926

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تیمم، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ تیمم
ابن الحسن محمدی

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو طریقہ تیمم صحیح احادیث سے ثابت ہے،وہ یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مٹی پر دونوں ہاتھ مارتے،پھر چہرے پر پھیرتے اور ہتھیلیوں پر مل لیتے۔ اس کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت نہیں۔دلائل ملاحظہ فرمائیں :
دلیل نمبر 1 : سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
بَعَثَنِي رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَۃٍ، فَأَجْنَبْتُ، فَلَمْ أَجِدِ المَائَ، فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِیدِ کَمَا تَمَرَّغُ الدَّابَّۃُ، ثُمَّ أَتَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہٗ، فَقَالَ : ’إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیکَ أَنْ تَقُولَ بِیَدَیْکَ ہٰکَذَا‘، ثُمَّ ضَرَبَ بَیَدَیْہِ الْـأَرْضَ ضَرْبَۃً وَّاحِدَۃً، ثُمَّ مَسَحَ الشِّمَالَ عَلَی الْیَمِینِ، وَظَاہِرَ کَفَّیْہِ، وَوَجْہَہٗ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک کام کے لیے بھیجا۔میں جنبی ہو گیا۔مجھے پانی نہ ملا تو میں مٹی میں جانوروں کی طرح لَوٹ پَوٹ ہوا۔پھر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ عرض کیا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :آپ اپنے ہاتھوں کے ساتھ یوں کر لیتے تو یہی کافی تھا۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے دونوں ہاتھ مبارک زمین پر مارے ،پھر بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ پرپھیرا اور ہر دونوں میں سے ہتھیلی سے مخالف ہاتھ کے باہر والی جانب مسح کیا،پھر دونوں ہتھیلیوں کو اپنے چہرۂ مبارک پر پھیرا۔‘‘
(صحیح البخاري : 347، صحیح مسلم : 368، واللّفظ لہٗ)
صحیح بخاری کی ایک روایت(338)کے الفاظ یہ ہیں :
فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیکَ ہٰکَذَا‘، وَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکَفَّیْہِ الْـأَرْضَ، وَنَفَخَ فِیہِمَا، ثُمَّ مَسَحَ بِہِمَا وَجْہَہٗ وَکَفَّیْہِ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آپ کے لیے یہی کافی تھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ مبارک زمین پر مارے اور ان میں پھونکا۔پھر ان دونوں کے ساتھ اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا۔‘‘
یہ وہ طریقہ تیمم ہے،جس کی تعلیم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو دی۔ اس میں زمین پر ایک دفعہ ہاتھ مارنے کا ذکر اور چہرے اور ہتھیلیوں پر پھیرنے کا ثبوت ہے۔ بعض لوگ اس نبوی طریقے سے راضی نہیں۔وہ اس متفق علیہ حدیث کو تقلید ِناسدید پر قربان کر دیتے ہیں اور اس کے بارے میں وہ رَوَش اختیار کرتے ہیں کہ منکرین حدیث بھی شرما جاتے ہیں۔بُرا ہو تقلید کا جو انسان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر اکتفا نہیں کرنے دیتی۔
جناب تقی عثمانی دیوبندی،حیاتی صاحب اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’اس حدیث کا سیاق صاف بتلا رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصود تیمم کے پورے طریقے کی تعلیم دینا نہیں،بلکہ تیمم کے معروف طریقہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا۔ اسی طرح حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی یہ مطلب نہیں کہ ایک ضرب یا مسح کفین (دونوں ہتھیلیوں کے اوپر والے حصے پر مسح)کافی ہے،بلکہ الفاظ ِمذکورہ سے طریقۂ معروف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔‘‘(درسِ ترمذی : 388-387/1)
جناب حسین احمد مدنی،دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
’’دراصل اشارہ سے تمرغ اور تمعّک کا ردّ کرنا تھا،افعالِ تیمم کی تعلیم کرنا نہیں تھا۔‘‘
(تقریر ترمذی، ص : 268)
