566

نماز میں سلام کا جواب۔۔۔ علامہ غلام مصفطی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

نمازی کو سلام کہنا جائز اور صحیح ہے ، حالت ِ نماز میں سلام کا جواب کلام کر کے نہیں ، بلکہ اشارے کے ساتھ دینا سنت ہے ، کلام کر کے سلام کا جواب لوٹانا منسوخ ہے ۔
دلیل نمبر 1 :      عن جابر ، قال : أرسلنی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وھو منطلق الی بنی المصطلق ، فأتیتہ وھو یصلّی علی بعیرہ ، فکلّمتہ، فقال لی بیدہ ھکذا ، وأومأ زھیر بیدہ ، ثمّ کلّمتہ ، فقال لی ھکذا ، فأومأ زھیر أیضا بیدہ نحو الأرض ، وأنا أسمعہ یقرأ ، یؤمیء برأسہ ، فلمّا فرغ قال : ما فعلت فی الّذی أرسلتک لہ ؟ فانّہ لم یمنعنی أن أکلّمک الّا أنّی کنت أصلّی ۔
سیدنا جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بنومصطلق کی طرف بھیجا ، میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر (نفلی)نماز پڑھ رہے تھے ، میں نے آپ پر سلام کہا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے جواب لوٹایا (زہیر راوی نے ہاتھ سے اشارہ کر کے دکھایا) ، میں نے پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو سلام کہا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا (زہیر نے اپنا ہاتھ زمین کی طرف جھکایا) ، میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی قراء ت سن رہا تھا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے سر کے ساتھ اشارہ فرما رہے تھے ۔ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  فارغ ہوئے تو فرمایا ، میں نے تجھے جس کام کے لیے بھیجا تھا ، اس بارے میں کیا کِیا؟ مجھے کلام کرنے سے صرف یہ بات روک رہی تھی کہ میں نماز پڑھ رہا تھا ۔”
(صحیح بخاری : ١٢١٧، صحیح مسلم : ٥٤٠ ، واللفظ لہ )
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نمازی کو سلام کہنے اور اس کا اشارے سے جواب لوٹانا جائز ہے ۔
دلیل نمبر 2 :      سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں :
خرج رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم الی قباء یصلّی فیہ ، قال : فجاء تہ الأنصار ، فسلّموا علیہ وھو یصلّی ، قال : فقلت لبلال : کیف رأیت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یردّ علیھم حین کانوا یسلّمون علیہ ، وھو یصلّی ؟ قال : یقول ھکذا ، وبسط کفّہ ۔ ”نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  مسجد ِ قباء میں نماز کے لیے نکلے ، انصار صحابہ آئے اور انہوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو سلام کہا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نماز میں تھے ، سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، میں نے بلال  رضی اللہ عنہ  سے پوچھا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  حالت ِ نماز میں کس طرح جواب لوٹاتے تھے ؟ اس پر سیدنا بلال  رضی اللہ عنہ  نے اپنی ہتھیلی پھیلائی ۔ (راوی جعفر بن عون نے اپنی ہتھیلی کاباطنی حصہ نیچے کی طرف اور اس کی پشت اوپر کی طرف کی)۔”(سنن ابی داو،د : ٩٢٧ ، سنن الترمذی : ٣٦٨ ، مسند الامام احمد : ٦/١٢، وسندہ، حسنٌ)
امام ترمذی  رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”حسن صحیح” کہا ہے ۔امام ابن الجارود  رحمہ اللہ (٢١٥)اور حافظ نووی  رحمہ اللہ  (خلاصۃ الاحکام : ١/٥٠٨) نے ”صحیح” قرار دیا ہے ۔
