923

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ، غلام مصطفی ظہیر امن پوری


رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ
ابن الحسن محمدی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ کی کسی نے امامت نہیں کی،بلکہ فرداً فرداً اس طرح ادا کی گئی، کہ لوگ گروہ در گروہ ایک دروازے سے حجرے میں داخل ہو کر تکبیرات کہتے،درود پڑھتے،دُعا کرتے اور دوسرے دروازے سے نکل جاتے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں :
دلیل نمبر 1 :
سیدنا سالم بن عبید،جو اصحاب صفہ میںسے ہیں،بیان کرتے ہیں :
أُغْمِيَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِہٖ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ : ’أَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ؟‘ قَالُوا : نَعَمْ، قَالَ : ’مُرُوا بِلَالًا فَلْیُوَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ‘، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَیْہِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ : ’أَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ؟‘ فَقُلْنَ : نَعَمْ، فَقَالَ : ’مُرُوا بِلَالًا فَلْیُوَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ‘، قَالَتْ عَائِشَۃُ : إِنَّ أَبِي رَجُلٌ أَسِیفٌ، فَقَالَ : ’إِنَّکُنَّ صَوَاحِبَاتُ یُوسُفَ، مُرُوا بِلَالًا فَلْیُوَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ بِالنَّاسِ‘، فَأَمَرْنَ بِلَالًا، أَنْ یُوَذِّنَ، وَأَمَرْنَ أَبَا بَکْرٍ أَنْ یُّصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَلَمَّا أُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’أُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ؟‘ قُلْنَ : نَعَمْ، قَالَ : ’ادْعُوا لِي إِنْسَانًا أَعْتَمِدُ عَلَیْہِ‘، فَجَاء َتْ
بَرِیرَۃُ وَآخَرُ مَعَہَا، فَاعْتَمَدَ عَلَیْہَا، فَجَائَ، وَأَبُو بَکْرٍ یُّصَلِّي، فَجَلَسَ إِلٰی جَنْبِہٖ، فَذَہَبَ أَبُو بَکْرٍ یَّتَأَخَّرُ، فَحَبَسَہٗ، حَتّٰی فَرَغَ مِنَ الصَّلَاۃِ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ عُمَرُ : لَا یَتَکَلَّمْ أَحَدٌ بِمَوْتِہٖ إِلَّا ضَرَبْتُہٗ بِسَیْفِي ہٰذَا، فَسَکَتُوا وَکَانُوا قَوْمًا اُمِّیِّینَ، لَمْ یَکُنْ فِیہِمْ نَبِيٌّ قَبْلَہٗ، قَالُوا : یَا سَالِمُ، اذْہَبْ إِلٰی صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَادْعُہٗ، قَالَ : فَخَرَجْتُ، فَوَجَدْتُ أَبَا بَکْرٍ قَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ : مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قُلْتُ : إِنَّ عُمَرَ یَقُولُ : لَا یَتَکَلَّمُ أَحَدٌ بِمَوْتِہٖ إِلَّا ضَرَبْتُہٗ بِسَیْفِي ہٰذَا، فَوَضَعَ یَدَہٗ عَلٰی سَاعِدِي، ثُمَّ أَقْبَلَ یَمْشِي حَتّٰی دَخَلَ، قَالَ : فَوَسَّعُوا لَہٗ حَتّٰی أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَکَبَّ عَلَیْہِ حَتّٰی کَادَ أَنْ یَّمَسَّ وَجْہُہٗ وَجْہَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حَتَّی اسْتَبَانَ لَہٗ أَنَّہٗ قَدْ مَاتَ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ : {اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ٭} (الزمر 39 : 30)، قَالُوا : یَا صَاحِبَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَمَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَعَلِمُوا أَنَّہٗ کَمَا قَالَ، قَالُوا : یَا صَاحِبَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہَلْ نُصَلِّي عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالُوا : وَکَیْفَ یُصَلّٰی عَلَیْہِ؟ قَالَ : یَدْخُلُ قَوْمٌ
فَیُکَبِّرُونَ وَیَدْعُونَ، ثُمَّ یَخْرُجُونَ، وَیَجِيئُ آخَرُونَ، قَالُوا : یَا صَاحِبَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ہَلْ یُدْفَنُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالُوا : وَأَیْنَ یُدْفَنُ؟ قَالَ : فِي الْمَکَانِ الَّتِي قَبَضَ اللّٰہُ فِیہَا رُوحَہٗ، فَإِنَّہٗ لَمْ یَقْبِضْ رُوحَہٗ إِلَّا فِي مَکَانٍ طَیِّبَۃٍ، قَالَ : فَعَلِمُوا أَنَّہٗ کَمَا قَالَ، ثُمَّ قَالَ أَبُو بَکْرٍ : عِنْدَکُمْ صَاحِبُکُمْ، وَخَرَجَ أَبُو بَکْرٍ، وَاجْتَمَعَ الْمُہَاجِرُونَ، فَجَعَلُوا یَتَشَاوَرُونَ بَیْنَہُمْ، ثُمَّ قَالُوا : انْطَلِقُوا إِلٰی إِخْوَانِنَا مِنَ الْـأَنْصَارِ، فَإِنَّ لَہُمْ مِّنْ ہٰذَا الْحَقِّ نَصِیبًا، فَأَتَوُا الْـأَنْصَارَ، فَقَالَ الْـأَنْصَارُ : مِنَّا أَمِیرٌ وَّمِنْکُمْ أَمِیرٌ، فَقَالَ عُمَرُ : سَیْفَانِ فِي غَمْدٍ وَّاحِدٍ، إِذًا لَّا یَصْلُحَانِ، ثُمَّ أَخَذَ بَیْدِ أَبِي بَکْرٍ، فَقَالَ : مَنْ لَّہٗ ہٰذِہِ الثَّلَاثُ؟ {اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ} (التوبۃ 9 : 40)، مَنْ صَاحِبُہٗ {اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ} (التوبۃ 9 : 40)، مَنْ ہُمَا {لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا} (التوبۃ 9 : 40)، مَعَ مَنْ؟ ثُمَّ بَایَعَہٗ، ثُمَّ قَالَ : بَایِعُوا، فَبَایَعَ النَّاسُ أَحْسَنَ بَیْعَۃٍ وَّأَجْمَلَہَا ۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی۔جب افاقہ ہوا،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟لوگوں نے عرض کیا :جی ہاں! توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بلال( رضی اللہ عنہ ) کوکہیں کہ وہ اذان دیں اور ابو بکر ( رضی اللہ عنہ ) کو کہیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی۔پھر
جب افاقہ ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا :کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ ازواج مطہرات نے عرض کیا:جی ہاں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بلال( رضی اللہ عنہ ) کو کہیں کہ وہ اذان دیں اور ابو بکر( رضی اللہ عنہ )کو کہیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : میرے ابو جی بڑے کمزور دل والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم ان عورتوں کی طرح ہو،جو یوسف کو دیکھنے کے لئے جمع ہو گئیں تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بلال کوکہیں کہ وہ اذان دیں اور ابو بکر کو کہیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔پھر انہوں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہنے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھا نے کا کہا۔جب جماعت کھڑی ہو گئی،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا جماعت شروع ہو گئی ہے؟ازواجِ مطہرات نے عرض کیا :جی ہاں!تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے لئے کوئی ایسا آدمی دیکھو، جس کا میں سہارا لے سکوں۔سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہااور ایک دوسرا آدمی آئے۔ان دونوں کا سہارا لیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کو نماز پڑھا رہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ایک جانب آکر بیٹھ گئے۔سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روک دیا،یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو گئے۔پھرجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے، توسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا :اگر میں نے کسی کو یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں، تو میں اسے اپنی تلوار سے مار ڈالوں گا۔اس پر لوگ خاموش ہو گئے، کیونکہ وہ اَن پڑھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ان میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا تھا۔لوگوں نے مجھے کہا:سالم!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بلا لائو۔میں ان کی طرف نکلا۔میں نے انہیں
مسجد میں کھڑے دیکھا۔انہوں نے دریافت کیا:کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں؟میں نے کہا :سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اگر میں نے کسی کو یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں، تو میں اسے اپنی تلوار سے مار ڈالوں گا۔انہوں نے میری کلائی پکڑی اور چل پڑے،یہاں تک کہ حجرۂ عائشہ میں داخل ہو گئے۔لوگوں نے ان کو راستہ دیا ،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر جھک گئے،حتی کہ ان کا چہرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخِ انور کو چھوگیا،یہاں تک کہ انہیں یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واقعی وفات پا چکے ہیں۔پھر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:بلاشبہ آپ بھی فوت ہونے والے ہیں، یقینا یہ (کفار)بھی مر جائیں گے۔صحابہ کرام نے پوچھا:اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی!کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں؟ انہوں نے فرمایا:جی ہاں!تو لوگوں نے جان لیا کہ صحیح بات ایسے ہی ہے۔پھر صحابہ کرام نے پوچھا:اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی!کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ بھی ادا کی جائے گی؟انہوں نے فرمایا:جی ہاں!صحابہ کرام نے پوچھا:ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ کیسے ادا کریں گے؟انہوں نے فرمایا:کچھ لوگ اندر (حجرہ میں)داخل ہوںگے،تکبیریں پڑھیںگے اور دعا کریں گے۔پھر وہ باہر آ جائیں گے اور دوسرے لوگ جائیں گے۔صحابہ کرام نے پوچھا:اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی!کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین بھی ہو گی؟انہوں نے فرمایا:جی ہاں۔صحابہ کرام نے پوچھا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کہاں ہو گی؟ انہوں نے فرمایا:جس جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو اللہ تعالیٰ نے قبض کیا ہے،کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو اللہ تعالیٰ نے
