1,656

قدم بوسی کی شرعی حیثیت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ، قسط اول

تعظیم کی نیت سے کسی کے پاؤں چومنا ناجائز اور غیر مشروع عمل ہے۔بعض لوگ کچھ روایات پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صحابہ کرام]، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک چومتے تھے،لیکن ان میں سے کوئی روایت بھی پایۂ صحت کو نہیں پہنچتی۔اس پر سہاگہ یہ کہ صحابہ کرام،تابعین عظام اور تبع تابعین کے تین بہترین ادوار میں بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
اس سلسلے میں جو روایات پیش کی جاتی ہیں، ان کا مختصر تحقیقی تجزیہ پیشِ خدمت ہے:
روایت نمبر 1 :
سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو یہودیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہو کر نو آیات ِبینات کے متعلق سوال کیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جوابات دے دیے، تو :
فَقَبَّلَا یَدَیْہِ وَرِجْلَیْہِ
’’انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں مبارک کو بوسہ دیا۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 239/4، 240، سنن الترمذي : 2733، السنن الکبرٰی للنسائي : 3527، سنن ابن ماجہ : 3705، مختصرًا)
اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ ۔ ’’یہ حدیث صحیح ہے۔‘‘
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہٰذَا حَدِیثٌ صَحِیحٌ، لَا نَعْرِفُ لَہٗ عِلَّۃً بِوَجْہٍ مِّنَ الْوُجُوہِ ۔
’’یہ حدیث صحیح ہے۔ہمیں اس میں کسی بھی قسم کی کوئی علت معلوم نہیں ہوئی۔‘‘
(المستدرک علی الصحیحین : 15/1)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس بارے میں ان کی موافقت کی ہے۔
تجزیہ :
یہ حدیث ’’منکر‘‘ہے۔اس کا راوی عبد اللہ بن سلمہ اگرچہ ’’حسن الحدیث‘‘ہے، لیکن آخری عمر میں اس کے حافظے میں خرابی پیدا ہو گئی تھی،جیسا کہ:
b اس کے شاگرد عمرو بن مرہ فرماتے ہیں :
کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَمَۃَ قَدْ کَبِرَ، وَکَانَ یُحَدِّثُنَا، فَنَعْرِفُ وَنُنْکِرُ ۔
’’عبد اللہ بن سلمہ بوڑھے ہو گئے تھے۔وہ ہمیں بیان کرتے تو ہمیں ان سے کچھ معروف اور کچھ منکر حدیثیں ملتیں۔‘‘
(مسند علي بن الجعد : 66، العلل ومعرفۃ الرجال للإمام أحمد بروایۃ ابنہ عبد اللّٰہ : 1824، الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطیب البغدادي : 1920، واللفظ لہٗ)
b امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
تَعْرِفُ وَتُنْکِرُ ۔
’’یہ معروف اور منکر دونوں قسم کی روایات بیان کرتا ہے۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 74/5)
b امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلَا یُتَابَعُ فِي حَدِیثِہٖ ۔
’’ثقہ راوی اس کی روایات کی متابعت نہیں کرتے۔‘‘(التاریخ الکبیر : 99/5)
b امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ’’منکر‘‘کہا ہے۔
(السنن الکبرٰی : 3527)
b سنی مفسر،حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-701ھ)فرماتے ہیں :
وَہُوَ حَدِیثُ مُّشْکِلٌ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَمَۃَ فِي حِفْظِہٖ شَيْئٌ، وَقَدْ تَکَلَّمُوا فِیہِ، وَلَعَلَّہُ اشْتَبَہَ عَلَیْہِ التِّسْعُ الْآیَاتُ بِالْعَشْرِ الْکَلِمَاتِ، فَإِنَّہَا وَصَایَا فِي التَّوْرَاۃِ، لَا تَعَلُّقَ لَہَا بِقِیَامِ الْحُجَّۃِ عَلٰی فِرْعَوْنَ، وَاللّٰہُ أَعْلَمُ !
