829

نمازوں کے بعد اذکار، شیخ الحدیث علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

نمازوں کے بعد اذکار

1    سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ :
کنت أعرف انقضاء صلاۃ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بالتکبیر ۔
”میں نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز کا اختتام ‘اللہ اکبر’ کہنے سے سمجھ جاتا تھا۔”
(صحیح البخاری : ٨٤٢، صحیح مسلم : ٥٨٣/١٢٠)
صحیح مسلم (٥٨٣)میں ہے : ما کنّا نعرف انقضاء صلاۃ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إلّا بالتکبیر ۔ ”ہم نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا پورا ہونا صرف اور صرف ‘اللہ اکبر’ کہنے سے معلوم کرلیتے تھے۔”
سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  سے ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں : إنّ رفع الصوت بالذکر حین ینصرف الناس من المکتوبۃ کان علی عہد النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وکنت أعلم إذا انصرفوا بذلک إذا سمعتہ ۔
”نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لوگ فرض سے فارغ ہوتے توبلند آواز سے ذکر کرتے ۔ میں یہ سن کر معلوم کرلیتا تھا کہ وہ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں ۔ (ذکر سے مراد ‘اللہ اکبر’ ہے) ۔”
(صحیح البخاری : ٨٤١، صحیح مسلم : ٥٨٣/١٢٢)
ثابت ہوا کہ فرض نماز کے بعد امام ہو یا مقتدی بآواز ِ بلند ”اللہ اکبر” کہے گا ، منفرد کا بھی یہی حکم ہے۔ بعض لوگ نماز کے بعد اجتماعی طور پر بآواز ِ بلند ”لا الہ الا اللہ” پڑھتے ہیں ، لیکن نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں یہ چیز قطعاًنہیں ملتی۔
2    سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ     کہتے ، پھر یہ کلمات پڑھتے : اَللّٰہُمَّ ! أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ ، تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ ۔ ”اے اللہ ! تو سلام ہے اور توہی سلامتی عطا کرنے والا ہے ۔ اے عظمت وبزرگی اور بڑی سخاوت وفیاضی والے اللہ ! تو بڑا بابرکت ہے ۔”(صحیح مسلم : ٥٩١)
سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جب سلام پھیرتے تواتنا وقت (قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر)بیٹھے رہتے ، جتنے وقت میں یہ کلمات کہے جاسکتے تھے:
اَللّٰہُمَّ ! أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ ، تَبَارَکْتَ یَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ ۔
”اے اللہ ! تو سلام ہے اور توہی سلامتی عطا کرنے والا ہے ۔ اے عظمت وبزرگی اور بڑی سخاوت وفیاضی والے اللہ ! تو بڑا بابرکت ہے ۔”(صحیح مسلم : ٥٩٢)
3    سیدنا مغیرہ بن شعبہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز سے فارغ ہوتے تو یہ کلمات ادا فرماتے تھے: لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہ، ، لَہُ الْمُلْکُ ، وَلَہُ الْحَمْدُ ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ، اَللّٰہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ ، وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ ، وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ۔ ”اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ۔ وہ اپنی ذات وصفات میں یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی ہی کی بادشاہی ہے ، تعریف بھی اسی کی ہے ،وہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے اللہ ! تیری عطا میں کوئی بندش نہیں ڈال سکتا ، جسے تو عطانہ کرے ، اسے کوئی عطا نہیں کرسکتا ، تیرے سامنے کسی بخت والے کو اس کا بخت کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔”(صحیح البخاری : ٨٤٤، صحیح مسلم : ٥٩٣)
4    سیدنا عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ  ہر نماز کے بعد یہ کلمات پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  ہر نماز کے بعد انہی کلمات کے ساتھ تہلیل کرتے تھے :
لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ ، وَلَہُ الْحَمْدُ ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ، لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّٰہِ ، لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَلاَ نَعْبُدُ إِلاَّ إِیَّاہُ ، لَہُ النِّعْمَۃُ ، وَلَہُ الْفَضْلُ ، وَلَہُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ ، لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّینَ ، وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ ۔ ”اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ، وہ اپنی ذات وصفات میں اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے ، وہ ہرچیز پر قادر ہے ، طاقت وقدرت صرف اللہ ہی کے لیے ہے ، اس کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ، ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں ، اسی کے لیے نعمت ہے اور اسی کے لیے فضل ہے ، اچھی تعریف بھی اسی کی ہے ، اس کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ، ہم خالص اسی کی اطاعت کرنے والے ہیں ، اگرچہ کافر اس کو ناپسند کریں۔”(صحیح مسلم : ٥٩٤)