پاکیزہ جگہ ہی میں قبض کیا ہے؟تو لوگوں نے جان لیا کہ صحیح بات یہی ہے۔پھر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:(ابھی)تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس ہیں۔پھر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ چلے گئے اور مہاجرین جمع ہو کر (خلافت کے بارے میں)باہم مشورہ کرنے لگے۔ انہوں نے کہا:انصاری بھائیوں کے پاس چلو کہ ان کا بھی اس(خلافت)میں حق ہے۔وہ انصار کے پاس آئے، توانصار نے کہا:ایک امیر ہم میںسے ایک تم میں سے ہو گا۔اس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:دو تلواریں ایک میان میں! دونوں ہی درست نہیں رہیں گی۔پھر انہوں نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:یہ تینوں باتیں کس کے بارے میں ہیں؟{اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ}(جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے)وہ ساتھی کون تھا؟{اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ}(جب وہ دونوں غار میں تھے)وہ دونوں کون تھے؟{لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا} (اے نبی! آپ غم نہ کھائیے،بلاشبہ اللہ ہمارے ساتھ ہے)کس کے ساتھ؟ (التوبۃ 9 : 40)۔پھر انہوںنے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پربیعت کر لی اور لوگوںسے فرمایا:تم بھی بیعت کرو، توسب لوگوںنے بڑے خوبصورت اور احسن انداز میں بیعت کر لی۔‘‘
(سنن ابن ماجہ : 1234، الشمائل المحمّدیّۃ للترمذي : 396، مسند عبد بن حمید : 365، المعجم الکبیر للطبراني : 65/7، دلائل النبوّۃ للبیہقي : 299/7، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1514، 1624)نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
حافظ بوصیری کہتے ہیں:
ہٰذَا إِسْنَادٌ صَحِیْحٌ، رِجَالُہٗ ثِقَاتٌ ۔
’’یہ سند صحیح ہے اور اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔‘‘
(مصباح الزجاجۃ : 146/1، ح : 1234)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں: وَرِجَالُہٗ ثِقَاتٌ ۔
’’اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد : 183/5)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِسْنَادُہٗ صَحِیْحٌ، لَکَنَّہٗ مَوْقُوْفٌ ۔
’’ اس روایت کی سند صحیح ہے، البتہ یہ قول صحابی ہے۔‘‘
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 523/1)
دلیل نمبر 2 :
سنن کبریٰ بیہقی(30/4،وسندہ حسن)میں یہ الفاظ ہیں :
یَجِیئُونَ عُصْبًا عُصْبًا، فَیُصَلُّونَ ۔
’’ لوگ گروہ در گروہ داخل ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ ادا کریں گے۔‘‘
دلیل نمبر 3 :
شمائلِ ترمذی(396، وسندہ حسن)میں یہ الفاظ ہیں :
قَالُوا : یَا صَاحِبَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَیُصَلّٰی عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالُوا : وَکَیْفَ؟ قَالَ : یَدْخُلُ قَوْمٌ، فَیُکَبِّرُونَ وَیُصَلُّونَ وَیَدْعُونَ، ثُمَّ یَخْرُجُونَ، ثُمَّ یَدْخُلُ قَوْمٌ، فَیُکَبِّرُونَ وَیُصَلُّونَ وَیَدْعُونَ، ثُمَّ یَخْرُجُونَ، حَتّٰی یَدْخُلَ النَّاسُ ۔
’’لوگوں نے پوچھا:اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی!کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
نماز ِجنازہ بھی ادا کی جائے گی؟انہوں نے فرمایا:جی ہاں!انہوں نے پوچھا: کیسے؟فرمایا:لوگ اندر (حجرہ میں)داخل ہوںگے، تکبیریں پڑھیںگے، درود پڑھیں گے اور دعا کریں گے،پھرباہر آ جائیں گے۔پھر لوگوں کا دوسرا گروہ داخل ہو گا،وہ تکبیریں پڑھیںگے،درود پڑھیں گے اور دعا کرکے باہر آ جائیں گے۔ایسے ہی باقی لوگ داخل ہوتے جائیں گے۔‘‘
دلیل نمبر 4 :