’’اس حدیث میں اشکال ہے۔عبد اللہ بن سلمہ کے حافظے میں کچھ خرابی تھی، محدثین کرام نے اس پر جرح بھی کی ہے۔ممکن ہے کہ اس کو نو آیات اور دس کلمات میں اشتباہ ہو گیا ہو، کیونکہ دَس کلمات تو تورات میں وصیت کی صورت میں ہیں،ان کا فرعون کے خلاف دلیل بننے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔واللہ اعلم۔‘‘
(تفسیر ابن کثیر : 124/5)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عبد اللہ بن سلمہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
صَدُوقٌ، تَغَیَّرَ حِفْظُہٗ ۔
’’یہ سچا راوی تھا،لیکن اس کے حافظے میں خرابی واقع ہو گئی تھی۔‘‘
(تقریب التہذیب : 3364)
b امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ مُحَمَّدَ بْنَ یَعْقُوبَ الْحَافِظَ، وَیَسْأَلُہٗ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ، فَقَالَ : لِمَ تَرَکَا حَدِیثَ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَصْلًا، فَقَالَ : لِفَسَادِ الطَّرِیقِ إِلَیْہِ ۔
’’میں نے امام ابو عبد اللہ،محمد بن یعقوب الحافظ کو سنا،ان سے محمد بن عبید اللہ یہ سوال کر رہے تھے کہ امام بخاری و مسلمHنے سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب حدیث کو بالکل ہی کیوں چھوڑ دیا تھا؟اس پر انہوں نے فرمایا : کیونکہ اس کی سند خراب تھی۔‘‘(المستدرک علی الصحیحین : 15/1)
اس کے بارے میں امام حاکم رحمہ اللہ کی توجیہ صحیح نہیں۔
مذکورہ بحث کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن سلمہ کی جس حدیث کو محدثین کرام ’’منکر‘‘قرار دیں گے، وہ ’’ضعیف‘‘ ہو گی اور باقی ’’حسن‘‘ہوں گی۔
روایت نمبر 2 :
صحابی ٔ رسول،سیدنازارع بن عامر رضی اللہ عنہ ،جو وفدِ عبدالقیس میں شامل تھے،ان کی طرف منسوب ہے کہ :
لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ، فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَّوَاحِلِنَا، فَنَتَقَبَّلُ یَدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرِجْلَہٗ ۔
’’جب ہم مدینہ منورہ پہنچے، تو ہم جلدی کرتے ہوئے اپنے کجاووں سے نکلے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں مبارک کو چومنے لگے۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 5225، القبل والمعانقۃ والمصافحۃ لابن الأعرابي : 41، الأدب المفرد للبخاري : 975)
تجزیہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ اس کو بیان کرنے والی راویہ امِ ابان بنت وازع کی کسی محدث نے توثیق نہیں کی،لہٰذا حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ کا اس کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں کہ :
رَوَتْ ۔۔۔ حَدِیثًا حَسَنًا، سَاقَتْہُ بِتَمَامِہٖ وَطُولِہٖ سِیَاقَۃً حَسَنَۃً ۔
’’امِ ابان نے ایک حسن حدیث روایت کی ہے۔اس نے اس حدیث کو مکمل اور طول کے ساتھ اچھا بیان کیا ہے۔‘‘(الاستیعاب في معرفۃ الأصحاب : 80/4)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امِ ابان کو ’’مجہولات‘‘میں شمار کیا ہے۔
(میزان الاعتدال : 611/4)
روایت نمبر 3 :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر کہنے لگا : اللہ کے رسول! میں یقینا مسلمان ہوں۔مجھے کوئی ایسی چیز دکھائیں،جس سے میرا ایمان بڑھ جائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا : آپ اس درخت کو بلائیں،وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت کو بلایا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سلام کہا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس اپنی جگہ جانے کا کہا ، تو وہ چلا گیا،تب اس دیہاتی نے کہا :
اِئْذَنْ لِي أَنْ أُقَبِّلَ رَأْسَکَ وَرِجْلَیْکَ ۔
’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کے سر اور دونوں پاؤں مبارک کو چوموں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دی، تو اس نے ایسا کر لیا۔
