1,112

نبی کریمﷺ قبر میں حاضر نہیں ہوتے، شیخ الحدیث، علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم وقت ِ سوال قبر میں حاضر نہیں ہوتے!
حافظ ابویحییٰ نورپوری

محمد رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر میں وقت ِ سوال ہر میت کے پاس حاضروناظر ہونا صحیح حدیث میں تو درکنار ، کسی ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں ۔ سلف صالحین میں اس کا کوئی قائل نہیں ، لہٰذا یہ بدعی اورگمراہ عقیدہ ہے۔
قبر میں میت سے تین سوالات پوچھے جاتے ہیں ، جن میں سے ایک سوال یہ بھی ہے :
ما کنت تقول فی ہذا الرجل ۔۔۔۔
”تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا ۔”
(صحیح البخاری : ١٣٤٧)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ ہذا اشارہ قریب کے لیے آتا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ئا کرم  صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں ہر میت کے پاس حاضر ہوتے ہیں ۔ اس بنا پر اس حدیث سے یہ مسئلہ کشید کرنا تحریف ِ دین اور جہالت کی بات ہے ، جیسا کہ :
1    سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ  کو نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا : ارکب إلی ہذا الوادی ، فاعلم لی علم ہذا الرجل الذی یزعم أنّہ نبیّ ۔
”تو اس وادی کی طرف جا اور میرے لیے اس شخص کا حال معلوم کر ، جو اللہ تعالیٰ کا نبی ہونے کا دعویدار ہے۔”
(صحیح البخاری : ١/٥٤٤، ح : ٣٨٦١، صحیح مسلم : ٢/٢٩٧، ح : ٢٤٧٤)
اس حدیث میں سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ  مکہ کو ہذا الوادی اور نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو ہذا الرجل کے الفاظ کے ساتھ تعبیر کررہے ہیں ، کہاں قبیلہ غفار اور کہاں مکہ ! کیا کوئی عاقل انسان کہہ سکتا ہے کہ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ  کے ہاں مکہ حاضر تھا؟ یا نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  حاضر وناظر تھے اور وہ اپنے بھائی کو نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے متعلق جاننے کے لیے مکہ بھیجتے رہے ہیں؟
2    سیدنا عمرو بن سلمہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں :
کنّا بماء ممرّ الناس ، وکان یمرّ بنا الرکبان ، فنسألھم ما للناس ، ما ہذا الرجل ، فیقولون : یزعم أنّ اللّٰہ أرسلہ ، أوحٰی إلیہ ، أوحی اللّٰہ کذا ۔
”ہم لوگوں کی گزرگاہ اورچشمے کے پاس رہائش پذیر تھے ، ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے ، ہم ان سے پوچھا کرتے تھے کہ لوگوں کا کیاحال ہے ، وہ آدمی کیا ہے؟ لوگ جواب دیتے تھے کہ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بھیجا ہے ، اس کی طرف یہ یہ وحی کی ہے۔”
(صحیح البخاری : ١/٦١٥، ح : ٤٣٠٢)
سیدنا عمرو بن سلمہ وغیرہ قافلوں سے نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہذا الرجل کے الفاظ استعمال کرکے پوچھتے تھے ، کیا نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم وہاں حاضر ناظر تھے ؟
3    ہرقل نے سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ  اور کفار ِ قریش سے نبی ئ پاک   صلی اللہ علیہ وسلم  کے بارے میں دریافت کیا : أیّکم أقرب نسبا بھذا الرجل الذی یزعم أنّہ نبیّ ۔۔۔ إنّی سائل عن ھذا الرجل ۔۔۔
”تم میں سے کون نسب کے اعتبار سے اس شخص کے زیادہ قریب ہے ، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے ۔۔۔ میںاس شخص کے بارے میں سوال کروں گا۔”
(صحیح البخاری : ١/٤، ح : ٧، صحیح مسلم : ٢/٩٧، ح : ١٧٧٣)
ذخیرہئ حدیث میں اس کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں ۔
نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں وقت ِ سوال حاضر نہیں ہوتے ، کیونکہ :
دلیل نمبر 1 : میت سے پوچھا جاتا ہے کہ :
ما کنت تقول فی ہذا الرجل ، لمحمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فأمّا المؤمن فیقول : أشہد أنّہ عبدہ ورسولہ ۔
”تو اس شخص یعنی محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتا تھا ، مؤمن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اوررسول ہیں۔”(صحیح البخاری : ١٣٤٧)
اس حدیث میں ہذا الرجل کی وضاحت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کہہ کر کی گئی ہے ، اگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم وہاں حاضر ہوتے ہیں تو پھر اس وضاحت کی کیا ضرورت ہے؟
