972

مرتد عورت کی شرعی سزا، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

اگر کوئی مسلمان دینِ اسلام سے منحرف ہو جائے،تو اسے مرتد کہا جاتا ہے۔اس کی سزا شریعت ِاسلامیہ میں یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔
دلیل نمبر 1 :
عکرمہ مولیٰ ابن عباس رحمہ اللہ کا بیان ہے :
أُتِيَ عَلِيٌّ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ بِزَنَادِقَۃٍ، فَأَحْرَقَہُمْ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ : لَوْ کُنْتُ أَنَا لَمْ أُحْرِقْہُمْ، لِنَہْيِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’لاَ تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللّٰہِ‘، وَلَقَتَلْتُہُمْ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’مَنْ بَدَّلَ دِینَہٗ فَاقْتُلُوہُ‘ ۔
’’سیدنا علی رضی اللہ عنہا کے پاس کچھ مرتد لائے گئے،آپ نے انہیں آگ میں جلا دیا۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو جب اس بات کا علم ہوا، تو انہوں نے فرمایا: اگر میں ہوتا،تو انہیں آگ میں نہ جلاتا،کیوںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم اللہ کا عذاب کسی کو نہ دو۔میں انہیں قتل کر دیتا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : جو شخص اپنا دین بدل لے،اسے قتل کر دو۔‘‘(صحیح البخاري : 6922)
حنفی مقلدین نے اس عمومی حکم سے بلاجواز عورت کو مستثنیٰ کر دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مرد مرتد ہو جائے،تو اس کو قتل کیا جائے گا،لیکن عورت مرتد ہو،تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا،بلکہ اسے قید کر دیا جائے گا۔احناف کا یہ مذہب مذکورہ بالا فرمانِ نبوی کے خلاف ہے، جیسا کہ :
b شارحِ صحیح بخاری،علامہ،ابو الحسن،علی بن خلف بن عبد الملک،ابن بطال رحمہ اللہ (م : 449ھ)مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
وَلَفْظُ [مَنْ] یَصْلُحُ لِلذَّکَرِ وَالْـأُنْثٰی، فَہُوَ عُمُومٌ یَّدْخُلُ فِیہِ الرِّجَالُ وَالنِّسَائُ، لِأَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَخُصَّ امْرَأَۃً مِّنْ رَّجُلٍ، قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ : وَإِذَا کَانَ الْکُفْرُ مِنْ أَعْظَمِ الذُّنُوبِ وَأَجَلِّ جُرْمٍ اجْتَرَمَہُ الْمُسْلِمُونَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَائِ، وَلِلّٰہِ أَحْکَامٌ فِي کِتَابِہٖ، وَحُدُودٌ دُونَ الْکُفْرِ أَلْزَمَہَا عَبَادَہٗ، مِنْہَا الزِّنَا، وَالسَّرِقَۃُ، وَشُرْبُ الْخَمْرِ، وَحَدُّ الْقَذْفِ، وَالْقِصَاصُ، وَکَانَتِ الْـأَحْکَامُ وَالْحُدُودُ الَّتِي ہِيَ دُونَ الِارْتِدَادِ لَازِمَۃً لِّلرِّجَالِ وَالنِّسَائِ، مَعَ عُمُومِ قَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’مَنْ بَدَّلَ دِینَہٗ فَاقْتُلُوہُ‘، فَکَیْفَ یَجُوزُ أَنْ یُّفَرِّقَ أَحَدٌ بَیْنَ أَعْظَمِ الذُّنُوبِ فَیَطْرَحَہٗ عَنِ النِّسَائِ وَیُلْزِمَہُنَّ مَا دُونَ ذٰلِکَ؟ ہٰذَا غَلَطٌ بَیِّنٌ ۔
