2,019

رفع سبابہ، مقام کیفیت، حیثیت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

رفع سبّابہ کیا ہے؟
انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی(Forefinger/Indexfinger)کو عربی میںمُسَبِّحَۃ (تسبیح کرنے والی) اور اردو میں انگشت ِ شہادت (شہادت والی انگلی) بھی کہتے ہیں،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے اور اس کی وحدانیت کی گواہی دینے کے وقت عام طور پر اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کی وحدانیت کی گواہی نیک لوگوں کا کام ہے۔ بدکردار لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ انگلی عنایت کی ہے، لیکن وہ اسے تسبیح و شہادت کی بجائے ناحق گالی گلوچ کے لیے استعمال کرتے ہیں،اس لیے اسے عربی میں سَبَّابَۃ (گالی والی انگلی) بھی کہتے ہیں۔
رَفْع بھی عربی زبان ہی کا لفظ ہے۔یہ مصدر ہے اور اس کا معنیٰ بلند کرنا ہوتا ہے۔ یوں رَفْعُ سَبَّابَۃٍ کا معنیٰ ہوا شہادت والی انگلی کو اٹھانا۔یہ تو ہوئی لغوی وضاحت۔
اور اصطلاحاً نماز میں تشہد کے دوران شہادت والی انگلی سے اشارہ کرنا رَفْعُ سَبَّابَۃٍ کہلاتا ہے۔
نماز کے دیگر بہت سے مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی مختلف مکاتب ِفکر مختلف خیالات کے حامل ہیں۔البتہ اہل حدیث کے نزدیک رفع سبابہ مستحب اور سنت ہے۔ ہمارے دلائل ملاحظہ فرمائیں :
1 نافع مولیٰ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاۃِ؛ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِہٖ، وَأَتْبَعَہَا بَصَرَہٗ، ثُمَّ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’لَہِيَ أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنَ الْحَدِیدِ‘، یَعْنِي السَّبَّابَۃَ ۔
’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب دورانِ نماز (تشہد میں)بیٹھتے،تو ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور اپنی (شہادت والی)انگلی کے ساتھ اشارہ فرماتے ۔اپنی نظر بھی اسی انگلی پر رکھتے۔پھر فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : یہ شہادت والی انگلی شیطان پر لوہے سے بھی سخت پڑتی ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 119/2، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کا راوی کثیر بن زید اسلمی جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک ’’موثق، حسن الحدیث‘‘ ہے۔
2 سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاۃِ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ، وَرَفَعَ إِصْبَعَہُ الْیُمْنَی الَّتِي تَلِي الْإِبْہَامَ، فَدَعَا بِہَا ۔۔۔ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں(تشہد کے لیے)بیٹھتے،تواپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور اپنے دائیں ہاتھ کی انگوٹھے سے متصل انگلی کو اٹھا لیتے اور اس کے ساتھ دُعا کرتے۔ ‘‘(صحیح مسلم : 580)
تشہد میں دائیں ہاتہ کی کیفیات :
ہم پڑھ چکے ہیں کہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہادت والی انگلی کو اٹھانے اور اس کے ساتھ اشارہ یا دُعا کرنے کا ذکر ہے۔یہ اشارہ کیسے ہوتا تھا؟ اس کے بارے میں بھی ہم احادیث ِنبویہ ہی سے رہنمائی لیتے ہیں۔مذکورہ اور آئندہ تمام احادیث چونکہ رفع سبّابہ کے بارے میں ہیں،اس لیے ہم انہیں ایک ہی ترتیب میں ذکر کریں گے،البتہ عنوانات بدلتے رہیں گے:
3 سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ یَدْعُو، وَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی فَخِذِہِ الْیُمْنٰی، وَیَدَہُ الْیُسْرٰی عَلٰی فَخِذِہِ الْیُسْرٰی، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِہِ السَّبَّابَۃِ، وَوَضَعَ إِبْہَامَہٗ عَلٰی إِصْبَعِہِ الْوُسْطٰی ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر۔انگشت ِشہادت سے اشارہ فرماتے اور اس دوران اپنے انگوٹھے کو درمیان والی انگلی پر رکھتے۔‘‘
