661

معرکہ حق و باطل، شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

معرکہ حق وباطل
غلام مصطفٰے ظہیرامن پوری

عقیدہ نمبر 1 :
سیدنا ابوضراس کعب بن مالک الاسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
کنت أبیت مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فأتیتہ بوضوئہ وحاجتہ ، فقال لی : (( سل )) ، فقلت : أسألک مرافقتک فی الجنّۃ ، قال : (( أو غیر ذلک ؟)) ، قلت : ہو ذاک ، قال : (( فأعنّی علی نفسک بکثرۃ السجود ))
”میں اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات گزارتا تھا ۔ میں آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے لیے پانی اورضرورت کی چیزیں لایا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مانگ ، میں نے عرض کیا : میں تو جنت میں آپ کی رفاقت مانگتا ہوں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کے علاوہ کچھ ؟ میں نے عرض کیا: بس یہی ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے نفس پر زیادہ سجدوں کے ساتھ میری مدد کر۔”
مفہوم : سیدنا ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ کا تعلق اصحاب ِ صفہ سے تھا، یعنی وہ فقیر مہاجرین جن کا اپنا ذاتی گھر نہیں تھا۔ وہ مسجد میں ہی گزر بسرکرتے تھے۔ یہ صحابی نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے خادم تھے۔ ایک دفعہ نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خدمت کے عوض میں کچھ دینا چاہا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا کہ اپنی ضرورت بیان کریں، مجھ سے کچھ مانگیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں یہ تھا کہ یہ کوئی دنیا کی چیز مانگیں گے، لیکن صحابیِ رسول بلند ہمتی ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے دنیا کی بجائے آخرت اورجنت کوترجیح دی اورکہہ دیا کہ میں آپ سے جنت میں رفاقت کا سوال کرتاہوں۔ جس طرح دنیا میں آپ کاساتھ نصیب ہوا ہے ، اسی طرح آخرت میں بھی ساتھ نصیب ہوجائے۔
یعنی سیدناربیعہ بن کعب  رضی اللہ عنہ نے نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کا مطالبہ کیا تھاکہ آپ اللہ تعالیٰ سے میرے حق میں سفارش کردیں کہ وہ مجھے دوزخ سے بچا کر جنت میں آپ کی رفاقت نصیب فرمادے۔ جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے :
کنت أخدم النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم وأقوم فی حوائجہ نہاری أجمع ، حتّی یصلّی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم العشاء الآخرۃ ، فأجلس ببابہ إذا دخل بیتہ ، أقول : لعلّہا أن تحدث لرسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم حاجۃ ، فما أزال أسمعہ ، یقول رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : سبحان اللّٰہ ، سبحان اللّٰہ ، سبحان اللّٰہ وبحمدہ ، حتّی أملّ ، فأرجع أو تغلبنی عینی ، فأرقد ، قال : فقال لی یوما لما یری من خفتی لہ وخدمتی إیّاہ : (( سلنی یا ربیعۃ ! أعطـــــک )) ، قـال : فقلت : أنظر فی أمری یا رسول اللّٰہ ، ثمّ أعلمک ذلک ، قال : ففکّرت فی نفسی ، فعرفت أنّ الدنیا منقطعۃ زائلۃ ، وإنّ لی فیہا رزقا ، سیکفینی ویأتینی ، قال : فقلت : أسأل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لآخرتی ، فإنّہ من اللّٰہ عزّ وجلّ بالمنزل الذی ہو بہ ، قال : فجئت ، فقـــال : (( ما فعلت یا ربیعۃ ؟ )) ، قال : فقلت : نعم یا رسول اللّٰہ ! أسألک أن تشفع لی إلی ربّک ، فیعتقنی من النار ، قال : فقال : (( من أمرک بہذا یا ربیعۃ ! )) ، قال : فقلت : لا واللّٰہ الذی بعثک بالحقّ ، ما أمرنی بہ أحد ، ولکنّک لمّا قلـت : (( سلنی أعطک )) ، وکنت من اللّٰہ بالمنزل الذی أنت بہ ، نظرت فی أمری وعرفت أنّ الدنیا منقطعۃ وزائلۃ ، وأنّ لی فیہا رزقا سیأتینی ، فقلت : أسأل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لآخرتی ، قال : فصمت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم طویلا ، ثمّ قال لی : (( إنّی فاعل ، فأعنّی علی نفسک بکثرۃ السجود ))        ”میں نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیاکرتا تھااورسارا دِن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ضروریات کا اہتمام کرتا تھا، حتی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز پڑھ لیتے۔ پھر جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوجاتے تو میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے دروازے پربیٹھ جاتا یہ سوچتے ہوئے کہ شاید آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ضرورت پڑجائے۔ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلسل سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ وبحمدہٖ کہتے ہوئے سنتا یہاں تک کہ میں تھک کر لوٹ جاتا یا میری آنکھ لگ جاتی اورمیں سوجاتا۔ ایک دن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے میری خدمت وتواضع دیکھ کر فرمایا : اے ربیعہ ! مانگو کہ میں تجھے دوں۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! میں اپنے معاملے میں غوروفکر کروں گا، پھر آپ کوبتاؤں گا۔ میں نے غوروفکر کیا تومعلوم ہوا کہ دنیا ختم ہونے والی اورفانی ہے اوراس میں میرے لیے اتنا رزق ہے جو مجھے مل جائے گا اورکفایت کرجائے گا۔ میں نے سوچا کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی آخرت کے لیے کچھ مانگتاہوں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ کے ہاں بڑی قدرومنزلت ہے۔ میں آیا توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : اے ربیعہ ! تونے کیا کیاہے؟ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ آپ اپنے ربّ سے میری سفارش کریں کہ وہ مجھے جہنم سے بچا لے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ربیعہ! تجھے ایسا حکم کس نے دیاہے؟ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! قسم ہے کہ مجھے ایسا کسی نے نہیں کہا ، بلکہ جب آپ نے مجھے فرمایا کہ مانگ ، میں تجھے دوں ۔ آپ کا مقام بھی اللہ کے ہاں بڑا بلند تھا تو میں نے اپنے معاملے میں غوروفکر کیا ۔ میں نے دیکھا کہ دنیا عارضی اورفانی ہے ، لہٰذا مجھے اللہ کے رسول سے اپنی آخرت کے لیے کچھ مانگنا چاہیے۔ اس پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کافی دیر خاموش رہے ، پھر فرمایا: میں ایسا کروں گا، لیکن آپ بھی اپنی طرف سے زیادہ سجدے کرکے میری مدد کریں۔”
(مسند الامام احمد : ٤/٥٩، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کے متعلق علمائے کرام کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں:
(ا)    علامہ سندھی حنفی   رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
مرافقتک ، بالنصب ، بتقدیر أسألک مرافقتک ، (( أوغیر ذلــــــــک )) یحتمل فتح الواو ، أی أتسأل ذلک وغیرہ ، أم تسألہ وحدہ ، وسکونہا ، أی اسأل ذلک أم غیرہ ، (( ہو ذلک )) أی المسؤل ذلک لا غیر ، (( فأعنّی علی نفسک )) ، أی علی تحصیل حاجۃ نفسک التی ہی المرافقۃ ، والمراد تعظیم تلک الحاجۃ ، وأنّہا تحتاج إلی معاونۃ منک ، ومجرد السؤال منّی لا یکفی فیہا ، أو المعنی فوافقنی بکثرۃ السجود قاہرا بہا علی نفسک ، وقیل : أعنّی علی قہر نفسک بکثرۃ السجود ، کأنّہ أشار إلی أنّ ما ذکرت لا یحصل إلّا بقہر نفسک التی ہی أعدی عدوّک ، فلا بد لی من قہر نفسک بصرفہا عن الشہوات ، ولا بدّ لک أن تعاوننی فیہ ، وقیل : معناہ : کن لی عونا فی إصلاح نفسک وجعلہا طاہرۃ مستحقّۃ لما تطلب ، فإنّی أطلب إصلاح نفسک من اللّٰہ تعالی ، وأطلب منک أیضا إصلاحہا بکثـرۃ السجود للّٰہ ، فإنّ السجود کاسر للنفس ومذلّ لہا ، وأیّ نفس انکسرت وذلّت استحقّت الرحمۃ ، واللّٰہ تعالی أعلم ۔
” مرافقتک منصوب ہے ، تقدیری عبارت یہ ہے کہ أسألک مرافقتک (میں آپ سے آپ کی رفاقت کاسوال کرتا ہوں)۔ أو غیر ذلک میں کئی احتمال ہیں۔ واؤ پر فتح پڑھیں تو مراد یہ ہے کہ آپ اس کے ساتھ کسی اورچیز کا بھی مطالبہ کرنا چاہتے ہیں یا بس اسی کا؟واؤ کے سکون کے ساتھ معنیٰ یہ ہوگا کہ یہ مانگ لیں یا کچھ اورمانگ لیں۔ ہو ذلک سے مراد یہ ہے کہ بس یہی مطالبہ ہے ، کچھ اورنہیں۔ فأعنّی علی نفسک سے مراد یہ ہے کہ اپنے نفس کے مطالبے ، یعنی میری رفاقت کو حاصل کرنے کے لیے میری مدد کرو۔ مقصود اس مطالبے کی عظمت بیان کرنا تھا، نیز یہ کہ ایسا مطالبہ آپ کی طرف سے تعاون کا محتاج ہے، صرف میرا اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا کافی نہ ہوگا یا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے نفس پرجبر کرکے میری بات مانیں۔ ایک قول یہ ہے کہ زیادہ سجدے کرکے اپنے نفس پرجبر کے ذریعے میری مدد کریں گویا آپ نے اشارہ کیا ہے کہ جو مطالبہ آپ نے کیا ہے ، وہ صرف اپنے سب بڑے دشمن نفس کو قابو کرنے سے حاصل ہوگا۔ چنانچہ میرے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے نفس کو شہوات سے دُور رکھیںاورمیرا تعاون کریں۔ایک قول یہ بھی ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح اور اسے اپنے مطالبے کے حصول کے قابل بنانے کے سلسلے میں میرے معاون بن جائیں۔میں اللہ تعالیٰ سے بھی آپ کے نفس کی اصلاح چاہتا ہوں اورآپ کی اپنی طرف سے بھی زیادہ سجدوں کے ذریعے نفس کی اصلاح چاہتا ہوں۔سجدہ نفس کو دبانے والا اورکنٹرول کرنے والا ہے اورجو نفس عاجزی اختیار کرلے اور مطیع ہوجائے ، وہ رحمت کی مستحق بن جاتی ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم!”