دلیل نمبر 3 :      عن صھیب أنّہ قال : مررت برسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وھو یصلّی ، فسلّمت علیہ ، فردّ اشارۃً ۔ ”سیدنا صہیب  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس سے گزرا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نماز پڑھ رہے تھے ،میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر سلام کہا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اشارے کے ساتھ جواب دیا ۔”(سنن ابی داو،د : ٩٢٥ ، سنن الترمذی : ٣٦٧ ، سنن النسائی : ١١٨٧ ، مسند الامام احمد : ٤/٣٣٢ ، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی  رحمہ اللہ  نے ”حسن” کہا ہے ، جبکہ امام ابن الجارود  رحمہ اللہ (٢١٦)اور امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ (٢٢٥٩) نے ”صحیح” قرار دیا ہے ۔
اس حدیث کا ایک شاہد ”صحیح” سند کے ساتھ سنن النسائی (١١٨٨)، سنن ابنِ ماجہ(١٠١٧) اور مسند الحمید ی(١٤٨) وغیرہ میں موجود ہے ۔ اس کوامام ابنِ خزیمہ  رحمہ اللہ  (٨٨٨)اور امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ (٢٢٥٨)نے ”صحیح” کہا ہے ۔امام حاکم  رحمہ اللہ (٣/١٢)نے اسے بخاری ومسلم کی شرط پر”صحیح” کہا ہے ، حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
ان احادیث ِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ نمازی کو سلام کہنا اور اس کااشارے کے ساتھ جواب لوٹانا جائز اور درست ہے ۔
دلیل نمبر 4 :      انّ عبد اللّٰہ بن عمر مرّ علی رجل ، وھو یصلّی ، فسلّم علیہ ، فردّ الرّجل کلاماً ، فرجع الیہ عبد اللّٰہ بن عمر ، فقال لہ : اذا سلّم علی أحدکم ، وھو یصلّی ، فلا یتکلّم ، ولیشر بیدہ ۔ ”سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  ایک آدمی کے پاس سے گزرے ، وہ نماز پڑھ رہا تھا ، آپ نے اسے سلام کہا ، اس نے بول کر جواب دیا ، سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  اس کی طرف لوٹے اور اسے فرمایا ، جب تم میں سے کسی ایک کو سلام کہا جائے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو تو وہ کلام نہ کرے ، بلکہ اپنے ہاتھ کے ساتھ اشارہ کر دے ۔”(المؤطا للامام مالک : ١/١٦٨، مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٧٤ ، ح : ٤٧٤٩، واسنادہ، صحیح کالشمس وضوحاً)
دلیل نمبر 5 :      عن عطاء أنّ موسیٰ بن عبد اللّٰہ بن جمیل الجمحیّ سلّم علی ابن عبّاس ، وھو یصلّی ، فأخذہ بیدہ ۔ ”عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ موسیٰ بن عبداللہ بن جمیل جمحی نے سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما  کو سلام کہا ، آپ نماز میں تھے ، آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا (یہ آپ کی طرف سے سلام کا جواب تھا)۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٢٥٩ ، مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٧٣ ، وسندہ، صحیحٌ)
دلیل نمبر 6 :      عن أبی مجلز ، سئل عن الرّجل یسلّم علیہ فی الصّلاۃ ، قال : یردّ بشقّ رأسہ الأیمن ۔ ”ابو مجلز (لاحق بن حمید تابعی) رحمہ اللہ  سے ایسے نمازی کے بارے میں سوال کیا گیا ، جس کو سلام کہا جائے ، آپ نے فرمایا ، وہ اپنے سر کی دائیں جانب کے ساتھ (اشارہ کرتے ہوئے) جواب لوٹائے ۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٧٣ ، ح : ٤٨٥٠ ، وسندہ، صحیحٌ)
امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ان شاء أشار وأمّا بالکلام فلا یردّ ۔
”نماز ی اگر چاہے تو اشارے سے سلام کا جواب دے دے ، لیکن زبان سے کلام کر کے جواب نہ لوٹائے ۔”(مسائل احمد لابی داو،د : ص ٣٧، مسائل احمد لابی ھانی : ١/٤٤)
تنبیہ 1 :      امام اسحاق بن راہویہ ، امام احمد بن حنبل اور امام سفیان الثوری S سے روایت ہے ، ان کا قول ہے :      اذا ردّ علیہ استقبل الصّلاۃ ۔     ”جب نمازی سلام کا جواب لوٹائے تو وہ ازسر نو نماز پڑھے ۔”(مسائل احمد واسحاق : ١/٨٣)
اس قول سے ان ائمہ کی مراد یہ ہے کہ اگر کسی نمازی کو معلوم ہو کہ نماز میں زبان سے سلام کا جواب دینا ممنوع اور منسوخ ہے ، اس کے باوجود وہ ایسا کرے تو اسے نماز لوٹانی ہوگی ، کیونکہ اس نے جان بوجھ کر نماز میں کلام کر دی ہے ، ہم بھی یہی کہتے ہیں ۔