(صحیح مسلم : 13/579)
4 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا قَعَدَ فِي التَّشَہُّدِ وَضَعَ یَدَہُ الْیُسْرٰی عَلٰی رُکْبَتِہِ الْیُسْرٰی، وَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی رُکْبَتِہِ الْیُمْنٰی، وَعَقَدَ ثَلَاثَۃً وَّخَمْسِینَ، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَۃِ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنا دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھتے، جبکہ بائیاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر۔نیز 53کی گرہ بناتے اور سبّابہ کے ساتھ اشارہ فرماتے۔‘‘(صحیح مسلم : 115/580)
عرب لوگ انگلیوں کے ساتھ ایک خاص طریقے سے گنتی کرتے تھے۔اس طریقے میں 53 کے ہندسے پر ہاتھ کی ایک خاص شکل بنتی تھی، جس میں انگوٹھے اور شہادت والی انگلی کے علاوہ باقی تینوں انگلیوں کو بند کرتے ہیں اور شہادت کی انگلی کو کھول کر انگوٹھے کے سرے کو اس کی جڑ میں لگاتے ہیں۔
5 سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ حَلَّقَ بِالْإِبْہَامِ وَالْوُسْطٰی، وَرَفَعَ الَّتِي تَلِیہِمَا، یَدْعُو بِہَا فِي التَّشَہُّدِ ۔
’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے تشہد میں انگوٹھے اور درمیان والی انگلی کو ملا کر دائرہ بنایا ہوا تھا اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی مبارک کو اٹھا کر اس کے ساتھ دُعا فرما رہے تھے۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 957، سنن النسائي : 1266، سنن ابن ماجہ : 912، واللفظ لہٗ، وسندہٗ صحیحٌ)
معلوم ہوا کہ تشہد میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کی کئی کیفیات رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ یہ تمام صورتیں جائز ہیں،ان میں سے کوئی بھی اختیار کی جا سکتی ہے۔البتہ ان سب احادیث میں شہادت والی انگلی کے ساتھ اشارے کا ذکر یکساں موجود ہے۔ہم اس کی مزید تفصیل بھی احادیث ہی کی رُو سے ذکر کیے دیتے ہیں:
کیفیت ِ اشارہ :
قارئین کرام احادیث ملاحظہ فرما لیں، ان کی روشنی میںاشارے کی کیفیت اور اس کے تمام مسائل نمبروار درج کر دئیے جائیں گے :
6 سیدنا عباس بن سہل ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
اِجْتَمَعَ أَبُو حُمَیْدٍ، وَأَبُو أُسَیْدٍ، وَسَہْلُ بْنُ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ، فَذَکَرُوا صَلاَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو حُمَیْدٍ : أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِصَلاَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَلَسَ، یَعْنِي لِلتَّشَہُّدِ، فَافْتَرَشَ رِجْلَہُ الْیُسْرٰی، وَأَقْبَلَ بِصَدْرِ الْیُمْنٰی عَلٰی قِبْلَتِہٖ، وَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُمْنٰی عَلٰی رُکْبَتِہِ الْیُمْنٰی، وَکَفَّہُ الْیُسْرٰی عَلٰی رُکْبَتِہِ الْیُسْرٰی، وَأَشَارَ بِأُصْبُعِہٖ، یَعْنِي السَّبَّابَۃَ ۔
’’سیدنا ابو حُمَیْد،ابو اُسَیْد،سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہy ایک جگہ جمع ہوئے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں بات چیت کی۔ سیدناابو حمید رضی اللہ عنہ کہنے لگے : میں تم سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں جانتا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد کے لیے بیٹھتے،تو اپنے بائیں پاؤں کو بچھا لیتے اور دائیں پاؤں کے سامنے والے حصے کو قبلے کے رُخ کھڑا کرتے۔نیز اپنی دائیں ہتھیلی کو دائیں گھٹنے پر رکھتے ،جبکہ بائیں ہتھیلی کو بائیں گھٹنے پراور اپنی سبّابہ انگلی کے ساتھ اشارہ فرماتے۔‘‘
