کی بنیاد ایسی روایات پر ہو وہ عقائد لازمی طور پر مبالغہ آمیز اور باطل ہی ہوں گے ۔
”اعلیٰ حضرت” احمد رضا خان بریلوی صاحب لکھتے ہیں : ”سیدنا سلیمان علیہ الصلاۃ والسلام کی نماز عصر گھوڑوں کے ملاحظہ میں قضا ہوئی حتّی توارت بالحجاب یہاں تک کہ سورج پردے میں جا چھپا ۔ ارشاد فرمایا : رُدّوہا علیّ ۔ پلٹا لاؤ میری طرف ۔ سیدنا علی سے اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ سلیمانuکے اس قول میں ضمیر آفتاب کی طرف ہے اورخطاب اُن ملائکہ (فرشتوں) کو جو آفتاب پر متعین ہیں ، یعنی سلیمان نے اُن فرشتوں کو حکم دیا کہ ڈوبے ہوئے آفتاب کو واپس لے آؤ ۔ وہ حسب الحکم واپس لائے یہاں تک کہ مغرب ہو کر پھر عصر کا وقت ہو گیا اور سلیمانuنے نماز ادا فرمائی ۔ ”(الامن والعلیٰ از احمد رضا خان بریلوی : ص ١٢٤)
تبصرہ : یہ جھوٹی کہانی ہے جسے ”اعلیٰ حضرت” عقیدہ کے باب میں مزے لے لے کر بیان کر رہے ہیں ۔
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
وہذا لا یثبت عن ابن عبّاس ولا عن غیرہ ، والثابت عن جمہور أہل العلم بالتفسیر من الصحابۃ ومن بعدہم أنّ الضمیر المؤنث فی قولہ (رُدُّوہَا) للخیل ، واللّٰہ أعلم ۔
”یہ بات نہ سیدنا ابنِ عباسwسے ثابت ہے نہ کسی اور صحابی سے ۔ جمہور مفسر ین صحابہ وتابعین سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ فرمانِ باری تعالیٰ (رُدُّوہَا) میں ضمیر گھوڑوں کی طرف لوٹتی ہے ۔ واللہ اعلم! ”(فتح الباری : ٦/٢٢٢)
بے سروپا اور بے سند روایات سے عقیدہ ثابت کرنا اہل حق کا وطیرہ نہیں ۔
فائدہ : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( غزا نبیّ من الأنبیاء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقال للشمس : أنت مأمورۃ وأنا مأمور ، اللّٰہمّ احبسہا علیّ شیأا ، فحبست علیہ حتّی فتح اللّٰہ علیہ ))
” اللہ تعالیٰ کے ایک نبی نے (دشمنوں کے ساتھ لڑائی کی) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے سورج سے کہا : تو بھی (اللہ کے حکم کا) پابند ہے اور میں بھی پابند ہوں ۔ اے اللہ ! تو اس سورج کو میرے لیے کچھ دیر روک دے ۔ سورج کو اس نبی کی فتح تک روک دیا گیا ۔”
(صحیح البخاری : ١/٤٤٠، ح : ٣١٢٣، صحیح مسلم : ٢/٨٥، ح : ١٧٤٧)
ایک نبی کا طرز عمل بھی دیکھیں کہ وہ کس طرح خشوع و خضوع سے اللہ تعالیٰ کے دربار میں التجا کر رہے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی دُعا کو شرف ِ قبولیت سے نوازا ۔ سورج اللہ کے حکم سے کچھ دیر کے لیے رُک گیا ۔ ملاحظہ فرمائیں کہ اللہ کے اس نبی نے اللہ تعالیٰ سے دُعا اسی لیے کی تھی کہ ان کا حکم سورج پر نہیں چلتا تھا ، بلکہ وہ تو اسے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں کہ تم بھی حکم ِ الٰہی کے ماتحت ہوں اور میں بھی ۔
کیا کبھی نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو کوئی حکم دینے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی تھی کہ اے اللہ ! تُو ان کو میرے لیے اس کام پر مامور کر دے ؟ یقینا ایسا کبھی نہیں ہوا ، کیونکہ صحابہ کرام پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم چلتا تھا ۔ اسی طرح اگر سورج چاند اور دوسرا نظام عالم کسی نبی کے ماتحت ہوتا تو وہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کرنے کے بجائے ڈائریکٹ سورج کو رُکنے کا حکم دے دیتے !
”اعلیٰ حضرت” کا یہ کہنا کہ :     ”نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم شمس و قمر ، تمام ملکوت السماوات والارض پر جاری ہے ۔ ”
کس قدر بے دلیل اور مبالغہ آمیزی والا عقیدہ ہے جو واضح طور پر قرآن وحدیث اور اجماعِ امت کے بھی منافی ہے ۔ ہدایت کی توفیق تو اللہ ہی کے پاس ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.