1,446

کیا مقتدی سمع اللہ لمن حمدہ کہے گا؟ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

مقتدی بھی سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ، کہے گاجیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
[کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلاَۃِ، یُکَبِّرُ حِینَ یَقُومُ، ثُمَّ یُکَبِّرُ حِینَ یَرْکَعُ، ثُمَّ یَقُولُ : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ،، حِینَ یَرْفَعُ صُلْبَہ، مِنَ الرَّکْعَۃِ، ثُمَّ یَقُولُ وَہُوَ قَائِمٌ : رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے ، پھر جب رکوع جاتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر جب رکوع سے اپنی کمر مبارک اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے، پھر کھڑے کھڑے ربنا لک الحمد کہتے۔”(صحیح البخاري : ٧٨٩)
اس حدیث کی روشنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اسی میں ہے کہ نمازی خواہ وہ امام ہو ، مقتدی ہو یا منفرد ،ہر صورت میں رکوع سے سراٹھانے کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ کہے۔کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘وَصَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي’
”نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔”
(صحیح البخاري : ٦٣١)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمع اللہ لمن حمدہ کے الفاظ فرماتے تھے تو ہر نمازی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ کی پیروی میں سمع اللہ لمن حمدہ کے الفاظ کہنے چاہیں۔
حافظ نووی رحمہ اللہ اسی حدیث کو اسی مسئلے میں ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فیقتضی ہذا مع ما قبلہ أنّ کلّ مصلّ یجمع بینہما ، ولأنّہ ذکر یستحبّ للإمام فیستحبّ لغیرہ کالتسبیح فی الرکوع وغیرہ ، ولأنّ الصلاۃ مبنیّۃ علی أن لا یفتر عن الذکر فی شیء منہا فإن لم یقل بالذکرین فی الرفع والاعتدال بقی أحد الحالین خالیا عن الذکر ۔
”یہ حدیث پہلی ذکر کردہ احادیث سے مل کر یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہر نمازی سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد دونوں کو جمع کرے۔نیز سمع اللہ لمن حمدہ ایک ذکر ہے جو امام کے لیے مستحب ہے لہٰذا یہ مقتدی کے لیے بھی مستحب ہو گا جیسا کہ رکوع وغیرہ میں تسبیح امام بھی پڑھتا ہے اور مقتدی بھی۔اس لیے بھی مقتدی سمع اللہ لمن حمدہ کہے گا کہ نماز کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اس کا کوئی حصہ بھی ذکر سے خالی نہ ہو۔اگر نمازی سر اٹھاتے اور سیدھا کھڑا ہوتے وقت دونوں حالتوں میں دو ذکر نہ کرے گا تو اس کی ایک حالت ذکر سے خالی رہ جائے گی۔۔۔”
(المجموع شرح المہذب للنووي : ٣/٤٢٠)
معلوم ہوا کہ جس طرح امام کی نماز ہے ، اسی طرح مقتدی کی نماز ہے سوائے ان چیزوں کے جن میں کوئی استثنیٰ ثابت ہو جائے۔سمع اللہ لمن حمدہ کے متعلق کوئی استثنیٰ ثابت نہیں۔بعض لوگ محض قیاسات سے کام چلاتے ہوئے مقتدی کو ان الفاظ کی ادائیگی سے روکتے ہیں۔ ان کی دلیل ملاحظہ فرمائیں :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘إِذَا قَالَ الإِمَامُ : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، فَقُولُوا : اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ’ ”جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو پھر تم اللہم ربنا لک الحمد کہو۔”
(صحیح البخاري : ٧٩٦، صحیح مسلم : ٤٠٩٠)
