1,110

میت کو غسل دینے والے پر غسل، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

شرعی دلائل کی رُو سے میت کو غسل دینے والے شخص پر غسل واجب نہیں بلکہ مندوب و مستحب ہے۔اسی طرح میت کی چارپائی اٹھانے والے شخص پر بھی وضو واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ فہم سلف اسی بات کا مؤید ہے۔جیسا کہ حافظ خطابیa(388ھ) فرماتے ہیں:
لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِّنَ الْفُقَہَاءِ یُوجِبُ الِاغْتِسَالَ مِنْ غُسْلِ الْمَیِّتِ، وَلَا الْوُضُوءَ مِنْ حَمْلِہٖ، وَیُشْبِہُ أَنْ یَّکُونَ الْـأَمْرُ فِي ذٰلِکَ عَلَی الِاسْتِحْبَابِ .
”میں فقہائے کرام میں سے کسی ایک بھی ایسے فقیہ سے واقف نہیں جو میت کو غسل دینے والے شخص پر غسل کو اور اسے کندھا دینے والے شخص پر وضو کو واجب قرار دیتا ہو۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس بارے میں (احادیث میں وارد) حکم استحباب پر محمول ہے۔”
(معالم السنن : 305/3)
یعنی اس مسئلہ میں جتنی بھی احادیث وارد ہیں، ان کے بارے میں سلف ، یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کا فیصلہ ہے کہ وہ ساری کی ساری استحباب پر محمول ہیں۔
آئیے یہ احادیث اور ان کے بارے میں فہم سلف ملاحظہ فرمائیں:
1 سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہeنے فرمایا:
‘مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ، وَمَنْ حَمَلَہ، فَلْیَتَوَضَّأْ’
”جو شخص میت کو غسل دے ، وہ خود بھی غسل کرے اور جو میت کو کندھا دے ، وہ وضو کرے۔”(سنن الترمذي : 933، وقال : حسنٌ، سنن ابن ماجہ : 1463، السنن الکبرٰی للبیہقي : 301/10، وصحّحہ ابن حبان : 1161، وسندہ، حسنٌ)
اس کے راوی سہیل بن ابی صالح کے متعلق حافظ منذریa(656ھ)لکھتے ہیں:
وَثَّقَہُ الْجُمْہُورُ . ”اسے جمہور محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے۔”
(الترغیب والترھیب : 110/3)
حافظ ذہبیaنے بھی اسے ”ثقہ” قرار دیا ہے۔(المغني في الضعفاء : 455/1)
نیز فرماتے ہیں: وَثَّقَہُ نَاسٌ . ”اسے بہت سے لوگوں نے ثقہ قرار دیا ہے۔”(الکاشف في معرفۃ من لہ روایۃ في الکتب الستّۃ : 327/2)
2 سیدنا ابوہریرہt ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہeنے فرمایا :
‘مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ، وَمَنْ حَمَلَہ، فَلْیَتَوَضَّأْ’
”جو شخص میت کو غسل دے ، وہ خود بھی غسل کرے اور جو میت کو کندھا دے ، وہ وضو کرے۔”(مصنف ابن أبي شیبۃ : 269/3، مسند الإمام أحمد : 433/2، 454، مسند الطیالسي : 305/2، الجعدیات لأبي القاسم البغوي : 987,986/2، وسندہ، حسنٌ)
مسند طیالسی وغیرہ میں یہ الفاظ بھی ہیں: وَمَنْ حَمَلَ جَنَازَۃً فَلْیَتَوَضَّأْ .
”جو شخص جنازے کو اٹھائے ، وہ وضو کرے۔”
صالح مولی التوأمہ ، یعنی صالح بن نبہان مدنی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ثقہ” ہے۔اس پر جرح اس وقت پر محمول ہے جب وہ اختلاط کا شکار ہو گیا تھا۔
امام علی بن مدینی(سؤالات محمد بن عثمان، ص : 87,86)، امام یحییٰ بن معین(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 56/4، وسندہ، حسنٌ)،حافظ جوزجانی(الشجرۃ في أحوال الرجال، ص : 144) اور امام ابن عدیS (الکامل : 58/4)کا کہنا ہے کہ ابن ابی ذئب نے صالح مولی التوأمہ سے اختلاط سے پہلے سماع کیا ہے۔
حافظ ابن حجرعسقلانیa(852-773)لکھتے ہیں: وَقَدِ اتَّفَقُوا عَلٰی أَنَّ الثِّقَۃَ إِذَا تُمُیِّزَ مَا حَدَّثَ بِہٖ قَبْلَ اخْتِلَاطِہٖ مِمَّا بَعْدَہ،، قُبِلَ .
