1,658

نبی امی، حافظ ابویحیی نور پوری حفظہ اللہ

نبی اُمّی
حافظ ابویحییٰ نورپوری
اہل سنت والجماعت کا اجماعی واتفاقی مسئلہ ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم آخری دم تک اُمی (اَن پڑھ)رہے ، لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ وصف ِ جمیل پہلے نازل ہونے والی کتابوں میں بھی مذکور تھا ۔ یہ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کامعجزہ ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے نبی ئ ئاکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھنا لکھنا نہیں سکھایا تاکہ اہل باطل کو بات کرنے کا موقع نہ مل سکے ۔
حافظ بیہقی  رحمہ اللہ  (م ٤٥٨ھ) نے حافظ خطابی رحمہ اللہ (م ٣٨٨ھ) سے نقل کیا ہے
ومن دلائل نبوّتہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ کان رجلا أمّیّا ، لا یخطّ کتابا بیدہ ، ولا یقرؤہ ، ولد فی قوم أمّیّین ، ونشأ بین ظہرانیہم فی بلد لیس بھا عالم یعرف أخبار المتقدّمین ۔۔۔۔۔ ”آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم امی آدمی تھے ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے خط نہ لکھ سکتے تھے ، نہ ہی اسے پڑھ سکتے تھے ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم امی قوم میں پیدا ہوئے ، انہی کے درمیان آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے علاقے میں پرورش پائی ، جہاں پہلے لوگوں کی خبروں کو جاننے والا کوئی شخص موجود نہ تھا۔۔۔”
(الاعتقاد للبیہقی : ٣٤٧)
دلیل نمبر 1 : شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ  رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ)لکھتے ہیں : فإنّ محمّدا باتّفاق أھل المعرفۃ بحالہ کان أمّیّا ۔
”تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم اُمی تھے۔”
(الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح لابن تیمیۃ : ٢/٧٢)
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ)رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات ِ جلیلہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : أنّہ أمّیّ ، لأنّہ لم یکن یحسن الکتابۃ ۔
”آپ  صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے ، کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے۔”
(تفسیر ابن کثیر : ١/٢٧٥)
دلیل نمبر 2 : ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :
( فَآمِنُوا بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ الَّذِی یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمَاتِہِ وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ ) (الاعراف : ١٥٨)
”تم اللہ تعالیٰ اور اس امی نبی پر ایمان لاؤ ، جو اللہ تعالیٰ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور تم اس کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاسکو۔”
دلیل نمبر 3 ، 4 : فرمانِ الٰہی ہے :
( وَمَا کُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِہِ مِنْ کِتَابٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِینِکَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ) (العنکبوت : ٤٨)
”اور(اے نبی!) آپ اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھ سکتے تھے ، نہ ہی اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے ، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑجاتے ۔”
اس آیت ِ کریمہ کی تشریح وتوضیح میں حافظ ابنِ کثیر  رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :
أی : قد لبثت فی قومک – یا محمد – ومن قبل أن تأتی بہذا القرآن عُمرا لا تقرأ کتابا ولا تحسن الکتابۃ ، بل کلّ أحد من قومک وغیرہم یعرف أنّک رجل أمّیّ لا تقرأ ولا تکتب ، وہکذا صفتہ فی الکتب المتقدّمۃ ، کما قال تعالی : ( الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الأمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیلِ یَأْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ) الآیۃ (الأعراف : ١٥٧) ، وہکذا کان صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ دائما أبدا إلی یوم الدین ، لا یحسن الکتابۃ ولا یخطّ سطرا ولا حرفا بیدہ ، بل کان لہ کتاب یکتبون بین یدیہ الوحی والرسائل إلی الأقالیم ۔
