818

نزول عیسی، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


نزولِ عیسیٰ
ابن الحسن محمدی

سیدنا عیسیٰ بن مریمi آسمان پر زندہ ہیں اور قربِ قیامت جسد ِعنصری کے ساتھ آسمان سے زمین پر اتریں گے، یہ اہل سنت والجماعت کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے۔ اس پر متواتر احادیث اور ائمہ مسلمین کی تصریحات موجود ہیں،جیسا کہ :
n علامہ،ابو عون،محمد بن احمد،سفارینی رحمہ اللہ (م : 1188ھ)فرماتے ہیں :
فَقَدْ أَجْمَعَتِ الْـأُمَّۃُ عَلٰی نُزُولِہٖ، وَلَمْ یُخَالِفْ فِیہِ أَحَدٌ مِّنْ أَہْلِ الشَّرِیعَۃِ، وَإِنَّمَا أَنْکَرَ ذٰلِکَ الْفَلَاسِفَۃُ وَالْمَلَاحِدَۃُ؛ مِمَّنْ لَّا یُعْتَدُّ بِخِلَافِہٖ، وَقَدِ انْعَقَدَ إِجْمَاعُ الْـأُمَّۃِ عَلٰی أَنَّہٗ یَنْزِلُ وَیَحْکُمُ بِہٰذِہِ الشَّرِیعَۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ، وَلَیْسَ یَنْزِلُ بِشَرِیعَۃٍ مُّسْتَقِلَّۃٍ عِنْدَ نُزُولِہٖ مِنَ السَّمَائِ، وَإِنْ کَانَتِ النُّبُوَّۃُ قَائِمَۃً بِہٖ وَہُوَ مُتَّصِفٌ بِہَا ۔
’’امت ِمسلمہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر اجماع کر چکی ہے۔ اہل شریعت میں سے کسی نے بھی اس امر کا انکار نہیں کیا۔اس کا انکار صرف ایسے فلسفی اور بے دین لوگوں نے کیا ہے،جن کے اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں۔اس بات پر بھی امت کا اجماع ہو چکا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زمین پر اترنے کے بعد شریعت ِمحمدیہq کے مطابق فیصلے کریں گے اور آسمان سے کوئی مستقل شریعت لے کر نہیں آئیں گے، اگرچہ انہیں پہلے نبوت مل چکی ہے اور وہ اس صفت سے متصف ہو چکے ہیں۔‘‘
(لوامع الأنوار البہیّۃ : 94/1، 95)
n مشہور مفسر،علامہ،محمد بن یوسف،ابو حیان،اندلسی رحمہ اللہ (745-654ھ) مفسر،ابو محمد،عبد الحق بن غالب،ابنِ عطیہ غرناطی رحمہ اللہ (542-481ھ)کی تفسیرسے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَأَجْمَعَتِ الْـأُمَّۃُ عَلٰی مَا تَضَمَّنَہُ الْحَدِیثُ الْمُتَوَاتِرُ مِنْ أَنَّ عِیسٰی فِي السَّمَائِ حَيٌّ، وَأَنَّہٗ یَنْزِلُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ، فَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ، وَیَکْسِرُ الصَّلِیبَ، وَیَقْتُلُ الدَّجَّالَ، وَیَفِیضُ الْعَدْلُ، وَتَظْہَرُ بِہِ الْمِلَّۃُ، مِلَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’امت ِمسلمہ متواتر حدیث کے اس مفہوم پر متفق ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں زندہ ہیں اور قرب ِقیامت اتریں گے،خنزیر کو قتل کریں گے،صلیب کو توڑیں گے اور دجال کو مار ڈالیں گے۔(ان کے زمانے میں)عدل عام ہو جائے گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین غالب آ جائے گا۔‘‘
(البحر المحیط في التفسیر : 173/3، طبع دار الفکر، بیروت)
n شارحِ صحیح مسلم،حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)قاضی عیاض رحمہ اللہ (544-476ھ)سے نقل کرتے ہیں :
نُزُولُ عِیسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَقَتْلُہُ الدَّجَّالَ حَقٌّ وَّصَحِیحٌ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ لِلْـأَحَادِیثِ الصَّحِیحَۃِ فِي ذٰلِکَ، وَلَیْسَ فِي الْعَقْلِ وَلَا فِي الشَّرْعِ مَا یُبْطِلُہٗ، فَوَجَبَ إِثْبَاتُہٗ، وَأَنْکَرَ ذٰلِکَ بَعْضُ الْمُعْتَزِلَۃِ وَالْجَہْمِیَّۃِ وَمَنْ وَّافَقَہُمْ، وَزَعَمُوا أَنَّ ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثَ مَرْدُودَۃٌ بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی : {وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ} وَبِقَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’لَا نَبِيَّ بَعْدِي‘، وَبِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِینَ أَنَّہٗ لَا نَبِيَّ بَعْدَ نَبِیِّنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّ شَرِیعَتَہٗ مُؤَبَّدَۃٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا تُنْسَخُ، وَہٰذَا اسْتِدْلَالٌ فَاسِدٌ، لِأَنَّہٗ لَیْسَ الْمُرَادُ بِنُزُولِ عِیسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ أَنَّہٗ یَنْزِلُ نَبِیًّا بِشَرْعٍ یَّنْسِخُ شَرْعَنَا، وَلاَ فِي ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ وَلَا فِي غَیْرِہَا شَيْء ٌ مِّنْ ہٰذَا ۔
’’اہل سنت والجماعت کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کا قرب ِقیامت آسمان سے اترنا اور دجال کو قتل کرنابرحق اور صحیح ہے،کیونکہ اس بارے میں صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں۔عقل و شریعت میں اس کی نفی پر کوئی دلیل موجود نہیں، لہٰذا اس کا اثبات واجب ہے۔بعض معتزلہ ،جہمیہ اور ان کے ہمنواؤں نے اس کا انکار کیا ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ اس بارے میں وارد ہونے والی احادیث ختم ِنبوت والی آیت ِکریمہ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں، امت ِمسلمہ کے ختم ِنبوت پر اجماع اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے دائمی اور غیر منسوخ ہونے کے دلائل کی بنا پر ردّ کر دی جائیں گی۔لیکن یہ استدلال غلط ہے،کیونکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے مراد یہ نہیں کہ وہ ایسے نبی بن کر نازل ہوں گے جن کی شریعت ہماری شریعت کو منسوخ کر دے گی۔ایسی کوئی بات نہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام والی احادیث میں مذکور ہے،نہ دیگر احادیث میں۔‘‘
(شرح صحیح مسلم : 75/18)
معروف مفسر،حافظ،اسماعیل بن عمر،ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ)فرماتے ہیں :
فَہٰذِہٖ أَحَادِیثُ مُتَوَاتِرَۃٌ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ رِّوَایَۃِ أَبِي ہُرَیْرَۃَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، وَأَبِي أُمَامَۃَ، وَالنَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ، وَعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَمُجَمِّعِ بْنِ جَارِیَۃَ، وَأَبِي سَرِیحَۃَ، وَحُذَیْفَۃَ بْنِ أُسَیْدٍ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، وَفِیہَا دَلَالَۃٌ عَلٰی صِفَۃِ نُزُولِہٖ وَمَکَانِہٖ، مِنْ أَنَّہٗ بِالشَّامِ، بَلْ بِدِمَشْقَ، عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الشَّرْقِیَّۃِ، وَأَنَّ ذٰلِکَ یَکُونُ عِنْدَ إِقَامَۃِ صَلَاۃِ الصُّبْحِ، وَقَدْ بُنِیَتْ فِي ہٰذِہِ الْـأَعْصَارِ فِي سَنَۃِ إِحْدٰی وَأَرْبَعِینَ وَسَبْعِمِائَۃٍ مَّنَارَۃٌ لِّلْجَامِعِ الْـأُمَوِيِّ، بَیْضَائُ مِنْ حِجَارَۃٍ مَّنْحُوتَۃٍ، عِوَضًا عَنِ الْمَنَارَۃِ الَّتِي ہُدِمَتْ بِسَبَبِ الْحَرِیقِ الْمَنْسُوبِ إِلٰی صَنِیعِ النَّصَارٰی، عَلَیْہِمْ لَعَائِنُ اللّٰہِ الْمُتَتَابِعَۃُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَکَانَ أَکْثَرُ عِمَارَتِہَا مِنْ أَمْوَالِہِمْ، وَقَوِیَتِ الظُّنُونُ أَنَّہَا ہِيَ الَّتِي یَنْزِلُ عَلَیْہَا الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ، وَیَکْسِرُ الصَّلِیبَ، وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ، فَلَا یَقْبَلُ إِلَّا الْإِسْلَامَ، کَمَا تَقَدَّمَ فِي الصَّحِیحَیْنِ، وَہٰذَا إِخْبَارٌ مِّنَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ، ۔۔۔