(سنن الترمذي : 293، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذیaنے ’’حسن صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
7 سیدنا نمیر خزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاضِعًا یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی فَخِذِہِ الْیُمْنٰی فِي الصَّلَاۃِ، یُشِیرُ بِأُصْبُعِہٖ ۔
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں(تشہد کے دوران) اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھے ہوئے اپنی (شہادت والی)انگلی کے ساتھ اشارہ فرما رہے تھے۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 471/3، سنن ابن ماجہ : 911، سنن النسائي : 1272، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کا راوی مالک بن نمیر خزاعی ’’حسن الحدیث‘‘ہے۔امام ابن حبانa نے اسے(الثقات : 386/5)میں ذکر کیا ہے اور امام ابن خزیمہa(715)نے اس کی بیان کردہ حدیث کی ’’تصحیح‘‘کر کے اس کی توثیق کی ہے۔
8 علی بن عبد الرحمن معاویaبیان کرتے ہیں :
رَآنِي عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ ـــــ وَأَنَا أَعْبَثُ بِالْحَصٰی فِي الصَّلَاۃِ ـــــ فَلَمَّا انْصَرَفَ؛ نَہَانِي، فَقَالَ : اصْنَعْ کَمَا کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ، فَقُلْتُ : وَکَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْنَعُ؟ قَالَ : کَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاۃِ وَضَعَ کَفَّہُ الْیُمْنٰی عَلٰی فَخِذِہِ الْیُمْنٰی، وَقَبَضَ أَصَابِعَہٗ کُلَّہَا، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِہِ الَّتِي تَلِي الْإِبْہَامَ، وَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُسْرٰی عَلٰی فَخِذِہِ الْیُسْرٰی ۔
’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے نمازمیں کنکریوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا،تو انہوں نے مجھے اس کام سے منع کیا اور فرمایا : اسی طرح کرو،جس طرح رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔میں نے عرض کیا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح کیا کرتے تھے؟ انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں (تشہد کے لیے)بیٹھتے،تو اپنی دائیں ہتھیلی دائیں ران پر رکھتے اور ساری انگلیوں کو بند کر کے انگشت ِشہادت کے ساتھ اشارہ فرماتے۔نیز اپنی بائیں ہتھیلی کو بائیں ران پر رکھتے۔‘‘(صحیح مسلم : 116/580)
9 سیدنا نمیر خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ــــ وَہُوَ قَاعِدٌ فِي الصَّلَاۃِ ـــــ قَدْ وَضَعَ ذِرَاعَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی فَخِذِہِ الْیُمْنٰی، رَافِعًا بِأُصْبُعِہِ السَّبَّابَۃِ، قَدْ حَنَاہَا شَیْئًا ـــــ وَہُوَ یَدْعُو ـــــ ۔
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں (تشہد کے لیے)بیٹھے ہوئے دیکھا۔ آپ نے اپنا دائیاں ہاتھ دائیں ران پر رکھا ہوا تھا اور سبّابہ انگلی کو کچھ خم دے کر اٹھایا ہوا تھا۔یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دُعا کر رہے تھے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 471/3، سنن أبي داوٗد : 991، سنن النسائي : 1272، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (716)اور امام ابن حبان(1946)H نے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