قارئین کرام! آپ حدیث کے سیاق پر غور کر لیں،پھر تقی اور مدنی صاحبان کی حدیث کے خلاف جرأت کا اندازہ لگائیں۔حدیث کا ایک ایک لفظ بول بول کر کہہ رہا ہے کہ مقصود طریقۂ تیمم تھا۔پھر قابل غور بات یہ ہے کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی طریقۂ تیمم اخذ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگوں کو اسی کی تعلیم دیتے تھے،جیسا کہ :
ابو مالک ،غزوان،کوفی،تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : سَمِعْتُ عَمَّارَ بْنَ یَاسِرٍ یَّخْطُبُ بِالْکُوفَۃِ، وَذَکَرَ التَّیَمُّمَ، فَضَرَبَ بِیَدِہِ الْـأَرْضَ، فَمَسَحَ وَجْہَہٗ وَیَدَیْہِ ۔
’’میں نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے سنا۔آپ نے تیمم کا ذکر کیا تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا اور اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا۔‘‘
(سنن الدارقطني : 702، وسندہٗ صحیحٌ)
سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:
إِنَّہٗ غَمَسَ بَاطِنَ کَفَّیْہِ فِي التُّرَابِ، ثُمَّ نَفَخَ فِیہَا، ثُمَّ مَسَحَ وَجْہَہٗ وَیَدَیْہِ إِلَی الْمُفَصَّلِ، وَقَالَ عَمَّارٌ : ہٰکَذَا التَّیَمُّمُ ۔
’’آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلیوں کو مٹی میں ڈبویا،ان پر پھونک ماری،پھر اپنے چہرے اور جوڑ سمیت ہاتھوں پر مسح کیا اور فرمایا : یہ ہے تیمم کا طریقہ۔‘‘(أیضًا : 703، وسندہٗ صحیحٌ)
کیا سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو احناف مقلدین جتنی بھی سمجھ بوجھ نہیں تھی کہ اس نبوی مراد کو سمجھ پاتے،جو تقی اور مدنی صاحبان نے بیان کی ہے؟ کیا یہ صحابہ کرام کی توہین و تنقیص نہیں ہے اور کیا یہ صحابہ کرام کو (معاذ اللہ)کوتاہ فہم قرار دینے کی سازش نہیں ہے؟
حنفی مقلدین اپنی تائید میں مسند بزّار کی یہ روایت بھی پیش کرتے ہیں :
عَنْ عَمَّارٍ، قَالَ : کُنْتُ فِي الْقَوْمِ حَتّٰی نَزَلَتِ الرُّخْصَۃُ فِي الْمَسْحِ بِالتُّرَابِ إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَائَ، فَأَمَرَنَا، فَضَرَبْنَا وَاحِدَۃً لِّلْوَجْہِ، ثُمَّ ضَرَبْنَا أُخْرٰی لِلْیَدَیْنِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ ۔ ’’سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں لوگوں میں تھا،حتی کہ پانی نہ ملنے کی صورت میں مٹی کے ساتھ مسح کرنے کی رخصت نازل ہو گئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا تو ہم نے چہرے کے لیے ایک دفعہ مٹی پر ہاتھ مارا، پھر دوسری مرتبہ کہنیوں تک ہاتھوں پر مسح کے لیے مٹی پر ہاتھ مارا۔‘‘
(مسند البزّار : 1384، نصب الرایۃ : 153/1)
لیکن یہ روایت ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کی سند میں امام زہری اور محمد بن اسحاق دونوں کی ’’تدلیس‘‘موجود ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا اس کی سند کو ’’حسن‘‘قرار دینا صحیح نہیں۔ ویسے بھی محمد بن اسحاق بے چارہ فاتحہ خلف الامام کی حدیث بیان کرے تو مقلدین کے عتاب کا نشانہ بن جاتا ہے اور یہی محمد بن اسحاق جب ان کے مذہب کے موافق روایت بیان کرے،تو اسے سینے سے لگا لیا جاتا ہے۔کیسا تضاد ہے!
اسی پر بس نہیں،بلکہ جب اپنے مذہب کے خلاف روایت آ جائے،تو چاہے کتنی ہی قوی اور صحیح کیوں نہ ہو،اس کو ٹھکرا دیا جاتا ہے،خواہ وہ صحیح بخاری ہی کی حدیث ہو،مثلاً :
سیدنا عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث،جس کا صحیح ہونا ساری امت ِمسلمہ کے نزدیک مسلّم ہے،کے بارے میں جناب حسین احمد،مدنی،دیوبندی لکھتے ہیں :
’’الحاصل حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی روایت سند کے اعتبار سے قوی سہی،خصوصاً دوسرے واقعہ کو ۔۔؟کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے،لیکن اس میں شدید اضطراب ہے۔ 1آپ کا فعل ہے یا قول؟ 2 تیمم بکفہ تھا یا بکفیہ(تیمم ایک ہاتھ سے کیا یا دو ہاتھوں سے؟) 3 مع ظہر الکفین یا الی انصاف الذراعین(صرف ہاتھوں کی اوپر والی جانب مسح کرنا ہے یا نصف ذراع تک؟)۔ ان اضطرابات کی وجہ سے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی روایت کیسے قابل عمل ہو سکتی ہے؟‘‘(تقریر ترمذی، ص : 265)