، حَیْثُ تَنْزَاحُ عِلَلُہُمْ وَتَرْتَفِعُ شُبَہُہُمْ مِّنْ أَنْفُسِہِمْ، وَلِہٰذَا کُلُّہُمْ یَدْخُلُونَ فِي دِینِ الْإِسْلَامِ مُتَابَعَۃً لِّعِیسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ وَعَلٰی یَدَیْہِ، وَلِہٰذَا قَالَ تَعَالٰی : {وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتابِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ} الْآیَۃَ (النّساء 4 : 159)، وَہٰذِہِ الْآیَۃُ کَقَوْلِہٖ : {وَاِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ} (الزخرف 43 : 61)، وَقُرِئَ {لَعَلَمٌ} بِالتَّحْرِیکِ، أَيْ أَمَارَۃٌ وَّدَلِیلٌ عَلَی اقْتِرَابِ السَّاعَۃِ، وَذٰلِکَ لِأَنَّہٗ یَنْزِلُ بَعْدَ خُرُوجِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ، فَیَقْتُلُہُ اللّٰہُ عَلٰی یَدَیْہِ، کَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِیحِ، إِنَّ اللَّہَ لَمْ یَخْلُقْ دَائً إِلَّا أَنْزَلَ لَہٗ شِفَائً، وَیَبْعَثُ اللّٰہُ فِي أَیَّامِہٖ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، فَیُہْلِکُہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی بِبَرَکَۃِ دُعَائِہٖ ۔
’’یہ متواتر احادیث رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا ابو ہریرہ،سیدنا عبد اللہ بن مسعود، سیدنا عثمان بن ابو العاص،سیدنا ابو امامہ،سیدنا نواس بن سمعان، سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص،سیدنا مجمع بن جاریہ،سیدنا ابو سریحہ، سیدنا حذیفہ بن اسید y نے بیان کی ہیں۔ان احادیث میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے کی کیفیت اور جگہ کا بیان ہوا ہے۔آپ علیہ السلام شام،بلکہ دمشق میں مشرقی منارہ کے پاس اتریں گے۔یہ معاملہ نماز ِصبح کی اقامت کے قریب ہو گا۔ان دنوں، یعنی 741ہجری میں سفید چوکور پتھر سے جامع اموی کا وہ منارہ دوبارہ بنا دیا گیا ہے،جو نصاریٰ کی لگائی ہوئی آگ کی بنا پر منہدم ہو گیا تھا۔اللہ تعالیٰ ان پر تاقیامت مسلسل لعنتیں برسائے۔اس منارے کی تعمیر میں بڑا حصہ انہی کے اموال کا تھا۔ غالب گمان یہی ہے کہ اسی منارے پر سیدنا عیسیٰ بن مریمi اتریں گے۔ آپ علیہ السلام خنزیر کو قتل کریں گے،صلیب کو توڑیں گے اور جزیہ ختم کر کے سوائے اسلام کے کچھ بھی قبول نہیں کریں گے،جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم کے حوالے سے بیان کیا جا چکا ہے۔یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی ہے۔۔۔اس وقت لوگوں کے اشکالات و شبہات رفع ہو جائیں گے،لہٰذا وہ سب کے سب عیسیٰ علیہ السلام کی پیروی میں ان کے ہاتھ پر اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : {وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتابِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ ۔۔۔} (النّساء 4 : 159)، (عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے قبل تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے)،جیسا کہ ایک مقام پر یوں فرمایا: {وَاِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ} (الزخرف 43 : 61) (بلاشبہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی نشانی ہیں)۔ ایک قراء ت میں اسے لَعَلَمٌ بھی پڑھا گیا ہے،یعنی آپ علیہ السلام قربِ قیامت کی علامت اور نشانی ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام خروجِ دجال کے بعد نازل ہوں گے اور آپ ہی کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ دجال کو قتل کروائے گا،جیسا کہ صحیح بخاری میں ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں بنائی،جس کی شفا نازل نہ کی ہو۔اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام کے دور میں یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور آپ علیہ السلام کی دُعا کی برکت سے انہیں ہلاک کرے گا۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر : 413/2، طبعۃ دار الکتب العلمیّۃ، بیروت)
