429

مسلک اہل حدیث اور فہم سلف صالحین

اہل حدیث ہی اہل سنت ، اہل حق اور سواد ِ اعظم ہیں ۔ یہ عقائد واعمال میں سلف صالحین کے پیروکار ہیں ، شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ  (٦٦١۔٧٢٨ھ)فرماتے ہیں :
وبہذا یتبیّن أنّ أحقّ الناس بأن تکون ہی الفرقۃ الناجیۃ أہل الحدیث والسنّۃ ، الذین لیس لہم متبوع یتعصّبون لہ إلّا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وہم أعلم الناس بأقوالہ وأحوالہ ، وأعظمہم تمییزا بین صحیحہا وسقیمہا ، وأئمّتہم فقہاء فیہا وأہل معرفۃ بمعانیہا وأتباعا لہا تصدیقا وعملا وحبّا ، ومــــوالاۃ لمن والاہا ، ومعاداۃ لمن عاداہا ، الذین یروون المقالات المجملۃ إلی ما جاء بہ من الکتاب والحکمۃ ، فلا ینصبون مقالۃ ویجعلونہا من أصول دینہم ، وجمل کلامہم إن لم تکن ثابتۃ فیما جاء بہ الرسول ، بل یجعلون ما بعث بہ الرسول من الکتاب والحکمۃ ہو الأصل الذی یعتقدونہ ویعتمدونہ ۔۔۔ ”ان ساری باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ سب لوگوں میں سے فرقہ ناجیہ (نجات پانے والا فرقہ)ہونے کے زیادہ حق دار اہل حدیث وسنت ہیں ، جن کا سوائے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی ایسا متبوع نہیں ، جس کے لیے وہ مسلکی غیرت رکھتے ہوں۔ یہ اہل حدیث وسنت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اورحالات کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والے ہیں ، نیز احادیث ِ نبویہq میں سے صحیح وضعیف کی زیادہ پہچان رکھنے والے ہیں ۔ ان کے ائمہ فقہائے حدیث ہیں اور احادیث کے معانی کی معرفت رکھنے والے ہیں ، نیز ان احادیث کی تصدیق وعمل اورمحبت کے اعتبار سے پیروی کرنے والے ہیں ، وہ احادیث سے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھتے اور ان سے عداوت رکھنے والوں سے دشمنی کرتے ہیں ۔ یہ لوگ(بزرگوں کے) مجمل مقالات کو کتاب وسنت پر پیش کرتے ہیں ، اگر کوئی قول کتاب وسنت سے ثابت نہ ہوتو وہ اس قول کو اپنا نصب العین اوراپنا اصولِ دین نہیں بناتے ، بلکہ وہ اسی کتاب وسنت کو اپنا عقیدہ بناتے ہیں اور اس پر اعتماد کرتے ہیں ، جسے دے کر رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے ہیں۔”
(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٣/٣٤٧)
امام آجری رحمہ اللہ (م ٣٦٠ھ)فرماتے ہیں : علامۃ من أراد اللّٰہ عزّ وجلّ بہ خیراً سلوک ہذہ الطریق ، کتاب اللّٰہ عزّ وجلّ وسنن رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وسنن أصحابہ رضی اللّٰہ عنہم ومن تبعہم بإحسان رحمۃ اللّٰہ تعالی علیہم ، وما کان علیہ أئمّۃ المسلمین فی کلّ بلد إلی آخر ما کان من العلماء ، مثل الأوزاعی وسفیان الثوری ومالک بن أنس والشافعی وأحمد بن حنبل والقاسم بن سلام ، ومن کان علی مثل طریقہم ، ومجانبۃ کلّ مذہب لا یذہب إلیہ ہؤلاء العلماء ۔۔۔ ”جن لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے ، ان کی علامت اس راستے پر چلنا ہے ، وہ راستہ کتاب اللہ ، سنت ِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ، آثار ِ صحابہ ] وتابعین رحمہم اللہ  ، نیز ہر علاقے کے ائمہ مسلمین اور اب تک کے علمائے کرام ، مثلاً امام اوزاعی ، امام سفیان ثوری ، امام مالک بن انس ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، امام قاسم بن سلام  رحمہم اللہ  اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے علمائے کرام کا راستہ اختیار کرنا اور ہر اس مذہب سے بچنا ، جس کو مذکورہ علمائے کرام نے اختیار نہیں کیا۔”
