974

نابالغ بچی کا نکاح، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

نابالغ بچی کا نکاح

کم سن بچی، جو عمر بلوغ کو نہ پہنچی ہو، باپ اس کا نکاح کرسکتا ہے۔ اس پر قرآن و حدیث اور اجماع دلیل ہے۔
قرآنی دلائل :
1     فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَاللَّائِي یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیضِ مِنْ نِّسَائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ وَّاللَّائِي لَمْ یَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْـأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ) (الطلاق : ٤)
” اگر تمہیں شبہ ہو کہ وہ عورتیں، جو حیض سے مایوس ہو گئیں اور جنہیں ابھی تک حیض نہیں آیا (ان کی عدت ہے یا نہیں؟تو جان لوکہ ) ان کی عدت تین ماہ ہے نیز حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔”
آیت کریمہ میں تین طرح کی عورتوں کا ذکر ہے۔1 وہ عمر رسیدہ عورتیں، جو عمرِ یاس کو پہنچ چکی ہیں اور انہیں حیض آنا بند ہو گیا ہے۔ 2 وہ نابالغ بچیاں، جنہیں حیض شروع نہیں ہوا۔3 حاملہ خواتین۔
ان تینوں قسم کی عورتوں کی عدتِ طلاق بیان ہوئی ہے۔وہ تین مہینے ہے۔ البتہ حاملہ کی عدت وضعِ حمل ہے۔
ثابت ہوا کم سن بچیوں کا نکاح جائز ہے، ورنہ طلاق کی عدت بیان کرنے کا کیا معنی؟
سیدا لفقہا امام بخاری رحمہ اللہ  نے بھی اس آیت سے نا بالغ بچی کے نکاح کے جواز پر استدلال کرتے ہوئے یوں باب قائم کیا ہے ۔
بَابُ إِنْکَاحِ الرَّجُلِ وَلَدَہُ الصِّغَارَ .
”باپ کا اپنے نابالغ بچوں اور بچیوں کے نکاح کردینے کا بیان۔”
(صحیح البخاري، قبل حدیث : ٥١٣٣)
شارح ِ بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  (٨٥٢ھ) لکھتے ہیں:
وَلَدَہ، …أَنَّہُ اسْمُ جِنْسٍ وَّہُوَ أَعَمُّ مِنَ الذُّکُورِ وَالْإِنَاثِ قَوْلُہ، لِقَوْلِ اللّٰہِ تَعَالٰی(وَالَّلَائِي لَمْ یَحِضْنَ) فَجَعَلَ عِدَّتَہَا ثَلَاثَۃَ أَشْہُرٍ قَبْلَ الْبُلُوغِ أَيْ فَدَلَّ عَلٰی أَنَّ نِکَاحَہَا قَبْلَ الْبُلُوغِ جَائِزٌ وَّہُوَ اسْتِنْبَاطٌ حَسَنٌ لّٰکِنْ لَّیْسَ فِي الْآیَۃِ تَخْصِیصُ ذَالِکَ بِالْوَالِدِ وَلَا بِالْبِکْرِ وَیُمْکِنُ أَنْ یُّقَالَ الْـأَصْلُ فِي الْـأَبْضَاعِ التَّحْرِیمُ إِلَّا مَا دَلَّ عَلَیْہِ الدَّلِیلُ وَقَدْ وَرَدَ حَدِیثُ عَائِشَۃَ فِي تَزْوِیجِ أَبِي بَکْرٍ لَّہَا وَہِيَ دُونَ الْبُلُوغِ فَبَقِيَ مَا عَدَاہُ عَلَی الْـأَصْلِ وَلِہٰذَا السِّرِّ أَوْرَدَ حَدِیثَ عَائِشَۃَ .
”ترجمۃ الباب میں لفظِ ولد جنس ہے، مذکر و مؤنث دونوں کو شامل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ  کا یہ کہنا : ‘(وَالَّلَائِي لَمْ یَحِضْنَ) میں اللہ تعالیٰ نے نابالغ کی عدت تین ماہ بتائی ہے۔’ امام بخاری رحمہ اللہ  اس آیت سے نابالغ کے نکاح کا جواز بیان کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بہت اچھا استنباط ہے، لیکن آیت میں باپ یا باکرہ کی تخصیص نہیں ہے۔ بات یوں لگتی ہے کہ نکاح میں اصل حرمت ہے الا کہ جس کی دلیل آ جائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کا نکاح کیا جب کہ آپ رضی اللہ عنہا  ابھی نابالغ تھیں، لہٰذا نا بالغ بچی کے علاوہ باقی اپنی اصل (حرمت) پر رہیں۔ شاید امام بخاری رحمہ اللہ  کا سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  کی حدیث کا ذکر کرنے میں یہی راز ہے۔”
(فتح الباري : ٩/١٩٠)
شارح ِ ہدایہ علامہ ابن ہمام حنفی (٧٩٠۔٨٦١ھ) لکھتے ہیں:
وَیَجُوزُ نِکَاحُ الصَّغِیرِ وَالصَّغِیرَۃِ إذَا زَوَّجَہُمَا الْوَلِيُّ لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی (وَالَّلَائِي لَمْ یَحِضْنَ)(الطلاق : ٤) فَأَثْبَتَ الْعِدَّۃَ لِلصَّغِیرَۃِ وَہُوَ فَرْعُ تَصَوُّرِ نِکَاحِہَا شَرْعًا… وَتَزْوِیجُ أَبِي بَکْرٍ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا وَہِيَ بِنْتُ سِتٍّ نَّصٌّ قَرِیبٌ مِّنَ الْمُتَوَاتِرِ .