n علامہ،عبد الرؤف،مناوی رحمہ اللہ (1031-952ھ)لکھتے ہیں :
وَأَمَّا عِیسٰی عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ؛ فَقَدْ أَجْمَعُوا عَلٰی نُزُولِہٖ نَبِیًّا، لٰکِنَّہٗ بِشَرِیعَۃِ نَبِیِّنَا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ ۔
’’سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بحیثیت ِنبی نازل ہونے پر سارے مسلمانوں کا اجماع ہے۔البتہ آپ علیہ السلام ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے ساتھ تشریف لائیں گے۔‘‘(فیض القدیر : 341/2)
n علامہ،محمد اشرف بن امیر علی،عظیم آبادی رحمہ اللہ (م : 1329)لکھتے ہیں :
تَوَاتَرَتِ الْـأَخْبَارُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي نُزُولِ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَائِ، بِجَسَدِہِ الْعُنْصُرِيِّ، إِلَی الْـأَرْضِ عِنْدَ قُرْبِ السَّاعَۃِ، وَہٰذَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ ۔
’’قربِ قیامت سیدنا عیسیٰ بن مریمi کے آسمان سے جسد ِعنصری کے ساتھ زمین پر اترنے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث ثابت ہیں۔ اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے۔‘‘(عون المعبود : 457/11)
n علامہ،احمد بن محمد عبد القادر،شاکر رحمہ اللہ (1377-1309ھ)فرماتے ہیں :
نُزُولُ عِیسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ مِمَّا لَمْ یَخْتَلِفْ فِیہِ الْمُسْلِمُونَ، لِوُرُودِ الْـأَخْبَارِ الْمُتَوَاتِرَۃِ الصِّحَاحِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ، وَقَدْ ذَکَرَ ابْنُ کَثِیرٍ فِي تَفْسِیرِہٖ طَائِفَۃً طَیِّبَۃً مِّنْہَا، وَہٰذَا مَعْلُومٌ مِّنَ الدِّینِ بِالضُّرُورَۃِ، لَا یُؤْمِنُ مَنْ أَنْکَرَہٗ ۔
’’آخری زمانے میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر اترنا ان امور میں سے ہے، جن میں مسلمانوں نے اختلاف نہیں کیا،کیونکہ اس بارے میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر صحیح احادیث منقول ہیں۔حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان میں سے ایک اچھی خاصی تعداد (اپنی تفسیر میں) ذکر کر دی ہے۔یہ دین کا ایسا معاملہ ہے،جو لازمی طور پر معلوم ہے۔اس کا منکر مؤمن نہیں ہو سکتا۔‘‘
(حاشیۃ تفسیر الطبري : 460/6)
n محدث العصر،ناصر الدین،البانی رحمہ اللہ (1419-1332ھ)فرماتے ہیں :
وَاعْلَمْ أَنَّ أَحَادِیثَ الدَّجَّالِ وَنُزُولُ عِیسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ مُتَوَاتِرَۃٌ یَّجِبُ الْإِیمَانُ بِہَا، وَلَا تَغْتَرَّ بِمَنْ یَّدَّعِي فِیہَا أَنَّہَا أَحَادِیثُ آحَادٍ، فَإِنَّہُمْ جُہَّالٌ بِہٰذَا الْعِلْمِ، وَلَیْسَ فِیہِمْ مَّنْ تَتَبَّعَ طُرُقَہَا، وَلَوْ فَعَلَ لَوَجَدَہَا مُتَوَاتِرَۃً، کَمَا شَہِدَ بِذٰلِکَ أَئِمَّۃُ ہٰذَا الْعِلْمِ، کَالْحَافِظِ ابْنِ حَجَرٍ وَّغَیْرِہٖ، وَمِنَ الْمُؤَسَّفِ حَقًّا أَنْ یَّتَجَرَّأَ الْبَعْضُ عَلَی الْکَلَامِ فِیمَا لَیْسَ مِنِ اخْتِصَاصِہِمْ، لَا سِیَّمَا وَالْـأَمْرُ دِینٌ وَّعَقِیدَۃٌ ۔