’’لفظ ِ[مَنْ]مردو عورت دونوں کے لیے مستعمل ہے۔اس عموم میں مرد وعورت دونوں شامل ہیں،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو خاص کر کے عورتوں کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :کفر مسلمان مردوں اور عورتوں کی طرف سے کیا جانے والا سب سے بڑا گناہ اور سب سے عظیم جرم ہے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بہت سے احکام اور کفر سے کم جرائم پر حدود مذکور ہیں،مثلاً زنا،چوری،شراب نوشی،قذف کی حد اور قصاص، یہ سب احکام و حدود جو کہ ارتداد سے کم درجہ کے ہیں،یہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے لازم ہیں(پھر ارتداد میں عورت مستثنیٰ کیسے ہو گئی؟)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بھی عام ہے کہ جو بھی اپنا دین بدلے،اسے قتل کردو۔ اس صورت ِحال میں کسی کے لیے کیسے جائز ہے کہ وہ اس سب سے بڑے گناہ میں مردوں اور عورتوں کی سزا میں فرق کرے اور اس سے عورتوں کو مستثنیٰ کر دے،جبکہ دیگر چھوٹے گناہوں میں اس پر سزا لازم کر دے؟یہ واضح غلطی ہے۔‘‘
(شرح صحیح البخاري : 573/8، 574)
b شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-771ھ)فرماتے ہیں :
وَاسْتُدِلَّ بِہٖ عَلٰی قَتْلِ الْمُرْتَدَّۃِ کَالْمُرْتَدِّ، وَخَصَّہُ الْحَنَفِیَّۃُ بِالذَّکْرِ، وَتَمَسَّکُوا بِحَدِیثِ النَّہْيِ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ، وَحَمَلَ الْجُمْہُورُ النَّہْيَ عَلَی الْکَافِرَۃِ الْـأَصْلِیَّۃِ إِذَا لَمْ تُبَاشِرِ الْقِتَالَ وَلَا الْقَتْلَ، لِقَوْلِہٖ فِي بَعْضِ طُرُقِ حَدِیثِ النَّہْيِ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ، لَمَّا رَأَی الْمَرْأَۃَ مَقْتُولَۃً : ’مَا کَانَتْ ہٰذِہٖ لِتُقَاتِلَ‘، ثُمَّ نَہٰی عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ ۔
’’اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ مرتد مرد کی طرح مرتد عورت کو بھی قتل کر دیا جائے گا۔البتہ احناف نے اس حدیث کو مرد کے ساتھ خاص کیا ہے اور عورتوں کو قتل کرنے سے ممانعت والی حدیث کو اپنی دلیل بنانے کی کوشش کی ہے،جبکہ جمہور فقہاء ِکرام نے اس ممانعت کو اس عورت پر محمول کیا ہے،جو اصلاً کافر ہو اور اس نے جنگ میں قتل و قتال میں حصہ نہ لیا ہو،کیونکہ اس حدیث کی بعض سندوں میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقتولہ عورت کو دیکھا،تو فرمایا : یہ تو لڑائی نہیں کر سکتی تھی،(پھر اسے کیوں قتل کیا گیا؟)،اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔‘‘
(فتح الباري في شرح صحیح البخاري : 272/12)
دلیل نمبر 2 :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’لاَ یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُّسْلِمٍ، یَشْہَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّي رَسُولُ اللّٰہِ، إِلَّا بِإِحْدٰی ثَلاَثٍ؛ النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّیِّبُ الزَّانِي، وَالْمَارِقُ مِنَ الدِّینِ؛ التَّارِکُ لِلْجَمَاعَۃِ‘ ۔
’’جو مسلمان توحید و رسالت کی گواہی دے،اس کا خون صرف تین صورتوں میں حلال ہوتا ہے؛ نفس کے بدلے نفس(قتل کے بدلے قتل)،شادی شدہ زانی اور دین سے نکل جانے والا اور مسلمانوں کی جماعت چھوڑ جانے والا۔‘‘
(صحیح البخاري : 6878، صحیح مسلم : 1676)
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
’أَوِ ارْتَدَّ بَعْدَ إِسْلَامِہٖ، فَعَلَیْہِ الْقَتْلُ‘ ۔
’’یا وہ مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہو جائے،تو اس کی سزا قتل ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 163/1، سنن النسائي : 4057، وسندہٗ حسنٌ)
ان دلائل سے ثابت ہوا کہ مرتد مرد ہو یا عورت،اس کی سزا قتل ہی ہے۔
اہل علم کی رائے :
امام حماد بن ابو سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تُقْتَلُ ۔