(الشریعۃ للآجری : ص ١٤، طبع دار الکتب العلمیۃ)
سنت سے کیا مراد ہے ؟
علامہ ابنِ رجب رحمہ اللہ سنت کی تعریف میں فرماتے ہیں :
الطریق المسلوک ، فیشمل التمسّک بما کان علیہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ہو وخلفائہ الراشدون من الاعتقادات والأعمال والأقوال ، وہذہ ہی السنّۃ الکاملۃ ، ولھذا کان السلف قدیما لا یطلقون اسم السنّۃ إلّا علی ما یشمل ذلک کلّہ ۔ ”سنت طریقہئ مسلوکہ کو کہتے ہیں ، یہ ان عقائد واعمال اوراقوال کا نام ہے ، جس پر نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ کے خلفائے راشدین کاربند رہے ۔ یہی سنت ِ کاملہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ سلف ، سنت کا نام اسی چیز پر بولتے تھے ، جو ان سب چیزوں کو شامل ہوتاتھا۔”(جامع العلوم والحکم لابن رجب : ص ٢٨٦)
اہل سنت کون؟
امام سجزی رحمہ اللہ (م ٤٤٤ھ)لکھتے ہیں :
”اہل سنت اس اعتقاد پر قائم ہیں ، جسے ان کی طرف سلف صالحین نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نقل کیا ہے یا جس چیز میں کتاب وسنت کی نص نہیں ملی ، اس میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام ] سے نقل کیا ہے ، کیونکہ صحابہ کرام ائمہ تھے ، ہمیں ان کے آثار اور ان کی سنت کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے ۔ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں ، اسی طرح سنت کو لازم پکڑنا اور اس پر اعتقاد رکھنا ان چیزوں میں سے ہے ، جن کے وجوب میں کوئی شک وشبہ نہیں۔”
(الرد علی من انکر الحروف والصوت للسجزی : ص ٩)
حافظ ابن الجوزی  رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٩٧ھ)اہل سنت کی تعریف میں لکھتے ہیں :
”اگر کوئی سوال کرنے والا یہ سوال کرے کہ سنت ممدوح اور بدعت مذموم ہے ، لیکن سنت اوربدعت ہے کیا ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر بدعتی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اہل سنت میں سے ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سنت لغوی طورپر راستے کو کہتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اہل نقل واثر جو کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث اور صحابہ کرام ] کے آثار کی پیروی کرنے والے ہیں ، وہی اہل سنت ہیں ، کیونکہ وہ اس راستے پر ہیں، جس میں کوئی بدعت داخل نہیں ہوئی ۔ بدعات تو رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام ] کے بعد رونما ہوئی ہیں ۔”
(تلبیس ابلیس لابن الجوزی : ١/١٣٥۔١٣٦)
واضح رہے کہ اہل سنت کی اصطلاح کا اطلاق دوطرح سے ہوتا ہے ، عام اورخاص ۔ عام اطلاق سے مراد جو بھی شیعہ کے مقابلے میں ہوگا ، وہ سنی کہلوائے گا ، خواہ وہ بدعتی ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فلفظ السنّۃ یراد بہ من أثبت خلافۃ الخلفاء الثلاثۃ ، فیدخل فی ذلک جمیع الطوائف إلّا الرافضۃ ۔ ”(اہل)سنت کے لفظ سے مراد ، وہ لوگ ہیں ، جو خلفائے ثلاثہ (سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنیy)کی خلافت کا اثبات کرتا ہے ، چنانچہ اس میں رافضیوں کے علاوہ باقی سارے گروہ داخل ہوںگے۔”