”ولی کا نابالغ بچے اور بچی کا نکاح کرناجائز ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان (الطلاق : ٤) نے نابالغ بچی کی عدتِ طلاق، جو نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے، بیان کر دی ہے۔….سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ  کا نکاح چھ سال کی عمر میں کر دینا، نابالغ بچی کے نکاح کے جواز میں واضح نص ہے۔ حدیث درجہ تواتر تک پہنچتی ہے۔”
(فتح القدیر : ٣/٢٧٤)
2     فرمانِ الٰہی ہے:
(وَیَسْتَفْتُونَکَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیکُمْ فِیہِنَّ وَمَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ فِي الْکِتَابِ فِي یَتَامَی النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْکِحُوہُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَنْ تَقُومُوا لِلْیَتَامٰی بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِہٖ عَلِیمًا) (النّساء : ١٢٧)
”لوگ آپ سے عورتوں کی بارے میں فتویٰ مانگتے ہیں۔ فرمائیے کہ اللہ تمہیں اِن عورتوں کے بارے میں بھی نصیحت کر رہا ہے اور ان یتیم بچیوں کے بارے میں بھی، جن کے احکام پہلے بھی بیان ہوچکے ہیں، تم ان سے نکاح میں تو رغبت رکھتے ہو، لیکن حق مہر پورا نہیں دیتے، نیز کمزور اور نادار بچے بچیوں کے بارے میںنصیحت کر رہا ہے۔ یتیموں کے حقوق میں انصاف کا دامن مت چھوڑو ۔ یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے نیک اعمال سے بخوبی واقف ہے۔”
آیت کی تفسیر میں جلیل القدر تابعی عروہ بن زبیر رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:
إِنَّہ، سَأَلَ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہَا عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ تَعَالٰی : (وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا) (النساء : ٣) إِلٰی (وَرُبَاعَ) (النّساء : ٣)، فَقَالَتْ : یَا ابْنَ أُخْتِي ہِیَ الْیَتِیمَۃُ تَکُونُ فِي حَجْرِ وَلِیِّہَا تُشَارِکُہ، فِي مَالِہٖ، فَیُعْجِبُہ، مَالُہَا وَجَمَالُہَا، فَیُرِیدُ وَلِیُّہَا أَنْ یَّتَزَوَّجَہَا، بِغَیْرِ أَنْ یُّقْسِطَ فِي صَدَاقِہَا، فَیُعْطِیہَا مِثْلَ مَا یُعْطِیہَا غَیْرُہ،، فَنُہُوا أَنْ یُّنْکِحُوہُنَّ إِلَّا أَنْ یُّقْسِطُوا لَہُنَّ، وَیَبْلُغُوا بِہِنَّ أَعْلٰی سُنَّتِہِنَّ مِنَ الصَّدَاقِ، وَأُمِرُوا أَنْ یَّنْکِحُوا مَا طَابَ لَہُمْ مِّنَ النِّسَاءِ سِوَاہُنَّ قَالَ عُرْوَۃُ : قَالَتْ عَائِشَۃُ : ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ اسْتَفْتَوْا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ہٰذِہِ الْـآیَۃِ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ : (وَیَسْتَفْتُونَکَ فِي النِّسَائِ) (النّساء : ١٢٧) إِلٰی قَوْلِہٖ (وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْکِحُوہُنَّ) (النساء : ١٢٧)، وَالَّذِي ذَکَرَ اللّٰہُ أَنَّہ، یُتْلٰی عَلَیْکُمْ فِي الْکِتَابِ الْـآیَۃُ الْـأُولَی الَّتِي قَالَ فِیہَا : (وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الیَتَامٰی، فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَائِ) (النّساء : ٣)، قَالَتْ عَائِشَۃُ : وَقَوْلُ اللّٰہِ فِي الْـآیَۃِ الْـأُخْرٰی : (وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْکِحُوہُنَّ) (النساء : ١٢٧) یَعْنِي ہِيَ رَغْبَۃُ أَحَدِکُمْ لِیَتِیمَتِہِ الَّتِي تَکُونُ فِي حَجْرِہٖ، حِینَ تَکُونُ قَلِیلَۃَ الْمَالِ وَالْجَمَالِ، فَنُہُوا أَنْ یَّنْکِحُوا مَا رَغِبُوا فِي مَالِہَا وَجَمَالِہَا مِنْ یَّتَامَی النِّسَاءِ إِلَّا بِالْقِسْطِ، مِنْ أَجْلِ رَغْبَتِہِمْ عَنْہُنَّ .
”میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے (سورۃ النساء : ٣) کے متعلق پوچھا، فرمانے لگی: بھانجے! اس سے وہ یتیم بچی مراد ہے، جو اپنے ولی کی زیر ِسرپرستی ہو اور مال بھی اکٹھا ہو۔ ولی کو یتیم بچی کے مال و جمال میں رغبت ہونے لگے اور پورا مہر دیے بغیر اس سے نکاح کرنا چاہے۔ ایسے لوگوں کو روک دیا گیا کہ نکاح کرنا ہے تو حق مہر معاشرے کے مطابق جتنا بنتا ہے، پورا دیں۔ یا پھر ان کے علاوہ اپنی پسند کسی اور سے شادی کر لیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں : اس آیت کے بعد کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے فتویٰ مانگا، تو (سورۃ النساء : ١٢٧) نازل ہو گئی۔ اس آیت میں ”ما یتلی” سے مراد پہلے والی (النساء : ٣) آیت مراد ہے۔ دوسری (النساء : ١٢٧) میں اللہ تعالیٰ کے فرمان : (وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْکِحُوہُنَّ) کی تفسیر کچھ یوں ہے کہ لوگ کی یتیم بچی جب کم مال اور کم جمال والی ہوتی، تو اس سے نکاح کرنے میں بے رغبتی کرتے۔ لہٰذا حکم ہوا کہ جیسے تم مال و جمال کی کمی کی وجہ سے نکاح نہیں کرتے، ایسے ہی جن یتیم بچیوں کے مال وجما ل میں تمہیں رغبت ہو، ان سے بھی نکاح نہ کرو، الا یہ کہ انصاف سے کا م لو ۔ ”
(صحیح البخاري : ٢٤٩٤)
اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں :
وَفِیہِ دَلَالَۃٌ عَلٰی تَزْوِیجِ الْوَلِيِّ غَیْرِ الْـأَبِ الَّتِي دُونَ الْبُلُوغِ بِکْرًا کَانَتْ أَوْ ثَیِّبًا لِـأَنَّ حَقِیقَۃَ الْیَتِیمَۃِ مَنْ کَانَتْ دُونَ الْبُلُوغِ وَلَا أَبَ لَہَا وَقَدْ أَذِنَ فِي تَزْوِیجِہَا بِشَرْطِ أَنْ لَّا یُبْخَسَ مِنْ صَدَاقِہَا فَیَحْتَاجُ مَنْ مَّنَعَ ذَالِکَ إِلٰی دَلِیلٍ قَوِيٍّ .
”یہ حدیث دلیل ہے کہ باپ کے علاوہ سر پرست نا بالغ کنواری یا شوہر دیدہ بچی کا نکاح کر سکتا ہے، کیوں کہ حقیقی یتیم وہ ہوتی ہے، جو نا بالغ ہو اور باپ فوت ہو گیا ہو۔ یتیم بچی کی شادی کرنے کی اجازت دی گئی ہے، عدمِ جواز کا دعوی محتاجِ دلیل ہے۔”
(فتح الباري : ٩/١٩٧)
شیخ الاسلام ثانی، عالم ِ ربانی، علامہ ابن قیم جوزیہ رحمہ اللہ  (٧٥١ھ) فرماتے ہیں :
قَضٰی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْیَتِیمَۃَ تُسْتَأْمَرُ فِي نَفْسِہَا، وَلَا یُتْمَ بَعْدَ احْتِلَامٍ، فَدَلَّ ذَالِکَ عَلٰی جَوَازِ نِکَاحِ الْیَتِیمَۃِ قَبْلَ الْبُلُوغِ، وَہٰذَا مَذْہَبُ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہَا، وَعَلَیْہِ یَدُلُّ الْقُرْآنُ وَالسُّنَّۃُ .
”نبوی فیصلہ ہے کہ نابالغ یتیم بچی سے اس کے رشتے کے معاملے میں (از روئے شفقت) مشورہ لیا جائے گا۔ جب کہ بلوغت کے بعد تو یتیمی رہتی ہی نہیں، لہٰذا یہ واضح دلیل ہے کہ یتیم بچی کا نکاح قبل از بلوغت جائز ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کا یہی مذہب ہے۔ قرآن و سنت بھی اسی پر دلیل ہیں۔”
(زاد المعاد في ھدي خیر العباد : ٥/٩١)
تنبیہات :
1     یتیمہ کی جمع یتامیٰ ہے، اس کا لغوی و حقیقی معنی یہ ہے کہ ایسی بچی جو عمر بلوغت کو نہ پہنچی ہو اور اس کا باپ فوت ہو چکا ہو۔
سیدنا حنظلہ بن حذیم رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:
لَا یُتْمَ بَعْدَ احْتِلَامٍ، وَلَا یُتْمَ عَلٰی جَارِیَۃٍ إِذَا ہِيَ حَاضَتْ .
