1,145

پہلے قعدہ میں تشہد، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

نماز کی دو رکعتیں مکمل کرنے کے بعد بیٹھنا قعدہ کہلاتا ہے۔چار رکعتوں والی نماز میں دو قعدے ہوتے ہیں۔پہلا دو رکعتوں کے بعد اور دوسرا چار رکعتیں مکمل کرنے کے بعد۔
قعدہ پہلا ہو یا دوسرا اس میں تشہد (التحیّات۔۔۔،جس میں اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت ہوتی ہے)پڑھا جاتا ہے۔تشہد سے زائد مثلاً درود پڑھنا اور دُعا کرنا صرف دوسرے تشہد کے ساتھ خاص ہے یا پہلے تشہد میں بھی اس کی اجازت ہے؟ اسی سوال کا جواب دینے کے لیے یہ تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
ہماری تحقیق میں پہلے قعدہ میں تشہد پر اکتفا کر لیا جائے یا تشہد سے زائد بھی کچھ پڑھ لیا جائے،دونوں صورتیں جائز ہیں۔جو لوگ کہتے ہیں کہ اگر پہلے تشہد میں درود پڑھا گیا،تو سجدۂ سہو لازم آ جائے گا،ان کی بات بے دلیل ہے، کیونکہ دونوں طریقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِمبارکہ سے ثابت ہیں، ملاحظہ فرمائیں :
تشہد پر اقتصار و اکتفا :
1 سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگردوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشہد سکھایا۔ان کے ایک شاگرد اسود بن یزید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
ثُمَّ إِنْ کَانَ فِي وَسَطِ الصَّلَاۃِ؛ نَہَضَ حِینَ یَفْرُغُ مِنْ تَشَہُّدِہٖ، وَإِنْ کَانَ فِي آخِرِہَا؛ دَعَا بَعْدَ تَشَہُّدِہٖ مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ یَّدْعُوَ، ثُمَّ یُسَلِّمُ ۔
’’آپ اگر نماز کے درمیانے تشہد میں ہوتے،تو تشہد سے فارغ ہوتے ہی (اگلی رکعت کے لیے)کھڑے ہو جاتے اور اگر آخری تشہد میں ہوتے، تو تشہد کے بعد جو دُعا مقدر میں ہوتی،کرتے،پھر سلام پھیرتے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 459/1، وسندہٗ حسنٌ)
امام الائمہ،ابن خزیمہ رحمہ اللہ (708)نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
امام موصوف اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں :
بَابُ الِاقْتِصَارِ فِي الْجَلْسَۃِ الْـأُولٰی عََلَی التَّشَہُّدِ، وَتَرْکَ الدُّعَائِ بَعْدَ التَّشَہُّدِ الْـأَوَّلِ ۔
’’اس بات کا بیان کہ پہلے قعدہ میں تشہد پر اکتفا کرنا اور دُعا کو ترک کرنا جائز ہے۔‘‘(صحیح ابن خزیمۃ : 708)
2 ام المومنین،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لَا یَزِیدُ فِي الرَّکْعَتَیْنِ عَلَی التَّشَہُّدِ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد (عام طور پر)تشہد سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘(مسند أبي یعلی الموصلي : 4373، وسندہٗ صحیح)
تنبیہات :
1 سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ فِي الرَّکْعَتَیْنِ الْـأُولَیَیْنِ، کَأَنَّہٗ عَلَی الرَّضْفِ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعتوں کے بعد (تشہد کے لیے بیٹھتے)، تو (بہت جلد اٹھنے کی وجہ سے)ایسے لگتا کہ گرم پتھر پر بیٹھے ہیں۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 386/1، سنن أبي داوٗد : 995، سنن النسائی : 1177، سنن الترمذي : 366)
اس کی سند ’’مرسل‘‘ ہونے کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ ابو عبیدہ کا اپنے والد سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَالرَّاجِحُ أَنَّہٗ لَا یَصِحُّ سَمَاعُہٗ مِنْ أَبِیہِ ۔
’’راجح بات یہی ہے کہ ابو عبیدہ کا اپنے والد ِگرامی سے سماع ثابت نہیں۔‘‘
(تقریب التہذیب : 8231)
نیز فرماتے ہیں : فَإِنَہٗ عِنْدَ الْـأَکْثَرِ لَمْ یَسْمَع مِنْ أَبِیہِ ۔
’’جمہور اہل علم کے نزدیک انہوں نے اپنے والد ِگرامی سے سماع نہیں کیا۔‘‘
(موافقۃ الخبر الخبر : 364/1)
