2,655

صف بندی کے متفرق احکامات، غلام مصطفی ظہیر امن پوری


صف بندی کے متفرق احکام
ابو عبد اللہ صارم

صفِ اول کی فضیلت :
n سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’لَوْ یَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَائِ وَالصَّفِّ الْـأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ یَجِدُوا إِلَّا أَنْ یَّسْتَہِمُوا عَلَیْہِ؛ لَاسْتَہَمُوا، وَلَوْ یَعْلَمُونَ مَا فِي التَّہْجِیرِ؛ لاَسْتَبَقُوا إِلَیْہِ، وَلَوْ یَعْلَمُونَ مَا فِي الْعَتَمَۃِ وَالصُّبْحِ؛ لَـأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا‘ ۔
’’اگر لوگ اذان اور صف ِاول میں موجود اجر کو جان لیں اور پھر اس کے حصول کے لیے قرعہ اندازی کے سوا کوئی چارہ نہ پائیں تو ضرور قرعہ اندازی کریں۔ اگر وہ اوّل وقت میں نماز پڑھنے کے اجر کو جان لیں تو ضرور اس میں سبقت کریں اور اگر وہ عشا اور صبح کی نماز کے اجر کو جان لیں تو ضرور اس میں حاضر ہوں، اگرچہ گھٹنوں کے بل آنا پڑے۔‘‘(صحیح البخاري : 615، صحیح مسلم : 437)
n سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’خَیْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُہَا، وَشَرُّہَا آخِرُہَا، وَخَیْرُ صُفُوفِ النِّسَائِ آخِرُہَا، وَشَرُّہَا أَوَّلُہَا‘ ۔
’’مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی اور سب سے کم تر صف آخری ہوتی ہے، جب کہ عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری اور سب سے کم تر پہلی ہوتی ہے۔‘‘
(صحیح مسلم : 440)
n سیدناسعد بن مالک بن سنان،معروف بہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَاٰی فِي أَصْحَابِہٖ تَأَخُّرًا، فَقَالَ لَہُمْ : ’تَقَدَّمُوا، فَأْتَمُّوا بِي، وَلْیَأْتَمَّ بِکُمْ مَّنْ بَعْدَکُمْ، لَا یَزَالُ قَوْمٌ یَّتَأَخَّرُونَ حَتّٰی یُؤَخِّرَہُمُ اللّٰہُ‘ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ صحابہ کرام صف میں پیچھے رہتے تھے،توان سے فرمایا: آگے بڑھیں،میری اقتدا کریں اور آپ سے بعد والے آپ کی اقتدا کریں۔ لوگ ہمیشہ (نیکی سے)پیچھے رہنے لگتے ہیں،حتی کہ اللہ تعالیٰ انہیں (اپنی رحمت سے) پیچھے کر دیتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم : 438)
n سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمًا الصُّبْحَ، فَقَالَ : أَشَاہِدٌ فُلَانٌ؟ قَالُوا : لَا، قَالَ : أَشَاہِدٌ فُلَانٌ؟، قَالُوا : لَا، قَالَ : ’إِنَّ ہَاتَیْنِ الصَّلَاتَیْنِ أَثْقَلُ الصَّلَوَاتِ عَلَی الْمُنَافِقِینَ، وَلَوْ تَعْلَمُونَ مَا فِیہِمَا لَـأَتَیْتُمُوہُمَا، وَلَوْ حَبْوًا عَلَی الرُّکَبِ، وَإِنَّ الصَّفَّ الْـأَوَّلَ عَلٰی مِثْلِ صَفِّ الْمَلَائِکَۃِ، وَلَوْ عَلِمْتُمْ مَّا فَضِیلَتُہٗ؛ لَابْتَدَرْتُمُوہُ، وَإِنَّ صَلَاۃَ الرَّجُلِ مَعَ الرَّجُلِ أَزْکٰی مِنْ صَلَاتِہٖ وَحْدَہٗ، وَصَلَاتُہٗ مَعَ الرَّجُلَیْنِ أَزْکٰی مِنْ صَلَاتِہٖ مَعَ الرَّجُلِ، وَمَا کَثُرَ؛ فَہُوَ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی‘ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمیں صبح کی نماز پڑھائی،پھر فرمایا : کیا فلاں حاضر ہے؟صحابہ نے عرض کیا : نہیں۔فرمایا: فلاں حاضر ہے؟عرض کیا نہیں۔اس پر فرمایا : بلاشبہ یہ دونوں نمازیں (عشا وفجر) منافقین پر ساری نمازوں سے زیادہ بھاری ہیں۔اگر آپ لوگوں کو ان کا اجر معلوم ہو جائے تو ان دونوں میں ضرور حاضر ہو جاؤ ،اگرچہ گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آنا پڑے۔یقینا پہلی صف فرشتوں کی صف کی طرح ہوتی ہے۔اگرآپ لوگ اس کی فضیلت جان لو تو ضرور اسے حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرو۔بلاشبہ ایک شخص کی ایک شخص کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے زیادہ اجروثواب والی ہے اور اس کی دو آدمیوں کے ساتھ نماز ایک آدمی کے ساتھ نماز سے زیادہ اجروثواب والی ہے اور جیسے جیسے یہ تعداد بڑھتی جائے گی،وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ پسندیدہ ہو گی۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 140/5؛ سنن أبي داوٗد : 554، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(۱۴۷۷)اور امام ابن حبان(۲۰۵۶)Hنے صحیح کہا ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَقَدْ حَکَمَ أَئِمَّۃُ الْحَدِیثِ یَحْیَی بْنُ مَعِینٍ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِینِيِّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی الذُّہْلِيُّ، وَغَیْرُہُمْ لِہٰذَا الْحَدِیثِ بِالصِّحَّۃِ ۔