(حاشیۃ السندی علی النسائی : ٢/٣٢٨، تحت حدیث : ١١٣٩)
(ب)    علامہ عبدالرؤف المناوی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وفیہ أنّ مرافقۃ المصطفی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی الجنّۃ من الدرجات العالیۃ التی لا مطمع فی الوصول إلیہا إلّا بحضور الزلفی عند اللّٰہ فی الدنیا بکثرۃ السجود ، انظر أیّہا المتأمّل فی ہذہ الشریطۃ وارتباط القرینتین لتقف علی سرّ دقیق ، فإنّ من أراد مرافقۃ الرسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لا ینالہ إلّا بالقرب من اللّٰہ ، ومن رام قرب اللّٰہ لم ینلہ إلّا بقرب حبیبہ ۔ ”اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ان بلند درجات میں سے ایک درجہ ہے جن کو پانا کثرت ِ سجدہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیے بغیر ممکن ہی نہیں۔اے غوروفکر کرنے والے ! اس شرط اور دونوں قرینوں کے ربط کو دیکھ کہ تو پیچیدہ راز سے واقف ہوجائے۔ جو شخص رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رفاقت چاہتا ہے ، وہ اسے اللہ کے قرب کے بغیر نہیں پاسکتا اورجو شخص اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہے ، وہ اس کے حبیب   صلی اللہ علیہ وسلم  کے قرب کے بغیر اسے نہیں پاسکتا۔”
(فیض القدیر للمناوی : ٤/٤٤٠، ح : ٥٥٠٢)
جب سیدنا ربیعہ  رضی اللہ عنہ نے آپ   صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت میں رفاقت کے حوالے سے سفارش چاہی توآپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفارش میں کردیتا ہوں، اخلاص وعملِ صالح کے ساتھ ربّ تعالیٰ کا قرب آپ حاصل کرلیں توبات بن جائے گی۔
مفہوم باطل : جناب احمدرضا خان بریلوی صاحب اس حدیث پر ”دنیاوآخرت کی تمام نعمتیں حضور کے اختیار میں ہیں، جسے جوچاہیںعطاکریں” کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں : ”الحمدللہ یہ جلیل ونفیس حدیث صحیح اپنے ہرہر جملے سے وہابیت کُش ہے۔ حضور ِ اقدس خلیفہ اللہ الاعظم   صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلقاً ، بلا قید وبلاتخصیص ارشاد فرمانا ” سل ” مانگ ، کیا مانگتا ہے، جانِ وہابیت پرکیسا پہاڑ ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور ہرقسم کی حاجت روائی فرماسکتے ہیں۔ دنیا وآخرت کی سب مرادیں حضور کے اختیار میں ہیں۔ جب تو بلا تقیید ارشاد ہوا ، مانگ کیا مانگتا ہے، یعنی جو جی میں آئے مانگوکہ ہماری سرکار میں سب کچھ ہے۔”
(الامن والعلی از احمد رضا : ص ١٣١۔١٣٢)
قارئین کرام ! آپ حدیث کا بغور مطالعہ کریں اورجناب احمدرضاخان بریلوی صاحب نے جو غلو کی حدیں توڑی ہیں، وہ بھی ملاحظہ فرمائیں، پھربتائیں کہ حدیث سے کیا ثابت ہورہا ہے اور جناب بریلوی کیا فرمارہے ہیں؟ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ حق کیا ہے اورباطل کیا ہے؟
عقیدہ نمبر 2 :
1    سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : إنّ أبا طالب مرض ، فعادہ النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقال لہ : یا ابن أخی ! ادع إلہک الذی تعبد أن یعافینی ، فقال : (( اللّٰہم اشف عمّی )) ، فقام أبو طالب کأنّما نشط من عقال ، فقال لہ : یا ابن أخی ! إنّ إلہک الذی تعبد لیطیعک ، قال : (( وأنت یا عمّاہ ! لئن أطعت اللّٰہ لیطیعنّک )) ”ابوطالب بیمار ہوئے تو نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تیمارداری کی ۔ انہوں نے (نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے)کہا: بھتیجے! اپنے اس الہ سے دعا کر جس کی تو عبادت کرتا ہے کہ وہ مجھے عافیت دے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! میرے چچا کوشفاعطا فرما۔فوراً ابوطالب کھڑے ہوگئے گویا کہ ان کو رسی کھول کر اس سے آزاد کردیاگیا ہو۔ انہوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جس الہ کی تو عبادت کرتا ہے ، وہ تیری بات مانتا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے چچا جان !اگر آپ بھی اس اللہ کی اطاعت کریں گے تووہ آپ کی بات مانے گا۔”(المعجم الاوسط للطبرانی : ٣٩٧٣، فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل : ١١٥٢، الکامل لابن عدی : ٧/١٠٢، وفی نسخۃ : ٧/٢٥٦١، المستدرک للحاکم : ١/٥٤٢، دلائل النبوۃ للبیہقی : ٦/١٨٤)