لہٰذا امام حاکم رحمہ اللہ (296/1)کا اس روایت کو ’’امام بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح‘‘ قرار دینا صحیح نہیں۔
اس روایت کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہُوَ مُنْقَطِعٌ، لِأَنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیہِ ۔
’’یہ روایت منقطع ہے،کیونکہ ابو عبیدہ نے اپنے والد ِگرامی سے سماع نہیں کیا۔‘‘
(التلخیص الحبیر : 263/1، ح : 406)
دوسری بات یہ ہے کہ اس سے پہلے تشہد میں دورد پڑھنے کی نفی نہیں ہوتی،بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلا تشہد،دوسرے سے چھوٹا تھا۔یعنی پہلا تشہد درود سمیت بھی دوسرے کے مقابلے میں چھوٹا ہو سکتا ہے۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ (1250-1173ھ)لکھتے ہیں :
وَلَیْسَ فِیہِ إِلَّا مَشْرُوعِیَّۃُ التَّخْفِیفِ، وَہُوَ یَحْصُلُ بِجَعْلِہٖ أَخَفَّ مِنْ مُّقَابِلِہٖ ۔
’’اس حدیث میں صرف پہلے تشہد کو چھوٹا کرنے کی مشروعیت ہے اور وہ تو اسے دوسرے تشہد کے مقابلے میں چھوٹا کرنے سے حاصل ہو جاتی ہے۔‘‘
(نیل الأوطار : 333/2)
2 تمیم بن سلمہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
کَانَ أَبُو بَکْرٍ إِذَا جَلَسَ فِي الرَّکْعَتَیْنِ؛ کَأَنَّہٗ عَلَی الرَّضْفِ، یَعْنِي حَتّٰی یَقُومَ ۔
’’امیر المومنین،سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے،تو یوں ہوتے جیسے گرم پتھر پر ہوں،حتی کہ اٹھ جاتے۔‘‘(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 295/1)
اس کی سند بھی ’’انقطاع‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ تمیم بن سلمہ کا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
لہٰذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (التلخیص الحبیر : 263/1، تحت الحدیث : 406)کا اس کی سند کو ’’صحیح‘‘قرار دینا صحیح نہیں۔
3 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے :
مَا جُعِلَتِ الرَّاحَۃُ فِي الرَّکْعَتَیْنِ إِلَّا لِلتَّشَہُّدِ ۔
’’دو رکعتوں کے بعد بیٹھنے کا موقع صرف تشہد پڑھنے کے لیے ہے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 295/1)
اس کی سند بھی ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ عیاض بن مسلم راوی ’’مجہول الحال‘‘ہے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 265/5)کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
4 امام حسن بصری رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے :
لَا یَزِیدُ فِي الرَّکْعَتَیْنِ الْـأُولَیَیْنِ عَلَی التَّشَہُّدِ ۔
’’نمازی دو رکعتوں کے بعد تشہد سے زیادہ نہ پڑھے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 296/1)
یہ قول امام حسن بصری رحمہ اللہ سے ثابت نہیں،کیونکہ حفص بن غیاث ’’مدلس‘‘ہے اور اس نے امام موصوف سے سماع کی کوئی صراحت نہیں کی۔
نیز اس سند میں اشعث راوی کا تعین بھی درکار ہے۔
5 امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَنْ زَادَ فِي الرَّکْعَتَیْنِ الْـأُولَیَیْنِ عَلَی التَّشَہُّدِ؛ فَعَلَیْہِ سَجْدَتَا سَہْوٍ ۔
’’جس شخص نے دو رکعتوں کے بعد تشہد کے علاوہ کچھ اور پڑھ لیا،اس پر سہو کے دو سجدے لازم ہو جائیں گے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 296/1، وسندہٗ صحیحٌ)
امام شعبی رحمہ اللہ کا یہ اجتہاد بے دلیل اور صحیح احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے خطا پر مبنی ہے۔
پہلے قعدہ میں تشہد کے علاوہ اذکار :
پہلے قعدہ میں تشہد سے زائد اذکار،مثلاً درود،دُعا وغیرہ مستحب ہیں،جیسا کہ :
1 ام المومنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