’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ دجال اور نزولِ عیسیٰ علیہ السلام والی احادیث متواتر ہیں اور ان پر ایمان لانا فرض ہے۔آپ ان لوگوں سے دھوکا نہ کھائیں جو ان احادیث کے آحاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،کیونکہ یہ لوگ اس علم سے جاہل ہیں۔ان میں سے کسی نے بھی اس حدیث کی ساری سندوں کو تلاش نہیں کیا۔ اگر وہ ایسا کرتے،تو انہیں متواتر ہی پاتے،جیسا کہ اس علم کے ائمہ ،مثلاً حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے گواہی دی ہے۔مجھے حقیقی طور پر افسوس ہے کہ بعض لوگ ایسے معاملات میں بات کرنے کی جرأت کر لیتے ہیں،جن میں انہیں خصوصی مہارت حاصل نہیں ہوتی،خصوصاً جبکہ معاملہ دین اور عقیدے کا ہو۔‘‘
(حاشیۃ العقیدۃ الطحاویّۃ، ص : 565)
حدیثی دلائل :
اب نزولِ عیسیٰ علیہ السلام پر چند حدیثی دلائل ملاحظہ فرمائیں :
1 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’لاَ تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَنْزِلَ فِیکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا مُّقْسِطًا، فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ، وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ، وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ، وَیَفِیضَ الْمَالُ، حَتّٰی لاَ یَقْبَلَہٗ أَحَدٌ‘ ۔
’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی،جب تک تمہارے پاس ابنِ مریم انصاف کرنے والے حاکم بن کر نازل نہ ہوں گے۔وہ صلیب توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ ختم کر دیں گے۔ان کے عہد میں مال اس قدر زیادہ ہو جائے گا کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔‘‘
(صحیح البخاري : 2476، صحیح مسلم : 155)
صحیح مسلم(243/155)کے الفاظ یوں ہیں :
’وَاللّٰہِ، لَیَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَادِلًا، فَلَیَکْسِرَنَّ الصَّلِیبَ، وَلَیَقْتُلَنَّ الْخِنْزِیرَ، وَلَیَضَعَنَّ الْجِزْیَۃَ، وَلَتُتْرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْہَا، وَلَتَذْہَبَنَّ الشَّحْنَائُ وَالتَّبَاغُضُ وَالتَّحَاسُدُ، وَلَیَدْعُوَنَّ إِلَی الْمَالِ فَلَا یَقْبَلُہٗ أَحَدٌ‘ ۔
’’اللہ کی قسم! ابن مریم ضرور عادل حاکم بن کر نازل ہوں گے ،صلیب کو توڑیں گے،خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔جوان اونٹوں کو چھوڑ دیا جائے گا،کوئی انہیں پکڑنے کی کوشش نہیں کرے گا۔باہمی کینہ،بغض اور حسد ختم ہو جائے گا۔مال کی طرف بلایا جائے گا،لیکن اسے کوئی قبول نہیں کرے گا۔‘‘
2 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کا بیان ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’یُوشِکُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ أَنْ یَنْزِلَ حَکَمًا قِسْطًا، وَإِمَامًا عَدْلًا، فَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ، وَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ، وَتَکُونَ الدَّعْوَۃُ وَاحِدَۃً، فَأَقْرِئُوہُ [أَوْ أَقْرِئْہُ] السَّلَامَ مِنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأُحَدِّثْہُ فَیُصَدِّقُنِي‘، فَلَمَّا حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُ، قَالَ : ’أَقْرِئُوہُ مِنِّي السَّلَامَ‘ ۔
’’قریب ہے کہ مسیح عیسیٰ بن مریم منصف حاکم اور عادل امام بن کر نازل ہوں گے۔وہ خنزیر کو قتل کریں گے،صلیب توڑیں گے اوردین ایک ہی (اسلام)ہو جائے گا۔انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سلام کہنا اور میری احادیث بیان کرنا،وہ میری تصدیق کریں گے۔[جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب ہوا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:]میری طرف سے انہیں سلام کہنا۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 394/2، وسندہٗ حسنٌ)