5    سیدنا معاذ بن جبل  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک دن نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ، اے معاذ ! اللہ کی قسم ، میں آپ سے محبت کرتا ہوں تو معاذ  رضی اللہ عنہ  نے (جواب میں)کہا ، اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! اللہ کی قسم ، میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے معاذ ! میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ نماز کے بعد یہ دعا کبھی نہ چھوڑیں: اَللّٰہُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ۔
”اے اللہ ! اپنے ذکر وشکر اور حسن وخوبی کے ساتھ اپنی عبادت کرنے میں میری مدد فرما۔”
یہی وصیت سیدنا معاذ  رضی اللہ عنہ  نے راویئ حدیث اوراپنے شاگرد عبدالرحمن بن عسیلہ الصنابحی کو کی ، انہوں نے اپنے شاگرد ابوعبدالرحمن الحبلی کو کی ، انہوں نے اپنے شاگرد عقبہ بن مسلم کوکی۔
(مسند الامام احمد : ٥/٢٤٤۔٢٤٥، سنن ابی داو،د : ١٥٢٢، سنن النسائی : ١٣٠٣، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ (٥٧١)، امام ابنِ حبان (٢٠٢٠، ٢٠٢١)اورامام حاکم(١/٢٧٣، ٣/٢٧٣) Sنے ”صحیح” کہا ہے ، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے بھی اس کو ”صحیح” کہا ہے۔(نتائج الافکار : ٢/٢٨١)
حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے ۔
(الاذکار للنووی : ص ٦٩، خلاصۃ الاحکام : ١/٤٦٨)
الموید بن محمد الطوسی کہتے ہیں : حدیث عزیز حسن ۔ ”یہ عزیز اور حسن حدیث ہے۔”(الاربعین : ص ١٠٠)
6    سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے، سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے : اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ ، وَمَا أَسْرَفْتُ ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِہٖ مِنِّی ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ ، لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ ۔ ”اے اللہ ! میرے پہلے اور بعد کے گناہ معاف فرما ، میرے پوشیدہ اور ظاہری گناہ معاف فرما، جو میں نے اسراف کیا ،ا س کو بھی معاف فرما ، اس گناہ کو بھی معاف فرما ، جسے تو مجھ سے خوب جانتا ہے ، توہی مقدم اور مؤخر ہے ، تیرے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ۔”(صحیح مسلم : ٧٧١/٢٠٢، مسند الامام احمد : ١/١٠٢)
مسلم بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے پاس سے گزرے ، وہ دعا کررہے تھے ، کہتے ہیں کہ وہ دعائیہ کلمات میں نے بھی سیکھ لیے اور ہرنماز میں ان کے ساتھ دعا کرتا تھا ۔ (ایک دن) میرے والد صاحب میرے پاس سے گزرے ، میں ان کلمات کے ساتھ دعا کررہا تھاتو کہنے لگے، اے بیٹا ! آپ نے یہ کلمات کہاں سے سیکھے ہیں ؟ میں نے کہا ، ابا جی ! میں آپ کو ہرنماز کے بعد ان کلمات کے ساتھ دعا کرتے ہوئے سنتا تھا تو میں نے بھی سیکھ لیے ، ان کے والد ِ گرامی کہنے لگے ، بیٹا ! ان دعائیہ کلمات کو پابندی سے ادا کیجیے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہرنماز کے بعد یہ کلمات پڑھا کرتے تھے: اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ ۔
”اے اللہ ! میں کفر ، فقراور عذاب ِ قبر سے تیری پناہ پکڑتا ہوں۔”(مسند الامام احمد : ٥/٤٤، سنن النسائی : ٥٤٦٧، المستدرک للحاکم : ١/٣٥، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (٧٤٧)نے ”صحیح” اور امام حاکم رحمہ اللہ نے امام مسلم کی شرط پر ”صحیح” کہا ہے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ  (نتائج الافکار: ٢/٢٩٣)نے ”حسن ” کہا ہے۔
عثمان الشحام راوی ”صدوق ، حسن الحدیث”ہے ۔ امام احمد ، امام ابنِ عدی، امام ابنِ معین ، امام ابوزرعہ، امام وکیع ، امام ابنِ حبان ، امام ابوحاتم اور امام ابنِ خزیمہS نے اسے ثقہ کہا ہے۔
مسلم نامی راوی کو امام ابنِ خزیمہ، امام ابنِ حبان ، امام عجلی اور امام حاکم S نے ثقہ قراردیاہے۔