سیدنابہز بن اسد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّہٗ شَہِدَ الصَّلَاۃَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالُوا : کَیْفَ نُصَلِّي عَلَیْہِ؟ قَالَ : ادْخُلُوا أَرْسَالًا أَرْسَالًا، قَالَ : فَکَانُوا یَدْخُلُونَ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ، فَیُصَلُّونَ عَلَیْہِ، ثُمَّ یَخْرُجُونَ مِنَ الْبَابِ الْآخَرِ، قَالَ : فَلَمَّا وُضِعَ فِي لَحْدِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ الْمُغِیرَۃُ : قَدْ بَقِيَ مِنْ رِجْلَیْہِ شَيْئٌ لَّمْ یُصْلِحُوہُ، قَالُوا : فَادْخُلْ فَأَصْلِحْہُ، فَدَخَلَ، وَأَدْخَلَ یَدَہٗ، فَمَسَّ قَدَمَیْہِ، فَقَالَ : أَہِیلُوا عَلَيَّ التُّرَابَ، فَأَہَالُوا عَلَیْہِ التُّرَابَ، حَتّٰی بَلَغَ أَنْصَافَ سَاقَیْہِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَکَانَ یَقُولُ : أَنَا أَحْدَثُکُمْ عَہْدًا بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کے وقت مدینہ منورہ میں موجود تھے،لوگ کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ کیسے ادا کریں؟ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ـایک ایک گروہ کی شکل میں داخل ہوں۔چنانچہ لوگ
ایک دروازے سے داخل ہو کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِجنازہ ادا کرتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتے۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں اتارا گیا، تو سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک پائوں کی جانب سے کچھ حصہ ایسا رہ گیا،جسے درست نہیں کیا گیا۔ لوگوں نے کہا:پھر آپ ہی قبر میں اتر کر اسے صحیح کر دیں۔چنانچہ وہ قبر مبارک میں اترے اور اپنا ہاتھ قبر میں ڈالا۔جب قدم مبارک کو چھوا، تو کہنے لگے:اب میری طرف سے مٹی ڈالو، لوگوں نے مٹی ڈالنا شروع کر دی،یہاں تک کہ وہ ان(سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ )کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچ گئی۔پھر وہ باہر نکل آئے اور کہنے لگے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے قریب کا زمانہ مجھے ملا ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 81/5، ح : 21047، وسندہٗ صحیحٌ)
دلیل نمبر 5 :
سیدنا ابو عسیم /ابو عسیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ قَالُوا : کَیْفَ نُصَلِّي عَلَیْہِ؟ قَالُوا : ادْخُلُوا مِنْ ذَا الْبَابِ أَرْسَالًا أَرْسَالًا، فَصَلُّوا عَلَیْہِ، وَاخْرُجُوا مِنَ الْبَابِ الْآخَرِ ۔
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے، تو لوگوں نے کہا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ کیسے ادا کی جائے؟صحابہ کرام نے جواب دیا:اس دروازے سے گروہ درگروہ داخل ہوتے جائو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ ادا کرکے دوسرے دروازے سے نکلتے جائو۔‘‘(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 289/2، وسندہٗ صحیحٌ)
اہل علم کا فیصلہ :
1 امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَذٰلِکَ لِعِظَمِ أَمْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ، بِأَبِي ہُوَ وَأُمِّي، وَتَنَافُسِہِمْ فِي أَنْ لَّا یَتَوَلَّی الْإِمَامَۃَ فِي الصَّلَاۃِ عَلَیْہِ وَاحِدٌ، وَصَلَّوْا عَلَیْہِ مَرَّۃً بَعْدَ مَرَّۃً ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان ہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ اس لیے فرداً فرداً ادا کی گئی کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اظہار تھا،نیز صحابہ کرام نہ چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کا کوئی امام بنے۔‘‘
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 30/4، وسندہٗ صحیحٌ)
2 محدث اَندلس، علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَأَمَّا صَلَاۃُ النَّاسِ عَلَیْہِ أَفْذَاذًا، فَمُجْتَمَعٌ عَلَیْہِ، عِنْدَ أَہْلِ السِّیَرِ، وَجَمَاعَۃُ أَہْلِ النَّقْلِ لَا یَخْتَلِفُونَ فِیہٖ ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرداً فرداً نمازِ جنازہ ادا کرنے پر اہل سیرت کا اجماع ہے، محدثین کرام اس میں کوئی اختلاف نہیں کرتے۔ ‘‘
(التمہید لما في الموطأ من المعاني والأسانید : 397/24)
3 مؤرخ اسلام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَہٰذَا الصَّنِیعُ، وَہُوَ صَلَاتُہُمْ عَلَیْہِ فُرَادٰی، لَمْ یَوُمَّہُمْ أَحَدٌ عَلَیْہِ، أَمْرٌ مُّجْمَعٌ عَلَیْہِ، لَا خِلَافَ فِیہٖ ۔
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ِجنازہ کے فرداً فرداً ادا کیے جانے اور کسی کے امامت نہ کرانے پر اجماع و اتفاق ہے، اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
(البدایۃ والنہایۃ : 232/5)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.