(منھاج السنۃ لابن تیمیۃ : ٢/٢٢١)
خاص اطلاق سے مراد ہروہ شخص ہے ، جو اہل بدعت ، یعنی شیعہ ، خوارج ، جہمیہ ، معتزلہ ، مرجئہ اوراشاعرہ وغیرہ کے مقابلے میں ہو، جیسا کہ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقد یراد بہ أہل الحدیث والسنّۃ المحضۃ ، فلا یدخل فیہ إلّا من أثبت الصفات للّٰہ تعالیٰ ، ویقول : إنّ القرآن غیر مخلوق وإنّ اللّٰہ یری فی الآخرۃ ، ویثبت القدر ، وغیر ذلک من الأصول المعروفۃ عند أہل الحدیث والسنّۃ ۔
”بسااوقات اہل سنت سے مرادخاص اہل الحدیث والسنہ مراد ہوتے ہیں ، چنانچہ اس وقت اس میں صرف وہی لوگ داخل ہوں گے ، جو صفات ِ باری تعالیٰ کا اثبات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآنِ کریم مخلوق نہیں ، نیز آخرت میں (مؤمنوں کو)اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا ، اس کے علاوہ دیگر ان اصولوں کو بھی تسلیم کرتے ہیں ، جواہل الحدیث والسنہ کے ہاں معروف ہیں۔”
(منہاح السنۃ لابن تیمیۃ : ٢/٢٢١)
لہٰذا موجودہ دور کے بعض نام نہاد اہل سنت ، جو صرف سات صفات ِ باری تعالیٰ کا اثبات کرتے ہیں ، وہ اہل سنت نہیں ہیں ۔ وہ سات صفات یہ ہیں : السمع ، البصر ، العلم ، الکلام ، القدرۃ ، الارادۃ ، الحیاۃ باقی سب صفات میں یہ لوگ تاویل کرتے ہیں ۔ یہ عقائد میں ،خصوصاً صفات ِ باری تعالیٰ کے حوالے سے معتزلہ ، مرجئہ اوراشاعرہ کے مذہب پر ہیں اور اہل سنت و سلف صالحین کے مذہب سے منحرف ہیں جیسا کہ :
خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی صاحب (م١٣٤٦ھ)لکھتے ہیں :
”ہمارے متاخرین اماموں نے ان آیات میں جوصحیح اورلغت وشرع کے اعتبار سے جائز تاویلیں فرمائی ہیں تاکہ کم فہم سمجھ لیں ، مثلاً یہ کہ ممکن ہے کہ استواء سے مراد غلبہ ہو اورہاتھ سے مراد قدرت تویہ بھی ہمارے نزدیک حق ہے۔”(المھند علی المفند : ص ٤٨)
جبکہ سلف صالحین کے نزدیک یہ باطل ہے،ایسوں کے بارے میں شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”جس نے قرآن یاحدیث کی تفسیر کرتے ہوئے صحابہ وتابعین کی تفسیر کے خلاف کوئی تاویل کی ، وہ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنے والا ، اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد سے کام لینے والا اور اللہ تعالیٰ کے کلمات میں تحریف کرنے والا ہے۔ ایسا کرنا بے دینی والحاد کے دروازے کو کھولنے کے مترادف ہے اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کے دین اسلام میں واضح طورپر باطل ہے۔”(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ١٣/٢٤٣)
ہمارے دور کے بدعتی اپنے تئیں اہل سنت کہتے نہیں تھکتے ، جبکہ وہ عقائد واعمال میں سلف صالحین کے سخت مخالف ہیں ، علامہ شاطبی  رحمہ اللہ (م ٧٩٠)لکھتے ہیں : فلیکن اعتقادک أنّ الحقّ مع السواد الأعظم من المجتہدین لا من المقلّدین ۔
”آپ کا اعتقاد یہ ہونا چاہیے کہ حق مجتہدین کے سواد ِ اعظم کے ساتھ ہے ، مقلدین کے ساتھ نہیں۔”(الموافقات للشاطبی : ٤/١٧٣)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.