1,672

پیشاب کے چھینٹوں سے صحابی کو عذاب، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

پیشا ب کے چھینٹوں سے صحابی کو عذاب؟

کسی صحابی کے بارے میں یہ ثابت نہیں کہ وہ پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتے تھے،لہٰذا اس بنا پر انہیں عذاب ِقبر ہوا۔(نعوذ باللہ!)
اس کے متعلق روایات کا تحقیقی جائزہ پیش ِخدمت ہے:
1     سعید مقبری رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
لَمَّا دَفَنَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَعْدًا قَالَ : لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِّنْ ضَغْطَۃِ الْقَبْرِ لَنَجَا سَعْدٌ، وَلَقَدْ ضُمَّ ضَمَّۃً اخْتَلَفَتْ مِنْہَا أَضْلَاعُہ، مِنْ أَثَرِ الْبَوْلِ .
”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ  کو دفن کر دیا، تو فرمایا : اگر قبر کے دبوچنے سے کوئی بچ سکتا، تو وہ سعد تھا۔ اسے بھی قبر نے اس قدر دبایا کہ پسلیوں کا آپس میں اختلاط ہو گا، ایسا پیشاب کے چھینٹوں کی وجہ سے ہوا۔”
(الطبقات لابن سعد : ٣/٣٢٩)
تبصرہ:
سند ”ضعیف” اور ”منقطع” ہے۔
1     سعید مقبری رحمہ اللہ  تابعی براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیان کر رہے ہیں، لہٰذا یہ ”مرسل” ہونے کی وجہ سے ”ضعیف” ہے۔
2     ابو معشر نجیح بن عبد الرحمن جمہور کے نزدیک”ضعیف” ہے۔
علامہ بوصیری رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ .
”اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔”
(اتحاف المھرۃ : ٤/٥١١)
2     سعد رضی اللہ عنہ  کے گھر والے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
کَانَ یُقَصِّرُ فِي بَعْضِ الطَّہُورِ مِنَ الْبَوْلِ .
”سعد بسا اوقات پیشاب کرتے وقت چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔”
(دلائل النّبوۃ : ٤/٣٠، إثبات عذاب القبر کلاھما للبیھقي : ٩٤)
تبصرہ:
سند ”ضعیف” ہے۔ بعض اہل سعد، کون ہے؟ کوئی پتہ نہیں! نیز ان کو خبر دینے والا بھی مبہم ہے۔
3     سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ  کے جنازہ کے موقع پر فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ لَقَدْ سَمِعْتُ أَنِینَہ،، وَرَأَیْتُ اخْتِلافَ أَضْلاعِہٖ فِي قَبْرِہٖ .
”اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میری جان ہے! میں نے سعد کے رونے کی آواز سنی ہے اور پسلیوں کا اختلاط دیکھا ہے۔”
(الموضوعات لابن الجوزي : ٣/٢٣٣)
تبصرہ:
سند ”باطل ” ہے۔ قاسم بن عبدا لرحمن انصاری ”ضعیف” ہے۔ توثیق و عدالت ثابت نہیں۔ امام یحی بن معین رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
لَیْسَ بِشَيْءٍ .
”کسی کام کا نہیں۔”
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ  نے فرمایا:
ضَعِیفُ الْحَدِیثِ، مُضْطَرَبُ الْحَدِیثِ .
”اس کی حدیث ” ضعیف و مضطرب” ہوتی ہے۔”
نیز امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ  نے ”منکر الحدیث” کہا ہے۔”
(الجرح والتّعدیل لابن أبي حاتم : ٧/١١٣)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ  اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
ھٰذَا حَدِیثٌ لَّا یَصِحُّ، وَآفَتُہ، مِنَ الْقَاسِمِ .
”یہ حدیث ثابت نہیں ہے، وجہ ضعف قاسم (بن عبد الرحمن) ہے۔”
4     مشہور تابعی حسن بصری رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
إِنَّہ، ضُمَّ فِي الْقَبْرِ ضَمَّۃً حَتّٰی صَارَ مِثْلَ الشَّعْرَۃِ، فَدَعَوْتُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ أَنْ یُّرَفِّہَ عَنْہُ، وَذَالِکَ أَنَّہ، کَانَ لَا یَسْتَبْرِءُ مِنَ الْبَوْلِ .