”محدثین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ثقہ(مختلط)راوی کی اختلاط سے پہلے بیان کی ہوئی روایات اس وقت قابل قبول ہو جاتی ہیں جب وہ بعد والی روایات سے ممتاز ہو جائیں۔”(نتائج الأفکار : 268/2)
حافظ موصوف مذکورہ حدیث کے بارے میں خلاصۃًفرماتے ہیں :
وَفِي الْجُمْلَۃِ ہُوَ بِکَثْرَۃِ طُرُقِہٖ أَسْوَأُ حَالِہٖ أَنْ یَّکُونَ حَسَنًا .
”الحاصل یہ حدیث اپنی بہت سی سندوں کے ساتھ کم از کم حسن ہے۔”
(التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الکبیر : 137/1، ح : 182)
3 سیدنا ابوہریرہt کا فرمان ہے: [مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ، وَمَنْ حَمَلَہ، فَلْیَتَوَضَّأْ] ”جو شخص میت کو غسل دے ، وہ خود بھی غسل کرے اور جو میت کو کندھا دے ، وہ وضو کرے۔”(مصنف ابن أبي شیبۃ : 269/3، السنن الکبرٰی للبیہقي : 302/1، وسندہ، حسنٌ)
سنن کبریٰ بیہقی میں یہ الفاظ زائد ہیں: [وَمَنْ مَّشٰی مَعَہَا فَلَا یَجْلِسْ حَتّٰی یَقْضِيَ دَفْنُہَا] ”اور جو جنازے کے ساتھ جائے وہ اس کی تدفین مکمل ہونے تک نہ بیٹھے۔”
4 سیدنا عبد اللہ بن عمرw فرماتے ہیں : کُنَّا نُغَسِّلُ الْمَیِّتَ، فَمِنَّا مَنْ یَّغْتَسِلُ، وَمِنَّا مَنْ لَّا یَغْتَسِلُ . ”ہم(صحابہ) میت کو غسل دیا کرتے تھے، بعض غسل کر لیتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 306/1، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابن حجرaنے اس اثر کی سند کو ”صحیح” کہا ہے۔(التلخیص الحبیر : 137/1)
5 سیدنا ابن عمرw ہی فرماتے ہیں: [مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَأَصَابَہ، مِنْہُ شَيءٌ فَلْیَغْتَسِلْ، وَإِلَّا فَلْیَتَوَضَّأْ] ”اگر کسی شخص کو مردہ نہلاتے ہوئے اس سے کوئی گندگی لگ جائے تووہ غسل کر لے ، ورنہ وضو ہی کر لے۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 306/1، وسندہ، حسنٌ)
6 سیدنا ابن عباسw فرماتے ہیں: مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ .
”جو شخص میت کو غسل دے ، وہ خود بھی غسل کر لے۔”(أیضًا : 305/1، وسندہ، صحیحٌ)
آپwکا دوسرا قول بھی ملاحظہ فرمائیں،فرماتے ہیں:
[لَیْسَ عَلَیْکُمْ فِي غُسْلِ مَیِّتِکُمْ غُسْلٌ إِذَا غَسَّلْتُمُوہُ، إِنَّ مَیِّتَکُمْ لَمُؤْمِنٌ طَاہِرٌ، وَلَیْسَ بِنَجَسٍ، فَحَسْبُکُمْ أَنْ تَغْسِلُوا أَیْدِیکُمْ]
”جب تم اپنے مُردوں کو غسل دیتے ہو تو اس سے تمہارے لیے غسل فرض نہیں ہوتا کیونکہ تمہارا مردہ مؤمن اور طاہر ہوتا ہے، نجس نہیں۔ لہٰذا تمہارے لیے اپنے ہاتھ دھو لینا ہی کافی ہے۔”(أیضًا، 306/1، وسندہ، حسنٌ)
نیز فرماتے ہیں : [لَا تُنَجِّسُوا مَیِّتَکُمْ، یَعْنِي لَیْسَ عَلَیْہِ غُسْلٌ]
”اپنے مُردوں کو پلید نہ سمجھو، یعنی مُردے کو نہلانے والے پر غسل (فرض) نہیں۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 267/3، وسندہ، صحیحٌ)
نیز جب آپw سے پوچھا گیاکہ : ہَلْ عَلٰی مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا غُسْلٌ؟(کیا مُردے کو غسل دینے والے پر غسل فرض ہے؟) اس پر آپ نے فرمایا :
[أَنَجَسْتُمْ صَاحِبَکُمْ؟ یَکْفِي فِیہِ الْوُضُوئُ] ”کیا تم اپنے مردے کو پلید سمجھتے ہو؟ مردے کو نہلانے والے کے لیے وضو کر لینا ہی کافی ہے۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 305/1، وسندہ، صحیحٌ)
7 نافع مولیٰ ابن عمرaبیان فرماتے ہیں:
کُنَّا نُغَسِّلُ الْمَیِّتَ، فَیَتَوَضَّأُ بَعْضُنَا وَیَغْتَسِلُ بَعْضٌ، ثُمَّ یَعُودُ، فَنُکَفِّنُہ،، ثُمَّ نُحَنِّطُہ،، وَنُصَلِّي عَلَیْہِ، وَلَا نُعِیدُ الْوُضُوءَ .
”ہم میت کو غسل دیتے ، پھر ہم میں سے کچھ لوگ وضو کرتے تھے اور کچھ غسل کر لیتے تھے۔پھر وہ لوٹتے تو ہم میت کو کفن دیتے ، اسے خوشبو لگاتے اور اس کا جنازہ پڑھتے، ہم دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے۔”(السنن الکبرٰی للبیہقي : 307,306/1، وسندہ، صحیحٌ)
8 سیدہ عائشہr سے جب مؤمن مُردوں کو غسل دینے والے شخص پر غسل (فرض) ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : ایسا نہیں ہے۔
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 268/3، وسندہ، صحیحٌ)
9 عائشہ بنت سعد بیان کرتی ہیں: [أُوذِنَ سَعْدٌ بِجِنَازَۃِ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ وَہُوَ بِالْبَقِیعِ، فَجَاءَ وَغَسَّلَہ،، وَکَفَّنَہُ، وَحَنَّطَہُ، ثُمَّ أَتٰی دَارَہ،، فَصَلّٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ دَعَا بِمَائٍ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ قَالَ : إِنِّي لَمْ أَغْتَسِلْ مِنْ غُسْلِہٖ، وَلَوْ کَانَ نَجِسًا مَّا غَسَّلْتُہ،، وَلٰکِنِّي اغْتَسَلْتُ مِنَ الْحَرِّ]
”سعدtکو سیدنا سعید بن زیدtکے جنازے کی اطلاع ملی تو وہ اس وقت بقیع میں تھے۔آپ تشریف لائے، سعیدtکو غسل دیا،ان کو کفن دیا، خوشبو لگائی، پھر گھر گئے،ان کا جنازہ ادا کیا ، پھر پانی منگوا کر غسل کیا اور فرمایا : میں نے سیدنا سعیدtکو غسل دینے کی وجہ سے غسل نہیں کیا۔ اگر وہ نجس ہوتے تو میں انہیں غسل ہی نہ دیتا۔ میں نے تو گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے۔”(أیضًا، وسندہ، صحیحٌ)
0 خزاعی بن زیاد کہتے ہیں : [أَوْصٰی عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُغَفَّلٍ أَنْ لَّا یَحْضُرَہُ ابْنُ زِیَادٍ، وَأَنْ یَّلِیَنِي أَصْحَابِي، فَأَرْسَلُوا إِلٰی عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو وَّأَبِي بَرْزَۃَ، وَأُنَاسٍ مِّنْ أَصْحَابِہٖ، فَمَا زَادُوا عَلٰی أَنْ کَفُّوا أَکْمَامَہُمْ، وَجَعَلُوا مَا فَضُلَ عَنْ قُمُصِہِمْ فِي حُجَزِہِمْ، فَلَمَّا فَرَغُوا لَمْ یَزِیدُوا عَلَی الْوُضُوئِ]
”سیدنا عبد اللہ بن مغفلt نے یہ وصیت کی تھی کہ ابن زیاد ان کے پاس نہ آئے، نیز ان کے ساتھ ان کے قریب آئیں۔سیدنا عائذ بن عمرو، سیدنا برزہ اور سیدنا ابن مغفلt کے دیگر ساتھیوں کی طرف پیغام بھیجا گیا۔ انہوں نے آکر صرف یہ کیا کہ اپنی کفیں اوپر چڑھائیں اور ان کے قمیصوں کا جو کپڑا لٹک رہا تھا ، اسے اپنے کمربندوں میں ڈال لیا، پھر (غسل دینے سے)فراغت کے بعد صرف وضو کر لیا۔”(أیضا، وسندہ، صحیحٌ)
! ابوقلابہ تابعیa کے بارے میں ہے :
إِنَّہ، کَانَ إِذَا غَسَّلَ مَیِّتًا، اغْتَسَلَ . ”جب وہ میت کو غسل دیتے تو خود بھی غسل کرتے۔”(أیضًا : 269/3، وسندہ، صحیحٌ)
@ ابراہیم نخعیaکہتے ہیں: کَانُوا یَقُولُونَ : إِنْ کَانَ صَاحِبُکُمْ نَجِسًا، فَاغْتَسِلُوا مِنْہُ .