”بچہ احتلام اور بچی حیض کے بعد یتیم نہیں رہتے۔”
(المعجم الکبیر للطبراني : ٤/١٤، ح : ٣٥٠٢، النفقۃ علی العیال لابن أبي الدنیا : ٦٣٤، سندہ، حسنٌ)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  (التلخیص الحبیر : ٣/١١٠) نے اس کی سند کو ”لاباس بہ” کہا ہے۔
ہاں مجازاً بلوغت کے بعد بھی یتیمہ کہہ دیتے ہیں۔ جیسا کہ (سورۃ النساء : ٢) میں کہا گیا ہے۔
اس آیت میں یتیمہ سے مراد نابالغ بچی ہے، جس کا باپ فوت ہو چکا ہے۔ نہ کہ بالغ عورت۔ یہاں یتیمہ سے بالغ عورت مراد لینا یہ بغیر دلیل کے حقیقت سے مجاز کی طرف جانا ہے، جو کہ سراسر غلط ہے۔
نیز اس آیت کی تفسیر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  فرما رہی ہیں، بل کہ سبب نزول بیان کر رہی ہیں اور کسی بھی آیت کے فہم کے لیے سبب نزول ممد اور معاون ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا ترجیح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کے قول کو حاصل ہے۔
2     اگر کوئی یہ کہے کہ آیت میں دوبار ”نساء ”کا لفظ آیا ہے اور ”نساء ”بالغ عورتوں کو کہتے ہیں، جیسا کہ” رجال ”کا لفظ بالغ مردوں کے لیے ہو تا ہے، لہٰذا یہاں بالغ عورتیں ہی مراد ہیں۔
ہم عرض کریں گے کہ بلاشبہ” نسائ” کا لفظ بالغات کے لیے ہوتا ہے، لیکن نا بالغ بچیوں پر بھی اس کا اطلاق ہو جاتا ہے، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(یُذَبِّحُونَ أَبْنَاء َکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَ کُم)(البقرۃ : ٤٩)
”آل فرعون تمہارے بچوں کو ذبح کردیتے تھے اور بچیوںکو زندہ چھوڑ دیتے تھے۔”
لامحاملہ یہاں ”نسا ء ”سے مراد دودھ پینے والی بچیاں ہیں، نہ کہ بالغ عورتیں، لہٰذا نابالغ بچیوں پر ”نسا ئ” کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے۔
3     جنسِ نساء میں بچیاں بھی داخل ہوتی ہیں، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰہے:
(وَلَا تَنْکِحُوا مَا نَکَحَ آبَاؤُکُمْ مِنَ النِّسَائِ) (النساء : ٢٢)
”جن عورتوں سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے، ان سے نکاح نہ کرو۔”
نیز فرمان الٰہی ہے:
(وَأُمَّہَاتُ نِسَائِکُمْ) (النساء : ٢٣)
”اپنی ساسوں سے نکاح نہ کرو۔”
دونوں آیات میں ”نسائ” کا لفظ نا بالغ بچیوں کو بھی شامل ہے، کیوں کہ اگر کوئی شخص کسی نا بالغ بچی سے شادی کرتا ہے، تو بلا اختلاف بچی کی ماں اس کے لیے محرماتِ ابدیہ میں سے ہو گی۔
4     جو یتیم بچی قریب البلوغ ہو، تو از روئے شفقت اس سے بھی مشورہ و رضا لی جائے گی۔ لہٰذا اس کی اجازت کے بغیر نکاح کر دیا گیا، اگر وہ راضی ہو تو نکاح معتبر ورنہ نکاح ختم ہو جائے گا۔ وہ تمام احادیث، جن میں یتیمہ سے مشورہ لینے کا کہا گیا ہے، وہ اسی صورت پر محمول ہیں۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں :
تُوُفِّيَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَتَرَکَ ابْنَۃً لَّہ، مِنْ خُوَیْلَۃَ بِنْتِ حَکِیمِ بْنِ أُمَیَّۃَ بْنِ حَارِثَۃَ بْنِ الْـأَوْقَصِ قَالَ : وَأَوْصٰی إِلٰی أَخِیہِ قُدَامَۃَ بْنِ مَظْعُونٍ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ : فَہُمَا خَالَايَ قَالَ : خَطَبْتُ إِلٰی قُدَامَۃَ بْنِ مَظْعُونٍ ابْنَۃَ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ، فَزَوَّجَنِیہَا، فَدَخَلَ الْمُغِیرَۃُ بْنُ شُعْبَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی أُمِّہَا، فَأَرْغَبَہَا فِي الْمَالِ فَحَطَّتْ إِلَیْہِ، وَحَطَّتِ الْجَارِیَۃُ إِلٰی ہَوٰی أُمِّہَا، فَأَبَتَا حَتَّی ارْتَفَعَ أَمْرُہُمَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : فَقَالَ قُدَامَۃُ بْنُ مَظْعُونٍ : ابْنَۃُ أَخِي أَوْصٰی بِہَا إِلِيَّ، فَزَوَّجْتُہَا مِنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، فَلَمْ أُقَصِّرْ بِہَا فِي الصَّلَاحِ، وَلَا فِي الْکَفَاء َۃِ، وَلٰکِنَّہَا امْرَأَۃٌ، وَإِنَّہَا حَطَّتْ إِلٰی ہَوٰی أُمِّہَا قَالَ : فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہِيَ یَتِیمَۃٌ وَّلَا تُنْکَحُ إِلَّا بِإِذْنِہَا، قَالَ : فَانْتُزِعَتْ وَاللّٰہِ مِنِّي بَعْدَ مَا مُلِّکْتُہَا، وَزَوَّجُوہَا الْمُغِیرَۃَ بْنَ شُعْبَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ .
”سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ  اپنی بیوی خولہ بنت حکیم سے ایک بیٹی کو داغ ِ یتیمی دے کر اللہ کو پیارے ہو گئے اور اپنے بھائی قدامہ بن مظعون کو اس کا وصی بنا دیا۔ یہ دونوں بھائی میرے (ابن عمر) ماموں ہیں۔ میں نے اپنے لیے ماموں قدامہ کو اس یتیم بچی کے حوالے سے رشتے کا پیغام بھیجا۔ انہوں نے اس سے میرا نکاح کر دیا۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ  بچی کی ماں کے پاس آئے اور مال کا لالچ دیا، ماں باتوں میں آگئی۔ لڑکی بھی ماں کی طرف مائل ہو گئی اور دونوں نے انکار کردیا۔ معاملہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی عدالت میں آیا۔ قدامہ بن مظعون نے کہا : اللہ کے رسول! یہ لڑکی میری بھتیجی ہے، اس کے باپ نے مجھے اس کا ولی بنایا ہے اور میں نے اسے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ اس کی یکسانیت اور راست روی کا پورا پورا خیال رکھا ہے، لیکن ہے تو یہ عورت ذات ہی! اپنی ماں کی چاہت کی طرف مائل ہو کر شادی سے انکار کر رہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : یہ یتیم بچی ہے، نکاح میں اسی کی مرضی چلے گی۔ واللہ! وہ نکاح کے بعد مجھ سے چھین لی گئی اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ  کے عقد میں دے دی گئی۔”
(مسند الإمام أحمد : ٢/١٣٠، سنن الدار قطني : ٣/٢٣٠،السنن الکبریٰ للبیھقي : ٧/١٢٠، وسندہ، حسنٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ  (٢/١٦٧) نے اس حدیث کو ”اما م بخاری وامام مسلم رحمہ اللہ  کی شرط پر صحیح” کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے ان کی موافقت کی ہے۔
علامہ سند ھی حنفی (١١٣٨ھ) لکھتے ہیں:
‘وَالْیَتِیمَۃُ’ یَدُلُّ عَلٰی جَوَازِ نِکَاحِ الْیَتِیمَۃِ بِالِاسْتِئْذَانِ قَبْلَ الْبُلُوغِ .
”لفظِ یتیمہ، نابالغ یتیم بچی کی اجازت کے ساتھ اس کے نکاح کے جواز پر دلالت کناں ہے۔”
(حاشیۃ السندھي علی النسائي : ٦/٨٤)
4     بعض لوگ قبل از بلوغت نکاح کے عدم جواز پر یہ آیت بطورِ استدلال پیش کرتے ہیں:
(وَابْتَلُوا الْیَتَامٰی حَتّٰی إِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِّنْہُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَیْہِمْ أَمْوَالَہُمْ)(النساء : ٦)
”یتیموں کی جانچ کرو تاآں کہ وہ بالغ ہو جائیں، اگر تمہیں ان میںمعاملہ شناسی کا مادہ محسوس ہو، تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو۔”
کہتے ہیں کہ اس آیت میں نکاح کا لفظ شادی کے معنی میںہے، یعنی ان کو اس وقت تک مال نہیں دینا جب وہ شادی کی عمر کو نہ پہنچ جائیں اور مال بلوغت کے بعد ہی دیا جاتا ہے، لہٰذا شادی بھی بلوغت کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ لفظِ نکاح قرآن میں کئی معانی کے لیے استعمال ہوا ہے، لیکن یہاں لفظِ نکاح شادی کے لیے نہیں، بل کہ بلوغت کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ  (م : ٧٩٤ھ) اور حافظ سیوطی رحمہ اللہ  (م : ٩١١ھ) لکھتے ہیں:
وَکُلُّ نِکَاحٍ فِیہِ تَزَوُّجٌ إِلَّا (حَتّٰی إِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ) فَہُوَ الْحُلُمُ .
”قرآن میں لفظِ نکاح رشتہئ ازدواج ہی کے متعلق ہے سوائے اس فرمان کے : (حَتّٰی إِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ)، یہاں لفظِ نکاح بلوغت کے معنی میں ہے۔”
(البرھان في علوم القران : ١/١٠٩، الإتقان في علوم القران : ٢/١٥٩)
دوسری بات یہ کہ قرآن و حدیث اور اجماع امت میں نکاح کے لیے بلوغت شرط نہیں۔ نیز یہ آیت اس دعویٰ میں مجمل ہے، دیگر صریح دلائل کے مقابلہ میں کسی کی من چاہی تفسیر کیوں کر معتبر ہو سکتی ہے! جب کہ شریعت میں نا بالغ بچی کے نکاح کا جواز ہے۔
3     فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
(وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْیَتَامٰی فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنٰی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ذَالِکَ أَدْنٰی أَلَّا تَعُولُوا)(النساء : ٣)
”یتیم نا بالغ بچیوں کے معاملہ میں عدل نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو، تو (ان کے علاوہ دوسری) پسندیدہ عورتوں سے نکاح کر لو۔ دو دو، تین تین، چار چار (تک کر سکتے ہو) ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں عدل نہ کر سکو، تو ایک سے کر لو یا لونڈی سے کرلو۔ بے اعتدالی سے بچنے کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔”
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن ہمام حنفی (م : ٨٦١ھ) کہتے ہیں:
مَنَعَ مِنْ نِکَاحِہِنَّ عِنْدَ خَوْفِ عَدَمِ الْعَدْلِ فِیہِنَّ، وَہٰذَا فَرْعُ جَوَازِ نِکَاحِہَا عِنْدَ عَدَمِ الْخَوْفِ، وَلَا یُقَالُ ذَالِکَ بِمَفْہُومِ الشَّرْطِ؛ لِـأَنَّ الْـأَصْلَ جَوَازُ نِکَاحِ غَیْرِ الْمُحَرَّمَاتِ مُطْلَقًا، فَمُنِعَ مِنْ ہٰذِہٖ عِنْدَ خَوْفِ عَدَمِ الْعَدْلِ فِیہِنَّ، فَعِنْدَ عَدَمِہٖ یَثْبُتُ الْجَوَازُ بِالْـأَصْلِ الْمُمَہَّدِ لَا مُضَافًا إلَی الشَّرْطِ، وَیُصَرِّحُ بِجَوَازِ نِکَاحِہَا قَوْلُ عَائِشَۃَ : إنَّہَا نَزَلَتْ فِي یَتِیمَۃٍ تَکُونُ فِي حَجْرِ وَلِیِّہَا .