0 سیدنا عبد اللہ بن زُبَیر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ فِي التَّشَہُّدِ، وَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی فَخِذِہِ الْیُمْنٰی، وَیَدَہُ الْیُسْرٰی عَلٰی فَخِذِہِ الْیُسْرٰی، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَۃِ، وَلَمْ یُجَاوِزْ بَصَرُہٗ إِشَارَتَہٗ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے۔سبّابہ انگلی کے ساتھ اشارہ فرماتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اس اشارے سے آگے نہ جاتی تھی۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 3/4، سنن أبي داوٗد : 990، سنن النسائي : 1276، وسندہٗ حسنٌ)
محمد بن عجلان اگرچہ ’’مدلس‘‘ہیں،لیکن مسند احمد میں انہوں نے اپنے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔نیز اس حدیث کی اصل صحیح مسلم (579)میں بھی موجود ہے۔
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(718)،امام ابو عوانہ(2018) اور امام ابن حبان(1944) S نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
! سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں اپنا مشاہدہ یوں بیان کرتے ہیں :
ثُمَّ قَعَدَ فَافْتَرَشَ رِجْلَہُ الْیُسْرٰی، فَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُسْرٰی عَلٰی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِہِ الْیُسْرٰی، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِہِ الْـأَیْمَنِ عَلٰی فَخِذِہِ الْیُمْنٰی، ثُمَّ قَبَضَ بَیْنَ أَصَابِعِہٖ، فَحَلَّقَ حَلْقَۃً، ثُمَّ رَفَعَ إِصْبَعَہٗ، فَرَأَیْتُہٗ یُحَرِّکُہَا، یَدْعُو بِہَا ۔
’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر اپنے بائیں پاؤں کو بچھا لیا،نیز اپنی بائیں ہتھیلی کو بائیں ران اور بائیں گھٹنے پر اور اپنی دائیں کہنی کے کنارے کو اپنی دائیں ران پر رکھا۔پھر اپنی انگلیوںکو بند کر کے دائرہ بنایا،پھر اپنی (شہادت والی) انگلی کو اٹھا لیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حرکت دے کر اس کے ساتھ دُعا کر رہے تھے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 318/4، سنن النسائي : 890، 1269، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن جارود(208)، امام ابن خزیمہ (714)اور امام ابن حبان(1860) Sنے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
علامہ شمس الحق،عظیم آبادیaاس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
وَفِیہِ تَحْرِیکُہَا أَیْضًا ۔
’’اس حدیث سے شہادت کی انگلی کو حرکت دینا بھی ثابت ہوتا ہے۔‘‘
(عون المعبود شرح سنن أبي داوٗد : 374/1)
@ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ فِي الصَّلَاۃِ؛ جَعَلَ قَدَمَہُ الْیُسْرٰی بَیْنَ فَخِذِہٖ وَسَاقِہٖ، وَفَرَشَ قَدَمَہُ الْیُمْنٰی، وَوَضَعَ یَدَہُ الْیُسْرٰی عَلٰی رُکْبَتِہِ الْیُسْرٰی، وَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی فَخِذِہِ الْیُمْنٰی، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِہٖ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں (تشہد کے لیے)بیٹھتے،تو اپنے بائیں پاؤں کو (دائیں)ران اور پنڈلی کے درمیان میں رکھا،جبکہ بائیں پاؤں کو بچھا لیا۔ بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر اور دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھا اور اپنی (شہادت والی)انگلی کے ساتھ اشارہ کیا۔‘‘(صحیح مسلم : 112/579)
# سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ثُمَّ رَفَعَ إِصْبَعَہٗ، فَرَأَیْتُہٗ یُحَرِّکُہَا، یَدْعُو بِہَا ۔
’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی (شہادت والی)انگلی کو اٹھایا۔میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حرکت دے رہے تھے اور اس کے ساتھ دُعا کر رہے تھے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 318/4، سنن النسائي : 890، 1269، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن جارود(208) ،امام ابن خزیمہ(714) اور امام ابن حبان(860) Sنے ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
$ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے :
إِنَّہٗ کَانَ یَضَعُ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی رُکْبَتِہِ الْیُمْنٰی وَیَدَہُ الْیُسْرٰی عَلٰی رُکْبَتِہِ الْیُسْرٰی، وَیُشِیرُ بِإِصْبَعِہٖ، وَلَا یُحَرِّکُہَا، وَیَقُولُ : إِنَّہَا مِذَبَّۃُ الشَّیْطَانِ، وَیَقُولُ : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَفْعَلُہٗ ۔
’’وہ اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں گھٹنے پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنی (شہادت والی)انگلی کے ساتھ اشارہ کرتے،لیکن حرکت نہیں دیتے تھے، نیز بیان کرتے تھے کہ یہ شیطان کو بھگاتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘
(الثقات لابن حبّان : 448/7، العلل للدارقطني : 2899، وسندہٗ حسنٌ)
% نافع تابعیaبیان کرتے ہیں :
کَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا صَلّٰی؛ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ، وَقَالَ بِإِصْبَعِہِ السَّبَّابَۃِ، یَمُدُّہَا یُشِیرُ بِہَا، وَلَا یُحَرِّکُہَا، وَقَالَ : قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’ھِيَ مُذْعِرَۃُ الشَّیْطَانِ‘ ۔
’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز پڑھتے، تو اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور اپنی سبّابہ انگلی کو کھڑا کر کے اس کے ساتھ اشارہ کرتے، لیکن اسے حرکت نہیں دیتے تھے،نیز فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ انگلی شیطان کو خوفزدہ کرتی ہے۔‘‘
(ذیل تاریخ بغداد لابن النجّار : 220/19، وسندہٗ حسنٌ)
مذکورہ احادیث سے اشارے کی کیفیت یوں ثابت ہوتی ہے:
1 اشارے کے لیے تشہد کا کوئی حصہ خاص نہیں،بلکہ تشہد میں بیٹھتے ہی اشارہ شروع کر دینا چاہیے،جیسا کہ مذکورہ تمام احادیث سے عموماً اور اکثر احادیث سے خصوصاً ثابت ہو رہا ہے،جن میں تشہد میں بیٹھتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ کرنا مذکور ہے۔ لہٰذا ’لَا إِلٰہَ‘ پر انگلی اٹھانا اور ’إِلَّا اللّٰہُ‘ پر گِرا دینا بے بنیاد اور بے دلیل ہے۔
2 اشارہ کرتے ہوئے انگلی کو تھوڑا سا خم دینا چاہیے،جیسا کہ حدیث نمبر9 سے معلوم ہو رہا ہے۔
3 تشہد میں نظر شہادت والی انگلی کے اشارے ہی پر ہونی چاہیے، جیسا کہ حدیث نمبر0 میں صراحت ہے۔
تحریک ِ سبّابہ !
4 تشہد میں شہادت والی انگلی کے ساتھ اشارہ کرتے وقت اسے حرکت دینی چاہیے یا نہیں؟یہ کافی اہم مسئلہ ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق حرکت دینا بھی درست ہے، جیسا کہ حدیث نمبر! اور # سے ثابت ہے اور اگر حرکت نہ دی جائے،تو بھی جائز ہے، جیسا کہ حدیث نمبر $ اور % میں مذکور ہے۔یعنی یہ دونوں طریقے سنت سے ثابت ہیں، ان میں سے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
امام اندلس،حافظ ابن عبد البرa(463-368ھ) فرماتے ہیں :
إِنَّہُمُ اخْتَلَفُوا فِي تَحْرِیکِ أُصْبُعِہِ السَّبَّابَۃِ؛ فَمِنْہُمْ مَّنْ رَّآی تَحْرِیکَہَا، وَمِنْہُمْ مَّنْ لَّمْ یَرَہٗ، وَکُلُّ ذٰلِکَ مَرْوِيٌّ فِي الْآثَارِ الصِّحَاحِ الْمُسْنَدَۃِ عَنِ النَّبِيِّ عَلَیْہِ السَّلَامُ، وَجَمِیعُہٗ مُبَاحٌ ۔
’’اہل علم کا سبّابہ انگلی کو حرکت دینے کے بارے میں اختلاف ہوا ہے ۔بعض کا خیال ہے کہ اسے حرکت دینی چاہیے اور بعض اسے حرکت دینے کے قائل نہیں۔ لیکن یہ دونوں طریقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اور متصل اسانید کے ساتھ ثابت ہیں،لہٰذا یہ دونوں طریقے جائز ہیں۔‘‘