’’مرتد ہونے والی عورت کو قتل کر دیا جائے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 277/12، وسندہٗ صحیح))
امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تُقْتَلُ الْمُرْتَدَّۃُ ۔
’’مرتد ہونے والی عورت کو قتل کر دیا جائے۔‘‘
(سنن الدارقطني : 113/3، وسندہٗ صحیحٌ)
امام اوزاعی،امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔
(سنن الترمذي، تحت الحدیث : 1458)
علامہ سرخسی حنفی،امام شافعی رحمہ اللہ کا استدلال یوں ذکر کرتے ہیں :
وَاسْتَدَلَّ الشَّافِعِيُّ بِقَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’مَنْ بَدَّلَ دِینَہٗ فَاقْتُلُوہُ‘، وَہٰذِہِ الْکَلِمَۃُ تَعُمُّ الرِّجَالَ وَالنِّسَائَ، کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ} (البقرۃ 2 : 185)، وَتَبَیَّنَ أَنَّ الْمُوجِبَ لِلْقَتْلِ تَبْدِیلُ الدِّینِ؛ لِأَنَّ مِثْلَ ہٰذَا فِي لِسَانِ صَاحِبِ الشَّرْعِ لِبَیَانِ الْعِلَّۃِ، وَقَدْ تَحَقَّقَ تَبْدِیلُ الدِّینِ مِنْہَا ۔
’’امام شافعی رحمہ اللہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے دلیل لی ہے کہ جو بھی اپنا دین بدلے،اسے قتل کر دو۔یہ کلمہ عام ہے جو مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل ہے،بالکل ایسے ہی جیسے یہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : {فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ} (البقرۃ 2 : 185)(جو بھی اس مہینے میں موجود ہو، وہ اس کے روزے رکھے)۔مذکورہ فرمانِ نبوی سے یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ قتل کرنے کا سبب دین کی تبدیلی ہے،کیونکہ اس طرح کے الفاظ شارع کی زبان میں علت ہی کو بیان کرنے کے لیے آتے ہیں اور مرتدہ کے دین کی تبدیلی ثابت ہو چکی ہوتی ہے۔‘‘(المبسوط : 108/10، 109)
علامہ سہیلی رحمہ اللہ (م : 581ھ)کہتے ہیں :
وَأَمَّا حَدِیثُ الْمَرْأَۃِ الْمَقْتُولَۃِ مِنْ بَنِي قُرَیْظَۃَ؛ فَفِیہَا دَلِیلٌ لِّمَنْ قَالَ بِقَتْلِ الْمُرْتَدّۃِ مِنَ النِّسَائِ، أَخْذًا بِعُمُومِ قَوْلِہٖ عَلَیْہِ السّلَامُ : ’مَنْ بَدَّلَ دِینَہٗ فَاضْرِبُوا عُنُقَہٗ‘، وَفِي ہٰذَا الْحَدِیثِ مَعَ الْعُمُومِ قُوّۃٌ أُخْرٰی، وَہُوَ تَعْلِیقُ الْحُکْمِ بِالْعِلّۃِ، وَہُوَ التّبْدِیلُ وَالرَّدَّۃُ، وَلَا حُجّۃَ مَعَ ہٰذَا لِمَنْ زَعَمَ مِنْ أَہْلِ الْعِرَاق بِأَنْ لَّا تُقْتَلَ الْمَرْأَۃُ، لِنَہْیِہٖ عَلَیْہِ السّلَامُ عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالْوِلْدَانِ ۔
’’رہی بنو قریظہ کی مقتولہ والی حدیث،تو اس میں ان لوگوں کے لیے دلیل ہے، جو مرتد عورت کے قتل کے قائل ہیں۔یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمومی فرمان کو دلیل بناتے ہیں کہ جو بھی اپنا دین بدلے،اسے قتل کردو۔اس حدیث میں ایک اور تائید ہے،وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کے حکم کو دین کی تبدیلی اور ارتداد کی علت سے معلق فرمایا ہے۔اہل عراق،جو یہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ، لہٰذا مرتد عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا، ان کے پاس اپنے موقف کی کوئی دلیل نہیں۔‘‘(الروض الأنف : 236/2، 237)
دلائل احناف :
احناف مرتد عورت کو سزائے ارتداد’قتل‘ سے مستثنیٰ قرار دینے کے لیے جو مزعومہ دلائل پیش کرتے ہیں،ان کا حال ملاحظہ فرمائیں :