مقلدین اپنے تقلیدی مذہب کی خاطر حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مہمل اور ناقابل عمل بنانے سے بھی باز نہیں آتے،حالانکہ محدثین عظام حدیث میں مہارت ِتامہ رکھنے والے تھے اور حدیث کی مخفی علتوں سے واقف تھے،ان میں سے کسی نے بھی اس حدیث میں اضطراب کا دعویٰ نہیں کیا۔مقلدین نے محدثین کرام کے علم و فہم کو لات مارتے ہوئے حدیث ِرسول میں شکوک و شبہات پیدا کرنا شروع کر دیے ہیں۔
خود راویٔ حدیث سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث پر عمل کر کے دکھایا۔اگر یہ حدیث ناقابل عمل تھی،تو سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
رہی بات خودساختہ اضطراب کی،تو ’’مدنی‘‘صاحب نے تین باتیں ذکر کی ہیں،ان کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:
1 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے زبانی فرمایا،پھر اس کو عملی طور پر انجام دے کر دکھا بھی دیا۔
٭ جس روایت میں سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے منسوب یہ الفاظ موجود ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا : چہرے اور ہتھیلیوں کے لیے ایک دفعہ مٹی پر ہاتھ مارو۔
(سنن أبي داوٗد : 327، سنن الترمذي : 144، وقال : حسنٌ صحیحٌ، صحیح ابن خزیمۃ : 26، صحیح ابن حبّان : 1303)
اس کی سند میں سعید بن ابو عروبہ اور ان کے استاذ قتادہ بن دعامہ دونوں ’’مدلس‘‘ ہیں، انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی،لہٰذا یہ روایت ’’ضعیف‘‘ہے۔
2 صحیح بخاری(343)میں یہی روایت صراحت کے ساتھ یوں آئی ہے :
وَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکَفَّیْہِ الْـأَرْضَ، وَنَفَخَ فِیہِمَا، ثُمَّ مَسَحَ بِہِمَا وَجْہَہٗ وَکَفَّیْہِ ۔ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر مارا،ان میں پھونک ماری،پھر دونوں ہاتھوں کے ساتھ اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں (کی بیرونی جانب)پر مسح کیا۔‘‘
یہی مطلب و مفہوم صحیح بخاری(347)کے ان الفاظ :
فَضَرَبَ بِکَفِّہِ الْـأَرْضَ ۔ کا ہے۔
3 سنن ابو داؤد (322)میں ہے :
’إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیکَ أَنْ تَقُولَ ہٰکَذَا‘، وَضَرَبَ بِیَدَیْہِ إِلَی الْـأَرْضِ، ثُمَّ نَفَخَہُمَا، ثُمَّ مَسَّ بِہِمَا وَجْہَہٗ وَیَدَیْہِ إِلٰی أَنْصَافِ الذِّرَاعِ‘ ۔
’’آپ کے لیے یہی کافی ہے کہ اس طرح کرو۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر دونوں ہاتھ مبارک مارے، ان میں پھونکا،پھر ان کے ساتھ اپنے چہرے پر اور نصف ذراع تک مسح کیا۔‘‘
یہ الفاظ اس روایت کے راوی سلمہ بن کہیل کا شک اور وہم ہیں۔صحیح حدیث میں کفین(دونوں ہتھیلیوں)کا ذکر ہے۔اسی لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فَأَمَّا رِوَایَۃُ الْمِرْفَقَیْنِ، وَکَذَا نِصفِ الذِّرَاعِ، فَفِیہِمَا مَقَالٌ ۔
’’رہی کہنیوں اور نصف ذراع والی روایات،تو ان میں مقال ہے۔‘‘
(فتح الباري : 445/1)
تنبیہ : ایک روایت میں إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ کے الفاظ ہیں۔
(سنن أبي داوٗد : 328، السنن الکبرٰی للبیہقي : 220/1)
اس روایت کی سند ’’ضعیف‘‘ہے۔اس روایت کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَأَمَّا حَدِیثُ قَتَادَۃَ عَنْ مُّحَدِّثٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ، فَہُوَ مُنْقَطِعٌ، لَا یُعْلَمُ مَنِ الَّذِي حَدَّثَہٗ، فَیُنْظَرُ فِیہِ ۔ ’’رہی قتادہ کی بیان کردہ وہ روایت جس میں ایک محدث کے واسطے سے شعبی سے بیان کرتے ہیں،تو وہ منقطع ہے۔قتادہ کو یہ روایت بیان کرنے والا محدث کون ہے؟ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کے حالات دیکھے جاتے۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 220/1)
اس پر ایک اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ یہی روایت مسند طیالسی(ص : 89)میں موجود ہے اور اس میں شک کے ساتھ یہ الفاظ ہیں : إِلَی الْکُوعَیْنِ أَوِ الْمِرْفَقَیْنِ ۔