دلیل نمبر 2 : سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے :
فیقال : ما ہذا الرجل الذی کان فیکم ؟ فیقول : محمّد رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم جاء نا بالبیّنات من عند اللّٰہ عزّ وجلّ فصدّقناہ ۔۔۔
”(قبر میں بوقت ِ سوال )کہا جائے گا ، وہ شخص کون تھا جو تمہارے اندر مبعوث ہوا تھا، وہ(مؤمن)کہے گا ، وہ محمدرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم تھے ، جو ہمارے پاس اللہ عزوجل کی طرف سے واضح آیات لے کر آئے تھے ، ہم نے ان کی تصدیق کی تھی۔۔۔”
(مسند الامام احمد : ٦/١٤٠، وسندہ، صحیحٌ)
یہ صریح حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق صرف قبر میں میت سے پوچھا جاتا ہے ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔
دلیل نمبر 3 : سیدہ اسماء بنت ِ ابی بکر رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت سے کہا جاتا ہے : ما ذا تقول فی ہذا الرجـل ، یعنی النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ؟ قال : من ؟
”تو اس شخص ، یعنی نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہتا ہے ، وہ (کافروفاسق)کہتا ہے، کون؟”(مسند الامام احمد : ٦/٣٥٢، وسندہ، صحیحٌ)
اسی روایت کے الفاظ ہیں کہ میت سے کہا جاتا ہے :
ما ذا تقول فی ہذا الرجل ؟ قال : أیّ رجل ؟ قال : محمّد ۔
”تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے ، وہ کہتا ہے ، کون سا آدمی ؟وہ (فرشتہ) کہتا ہے ، محمد  صلی اللہ علیہ وسلم ۔”
(مسند الامام احمد : ٦/٣٥٣، المعجم الکبیر للطبرانی : ٢٤/١٢٥، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث سے واضح ثابت ہورہا ہے کہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں سوال کے وقت حاضر نہیں ہوتے ہیں ، ورنہ مَنْ اور أَیُّ رَجُلٍ کا کیا معنیٰ ؟
دلیل نمبر 4 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میت سے کہا جاتا ہے :
أرأیتک ہذا الرجل الذی کان فیکم ، ماذا تقول فیہ ، وماذا تشہد بہ علیہ ؟ فیقول : أیّ رجل ، فیقال : الذی کان فیکم ، فلا یھتدی لاسمہ ، حتی یقــــــال لہ : محـــــــمّــــــــد ۔۔۔
”اس شخص کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے ، جو تم میں مبعوث ہوا تھا ، اس کے بارے میں تو کیا کہتا ہے اور تو اس پر کیا گواہی دیتا ہے ، وہ کہے گا ، کون سا آدمی ؟ اس سے کہا جائے گا ، وہ جو تم میں مبعوث ہوا تھا ، وہ اس کا نام نہیں جان پائے گا ، حتی کہ اسے کہا جائے گا ، محمد(  صلی اللہ علیہ وسلم )۔۔۔”
(صحیح ابن حبان : ٣١١٣، الاوسط للطبرانی : ٢٦٣٠، المستدرک للحاکم : ١/٣٧٩،٣٨٠، ٣٨١، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان(٣١١٣)نے ”صحیح” کہا ہے ، امام حاکم (١/٣٨٠۔٣٨١) نے امام مسلم کی شرط پر ”صحیح” کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ہیثمی کہتے ہیں : وإسنادہ، حسن ۔ ”اس کی سند حسن ہے۔”
(مجمع الزوائد : ٣/٥١۔٥٢)
اس حدیث پاک نے روز ِ روشن کی طرح واضح کردیا ہے کہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے متعلق قبر میں صرف پوچھا جاتا ہے ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں موجود نہیں ہوتے۔
علامہ احمد قسطلانی رحمہ اللہ  ہذا الرجل کی تشریح میں بیان کرتے ہیں :
عبّر بذلک امتحانا لئلّا یتلقّن تعظیمہ عن عبارۃ القائل ، قیل : یکشف للمیّت حتّی یری النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وہی بشری عظیمۃ للمؤمن إن صحّ ذلک ، ولا نعلم حدیثا صحیحا مرویّا فی ذلک ، والقائل بہ إنّما استند لمجرّد أنّ الإشارۃ لا تکون إلّا للحاضر ، لکن یحتمل أن تکون الإشارۃ لما فی الذہن فیکون مجاز ۔ ”نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو ہذا الرجل سے مردے کا امتحان کے لیے تعبیر کیا گیا ہے تاکہ قائل (فرشتے )کے کہنے سے وہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم سمجھ نہ پائے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ میت سے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے ، حتی کہ وہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ لیتی ہے اوراگر یہ بات درست ہو تو یہ مؤمن کے لیے بہت بڑی بشارت ہے ، لیکن ہم اس بارے میں مروی ایک بھی صحیح حدیث نہیں جانتے ۔ اس قول والوں نے صرف اس بات سے استدلال کیا ہے کہ اشارہ صرف حاضر کو کیا جاتا ہے ، لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ اشارہ اس چیز کی طرف ہو ، جو ذہن میں موجو دہے ، چنانچہ یہ مجاز ہوگا۔”