7    عن أبی ذرّ أنّ ناسا من أصحاب النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قالوا للنبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : یا رسول اللّٰہ ! ذہب أہل الدثور بالأجور ، یصلّون کما نصلّی ، ویصومون کما نصوم ، ویتصدّقون بفضول أموالہم ، قال : أولیس قد جعل اللّٰہ لکم ما تصدّقون ؟ إنّ بکلّ تسبیحۃ صدقۃ ، وکلّ تکبیرۃ صدقۃ ، وکلّ تحمیــدۃ صدقۃ ، وکلّ تہلیلۃ صدقۃ ، وأمر بالمعروف صدقۃ ، ونہی عن منکر صدقۃ ، وفی بضع أحدکم صدقۃ ، قالوا : یا رسول اللّٰہ ! أیأتی أحدنا شہوتہ ویکون لہ فیہا أجر ؟ قال : أرأیتم لو وضعہا فی حرام أکان علیہ فیہا وزر ؟ فکذلک إذا وضعہا فی الحلال کان لہ أجر ۔
”سیدنا ابوذر  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ کچھ صحابہ کرام ] ، نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کرنے لگے ، اے اللہ کے رسول ! امیر لوگ اجروثواب کی بازی لے گئے ، وہ نماز پڑھتے ہیں ، جیسے ہم نماز پڑھتے ہیں ، وہ روزہ رکھتے ہیں ، جیسے ہم روزہ رکھتے ہیں ، وہ صدقہ بھی کرتے ہیں ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو صدقہ کے اسباب مہیانہیں کیے ؟ یقینا ہر تسبیح (سبحان اللہ کہنا )صدقہ ہے ، ہر تکبیر(اللہ اکبر کہنا)صدقہ ہے ، ہر تحمید (الحمدللہ کہنا) صدقہ ہے ، ہر تحلیل ( لا الہ الا اللہ کہنا) صدقہ ہے ، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے ، برائی سے روکنا صدقہ ہے اوربیوی سے مباشرت کرنا صدقہ ہے ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! وہ تو آدمی اپنی شہوت مٹاتا ہے ، اس میں بھی اجر ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا خیال ہے ، اگر وہ بدکاری کا ارتکاب کرتا تو اس پرگناہ نہ ہوتا ؟ اسی طرح جب وہ اپنی بیوی کے پاس جائے گا تو اس کے لیے اجر ہے۔”(صحیح مسلم : ١٠٠٦)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نادار صحابہ کرام ] ، نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے اورعرض کی ، مالدار لوگ بلند درجات اور دائمی نعمتوں میں سبقت لے گئے ، وہ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں ، ہماری طرح روزے رکھتے ہیں ، ان کے پاس زائد مال ہے ، وہ اس سے حج وعمرہ کرتے ہیں ، جہاد اور صدقہ کرتے ہیں ۔ فرمایا ، کیا میں آپ کو ایسی چیز نہ بتاؤں کہ اگر آپ اس پر عمل پیرا ہوگئے تو سبقت لے جانے والوں کے برابر ہوجاؤگے ، آپ کا کوئی ثانی نہیں ہوگا ، آپ سب سے بہتر بن جائیں گے ، سوائے اس شخص کے جو آپ جیسا عمل کرے۔ ہرنماز کے بعد ٣٣ بار سُبْحَانَ اللّٰہ ، ٣٣ بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اور ٣٣ بار اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہیں۔
(صحیح البخاری : ٨٤٣، صحیح مسلم : ٥٩٥)
صحیح مسلم (٥٩٥)کی روایت میں ہے کہ وہ نادار مہاجرصحابہ کرام ، نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے کہ ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی سن کر ہمارے جیسا عمل شروع کردیا ہے ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، یہ اللہ کا فضل ہے ، جسے چاہے نواز دے۔
صحیح بخاری (٦٣٢٩)میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرنماز کے بعد ١٠ بار سبحان اللہ ، ١٠ بار الحمدللہ اور ١٠ بار اللہ اکبر کہنے کا حکم فرمایا تھا۔
عن أبی ذرّ ، قال : قلت : یا رسول اللّٰہ ، سبق أہل الأموال الدثر بالأجر ، یقولون کما نقول ، وینفقون ولا ننفق ، فقال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : أفلا أدلّک علی عمل إذا أنت قلتہ أدرکت من قبلک ، وفتّ من بعدک ، إلّا من قال مثل قولک ، تسبّح دبر کلّ صلاۃ ثلاثا وثلاثین ، وتحمد اللّٰہ ثلاثا وثلاثین ، وتکبّر أربعا وثلاثین ۔ ”سیدنا ابوذر  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے ،بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! مالدار اجروثواب کی بازی لے گئے ہیں ، وہ کہتے ہیں ، جو ہم کہتے ہیں اور وہ خرچ کرتے ہیں ، جو ہم خرچ نہیں کرسکتے ۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیامیں آپ کو ایسے عمل کی رہنمائی نہ کروں ، جب آپ وہ عمل کریںگے تو جو شخص آپ سے سبقت لے گیا ہے ، اس کے مقام ومرتبہ کو پالو گے ، اپنے بعدآنے والے سے سبقت لے جاؤ گے، سوائے اس شخص کے جو آپ والا عمل کرے ۔ آپ ہر نماز کے بعد ٣٣ بار سبحان اللہ ، ٣٣ بار الحمدللہ اور ٣٤ بار اللہ اکبر کہو۔”
(مسند الحمیدی : ١٣٣، سنن ابن ماجہ : ٩٢٧، مسند الامام احمد : ٥/١٥٨، الاوسط لابن المنذر : ١٥٥٨، وسندہ، حسن ، وصححہ ابن خزیمۃ : ٧٤٧)
اس کا راوی عاصم بن سفیان ”حسن الحدیث” ہے ، اس کو امام ابنِ خزیمہ اور امام ابنِ حبان نے ثقہ کہا ہے۔
سیدنا کعب بن عجرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
معقّبات لا یخیب قائلہن أو فاعلہنّ دبر کلّ صلاۃ مکتوبۃ ثلاث وثلاثون تسبیحۃ ، وثلاث وثلاثون تحمیدۃ ، وأربع وثلاثون تکبیرۃ ۔