لیکن یہ اعتراض بہت بودا ہے،کیونکہ یہ شک امام شعبہ رحمہ اللہ کے استاذ سلمہ بن کہیل کا ہے۔اس حوالے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول ہم چند سطور پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ہماری ذکر کردہ حدیث ِعمار رضی اللہ عنہ امام شعبہ کے استاذ حکم بن عتیبہ نے شک کے بغیر بیان کی ہے۔یہ روایت دیگر راویوں کے موافق ہے،لہٰذا اسے ہی ترجیح حاصل ہو گی۔
دلیل نمبر 2 : (ا) سیدنا ابو جُہَیْم انصاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
أَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ نَحْوِ بِئْرِ جَمَلٍ، فَلَقِیَہٗ رَجُلٌ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِ، فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حَتّٰی أَقْبَلَ عَلَی الْجِدَارِ، فَمَسَحَ بِوَجْہِہٖ وَیَدَیْہِ، ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِ السَّلاَمَ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بئرجمل کی طرف سے تشریف لائے تو ایک آدمی سے ملاقات ہوئی۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سلام کا جواب نہ دیا،یہاں تک کہ ایک دیوار کے پاس تشریف لائے،اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں پر مسح فرمایا ،پھر سلام کا جواب عنایت فرمایا۔‘‘(صحیح البخاري : 337، صحیح مسلم : 369، تعلیقًا)
(ب) اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
أَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَائِطِ، فَلَقِیَہٗ رَجُلٌ عِنْدَ بِئْرِ جَمَلٍ، فَسَلَّمَ عَلَیْہِ، فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حَتّٰی أَقْبَلَ عَلَی الْحَائِطِ، فَوَضَعَ یَدَہٗ عَلَی الْحَائِطِ، ثُمَّ مَسَحَ وَجْہَہٗ وَیَدَیْہِ، ثُمَّ رَدَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الرَّجُلِ السَّلَامَ ۔
’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قضاء ِحاجت سے فارغ ہو کر آئے تو بئرِجمل کے پاس ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا،اس نے سلام عرض کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب نہ دیا،یہاں تک کہ ایک دیوار کے پاس تشریف لائے،اپنے ہاتھ مبارک دیوار پر مارے،پھر اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں پر مسح فرمایا،پھر اس آدمی کے سلام کا جواب مرحمت فرمایا۔‘‘(سنن أبي داوٗد : 331، سنن الدارقطني : 176/1، ح : 666، السنن الکبرٰی للبیہقي : 306/1، وسندہٗ حسنٌ)
احادیث ایک دوسری کی تفصیل و تفسیر کرتی ہیں،لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں ہاتھوں سے مراد ہتھیلیاں ہیں،جیسا کہ دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
بعض الناس کے دلائل اور ان کا تجزیہ
اب وہ روایات اور اصولِ محدثین کی روشنی میں ان کا منصفانہ تجزیہ پیش خدمت ہے، جن کی بنا پر بعض لوگ تیمم کے نبوی طریقے میں تبدیلی کرتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں :
روایت نمبر 1 : مذکورہ حدیث کی ایک روایت میں ہے :
ضَرَبَ بِیَدَیْہِ عَلَی الْحَائِطِ، وَمَسَحَ بِہِمَا وَجْہَہٗ، ثُمَّ ضَرَبَ ضَرْبَۃً أُخْرٰی، فَمَسَحَ ذِرَاعَیْہِ ۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو دیوار پر مارا اور ان کو اپنے چہرۂ مبارک پر پھیرا،پھر دوسری دفعہ ہاتھوں کو دیوار پر مارا اور دونوں بازوؤں پر مسح فرمایا۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 330، سنن الدارقطني : 176/1، ح : 665، شرح معاني الآثار : 85/1)
لیکن اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کے راوی محمد بن ثابت عبدی،ابو عبد اللہ بصری کو جمہور محدثین کرام نے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے،جیسا کہ حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَلَیْسَ ہُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَکْثَرِ الْمُحَدِّثِینَ ۔
’’اکثر محدثین کرام کے نزدیک یہ قوی نہیں۔‘‘(خلاصۃ الأحکام : 217/1)
روایت نمبر 2 : سیدنا ابو جُہَیْم رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ :
فَضَرَبَ الْحَائِطَ بِیَدِہٖ ضَرْبَۃً، فَمَسَحَ بِہَا وَجْہَہٗ، ثُمَّ ضَرَبَ أُخْرٰی، فَمَسَحَ بِہَا ذِرَاعَیْہِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیوار پر ایک ہاتھ مبارک مارا تو اپنے چہرۂ مبارک پر پھیر لیا،پھر دوسری مرتبہ دیوار پر ہاتھ مارا تو کہنیوں تک اپنے ہاتھوں پر مسح فرمایا۔‘‘
(سنن الدارقطني : 674)
یہ جھوٹی روایت ہے ،کیونکہ :
1 محمد بن خلف بن عبد العزیز بن عثمان بن جبلہ کے حالات ِزندگی نہیں مل سکے۔
2 ابو حاتم احمد بن حمدویہ بن جمیل بن مہران مروزی بھی ایسا ہی راوی ہے۔
3 ابو عصمہ نوح بن ابو مریم راوی باتفاقِ محدثین سخت جھوٹا،’’ضعیف‘‘ اور ’’متروک‘‘ ہے۔اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔
ابوعصمہ کی متابعت خارجہ بن مصعب ابو حجاج سرخسی نے کی ہے،اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ ۔
’’اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(طبقات المدلّسین، ص : 54)
نیز فرماتے ہیں : تَرَکَہُ الْجُمْہُورُ ۔ ’’اسے جمہور محدثین نے چھوڑ دیا تھا۔‘‘(نتائج الأفکار : 262/1، کنز العمّال للہندي : 466/9، ح : 26990)
روایت نمبر 3 : ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
أَقْبَلَ عَلَی الْجِدَارِ، فَمَسَحَ بِوَجْہِہٖ وَذِرَاعَیْہِ، ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیوار کے پاس تشریف لائے،اپنے چہرۂ مبارک اور کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں پر مسح فرمایا،پھر سلام کا جواب عنایت فرمایا۔‘‘(سنن الدارقطني : 671)
اس روایت میں ذِرَاعَیْہِ(کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں)کے الفاظ ’’منکر‘‘ہیں۔ ان کو بیان کرنے والا راوی عبد اللہ بن صالح مصری،کاتب اللیث ہے۔اس کے بارے میں امام اہل سنت،احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کَانَ أَوَّلَ أَمْرِہٖ مُتَمَاسِکٌ، ثُمَّ فَسَدَ بِآخِرَۃٍ، وَلَیْسَ ہُوَ بِشَيئٍ ۔
’’یہ شروع میں ثقہ راوی تھا،لیکن آخر عمر میں اس کا حافظہ بگڑ گیا اور یہ ناقابل اعتبار ہو گیا تھا۔‘‘(العلل ومعرفۃ الرجال بروایۃ ابنہ عبد اللّٰہ : 212/3)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَقَعَ الْمَنَاکِیرُ فِي أَخْبَارِہٖ ۔
’’اس کی بیان کردہ احادیث میں منکر روایات شامل ہو گئی تھیں۔‘‘
(المجروحین لابن حبّان : 40/2)
امام ابن حبان رحمہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے : مُنْکَرُ الْحَدِیثِ جِدًّا، یَرْوِي عَنِ الْـأَثْبَاتِ مَا لاَ یُشْبِہُ حَدِیثَ الثِّقَاتِ، وَعِنْدَہُ الْمَنَاکِیرُ الْکَثِیرَۃُ عَنْ أَقْوَامِ مَشَاہِیرِ أَئِمَّۃٍ، وَکَانَ فِي نَفسِہٖ صَدُوقًا، یَکْتُبُ لِلَیْثِ بْنِ سَعْدٍ الْحِسَابَ، وَکَانَ کَاتِبَہٗ عَلَی الْغَلَّاتِ، وَإِنَّمَا وَقَعَ الْمَنَاکِیرُ فِي حَدِیثِہٖ مِنْ قِبَلِ جَارٍ لَّہٗ رَجُلٍ سَوْئٍ ۔
’’اس کی بیان کردہ احادیث سخت منکر ہیں۔یہ ثقہ راویوں سے ایسی روایات بیان کرتا ہے جو ثقہ راویوں کے موافق نہیں ہوتیں۔اس کے پاس بہت سی منکر روایات ہیں،جو اس نے مشہور ائمہ سے منسوب کی ہیں۔دراصل یہ خود تو سچا تھا اور لیث بن سعد کے غلوں پر اس کے حساب کتاب لکھتا تھا،لیکن ایک خبیث پڑوسی کی جانب سے اس کی حدیثوں میں منکر روایات کی ملاوٹ ہو گئی۔‘‘(المجروحین : 40/2)
یہ بھی اس کی ’’منکر‘‘روایت ہے،کیونکہ صحیح بخاری(337)میں لیث کے شاگرد یحییٰ بن بکیر نے فَمَسَحَ بِوَجْہِہٖ وَیَدَیْہِ کے الفاظ بیان کیے ہیں۔اسی طرح محمد بن اسحاق کے استاذ عبد الرحمن بن ہرمز نے بھی یہی صحیح بخاری والے الفاظ بیان کیے ہیں۔
(مسند الإمام أحمد : 24277، وسندہٗ حسنٌ)
حدیث ِابن عمر رضی اللہ عنہما (سنن أبي داوٗد : 331، وسندہٗ حسنٌ)بھی صحیح بخاری والے الفاظ کی تائید کرتی ہے۔
روایت نمبر 4 : ایک روایت ان الفاظ سے ہے :
ثُمَّ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلَی الْجِدَارِ، فَمَسَحَ وَجْہَہٗ وَذِرَاعَیْہِ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيَّ ۔
’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیوار پر ہاتھ مبارک مارے اور اپنے چہرۂ مبارک اور کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں پر پھیرا،پھر میرے سلام کا جواب مرحمت فرمایا۔‘‘