تنبیہ 2 :      اگر حالت ِ نماز میں جہالت کی بناپر بھول کر سلام کے جواب میں ”وعلیکم السلام ” کہہ دے تو نماز باطل نہیں ہوگی ۔
اعتراض 1 :      ”حنفیہ کہتے ہیں کہ نماز میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا اشارہ حالت ِ نماز میں سلام کہنے کی ممانعت کے بارے میں تھا ، نہ کہ سلام کے جواب میں ۔”(شرح معانی الآثار : ١/٤٥٧)
جواب :      ان کا یہ بے دلیل قول مذکورہ بالا احادیث وآثار ، جو حالت ِ نماز میں اشارے سے سلام لوٹائے جانے کے بارے میں واضح ہیں ، ان کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود وباطل ہے ۔
اعتراض 2 :      عن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ ، قال : کنت أسلّم علی النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وھو فی الصّلاۃ ، فیردّ علیّ ، فلمّا رجعنا ، سلّمت علیہ ، فلم یردّ علیّ ، وقال : انّ فی الصّلاۃ شغلاً ۔ ”سیدنا عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو حالت ِ نماز میں سلام کہہ دیا کرتا اور آپ مجھے جواب دے دیا کرتے تھے ، یہاں تک کہ جب ہم نجاشی کے پاس سے واپس آئے تو میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں سلام کہا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب نہ دیا ، (جب یہ بات آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھی گئی تو)آپ نے فرمایا ، نماز میں (قرآن کی قراء ت ، ذکر اور دعاؤں کی )مشغولیت ہوتی ہے ۔”
(صحیح بخاری : ١٢١٦، صحیح مسلم : ٥٣٨)
جواب :     یہ حدیث دلیل ہے کہ نماز میں زبان سے سلام کا جواب لوٹانا منسوخ ہے ، اس سے ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب لوٹانے کی نفی نہیں ہوتی ، بلکہ اس کاجواز دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
اعتراض 3 :      سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
لا غرار فی صلاۃ ولا تسلیم ۔    ”نماز اور سلام میں نقصان نہیں ہے ۔”
(سنن ابی داو،د : ٩٢٨ ، مسند الامام احمد : ٢/٤٦١، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٢٦١، المستدرک للحاکم : ١/٢٦٤)
امام حاکم نے اس حدیث کو امام مسلم  رحمہ اللہ کی شرط پر ”صحیح” کہا ہے ، حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
جواب :     یہ حدیث سفیان ثوری  رحمہ اللہ  کی ”تدلیس” کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ، سماع کی تصریح نہیں مل سکی ۔ اگر اس کو ”صحیح” مان بھی لیا جائے اور یہ معنیٰ کر لیاجائے کہ نماز میں نقصان اور سلام نہیں ہے تو اس کامطلب یہ ہوگا کہ سلام بالتلفظ نہیں ہے ۔ اشارے کے ساتھ سلام کا جواب تو صحیح احادیث ، آثار ِ صحابہ وتابعین سے ثابت ہے ۔
اعتراض 4 :      سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
من أشار فی صلاتہ اشارۃ تفھم عنہ ، فلیعد لھا ۔ ”جو آدمی اپنی نماز میں ایسا اشارہ کرے ، جو اس کی طرف سے سمجھ لیا جائے ، وہ اپنی نماز دہرائے ۔”
(سنن ابی داو،د : ٩٤٤ ، سنن الدارقطنی : ٢/٨٣ ، شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٤٥٣)
جواب :      یہ حدیث ”ضعیف” ہے ، اس میں محمد بن اسحاق (حسن الحدیث ، وثقہ الجمہور) مشہور ”مدلس” ہیں ، جو کہ بصیغہئ عن روایت کر رہے ہیں ، سماع کی تصریح نہیں ملی ، پھر یہ ”صحیح” احادیث کے خلاف بھی ہے ۔
اعتراض 5 :      طحاوی حنفی ایک دلیل لائے ہیں کہ :
عن أبی سفیان ، قال : سمعت جابرا رضی اللّٰہ عنہ یقول : ما أحبّ أن أسلّم علی الرّجل ، وھو یصلّی ، ولو سلّم علیّ لرددتّ علیہ ۔     ”ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری  رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، میں نمازی پر سلام کہنا پسند نہیں کرتا ، لیکن اگر اس نے مجھے سلام کہہ دیا تو میں اس کا جواب لوٹاؤں گا ۔”
(شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٤٥٧، واسنادہ، حسنٌ)
جناب ظفراحمد تھانوی دیوبندی کہتے ہیں کہ یہ ابوسفیان طریف السعدی ہے ، جو کہ سخت متکلم فیہ ہے ۔(اعلاء السنن : ٥/٣٤)
ہم کہتے ہیںکہ تھانوی صاحب اس راوی کے تعین میں وہم وتخلیط کا شکار ہوگئے ہیں ، یہ ابوسفیان طریف السعدی نہیں ، بلکہ ابوسفیان طلحہ بن نافع الواسطی ہے ، جس کی جمہور نے ”توثیق” کر رکھی ہے اور یہ ”حسن” درجہ کا راوی ہے ۔
طحاوی حنفی کہتے ہیں کہ لرددتّ ، یعنی میں سلام کا جواب لوٹاؤں گا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے بعد لوٹاؤں گا ، اس پردلیل یہ پیش کی ہے کہ :
سأل سلیمان بن موسیٰ عطاء : أسألت جابرا عن الرّجل یسلّم علیک ، وأنت تصلّی ، فقال : لا ترد علیہ حتّی تقضی صلاتک ؟ فقال : نعم !
”سلیمان بن موسیٰ نے عطاء بن ابی رباح سے سوال کیا کہ کیا آپ نے سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ  سے ایسے انسان کے بارے میں پوچھا ہے ، جو حالت ِ نماز میں آپ پرسلام کہے اورسیدنا جابر  رضی اللہ عنہ  نے یہ فرمایا تھا کہ اس پرسلام مت کہو، یہاں تک کہ نماز پوری کرلو؟ اس پرعطا ء بن ابی رباح  رحمہ اللہ  نے فرمایا ، ہاں!(میں نے سوال کیا تھا اور انہوں نے یہ جواب دیا تھا)۔(شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٤٥٧)
لیکن یہ روایت ”ضعیف” ہے ، اس کے ایک راوی علی بن زید کے بارے میں امام ابنِ یونس مصری  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : تکلّموا فیہ ۔    ”محدثین نے اس کے بارے میں کلام (جرح)کی ہے ۔”(لسان المیزان لابن حجر : ٤/٣٣٠)
اس جرح کے برعکس اس کے بارے میں کوئی ”توثیق” ثابت نہیں ہے ۔
اعتراض 6 :      جناب ظفراحمد تھانوی دیوبندی ”لسان المیزان” کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ مسلمہ بن قاسم نے اس کو ”ثقہ” کہا ہے ۔(اعلاء السنن : ٥/٣٣)
جواب : ہم کہتے ہیں کہ مسلمہ بن قاسم خود ”ضعیف” ہے ۔
(سیر اعلام النبلاء للذھبی : ١٦/١١٠، میزان الاعتدال للذھبی : ٤/١١٢)
جو شخص تھانوی صاحب کی طرح خود ”ضعیف” ہو ، اس کا دوسرے کو ”ثقہ” کہنا کیا معنیٰ رکھتا ہے ؟ تھانوی صاحب اس روایت کے ایک دوسرے راوی ہمام کے بارے میں لکھتے کہ یہ ہمام بن منبہ ہے ۔
ہم کہتے ہیں کہ اس پرکیا دلیل ہے کہ یہ ہمام بن منبہ ہے ؟
الحاصل :      جب امام طحاوی حنفی کی بیان کردہ دلیل ”ضعیف” ہوگئی تو ان کا بیان کردہ مفہوم ومطلب ضعیف ہوگیا ۔ لرددتّ     سے مراد ہے کہ میں اس کو سلام کا جواب اشارے سے لوٹاؤں گا ، جیسا کہ حدیث ِ جابر صحیح مسلم میں اور دوسری صحیح احادیث اورآثار ِ صحابہ سے پتا چلتا ہے ۔
صحیح مسلم میں ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے زمین کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا تھا ۔
اعتراض 7 :      جناب تھانوی صاحب اس پراعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فلو کانت ھذہ الاشارۃ لردّ السّلام لکانت الی فوق ، لا الی الأرض ۔
”اگر یہ اشارہ سلام کا جواب لوٹانے کے لیے ہوتا تو اوپر کی طرف اشارہ ہوتا ،نہ کہ زمین کی طرف۔”(اعلاء السنن : ٥/٣٣)
جواب :      یہ کہا ںلکھا ہے کہ سلام کے لیے اشارہ اوپر کی جانب ہوتا ہے ، محدثین کا فہم مقدم ہوگا ۔محدثین نے اس سے وہی مسئلہ سمجھا ہے ، جو ہم ذکر کرچکے ہیں کہ یہ سلام کا جواب ہی تھا ۔