”ہر(فرض )نماز کے بعد چند کلمات کہے جاتے ہیں ، یہ کلمات کہنے والا ناکام ونامراد نہیں ہوسکتا ، وہ یہ ہیں کہ ٣٣ بار سبحان اللہ ، ٣٣ بار الحمدللہ اور ٣٤ بار اللہ اکبر کہیں۔”(صحیح مسلم : ٥٩٦)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ”جس شخص نے ہر نماز کے بعد ٣٣ بار سبحان اللہ ، ٣٣ بار الحمدللہ اور ٣٣ بار اللہ اکبر کہا تو یہ ننانوے ہوئے ، اس نے سو پورا کرتے ہوئے کہا : لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ ، وَلَہُ الْحَمْدُ ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ ۔
تو اس کے تمام (صغیرہ )گناہ معاف کردئیے جائیں گے ، اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔”(صحیح مسلم : ٥٩٧)
عن ابن عمر أنّ رجلا رأی فیما یری النائم ، قیل لہ : بأیّ شیء أمرکم نبیّکم صلی اللہ علیہ و سلم ؟ قال : أمرنا أن نسبّح ثلاثا وثلاثین ، ونحمّد ثلاثا وثلاثین ، ونکبّر أربعا وثلاثین ، فتلک مائۃ ، قال : سبّحوا خمسا وعشرین ، واحمدوا خمسا وعشرین ، وکبّروا خمسا وعشرین ، وہلّلوا خمسا وعشـرین ، فتلک مائۃ ، فلمّا أصبح ذکر ذلک للنبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فقال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : افعلوا کما قال الأنصاریّ ۔
”سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے خواب دیکھا ، اسے خواب میں کہاگیا، تمہارے نبی تمہیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں ، اس نے کہا ، آپ نے ہمیں ٣٣ بار سبحان اللہ ، ٣٣ بار الحمدللہ اور ٣٤ بار اللہ اکبر کہنے کا حکم دیا ہے ، یہ پورا سو ہے ، آپ نے فرمایا ، ٢٥ بار سبحان اللہ ، ٢٥ بار الحمدللہ ، ٢٥ بار اللہ اکبر اور ٢٥ بار لاالہ الا اللہ کہو ، یہ پورا سو ہے ۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا ذکر نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے کیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، ایسے کرو، جیسے انصاری کہہ رہا ہے۔”(السنن المجتبٰی للنسائی : ١٣٥٢، السنن الکبرٰی للنسائی : ١٢٧٤، الدعاء للطبرانی : ٧٣٠، مسند السراج بتحقیق الشیخ ارشاد الحق الاثری : ٨٨١، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
خصلتان لا یحصیہما عبد إلّا دخل الجنّۃ ، وہما یسیر ، ومن یعمل بہما قلیل ، یسبّح اللّٰہ أحدکم فی دبر کلّ صلاۃ عشرا ، ویحمّدہ عشرا ، ویکبّرہ عشرا ، فتلک خمسون ومئۃ باللسان ، وألف وخمس مائۃ فی المیزان ، وإذا أوٰی إلی فراشہ یسبّح ثلاثا وثلاثین ، ویحمّد ثلاثا وثلاثین ، ویکبّر أربعا وثلاثین ، فتلک مائۃ باللسان ، وألف فی المیزان ، قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : فأیّکم یعمل فی یوم ولیلۃ ألفین وخمس مائۃ سیّئۃ ؟
قال عبد اللّٰہ بن عمرو : ورأیت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یعقدہنّ بیدہ ، قال : فقیل : یا رسول اللّٰہ ! وکیف لا یحصیہا ؟ قال : یأتی أحدکم الشیطان ، وہو فی صلاتہ ، فیقول : اذکر کذا ، اذکر کذا ، ویأتیہ عند منامہ فینوّمہ ۔ ”دو ایسے (خوبی والے)کام ہیں ، جو بھی (مؤحد ومتقی) انسان ان کی حفاظت وپابندی کرے گا ، وہ جنتی ہے ، وہ کام بھی آسان ہیں ، مگر ان پر عمل پیرا ہونے والے لوگ تھوڑے ہیں ، جو کوئی تم میں سے ہرنماز کے بعد دس بار سبحان اللہ ، دس بار الحمدللہ اور دس بار اللہ اکبر کہے گا ، یہ زبان پر گنتی کے اعتبار سے ایک سو پچاس ہیں اورمیزان میں نیکیوں کے اعتبار سے پندرہ سو ہیں ، جب سونے کے لیے بستر پر لیٹے تو ٣٣ بار سبحان اللہ ، ٣٣ بار الحمدللہ اور ٣٤ بار اللہ اکبر کہے ، یہ زبان پر سو ہیں ، لیکن میزان میں ایک ہزار ہیں ۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کون ہے جو دن ، رات میں پچیس سو گناہ کرتا ہے ؟ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں ، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  یہ کلمات اپنے ہاتھ مبارک پر شمار کررہے تھے، آپ سے عرض کیا گیا ، اے اللہ کے رسول ! کوئی کیسے ان کی حفاظت نہیں کرسکے گا ؟ فرمایا ، وہ حالت ِ نماز میں ہوگا کہ شیطان اس کے پاس آکر کہے گا ، فلاں فلاں بات کو یاد کرو ، (وہ یہ ذکر بھول جائے گا اور پندرہ سو نیکیوں سے محروم ہوجائے گا)۔ سوتے وقت اس کے پاس آکر اس کو سُلادے گا (وہ ہزار نیکیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اوریوں پچیس سو نیکیوں کی محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا)۔”(مسند الامام احمد : ٢/١٦٠۔١٦١، ٢/٢٠٥، مسند الحمیدی : ٥٨٣، سنن ابی داو،د : ١٥٠٢، ٥٠٦٥، سنن ابن ماجہ : ٩٢٦، سنن الترمذی : ٣٤١٠، ٣٤١١، ٣٤٨٦، سنن النسائی : ١٣٤٩، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح” ، امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ (٢٠١٢، ٢٠١٨، واللفظ لہ،)اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (نتائج الافکار : ٢/٢٦٦)نے ”صحیح” کہا ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح”قرار دیا ہے۔