(مسند الشامیّین : 44/1، السنن الکبرٰی للبیہقي : 205/1، شرح السنّۃ للبغوي : 310)
یہ روایت سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ :
1 امام شافعی رحمہ اللہ کے استاذ ابراہیم بن محمدبن ابویحییٰ اسلمی،ابو اسحاق مدنی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ہُوَ مَتْرُوکٌ عِنْدَ الْجُمْہُورِ ۔
’’جمہور کے نزدیک یہ راوی متروک ہے۔‘‘(دیوان الضعفائ، ص : 13)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أَکْثَرُ أَہْلِ الْحَدِیثِ عَلٰی تَضْعِیفِ (إِبْرَاہِیمِ) بْنِ أَبِي یَحْیٰی ۔ ’’اکثر محدثین کرام ابراہیم بن ابویحییٰ کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔‘‘(التلخیص الحبیر : 22/1)
نیز فرماتے ہیں : ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ ۔ ’’اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف کہا ہے۔‘‘(طبقات المدلّسین، ص : 52)
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فَالْجُمْہُورُ عَلٰی تَضْعِیفِہٖ ۔
’’جمہور محدثین کرام اس کو ضعیف ہی قرار دیتے ہیں۔‘‘
(البدر المنیر في تخریج أحادیث والآثار الواقعۃ في الشرح الکبیر : 469/1، 375/5، 567/6)
علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں : ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ ۔ ’’اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(عمدۃ القاري : 82/11)
2 اس کا راوی عبد الرحمن بن معاویہ ابو حارث بھی جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے، جیسا کہ حافظ ہیثمی کہتے ہیں : وَالْـأَکْثَرُ عَلٰی تَضْعِیفِہٖ ۔
’’اکثر محدثین تو اسے ضعیف ہی کہتے ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد : 33-32/1)
3 اس کی سند ’’منقطع‘‘ہے،عبد الرحمن بن ہرمز کا سیدنا ابو جُہَیْم سے سماع نہیں۔
روایت نمبر 5 : سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے منسوب مرفوع روایت ہے :
’اَلتَّیَمُّمُ؛ ضَرْبَۃٌ لِّلْوَجْہِ، وَضَرْبَۃٌ لِّلذِّرَاعَیْنِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ‘ ۔
’’تیمم میں ایک ضرب(مٹی پر ہاتھ مارنا)چہرے کے لیے اور دوسری ضرب کہنیوں تک ہاتھوں کے لیے۔‘‘
(سنن الدارقطني : 181/1، المستدرک للحاکم : 180/1، السنن الکبرٰی للبیہقي : 207/1)
اس کی سند ابوزبیر کی ’’تدلیس‘‘کی بنا پر ’’ضعیف‘‘ہے۔
روایت نمبر 6 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’اَلتَّیَمُّمُ ضَرْبَتَانِ، ضَرْبَۃٌ لِّلْوَجْہِ، وَضَرْبَۃٌ لِّلْیَدَیْنِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنَ‘ ۔ ’’تیمم میں دو دفعہ مٹی پر ہاتھ مارا جاتا ہے؛ ایک دفعہ چہرے کے لیے اور دوسری دفعہ کہنیوں تک ہاتھوں کے لیے۔‘‘
(سنن الدارقطني : 180/1، المستدرک للحاکم : 179/1، المعجم الکبیر للطبراني : 3678)
اس کی سند بھی سخت ’’ضعیف‘‘ہے۔اس کے راوی علی بن ظبیان کو اگرچہ امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صدوق‘‘کہا ہے،لیکن ان کے ردّ و تعاقب میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
بَلْ وَاہٍ ۔ ’’بلکہ یہ کمزور راوی ہے۔‘‘
اس راوی کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے لَیْسَ بِشَيئٍ (بے کار)کہا ہے۔
امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک الحدیث‘‘قرار دیا ہے۔(الجرح والتعدیل : 191/6)
امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’متروک الحدیث‘‘کہا ہے۔(الضعفاء والمتروکون : 433)
امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَاہِي الْحَدِیثِ جِدًّا ۔
’’اس کی بیان کردہ حدیث سخت ضعیف ہوتی ہے۔‘‘(الضعفاء : 429/2)
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَالضَّعْفُ عَلٰی حَدِیثِہٖ بَیِّنٌ ۔
’’اس کی بیان کردہ حدیث پر کمزوری واضح نظر آتی ہے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 189/5)
اس کے علاوہ بھی کئی محدثین کی جروح بھی اس پر موجود ہیں۔
روایت نمبر 7 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ :
تَیَمَّمْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِضَرْبَتَیْنِ، ضَرْبَۃٍ لِّلْوَجْہِ وَالْکَفَّیْنِ، وَضَرْبَۃٍ لِّلذِّرَاعَیْنِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ ۔
’’ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں دو دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر تیمم کیا؛ ایک دفعہ چہرے اور ہتھیلیوں کے لیے ہاتھ مارا اور دوسری دفعہ کہنیوں تک بازؤوں کے لیے۔‘‘
(سنن الدارقطني : 689)
اس روایت کی سند بھی سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے، کیونکہ :
1 سلیمان بن ارقم راوی ’’متروک‘‘ہے۔
حافظ سہیلی(581-508ھ)فرماتے ہیں :
أَبُو مَعَاذٍ سُلَیْمَانُ بْنُ أَرْقَمَ، وَہُوَ ضَعِیفٌ بِإِجْمَاعٍ ۔
’’ابو معاذ سلیمان بن ارقم کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہے۔‘‘
(الروض الأنف : 112/7)
2 امام زہری رحمہ اللہ ’’مدلس‘‘ہیں۔
روایت نمبر 8 : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
ثُمَّ ضَرَبَ بِیَدِہٖ عَلَی الْـأَرْضِ لِوَجْہِہٖ ضَرْبَۃً وَاحِدَۃً، ثُمَّ ضَرَبَ ضَرْبَۃً أُخْرٰی، فَمَسَحَ بِہَا عَلٰی یَدَیْہِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ ۔
’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی پر ایک دفعہ اپنا دست ِمبارک چہرۂ مبارک پر مسح کے لیے مارا، پھر دوسری دفعہ کہنیوں تک ہاتھوں کے مسح کے لیے مٹی پر ہاتھ مارا۔‘‘
(التحقیق في مسائل الخلاف لابن الجوزي : 269، نصب الرایۃ للزیلعي : 154/1)
اس روایت کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے،کیونکہ مثنّٰی بن صباح راوی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے۔اس کے بارے میں حافظ ہیثمی لکھتے ہیں : وَہُوَ مَتْرُوکٌ عِنْدَ الْجُمْہُورِ ۔
’’جمہور محدثین کرام کے نزدیک یہ راوی متروک ہے۔‘‘(مجمع الزوائد : 297/4)
نوٹ : [الْمِرْفَقَیْن] کے الفاظ اصلی کتاب سنن کبریٰ بیہقی سے مل ہی نہیں سکے۔
روایت نمبر 9 : اسلع بن شریک سے روایت ہے :
فَضَرَبَ بِکَفَّیْہِ الْـأَرْضَ، ثُمَّ نَفَضَہُمَا، ثُمَّ مَسَحَ بِہِمَا وَجْہَہٗ، ثُمَّ أَمَّرَ عَلٰی لِحْیَتِہٖ، ثُمَّ أَعَادَہُمَا إِلَی الْـأَرْضِ، فَمَسَحَ بِہِمَا الْـأَرْضَ، ثُمَّ دَلَکَ إِحْدَاہُمَا بِالْـأُخْرٰی، ثُمَّ مَسَحَ ذِرَاعَیْہِ ظَاہِرَہُمَا وَبَاطِنَہُمَا ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر مارا، ان کو جھاڑا،دونوں کو چہرۂ مبارک پر پھیرا اور اپنی داڑھی مبارک پر مسح کیا۔پھر زمین پر ہاتھوں کو مارا،ایک ہتھیلی کو دوسری ہتھیلی پر پھیرا،پھر اپنے بازوؤں کے باہر اور اندر والے حصے پر مسح فرمایا۔‘‘
(سنن الدارقطني : 179/1، المعجم الکبیر للطبراني : 876، السنن الکبرٰی للبیہقي : 208/1)
یہ روایت سخت ’’ضعیفـ‘‘ہے،کیونکہ :
1 اس کا راوی ربیع بن بدر جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔
2 اس کا باپ بدر بن عمرو ’’مجہول‘‘ہے۔
3 ربیع کے دادا عمرو بن جراد سعدی کا بھی یہی حال ہے۔
روایت نمبر 0 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :
’ضَرْبَتَیْنِ؛ ضَرْبَۃٌ لِّلْوَجْہِ وَضَرْبَۃٌ لِّلْیَدَیْنِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ‘ ۔
’’تیمم میں دو دفعہ مٹی پر ہاتھ مارے جائیں؛ ایک دفعہ چہرے کے لیے اور دوسری دفعہ کہنیوں تک ہاتھوں کے لیے۔‘‘
(سنن الدارقطني : 181/1، مسند البزّار : 6088، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 180-179/1)
یہ روایت سخت ترین’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کے راوی سلیمان بن ابوداؤد کو جمہور محدثین کرام نے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔
اس روایت کے بارے میں امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ بَاطِلٌ، وَسُلَیْمَانُ ضَعِیفُ الْحَدِیثِ ۔
’’یہ جھوٹی حدیث ہے اور اس کا راوی سلیمان ضعیف ہے۔‘‘
(علل الحدیث لابن أبي حاتم : 54/1، ح : 137)
علامہ مغلطائی کہتے ہیں : ذَکَرَہٗ أَبُو الْحَسَنِ الْمُقْرِیُٔ فِي سُنَنِہٖ، وَضَعَّفَہٗ أَبُو حَاتِمٍ ۔ ’’اسے ابو الحسن مقری نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے اور امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(شرح ابن ماجہ : 691/2)