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : ‘إِذَا قَالَ الْإِمَامُ : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ،، فَلْیَقُلْ مَنْ وَّرَاءَ ہ، : اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ’
”جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو اس کے مقتدی اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہیں۔”(سنن الدارقطني : ١/٣٣٨، ح : ١٢٧١، وسندہ، حسنٌ)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إذا قال الإمام : سمع اللّٰہ لمن حمدہ، ، قال من خلفہ : اللّٰہمّ ربّنا لک الحمد ۔
”جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو مقتدی اللہم ربنا لک الحمد کہیں۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٥٢، وسندہ، صحیحٌ)
لیکن اس حدیث اور اس اثر میں مقتدی کو سمع اللہ لمن حمدہ کہنے سے روکا قطعاً نہیں گیا بلکہ اس میں تو مقتدی کو ربنا ولک الحمد کہنے کا وقت اور مقام بتایا گیا ہے کہ وہ امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد ربنا ولک الحمد کہے جیسے مقتدی کو آمین کہنے کا وقت اور مقام بتانے کے لیے فرمایا گیا کہ جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالّین کہے تو تم آمین کہو۔
(صحیح البخاري : ٧٨٢)
بعینہٖ یہی صورتِ حال اس مسئلے کی بھی ہے۔لہٰذا مذکورہ حدیث و اثرسے یہ مسئلہ کشید کرنا درست نہیں کہ امام اللّٰہم ربنا لک الحمد نہ کہے یا مقتدی سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ اس استدلال کا ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وأمّا الجواب عن قولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : وإذا قال : سمع اللّٰہ لمن حمدہ فقولوا ربّنا لک الحمد ، فقال أصحابنا : فمعناہ : قولوا : ربّنا لک الحمد مع ما قد علمتموہ من قول سمع اللّٰہ لمن حمدہ ، وإنّما خصّ ہذا بالذکر لأنّہم کانوا یسمعون جہر النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بسمع اللّٰہ لمن حمدہ ، فإنّ السنّۃ فیہ الجہر ، ولا یسمعون قولہ : ربّنا لک الحمد ، لأنّہ یأتی بہ سرّا کما سبق بیانہ ، وکانوا یعلمون قولہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : صلّوا کما رأیتمونی أصلّی ، مع قاعدۃ التأسّی بہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم مطلقا ، وکانوا یوافقون فی سمع اللّٰہ لمن حمدہ ، فلم یحتج إلی الأمر بہ ، ولا یعرفون ربّنا لک الحمد ، فأمروا بہ ، واللّٰہ أعلم ۔
”رہی اس فرمانِ نبوی کی بات کہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو تو ہمارے اصحاب کے بقول اس کا معنیٰ یہ ہے کہ سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بارے میں تو تمہیں معلوم ہی ہے ، ساتھ ہی ربنا لک الحمد بھی کہو۔اس حدیث میں مقتدی کے لیے صرف ربنا لک الحمد کا ذکر اس لیے ہے کہ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع اللہ لمن حمدہ تو سن ہی لیتے تھے کیونکہ اس بارے میں طریقہ بلند آواز کا ہے لیکن وہ ربنا لک الحمد نہیں سنتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سری طور پر پڑھتے تھے۔صحابہ کرام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی معلوم تھا کہ نماز اسی طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔پھر وہ اس قانون سے بھی متعارف تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا مطلق طور پر ضروری ہے۔ان امور کی بنا پر صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تھے ، لہٰذا اس کا حکم دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ربنا لک الحمد کا انہیں علم نہیں تھا ، اس لیے اس کا حکم دے دیا گیا۔واللہ اعلم !”