(الاذکار للنووی : ١/٢٠٥، بتحقیق سلیم الہلالی)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب ان کی شادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا  سے کی تو ان کو جہیز میں ایک چادر ، ایک عدد کھال کا تکیہ ، جس میں کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی ، دوچکیاں ، ایک مشکیزہ اوردو مٹی کے گھڑے دئیے ۔ ایک دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ  نے سیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  سے فرمایا کہ میں نے کنویں سے ڈول نکالا ہے ، جس سے میرے سینے میں درد ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد ِ گرامی کو (مالِ غنیمت میں)قیدی عطا فرمائے ہیں ، آپ جائیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خادمہ کا سوال کیجیے ۔ سیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کہنے لگیں ، اللہ کی قسم ! چکی پیسنے سے میرے بھی ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے ہیں ۔ وہ نبی ئا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ، بیٹی ! کہو ، کیسے آنا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا ، سلام عرض کرنے کے لیے آئی ہوں ، شرم کے مارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خادمہ کا سوال نہ کرسکیں ، ویسے ہی واپس لوٹ گئیں ، واپسی پرسیدنا علی رضی اللہ عنہ  نے پوچھا ، کیابنا ؟ کہنے لگیں ، میں شرما گئی تھی۔
بعد ازاں دونوں اکٹھے نبی ئاکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ  نے عرض گذاری کی کہ اے اللہ کے رسول! میں نے کنویں سے ڈول نکالا ، جس سے میرے سینے میں درد ہوگیا ، سیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  نے عرض کی کہ چکی پیسنے سے میرے بھی ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالِ غنیمت میں قیدی عطا فرمائے ہیں ، آسودہئ حال کردیا ہے ، لہٰذا ہمیں بھی خادم عنائت کیجیے ۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ کی قسم ! ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں تمہیں دے دوں ، اور اصحاب ِ صفہ کو نظر انداز کردوں ۔ وہ بے چارے بھوک سے نڈھال ہیں ، میرے پاس ان پر خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ۔ میں ان قیدیوں کو بیچ کر ساری رقم ان پر خرچ کروں گا ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ  اور سیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  دونوں (خالی ہاتھ)واپس لوٹ آئے ۔ بعدازاں نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے گئے ، وہ دونوں میاں بیوی ایک ہی چادر میں لیٹے تھے ۔ وہ چادر ان کے سرکو ڈھانپتی تو پاؤں ننگے ہوجاتے ، پاؤں کو ڈھانپتی تو سر ننگے ہوجاتے ۔ دونوں اٹھنے لگے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو ،پھرفرمایا ، جس چیز کا آپ دونوں نے سوال کیا ہے ، کیا میں اس سے بہتر چیز کے بارے میں تمہیں خبر نہ دوں ؟ تو انہوں نے عرض کیا ، جی ہاں ، کیوں نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ چند کلمات ہیں ، جو مجھے جبریل امین  علیہ السلام  نے سکھائے ہیں ، فرمایا ، ہر نماز کے بعد دس بار سبحان اللہ ، دس بار الحمد اللہ اور دس بار اللہ اکبر کہیں ، جب سونے کے لیے بستر پرلیٹیں تو ٣٣ بار سبحان اللہ ، ٣٣ بار الحمدللہ اور ٣٤ بار اللہ اکبر کہیں ۔
سیدناعلی رضی اللہ عنہ  بیان فرماتے ہیں ، اللہ کی قسم ! جب سے میں نے یہ کلمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنے ہیں ، تب سے کبھی نہیں چھوڑے ۔ ابن الکواء نے کہا ، صفین والی رات بھی نہیں چھوڑے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ  نے فرمایا ، عراقیو! تم پراللہ کی مار پڑے ، میں نے صفین والی رات بھی ان کلمات کو پڑھے بغیر نہیں چھوڑا ۔”
(مسند الامام احمد : ١/١٠٤، ١٠٦، ١٠٧، طبقات ابن سعد : ٨/٢٨، مشکل الآثار للطحاوی : ٤٠٩٩، وسندہ، حسنٌ)
امام حاکم  رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”صحیح الاسناد” کہا ہے ۔(المستدرک للحاکم : ٢/١٨٥)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : وفیہ عطاء بن السائب ، وقد سمع منہ حمّاد بن سلمۃ قبل اختلاطہ ، وبقیّۃ رجالہ ثقات ۔ ”اس میں عطاء بن سائب راوی ہیں (جو کہ اختلاط کا شکار ہوگئے تھے)، ان سے حماد بن سلمہ نے اختلاط سے پہلے سنا ہے ، اور باقی راوی ثقہ ہیں۔”(مجمع الزوائد : ١٠/١٠٠)
حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وإسنادہ، جیّد ، ورواتہ ثقات ، وعطاء بن السائب ثقۃ ، وقد سمع منہ حمّاد بن سلمۃ قبل اختلاطہ ۔
”اس کی سند عمدہ ہے اور راوی ثقہ ہیں ،عطاء بن سائب ثقہ ہیں ، ان سے حماد بن سلمہ نے ان کے اختلاط سے پہلے سنا تھا۔”(الترغیب والترہیب للمنذری : ٢٣٧١)
8    ابومروان سے روایت ہے کہ کعب بن ماتع  رحمہ اللہ نے ان کے لیے اللہ کی قسم کھائی ، وہ اللہ جس نے موسیٰ  علیہ السلام  کے لیے سمندر کو پھاڑا تھا ، یقینا ہم تورات میں یہ بات پاتے ہیں کہ اللہ کے نبی داؤد  علیہ السلام  جب نماز سے فارغ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے تھے ، کعب بیان کرتے ہیں کہ صہیب رضی اللہ عنہ  نے بیان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  بھی جب نماز سے فارغ ہوتے تو یہی دعائیہ کلمات پڑھتے تھے:
اَللّٰہُمَّ أَصْلِحْ لِی دِیْنِیَ الَّذِی جَعَلْتَہُ لِی عِصْمَۃً ، وَأَصْلِحْ لِی دُنْیَایَ الَّتِیْ جَعَلْتَ فِیہَا مَعَاشِیْ ، اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ ، وَأَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ نِقْمَتِکَ ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ ، لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ ، وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ ، وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ۔ ”اے اللہ ! میرے دین کی اصلاح فرما ، جسے تو نے میرے لیے (جہنم سے)بچاؤ کا ذریعہ بنایا ہے ، میری دنیا کی درستی فرما ، جس میں تو نے میری معیشت کا سامان پیدا کیا ہے ، اے اللہ ! میں تیری رضا کے ساتھ تیری ناراضی سے پناہ پکڑتا ہوں، میں تیرے قہر وعذاب سے تیری پناہ پکڑتا ہوں ، تیری عطا میں کوئی بندش نہیں ڈال سکتا ، جسے تو نہ دے ، اسے کوئی نہیں دے سکتا ۔ تیرے سامنے کسی بخت والے کو اس کا بخت کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔”(سنن النسائی : ١٣٤٧، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (٧٤٥)، امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ (٢٠٢٦) نے ”صحیح” اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے ”حسن” کہا ہے۔ (نتائج الافکار لابن حجر : ٢/٣١٨)
امام ابونعیم الاصبہانی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہذا الحدیث من جیاد الأحــادیث ۔ ”یہ حدیث عمدہ احادیث میں سے ہے۔”(حلیۃ الاولیاء : ٦/٤٦)
اس کا راوی ابومروان ”حسن الحدیث”ہے ، اس کو امام ابنِ خزیمہ، امام ابنِ حبان ، امام عجلی اور حافظ ذہبی (الکاشف : ٣/٣٣٢)Sنے ثقہ کہا ہے۔
9    طارق بن اشیم  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مرد اور عورتیں صبح کے وقت نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آتے تھے ، کوئی کہتا ، اے اللہ کے رسول ! جب میں نماز پڑھ لوں تو کیا پڑھوں ؟ تو آپ فرماتے ، یہ دعاپڑھو ، دنیا اور آخرت کی بھلائیاں آپ کےلیے سمٹ آئیں گی :
اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ ، وَارْحَمْنِیْ ، وَاہْدِنِیْ ، وَعَافِنِیْ ، وَارْزُقْنِیْ ۔
”اے اللہ ! مجھے معاف فرما ، مجھ پر رحمت فرما ، مجھے ہدایت دے ، مجھے عافیت دے ، مجھے رزق عطا فرما۔”(صحیح ابن خزیمۃ : ٧٤٤، مسند السراج : ٨٥٩، واللفظ لہما ، صحیح مسلم : ٢٦٩٧، سنن ابن ماجہ : ٣٨٤٥)
0    سیدنا سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ  اپنے بچوں کو یہ کلمات سکھاتے تھے ، جیسے کوئی معلم بچوں کو تعلیم دیتا ہے ، وہ کہتے تھے کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ہرنماز کے بعد ان کلمات کے ساتھ پناہ پکڑتے تھے:
اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ ، وَأَعُوْذُ بِکَ أَنْ أُرَدَّ إِلٰی أَرْذَلِ الْعُمُرِ ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْــرِ ۔ ”اے اللہ ! میں کنجوسی ، بُزدلی ، عمر کے آخری حصے میں لاچاری بڑھ جانے اوردانائی کے جاتے رہنے ، فتنہئ دنیا اورعذاب ِ قبر سے تیری پناہ پکڑتا ہوں۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ١٠/١٨٨، صحیح البخاری : ٦٣٩٠، سنن الترمذی : ٣٥٦٧، صحیح ابن خزیمۃ : ٧٤٦، صحیح ابن حبان : ٢٠٢٤، واخرجہ احمد : ١/١٨٣، ١٨٦، والبخـــــاری : ٦٣٦٥)