روایت نمبر ! : سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’التَّیَمُّمُ ضَرْبَۃٌ لِلْوَجْہِ، وَضَرْبَۃٌ لِلْکَفَّیْنِ‘ ۔
’’تیمم میں مٹی پر ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ہتھیلیوں کے لیے ہے۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبراني : 245/8، ح : 7959)
یہ بے اصل اور باطل روایت ہے۔ اس کا راوی جعفر بن زبیر شامی دنیا کا جھوٹا ترین، ’’متروک الحدیث‘‘ اور ’’ساقط الحدیث‘‘ راوی ہے۔
روایت نمبر @ : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’فِي التَّیَمُّمِ ضَرْبَتَیْنِ؛ ضَرْبَۃٌ لِّلْوَجْہِ، وَضَرْبَۃٌ لِّلْیَدَیْنِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ‘ ۔
’’تیمم میں دو ضربیں ہیں؛ ایک چہرے پر مسح کے لیے اور دوسری کہنیوں تک ہاتھوں کے مسح کے لیے۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 442/2، مسند البزّار : 240، المحلّٰی لابن حزم : 152/2)
اس کی سند بھی ’’ضعیف‘‘ہے۔اس کا راوی حَرِیش بن خِرِّیت جمہور محدثین کے نزدیک غیر ثقہ اور غیر معتبر ہے۔اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’فیہ نظر‘‘ فرمایا ہے۔
(التاریخ الکبیر : 114/3، نصب الرایۃ للزیلعي : 151/1)
امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَاہِي الْحَدِیثِ ۔
’’اس کی حدیث کمزور ہے۔‘‘(میزان الاعتدال للذہبي : 476/1)
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حَدِیثٌ مُّنْکَرٌ، وَالْحَرِیشُ شَیْخٌ لَّا یُحْتَجُّ بِحَدِیثِہٖ ۔ ’’یہ منکر حدیث ہے اور حریش ایسا راوی ہے جس کی بیان کردہ حدیث کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘(العلل لابن أبي حاتم : 54/1)
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَلَا أَعْرِفُ لَہٗ کَثِیرَ حَدِیثٍ، فَأَعْتَبِرَ حَدِیثَہٗ، فَأَعْرِفَ ضُعْفَہٗ مِنْ صِدْقِہٖ ۔ ’’میں اس کی زیادہ حدیثیں نہیں جانتا کہ اس کی حدیث کو جانچ کر توثیق یا تضعیف کا فیصلہ کر سکوں۔‘‘(الکامل : 442/2)
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یُعْتَبَرُ بِہٖ ۔ ’’اس کی حدیث کو صرف متابعات اور شواہد میں لیا جائے گا۔‘‘(سؤالات البرقاني : 111)
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘کہا ہے۔(المحلّٰی : 152/2)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے کمزور قرار دیا ہے۔(الکاشف : 155/1)
علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں : وَہُوَ ضَعِیفٌ، لَا یُحْتَجُّ ۔
’’یہ ضعیف راوی ہے،اس کی بیان کردہ حدیث دلیل نہیں بن سکتی۔‘‘(البدر المنیر : 12/2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ’’ضعیف‘‘ راوی ہے۔(تقریب التہذیب : 1187)
حافظ بوصیری لکھتے ہیں : حَرِیشُ بْنُ خِرِّیتٍ مُّتَّفَقٌ عَلٰی ضَعْفِہٖ ۔
’’حریش بن خریت کے ضعیف ہونے پر (اکثر)محدثین کرام کا اتفاق ہے۔‘‘
(مصباح الزجاجۃ في زوائد ابن ماجہ : 153/1)
یوں یہ روایت بھی ’’ضعیف‘‘ اور ’’منکر‘‘ہے۔
الحاصل : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تیمم کا جو طریقہ ثابت ہے،وہ اس طرح ہے کہ مٹی پر دونوں ہاتھوں کو ایک ہی دفعہ مارا جائے،پھر ان میں پھونکنے کے بعد ان کو اپنے چہرے پر مسح کیا جائے،پھر اپنے دونوں ہاتھوں کی بیرونی جانب مسح کیا جائے۔
جو لوگ تقلید کے نتیجے میں اس نبوی طریقے کو چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اپناتے ہیں،ان کے پاس اس بارے میں کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔اس سلسلے میں ان کی کل کائنات کا حال آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔
مقلدین کی پیش کردہ روایات کے تجزیے سے یہ بات روز ِروشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو بار مٹی پر ہاتھ مارنا قطعاً ثابت نہیں۔اس طریقے کو کسی بھی طرح سنت ِ نبوی قرار دینا جائز نہیں۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سنت ِرسول کا اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.