”یعنی اے محمد! آپ قرآن کے نزول سے پہلے اپنی قوم میں ایک عرصہ رہے ہیں ، آپ پڑھ لکھ نہیں سکتے تھے ، بلکہ آپ کی قوم اوردوسری قوموں کا ہر آدمی جانتا ہے کہ آپ اُمی آدمی ہیں ، لکھ پڑھ نہیں سکتے ۔گزشتہ کتب میں بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی صفت مذکور تھی ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ( الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الأمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالإِنْجِیلِ یَأْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ) (الأعراف : ١٥٧) (وہ لوگ جو اُمی نبی کی پیروی کرتے ہیں ، جسے وہ اپنے ہاں تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، وہ نبی ان کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور ان کو برائی سے منع کرتا ہے)۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک یہی کیفیت رہی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ مبارک سے ایک سطر اورایک حرف بھی نہیں لکھ سکتے تھے ، بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کاتبین تھے ، جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وحی اور دوسرے علاقوں کی طرف خطوط لکھتے تھے ۔۔۔”(تفسیر ابن کثیر : ٥/٦٢)
منکرینِ حدیث چونکہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ اَن پڑھ نہیں تھے ، لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، لہٰذا وہ اس آیت ِ کریمہ سے ایک شبہ ظاہر کرتے ہیں کہ ”یہاں قرآنِ کریم نے کتابیں پڑھ سکنے ” کی نفی اور ”اپنے ہاتھ سے لکھنے” کی نفی صرف نزولِ قرآن سے پہلے زمانہ کے لیے کی ہے ، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نزولِ قرآن کے بعد آپ بخوبی لکھ پڑھ سکتے تھے۔”
یہ انتہائی کمزور استدلال ہے ، جیسا کہ :
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ  اس آیت کے الفاظ ( إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں : أی : لو کنت تحسنہا لارتاب بعض الجہلۃ من الناس ، فیقول : إنّما تعلم ہذا من کُتب قبلہ مأثورۃ عن الأنبیاء ، مع أنّہم قالوا ذلک مع علمہم بأنّہ أمّیّ لا یحسن الکتابۃ : ( وَقَالُوا أَسَاطِیرُ الأَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلا ) (الفرقان : ٥)
”یعنی اے نبی! اگر آپ لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو بعض جاہل لوگ شک میں پڑ جاتے اور کہتے کہ آپ تو پہلے انبیاء کی منقول کتب سے یہ چیزیں سیکھتے ہیں ۔ پھر انہوں نے جانتے ہوئے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم امی ہیں ، لکھ نہیں سکتے ، یہ کہہ دیا تھا : ( وَقَالُوا أَسَاطِیرُ الأَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلا ) (الفرقان : ٥) (کافروں نے کہا کہ یہ تو پہلے لوگوں کے قصے ہیں ، جو اس کو صبح وشام لکھوائے جاتے ہیں )۔۔۔”(تفسیر ابن کثیر : ٥/٦٢)
اس آیت ِ کریمہ سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین وکفار کے ردّ وجواب میں فرمار ہے ہیں کہ جب یہ حقیقت آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نزولِ قرآن سے پہلے نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے توقرآن کے نازل ہونے کے بعد آپ لوگوں کا یہ کہنا کہ ”قرآن پہلوں کی جھوٹی باتیں ہیں۔ وہ خود لکھ لیتا ہے ۔صبح وشام اس کو لکھوائی جاتی ہیں ۔” کہاں تک صحیح ہے ؟
جب نزولِ قرآن سے پہلے آپ   صلی اللہ علیہ وسلم امی (اَن پڑھ)تھے تو نزول کے بعد قرآن خود کیسے لکھ لیتے ہیں ؟ اور پہلی کتابوں کا مطالعہ کیسے کرلیتے ہیں ؟ چونکہ یہ دلیل مخالف کفار کوبھی تسلیم تھی۔اس لیے اس کو ذکر کردیا ۔ جو دلیل مخالف کو بھی تسلیم ہو ، وہ زیادہ مؤثر اورمقبول ہوتی ہے ۔ افہام وتفہیم کی بہترصورت یہی تھی ، اس لیے اس کو اختیار کیاگیا ۔
یہ نہیں فرمایا کہ آپ پڑھ لکھ نہیں سکتے ہیں ، کیونکہ اس کے برعکس مخالف یہ کہتے سکتے تھے کہ آپ قرآن خود لکھ لیتے ہیں ، اس سے تصادم بڑھ جاتا ، مسلّم دلیل پیش کی گئی ۔
منکرینِ حدیث کفار کی تقلید میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ نزولِ قرآن کے بعد نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  پڑھ لکھ لیتے تھے ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس رسول پر ایسی کتاب اترے ، جس میں تقریباً ایک لاکھ تک کی گنتی ہو ، تقسیم ِ میراث کا حساب وکتاب ہو ، زکوٰۃ ومالِ غنیمت کی تقسیم کا قانون ہو ، کیا وہ ایسا ہوسکتا ہے کہ نہ تو پڑھ سکے ، نہ لکھ سکے ؟