”اللہ تعالیٰ نے ان مردوں کو یتیم بچیوں سے نکاح کرنے سے منع کر دیا، جو ان سے عدل نہیںکر سکتے۔ یہ دلیل ہے کہ جب بے اعتدالی کا خوف نہ ہو، تو جائز ہے۔ یہ بات مفہوم مخالفت کی بنا پر نہیں کہی گئی، کیوں کہ غیر محرم مطلقا نکاح جائز ہے۔ جب بے اعتدالی کا اندیشہ ہو، تو نکاح سے منع کردیا، ورنہ اپنی اصل کی بنا پر بغیر کسی شرط کے جائز ہے۔ یتیم بچی کے نکاح کے جواز پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کا یہ قول صریح دلیل ہے کہ یہ آیت اس یتیم بچی کی بارے میں نازل ہوئی، جو اپنے ولی کی سرپرستی میں ہے۔ ”
(فتح القدیر : ٣/٢٧٥)
حدیثی دلائل:
1     سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں:
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَہَا وَہِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِینَ، وَأُدْخِلَتْ عَلَیْہِ وَہِيَ بِنْتُ تِسْعٍ، وَمَکَثَتْ عِنْدَہ، تِسْعًا .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے میرا نکاح ہوا، تو میں چھ سال کی بچی تھی، رخصتی ہو، تو نو سال کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نو سال گزارے۔”
(صحیح البخاري : ٥١٣٣)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے ہی روایت ہے:
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَہَا وَہِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِینَ، وَزُفَّتْ إِلَیْہِ وَہِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِینَ، وَلُعَبُہَا مَعَہَا، وَمَاتَ عَنْہَا وَہِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَۃَ .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھ نکاح کیا، تو میری عمر سات برس تھی، رخصتی کے وقت عمر نو سال تھی، میں کھلونے بھی ساتھ ہی لے آئی۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے وقت میری عمر اٹھارہ برس تھی۔”
(صحیح مسلم : ١٩٢٢/٧١)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  ہی سے ہے:
تَزَوَّجَہَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہِيَ بِنْتُ سِتٍّ، وَبَنٰی بِہَا وَہِيَ بِنْتُ تِسْعٍ، وَمَاتَ عَنْہَا وَہِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَۃَ .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے نکاح کے وقت میری عمر چھ سال تھی، رخصتی کے وقت نو سال اور آپ کی وفات کے وقت اٹھارہ سال تھی۔”
(صحیح مسلم : ١٩٢٢/٧٢)
علامہ عینی حنفی (م : ٨٥٥ھ) لکھتے ہیں:
وَحَدِیثُ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا مَشْہُورٌ وَّقَرِیبٌ إِلَی التَّوَاتُرِ .
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کی یہ حدیث متواتر کی حد تک مشہور ہے۔”
(البِنایۃ في شرح الھدایۃ : ٥/٩٠)
شارح ِ صحیح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ  (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
وَأَمَّا قَوْلُہَا فِي رِوَایَۃٍ تَزَوَّجَنِي وَأَنَا بِنْتُ سَبْعٍ وَفِي أَکْثَرِ الرِّوَایَاتِ بِنْتُ سِتٍّ فَالْجَمْعُ بَیْنَہُمَا أَنَّہ، کَانَ لَہَا سِتٌّ وَّکَسْرٌ فَفِي رِوَایَۃٍ اقْتَصَرَتْ عَلَی السِّنِینَ وَفِي رِوَایَۃٍ عَدَّتِ السَّنَۃَ الَّتِي دَخَّلَتْ فِیہَا وَاللّٰہُ أَعْلَمُ .
”ایک روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  کا کہنا ہے کہ نکاح کے وقت ان کی عمر سات سال تھی، جب کہ دوسری روایات میں چھ کا ذکر ہے۔ دونوں روایات میں جمع و تطبیق کی صورت یہ ہو گی کہ نکاح کے وقت آپ رضی اللہ عنہا  کی عمر چھ سال مکمل اور کچھ ماہ تھی۔ ایک روایت میں صرف سالوں کے ذکر پر اکتفا کیا اور دوسری روایت میں اسے بھی علیحدہ سال تصور کر لیا، جس میں داخل ہوچکی تھیں۔ واللہ اعلم !”