روایت نمبر 1 :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’لَا تُقْتَلُ الْمَرْأَۃُ إِذَا ارْتَدَّتْ‘ ۔
’’عورت مرتد ہو جائے،تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔‘‘(سنن الدارقطني : 117/3)
تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے۔امام دارقطنی رحمہ اللہ اسے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عِیسٰی ہٰذَا کَذَّابٌ، یَضَعُ الْحَدِیثَ عَلٰی عَفَّانَ وَغَیْرِہٖ، وَہٰذَا لَا یَصِحُّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’اس کا راوی عبد اللہ بن عیسیٰ سخت جھوٹا آدمی ہے،یہ عفان وغیرہ کی طرف منسوب کر کے خود ساختہ روایات بیان کرتا ہے۔یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔‘‘
روایت نمبر 2 :
(ا) سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف یہ قول منسوب ہے :
تُجْبَرُ، وَلَا تُقْتَلُ ۔
’’اسے توبہ کرنے پر مجبور کیا جائے،قتل نہ کیا جائے۔‘‘(سنن الدارقطني : 118/3)
تبصرہ :
اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ :
1 اس کے راوی ابو یوسف،محمد بن بکر،عطار،فقیہ کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لَا یُدْرٰی مَنْ ذَا ۔ ’’معلوم نہیں یہ کون ہے۔‘‘
(میزان الاعتدال : 492/3)
2 امام عبد الرزاق اور امام سفیان ثوری دونوں ’’مدلس‘‘ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
3 نعمان بن ثابت کوفی باتفاقِ محدثین روایت ِحدیث میں ’’ضعیف‘‘ہیں۔
(ب) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ الفاظ بھی منسوب ہیں :
تُحْبَسُ، وَلَا تُقْتَلُ ۔ ’’اسے قید کیا جائے،قتل نہ کیا جائے۔‘‘
(سنن الدارقطني : 117/3)
تبصرہ :
اس کی سند میں ابو مالک نخعی(عبد الملک بن حسین)راوی ’’متروک‘‘ہے۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : ۔۔۔۔)
(ج) سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ قول بھی منسوب ہے :
لَا یُقْتَلْنَ النِّسَائُ إِذَا ہُنَّ ارْتَدَدْنَ عَنِ الْإِسْلَامِ ۔
’’عورتیں جب اسلام سے مرتد ہو جائیں،تو انہیں قتل نہ کیا جائے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 139/10، سنن الدارقطني : 201/3، السنن الکبرٰی للبیہقي : 203/8)
اس میں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ’’تدلیس‘‘ہے،لہٰذا ’’ضعیف‘‘ہے۔
(دیکھیں : مصنّف عبد الرزّاق : 18731)
ابو عاصم ضحاک بن مخلد کہتے ہیں :
نَرٰی أَنَّ سُفْیَانَ الثَّوْرِيَّ إِنَّمَا دَلَّسَہٗ عَنْ أَبِي حَنِیفَۃَ ۔
’’ہمارے خیال میں سفیان ثوری نے اس حدیث کو امام ابو حنیفہ کا واسطہ حذف کر کے بیان کیا ہے۔‘‘(سنن الدارقطني : 201/3، وسندہٗ صحیحٌ)
امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
سَأَلْتُ سُفْیَانَ عَنْ حَدِیثِ عَاصِمٍ فِي الْمُرْتَدَّۃِ، فَقَالَ : أَمَّا مِنْ ثِقَۃٍ؛ فَلَا ۔
’’میں نے امام سفیان سے عاصم کی مرتدعورت والی حدیث کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: یہ کسی ثقہ راوی سے مروی نہیں۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 203/8، وسندہٗ صحیحٌ)