تبصرہ : یہ روایت بالاتفاق ”ضعیف” ہے، کیونکہ اس کا ایک راوی ہیثم بن جمازالبکار باتفاقِ محدثین ”ضعیف” ہے۔اس کے بارے میں :
1    امام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعیف ۔ ”یہ ضعیف راوی ہے۔”(تاریخ یحیی بن معین بروایۃ العباس الدوری : ٣٤٠١)
2    امام ابوحاتم الرازی  رحمہ اللہ کہتے ہیں : ضعیف الحدیث منکر الحدیث ۔ ”اس کی حدیث ضعیف اورمنکر ہوتی ہے۔”(الجرح والتعدیل : ٩/٨١)
3    امام ابوزرعہ  رحمہ اللہ بھی ”ضعیف” قراردیتے ہیں۔
4    جوزجانی کہتے ہیں : کان قاصّا ضعیفا ، روی عن ثابت معاضیل ۔ ”ضعیف قصہ گو راوی تھا ۔ اس نے ثابت سے معضل (سخت منقطع)روایات بیان کی ہیں۔”(احوال الرجال للجوزجانی : ص ١٢٠)
5    امام نسائی  رحمہ اللہ نے ”متروک الحدیث” کہا ہے۔(الضعفاء للنسائی : ص ٢٤٥)
6    امام عقیلی   رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حدیثہ غیر محفوظ ۔
”اس کی حدیث محفوظ نہیں ہوتی۔”(الضعفاء الکبیر للعقیلی : ٤/٣٥٥)
7    امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : وللہیثم غیر ما ذکرت ، وأحادیثہ أفراد غرائب عن ثابت ، وفیہا ما لیس محفوظ ۔
” ہیثم کی مذکورہ روایات کے علاوہ بھی روایات ہیں۔ ثابت سے اس کی احادیث منکر اورغریب ہوتی ہیں اور ان میں غیرمحفوظ احادیث بھی موجودہیں۔”(الکامل لابن عدی : ٧/١٠٣)
اس کے علاوہ اس راوی پر بہت سی سخت جروح ثابت ہیں۔ اس کے حق میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔
جناب احمد رضاخان بریلوی اس حدیث کے شروع میں اپنا عقیدہ یوں بیان کرتے ہیں:
”حضور کا ربّ حضور کی اطاعت کرتا ہے۔ مسلمانو! ذرا دیکھنا کوئی وہابی ناپاک ادھر اُدھر ہوتو اُسے باہر کردو اورکوئی جھوٹا متصوف نصاریٰ کی طرح غلو وافراط والادبا چھپا ہوتو اُسے بھی دُور کرو اور تم عبدہ، ورسولہ، کی سچی معیا پر کانٹے کی تول مستقیم ہوکر یہ حدیث سنو۔”
(الامن والعلی از احمد رضا خان : ص ١٢٥)
کیا اس طرح کی سخت ترین ”ضعیف” حدیث ، جس کا راوی بالاتفاق”ضعیف” ہو ، سے ایسا عقیدہ ثابت کرنا اہل حق کوزیبا ہے؟ فیصلہ کریں کہ حق کیا ہے؟ نیز اس حدیث میں ایک اور بھی علت ِ قادحہ موجود ہے۔
2 : دوسری دلیل یہ دی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جب میں اپنے ربّ کودیکھوں گا تو اُس کے لیے سجدہئ شکر میں گر جاؤں گا۔ اس پرکہاجائے گا:
ارفع رأسک ، قل تطاع ، واشفع تشفّع ۔
اپنا سراُٹھاؤ اورکہو ، تمہاری اطاعت کی جائے گی اورشفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہوگی۔”(مجمع الزوائد للہیثمی : ١٠/٣٧٦)
تبصرہ : اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ”ضعیف” ہے۔ اسحاق بن یحییٰ نے عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔
حافظ مزی  رحمہ اللہ (تہذیب الکمال : ٢/٨٧)، حافظ ذہبی  رحمہ اللہ (العلو : ص ٥٣)، حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ (فتح الباری : ١٣/٤٦٨)فرماتے ہیں کہ کہ اسحاق بن یحییٰ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ  کازمانہ نہیں پایا۔ یہی بات امام دارقطنی  رحمہ اللہ (سنن الدارقطنی: ٣/١٧٦، ٤/٢٠٢) اورامام بیہقی  رحمہ اللہ (السنن الکبری للبیہقی : ٨/٧٤)اورحافظ ہیثمی   رحمہ اللہ (مجمع الزوائد : ١٠/٣٧٦) نے بھی کہی ہے۔
جناب ِ بریلوی صاحب کا اس حدیث سے یہ ثابت کرنا کہ :
”حضور کا رب حضور کی اطاعت کرتا ہے۔”(الامن والعلی : ١٢٥) صحیح نہ ہوا۔
3 : سیدنا حذیفہ بن یمان  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إنّ ربّی تبارک وتعالیٰ استشارنی فی أمّتی ، ما ذا أفعل بہم ؟ فقلت : یاربّ ! ہم خلقک وعبادک ، فاستشارنی الثانیۃ ، فقلت لہ کذالک ۔ ”میری امت کے باب میں مجھ سے مشورہ طلب فرمایا کہ میں ان کے ساتھ کیاکروں؟ میں نے عرض کیا کہ اے ربّ میرے جوتوچاہے کر کہ وہ تیری مخلوق اورتیرے بندے ہیں ۔ اس نے دوبارہ مجھ سے مشورہ پوچھا ۔ میں نے اب بھی وہی عرض کی۔”