3 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے :
قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’یُوشِکُ مَنْ عَاشَ مِنْکُمْ أَنْ یَّرٰی عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ إِمَامًا حَکَمًا، فَتُوضَعُ الْجِزْیَۃُ، وَیُکْسَرُ الصَّلِیبُ، وَیُقْتَلُ الْخِنْزِیرُ، وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا‘ ۔
’’ابو القاسم(رسول اللہ) صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے جو شخص (قربِ قیامت تک) زندہ رہے گا،وہ عیسیٰ بن مریم کو امام و حاکم دیکھے گا۔جزیہ ختم کر دیا جائے گا،صلیب توڑ دی جائے گی،خنزیر کو قتل کیا جائے گا اور لڑائی اپنے ہتھیار پھینک دے گی۔‘‘(المعجم الأوسط للطبراني : 1309، المعجم الصغیر للطبراني : 84، وسندہٗ حسنٌ)
4 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’إِنِّي لَـأَرْجُو إِنْ طَالَ بِي عُمُرٌ أَنْ أَلْقٰی عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ، فَإِنْ عَجِلَ بِي مَوْتٌ؛ فَمَنْ لَّقِیَہٗ مِنْکُمْ فَلْیُقْرِئْہُ مِنِّي السَّلَامَ‘ ۔
’’میں امید کرتا ہوں کہ اگر میری عمر لمبی ہوئی تو میں عیسیٰ بن مریم سے ملوں گا۔ اگر میری موت جلدی آ گئی،توجو انہیں ملے،وہ میری طرف سے انہیں سلام پیش کرے۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 298/2، وسندہٗ صحیحٌ)
5 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دجال کے احوال بیان کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتی ہیں :
’حَتّٰی یَأْتِيَ فِلَسْطِینَ، بَابَ لُدٍّ، فَیَنْزِلُ عِیسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَیَقْتُلُہٗ، ثُمَّ یَمْکُثُ عِیسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ فِي الْـأَرْضِ‘ ۔
’’یہاں تک کہ دجال فلسطین میں بابِ لُد کے پاس آ جائے گا،پھر عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام زمین میں ٹھہریں گے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 75/6، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (6822)نے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
6 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان بھی نقل کرتے ہیں :
’لَا یَنْزِلُ الدَّجَّالُ الْمَدِینَۃَ، وَلَکِنَّہٗ یَنْزِلُ الْخَنْدَقَ، وَعَلٰی کُلِّ نَقْبٍ مِّنْہَا مَلَائِکَۃٌ یَّحْرُسُونَہَا، فَأَوَّلُ مَنْ یَّتْبَعُہُ النِّسَائُ وَالْإِمَاء ُ، فَیَذْہَبُ فَیَتْبَعُہُ النَّاسُ فَیَرُدُّونَہٗ، فَیَرْجِعُ غَضْبَانَ حَتّٰی یَنْزِلَ الْخَنْدَقَ، فَیَنْزِلُ عِنْدَ ذٰلِکَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ‘ ۔
’’دجال مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہو سکے گا،البتہ وہ خندق میں داخل ہو جائے گا۔مدینہ منورہ کے ہر راستے پر فرشتے اس کی حفاظت پر مامور ہوں گے۔ سب سے پہلے عورتیں اور لونڈیاں دجال کی پیروی کریں گی۔دجال مدینہ منورہ کی طرف جائے گا اور لوگ اس کے پیچھے ہوں گے،لیکن فرشتے اسے روک دیں گے۔وہ غصے سے واپس آ کر خندق میں پڑاؤ ڈال لے گا۔اسی وقت عیسیٰ بن مریمi آسمان سے اتریں گے۔‘‘
(المعجم الأوسط للطبراني : 5465، وسندہٗ حسنٌ)
7 سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
’فَبَیْنَمَا ہُوَ کَذٰلِکَ إِذْ بَعَثَ اللّٰہُ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ، فَیَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ‘ ۔