’’امام یحییٰ بن معین،علی بن مدینی اور محمد بن یحییٰ ذہلی رحمہم اللہ جیسے محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔‘‘(المستدرک علی الصحیحین : 249/1)
علامہ طیبی(م : ۷۴۳ھ)اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
شَبَّہَ الصَّفَّ الْـأَوَّلَ فِي قُرْبِہٖ مِنَ الْإِمَامِ بِصَفِّ الْمَلَائِکَۃِ الْمُقَرَّبِینِ فِي قُرْبِہِمْ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی صف کو امام کے قریب ہونے کی وجہ سے مقربین فرشتوں سے تشبیہ دی،کیوں کہ وہ بھی اللہ عزوجل کے قریب ہوتے ہیں۔‘‘
(شرح المشکاۃ : ۴/۱۱۳۲)
n سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کُنَّا إِذَا صَلَّیْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ أَحْبَبْنَا أَنْ نَّکُونَ عَنْ یَّمِینِہٖ، یُقْبِلُ عَلَیْنَا بِوَجْہِہٖ، قَالَ : فَسَمِعْتُہٗ یَقُولُ : ’رَبِّ قِنِي عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ أَوْ تَجْمَعُ عِبَادَکَ‘ ۔
’’ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب کھڑے ہونے کے خواہش مند ہوتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چہرہ مبارک ہماری طرف متوجہ کرتے۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دُعا کرتے ہوئے سنا : میرے رب! مجھے اس دن اپنے عذاب سے بچا لینا جس دن تُو اپنے بندوں کو (قبروں سے) اٹھائے گا۔‘‘(صحیح مسلم : 709)
n سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
کَانَ یُصَلِّي عَلَی الصَّفِّ الْـأَوَّلِ ثَلَاثًا، وَعَلَی الثَّانِي وَاحِدَۃً ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی صف کے لیے تین دفعہ اور دوسری صف کے لیے ایک دفعہ دعا فرمایا کرتے تھے۔‘‘(سنن النسائي : 817، مسند الإمام أحمد : 128/4، مسند الشامیین للطبراني : 1153، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (2159)نے ’’صحیح‘‘کہا ہے۔
n سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَآی فِي أَصْحَابِہٖ تَأَخُّرًا، فَقَالَ لَہُمْ : ’تَقَدَّمُوا، فَأْتَمُّوا بِي، وَلْیَأْتَمَّ بِکُمْ مَّنْ بَعْدَکُمْ، لَا یَزَالُ قَوْمٌ یَتَأَخَّرُونَ حَتّٰی یُؤَخِّرَہُمُ اللّٰہُ‘ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام میں سستی دیکھی تو ان سے فرمایا: آگے بڑھو، میری اقتدا کرو اور تم سے پیچھے والے تمہاری اقتدا کریں۔لوگ سستی کرتے رہتے ہیں،حتی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔‘‘
(صحیــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــح مسلم : 438)
تنبیہ 1 :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے :
کَانَتْ امْرَأَۃٌ تُصَلِّي خَلْفَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَسْنَائَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ، فَکَانَ بَعْضُ الْقَوْمِ یَتَقَدَّمُ حَتّٰی یَکُونَ فِي الصَّفِّ الْـأَوَّلِ لِئَلَّا یَرَاہَا، وَیَسْتَأْخِرُ بَعْضُہُمْ حَتّٰی یَکُونَ فِي الصَّفِّ المُؤَخَّرِ، فَإِذَا رَکَعَ نَظَرَ مِنْ تَحْتِ إِبْطَیْہِ ۔
’’ایک نہایت خوب صورت عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھتی تھی۔ بعض لوگ تو آگے بڑھ کر پہلی صف میں کھڑے ہوتے تا کہ اس پر نظر نہ پڑے، لیکن کچھ لوگ پیچھے رہتے حتی کہ آخری صف میں جگہ بناتے۔جب رکوع میں جاتے تو اپنی بغلوں کے نیچے سے دیکھتے۔‘‘
(سنن النسائي : 870، سنن الترمذي : 3122، سنن ابن ماجہ : 1046)
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے،کیوں کہ اس کے راوی عمرو بن مالک نکری(حسن الحدیث) کی روایت ابوالجوزاء سے غیر محفوظ ہوتی ہے۔