(شرح النَوَوِي : ٩/٢٠٧)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں:
اَلصَّحِیحُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَہَا وَہِيَ بِنْتُ سِتٍّ، وَقِیلَ : سَبْعٍ، وَیُجْمَعُ بِأَنَّہَا کَانَتْ أَکْمَلَتِ السَّادِسَۃَ وَدَخَلَتْ فِي السَّابِعَۃِ، وَدَخَلَ بِہَا وَہِيَ بِنْتُ تِسْعٍ .
”صحیح یہی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے آپ رضی اللہ عنہا  سے نکاح کیا، تو سیدہ کی عمر چھ برس تھی، دوسری روایت کے مطابق سات برس تھی۔ دونوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نکاح کے وقت سیدہ عمر کا چھٹا سال گزار کر ساتویں میں داخل ہو چکی تھیں۔ رخصتی کے وقت آپ رضی اللہ عنہا  اپنی عمر کی نو بہاریں دیکھ چکی تھیں۔”
(الإصابۃ في تمییز الصحابۃ : ٨/٢٨٢)
2     سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں:
(لَمَّا تُوُفِّیَتْ خَدِیجَۃُ قَالَتْ خَوْلَۃُ بِنْتُ حَکِیمِ بْنِ أُمَیَّۃَ بْنِ الْـأَوْقَصِ امْرَأَۃُ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَذٰلِکَ بِمَکَّۃَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَلَا تَزَوَّجُ؟، قَالَ : مَنْ؟ ، قَالَتْ : إِنْ شِئْتَ بِکْرًا، وَإِنْ شِئْتَ ثَیِّبًا، قَالَ : فَمَنِ الْبِکْرُ؟، قَالَتْ : ابْنَۃُ أَحَبِّ خَلْقِ اللّٰہِ إِلَیْکَ عَائِشَۃُ بِنْتُ أَبِي بَکْرٍ، قَالَ : وَمَنِ الثَّیِّبُ؟، قَالَتْ : سَوْدَۃُ بِنْتُ زَمْعَۃَ آمَنَتْ بِکَ وَاتَّبَعَتْکَ عَلٰی مَا أَنْتَ عَلَیْہِ، قَالَ : فَاذْہَبِي فَاذْکُرِیہِمَا عَلَيَّ فَجَاء َتْ فَدَخَلَتْ بَیْتَ أَبِي بَکْرٍ فَوَجَدَتْ أُمَّ رُومَانَ أُمَّ عَائِشَۃَ، فَقَالَتْ : یَا أُمَّ رُومَانَ مَاذَا أَدْخَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْخَیْرِ وَالْبَرَکَۃِ؟، أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْطِبُ عَلَیْہِ عَائِشَۃَ، قَالَتْ : وَدِدْتُ انْتَظِرِي أَبَا بَکْرٍ، فَإِنَّہ، آتٍ، فَجَاءَ أَبُو بَکْرٍ، فَقَالَتْ : یَا أَبَا بَکْرٍ مَاذَا أَدْخَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْخَیْرِ وَالْبَرَکَۃِ؟، أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْطِبُ عَلَیْہِ عَائِشَۃَ، قَالَ : ہَلْ تَصْلُحُ لَہ، وَإِنَّمَا ہِيَ بِنْتُ أَخِیہِ، فَرَجَّعَنِي إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَذَکَرْتُ ذَالِکَ لَہ،، فَقَالَ : ارْجِعِي إِلَیْہِ فَقُولِي لَہ، : أَنْتَ أَخِي فِي الْإِسْلَامِ، وَأَنَا أَخُوکَ وَابْنَتُکَ تَصْلُحُ لِي، فَأَتَتْ أَبَا بَکْرٍ فَقَالَ لِخَوْلَۃَ : ادْعِي لِي رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ فَأَنْکَحَہ،، وَأَنَا یَوْمَئِذٍ ابْنَۃُ سِتِّ سِنِینَ .
”سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا  کی وفات کے بعد مکی دور کی بات ہے، عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ بنت حکیم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کی : اللہ کے رسول! شادی کرنا چاہیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : کس سے؟ کہنی لگی : کنواری سے کرنی ہے، تب آپ کی مرضی، شوہر دیدہ سے کرنی ہے، تب آپ کی مرضی۔ فرمایا : کنواری کون ہے؟ کہنی لگی : یہ اس کی بیٹی ہے، جس سے آپ کو سب سے زیادہ لگاؤ ہے۔ میری مراد : ابو بکر کی بیٹی عائشہ! فرمایا : او رشوہر دیدہ؟ کہا : سودہ بنت زمعہ، اچھی بھلی مؤمنہ اور با شرع خاتون ہے۔ فرمایا : جائیں، دونوں کو میرا ذکر کریں۔ خولہ گئی اور پہلے ابو بکر رضی اللہ عنہ  کے گھر داخل ہوئی۔ میری ماں ام رومان سے ملاقات کی اور کہا : آپ کی تو اللہ نے سن لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے عائشہ کے لیے نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے۔ میری امی جان فرمانے لگی : میرا خیا ل ہے، آپ ذرا رکیے، ابوبکر آتے ہی ہوں گے۔ اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ  بھی آ گئے۔ خولہ کہنی لگی : آپ پر تو اللہ کی رحمت ہو گئی ہے، اللہ کے رسول نے مجھے اپنے لیے عائشہ کا رشتہ لینے کے لیے بھیجا ہے۔ ابو جی فرمانے لگے : وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی بھتیجی ہیں، نکاح کیسے ہو سکتا ہے؟ خولہ کہتی ہیں : یہ کہہ کر مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے واپس بھیج دیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ساری بات من و عن کہہ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : انہیں جا کر کہیے کہ ہم ایک دوسرے کے اسلامی بھائی ہیں، لہٰذا عائشہ سے نکاح ہو سکتا ہے۔ خولہ نے ابو جی کو ساری بات بتا دی، تو ابو جی فرمانے لگے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہیے کہ تشریف لے آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  آئے اور ابو جی نے میرے نکاح کر دیا۔ اس وقت میری عمر کوئی چھ برس تھی۔”
(المعجم الکبیر للطبراني : ٢٣/٢٣، ح : ٥٧، مسند الإمام أحمد : ٦/٢١٠، سندہ، حسنٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ  (٣/٧٣) نے اسے ” امام مسلم رحمہ اللہ  کی شرط پر صحیح ” کہاہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  (فتح الباری : ٧/٢٢٥) نے اس کی سند کو ”حسن” کہا ہے۔
اجماعِ امت:
حافظ ابن المنذر رحمہ اللہ  (٢٤٢۔٣١٩ھ) فرماتے ہیں:
أَجْمَعَ کُلُّ مَنْ نَّحْفَظُ عَنْہُ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ نِکَاحَ الْـأَبِ ابْنَتَہُ الْبِکْرَ الصَّغِیرَۃَ جَائِزٌ .
”تمام معتبر اہل علم کا اجماع ہے کہ باپ اپنی نابالغ بچی کا نکاح کر سکتا ہے۔”
(المغني لابن قدامۃ المقدسي : ٧/٣٧٩)
شارحِ بخاری مہلب بن احمد بن ابو صفرہ اندلسی (م : ٤٣٥ھ) فرماتے ہیں:
أَجْمَعُوا أَنَّہ، یَجُوزُ لِلْـأَبِ تَزْوِیجُ ابْنَتِہِ الصَّغِیرَۃِ الْبِکْرِ وَلَوْ کَانَتْ لَا یُوطَأُ مِثْلُہَا .
”علمائے کرام کا اجماع ہے کہ باپ کے لیے اپنی نابالغ بچی کا نکاح کرنا جائزہے، گو وہ جماع کے قابل نہ ہو۔”(فتح الباري لابن حجر : ٩/١٩٠)
علامہ ابن بطال رحمہ اللہ  (م : ٤٤٩ھ) فرماتے ہیں:
یَجُوزُ تَزْوِیجُ الصَّغِیرَۃِ بِالْکَبِیرِ إِجْمَاعًا وَّلَوْ کَانَتْ فِي الْمَہْدِ لَکِنْ لَا یُمَکَّنُ مِنْہَا حَتّٰی تَصْلُحَ لِلْوَطْءِ .
”نابالغ بچی کا بالغ مرد سے نکاح بالاجماع جائز ہے، گو وہ ابھی پنگھوڑے میں ہی ہو، لیکن رخصتی اس وقت کی جائے، جب جماع کے قابل ہو جائے۔”
(فتح الباري لابن حجر : ٩/١٢٤)
حافظ نووی رحمہ اللہ  (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلٰی جَوَازِ تَزْوِیجِہِ ابْنَتَہُ الْبِکْرَ الصَّغِیرَۃَ لِھٰذَا الْحَدِیثِ .
”اس حدیث کی رو سے مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نا بالغ بچی کی شادی کرنا جائز ہے۔”(شرح النووي : ٩/٢٠٦)
اجماعِ امت کے خلاف کوئی دلیل مسموع نہیں ہوتی، اہل حق کا اجماع و اتفاق حق ہے۔ حق، حق کامعارض و مخالف نہیں ہو سکتا۔
اگر کوئی یہ کہے کہ نکاح کا مقصود طبعی طور پر یہ ہے کہ بیوی سے شہوت پو ری کی جائے اور اولاد پیدا کی جائے۔ نا بالغ بچی کے ساتھ نکاح میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں، تو نکاح کا کیا فائدہ؟ہم کہتے ہیں نا بالغ بچی سے نکاح کو شریعت نے جائز قرار دیا ہے، ایک وقت کے بعد اس نکاح کے طبعی فوائد حاصل ہو جائیں گے، ضروری نہیں کہ نکاح کے فوائد اسی وقت حاصل ہوں، بہر صورت نکاح کارِ خیر ہے۔
عقل و نقل اس کی تائید کرتی ہے کہ مجامعت اس وقت کی جائے گی، جب وہ اس کی اہل ہو جائے۔شریعت نے تو قبل از بلوغ نکاح کا جواز فراہم کیا ہے، لیکن بعض لوگ قبل از بلوغت تو کجا، بعد از بلوغت بھی نکاح سے روکتے ہیں اور طرح طرح کی پابندیاں عائد کرتے ہیں، جن کی عقل و نقل سے تائید نہیں ہوتی، بل کہ یہ شریعت سازی ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی جلدی شادی کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآں ہوں، تاخیر سے شادی کرنا کئی پریشانیوں کا پیش خیمہ ہے اور انسانی صحت کے لیے انتہائی ناموزوں بھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.