(مسند الدارمي : 1472، القبل لابن الأعرابي : 42، تقبیل الید لأبي بکر بن المقري : 5، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 172/4، دلائل النبوّۃ لأبي نعیم الأصبہاني : 291)
تجزیہ :
یہ روایت ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ اس کا راوی صالح بن حیان قرشی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔
b امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’صحیح الاسناد‘‘کہا، تو اس کے ردّ میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا :
بَلْ وَاہٍ ، وَفِي إِسْنَادِہٖ صَالِحُ بْنُ حَیَّانَ مَتْرُوکٌ ۔
’’یہ ضعیف روایت ہے، اس کی سند میں صالح بن حیان راوی متروک ہے۔‘‘
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس راوی کو ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔
(تقریب التہذیب : 2851)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے بھی ’’ضعیف‘‘ہی کہا ہے۔
(تاریخ ابن معین بروایۃ الدارمي : ص : 134، ت : 434)
b امام نسائی رحمہ اللہ اسے غیر ثقہ کہتے ہیں۔(الضعفاء والمتروکون : 295)
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عَامَّۃُ مَا یَرْوِیہِ غَیْرُ مَحْفُوظٍ ۔
’’اس کی بیان کردہ اکثر روایات غیرمحفوظ(منکر)ہیں۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 55/4)
b امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں ’’فیہ نظر‘‘فرمایا ہے۔
(التاریخ الکبیر : 275/4)
b امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ’’لیس بالقوی‘‘قرار دیا ہے۔
(الضعفاء والمتروکون : 289)
b امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 398/4)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَرْوِي عَنِ الثِّقَاتِ أَشْیَائَ لَا تُشْبِہُ حَدِیثَ الْـأَثْبَاتِ، لَا یُعْجِبُنِي الِاحْتِجَاجُ بِہٖ إِذَا انْفَرَدَ ۔
’’یہ ثقہ راویوں سے منسوب کر کے ایسی روایات نقل کرتا ہے،جو ثقہ راویوں کی احادیث سے میل نہیں کھاتیں۔مجھے اس حدیث سے استدلال کرنا پسند نہیں، جس کے بیان کرنے میں یہ منفرد ہو۔‘‘(المجروحین : 369/1)
b امام حربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
لَہٗ أَحَادِیثُ مُنْکَرَۃٌ ۔
’’اس نے منکر احادیث بیان کی ہیں۔‘‘(تہذیب التہذیب لابن حجر : 387/4)
b امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جَائِزُ الْحَدِیثِ، یُکْتَبُ الْحَدِیثُ، وَلَیْسَ بِالْقَوِيِّ، وَہُوَ فِي إِعْدَادِ الشُّیُوخِ ۔
’’یہ جائز الحدیث ہے، اس کی حدیث لکھ لی جائے گی، مگر یہ قوی نہیں۔اس کا شمار شیوخ میں ہوتا ہے۔‘‘(تاریخ العجلي : 225)
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہُوَ ضَعِیفٌ، وَلَمْ یُوَثِّقْہُ أَحَدٌ ۔
’’یہ ضعیف راوی ہے،اسے کسی ایک محدث نے بھی ثقہ قرار نہیں دیا۔‘‘
(مجمع الزوائد : 105/1)
روایت نمبر 4 :
سیدنا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے واقعہ میں بیان کیا گیا ہے کہ :
أَتٰی، فَقَبَّلَ قَدَمَیْہِ ۔
’’وہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قدموں کو چوم لیا۔‘‘
(الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقري : 14، المعجم لأبي یعلی الموصلي : 89)
تجزیہ :
اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ :
1 ام ہیثم بنت ِعبد الرحمن بن فضالہ، سعدیہ کے حالات ِزندگی نہیں مل سکے۔
2،3 اسی طرح ابو عبد الرحمن بن فضالہ اور ابو فضالہ بن عبد اللہ وغیرہ کی بھی توثیق درکار ہے۔
روایت نمبر 5 :
ابو بُردہ ،یسار،مولیٰ عبد اللہ بن سائب مخزومی سے مروی ہے :
دَخَلْتُ مَعَ مَوْلَايَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ السَّائِبِ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُمْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَبَّلتُ رَأْسَہٗ وَیَدَہٗ وَرِجْلَہٗ ۔