وَیُصَلِّي تِسْعَ رَکَعَاتٍ لَّا یَجْلِسُ فِیہَا إِلَّا فِي الثَّامِنَۃِ، فَیَذْکُرُ اللّٰہَ وَیَحْمَدُہٗ وَیَدْعُوہُ، ثُمَّ یَنْہَضُ وَلَا یُسَلِّمُ، ثُمَّ یَقُومُ فَیُصَلِّي التَّاسِعَۃَ، ثُمَّ یَقْعُدُ فَیَذْکُرُ اللّٰہَ وَیَحْمَدُہٗ وَیَدْعُوہُ، ثُمَّ یُسَلِّمُ تَسْلِیمًا یُّسْمِعُنَا ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعت(وتر)ادا فرماتے اور صرف آٹھویں رکعت کے بعد بیٹھتے تھے۔پھر اللہ کا ذکر کرتے،اس کی حمد بجالاتے اور اس سے دُعا کرتے۔ پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہو جاتے اور نویں رکعت ادا فرماتے۔پھر بیٹھ جاتے اور اللہ کا ذکر، اس کی حمد اور اس سے دُعا کرتے۔پھر اتنی بلند آواز سے سلام پھیرتے کہ ہم سن لیتے تھے۔‘‘(صحیح مسلم : 139/746)
2 سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا:
’إِذَا قَعَدْتُّمْ فِي کُلِّ رَکْعَتَیْنِ، فَقُولُوا : التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِيُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ، ثُمَّ لِیَتَخَیَّرْ أَحَدُکُمْ مِّنَ الدُّعَائِ أَعْجَبَہٗ إِلَیْہِ، فَلْیَدْعُ بِہٖ رَبَّہٗ عَزَّ وَجَلَّ‘ ـ
’’جب تم ہر دو رکعتوں کے بعد بیٹھو، تو یہ کہو : التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِيُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُولُہٗ۔پھر ہر شخص وہ دُعا منتخب کرے، جو اسے زیادہ محبوب ہو اور اس کے ذریعے اپنے ربّ عزوجل سے مانگے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 437/1، مسند الطیالسي : 304، سنن النسائي : 1164، المعجم الکبیر للطبراني : 47/10، ح : 9912، شرح معاني الآثار للطحاوي : 237/1، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(720)اور امام ابن حبان(1951)Hنے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
3 نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ کَانَ یَتَشَہَّدُ، فَیَقُولُ : بِسْمِ اللّٰہِ، التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ، الصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ، الزَّاکِیَاتُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، شَہِدْتُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، شَہِدْتُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ، یَقُولُ ہٰذَا فِي الرَّکْعَتَیْنِ الْـأُولَیَیْنِ، وَیَدْعُو إِذَا قَضٰی تَشَہُّدَہٗ، بِمَا بَدَا لَہٗ ۔
’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تشہد میں یہ دُعا پڑھتے : بِسْمِ اللّٰہِ، التَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ، الصَّلَوَاتُ لِلّٰہِ، الزَّاکِیَاتُ لِلّٰہِ، السَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ، شَہِدْتُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، شَہِدْتُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ ۔ پہلی دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھنے کے ساتھ جو دل میں آتی ،وہ دُعا بھی کرتے۔‘‘
(المؤطّا للإمام مالک : 191/1، وسندہٗ صحیحٌ)
یعنی جلیل القدر صحابی،سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی پہلے قعدہ میں تشہد سے زائد پڑھتے تھے۔
امام مالک اور امام شافعیHکا بھی یہی مذہب ہے۔(الأمّ : 117/1)
فقہ حنفی اور پہلا تشہد :
فقہ حنفی کے مطابق پہلے تشہد کے ساتھ درود پڑھنے سے سجدۂ سہو لازم آتا ہے۔
(کبیري : 460)
یہ بات صحیح احادیث اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔
الحاصل :
پہلے قعدہ میں تشہد پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے اور تشہد کے علاوہ مثلاً درود اور دُعائیں وغیرہ بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.