(مسند الامام احمد : ٥/٣٩٣)
تبصرہ : اس کی سند سخت”ضعیف” ہے ، کیونکہ اس میں عبداللہ بن لہیعہ راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ، مدلس اورمختلط ہے۔ اس کے بارے میں حافظ نووی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : وہو ضعیف بالاتّفاق لاختلال ضبطہ ۔
”حافظہ خراب ہونے کی وجہ سے یہ بالاتفاق ضعیف راوی ہے۔”
(خلاصۃ الاحکام للنووی : ٢/٦٢٥)
حافظ ابن العراقی   رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عبداللہ بن لہیعۃ ضعیف عند الأکثر ۔ ”عبداللہ بن لہیعہ جمہور کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔”
(طرح التثریب لابن العراقی : ٦/٩٤)
حافظ سخاوی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہو ممّن ضعّفہ الأکثر ۔
”یہ ان راویوں میں سے ہے ، جن کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔”
(فتح المغیث للسخاوی : ٢٢١)
حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وابن لہیعۃ ضعّفہ الجمہور ۔
”اورابنِ لہیعہ کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔” (مجمع الزوائد : ١٠/٣٧٥، ٧/١٣)
نیز فرماتے ہیں کہ یہ ”ضعیف ”راوی ہے۔(مجمع الزوائد : ١/١٢٩)
اسے حافظ ذہبی  رحمہ اللہ (المغنی : ١/٥٦١)اورحافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ (تغلیق التعلیق : ٣/٢٣٩)نے بھی ”ضعیف” قرار دیا ہے۔
حسن بن موسیٰ ان لوگوں میں سے نہیں ، جنہوں نے اس سے اختلاط سے پہلے سنا ہے ، لہٰذا یہ جرح مفسر ہے ۔
اس روایت کے شروع کے الفاظ ہیں: غاب عنّا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یوما ، فلم یخرج ، حتّی ظننّا أن لن یخرج ۔
”آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہم سے ایک دِن غائب ہوئے ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف نہیں لائے حتی کہ ہمیں یہ گمان ہوا کہ اب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  باہر تشریف نہیں لائیں گے۔”
ان الفاظ سے مسئلہ حاضر وناضر کی نفی ہوتی ہے۔
فائدہ : عوف بن مالک  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنّ ربّی استشارنی فی أمّتی ۔ ”میرے ربّ نے میری امت کے بارے میں مجھ سے مشورہ کیا۔”(کتاب التوحید لابن خزیمۃ : ٢/٦٤٠، ح : ٣٨٤)
یہ روایت بھی بلحاظ ِ سند ”ضعیف” ہے۔ اس کاراوی حجاج بن رشدین مصری جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔ امام ابوزرعہ الرازی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا علم لی بہ ، لم أکتب عن أحد عنہ ۔ ”مجھے اس کے بارے کوئی علم نہیں۔ میں نے کسی سے بھی اس کی روایت نہیں لی۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٣/١٦٠)
امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف” قرار دیا ہے۔(الکامل لابن عدی : ٢/٢٣٤)
امام خلیلی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہو أمثل منہ (من أبیہ) ۔
”یہ اپنے باپ سے عمدہ ہے۔”(الارشاد للخلیلی : ١/٢٥٨)
حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ کہتے ہیں : وہو ضعیف ۔ ”اور یہ ضعیف راوی ہے۔”(مجمع الزوائد : ٢/١٤١)
امام ابوعوانہ  رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح” میں ذکر کیا اور امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ نے الثقات (٨/٩٥) میں ذکرکیا ہے ۔ اس کا ضعف ہی راجح ہے۔واللہ اعلم !
قارئین کرام ! یہ وہ روایات تھیں ، جن کی بنا پر بعض لوگوں نے اپنے باطل عقائد کی بنیاد ڈالی۔ ان کے ”ضعیف” ثابت ہوجانے کے بعد ان کے عقائد خود بخود”ضعیف” ہوگئے ۔ اس کے باوجود احمدرضاخان بریلوی صاحب لکھتے ہیں :
