1,039

نماز جنازہ کا تکرار، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

ایک میت پر ایک سے زیادہ بار نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے ۔ یہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت ہے۔ احناف مقلدین کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں ، جبکہ اس کے ثبوت پر بہت ساری احادیث ِ مبارکہ وارد ہوئی ہیں ۔
1    سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے :
إنّ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّی علی قبر ۔
” نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک قبر پر نماز ِ جنازہ ادا کی ۔ ”
(صحیح مسلم : ١/٣٠٥، رقم الحدیث : ٩٥٥)
2    سیدنا جابر بن عبد اللہ  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
إنّ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّی علی قبر امرأۃ بعد ما دفنت ۔
” نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک عورت کی قبر پر دفن کے بعد نماز جنازہ ادا کی ۔ ”
(سنن النسائی : ٢٠٢٧، وسندہ، حسنٌ)
3    امام شعبی رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں : أخبرنی من مرّ مع النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم علی قبر منبوذ ، فأمّہم ، وصلّو خلفہ ۔
” مجھے اس شخص نے خبر دی جن کا گزر نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر کے پاس سے ہوا (سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما مراد ہیں) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام کی امامت کی ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا کی ۔ ”
(صحیح البخاری : ١/١٧٨، ح : ١٣٣٦، صحیح مسلم : ١/٣٠٥، ح : ٩٥٤)
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قبر پر نماز جنازہ پڑھنا نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے ۔ اس کے ردّ و جواب میں علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ  (٣٨٤۔٤٥٦ھ)لکھتے ہیں :
فہذا أبطل الخصوص ، لأنّ أصحابہ علیہ السلام ، وعلیہم رضوان اللّٰہ ، صلّوا معہ علی القبر ، فبطلت دعوی الخصوص ۔
” یہ خصوصیت کا دعویٰ بہت باطل ہے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام] نے بھی آپ کے ساتھ قبر پر نماز جنازہ پڑھی تھی ۔ یوں خصوصیت کا دعویٰ باطل ہو گیا ہے ۔ ”
(المحلی لابن حزم : ٥/١٤١، مسئلہ : ٥٨١)
محدثین کرام نے اس حدیث پر الصلاۃ علی القبر کے حوالے سے ابواب قائم کیے ہیں ۔ جناب عبدالحئی لکھنوی حنفی (١٢٦٤۔١٣٠٤ھ)اس دعویئ خصوصیت کو تحقیق کے خلاف قرار دیتے ہیں ۔ (التعلیق الممجد : ص ١٦٧)
4    سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام عورت مسجد میں جھاڑو دیتی تھی ۔ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اُسے گم پایا تو اس کے بارے میں دریافت کیا ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ وہ عورت فوت ہو گئی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ کی ؟ گویا انہوں نے اس کے معاملہ کو معمولی سمجھا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
دلّونی علی قبرہ ، فدلّوہ ، فصلّی علیہا ۔ ”مجھے اس کی قبر بتاؤ ۔ صحابہ کرام نے اس کی قبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی توآپ نے اس عورت پر نماز جنازہ ادا کی۔”
(صحیح البخاری : ١/١٧٨، ح : ١٣٣٧، صحیح مسلم : ١/٣٠٥، ح : ٩٥٦)
5    رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ  پر نماز جنازہ پڑھی ۔
(صحیح البخاری : ١/١٠٠٧، ح : ٦٨٢٠)
جبکہ دوسری روایت جو سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ  سے سیدنا ماعز کے قصے کے بارے میں آتی ہے ، اس میں یہ الفاظ ہیں : فقیل للنبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : یا رسول اللّٰہ ! تصلّی علیہ ؟ قال : لا ۔
” نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیا گیا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ اس کی نماز جنازہ ادا کریں گے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ۔ ـ” جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے آئندہ کل (اگلے دن)ظہر کی نماز ادا کی تو آپ نے پہلی دو رکعتیں لمبی کر کے پڑھیں ، جیسا کہ آپ نے گذشتہ روز لمبی کر کے پڑھی تھیں یا اس سے کچھ کم ۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا :
فصلّوا علی صاحبکم ، فصلّی علیہ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم والناس ۔
” اپنے ساتھی پر نماز جنازہ پڑھو ۔ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اور دوسرے لوگوں نے اس پر نماز جنازہ پڑھو ۔ ”(مصنف عبد الرزاق : ٧/٣٢١، ح : ١٣٣٣٩، وسندہ، صحیحٌ)
ان دونوں روایات میں تطبیق یوں ممکن ہے کہ جس دن سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ، اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز جنازہ نہیں پڑھی ، لیکن اگلے دن پڑھ لی ۔
6    سیدنا یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں : ہم نے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں باہر نکلے ۔ جب بقیع پہنچے تو اچانک ایک قبر نظر آئی ۔ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے بارے میں سوال کیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا : یہ فلاں عورت کی قبر ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہنچان لیا ۔ فرمایا : آپ نے مجھے اس کے بارے میں اطلاع کیوں نہیں کی ؟ انہوں نے عرض کیا : آپ روزے کی حالت میں تھے اور دوپہر کو آرام فرما رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : لا أَعْرِفَنَّ ما مات منکم میّت ما کنت بین أظہرکم إلّا آذنتمونی بہ ، فإنّ صلاتی علیہ رحمۃ ، قال : ثمّ أتی القبر ، فصففنا خلفہ ، وکبّر علیہ أربعا ۔ ” جب تک میں تمہارے درمیان موجود ہوں ، میرے علم میں یہ نہ آئے کہ تم میں سے کوئی فوت ہوا ہے اور تم نے مجھے اس کی اطلاع نہیں کی ۔ کیونکہ میری نماز جنازہ اس پر رحمت ہوتی ہے ۔ پھر آپ قبر کے پاس آئے ۔ ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر چار تکبیریں کہیں ۔ (مسند الامام احمد : ٤/٣٨٨، سنن النسائی : ٢٠٢٤، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٣/٥٩١، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان رحمہ اللہ  (٣٠٨٧)نے ”صحیح” کہا ہے ۔
امام ابنِ حبان رحمہ اللہ  (م ٣٥٤ھ)فرماتے ہیں : ((فإنّ صلاتی علیہم رحمـــۃ)) ، ولیست العلّۃ ما یتوہّم المتوہّمون فیہ أنّ إباحۃ ہذہ السنّۃ للمصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم خاصّ دون أمّتہ ، إذ لو کان ذلک لزجرہم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن أن یصطفّوا خلفہ ویصلّوا معہ علی القبر ، ففی ترک إنکارہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم علی من صلّی علی القبر أبین البیان لمن وفّقہ اللّٰہ للرشاد والسداد أنّہ فعل مباح لہ ولأمّتہ معا ۔
” فرمانِ نبوی ((فإنّ صلاتی علیہم رحمۃ))[میرا نماز جنازہ ادا کرنا فوت ہونے والوں کے لیے رحمت کا باعث ہے ](سے بعض لوگوں کو یہ وہم ہوا ہے کہ قبر پر نماز جنازہ جائز نہیں) ، حالانکہ علت وہ نہیں ہے جو بعض وہم زدہ لوگوں کے وہم میں آئی ہے کہ یہ طریقہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے ، امت کے لیے نہیں ، کیونکہ اگر ایسے ہوتا تو نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  صحابہ کرام کو اپنے پیچھے صفیں بنانے اور اپنے ساتھ قبر پر نماز پڑھنے سے منع فرما دیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے والوں کو نہ روکنا توفیقِ الٰہی سے نوازے ہوئے لوگوں کے لیے واضح دلیل ہے کہ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت سب کے لیے جائز ہے ۔”(صحیح ابن حبان : ٧/٣٥٧)