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ (الکامل : ۱/۴۱۱) : حَدَّثَ عَنْہُ عَمْرُو بْنُ مَالِکٍ قَدْرَ عَشْرَۃِ أَحَادِیثَ غَیْرِ مَحْفُوظَۃٍ ۔
’’امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ابوالجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں ۔‘‘(تہذیب التھذیب : ۱/۳۳۶)
یہ جرح مفسر ہے،یہ حدیث بھی عمرو بن مالک النکری نے اپنے استاذ ابو الجوزاء سے روایت کی ہے ، لہٰذا غیر محفوظ ہے ۔
تنبیہ 2 :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’إِنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہٗ یُصَلُّونَ عَلٰی مَیَامِنِ الصُّفُوفِ‘ ۔
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ صفوں کی دائیں جانب پر رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے صفوں کی دائیں جانب کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 675، سنن ابن ماجہ : 1005)
اس کی سند امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ’’تدلیس‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔
ستونون کے درمیان صف :
بوقت ضرورت ستونوں کے درمیان صف بنائی جا سکتی ہے، جیسا کہ عبدالحمید بن محمود بیان کرتے ہیں:
کُنَّا مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فِي الصَّفِّ، فَرَمَوْا بِنَا حَتّٰی أُلْقِینَا بَیْنَ السَّوَارِي، فَتَأَخَّرَ، فَلَمَّا صَلّٰی؛ قَالَ : قَدْ کُنَّا نَتَّقِي ہٰذَا عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’ہم سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ صف میں تھے۔(رَش میں)لوگوں نے ہمیں دھکیلا،حتی کہ ہم ستونوں کے درمیان چلے گئے۔آپ رضی اللہ عنہ (ستونوں سے) پیچھے ہٹ گئے۔ جب نماز مکمل کی تو فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں ہم ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے سے بچا کرتے تھے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 104/3؛ سنن أبي داوٗد : 673؛ سنن النسائي : 820؛ سنن الترمذي :229؛ السنن الکبرٰی للبیہقي : 104/3، واللفظ لہٗ؛ المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 218,210/1، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن‘‘،جب کہ امام خزیمہ(۱۵۶۸)،امام ابن حبان(۲۲۱۸) اور امام حاکم(۱/۲۱۸) رحمہم اللہ نے ’’صحیح‘‘کہا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘کہا ہے۔
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 578/1)
اس حدیث کے تحت امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَقَدْ کَرِہَ قَوْمٌ مِّنْ أَہْلِ العِلْمِ أَنْ یُّصَفَّ بَیْنَ السَّوَارِي، وَبِہٖ یَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِّنْ أَہْلِ الْعِلْمِ فِي ذٰلِکَ ۔
’’اہل علم کی ایک جماعت نے ستونوں کے درمیان نماز پڑھنے کو ناپسند کیا ہے۔ امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہHیہی کہتے ہیں۔جب کہ اہل علم کی ایک جماعت اس بارے میں رخصت بھی دیتی ہے۔‘‘
(سنن الترمذي، تحت الحدیث : 229)
n سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لَا تَصُفُّوا بَیْنَ السَّوَارِي ۔
’’ستونوں کے درمیان صف نہ بناؤ۔‘‘
(السنن الکبـــــــــــــــرٰی للبیہقي : 104/3، وسندہٗ صحیحٌ)
امام ابن منذر رحمہ اللہ (م:۳۱۹ھ) لکھتے ہیں:
وَلَوِ اتَّقٰی مُتَّقٍ کَانَ حَسَنًا، وَلَا مَأْثَمَ عِنْدِي عَلٰی فَاعِلِہٖ ۔
’’اگر کوئی اس سے بچے تو اچھا ہے،لیکن میرے نزدیک ایسا کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف : 184/4)
علامہ ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَلَا خِلَافَ فِي جَوَازِ الصَّفِّ بَیْنَ السَّوَارِي عِنْدَ الضِّیقِ، وَأَمَّا مَعَ السَّعَۃِ؛ فَہُوَ مَکْرُوہٌ لِّلْجَمَاعَۃِ، فَأَمَّا الْوَاحِدُ؛ فَلَا بَأْسَ بِہٖ، وَقَدْ صَلَّی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْکَعْبَۃِ بَیْنَ سَوَارِیھَا ۔