’’میں اپنے مولیٰ عبد اللہ بن سائب کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر،ہاتھ اور پاؤں مبارک چوم لیا۔‘‘(الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقري : 24)
تجزیہ :
اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ :
1 ابو الحسن احمد بن محمد بن عبد اللہ بن قاسم ’’ضعیف‘‘ہے۔
b اس کی بیان کردہ ایک حدیث کو ’’منکر‘‘قرار دیتے ہوئے امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضَعِیفُ الْحَدِیثِ، وَلَسْتُ أُحَدِّثُ عَنْہُ ۔
’’اس کی حدیث ضعیف ہوتی ہے۔میں اس سے حدیث روایت نہیں کرتا۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 71/2)
b امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مُنْکَرُ الْحَدِیثِ، یُوصِلُ الْـأَحَادِیثَ ۔
’’اس کی احادیث منکر ہیں۔یہ مرسل احادیث کو موصول بیان کرتا تھا۔‘‘
(الضعفاء الکبیر : 71/2)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی ایک حدیث کے بارے میں لکھا ہے :
مَا ہٰذَا الْحَدِیثُ بِبَعِیدٍ مِنَ الْوَضْعِ ۔
’’کوئی بعید نہیں کہ یہ حدیث کسی کی گھڑنت ہی ہو۔‘‘
(تاریخ الإسلام : 1096/5، طبعۃ بشّار)
2 احمد کے باپ محمد بن عبد اللہ بن قاسم کے حالات نہیں مل سکے۔
3 احمد کے دادا عبد اللہ بن قاسم کی توثیق نہیں ملی۔
روایت نمبر 6 :
مشہور مفسر،امام،اسماعیل بن عبد الرحمن بن ابوکریمہ،سدی،تابعی رحمہ اللہ (م : 127ھ) سورۂ مائدہ کی آیت 111کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : میرا باپ کون ہے؟ جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فلاں۔اس پر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے اور آپ کا پاؤں مبارک چوم لیا۔‘‘
(تفسیر الطبري : 17/9، طبعۃ ہجر، 102/11، ح : 12801، طبعۃ شاکر)
تجزیہ :
امام سدی رحمہ اللہ تابعی ہیں اور بلاواسطہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں،لہٰذا یہ روایت ’’مرسل‘‘ہے ،جو کہ ’’ضعیف‘‘حدیث کی ایک قسم ہے۔
روایت نمبر 7 :
صہیب مولیٰ عباس کا بیان ہے :
رَأَیْتُ عَلِیًّا یُّقَبِّلُ یَدَ الْعَبَّاسِ وَرِجْلَیْہِ، وَیَقُولُ : یَا عَمِّ ! ارْضَ عَنِّي ۔
’’میں نے دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ،سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور دونوں پاؤں کو چومتے ہوئے کہہ رہے تھے : چچا جان ! مجھ سے راضی ہو جائیے۔‘‘
(الأدب المفرد للبخاري : 976، الرخصۃ في تقبیل الید لابن المقري : 15، تاریخ دمشق لابن عساکر : 372/26)
تجزیہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ صہیب مولیٰ عباس کی سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 381/4)کے کسی نے توثیق نہیں کی،لہٰذا یہ ’’مجہول الحال‘‘ہے۔
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَصُہَیْبٌ لَّا أَعْرِفُہٗ ۔
’’ صہیب کو میں نہیں جانتا۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 94/2)
لہٰذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (تقریب التہذیب : 2955)کا اسے ’’صدوق‘‘کہنا صحیح نہ ہوا۔
روایت نمبر 8 :
بیان کیا جاتا ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور فرمایا :
دَعْنِي حَتّٰی أُقَبِّلَ رِجْلَیْکَ ۔
’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کے دونوں پاؤں کو چوم لوں۔‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 68/52، التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید لابن نقطۃ : 331)
تجزیہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ ابو نصر احمد بن حسن بن احمد بن حمویہ،ورّاق کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے۔
اس کی ایک دوسری سند تاریخ بغداد (102/3، 103)اور تاریخ دمشق(68/52) میں آتی ہے۔وہ بھی ’’ضعیف‘‘ہے۔اس کے راوی ابو نصر احمد بن محمد،ورّاق کی توثیق نہیں مل سکی۔
اصولِ محدثین اور بریلوی مذہب :