”بحمداللہ یہی معنیٰ ہیں اس حدیث کے کہ رب العزۃ روز ِ قیامت حضرت رسالت علیہ افضل الصلاۃ والتحیۃ سے مجمع اوّلین وآخرین میں فرمائے گا کلّہم یطلبون رضائی وأنا أطلب رضائک یامحمّد ! یہ سب میری رضا چاہتے ہیں اور میں تیری رضا چاہتا ہوں ۔ اے محمد! میں نے اپنا ملک عرش سے فرش تک سب تجھ پر قربان کردیا۔ صلی اللہ تعالیٰ علیک وعلی آلک وبارک وسلم۔ اے مسلمان ، اے سنی بھائی ! مصطفی   صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ ارفع کی خدائی آفتاب وماہتاب پران کاحکم جاری ہونا کیا بات ہے ، آفتاب طلوع نہیں کرتا جب تک ان کے نائب ، ان کے وارث ، ان کے فرزند ، ان کے دل بند ، غوث الثقلین ، غیث الکونین ، حضور ِ پرنور ، سیدنا ومولانا امام ابومحمد شیخ عبدالقادر جیلانی  رضی اللہ عنہ پرسلام عرض نہ کرلے۔”(الامن والعلی از بریلوی : ص ١٢٧۔١٢٨)
جناب بریلوی صاحب نے جہالت وضلالت اورغلو کی انتہا کری ہے۔
مسلمانو ! امام حسن بصری  رحمہ اللہ کی نصیحت سن لیں۔ آپ   رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وضع دین اللّٰہ دون الغلوّ وفوق التقصیر ۔ ”اللہ تعالیٰ کادین (اسلام) غلو سے نیچے اورتقصیر سے اوپر رکھا گیاہے۔”(الزہد لاحمد بن حنبل : ١٦٤٣، وسندہ، صحیحٌ)
عقیدہ نمبر 3 :
دلیل نمبر 1 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إنّی لأستحیی من اللّٰہ أن یکون ذنب أعظم من غفری ، أو جہل أعظم من حلمی ، أو عورۃ لا یواریہا ستری ، أو خلّۃ لا یسدہا جودی ۔
”بے شک اللہ عزوجل سے شرم آتی ہے کہ کسی کاگناہ میری صفت ِ مغفرت سے بڑھ جائے۔ وہ گناہ کرے اورمیری مغفرت اس کی بخشش میں تنگی کرے کہ میں نہ بخش سکوں یا کسی کی جہالت میرے علم سے زائد ہوجائے کہ وہ جہل سے پیش آئے اور میں حلم سے کام نہ لے سکوں یاکسی عیب ، کسی شرم کی بات کو میراپردہ نہ چھپائے یا کسی حاجت مندی کو میرا کرم بند نہ فرمائے۔”
(تاریخ بغداد للخطیب : ١/٣٨١، تاریخ ابن عساکر : ٤٢/٥١٧)
تبصرہ : (ا) یہ روایت موضوع(جھوٹ کا پلندا)ہے۔ اس کا راوی ہیثم بن عدی بالاتفاق کذاب (پرلے درجے کا جھوٹا) اور”متروک الحدیث” اور”مدلس ”ہے۔
امام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لیس بثقۃ ، کان یکذب ۔
”یہ ثقہ نہیں تھا۔ جھوٹ بولا کرتا تھا۔”(تاریخ یحیی بن معین : ١٧٦٧)
امام عجلی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کذاب ، وقد رأیتہ ۔ ” یہ جھوٹا ہے۔ میں نے اسے دیکھا ہے۔”(تاریخ العجلی : ٤٦٢)
امام ابوحاتم الرازی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : متروک الحدیث ، محلّہ محلّ الواقدیّ ۔ ”یہ متروک الحدیث راوی ہے ۔ اس کا درجہ واقدی(کذاب) والا درجہ ہے۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٩/٨٥)
امام نسائی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : متروک الحدیث ۔ ” یہ متروک الحدیث راوی ہے۔”(الضعفاء والمتروکون للنسائی : ٦٣٧)
امام جوزجانی فرماتے ہیں : ساقط ۔ ”یہ سخت ضعیف راوی ہے۔”(احوال الرجال للجوزجانی : ٣٦٨)
امام ابوزرعہ الرازی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لیس بشیء ۔ ”یہ کچھ بھی نہیں تھا۔”(تاریخ ابی زرعۃ : ٣/٤٣١)
اما یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں : کانت لہ معرفۃ بأمور الناس وأخبارہم ، ولم یکن فی الحدیث بالقویّ ، ولا کانت لہ بہ معرفۃ ، وبعض الناس یحمل علیہ فی صدقہ ۔ ”اس کو لوگوں کے معاملات اور ان کی تاریخ کی معرفت تھی ۔ حدیث میں قوی نہیں تھا ، نہ ہی اسے حدیث سے کوئی معرفت تھی ۔ بعض محدثین اس کی سچائی پر بھی جرح کرتے ہیں۔”(تاریخ بغداد للخطیب : ١٤/٥٣، وسندہ، صحیحٌ)
امام بخاری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : سکتوا عنہ ۔ ”محدثین نے اس کی روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔”(کتاب الضعفاء للبخاری : ٣٩٩)
اس کے علاوہ اس پر بہت سی جروح ہیں ۔ ایک بھی توثیق ثابت نہیں۔
(ب)    اس روایت کادوسرا راوی مجالد بن سعید جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف” اور”سییء الحفظ ” ہے۔
حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وہو ضعیف عند الجمہور ۔
”مجالد بن سعید جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔”
(مجمع الزوائد للہیثمی : ٦/٦٦، ٧/٣٤٧، ٥/٣٢، ٩/٩٨)