’’تنگی کے وقت ستونوں کے درمیان صف بنانے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔ ہاں،جگہ کی وسعت کے باوجود ایسا کرنا باجماعت نماز میں مکروہ ہے۔اکیلا شخص ایسا کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تھی۔‘‘(عارضۃ الأحوذي : 28/2)
الحاصل یہ کراہت تنزیہی ہے۔بامر مجبوری ستونوں کے درمیان صف بنانے میں کوئی حرج نہیں۔
بالائی منزل اور تہ خانہ وغیرہ میں نماز :
عورتوں کی صف اگر منزل کی بالائی منزل پر یا تہ خانہ میں ہو اور مردوں کی صف زمین کی سطح پر ہو،نیز عورتوں کی صف مردوں کی صف سے مقدم ہو،تب بھی نماز درست ہے۔اسی طرح عورتوں کی صف اور امام کے درمیان دیوار یا پردہ حائل ہو تو بھی نماز صحیح ہو گی۔
بامر مجبوری اور عذر کی صورت میں عورتوں کی صف امام سے مقدم ہو، درمیان میں دیوار یا کوئی پردہ حائل ہو تو بھی نماز درست ہو گی۔کیوں کہ آڑ کی صورت میں وہ امام کے پیچھے ہی متصور ہو گی۔
اسی طرح اگر امام ایک کمرے میں ہو اور اس کے ساتھ چند مقتدی ہوں اور جگہ کی تنگی کی بنا پر باقی متقدی دوسرے کمرے میں امام کی اقتدا کریں تو یہ بھی درست ہے۔
اگر کسی مسجد سے متصل مکان میں امام کی تکبیرات سنائی دیتی ہوں تو اس مکان کی چھت یا صحن میں امام کی اقتدا درست ہے۔
دلائل ملاحظہ فرمائیں :
1 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّي مِنَ اللَّیْلِ فِي حُجْرَتِہٖ، وَجِدَارُ الْحُجْرَۃِ قَصِیرٌ، فَرَأَی النَّاسُ شَخْصَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ أُنَاسٌ یُّصَلُّونَ بِصَلَاتِہٖ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اپنے حجرہ میں نماز ادا فرماتے۔حجرے کی دیوار چھوٹی تھی، صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپہ مبارکہ کو دیکھا اور کھڑے ہوکر آپ کی اقتدا کرنے لگے۔‘‘(صحیح البخاري : 729)
سید الفقہا،امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے :
بَابٌ إِذَا کَانَ بَیْنَ الْإِمَامِ وَبَیْنَ الْقَوْمِ حَائِطٌ أَوْ سُتْرَۃٌ ۔
’’اس صورت کا بیان جب امام اور مقتدیوں کے مابین دیوار یا پردہ حائل ہو۔‘‘
2 صالح مولی توأمہ کہتے ہیں :
صَلَّیْتُ مَعَ أَبِي ھُرَیْرَۃَ فَوْقَ الْمَسْجِدِ بِصِلَاۃِ الْإِمَامِ، وَھُوَ أَسْفَلُ ۔
’’میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی چھت پر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی،حالانکہ امام نیچے تھا۔‘‘(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2، وسندہٗ حسنٌ)
3 سعید بن مسلم کہتے ہیں :
رَأَیْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ صَلّٰی فَوْقَ ظَہْرِ الْمَسْجِدِ صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ، وَمَعَہٗ رَجُلٌ آخَرُ، یَعْنِي وَیَأْتَمُّ بِالْإِمَامِ ۔
’’میں نے سالم بن عبد اللہ رحمہ اللہ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک شخص کے ساتھ مسجد کی چھت پر مغرب کی امام کی اقتدا میں نماز پڑھی۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2، وسندہٗ صحیحٌ)
4 منصور بن معتمر بیان کرتے ہیں :
کَانَ إِلٰی جَنْبِ مَسْجِدِنَا سَطْحٌ، عَنْ یَّمِینِ الْمَسْجِدِ، أَسْفَلُ مِنَ الْإِمَامِ، فَکَانَ قَوْمٌ ہَارِبِینَ فِي إِمَارَۃِ الْحَجَّاجِ، وَبَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْمَسْجِدِ حَائِطٌ طَوِیلٌ یُّصَلُّونَ عَلٰی ذٰلِکَ السَّطْحِ، وَیَأْتَمُّونَ بِالْإِمَامِ، فَذَکَرْتُہٗ لِإِبْرَاہِیمَ، فَرَآہُ حَسَنًا ۔
’’ہماری مسجد کی دائیں جانب ایک جگہ تھی،جو امام کی جگہ کی نسبت نیچی تھی۔ کچھ لوگ حجاج کے دور میں بھاگے ہوئے تھے،ان کے اور مسجد کے درمیان ایک لمبی دیوار حائل تھی۔وہ اس امام کی اقتدا میں اس جگہ نماز ادا کرتے تھے۔میں نے امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے اسے درست خیال کیا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2، وسندہٗ صحیحٌ)
5 عبد اللہ بن عون بیان کرتے ہیں :
سُئِلَ مُحَمَّدٌ عَنِ الرَّجُلِ یَکُونُ عَلٰی ظَہْرِ بَیْتٍ، یُصَلِّي بِصَلَاۃِ الْإِمَامِ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَ : لَا أَعْلَمُ بِہٖ بَأْسًا، إِلَّا أَنْ یَّکُونَ بَیْنَ یَدَيِ الْإِمَامِ ۔
