907

نابینا کی امامت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

نابینا کی امامت

نابینا کی امامت شریعت کی رو سے بلا کراہت درست اور جائز ہے۔
امام ابن المنذر رحمہ اللہ  (٢٤٢۔٣١٩ھ) فرماتے ہیں:
وَإِبَاحَۃُ إِمَامَۃِ الْـأَعْمٰی کَالْإِجْمَاعِ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ .
”نابینا کی امامت کے جواز پر تقریباً اہل علم کا اجماع ہے۔”
(الأوسط في السنن والإجماع والإختلاف : ٤/١٥٤)
1     سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے:
إِنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِکٍ، کَانَ یَؤُمُّ قَوْمَہ، وَہُوَ أَعْمٰی، وَأَنَّہ، قَالَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، إِنَّہَا تَکُونُ الظُّلْمَۃُ وَالسَّیْلُ، وَأَنَا رَجُلٌ ضَرِیرُ الْبَصَرِ، فَصَلِّ یَا رَسُولَ اللَّہِ فِي بَیْتِي مَکَانًا أَتَّخِذُہ، مُصَلًّی، فَجَاءَ ہ، رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : أَیْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّیَ؟ فَأَشَارَ إِلٰی مَکَانٍ مِّنَ الْبَیْتِ، فَصَلّٰی فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ  اپنی قوم کے امام تھے۔ آپ نابینا تھے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کرنے لگے : اللہ کے رسول! میرے گھر اور مسجد کے درمیان اندھیرہ اور برساتی نالا حائل ہے، ہوں بھی میں نابینا، آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیں تاکہ میں وہ جگہ نماز کے لیے خاص کر دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  (اگلے دن) ان کے گھر آئے اور فرمایا : کہاں نماز پڑھوں؟ انہوں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے وہاں نماز پڑھ دی۔”
(صحیح البخاري : ٦٦٧)
امامِ اندلس، ابن عبد البر رحمہ اللہ  (٣٦٨۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں:
وَفِیہِ مِنَ الْفِقْہِ إِجَازَۃُ إِمَامَۃِ الْـأَعْمٰی وَلَا أَعْلَمُہُمْ یَخْتَلِفُونَ فِیہِ .
”اس حدیث سے نابینا کی امامت کا جواز ملتا ہے، ہمارے مطابق اس میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں۔”
(الاستذکار : ٢/٣٦١)
2     سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے:
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَخْلَفَ ابْنَ أُمِّ مَکْتُومٍ عَلَی الْمَدِینَۃِ یُصَلِّي بِالنَّاسِ .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ  کو مدینہ میں اپنے پیچھے بہ طور امام مقرر کیا۔ آپ لوگوں کو امامت کرواتے رہے۔”
(مسند أبي یعلیٰ : ٧/٤٣٤، ح : ٤٤٥٦، المعجم الأوسط للطبراني : ٢٧٢٣، معرفۃ السنن والآثار للبیھقي : ٢/٣٧١، ح : ١٤٨٦، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ  (٢١٣٤، ٢١٣٥) نے ”صحیح” کہا ہے۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ  (٧٣٥۔٨٠٧ھ) فرماتے ہیں:
وَرِجَالُ أَبِي یَعْلٰی رِجَالُ الصَّحِیحِ .
”مسند ابو یعلی کی حدیث کے تمام راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔”
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : ٢/٦٢)
علامہ بوصیری رحمہ اللہ  (٧٦٢۔٨٤٠ھ) فرماتے ہیں:
ھٰذَا إِسْنَادٌ صَحِیحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَینِ .
”یہ سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔”
(إتحاف الخیرۃ المھرۃ : ١٠٩٦)
3     عروہ بن زبیر رحمہ اللہ  سیدنا عبد اللہ بن عمیر رضی اللہ عنہ  کی بابت بیان کرتے ہیں:
إِنَّہ، کَانَ إِمَامَ بَنِي خَطْمَۃَ، وَہُوَ أَعْمٰی عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”آپ رضی اللہ عنہ  نابینا ہونے کے باوجود عہدِ نبوی میں بنو خطمہ قبیلے کے امام تھے۔”
(جامع المسانید والسنن لابن کثیر : ٥/٣٦٥، ح : ٦٦٦٣، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ  (٧٣٥۔٨٠٧ھ) فرماتے ہیں:
رَوَاہُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْکَبِیرِ، وَرِجَالُہ، رِجَالُ الصَّحِیحِ .
”یہ طبرانی کبیر کی روایت ہے اور اس کے راوی بخاری ومسلم کے راوی ہیں۔”
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : ٢/٦٨)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  (٧٧٣۔٨٥٢ھ) فرماتے ہیں:
وَرِجَالُہ، ثِقَاتٌ .
”اس کے سارے راوی ”ثقہ” ہیں۔”
(الإصابۃ في تمییز الصحابۃ : ٤/١٧١)
4     عروہ رحمہ اللہ  تابعی فرماتے ہیں:
کَانَ إِمَامَ بَنِي خَطْمَۃَ أَعْمٰی .
”قبیلہئ بنو خطمہ کا امام نابینا تھا۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٢/٢١٣، وسندہ، صحیحٌ)
5     امام ابو جعفر محمد بن علی باقر رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
دَخَلْنَا عَلٰی جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ وَہُوَ أَعْمٰی، فَجَاءَ وَقْتُ الصَّلَاۃِ، فَقَامَ فِي نِسَاجَۃٍ مُّلْتَحِفًا کُلَّمَا وَضَعَہَا عَلٰی مَنْکِبَیْہِ رَجَعَ طَرَفَاہَا إِلَیْہِ مِنْ صِغَرِہَا، وَرِدَاؤُہ، إِلٰی جَنْبِہِ عَلَی الْمِشْجَبِ، فَصَلّٰی بِنَا .
”ہم سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما  کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نابینا تھے۔ نماز کا وقت ہوا، تو آپ رضی اللہ عنہما  بنا ہوا کپڑا اوڑھ کر کھڑے ہوئے، جوں ہی کندھوں پر رکھتے، اس کا دوسرا پلو چھوٹا ہونے کی وجہ سے نیچے آ جاتا۔ آپ کی چادر ایک طرف ہینگر پر لٹکی ہوئی تھی، پھر آپ رضی اللہ عنہما  نے ہمیں امامت کروائی۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٢/٢١٣، وسندہ، صحیحٌ)
6     امام زہری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
کَانَ نَاسٌ مِّنْ أَہْلِ بَدْرٍ یَّؤُمُّونَ فِي مَسَاجِدِہِمْ، بَعْدَمَا ذَہَبَتْ أَبْصَارُہُمْ .
”بدری صحابہ کرام اپنی مسجدوں میں نابینا ہوجانے کے بعد بھی امامت کرواتے رہے۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٢/٢١٣، وسندہ، صحیحٌ)
7     امام عطابن ابی رباح سے نابینا کی امامت کی بابت پوچھا گیا، تو فرمایا:
إِذَا کَانَ أَفْقَھَھُمْ .
”جائز ہے، لیکن جب سب سے زیادہ دین کا فہم رکھتا ہو۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٢/٢١٣، وسندہ، صحیحٌ)
8     صالح بن رستم ابو عامر خزاز رحمہ اللہ  سے روایت ہے:
إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ الْحَسَنَ، أَأُمُّ قَوْمِي وَأَنَا أَعْمٰی؟ قَالَ : نَعَمْ .
”ایک آدمی نے امام حسن بصری رحمہ اللہ  سے سوال کیا کہ میں نابینا ہوں، اپنی قوم کا امام بن سکتا ہوں؟ فرمایا : جی ہاں۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٢/٢١٣، وسندہ، حسنٌ)
9     امام یحی بن سعید قطان رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:
سَأَلَ الْحَکَمُ بْنُ عُتَیْبَۃَ الْقَاسِمَ عَنِ الْـأَعْمٰی یَؤُمُّ وَتَجُوزُ شَہَادَتُہ،؟ فَقَالَ : مَا یَمْنَعُہ، أَنْ یَّؤُمَّ وَتَجُوزُ شَہَادَتُہ، .
”حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ  نے امام قاسم بن محمد رحمہ اللہ  سے پوچھا کہ کیا نابینا کی امامت اور گواہی جائز ہے؟ فرمایا : جی ہاں، جائز ہے۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٢/٢١٣، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابن المنذر رحمہ اللہ  (٢٤٢۔٣١٩ھ) فرماتے ہیں:
إِمَامَۃُ الْـأَعْمٰی کَإِمَامَۃِ الْبَصِیرِ لَا فَرْقَ بَیْنَہُمَا، وَہُمَا دَاخِلَانِ فِي ظَاہِرِ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُہُمْ لِکِتَابِ اللّٰہِ، فَأَیُّہُمْ کَانَ أَقْرَأَ کَانَ أَحَقَّ بِالْإِمَامَۃِ، وَقَدْ رُوِّینَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہِ حَدِیثًا .