’’دجال اسی حال میں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم کو بھیج دے گا۔وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس اتریں گے۔‘‘(صحیح مسلم : 2937)
8 سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’یَنْزِلُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ عِنْدَ الْمَنَارَۃِ الْبَیْضَائِ، شَرْقِيَّ دِمَشْقَ‘ ۔
’’عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس اتریں گے۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبراني : 590، وسندہٗ حسنٌ)
9 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’یَنْزِلُ عِیسٰی ابْنُ مَرْیَمَ، فَیَمْکُثُ فِي النَّاسِ أَرْبَعِینَ سَنَۃً‘ ۔
’’عیسیٰ بن مریم اتریں گے اور لوگوں میں چالیس سال رہیں گے۔‘‘
(المعجم الأوسط للطبراني : 5466، وسندہٗ حسنٌ)
0 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :
’إِنِّي لَـأَرْجُو إِنْ طَالَتْ بِي حَیَاۃٌ أَنْ أُدْرِکَ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ، فَإِنْ عَجِلَ بِي مَوْتٌ؛ فَمَنْ أَدْرَکَہٗ فَلْیُقْرِئْہُ مِنِّي السَّلَامَ‘ ۔
’’مجھے امید ہے کہ اگر میری زندگی لمبی ہوئی،تو میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو پا لوں گا۔اگر مجھے جلد موت آ گئی،تو جو انہیں ملے،وہ میری طرف سے انہیں سلام پیش کرے۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 298/2، وسندہٗ صحیحٌ)
اہل علم کی تصریحات :
اب نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کچھ اہل علم کی تصریحات بھی ملاحظہ فرمائیں :
n حافظ عبد الرحمن بن احمد،ابن رجب رحمہ اللہ (795-736ھ)فرماتے ہیں :
’وَبِالشَّامِ یَنْزِلُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ، وَہُوَ الْمُبَشَّرُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَیَحْکُمُ بِہٖ، وَلَا یَقْبَلُ مِنْ أَحَدٍ غَیْرَ دِینِہٖ، فَیَکْسِرُ الصَّلِیبَ، وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیرَ، وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ، وَیُصَلِّي خَلْفَ إِمَامِ الْمُسْلِمِینَ، وَیَقُولُ : إِنَّ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃَ أَئِمَّۃٌ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ‘ ۔
’’قرب ِقیامت شام میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان ہی کے نزول کی خوشخبری دی گئی ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق ہی فیصلے کریں گے،کسی سے اسلام کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں کریں گے، صلیب توڑ دیں گے،خنزیر کو قتل کر دیں گے،جزیہ ختم کر دیں گے اور مسلمانوں کے امام کی اقتدا میں نماز ادا کر یں گے اور فرمائیں گے : اس امت کے بعض افراد ہی ان کے لیے امام ہیں۔‘‘(لطائف المعارف، ص : 90)
n امام،ابو الحسن،علی بن اسماعیل،اشعری رحمہ اللہ (324-260ھ)اہل سنت والجماعت کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَیُصَدِّقُونَ بِخُرُوجِ الدَّجَّالِ، وَأَنَّ عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ یَقْتُلُہٗ ۔
’’اہل سنت دجال کے خروج اور عیسیٰ بن مریمi کے اسے قتل کرنے کی تصدیق کرتے ہیں۔‘‘
آگے چل کر لکھتے ہیں :
وَبِکُلِّ مَا ذَکَرْنَا مِنْ قَوْلِہِمْ نَقُولُ، وَإِلَیْہِ نَذْہَبُ ۔
’’اہل سنت کے جو اقوال ہم نے ذکر کیے ہیں،ہم بھی انہی کے مطابق کہتے ہیں اور یہی ہمارا مذہب ہیں۔‘‘
(مقــــــالات الإسلامیّین واختلاف المصلّـــــــین : 324/1)