(تحفۃ الاحوذی لمحمد عبد الرحمن المبارکفوری : ٤/١٥٥)
حافظ سیوطی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وسئل : ہل یکشف لہ حتّی یری النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ؟ فأجاب أنّہ لم یرد حدیث ، وإنّما إدّعاہ بعض من لا یحتجّ بہ بغیر مستند سوی قولہ : فی ہذا الرجل ، ولا حجّۃ فیہ ، لأنّ الإشارۃ إلی الحاضر فی الذہن ۔
”حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا میت سے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے ، حتی کہ وہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھ لیتی ہے ؟ آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اس بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی ، بلکہ یہ بعض ان لوگوں کا بے دلیل دعویٰ ہے ، جن کا کوئی اعتبار نہیں ، صرف یہ دلیل ہے کہ حدیث میں ہذا الرجل کے لفظ آئے ہیں ، لیکن ان الفاظ میں کوئی دلیل موجود نہیں ، کیونکہ یہاں اشارہ اس چیز کی طرف ہے ، جو ذہن میں حاضر ہے۔”
(شرح الصدور للسیوطی : ص ٦٠، طبع مصر)
ثابت ہوا کہ ہذا الرجل سے یہ استدلال پکڑنا کہ میت کو قبر میں نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرائی جاتی ہے ، بالکل باطل نظریہ ہے۔اس کے باوجود جناب زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”مرنے کے بعد قبر میں سب سے پہلے سیدالکونین   صلی اللہ علیہ وسلم  کی زیارت ہوگی ۔”
(داڑھی کا وجوب از زکریا تبلیغی : ص ٩)
نیز محمدیعقوب نانوتوی دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
”بجائے ہمارے جنازے پر تشریف لانے کے حضور قبر میں ہی تشریف لائیں گے۔”
(قصص الاکابر از اشرف علی تھانوی : ص ١٨٨)
ان کی بات کا ردّ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب کی بات سے ہوتا ہے ، وہ کہتے ہیں: یکفی العہد فقط ، ولا دلیل علی المشاہدۃ ۔
”یہاں عہد ِ ذہنی کا معنیٰ ہی کافی ہے ، مشاہدہ پر کوئی دلیل نہیں۔”
(العرف الشذی از انور شاہ کشمیری : ٢/٤٥٠)
ثابت ہوا کہ بقولِ شاہ صاحب ، زکریا صاحب اور یعقوب نانوتوی صاحب کی بات بے دلیل اوربے اصل ہے۔بے دلیل بات ناقابلِ التفات ہوتی ہے۔
من فارق الدلیل ، فقد ضلّ عن سواء السبیل !
(جو دلیل سے تہی دامن ہوتا ہے ، صراط ِ مستقیم سے بھٹک جاتا ہے)
ہذا الرجل کے تحت علامہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
أی الرجل المشہور بین أظہرکم ، ولا یلزم منہ الحضور ، وترک ما یشعر بالتعظیم لئلّا یصیر تلقینا ، وہو یناسب موضع الاختیبار ۔
”یعنی وہ آدمی جو تمہارے ہاں مشہور تھا ، اس سے (نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر میں)حاضر ہونا لازم نہیں آتا ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ لینا اس لیے ہے کہ تعظیم ظاہر نہ ہو اور یہ تلقین نہ بن جائے ، امتحان کے مناسب یہی بات ہے۔”(حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ ، تحت حدیث : ٤٢٥٨، حاشیۃ السندی علی النسائی : ٤/٩٧، ح : ٢٠٥٢)
فائدہ جلیلہ : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں جھاڑو دیتی تھی۔ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گم پایا تو اس کے بارے میں پوچھا تو صحابہ کرام ] نے عرض کیا ، وہ فوت ہوگئی ہے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أفلا کنتم آذنتمونی ؟ قال : فکأنّھم صغّروا أمرہا أو أمرہ ، فقال : دلّونی علی قبرہ ، فدلّوہ ، فصلّی علیھا ۔
”تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی ؟ گویا انہوں نے اس کے معاملہ کو معمولی سمجھا تھا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، مجھے اس کی قبر بتاؤ ، صحابہ کرام نے اس کی قبر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر نماز ِ جنازہ پڑھی۔”
(صحیح البخاری : ١٣٣٧، صحیح مسلم : ٩٥٦، واللفظ لہ)
اگر نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ہر میت کی قبر میں بوقت ِ سوال حاضر ہوتے ہیں تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عورت کے فوت ہونے کی اطلاع کیوں نہ تھی؟
الحاصل : نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم وقت ِ سوال قبر میں حاضر نہیں ہوتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.