اعتراض 8 : عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہما ، قال : بعثنی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی حاجۃ لہ ، فانطلقت ، ثمّ رجعت ، وقد قضیتھا ، فأتیت النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فسلّمت علیہ ، فلم یردّ علیّ ، فوقع فی قلبی ما اللّٰہ أعلم بہ ، فقلت فی نفسی : لعلّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وجد علیّ أنّی أبطأت علیہ ، ثمّ سلّمت علیہ ، فلم یردّ علیّ ، فوقع فی قلبی أشدّ من المرّۃ الأولیٰ ، ثمّ سلّمت علیہ ، فردّ علیّ ، فقال : انّما منعنی أن أردّ علیک أنّی کنت أصلّی ، وکان علی راحلتہ متوجّھا الی غیر القبلۃ ۔
”سیدنا جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے کسی کام کی غرض سے بھیجا ۔ میں کام مکمل کرکے نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو سلام کہا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سلام کا جواب نہیں دیا ۔ میرے غم وحزن کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے ، میں نے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  تاخیر کی وجہ سے مجھ پر ناراض ہوگئے ہیں ۔ دوبارہ میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سلام کہا ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب نہ لوٹایا ، میرے دل میں پہلے سے بھی زیادہ حزن وملال پیدا ہوا ۔پھر میں نے آپ کے سلام پھیرنے کے بعدآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو سلام عرض کیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب ارشادکیا اور فرمایا ، بے شک مجھے آپ کے سلام کا جواب دینے سے صرف نماز نے منع کیا تھا ۔”
(صحیح بخاری : ١٢١٧، صحیح مسلم : ٥٤٠)
جناب تھانوی لکھتے ہیں :      فانّہ کالصّریح فی أنّہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لم یردّ علی جابر ، لا اشارۃ ولا لفظا ، ولو کان ردّ علیہ اشارۃ لم یقع فی قلب جابر ما وقع ، فتقییدہ بالکلام غیر سدید ، وأیضا لو کان صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ردّ علیہ بالاشارۃ لم یحتج الی الرّدّ علیہ بعد الفراغ ، کما ھو مذھب من یجیز الرّدّ بالاشارۃ ، وقد ثبت أنّہ ردّ علیہ بعد ما انصرف عن صلاتہ ، وھو المأثور من مذھب جابر ۔۔۔     ”اس میں گویا صراحت ہے کہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا جابر کو نہ اشارتاً جواب دیا تھا نہ ہی لفظاً ۔ اگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اشارہ سے جواب دیا ہوتا تو سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ  کے دل میں غم وحزن پیدا نہ ہوتا ۔ اس کوا س بات پرمقید کرنا کہ یہ سلام کا جواب بالاشارہ تھا نہ کہ بالکلام ، کوئی پختہ رائے نہیں ہے ، اسی طرح اگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سلام کا جواب بالاشارہ لوٹایا ہوتا تو نماز سے فراغت کے بعد بالکلام سلام کا جواب لوٹانے کی کیا ضرورت تھی ؟ جو اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب لوٹانا جائز سمجھتا ہے ، وہ توایسا نہیں کرتا ۔ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سلام پھیرنے کے بعدسلام کا جواب لوٹایا ۔ سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔”(اعلاء السنن : ٥/٣٣)
تھانوی صاحب کی یہ کلام حقیقت پرمبنی نہیں ہے ،کیونکہ صحیح مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ نبی ئاکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ  کو ہاتھ کے اشارہ سے سلام کا جواب لوٹایا ہے ۔ اس سے صحیح بخاری والی روایت کامفہوم بھی واضح ہوجاتا ہے ، کیونکہ احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں ۔ رہا یہ مسئلہ کہ سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ  کے دل میں غم کیوں پیدا ہوا تو حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :
فیحمل فی حدیث الباب (( فلم یردّ علیّ )) أی باللّفظ ، وکأنّ جابرا لم یعرف أوّلا أنّ المراد بالاشارۃ الرّدّ ، فلذلک قال : فوقع فی قلبی ما اللّٰہ أعلم بہ ، أی من الحزن ۔ ”سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ  کا یہ کہنا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پرجواب نہیں لوٹایا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ بالتلفظ نہیں لوٹایا ، گویا کہ پہلے پہل سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ  کوعلم نہ تھا کہ اشارے سے مراد جواب ہے، اسی لیے تو انہوں نے کہا کہ میرے دل میں وہ حزن وملال پیدا ہوا ، جسے اللہ ہی جانتا ہے ۔”
(فتح الباری لابن حجر : ٣/٨٧)
تھانوی صاحب کا یہ کہنا کہ جواب نہ لوٹانے کو کلام کے ساتھ مقید کرنا پختہ رائے نہیں ہے ، صحیح مسلم کی حدیث اس کا ردّ کرتی ہے ، بلکہ دیگر احادیث وآثار بھی اس کی تردید کرتے ہیں ۔ باقی رہا نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعد ِ نماز سلام کا جواب لوٹانے کی کیا ضرورت محسوس کی ، روایت میں واضح ہے کہ سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ  نے آپ کو نماز میں اور سلام پھیرنے کے بعد دونوں کیفیتوں میں سلام کہا ، حالت ِ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سلام کا جواب اشارہ سے اورسلام پھیرنے کے بعد زبان سے بول کر فرمایا ، اتنی سی بات تھانوی صاحب کو سمجھ نہ آسکی اور وہ حدیث کی تاویل کے درپے ہوگئے ۔
ظفراحمد تھانوی صاحب نے یہ ذکر کیا ہے کہ سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ  کا مذہب یہ تھاکہ اگرنمازی پرسلام کہا جائے تو وہ بعد ِ نماز ہی جواب دے گا ، اس کے ثبوت پر جودلیل دی ہے ، وہ ”ضعیف” ہے ، جیسا کہ پیچھے اس کا بیان ہوچکا ہے ۔بالفرض تھانوی صاحب کی بات درست مان بھی لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نمازی پرسلام کہا جاسکتا ہے ، اگر وہ جواب نہ دے توکوئی حرج نہیں ، اگر دے تو جائز ہے ، وہ بھی بالاشارہ جواب دے سکتا ہے ۔ کلام کرکے جواب دینا ممنوع ہے ۔ ہم بھی نماز میں اشارے سے سلام کے جواب کو ضروری قرار نہیں دیتے ، بلکہ صرف جواز کے قائل ہیں ۔
اعتراض 9 : عن جابر بن سمرۃ ، قال : خرج علینا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقال : ما لی أراکم رافعی أیدیکم ، کأنّھا أذناب خیل شمس ؟ اسکنوا فی الصّلاۃ ۔ ”سیدنا جابر بن سمرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا ، کیا بات ہے کہ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح اپنے ہاتھ اٹھا رہے ہو ، نماز میں سکون اختیار کرو۔”(صحیح مسلم : ٤٣٠)
اس بات پر علمائے کرام کا اجماع واتفاق ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد اور سلام کے ساتھ ہے ، جیسا کہ صحیح مسلم کی دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ وہ نماز میں سلام پھیرتے وقت دائیں بائیں ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے تو نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو منع فرمادیا ۔ نماز میں سلام کا جواب اشارے کے ساتھ لوٹانا نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام سے ثابت ہے ۔
اگر اس حدیث سے نماز سے سلام کے جواب کے بارے میں عدم ِ جواز ثابت ہوتا ہے تو تقلید پرست ان احادیث کا کیا جواب دیں گے ، جن میں اشارے کا ذکر ہے ۔ اگر وہ کہیں کہ اس حدیث سے نماز میں سلام بالاشارہ کی منسوخیت ثابت ہوتی ہے تو ان کا یہ قول باطل ومردود ہے ، جیسا کہ گزشتہ دلائل سے ثابت ہے ۔
اگر وہ کہیں کہ نماز میں اشارے سے سلام کا جواب دینا سکون کے منافی ہے تو وہ خود وتروں میں اورعیدین میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں ؟ جوجواب ان کا ہوگا ، وہی ہمارا جواب ہوگا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.