!    سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت میرے پاس آئی ، اس نے کہا ، پیشاب کی وجہ سے عذاب ِ قبر ہوتا ہے ، میں نے کہا ، تو جھوٹ بولتی ہے۔ اس نے کہا ، ہاں ، ہم (جہاں پیشاب لگ جاتا ، وہاںسے)جلد اورکپڑا کاٹ دیتے تھے ، بعدازاں نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نماز کے لیے تشریف لائے ، ہماری آوازیں بلند ہورہی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، یہ شور کیسا ؟ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  نے نبی ئاکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس یہودی عورت کی بات بتائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، وہ سچ کہتی ہے، اس کے بعد نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  (ہرفرض )نماز کے بعد یہ دعا ضرور پڑھتے تھے :
رَبَّ جِبْرِیلَ ، وَمِیکَائِیْلَ ، وَإِسْرَافِیْلَ ، أَعِذْنِیْ مِنْ حَرِّ النَّارِ ، وَعَذَابِ الْقَبْـــرِ ۔ ”اے جبریل ، میکائیل اور اسرافیل کے ربّ ! مجھے جہنم کی گرمائی اورعذاب ِ قبر سے بچا لے۔”
(سنن النسائی : ١٣٤٦، ٥٥٢١، مسند الامام احمد : ٦/٦١، وسندہ، حسنٌ)
@    سیدنا شداد بن اوس  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جب کوئی نماز سے فارغ ہو تو یہ ”سیدالاستغفار ”پڑھ لے : اَللّٰہُمَّ أَنْتَ خَلَقْتَنِیْ ، وَأَنَا عَبْدُکَ ، وَأَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ ، أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ ، أَبُوْءُ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ ، وَأَبُوْء ُ بِذَنْبِی ، فَاغْفِرْ لِیْ ، إِنَّہ، لاَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلاَّ أَنْتَ ۔ ”اے اللہ ! تو میرا خالق ہے ، میں تیرا بندہ ہوں ، میں حسب ِ استطاعت تیرے عہد وعدہ پر قائم ہوں ، میں تیری پناہ پکڑتا ہوں ، اس چیز کی برائی سے جو میں نے کی ، میں اقرار کرتا ہوں کہ مجھ پر تیری نعمتیں ہیں ، مجھے اپنے گناہوں کا بھی اقرار ہے ، تو مجھے معاف فرما ، تیرے سوا کوئی معاف کرنے والا نہیں ۔”(مسند البزار : ٣٤٨٨، وسندہ، صحیحٌ)
#    ایک انصاری صحابی کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نماز کے بعد سو بار پڑھتے تھے :
اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَتُبْ عَلَیَّ ، إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ ۔
”اے اللہ ! مجھے معاف فرما اور میری توبہ قبول فرما ، یقینا تو توبہ قبول کرنے والا اوربخشنے والاہے۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ١٠/٢٣٤، ح : ٢٩٧٥٤، وسندہ، صحیحٌ)
$    سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  نماز سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے:
اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ ذَنْبِیْ ، وَیَسِّرْ لِیْ أَمْرِیْ ، وَبَارِکْ لِیْ فِیْ رِزْقِیْ ۔
”اے اللہ ! میرے گناہ معاف فرما ، میرے معاملات میں آسانی فرما اور میرے رزق میں برکت دے۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ١٠/٢٢٨، وسندہ، صحیحٌ)
%    سیدنا ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :
من قرأ آیۃ الکرسیّ دبر کلّ صلاۃ مکتوبۃ لم یمنعہ من دخول الجنّۃ إلّا الموت ۔ ”جو شخص ہرفرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے ، سوائے موت کے کوئی چیز اس کو جنت میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتی ۔”(السنن الکبرٰی للنسائی : ٩٩٢٨، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی : ١٠٠ ، المعجم الکبیر للطبرانی : ٨/١٣٤، کتاب الصلاۃ لابن حبان کما فی اتحاف المہرۃ لابن حجر : ٦/٢٥٩، ح : ٦٤٨٠، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ اور حافظ منذری رحمہ اللہ نے ”صحیح” کہا ہے۔ حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ  (١/٣٠٧)اورحافظ سیوطی رحمہ اللہ (التعقبات علی الموضوعات: ٨)نے اس کو امام بخاری  رحمہ اللہ کی شرط پر ”صحیح” کہا ہے ، حافظ وائلی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ”حسن” کہا ہے(کما فی التذکرۃ للقرطبی : ٢٤)، حافظ ضیاء المقدسی (کمافی نتائج الافکار : ٢/٢٧٨۔٢٧٩)، حافظ ابنِ عبدالہادی اور حافظ ابنِ حجر(النکت علی ابن الصلاح : ٢/٨٤٩)S نے بھی ”صحیح” کہا ہے۔
سیدنا حسن بن علی  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من قرأ آیۃ الکرسیّ فی دبر الصلاۃ المکتوبۃ کان فی ذمّۃ اللّٰہ إلی الصلاۃ الأخری ۔ ”جس نے فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی ، وہ دوسری نماز تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہے۔”(المعجم الکبیر للطبرانی : ٣/٨٤، ح : ٢٧٣٣، کتاب الدعاء للطبرانی : ٦٧٤، وسندہ، حسنٌ)
اس کی سند میں کثیر بن یحییٰ راوی ہے ، جس کو حافظ ازدی نے ”ضعیف” کہا ہے، جبکہ وہ خود ”ضعیف” ہے ۔ امام ابنِ حبان اور امام ابوزرعہ نے کثیر بن یحییٰ کو ثقہ کہا ہے۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : محلّہ الصدق ۔ ”یہ صدوق درجہ کا راوی ہے۔”
امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ  نے اس سے روایت لی ہے ، وہ اس سے روایت لیتے تھے، جو ان کے والد احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک ثقہ ہو۔
حافظ منذری رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”حسن” کہا ہے ۔(الترغیب والترہیب : ٢٢٧٤)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کو ”حسن” کہا ہے۔(مجمع الزوائد للہیثمی : ١٠/١٠٢)
^    سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں : أمرنی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أن أقرأ بالمعوّذات دبر کلّ صلاۃ ۔ ”رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہرنماز کے بعد سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھنے کا حکم فرمایا ۔”(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی : ١٢٣، وسندہ، صحیحٌ ، واخرجہ احمد : ٤/١٥٥، وسندہ، صحیحٌ ، واخرجہ ابوداو،د : ١٥٢٣، والنسائی : ١٣٣٧، واحمد : ٤/٢٠١، وصححہ ابن خزیمۃ : ٧٥٥، وابن حبان : ٢٣٤٧(موارد) ، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ہذا حدیث حسن غریب ۔
”یہ حدیث حسن غریب ہے۔”(میزان الاعتدال للذہبی : ٤/٤٣٣)
&    سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب کسی مجلس میں تشریف فرما ہوتے یا نماز ادافرماتے تو چند (دعائیہ)کلمات پڑھتے تھے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کلمات کے بارے میں پوچھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اگر بات کرنے والا خیروبھلائی اورنیکی کی بات کرے گا تو اس بات پرقیامت تک کے لیے مہر ثبت کردی جائے گی ، اگر اس کے علاوہ کوئی بات کرے گا تو یہ دعا اس کے لیے باعث ِ کفارہ ہوگی ، وہ دعا یہ ہے:
سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ ، لاَ إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ ، أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُــوبُ إِلَیْکَ ۔ ”اے اللہ ! توپاک ہے ، تیری ہی تعریف ہے ، تیرے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں، میں تجھ سے معافی کا سوال کرتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔”
(مسند الامام احمد : ٦/٧٧، سنن النسائی الصغرٰی : ١٣٤٥، سنن النسائی الکبرٰی : ١٢٦٧، الدعاء للطبرانی : ١٩١٢، شعب الایمان للبیہقی : ٦٢٠، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے۔(النکت : ٢/٧٣٣)
*    سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب کھڑا ہونا اچھا لگتا تھا ، (سلام پھیرنے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوتے تھے ، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا:
رَبِّ قِنِیْ عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ ۔ ”اے میرے رب! مجھے اس دن عذاب سے بچا لے ، جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے گا۔”(صحیح مسلم : ٧٠٩)
صحابہ کرام ] میں سے ایک صحابی  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! جب آپ نماز پڑھ لیں تو یہ دعا کریں:
اَللّٰہُمَّ ! إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الطَّیِّبَاتِ ، وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ ، وَحُبَّ الْمَسَاکِینِ ، وَأَنْ تَتُوبَ عَلَیَّ ، وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَۃً فِی النَّاسِ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُونٍ ۔
”اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیاں اپنانے ، برائیاں چھوڑنے ، مساکین سے محبت اور توبہ کی قبولیت کا سوال کرتا ہوں اورجب تو لوگوں میں آزمائش(عذاب) کا ارادہ کرے تو مجھے صحیح سلامت فوت کرلینا۔”
(مسند الامام احمد : ٤/٦٦، ٥/٣٧٨، وسندہ، صحیحٌ ، والحدیث صحیحٌ)

ذکر ِ الٰہی بڑی چیز ہے ، اس سے دلوں کو اطمینان اورسکون نصیب ہوتا ہے ۔ خالق اور مخلوق کے درمیان تعلق مضبوط ہوتا ہے ۔ انسانی زندگی میں انقلاب برپا ہوجاتا ہے ، دل وجان کی تطہیر اورپاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ رزق اورزندگی میں برکت نصیب ہوتی ہے۔ ان دعاؤں اوراذکار سے جہاں عقیدے کا اظہار ہوتا ہے ، وہاں تجدید بھی ہوتی ہے ۔ یہ شیطان کے شر سے بچنے کے لیے حصنِ حصین ہیں ۔ نماز وں کے بعد کے اذکار اوردعائیں لکھ دی گئی ہیں ، خود بھی یاد کریں اوراپنے بچوں کو بھی یاد کرائیں ۔ان کی ادائیگی میں صرف پانچ منٹ صرف کرکے دنیا وآخرت کی بھلائیوں سے دامن بھرلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.