قدم بوسی کے متعلق روایات کا محدثین کرام کے اصولوں کے مطابق جائزہ لینے کے بعد معلوم ہو گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے کچھ بھی ثابت نہیں۔سلف صالحین سے بھی باسند ِصحیح اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔لہٰذا اولیا و صالحین کے پاؤں چومنا جائز نہیں۔اس سب کے باوجود :
b بریلوی مفتی،احمد یار خان،نعیمی،گجراتی (1391-1324ھ) لکھتے ہیں :
’’اولیاء اللہ کے ہاتھ پاؤں چومنا اور اس طرح ان کے بعد ان کے تبرکات بال و لباس وغیرہ کو بوسہ دینا،ان کی تعظیم کرنا مستحب ہے۔احادیث اور عمل صحابہ کرام سے ثابت ہے،لیکن بعض لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 368/1)
اولیاء اللہ کے ہاتھ چومنا جائز ہے اور اسے بھی عبادت نہیں بنانا چاہیے۔رہا پاؤں چومنا، تو اس کے بارے میں کچھ ثابت نہیں ہو سکا،چہ جائیکہ مستحب ہو!باقی جہاں تک تبرکات کی بات ہے، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفاء ِ راشدین جیسے کبار صحابہ کرام کی چھوڑی ہوئی چیزوں کو کسی صحابی یا تابعی نے تبرک نہیں بنایا۔ بعد کے بزرگوں کے خود ساختہ تبرکات کو چومنا کیسے جائز ہوا؟
b جناب احمد یار خان،بریلوی مزید لکھتے ہیں :
’’ان احادیث و محدثین وعلما کی عبارات سے ثابت ہوا کہ بزرگان کے ہاتھ پاؤں اور ان کے لباس،نعلین،بال غرضیکہ سارے تبرکات،اسی طرح کعبہ معظمہ،قرآنِ مجید،کتب ِاحادیث کے اوراق کا چومنا جائز اور باعث ِبرکت ہے،بلکہ بزرگانِ دین کے بال و لباس و جمیع تبرکات کی تعظیم کرنا۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 399/1)
یہ سراسر غلوّہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار ِ مبارکہ کے علاوہ کسی بھی ولی و صالح شخص کے آثار سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں، تو بوسہ دینا کیسے جائز ہوا؟ کعبہ معظمہ، قرآنِ مجید اور کتب ِاحادیث کے اوراق کو چومنے پر کوئی دلیل شرعی نہیں،یہ غیرمشروع عمل ہے۔اگر یہ کوئی نیک کام ہوتا، تو صحابہ و تابعین جیسے اسلاف ِامت اس سے کیونکر غافل رہتے؟
b سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا،تو فرمایا :
وَلَوْلَا أَنِّي رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُکَ، مَا قَبَّلْتُکَ ۔
’’اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا، تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘
(صحیح البخاري : 1597، صحیح مسلم : 1270)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کا بوسہ شریعت ِاسلامیہ سے ثابت نہ ہو، اس کو بوسہ دینا ناجائز اور غیرمشروع ہے۔
b اسی حدیث کی شرح میں شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قَالَ شَیْخُنَا فِي شَرْحِ التِرْمِذِيِّ : فِیہِ کَرَاہِیَۃُ تَقْبِیلِ مَا لَمْ یَرَہُ الشَّرْعُ بِتَقْبِیلِہٖ ۔
’’ہمارے شیخ(حافظ عراقی رحمہ اللہ )جامع ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جس چیز کو بوسہ دینے کی تعلیم شریعت نے نہ دی ہو، اس کو بوسہ دینا مکروہ ہے۔‘‘(فتح الباري : 463/3)
b جناب احمد یار خان،نعیمی مزید لکھتے ہیں :
’’تبرکات کا چومنا جائز ہے۔ قرآنِ کریم فرماتا ہے : {وَادْخُلُوْا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ} یعنی اے بنی اسرائیل!تم بیت المقدس کے دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو اور کہو : ہمارے گناہ معاف ہوں۔اس آیت سے پتہ لگا کہ بیت المقدس ، جو انبیائے کرام کی آرامگاہ ہے، اس کی تعظیم اس طرح کرائی گئی کہ وہاں بنی اسرائیل کو سجدہ کرتے ہوئے جانے کا حکم دیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ متبرک مقامات پر توبہ جلد قبول ہوتی ہے۔‘‘(’’جاء الحق‘‘ : 368/1)
یہ قرآنِ کریم کی معنوی تحریف اور قبروں کے بارے میں غلو پر مبنی تحریر ہے۔یہ قبے اور آستانے ان لوگوں کی شکم پروری کا ذریعہ ہیں، اس لیے ان پر بہت زور دیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں شریعت کی حدود سے تجاوز کیا جاتا ہے۔