(الاستذکار : 478/1، تفسیر القرطبي : 361/1)
یہی موقف علامہ صنعانیaکا ہے۔(سبل السلام شرح بلوغ المرام : 188-187/1)
شارحِ جامع ترمذی،محدث مبارکپوریaفرماتے ہیں :
وَالْحَقُّ مَا قَالَ الرَّافِعِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلُ الْـأَمِیرُ ۔
’’حق بات وہی ہے جو رافعی اور محمد بن اسماعیل امیر(صنعانی)Hنے فرمائی ہے۔‘‘(تحفۃ الأحوذي : 241/1، ط الہندیّۃ)
اشارہ سبّابہ اور احناف :
بعض احناف نے اس سنت ِ رسول کو اپنی تقلید ِ ناسدید کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے یہ فتویٰ دیا ہے کہ تشہد میں شہادت کی انگلی کو حرکت نہیں دینی چاہیے،جیسا کہ :
m احمد سرہندی حنفی (1034-971ھ)نے لکھا ہے :
’’تو پھر ہم مقلدین کو مناسب نہیں کہ احادیث کے موافق عمل کر کے اشارہ کرنے میں جرأت کریں۔‘‘(مکتوبات : 718/1، مکتوب نمبر312)
اس فتوے کے بارے میں خود احناف کے تبصرے ملاحظہ فرمائیں ؛
1 دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث،جناب حسین احمد مدنی کہتے ہیں :
’’اشارہ کی روایات بکثرت مروی ہیں اور وہ بھی بہت سے صحابہ کرام سے،حتی کہ ملا علی قاری (حنفی)اپنے رسالہ[تزیین العبارۃ في إثبات الإشارۃ] میں کہتے ہیں کہ روایات ِاشارہ تواتر کے درجہ کو پہنچی ہوئی ہیں۔تابعیں اور صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی ترکِ اشارہ منقول نہیں ہے۔البتہ منع اشارہ متاخرین احناف سے منقول ہے،جن میں زیادہ غالی صاحب ِ خلاصہ کیدانی معلوم ہوتے ہیں،جو اشارہ فی الصلاۃ کو بالکل حرام کہتے ہیں(خلاصۃ کیداني، ص : 15، 16)۔جس پر ملا علی قاری (حنفی) نے فرمایا کہ اگر حسن ظن نہ ہوتا، تو صاحب ِخلاصہ کیدانی کو کافر کہہ دیتا،کیونکہ وہ ایک سنت کو حرام قرار دے رہے ہیں۔ملا مانکی تو اس سے بھی بڑھ گئے کہ وہ اشارہ کرنے والے کی انگلی کٹوا دیتے تھے،حالانکہ یہ طریقہ غلط تھا،کیونکہ روایات بکثرت اشارہ فی الصلاۃ پر دلالت کرتی ہیں۔ترکِ اشارہ کی کوئی روایت،کوئی قول صحابی اور تابعی فقیہ کا منقول نہیں۔‘‘(تقریر ترمذی، ص : 433، 434)
2 جناب تقی عثمانی حیاتی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
’’بعض متاخرین(حنفیہ)نے اشارہ بالسبابہ کو غیر مسنون قرار دے دیا،بلکہ خلاصۂ کیدانی میں اُسے بدعت قرار دے دیا گیا۔اور بعض حضرات نے تو انتہائی تشدد اور غلوّسے کام لیا اور اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا : مارا قولِ ابو حنیفہ باید، قولِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافی نیست(ہمارے لیے امام ابو حنیفہ کا قول دلیل ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کافی نہیں۔العیاذ باللہ) ۔‘‘
(تقریر ترمذی : 62/2)
قارئین کرام تعصب سے بالا تَر ہو کر فیصلہ کریں کہ کیا تقلید انسان کو وحی الٰہی سے دُور نہیں کرتی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر نہیں اکساتی،انکارِ حدیث پر آمادہ نہیں کرتی اور سلف صالحین کا دشمن بنا کر نفس پرستی میں مبتلا نہیں کرتی؟
ایسے لوگوں کی جرأت اور بے باکی پر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ ’’خدمت ِاسلام‘‘ کے نام پر کس ڈھٹائی سے سنتوں کا انکار کر دیتے ہیں!
الحاصل :
تشہد کے لیے بیٹھتے ہی دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی کو اٹھانا اور تشہد کے اختتام تک اسے اٹھائے رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تشہد کے دوران انگلی کو حرکت دینا اور ساکن رکھنا،دونوں صورتیں ثابت ہیں۔
جن لوگوں نے رفع سبابہ والی پیاری سنت کا انکار کرتے ہوئے اسے بدعت تک کہہ دیا،انہیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے انکار سے بچائے اور ان پر دل و جان سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.