حافظ عراقی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعّفہ الجمہور ۔ ”اسے جمہور نے ضعیف قراردیاہے۔”(فیخ القدیر للمناوی : ٦/١٣، ح : ٨٢٤٧)
ابن العراقی کہتے ہیں : قد ضعّفہ الجمہور ، وقد اختلط آخیرا ۔
”اسے جمہور نے ضعیف قراردیا ہے اور یہ آخرعمر میں مختلط ہوگیاتھا۔”
(طرح التثریب لابن العراقی : ٢/٣٤٨)
علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں : ضعّفہ الجمہور ۔ ”اسے جمہور نے ضعیف قراردیا ہے۔”(عمدۃ القاری : تحت حدیث : ٩٣٤)
دلیل نمبر 2 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ما أدری أیّ النعمتین أعظم علیّ منّۃ من ربی ، رجل بذل مصاص وجہہ إلیّ ، فرآنی موضعا لحاجتہ ، وأجری اللّٰہ قضاء ہا ، أو یسّرہ علی یدی ، ولأن أقضی لامرء مسلم حاجۃ أحبّ إلیّ من ملء الأرض ذہبا وفضۃ ۔
”بے شک میں نہیں جانتا کہ ان دونعمتوں میں کونسی مجھ پرزیادہ ہے: احسان ہے کہ ایک شخص میری سرکار کو اپنی حاجت روائی کا محل جان کر اپنا معزز منہ میرے سامنے لائے اور اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کاروا ہونا اس کی آسانی میرے ہاتھ پررواں فرمائے ۔ یہ تمام روئے زمین بھر کر سونا چاندی ملنے سے مجھے زیادہ محبوب ہے کہ میں کسی مسلمان کی حاجت روا فرما دوں۔”
(قضاء الحوائج للنرسی بحوالہ کنز العمال : ١٧٠٦٩)
تبصرہ : یہ بے سندروایت مردودوباطل ہے۔
ان دوجھوٹی روایات کو بنیاد بنا کر ”اعلیٰ حضرت” اپناعقیدہ یوں بیان کررہے ہیں:
”وہابیہ کے نزدیک مولیٰ علی خدائی بول بول رہے ہیں۔ اپنے آپ کو غفار ،ستار ، قاضی الحاجات بتارہے ہیں۔ وہابیو! دیکھا تم نے محبوبانِ خدا کا احسان ، اُن کاغفران ، اُن کی حاجت برآری ، ان کی شانِ ستاری۔”(الامن والعلی از احمد رضا : ص ٢٢٢۔٢٢٣)
قارئین یہ ہے عقیدہ اوریہ ہے اس کی بنیاد ۔ آپ سے صرف انصاف کی اپیل ہے!
4    سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد ِ ہوازن سے فرمایا : إذا صلّیتم فقولوا : إنّا نستعین برسول اللّٰہ علی المؤمنین والمسلمین فی نسائنا وأبنائنا ۔ جب ظہر کی نماز پڑھ چکو تو کھڑے ہونا اوریوں کہنا : ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے استعانت طلب کرتے ہیںمؤمنین پر، اپنی عورتوں اوربچوں کے باب میں۔”(سنن النسائی : ٣٧١٨)
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف” ہے ۔ اس میں محمد بن اسحاق راوی مدلس ہے۔ ثقہ مدلس جب بخاری ومسلم کے علاوہ عن سے روایت کرے تو ”ضعیف” ہوتی ہے۔
جناب احمدرضا خان بریلوی اس ”ضعیف” حدیث پراپنے باطل عقیدے کی بنیاد یوں ڈالتے ہیں: ”حدیث فرماتی ہے ، سیدعالم   صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس تعلیم فرمائی کہ مجھ سے مدد چاہنا ۔ نماز کے بعد یوں کہنا کہ ہم رسول   صلی اللہ علیہ وسلم سے استعانت کرتے ہیں۔”
(الامن والعلی از احمد رضا : ١٢١)
اس حدیث کے صحیح الفاظ یہ ہیں: فإذا صلّیت للناس الظہر ، فقوموا ، فقولوا : إنّا نستشفع برسول اللّٰہ إلی المسلمین وبالمسلمین إلی رسول اللّٰہ فی أبنائنا ونسائنا ۔ ”جب لوگوں کوظہر کی نماز پڑھا دی جائے تو تم کھڑے ہوجاؤ اورکہو: ہم اپنے بیٹوں اور اپنی بیویوں کے بارے میں مسلمانوں کی طرف اللہ کے رسول کی سفارش لاتے ہیں اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مسلمانوں کی سفارش لاتے ہیں۔”
(مسند الامام احمد : ٢/٢١٨، وسندہ، حسنٌ)
عقیدہ نمبر 4 :
(ا)    سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
علیّ قسیم النار ، یدخل أولیاہ الجنّۃ ، وأعداء ہ النار ۔
”علی جہنم تقسیم کرنے والے ہیں۔ ان کے دوست جنت میں اور ان کے دشمن جہنم میں جائیںگے۔”(العلل للدارقطنی : ٦/٢٧٣)
تبصرہ : یہ روایت ”ضعیف وباطل” ہے ۔ خود امام دارقطنی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہذا الحدیث باطل بہذا الإسناد ، ومن دون عبید اللّٰہ ضعفاء ، والقبلی ضعیف جدّا ۔”عبیداللہ کے نیچے تمام راوی ضعیف ہیں۔ اورقبلی سخت ضعیف راوی ہے۔”