مسلمان کہتے ہیں کہ یہی تو معجزہ ہے ، جس کے انکار کے لیے تم ظن وتخمین پیش کرتے ہو۔یہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراوبہتان ہے اور قرآن وحدیث اوراجماعِ امت کی تکذیب ہے ۔ اہل علم وعقل کی مخالفت ہے ۔
دلیل نمبر 5 : سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ  صلح حدیبیہ کا قصہ یوں بیان کرتے ہیں : فلمّا کتبوا الکتاب ، کتبوا : ہذا ما قاضی علیہ محمّد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقالوا : لا نقرّ بہا ، فلو نعلم أنّک رسول اللّٰہ ما منعناک ، لکن أنت محمّد بن عبد اللّٰہ ، قال : أنا رسول اللّٰہ ، وأنا محمّد بن عبد اللّٰہ ، ثمّ قال لعلیّ : امح رسول اللّٰہ ، قال : لا ، واللّٰہ ! لا أمحوک أبدا ، فأخذ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم الکتاب ، فکتب : ہذا ما قاضی علیہ محمّد بن عبد اللّٰہ ۔۔۔۔۔
”جب مسلمانوں اور مشرکین نے معاہدہ لکھا تو صحابہ کرام نے لکھ دیا ، یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کیا ہے ، اس پر مشرکین نے کہا ، ہم اسے تسلیم نہیں کرتے ، کیونکہ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو آپ کو مکہ سے نہ روکتے ، آپ محمدبن عبداللہ ہیں ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور عبداللہ کابیٹا بھی ہوں ، پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ، رسول اللہ کا لفظ مٹادو ، انہوں نے عرض کیا ، اللہ کی قسم ! میں آپ کا نام ِ نامی نہیں مٹاسکتا ! آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تحریر کو پکڑا اور لکھ دیا ، یہ وہ معاہدہ ہے ، جو محمدبن عبداللہ نے کیا ہے ۔۔۔”
(صحیح البخاری : ٢/٦١٠ ، ح : ٤٢٥١)
(ا)    یہ مجاز ِ مرسل ہے ۔ کام کی نسبت اس کی طرف کردی گئی ہے ، جس سے کام صادر نہ ہوا ۔ یہاں لکھنے کی نسبت نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کردی گئی ہے ۔ یہ اسی قبیل سے ہے ، جیسے بنیٰ أمیر المدینۃ ۔ یعنی امیر نے شہر کی تعمیر کی ، جبکہ اس نے خود تعمیر نہیں کی ہوتی ، بلکہ اس کے حکم سے تعمیر ہوتی ہے ، لیکن اس کی طرف منسوب ہوجاتی ہے ۔
صلح حدیبیہ کے قصہ کے متعلق یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
واللّٰہ ! إنّی رسول اللّٰہ ، وإن کذّبتمونی ، اکتب : محمّد بن عبد اللّٰہ ۔
”اللہ کی قسم !میں اللہ کا رسول ہوں ، اگرچہ تم نے مجھے جھٹلادیا ہے ۔ محمدبن عبداللہ لکھ دو۔”
(مسند الامام احمد : ٤/٣٣٠، صحیح البخاری : ٢٧٣١، ٢٧٣٢)
یہ دونوں حدیثیں نصِ قطعی ہیں کہ فکتب کا معنیٰ مجازی ہے ۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا حکم دیاتھا ، نہ کہ خود لکھا تھا ۔
سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اکتب محمّد رسول اللّٰہ ، قالوا : لو علمنا أنّک رسول اللّٰہ ، لاتبعناک ، ولکن اکتب اسمک واسم أبیک ، فقال النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : اکتب من محمّد بن عبد اللّٰہ ۔۔۔ ”محمدرسول اللہ لکھو ، کفار نے کہا ، اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے ہوتے تو ضرور آپ کی پیروی کرلیتے ، آپ اپنا اوراپنے باپ کا نام لکھیں ، اس پرنبی ئاکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، لکھو ، محمد بن عبداللہ کی طرف سے ۔۔۔”
(صحیح مسلم : ٢/١٠٥، ح : ١٧٨٤)
حافظ سہیلی رحمہ اللہ (م ٥٨٤ھ)لکھتے ہیں : وإنّما معنیٰ : کتب ، أی أمر أن یکتب ، وکان الکاتب فی ذلک الیوم علیّ بن أبی طالب ۔۔۔
”بلاشبہ لکھنے سے مراد یہاں یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا حکم دیاتھا ۔ اس دن کاتب سیدنا علی رضی اللہ عنہ  تھے ۔۔۔” (الروض الانف للسہیلی : ص ٥١)
اس پر ایک قوی قرینہ یہ بھی ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناعلی رضی اللہ عنہ  کو فرمایا :
امح رسول اللّٰہ ، فقال علیّ : واللّٰہ ! لا أمحاہ أبدا ، قال : أرنیہ ، قال : فأراہ إیّاہ ، فمحاہ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بیدہ ۔