n امام،ابو مظفر،منصور بن محمد،سمعانی رحمہ اللہ (489-426ھ)فرماتے ہیں :
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ : ’رَأَیْتُ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ(صحیح البخاري : 3440، صحیح مسلم : 169)، فَدلَّ عَلٰی أَنَّ الصَّحِیحَ أَنَّہٗ فِي الْـأَحْیَائِ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے (خواب میں)مسیح ابن مریم کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا ہے۔(صحیح البخاري : 3440، صحیح مسلم : 169)اس سے معلوم ہوا کہ صحیح بات یہی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔‘‘
(تفسیر السمعاني : 325/1)
n شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)فرماتے ہیں:
إِنَّ عِیسٰی قَدْ رُفِعَ، وَہُوَ حَيٌّ عَلَی الصَّحِیحِ ۔
’’سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھا لیا گیا تھا اور صحیح قول کے مطابق وہ زندہ ہیں۔‘‘
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 375/6)
n شارحِ صحیح بخاری،علامہ ،محمود بن احمد،عینی حنفی(855-762ھ)لکھتے ہیں :
وَلَا شَکَّ أَنَّ عِیسٰی فِي السَّمَائِ، وَہُوَ حَيٌّ، وَیَفْعَلُ اللّٰہُ فِي خَلْقِہٖ مَا یَشَائُ ۔
’’اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں ہیں اور زندہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جو چاہے کرتا ہے۔‘‘(عمدۃ القاري : 160/24)
n حافظ،ابو فدا،اسماعیل بن عمر،ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ)فرماتے ہیں:
وَہٰذَا ہُوَ الْمَقْصُودُ مِنَ السِّیَاقِ الْإِخْبَارُ بِحَیَاتِہِ الْآنَ فِي السَّمَائِ، وَلَیْسَ الْـأَمْرُ کَمَا یَزْعُمُہٗ أَہْلُ الْکِتَابِ الْجَہَلَۃُ أَنَّہُمْ صَلَبُوہُ، بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ، ثُمَّ یَنْزِلُ مِنَ السَّمَائِ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، کَمَا دَلَّتْ عَلَیْہِ الْـأَحَادِیثُ الْمُتَوَاتِرَۃُ ۔
’’حدیث کے سیاق سے یہ خبر دینا مقصود ہے کہ اب عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں زندہ ہیں۔ جاہل اہل کتاب جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے دی تھی،تو ایسا بالکل نہیں ہوا،بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اوپر اٹھا لیا تھا۔ قیامت سے پہلے آپ آسمان سے اتریں گے،جیسا کہ متواتر احادیث بتاتی ہیں۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ : 218/19، طبعۃ دار ھجر)
دیوث کون؟
دیوث وہ ہوتا ہے،جو اپنے اہل و عیال کے سلسلے میں بے غیرت ہو۔ان کو برائی کو ملوث دیکھ کر ٹس سے مس نہیں ہوتا۔اسے بھڑوا اور دلال بھی کہتے ہیں۔اس کے بارے میں وعید ِشدید آئی ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’ثَلَاثٌ لَّا یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ، وَلَا یَنْظُرُ اللّٰہُ إِلَیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؛ الْعَاقُّ بِوَالِدَیْہِ، وَالْمَرْأَۃُ الْمُتَرَجِّلَۃُ الْمُتَشَبِّہَۃُ بِالرِّجَالِ، وَالدَّیُّوثُ‘ ۔
’’تین قسم کے لوگ نہ جنت میں داخل ہوں گے،نہ ہی اللہ تعالیٰ روز ِقیامت ان کو نظر رحمت سے دیکھے گا۔1 والدین کے نافرمان،2 ایسی عورتیں جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں اور3 دیوث۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 134/2، سنن النسائي : 2562، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (7340)نے ’’صحیح‘‘،امام حاکم رحمہ اللہ (72/1) نے ’’صحیح الاسناد‘‘قرار دیا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.