علامہ ابو الحسن محمد بن عبد الہادی سندھی حنفی(م ١١٣٨ھ)لکھتے ہیں :
من ہہنا قد أخذ الخصوص من ادّعی ذلک ، وہو دلالۃ غیر قویّۃ ۔
”جنہوں نے خصوصیت کا دعویٰ کیا ہے ، انہوں نے یہاں سے دلیل لی ہے ، لیکن یہ دلالت مضبوط نہیں ہے ۔ ”(حاشیۃ السندی علی سنن النسائی : ٤/٨٥)
7    سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں : إنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّی علی قبر البراء بن معرور رضی اللّٰہ عنہ ، وکبّر علیہ أربــع تکبیرات ۔ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا براء بن معرور رضی اللہ عنہ  کی قبر پر نماز جنازہ ادا کی اور ان پر چار تکبیریں کہیں ۔ ”(المطالب العالیۃ لابن حجر : ٧٨٠، وسندہ، صحیحٌ)
ان احادیث کے علاوہ بھی احادیث ِ مبارکہ ثابت ہیں ۔ علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ   (٣٨٤۔٤٥٦ھ)فرماتے ہیں : فہٰذہ آثار متواترۃ ، لا یسع الخروج عنہا ۔
” یہ متواتر احادیث ہیں ، جن کے انکار کی گنجائش نہیں ۔ ”(المحلی لابن حزم : ٥/١٤١)
8    ابنِ ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں : توفّی عبد الرحمن بن أبی بکر ، فی منزل کان فیہ ، فحملناہ علی رقابنا ستّۃ أمیال إلی مکّۃ ، وعائشۃ غائبۃ ، فقدمت بعد ذلک ، فقالت : أرونی قبرہ ، فأروہا ، فصلّت علیہ ۔
” عبد الرحمن بن ابی بکر  رضی اللہ عنہما اپنے گھر میں فوت ہو گئے ۔ ہم نے انہیں مکہ کی طرف چھ میل اپنے کندھوں پر اٹھا کر لے گئے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر میں تھیں ۔ وہ اس کے بعد تشریف لائیں تو فرمایا : مجھے ان کی قبر دکھاؤ ۔ لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہا کو سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کی قبر دکھائی تو آپ رضی اللہ عنہانے ان کی نماز جنازہ ادا کی ۔ ”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٣/٣٦٠، وسندہ، صحیحٌ)
9    نافع تابعی رحمہ اللہ   بیان کرتے ہیں : توفّی عاصم بن عمر ، وابن عمر غائب ، فقدم بعد ذلک ، فقال : أرونی قبر أخی ، فأروہ ، فصلّی علیہ ۔ ” عاصم بن عمر فوت ہو گئے ۔ سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما موجود نہیں تھے ۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہما تشریف لائے تو فرمایا : مجھے میرے بھائی کی قبر دکھاؤ ۔ لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہما کو ان کی قبر دکھائی تو انہوں نے نماز جنازہ ادا کی ۔ ”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٣/٣٦٠، وسندہ، صحیحٌ)
علامہ ابنِ حزم رحمہ اللہ   لکھتے ہیں : ما علمنا أحدا من الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم نہی عن الصلاۃ علی قبر رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وما نہی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، ولا رسولہ علیہ السلام ، فالمنع من ذلک باطل ، والصلاۃ علیہ فعل خیر ، والدعویٰ باطل إلّا ببرہان ۔ ” ہم کسی ایک صحابی کو بھی نہیں جانتے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر نماز جنازہ سے منع کیا ہو ۔ نہ اللہ تعالیٰ نے قبر پر نماز جنازہ سے روکا نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، لہٰذا اس سے روکنا باطل ہے ۔ قبر پر نماز جنازہ ادا کرنا کار ِ خیر ہے ۔ کوئی بھی دعویٰ دلیل کے بغیر باطل ہی ہوتا ہے ۔ ”
(المحلی لابن حزم : ٥/١٤١)
عبد اللہ بن عون رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ میں امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ   کے ساتھ تھا ۔ ہم ایک جنازہ ادا کرنا چاہتے تھے ۔ وہ ہم سے پہلے ہی ادا کر دیا گیا یہاں تک کہ میت کو دفن بھی کر دیا گیا تھا ۔ اس پر امام ابنِ سیرین رحمہ اللہ   نے فرمایا :
تعال حتّی نصنع کما صنعوا ، قال : فکبّر علی القبر أربعا ۔