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اس روایت میں ’’تدلیس‘‘ کی ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فَخَالَفَنَا بَعْضُ النَّاسِ فِي الْمُرْتَدَّۃِ، وَکَانَتْ حُجَّتُہٗ شَیْئًا رَّوَاہُ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي رَزِینٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَرْأَۃِ تَرْتَدُّ عَنِ الْإِسْلَامِ، تُحْبَسُ وَلَا تُقْتَلُ، فَکَلَّمَنِي بَعْضُ مَنْ یَّذْہَبُ ہٰذَا الْمَذْہَبَ، وَبِحَضْرَتِنَا جَمَاعَۃٌ مِّنْ أَہْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِیثِ، فَسَأَلْنَاہُمْ عَنْ ہٰذَا الْحَدِیثِ، فَمَا عَلِمْتُ مِنْہُمْ وَاحِدًا سَکَتَ أَنْ قَالَ : ہٰذَا خَطَأٌ، وَالَّذِي رَوٰی ہٰذَا لَیْسَ مِمَّنْ یُّثْبِتُ أَہْلُ الْحَدِیثِ حَدِیثَہٗ ۔
’’بعض لوگوں نے مرتد عورت کی سزا کے بارے میں ہماری مخالفت کی ہے۔ ان کی دلیل وہ کچھ ہے،جو عاصم نے ابو رزین کے واسطے سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے کہ مرتد عورت کو قید کیا جائے،قتل نہ کیا جائے۔ میرے ساتھ اس مذہب کے ماننے والے ایک شخص نے بات کی اور اس وقت ہمارے پاس محدثین کی ایک جماعت موجود تھی۔ہم نے ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا،تو میں نہیں جانتا کہ ان میں سے کوئی ایک بھی اسے غلط کہنے سے خاموش رہا ہو۔جس راوی نے یہ حدیث بیان کی ہے،اس کی حدیث کو محدثین کرام صحیح قرار نہیں دیتے۔‘‘
(الأمّ : 167/6، 168، السنن الکبرٰی للبیہقي : 204/8)
روایت نمبر 3 :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا سے منسوب ہے :
إِنَّ امْرَأَۃً ارْتَدَّتْ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یَقْتُلْہَا ۔
’’ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں مرتد ہوئی،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل نہیں کیا۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 383/2، 346/6)
تبصرہ :
اس کی سند سخت ’’ضعیف‘‘ہے۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اسے ’’منکر‘‘قرار دیا ہے۔(الکامل : 346/6)
اس کا راوی حفص بن سلیمان،ابوعمر قاری ’’متروک الحدیث‘‘ہے۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : 1405)
روایت نمبر 4 :
امام حسن بصری تابعی رحمہ اللہ سے منسوب روایت ہے :
لَا تَقْتُلُوا النِّسَائَ إِذَا ہُنَّ ارْتَدَدْنَ عَنِ الْإِسْلَامِ، وَلَکِنْ یُّدْعَیْنَ إِلَی الْإِسْلَامِ، فَإِنْ ہُنَّ أَبَیْنَ سُبِینَ، فَیُجْعَلْنَ إِمَائَ الْمُسْلِمِینَ، وَلَا یُقْتَلْنَ ۔
’’عورتیں جب اسلام سے مرتد ہو جائیں،تو انہیں قتل نہ کیا جائے،بلکہ انہیں اسلام کی دعوت دی جائے،اگر وہ انکار کریں،تو انہیں قید کر کے مسلمانوں کی لونڈیاں بنا دیا جائے،لیکن قتل نہ کیا جائے۔‘‘(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 140/10)
تبصرہ :
اس قول کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کا راوی اشعث بن سوار جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔
یہ ہیں وہ شبہات جن کی بنا پر بعض لوگوں نے صحیح احادیث کی من مانی تاویل اور ان کی صریح مخالفت کی ہے۔
الحاصل :
صحیح احادیث ِ نبویہ کا یہی تقاضا ہے کہ مرتد مرد ہو یا عورت،اسے قتل ہی کیا جائے۔ اس حوالے سے مرد وعورت کا کوئی فرق قطعاً ثابت نہیں۔
ماہنامہ السنۃ جہلم ،ماہانہ بنیادوں پر
قارئین کرام! بعض مسائل کی بنا پر کچھ عرصے کے لیے آپ کا یہ رسالہ ہر ماہ کی بجائے دو،تین اور چھے ماہ کے مجموعے کی صورت میں شائع ہوتا رہا ہے۔الحمدللہ! اب اس کی اشاعت ہر ماہ باقاعدگی سے شروع ہو گئی ہے۔اسے خود بھی پڑھیں اور زیادہ سے زیادہ دوست و احباب تک بھی پہنچائیں۔اللہ رب العزت آپ کو اس کا اجر دے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.