’’امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو رمضان المبارک میں کسی گھر کی چھت پر امام کی اقتدا میں نماز پڑھے۔انہوں نے فرمایا : میں اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتا،الا یہ کہ وہ امام سے آگے ہو۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2، وسندہٗ صحیحٌ)
6 ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ عُرْوَۃَ کَانَ یُصَلِّي بِصَلَاۃِ الْإِمَامِ، وَہُوَ فِي دَارِ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ، وَبَیْنَہُمَا وَبَیْنَ الْمَسْجِدِ طَرِیقٌ ۔
’’عروہ بن زبیر تابعی رحمہ اللہ نماز کی اقتدا میں حمید بن عبد الرحمن بن حارث کے گھر میں نماز ادا کرتے،حالانکہ ان کے اور مسجد کے درمیان ایک راستہ تھا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2، وسندہٗ صحیحٌ)
فائدہ 1 :
بعض لوگوں نے اللہ رب العالمین کی گرفت سے بے خوف وخطر ہو کر یہ روایت گھڑ لی :
’مَنْ کَانَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْإِمَامِ طَرِیقٌ أَوْ نَھْرٌ أَوْ صَفٌّ مِّنْ نِّسَائٍ؛ فَلَیْسَ ھُوَ مَع الْإِمَامِ‘ ۔
’’جس کے اور امام کے درمیان راستہ،نہر یا عورتوں کی صف حائل ہو،وہ امام کی اقتدا میں نہیں۔‘‘
(المبسوط للسرخسي : 184/1، 193، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع للکاساني : 240/1، البنایۃ شرح الھدایۃ للعنیي : 353/2، المحیط البرھاني فی الفقہ النعماني : 421/1)
فائدہ 2 :
سیدناعقبہ بن عمرو،ابو مسعود انصاری،بدری رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
نَھٰی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّقُومَ الْإِمَامُ فَوْقَ شَيْئٍ، وَالنَّاسَ خَلْفَہٗ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی امام کسی بلند چیز پر کھڑا ہو،اس حال میں لوگ (نیچے)اس کی اقتدا کر رہے ہوں۔‘‘(سنن الدارقطني : 1882)
اس کی سند سلیمان بن مہران اعمش اور ابراہیم بن یزید نخعی کی ’’تدلیس‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔
فائدہ 3 :
عیسیٰ بن ابو عزہ،امام شعبی رحمہ اللہ کے بارے میں کہتے ہیں :
سَأَلْتُہٗ عَنِ الْمَرْأَۃِ تَأْتَمُّ بِالْإِمَامِ وَبَیْنَہُمَا طَرِیقٌ، فَقَالَ : لَیْسَ ذَلِکَ لَہَا ۔
’’میں نے ان سے عورت کے بارے میں پوچھا کہ اس کے اور امام کے درمیان میں راستہ حائل ہو۔انہوں نے فرمایا : اس کے لیے ایسی صورت میں اقتدا کرنا جائز نہیں۔‘‘(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2، وسندہٗ صحیحٌ)
امام شعبی رحمہ اللہ کا یہ قول صحیح حدیث اور سلف صالحین کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے۔
فائدہ 4 :
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے یہ قول منسوب ہے :
إِذَا کَانَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْإِمَامِ طَرِیقٌ، أَوْ نَھْرٌ، أَوْ حَائِطٌ؛ فَلَیْسَ مَعَہٗ ۔
’’جب نمازی اور امام کے درمیان راستہ،نہر یا دیوار حائل ہو،تو وہ امام کی اقتدا میں نہیں ہے۔‘‘(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2)
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیوں کہ :
1 نعیم بن ابو ہند کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سماع و لقا نہیں ہے۔
2 حفص بن غیاث راوی ’’مدلس‘‘ہے۔
3 لیث بن ابو سلیم جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف،سیء الحفظ‘‘ہے۔
مصنف عبد الرزاق(4880)والی سند میں نعیم بن ابو ہند اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان ’’انقطاع‘‘ کے ساتھ ساتھ سلیمان بن طرخان تیمی اور امام عبد الرزاق کی ’’تدلیس‘‘ہے۔
فائدہ 5 :
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے :
إِنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُّصَلِّيَ بِصَلَاۃِ الْإِمَامِ، إِذَا کَانَ بَیْنَہُمَا طَرِیقٌ، أَوْ نِسَائٌ ۔