” آؤ ہم بھی اسی طرح (نماز جنازہ ادا)کریں جیسے انہوں نے ادا کیا ہے ۔ آپ رحمہ اللہ   نے قبر پر (نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے)چار تکبیریں کہیں ۔ ”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٣/٣٦٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام شافعی ، امام احمد بن حنبل وغیرہما رحمہم اللہ   بھی قبر پر نماز جنازہ ادا کرنے کے قائل و فاعل ہیں ۔
0    سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے : إنّ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم خرج یوما ، فصلّی علی أھل أحد صلاتہ علی المیّت ۔
” بلاشبہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ایک دن باہر تشریف لے گئے اور احد کے شہداء پر نماز پڑھی جیسے آپ میت پر نماز جنازہ ادا کرتے تھے ۔ ”
(صحیح البخاری : ١/١٧٩، ح : ١٣٤٤، صحیح مسلم : ٢/٢٥٠، ح : ٢٢٩٦)
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ میت پر اگر سالوں پہلے نماز جنازہ ادا کی جا چکی ہو تو بھی نماز جنازہ کا اعادہ کرنا جائز ہے ۔ جس نے یہ تاویل کی ہے کہ اس سے مراد دعا ہے ، اس کی بات خطا پر مبنی ہے ۔
یہ نماز جنازہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء اُحد پر آٹھ سال بعد ادا کی تھی ، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان شہداء پر پہلے بھی نماز جنازہ ادا کی تھی ۔ (شرح معانی الآثار : ١/٥٠٢، وسندہ، حسنٌ)
مذکورہ بالا حدیث سے میت پر تکرار ِ جنازہ کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔ اسی طرح قبر پر نماز جنازہ کی ادائیگی کا بھی اثبات ہوتا ہے ، خواہ قبر پرانی ہو یا نئی اور خواہ دفن سے پہلے نماز جنازہ ادا کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو ۔
لطیفہ : جناب محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی صاحب امام ابوحنیفہ کے بارے میں لکھتے ہیں : ”غرضیکہ اس مظلومانہ طور پر ١٥٠ھ میں ان کی وفات ہوئی ۔ پہلی مرتبہ کم و بیش پچاس ہزار کے مجمع نے ان کی نماز جنازہ پڑھی ۔ آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا ۔ چھ مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی اور دفن کے بعد بھی بیس دن تک لوگوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی ۔ سیرۃ النعمان : ٤٢۔”(مقام ابی حنیفہ از صفدر : ٩٨، ٩٩)
محقق اہلحدیث الشیخ ارشاد الحق اثریd نے جواباً لکھا ہے کہ یہ جھوٹی کہانی ہے ۔ جب امام ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ ، بلکہ تمام احناف کا یہ مسلک ہے کہ قبر پر دوبارہ نماز جنازہ جائز نہیں تو امام ابو حنیفہ کے لیے جائز کیوں؟
(مولانا سرفراز صفدر اپنی تصانیف کے آئینے میں : ٢٦٠)
شیخ اثریd کے ردّ وجواب میں جناب صفدر صاحب کے ”فرزند ارجمند” محمدعبدالقدوس خان قارن لکھتے ہیں : ” اور دوسری بات کرنے میں تو اثری صاحب نے بے تکی کی حد کر دی ، جب وہ ذرا ہوش میں آئیں تو ان سے کوئی پوچھے کہ کیا امام صاحب کے جنازہ میں صرف احناف شریک تھے ؟ دیگر مذہب (مالکی ، شافعی اور حنبلی وغیرہ) کے لوگ شریک نہ تھے ؟ جب وہ لوگ شریک تھے اور ان کے نزدیک قبر پر نماز جنازہ پڑھنا درست ہے تو اس پر اعتراض کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے ؟ ”
(مشہور غیر مقلد مولانا ارشاد الحق اثری صاحب کا مجذوبانہ واویلا از قارن : ٢٨٩)
قارئین کرام ذرا انصاف کیجیے ! جب امام ابو حنیفہ ١٥٠ھ میں فوت ہو رہے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ  کی ولادت باسعادت ١٥٠ھ میں ہوئی اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ   ١٦٥ھ میں پیدا ہوئے تو ان کی ولادت سے پہلے ان کے پیروکار دنیا میں امام ابو حنیفہ کی نماز جنازہ میں کیسے شریک ہو گئے ؟ اب جب قارن صاحب ہوش میں آئیں تو وہ ہمارے اس سوال کا جواب ارشاد فرمائیں !

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.