”بینا اور نابینا کی امامت میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس حدیث کے مصداق ہیں : ”قوم کی امامت وہ کروائے، جو قرآن کا بڑا قاری ہو۔” لہٰذا بڑا قاری امامت کا زیادہ حق دار ہے۔ نابینا کی امامت کے مسئلہ میں ہم نے خاص حدیث بھی بیان کر دی ہے۔”
(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف : ٤/١٥٤)
تنبیہ نمبر1 :
زیاد بن عبد اللہ نمیری بصری بیان کرتے ہیں کہ میںنے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے نابینا کی امامت کے بارے میں دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا:
وَمَا حَاجَتُھُمْ إِلَیْہِ؟
”انہیں اس کی کیا ضرورت ہے؟”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٢/٢١٤، الأوسط لابن المنذر : ٤/١٥٤)
تبصرہ:
سند ”ضعیف” ہے۔ زیاد بن عبد اللہ نمیری کو جمہور نے ”ضعیف” کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے بھی اسے ”ضعیف” قرار دیا ہے۔
(تقریب التھذیب : ٢٠٨٧)
تنبیہ نمبر2 :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں:
کَیْفَ أَؤُمُّہُمْ وَہُمْ یَعْدِلُونِي إِلَی الْقِبْلَۃِ .
”وہ مجھے پکڑ کر قبلہ رخ کرتے ہیں، میں انہیں کیسے امامت کروا سکتا ہوں؟”
(مصنّف عبد الرزاق : ٢/٣٩٦، ح : ٣٨٣٣، مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٢/٢١٤)
تبصرہ:
سند دو وجہ سے ”ضعیف” ہے۔
1     عبدالاعلی بن عامر ثعلبی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔
2     سفیان ثوری ”مدلس” ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔
تنبیہ نمبر3 :
سیدنا عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
مَا أُحِبُّ أَنْ یَّکُونَ مُؤَذِّنُوکُمْ عُمْیَانَکُمْ، قَالَ : وَحَسِبْتُہ، قَالَ : وَلَا قُرَّاؤُکُمْ .
”مجھے پسند نہیں کہ تمہارے مؤذن اور امام نابینا ہوں۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٢/٢١٤)
تبصرہ:
سند سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے ”ضعیف” ہے۔
تنبیہ نمبر4 :
سعید بن جبیر رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں:
اَلْـأَعْمٰی لَا یَؤُمُّ .
”نابینا امامت نہیں کروا سکتا۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ٢/٢١٤، وسندہ، صحیحٌ)
تبصرہ:
یہ قول صحیح احادیث اور جمہور سلف کی مخالفت کی بنا پر نا قابلِ التفات ہے۔
حنفی مقلدین بغیر دلیل کے صحیح احادیث اور جمہور سلف صالحین کے فہم کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وَیُکْرَہُ تَقْدِیمُ الْعَبْدُ وَالـأَعْرَابِيُّ وَالْفَاسِقُ وَالْـأَعْمٰی وَوَلَدُ الزِّنَا .
”غلام، دیہاتی، فاسق، نابینا اور ولد ِزنا کی امامت مکروہ ہے۔”
(القدوري، ص : ٢٠، الھدایۃ : ١/١٢٢)
دعویئ کراہیت بے دلیل ہے۔ ائمہ سلف کی مخالفت میں یہ قول مسموع نہیں۔ حق وہی ہے، جس پر اسلاف ِ امت کاربند رہے۔
الحاصل:    نابینا شخص کی امامت بلا کراہت جائز ہے۔

نابینا کی امامت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری” ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

    حافظ صاحب، حفظک اللہ، اللہ تعالی آپ کو برکت دے. ما شاء اللہ، یہ ایک بہت خوش ائند اور اچھی کوشش ہے. اس وقت اس کی بہت ضرورت تھی. کیونکہ بہت سے تحقیق کتابی شکل میں تو ہے جو علماء پڑھتے اور پڑھاتے ہیں مگر اس کو ویب سائٹز اور یونیکوڈ فارم میں بھی ہونا ضروری تھا. جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ محدث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفطہ اللہ اور آپ خود ما شاء اللہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں. میری نیک تمنائیں اور دعائیں آپ کے ساتھ ہیں. اللہ تعالی آپ کے علم میں مزید ترقی دے اور اللہ تعالی آپ کے ذریعہ، لوگوں میں صحیح عقیدہ، منہج اور نیک اعمال کی ترویج فرماۓ، آمین۔

    زعیم۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.