”لوگ (صحابہ کرام)کہا کرتے تھے کہ اگر تمہارا مُردہ نجس ہے تو پھر اسے غسل دینے کی وجہ سے غسل کر لو۔”(أیضًا، وسندہ، صحیحٌ)
# یونس بن عبید کہتے ہیں: کَانَ الْحَسَنُ لَا یَرٰی عَلَی الَّذِي یَغْسِلُ الْمَیِّتَ غُسْلًا .
”امام حسن بصری تابعیaمیت کو غسل دینے والے پر غسل کو (فرض) خیال نہیں کرتے تھے۔”(المطالب العالیۃ لابن حجر : 481، وسندہ، صحیحٌ)
$ امام سعید بن مسیبaکی رائے یہ تھی :
إِنَّ مِنَ السُّنَّۃِ أَنْ یَّغْتَسِلَ مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا وَیَتَوَضَّأَ مَنْ نَّزَلَ فِي حُفْرَتِہٖ حِینَ یُدْفَنُ، وَلَا وُضُوءَ عَلٰی أَحَدٍ مِّنْ غَیْرِ ذٰلِکَ مِمَّنْ صَلّٰی عَلَیْہِ، وَلَا مِمَّنْ حَمَلَ جِنَازَتَہ،، وَلَا مِمَّنْ مَّشٰی مَعَہَا .
”میت کو غسل دینے والے کے لیے غسل کرنا اور دفن کے وقت قبر میں اترنے والے کے لیے وضو کرنا مسنون ہے۔ ان کے علاوہ جنازہ پڑھنے والے ، کندھا دینے والے اور جنازے کے ساتھ چلنے والے ،کسی پر وضو نہیں ۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 303/1، وسندہ، صحیحٌ)
% امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذیa(279-209ھ) فرماتے ہیں:
وَقَدِ اخْتَلَفَ أَہْلُ العِلْمِ فِي الَّذِي یُغَسِّلُ الْمَیِّتَ، فَقَالَ بَعْضُ أَہْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَغَیْرِہِمْ : إِذَا غَسَّلَ مَیِّتًا فَعَلَیْہِ الغُسْلُ، وقَالَ بَعْضُہُمْ : عَلَیْہِ الوُضُوئُ، وَقَالَ مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ : أَسْتَحِبُّ الغُسْلَ مِنْ غُسْلِ الْمَیِّتِ، وَلاَ أَرٰی ذٰلِکَ وَاجِبًا، وَہٰکَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ، وَقَالَ أَحْمَدُ : مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا أَرْجُو أَنْ لاَّ یَجِبَ عَلَیْہِ الغُسْلُ، وَأَمَّا الوُضُوءُ فَأَقَلُّ مَا قِیلَ فِیہِ، وقَالَ إِسْحَاقُ : لاَ بُدَّ مِنَ الوُضُوئِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْمُبَارَکِ أَنَّہ، قَالَ : لاَ یَغْتَسِلُ وَلاَ یَتَوَضَّأُ مَنْ غَسَّلَ الْمَیِّتَ .