(المجموع شرح المہذب للنووي : ٣/٤٢٠)
شارحِ بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں :
استدلّ بہ علی أنّ الإمام لا یقول : ربّنا لک الحمد ، وعلی أنّ المأموم لا یقول : سمع اللّٰہ لمن حمدہ لکون ذلک لم یذکر فی ہذہ الروایۃ ، کما حکاہ الطحاوی ، وہو قول مالک وأبی حنیفۃ ، وفیہ نظر ، لأنّہ لیس فیہ ما یدلّ علی النفی ، بل فیہ أنّ قول المأموم : ربّنا لک الحمد یکون عقب قول الإمام : سمع اللّٰہ لمن حمدہ ، والواقع فی التصویر ذلک لأنّ الإمام یقول التسمیع فی حال انتقالہ والمأموم یقول التحمید فی حال اعتدالہ ، فقولہ یقع عقب قول الإمام کما فی الخبر ، وہذا الموضع یقرب من مسألۃ التأمین کما تقدّم من أنّہ لا یلزم من قولہ : إذا قال : ولا الضالین ، فقولوا : آمین ، أنّ الإمام لا یؤمّن بعد قولہ ولا الضالین ۔۔۔
”اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ امام ربنا لک الحمد نہیں کہے گا اور مقتدی سمع اللہ لمن حمدہ نہیں کہے گا کیونکہ اس روایت میں اس کا ذکر نہیں۔امام طحاوی نے یہ بات نقل کی ہے۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے۔لیکن یہ بات محل نظر ہے کیونکہ اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے (امام کے لیے ربنا لک الحمد کی اور مقتدی کے لیے سمع اللہ لمن حمدہ کی)نفی معلوم ہو بلکہ اس حدیث میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ مقتدی ربنا لک الحمد اس وقت کہے جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہہ چکا ہو۔حقیقت میں ہوتا بھی ایسے ہی ہے کہ امام سمع اللہ لمن حمدہ رکوع سے اٹھتے وقت کہتا ہے اور مقتدی ربنا لک الحمد اس کے سیدھا کھڑا ہونے کے وقت کہتا ہے۔چنانچہ اس کا ربنا لک الحمد کہنا امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد ہی واقع ہوتا ہے، یہی بات اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔یہ مسئلہ آمین والے مسئلے کے قریب قریب ہے۔ یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے کہ جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو ، یہ لازم نہیں آتا کہ امام ولا الضالین کہنے کے بعد آمین نہیں کہہ سکتا۔۔۔۔۔”(فتح الباري لابن حجر : ٢/٢٨٣)
مزید تفصیل کے لیے دیکھیں علامہ سیوطی کی کتاب الحاوی للفتاوی (١/٣٢)
ہمارے موقف کی تائید اسی حدیث کے دوسرے الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔ ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں : ‘إِذَا قَالَ الْإِمَامُ : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ،، فَلْیَقُلْ مَنْ وَّرَاءَ ہ، : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ،’
”جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو اس کے مقتدی بھی سمع اللہ لمن حمدہ کہیں۔”
(سنن الدارقطني : ١/٣٣٨، ح : ١٢٧، وسندہ، حسنٌ)
اسی طرح عظیم تابعی امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (٣٣۔١١٠ھ)فرماتے ہیں :
إذا قال : سمع اللّٰہ لمن حمدہ، ، قال من خلفہ : سمع اللّٰہ لمن حمدہ ، ربّنا لک الحمد ۔ ”جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو اس کے پیچھے والے لوگ یہ کہیں : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ،، رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٥٢، سنن الدارقطني : ١/٣٤٤، وسندہ، صحیحٌ)
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وبہ یقول الشافعي وإسحاق ۔
”امام شافعی(١٥٠۔٢٠٤ھ)اور امام اسحاق بن راہویہ(١٦١۔٢٣٨ھ)کا یہی مذہب ہے۔”
(سنن الترمذي، تحت الحدیث : ٢٦٧)
اس کے برعکس امام عامر شعبی رحمہ اللہ (توفي بعد :١٠٠ھ)فرماتے ہیں :
لا یقل القوم خلف الإمام : سمع اللّٰہ لمن حمدہ، ، ولکن لیقولوا : اللّٰہمّ ربّنا لک الحمد ۔ ”لوگ امام کے پیچھے سمع اللہ لمن حمدہ نہ کہیں بلکہ وہ اللہم ربنا لک الحمد ہی کہیں۔”(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٢٥، وسندہ، صحیحٌ)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (١٦٤۔٢٤١ھ)کا بھی یہی مذہب ہے۔
(مسائل الإمام أحمد وإسحاق : ٨٥٢)
ہماری ذکر کردہ تحقیق کے مطابق امام عامر شعبی اور امام احمد بن حنبلHکا یہ اجتہاد مرجوح ہے۔یہ دونوں ائمہ کرام اپنے اجتہاد پر ماجور اور اللہ تعالیٰ کے ہاں معذور ہیں۔ ثقہ ائمہ دین کے مرجوح اجتہادات بارے میں مسلمانوں کا یہی نظریہ ہونا چاہیے۔اللہ تعالیٰ ہمیں راہِ حق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
الحاصل : احادیث کی روشنی میں صحیح اور راجح موقف یہی ہے کہ مقتدی بھی سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ، کہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.