اس بات پر کوئی دلیل نہیں کہ جس جگہ سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، وہاں انبیاء ِ کرام کی قبریں ہیں۔بس اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ تم اس شہر میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ۔کسی مسلمان مفسر نے قرآنِ کریم کی تفسیر میں ایسی کوئی بات ذکر نہیں کی۔
اس کے برعکس مفسرین کرام نے اس سجدہ کو سجدۂ شکر قرار دیا ہے،جیسا کہ :
b مشہور سنی مفسر،حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-701ھ)فرماتے ہیں :
أَيْ شُکْرًا لِّلّٰہِ تَعَالٰی عَلٰی مَا أَنْعَمَ بِہٖ عَلَیْہِمْ مِّنَ الْفَتْحِ وَالنَّصْرِ، وَرَدَّ بَلَدَہُمْ إِلَیْہِمْ، وَانْقَاذَہُمْ مِّنَ التِّیہِ وَالضَّلَالِ ۔
’’یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا کہ اللہ نے ان کو فتح و نصرت عطا فرمائی،ان کو ان کا علاقہ واپس دے دیا اور ان کو پستی و گمراہی سے نجات دی۔‘‘(تفسیر ابن کثیر : 247/1، طبعۃ المہدي)
اہل علم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو بوسہ دینا اور اسے مس کرنا مکروہ اور بدعت خیال کیا ہے۔جب سے تقلید آئی ہے، بدعات کی بھرمار ہو گئی ہے۔مقلدین کو کوئی روک ٹوک نہیں، جسے چاہیں جواز کا درجہ دے دیں اور جسے چاہیں حرام قرار دے ڈالیں،کیونکہ انہیں دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔
الحاصل :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدم بوسی کے بارے میں کوئی روایت ثابت نہیں۔صحابہ کرام،تابعین عظام اور تبع تابعین کے دور میں قدم بوسی کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ یوں قدم بوسی اور زمین بوسی ناجائز اعمال وافعال ہیں۔
زمین بوسی :
علما و عظما کے سامنے زمین کو بوسہ دینا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔فقہ حنفی کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے :
وَکَذَا مَا یَفْعَلُونَہٗ مِنْ تَقْبِیلِ الْـأَرْضِ بَیْنَ یَدَيِ الْعُلَمَائِ وَالْعُظَمَائِ فَحَرَامٌ، وَالْفَاعِلُ وَالرَّاضِي بِہٖ آثِمَانِ، لِأَنَّہٗ یُشْبِہُ عِبَادَۃَ الْوَثَنِ، وَہَلْ یُکَفَّرَانِ؟ عَلٰی وَجْہِ الْعِبَادَۃِ وَالتَّعْظِیمِ کُفْرٌ، وَإِنْ عَلٰی وَجْہِ التَّحِیَّۃِ لاَ، وَصَارَ آثِمًا مُّرْتَکِبًا لِّلْکَبِیرَۃِ ۔
’’اسی طرح جو علما و عظما کے سامنے زمین بوسی کا عمل کیا جاتا ہے، یہ بھی حرام ہے۔ اس کو کرنے والا اور اس پر راضی ہونے والا،دونوں گناہ گار ہیں،کیونکہ یہ بت پرستی کے مشابہ عمل ہے۔کیا ایسا کرنے والے کو کافر کہا جائے گا؟[ اس میں تفصیل ہے]۔اگر وہ عبادت اور تعظیم کی بنا پر ایسا کر رہا ہے، تو یہ عمل کفر ہے اور اگر بطورِ تحیہ ہے تو کفر نہیں،لیکن ایسا کرنے والا گناہ گار،بلکہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو گا۔‘‘
(ردّ المحتار علی الدرّ المختار لابن عابدین : 383/6، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق للزیلعي : 25/6، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر لشیخي زادہ : 542/2، البنایۃ شرح الہدایۃ للعیني الحنفي : 198/12)
b حنفی مذہب کی معتبر کتاب میں لکھا ہے :
وَتَقْبِیلُ الْـأَرْضِ بَیْنَ یَدَيِ الْعُلَمَائِ وَالزُّہَّادِ فِعْلُ الْجُہَّالِ، وَالْفَاعِلُ وَالرَّاضِي آثِمَانِ ۔
’’علما و زہاد کے سامنے زمین بوسی جاہلوں کا فعل ہے اور ایسا کرنے والا اور اس پر راضی ہونے والا،دونوں گناہ گار ہیں۔‘‘(فتاویٰ عالمگیری : 369/5)
b علامہ عینی حنفی اس کی وجہ حرمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لِأَنَّہٗ یُشْبِہُ عِبَادَۃَ الْوَثَنِ ۔
’’کیونکہ یہ بتوں کی عبادت کے مشابہ ہے۔‘‘(البنایۃ في شرح الہدایۃ : 198/12)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.