’’وہ امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے کو اس وقت مکروہ سمجھتے تھے جب نمازی اور امام کے درمیان راستہ یا عورتیں ہوتیں۔‘‘(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2)
اس کی سند سفیان ثوری اور اعمش کی ’’تدلیس‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔
مصنف عبد الرزاق(4882)والی سند میں ابن مجالد اور اس کا باپ مجالدکون ہے؟ ان کی تعیین و توثیق درکار ہے۔نیز امام عبد الرزاق ’’مدلس‘‘ہیں،سماع کی تصریح نہیں کی۔
قاضی ابو یوسف کی ’’الآثار‘‘(322)کی سند جھوٹی ہے۔یوسف بن ابو یوسف کی توثیق نہیں مل سکی۔صاحب ِکتاب قاضی ابو یوسف جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہیں اور ان کے استاذ نعمان بن ثابت باتفاقِ محدثین ’’ضعیف ومتروک‘‘ہیں۔مزید یہ کہ حماد بن ابو سلیمان راوی ’’مختلط‘‘بھی ہیں۔نعمان بن ثابت صاحب نے ان سے اختلاط کے بعد روایت لی ہے۔
محمد بن حسن شیبانی کی ’’الآثار‘‘(115)والی سند کا بھی یہی حال ہے۔محمد بن حسن شیبانی ’’متروک وکذاب‘‘ہے۔اس کے استاذ بھی باتفاقِ محدثین ’’ضعیف ومتروک‘‘ہیں۔حماد بن ابو سلیمان کا ’’اختلاط‘‘بھی ہے۔
ہیجڑوں کی صف :
خُنثٰی(ہیجڑے)میں اگر مردوں والی علامات پائی جائیں تو وہ مردوں کی صف میں کھڑا ہو گا اور اگر عورتوں کی والی علامات ہوں تو عورتوں کی صف میں کھڑا ہو گا۔البتہ خُنثٰی مشکل(جس میں کسی ایک جنس کی علامات واضح نہ ہوں)مردوں کے ساتھ کھڑا ہو۔
صف مکمل ہو تو امام کے ساتھ کھڑا ہونا :
صف مکمل ہونے کی صورت میں مقتدی کا امام کے ساتھ مل کر کھڑا ہونا درست نہیں، جیسا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز کی امامت کرا رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بائیں جانب آ کر بیٹھ گئے۔حدیث کے الفاظ ہیں :
فَلَمَّا رَآہُ أَبُو بَکْرٍ؛ اسْتَأْخَرَ ۔
’’جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹ گئے۔‘‘
(صحیح البخاري : 683، صحیح مسلم : 418)
معلوم ہوا کہ مقتدی امام کے ساتھ صف مکمل ہونے کی صورت میں کھڑا نہیں ہو سکتا، تب ہی تو سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا۔عذر کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی جگہ کھڑے رہنے کا اشارہ فرمایا۔
بعض لوگ اس مسئلہ میں ایک ’’ضعیف‘‘حدیث کو دلیل بنا کر صف مکمل ہونے کی صورت میں امام کے ساتھ کھڑے ہونے کو جائز سمجھتے ہیں۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے :
قَالَ رَجُلٌ لِّلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : عَلِّمْنِي عَمَلًا أَدْخُلُ الْجَنَّۃَ، قَالَ : ’کُنْ مُؤَذِّنًا، أَوْ إِمَامًا، أَوْ بِإِزَائِ الْإِمَامِ‘ ۔
’’ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : مجھے ایسا عمل بتائیے جس کی وجہ سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یا مؤذّن بن جاؤ،یا امام یا امام کے برابر کھڑے ہو جاؤ۔‘‘
(التاریخ الکبیر للبخاري : 37/1، المعجم الأوسط للطبراني : 7737، الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 284/7، الضعفاء الکبیر للعقیلي : 22/4)
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیوں کہ محمد بن اسماعیل ضبی راوی ’’منکر الحدیث‘‘ہے۔امام بخاری(التاریخ الکبیر : 37/1)،امام ابن عدی(الکامل فی ضعفاء الرجال : 284/7)اور امام ابن الجارود(لسان المیزان لابن حجر: 467/6)نے اسے ’’منکر الحدیث‘‘کہا ہے۔
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے ’’مجہول‘‘کہا ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 189/7)
سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 49/9)کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
مصنف ابن ابو شیبہ(537/2)میںامام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول یونس بن عبید کی ’’تدلیس‘‘ کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔
اسی طرح ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے قول کی سند میں ہشیم بن بشیر ’’مدلس‘‘ہیں،انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
کرسی پر نماز :