”رسول اللہ کا لفظ مٹادیں ، سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، اللہ کی قسم ! میں اس کو کبھی نہیں مٹاؤں گا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، مجھے یہ لفظ دکھادو ، سیدناعلی رضی اللہ عنہ نے وہ الفاظ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائے تو نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ مٹا دیا۔۔۔”
(صحیح البخاری : ١/٤٥٢، ح : ٣١٨٤، صحیح مسلم : ٢/١٠٥، ح : ١٧٨٣/٩٢)
شارحِ بخاری حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ)لکھتے ہیں :
فیحمل علی أنّ النکتۃ فی قولہ : فأخذ الکتاب ، ولیس یحسن یکتب ، لبیان أنّ قولہ : أرنی إیّاہا ، أنّہ ما احتاج إلی أن یریہ موضع الکلمۃ التی امتنع علیّ من محوھا إلّا لکونہ کان لا یحسن الکتابۃ ۔
”اسے اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ راوی کا یہ کہنا کہ فأخذا لکتاب ، ولیس یحسن یکتب (یعنی آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریر کو پکڑا ، حالانکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے)، آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وضاحت کے لیے ہے کہ مجھے وہ کلمہ دکھاؤ ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے ، اسی لیے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کے محتاج ہوئے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کووہ کلمہ دکھایا جائے ، جس کو مٹانے سے سیدناعلی رضی اللہ عنہ  رک گئے تھے ۔”(فتح الباری لابن حجر : ٧/٥٠٤)
تنبیہ : حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا یہ لکھنا کہ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ کلمات لکھنا آتے تھے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر خود اپنا اسم ِ گرامی لکھا تھا، لیکن اس کے باوجود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اُمی ہی تھے (تذکرۃ الحفاظ للذھبی : ٢/٢٢٠)، مرجوح ہے ، کیونکہ ہم احادیث سے ثابت کرآئے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اسم ِ گرامی لکھنے کا حکم دیا تھا ، خود نہیں لکھا تھا۔
فائدہ : سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنّا أمّۃ أمّیّۃ ، لا نکتب ولا نحسب ، الشھر ھکذا وھکذا ، یعنی مرّۃ تسعۃ وعشرین ومرّۃ ثلاثین ۔ ”ہم اَن پڑھ لوگ ہیں ، ہم لکھنا اورحساب کرنا نہیں جانتے ، مہینہ اتنا اتنا ہوتا ہے ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ کبھی مہینہ انتیس دنوں کا ہوتا ہے اورکبھی تیس دنوں کا ۔”
(صحیح البخاری : ١/ ٢٥٦، ح : ١٩١٣، صحیح مسلم :١/٣٤٧ ، ح : ١٠٨٠/١٥)
اس حدیث میں نبی ئاکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور کے اکثر لوگوں کا حال بیان ہوا ہے کہ وہ اَن پڑھ تھے یا اس سے مراد خود نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ گرامی ہے ۔
تنبیہ بلیغ : مشہور منکر ِ حدیث تمنا عمادی پھلواروی نے اس حدیث کے راوی الاسود بن قیس العبدی الکوفی بالاتفاق ثقہ کو الاسود بن یزید بن قیس النخعی الکوفی بنا کر زبان درازی کی ہے ۔(نبی امی از تمنا عمادی : ص ٢١)
وہ دن آنے والا ہے ، جس دن اللہ تعالیٰ مفتریوں ، کذابوں ، دجالوں ، ظالموں اورناانصافوں سے حساب وکتاب لے لے گا ۔
فائدہ : عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں : ما مات النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم حتّی قرأ وکتب ۔ ”نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک فوت نہیں ہوئے ، جب تک آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنا لکھنا شروع نہ کردیا ۔”(سیر اعلام النبلاء للذہبی : ١٤/١٩٠)
تبصرہ : اس کی سند میں مجالد بن سعید راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیفـ” ہے۔فتح الباری (٧/٥٠٤)میں مجالد کی تصحیف مجاہد سے ہوگئی ہے ۔ حافظ ابنِ کثیر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فضعیف ، لا أصل لہ ۔ ”یہ ضعیف ہے ، اس کی کوئی اصل نہیں ۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٥/٦٢)
الحاصل : رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  اُمّی تھے ، لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے ۔ یہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا معجزہئ مبارکہ تھا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.