”مردے کو نہلانے والے (پر غسل)کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔صحابہ کرام وغیرہ پر مشتمل بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب کوئی میت کو غسل دے تو اس پر بھی غسل ہے۔بعض کا کہنا ہے کہ اس پر وضو ہے۔ امام مالک بن انس فرماتے ہیں کہ میں مردے کو نہلانے والے کے لیے غسل کو مستحب سمجھتا ہوں، واجب نہیں۔امام شافعی بھی یہی فرماتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ میرے خیال میں میت کو غسل دینے والے پر غسل فرض نہیں ، البتہ اسے کم از کم وضو کا کہا گیا ہے۔امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں: اس کے لیے وضو ضروری ہے، جبکہ امام عبد اللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ اسے نہ غسل کرنے کی ضرورت ہے نہ وضو کرنے کی۔”(سنن الترمذي، تحب الحدیث : 993)
اس حدیث کے بارے میں اصولی تنبیہات
1 بعض محدثین کرام نے اس حدیث کی سند پر اعتراض کیا ہے، جیسا کہ :
b امام محمدبن یحییٰ ذہلیa(م : 258ھ) فرماتے ہیں:
لَا أَعْلَمُ فِیمَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ، حَدِیثًا ثَابِتًا، وَلَو ثَبَتَ لَزِمْنَا اسْتِعْمَالُہ، . ”میرے علم میں مردے کو غسل دینے والے پر غسل کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔ اگر یہ حدیث ثابت ہو جائے تو ہمارے لیے اس پر عمل لازم ہو جائے گا۔”(السنن الکبرٰی للبیہقي : 302/1، وسندہ، صحیحٌ)
b امام احمد بن حنبلaفرماتے ہیں:
لَیْسَ یَثْبُتُ فِیہِ حَدِیثٌ .
”اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔”
(مسائل الإمام أحمد بروایۃ أبي داو،د، ص : 309)
b امام بخاریaنے امام احمد بن حنبل اور امام علی بن مدینیH سے نقل کیا ہے کہ : لَا یَصِحُّ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ شَيءٌ . ”اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں۔”(العلل الکبیر للترمذي : 402/1)
b امام ابن منذرaفرماتے ہیں: وَلَیْسَ فِیہِ خَبَرٌ ثَابِتٌ .
”اس بارے میں کوئی ثابت حدیث موجود نہیں۔”(الأوسط : 351/5)
b امام بیہقیaفرماتے ہیں:
اَلرِّوَایَاتُ الْمَرْفُوعَۃُ فِي ہٰذَا الْبَابِ عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ غَیْرُ قَوِیَّۃٍ، لِجَہَالَۃِ بَعْضِ رُوَاتِہَا وَضُعْفِ بَعْضِہِمْ .
”اس بارے میں سیدنا ابوہریرہt سے مروی مرفوع روایات قوی نہیں، کیونکہ ان کے بعض راوی مجہول ہیں اور بعض ضعیف۔”(السنن الکبرٰی : 303/1)
2 امام ابوداؤدaنے اس حدیث کو منسوخ قرار دیا ہے لیکن اس کا کوئی ناسخ ذکر نہیں کیا۔
صحیح بات یہ ہے کہ اس مسئلے میں دو مرفوع احادیث ثابت ہیں، ان کی سند”صحیح” ہے۔ بہت سے آثار ِ صحابہ بھی موجود ہیں۔ ان تمام کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ میت کو غسل دینے والے پر غسل فرض نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اسی طرح میت کی چارپائی کو کندھا دینے والے شخص کے لیے وضو واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔جن آثار میں غسل اور وضو کی نفی کی گئی ہے ، ان سے مراد فرضیت اور وجوب کی نفی ہے، جیسا کہ سیدنا ابن عباسw کے آثار سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے۔
b آخر میں حافظ ابن ملقنaکا یہ قول ملاحظہ فرما لیں:
بَلْ یُعْمَلُ بِہِمَا، فَیُسْتَحَبُّ الْغُسْلُ .
”بلکہ ان دونوں احادیث پر عمل ہو گا اور غسل کرنا مستحب ٹھہرے گا۔”
(مختصر استدراک الذہبي : 309/1، ح : 93)
معلوم ہوا کہ میت کو غسل دینے والے کے لیے غسل کرنا اور میت کو کندھا دینے والے کے لیے وضو کرنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.