”سعد پر قبر اس قدر تنگ ہوئی کہ وہ بال کی طرح باریک ہو گئے، میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے بارِ خاطر ہلکا کردے۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ سعد پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔”
(الموضوعات لابن الجوزي : ٣/٢٣٤)
تبصرہ:
سند سخت ”ضعیف” ہے۔
1     سند ”منقطع” ہے۔ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
ھٰذَا حَدِیثٌ مَّقْطُوعٌ، فَإِنَّ الْحَسَنَ لَمْ یُدْرِکْ سَعْدًا .
”یہ حدیث ”منقطع” ہے، کیوں حسن بصری نے سعد کا زمانہ نہیں پایا۔”
2     ابو سفیان طریف بن شہاب صفدی جمہور کے نزدیک ”ضعیف و متروک” ہے۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ سیدنا سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ  کو ضغطۃ القبر ”قبر کی پکڑ” پیشاب کے چھینٹوں کی وجہ سے نہ تھا اور اس کے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں، جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔
فائدہ:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ  کے بارے میں فرمایا:
لَہٰذَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ الَّذِي تَحَرَّکَ لَہُ الْعَرْشُ، وَفُتِحَتْ لَہ، أَبْوَابُ السَّمَاوَاتِ، وَشَہِدَہ، سَبْعُونَ أَلْفًا مِّنَ الْمَلَائِکَۃِ لَمْ یَنْزِلُوا الْـأَرْضَ قَبْلَ ذَالِکَ، وَلَقَدْ ضُمَّ ضَمَّۃً ثُمَّ أُفْرِجَ عَنْہُ .
”یہ تو ایسی نیک شخصیت ہیں، کہ جن کی موت سے عرشِ الٰہی میں بھی جنبش آ گئی، ساتوں آسمانوں کے دروازے کھول دیے گئے اور ستر ہزار فرشتے جنازہ میں حاضر ہوئے، جو اس سے پہلے زمین پر نہ اترے تھے۔ پہلے ان پر قبر تنگ ہوئی ، پھر کشادہ ہو گئی۔
(الطبقات لابن سعد : ٣/٤٣٠، سنن النسائي : ٢٠٥٥، وسندہ، صحیحٌ)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
إِنَّ لِلْقَبْرِ ضَغْطَۃً، لَوْ کَانَ أَحَدٌ نَّاجِیًا مِّنْہَا نَجَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ .
”قبر ایک بار ضرور دبوچتی ہے، اگر اس سے کوئی بچ سکتا ہوتا، تو سعد ہوتے۔”
(مسند الإمام أحمد : ٦/٥٥،٩٨، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابن حبان رحمہ اللہ  (٣١١٢) نے اسے ”صحیح” کہا ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ  نے اس کی سند کو ”قوی” کہا ہے۔
(سیر أعلام النّبلاء : ١/٢٩٠)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صلّٰی عَلٰی صَبِيٍّ أَوْ صَبِیَّۃٍ فَقَال : لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِّنْ ضَمَّۃِ الْقَبْرِ لَنَجَا ہٰذَا الصَّبِيُّ .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی بچے یا بچی کا جنازہ پڑھایا اور فرمایا : قبر کی تنگی سے کوئی بچ سکتا ہوتا، تو یہ بچہ بچتا۔”
(الأوسط للطبراني : ٢٧٥٣، المَطالب العالیۃ لابن حجر : ٤٥٣٢، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اس کی سند کو ”صحیح” کہا ہے۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
رَوَاہُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْـأَوْسَطِ، وَرِجَالُہ، مُوَثَّقُونَ .
ــ”یہ معجم الاوسط للطبرانی کی روایت ہے اور اس کے تمام راویوں کی توثیق کی گی ہے ۔”
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : ٣/٤٧)
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں:
إِنَّ صَبِیًّا دُفِنَ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَوْ أَفْلَتَ أَحَدٌ مِّنْ ضَمَّۃِ الْقَبْرِ لََـأَفْلَتَ ہٰذَا الصَّبِيُّ .
”ایک بچے کی تدفین کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : قبر کے کھچاؤ سے کسی کی جاں خلاصی ہوسکتی ہوتی، تو اس بچے کی ہوتی۔”
(المعجم الکبیر للطبراني : ٤/١٢١، ح : ٣٨٥٨، صحیحٌ)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
وَرِجَالُہ، رِجَالُ الصَّحِیحِ .
”اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔”
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : ٣/٤٧)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
ہٰذِہِ الضَّمَّۃُ لَیْسَتْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فِي شَيْئٍ، بَلْ ہُوَ أَمْرٌ یَّجِدُہُ المُؤْمِنُ، کَمَا یَجِدُ أَلَمَ فَقْدِ وَلَدِہٖ وَحَمِیمِہٖ فِي الدُّنْیَا، وَکَمَا یَجِدُ مِنْ أَلَمِ مَرَضِہٖ، وَأَلَمِ خُرُوجِ نَفْسِہٖ، وَأَلَمِ سُؤَالِہٖ فِي قَبْرِہٖ وَامْتِحَانِہٖ، وَأَلَمِ تَأَثُّرِہٖ بِبُکَاءِ أَہْلِہٖ عَلَیْہِ، وَأَلَمِ قِیَامِہٖ مِنْ قَبْرِہٖ، وَأَلَمِ الْمَوْقِفِ وَہَوْلِہٖ، وَأَلَمِ الْوُرُودِ عَلَی النَّارِ، وَنَحْوِ ذَالِکَ، فَہٰذِہِ الْـأَرَاجِیفُ کُلُّہَا قَدْ تَنَالُ الْعَبْدَ، وَمَا ہِيَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَلَا مِنْ عَذَابِ جَہَنَّم قَطُّ، وَلٰکِنَّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ یَرْفُقُ اللّٰہُ بِہٖ فِي بَعْضِ ذَالِکَ أَوْ کُلِّہٖ، وَلَا رَاحَۃَ لِلْمُؤْمِنِ دُوْنَ لِقَاءِ رَبِّہٖ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : (وَأَنْذِرْہُم یَوْمَ الْحَسْرَۃِ)، وَقَالَ : (وَأَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْـآزِفَۃِ، إِذِ الْقُلُوبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ)، فَنَسْأَلُ اللّٰہَ تَعَالَی الْعَفْوَ وَاللُّطْفَ الْخَفِيَّ، وَمَعَ ہٰذِہِ الہَزَّاتِ، فَسَعْدٌ مِّمَّنْ نَّعْلَمُ أَنَّہ، مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، وَأَنَّہ، مِنْ أَرْفَعِ الشُّہَدَاءِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، کَأَنَّکَ یَا ہٰذَا تَظُنُّ أَنَّ الْفَائِزَ لَا یَنَالُہ، ہَوْلٌ فِي الدَّارَیْنِ، وَلاَرَوْعٌ، وَلاَ أَلَمٌ، وَلاَ خَوْفٌ، سَلْ رَبَّکَ الْعَافِیَۃَ، وَأَنْ یَّحْشُرَنَا فِي زُمْرَۃِ سَعْدٍ .
”یہ تنگی اور پکڑ عذاب قبر نہیں ہے، بل کہ یہ تو ایک حالت ہے، جس کا سامنا مومن کو بہر صورت کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ دنیا میں اپنے بیٹے یا محبوب کے گم ہو جانے پر پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ اسی طرح اسے بیماری، جان نکلنے، قبر کے سوالات، اس پر نوحہ کرنے کے اثرات، قبر سے اٹھنے، حشر اور اس کی ہولناکی اور آگ پر پیشی وغیرہ جیسے حالات کی تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے یا پڑے گی۔ ان دہشت ناک حالات سے انسان کا پالا پڑ سکتا ہے۔ یہ قبر کا عذاب ہے، نہ جہنم کا۔ لیکن اللہ تعالیٰ شفقت کرتے ہوئے اپنے متقی بندے کو بعض یا سب حالات سے بچا لیتے ہیں۔ مومن کو حقیقی و ابدی راحت اپنے رب کی ملاقات کے بعد ہی حاصل ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (وَأَنْذِرْہُم یَوْمَ الْحَسْرَۃِ)(مریم : ٣٩) ‘آپ لوگوں کو حسرت والے دن سے خبر دار کر دیں۔’ نیز فرمایا : (وَأَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْـآزِفَۃِ، إِذِ القُلُوبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ) (المؤمن : ١٨) ‘آپ لوگوں کو تنگی اور بدحالی والے دن سے ڈرا دیں کہ جب کلیجے منہ کو آئیں گے۔’ ہم اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر ، لطف وکرم اور پردہ پوشی کا سوال کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ان جھٹکوں کے باوجود سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ  جنتی ہیں اور بلند مرتبہ شہدا میں سے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ کامیاب انسان کو دنیا و آخرت میں کسی قسم کی پریشانی، قلق، تکلیف، خوف اور گھبراہٹ کا سامنا نہیں ہو گا۔ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہمیں عافیت عطا فرمائے اور ہمارا حشر (سیدالانصار) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ  کے ساتھ کر دے۔”
(سیر أعلام النّبلاء : ١/٢٩٠، ٢٩١)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.