(ب)    سیدنا علی رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں : أنا قسیم النار ، إذا کان یوم القیامۃ قلت : ہذا لک ، وہذا لی ۔ ”میں جہنم کا قسیم ہوں ۔ جب قیامت کادِن ہوگا تومیں کہوں گا: (اے جہنم!)یہ تیرے لیے اوریہ میرے لیے ہے۔”
(المعرفۃ والتاریخ للفسوی : ٢/٧٦٤، الکامل لابن عدی : ٦/٣٣٩، الضعفاء الکبیر للعقیلی : ٣/٣١٥، ٤/١٥٨، العلل المتناہیۃ لابن الجوزی : ٢/٩٤٥، ح : ١٥٧٦)
تبصرہ : یہ روایت باطل ہے۔ اس کاراوی موسیٰ بن طریف الاسدی سخت ترین مجروح ہے۔ امام یحییٰ بن معین   رحمہ اللہ اسے ”ضعیف” قرار دیتے ہیں ۔
(تاریخ یحیی بن معین : ١٧٥٤)
امام ابوزرعہ  رحمہ اللہ نے بھی ”ضعیف” کہا ہے۔(تاریخ ابی زرعۃ : ٢/٦١٢)
امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کان ممّن یأتی بالمناکیر التی لا أصول لہا عن أبیہ عن أقوام مشاہیر ۔ ”یہ ان لوگوں میں سے تھا ، جو منکر روایات بیان کرتے تھے ۔ یہ اپنے والد کے واسطے سے مشہور ائمہ سے بے سروپا روایات بیان کرتا تھا۔”(المجروحین لابن حبان : ٢/٢٣٨)
امام دارقطنی  رحمہ اللہ نے اسے ”متروک” قراردیا ہے۔(الضعفاء للدارقطنی : ٥٢٠)
امام ابنِ عدی(الکامل : ٦/٣٣٩)اور امام جوزجانی (احوال الرجال : ص ٤٩) نے اسے زائغ کہا ہے ۔ امام عقیلی   رحمہ اللہ نے اسے ”غالی ملحد” قراردیا ہے۔(الضعفاء الکبیر : ٣/٤١٥)
امام ابومعاویہ الضریر کہتے ہیں : قلنا للأعمش : لا تحدّث بہذہ الأحادیث ۔ قال : یسألونی ، فما أصنع ، ربما سہوت ، فإذا سألونی عن شیء من ہذا فسہوت ، فذکّرونی ، قال : فکنّا یوماً عندہ ، فجاء رجل ، فسألہ عن حدیث : أنا قسیم النار ، قال : فتنحنحت ، قال : فقال الأعمش : ہؤلاء المرجئۃ لا یدعونی ، أحدّث بفضائل علیّ ، أخرجوہم من المسجد حتّی أحدثکم ۔ ”ہم نے اعمش سے کہا کہ یہ احادیث بیان نہ کریں۔ انہوں نے کہا : وہ مجھ سے پوچھ لیتے ہیں تو میں کیاکروں؟ بسااوقات میں بھول جاتا ہوں۔ جب وہ مجھ سے کسی چیز کے بارے پوچھیں اور میں بھول جاؤں تو تم مجھے یادکروا دینا۔ ہم ایک دن ان کے پاس تھے کہ ایک آدمی آیا، اس نے ان سے أنا قسیم النار والی روایت کے بارے میں پوچھا ۔ میں نے اشارہ کیا۔ امام اعمش نے فرمایا : یہ مرجی لوگ مجھے نہیں چھوڑتے کہ میں سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں احادیث بیان کروں۔ ان کو مسجد سے نکالو تاکہ میں تمہیں احادیث بیان کروں۔”
(المعرفۃ والتاریخ للفسوی : ٢/٧٦٤، وسندہ، صحیحٌ)
فائدہ : عبایۃ بن ربعی کہتا ہے کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ  کوفرماتے ہوئے سنا :
أنا قسیم النار ۔ اس قول کی سند بھی باطل ہے۔ عبایۃ بن ربعی راوی متکلم فیہ ہے۔ امام عقلی  رحمہ اللہ نے اسے ”غالی ملحد” قرار دیا ہے۔(الضعفاء الکبیر للعقیلی : ٣/٤١٥)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے موسیٰ بن طریف اورعبایہ بن ربعی دونوں کو غالی شیعہ قراردیا ہے۔
(میزان الاعتدال للذہبی : ٢/٣٨٧)
امام ابوحاتم الرازی  رحمہ اللہ کہتے ہیں : کان من عتق الشیعۃ ، قلت : ما حالہ ؟ قال : شیخ ۔ ”یہ پرانے شیعوں میں سے تھا۔ میں نے عرض کیا : اس کی حالت کیسی تھی ؟ فرمایا : شیخ تھا۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٧/٢٩)
اس روایت کادوسرا راوی قیس بن الربیع جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔
حافظ عراقی  رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : ضعّفہ الجمہور ۔
”اسے جمہور نے ضعیف قراردیا ہے۔”
(المغنی عن حمل الاسفار للعراقی : ٤/٧٠، فیض القدیر للمناوی : ٣/٩٢)
حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعّفہ الناس ۔ ”اسے لوگوں نے ضعیف قراردیاہے۔”(مجمع الزوائد : ٢/١٩٠)
ان باطل روایات پر احمدرضاخان بریلوی اپنے باطل عقائد کی بنیاد ڈال کرلکھتے ہیں :
”مولیٰ علی قسیم النار ہیں۔ ملاجی ذرا انصاف کی کنجی سے دیدہئ عقل کے کواڑ کھول کر یہ کنجیاں دیکھیے تو مالک الملک ، شہنشاہِ قدیر جل جلالہ نے اپنے نائب ِ اکبر ، خلیفہ اعظم   صلی اللہ علیہ وسلم  کو عطا فرمائی ہیں ۔ خزانوں کی کنجیاں ، زمین کی کنجیا

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.