حتی المقدور کرسی پر بیٹھ کر نماز نہیں پڑھنی چاہیے،کیوں کہ یہ کوئی مستحسن اقدام نہیں،ہاں! اگرکوئی چارہ نہ ہو تو پھر جائز ہے۔لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ذرا سی تکلیف پر نماز میں کرسی استعمال کی جاتی ہے،جب کہ دکانوں اور گھروں میں کرسی کے بغیر ہی بیٹھے رہتے ہیں۔آج سے بیس پچیس سال پہلے یہی بیماریاں اور یہی عذر موجود تھے،لیکن مسجدوں میں یہ حال نہیں تھا، اب دیکھا دیکھی مساجد میں رواج پڑ گیا ہے۔مساجد اسمبلی حال کا منظر پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ ائمہ مساجد کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی اس بارے میں اصلاح فرمائیں۔
نماز میں بے وضو ہو جائے تو ؟
اللہ تعالیٰ کے ہاں مومن کتنا محترم ہے،یہ محاسن اسلام میں سے ہے کہ جہاں کہیں بھی انسان کے عزت و وقار کو ٹھیس پہنچنے کاخدشہ ہو، وہاں اس کا بھرپور دفاع کیا ہے۔ غور کریں کہ کوئی شخص صف میں کھڑا ہے،وضو ٹوٹنے پر ناک پکڑ کر صف سے خارج ہو جائے،لوگ یہی سمجھیں گے کہ اس کی نکسیر پھوٹ پڑی ہے،کسی کے ذہن میں خیال تک نہیں جائے گاکہ اس کی ہوا خارج ہو گئی ہے۔
n سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’إِذَا أَحْدَثَ أَحَدُکُمْ فِي صَلَاتِہٖ؛ فَلْیَأْخُذْ بِأَنْفِہٖ، ثُمَّ لِیَنْصَرِفْ‘ ۔
’’جب تم میں سے کوئی نماز میں بے وضو ہو جائے تو اپنا ناک پکڑ کر صف سے نکل جائے۔‘‘(سنن أبي داوٗد : 1114؛ سنن ابن ماجہ : 1222، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن الجارود(۲۲۲)،امام ابن خزیمہ(۱۰۱۹) اور امام ابن حبان(۲۲۳۹) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔امام حاکم(۱/۱۸۴۔۲۶۰)نے اسے ’’امام بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ بوصیری کہتے ہیں کہ اس کی سند ’’صحیح‘‘اور راوی ’’ثقہ‘‘ہیں۔
(مصباح الزجاجۃ في زوائد ابن ماجہ : 145/1)
علامہ خطابی(۳۱۹۔۳۸۸ھ)لکھتے ہیں:
إِنَّمَا أَمَرَہٗ أَنْ یَّأْخُذَ بِأَنْفِہٖ لِیُوہِمَ الْقَوْمَ أَنَّ بِہٖ رُعَافًا، وَفِي ہٰذَا بَابٌ مِّنَ الْـأَخْذِ بِالْـأَدَبِ فِي سَتْرِ الْعَوْرَۃِ وَإِخْفَائِ الْقَبِیحِ مِنَ الْـأَمْرِ وَالتَّوْرِیَۃِ بَمَا ہُوَ أَحْسَنُ مِنْہُ، وَلَیْسَ یَدْخُلُ فِي ہٰذَا الْبَابِ الرِّیَائُ وَالْکَذِبُ، وَإِنَّمَا ہُوَ مِنْ بَابِ التَّجَمُّلِ وَاسْتِعْمَالِ الْحَیَائِ وَطَلَبِ السَّلَامَۃِ مِنَ النَّاسِ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو اپنا ناک پکڑ کر صف سے نکلنے کا حکم اس لیے دیا کہ لوگوں کو یہ شک ہو کہ اس کی نکسیر پھوٹی ہے۔اس نبوی تعلیم سے عیوب کو چھپانے کے حوالے سے ادب کو اختیار کرنا،ناپسندیدہ معاملات کو خفیہ رکھنا اور مکروہ کاموں کا احسن انداز میں توریہ کرنا ثابت ہوتا ہے۔اس معاملے میں ریاکاری و جھوٹ کو کوئی دخل نہیں۔یہ تو احسن انداز،حیا داری اور لوگوں سے سلامتی کی راہ ہے۔‘‘
(معالم السنن : 249/1)
دوآدمیوں کی جماعت :
کم از کم صف دو آدمیوں کی ہوتی ہے،جیسا کہ :
n سیدنا مالک بن حویرث بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرا ایک ساتھی نبی کریم سے واپس جانے کی اجازت طلب کرنے کے لیے گئے تو آپ نے ہمیں فرمایا:
’إِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَۃُ؛ فَأَذِّنَا وَأَقِیمَا، ثُمَّ لِیَؤُمَّکُمَا أَکْبَرُکُمَا‘ ۔
’’جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم اذان واقامت کہو۔پھر تم میں سے عمر میں بڑا امام بنے۔‘‘(صحیح البخاري : 658؛ صحیح مسلم : 293)
جب دو آدمی جماعت کرائیں تو ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہوں گے،جیسا کہ :
n سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
’أَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ آخِرِ اللَّیْلِ، فَصَلَّیْتُ خَلْفَہٗ، فَأَخَذَ بِیَدِي، فَجَرَّنِي، فَجَعَلَنِي حِذَائَہٗ ۔
’’میں رات کے آخری حصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز میں)میرے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے کھینچا اور اپنے برابر کھڑا کر دیا۔‘‘(مسند الإمام أحمد : 330/3، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (۳/۵۳۴)نے ’’صحیح بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
n سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
بِتُّ فِي بَیْتِ خَالَتِي مَیْمُونَۃَ، فَصَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعِشَائَ، ثُمَّ جَائَ، فَصَلّٰی أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ، فَجِئْتُ، فَقُمْتُ عَنْ یَّسَارِہٖ، فَجَعَلَنِي عَنْ یَّمِینِہٖ، فَصَلّٰی خَمْسَ رَکَعَاتٍ، ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ نَامَ حَتّٰی سَمِعْتُ غَطِیطَہٗ، أَوْ قَالَ : خَطِیطَہٗ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الصَّلاَۃِ ۔
’’میں نے ایک رات اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں بسر کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشا کی نماز پڑھ کر گھر تشریف لائے اور چارر کعتیں ادا کر کے سو گئے۔پھر کھڑے ہوئے تومیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب کر دیا۔پھر پانچ رکعات پڑھیں،اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔پھر سو گئے حتی کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹوں کی آواز سنی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے تشریف لے گئے۔‘‘(صحیح البخاري : 697، صحیح مسلم : 763)
فقیہِ امت،امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث یہ مسئلہ اخذ کیا ہے:
یَقُومُ عَنْ یَّمِینِ الْإِمَامِ بِحِذَائِہٖ سَوَاء ً إِذَا کَانَا اثْنَیْنِ ۔
’’مقتدی امام کی دائیں جانب امام کے بالکل برابر کھڑا ہو گا،جب دو مرد جماعت کرائیں۔‘‘
شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (773۔852ھ)اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
وَقَوْلُہٗ : سَوَائً، أَيْ لَا یَتَقَدَّمُ وَلَا یَتَأَخَّرُ، وَفِي اِنْتِزَاعِ ہٰذَا مِنَ الْحَدِیثِ الَّذِي أَوْرَدَہٗ بُعْدٌ، وَقَدْ قَالَ أَصْحَابُنَا : یُسْتَحَبُّ أَنْ یَّقِفَ الْمَأْمُومُ دُونَہٗ قَلِیلًا، وَکَأَنَّ الْمُصَنِّفَ أَشَارَ بِذٰلِکَ إِلٰی مَا وَقَعَ فِي بَعْضِ طُرُقِہٖ، فَقَدْ تَقَدَّمَ فِي الطَّہَارَۃِ مِنْ رِّوَایَۃِ مَخْرَمَۃَ عَنْ کُرَیْبٍ عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ، بِلَفْظِ : فَقُمْتُ إِلٰی جَنْبِہٖ، وَظَاہِرُہُ الْمُسَاوَاۃُ ۔
’’امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ مقتدی برابر ہو،یعنی امام سے نہ آگے ہو نہ پیچھے۔جو حدیث امام صاحب نے پیش کی ہے،اس سے یہ استنباط دقیق ہے۔ ہمارے اصحاب کا کہنا ہے کہ مقتدی امام سے تھوڑا پیچھے کھڑا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ کی طرف اشارہ کیا ہے،جو اس حدیث کی بعض سندوں میں موجود ہیں۔کتاب الطہارت میں مخرمہ عن کریب عن ابن عباس کی سند سے یہ الفاظ مذکور ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جانب کھڑا ہوا۔اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما برابر کھڑے ہوئے تھے۔‘‘
(فتح البـــــــــــــــــاري شرح صحیح البخاري : 190/2)
n نافع مولی ابن عمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
قُمْتُ وَرَائَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ فِي صَلَاۃٍ مِّنَ الصَّلَوَاتِ، وَلَیْسَ مَعَہٗ أَحَدٌ غَیْرِي، فَخَالَفَ عَبْدُ اللّٰہِ بِیَدِہٖ، فَجَعَلَنِي حِذَائَہٗ ۔
’’میں ایک نماز میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور میرے علاوہ آپ کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ہاتھ کے ساتھ مجھے اپنے برابر کھڑا کر دیا۔‘‘(المؤطّأ للإمام مالک : 134/1، وسندہٗ صحیحٌ)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں نماز کے احوال سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یوں بیان کرتی ہیں:
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جماعت کر ارہے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کو چیرتے ہوئے آگے تشریف لائے،توسیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پیچھے ہٹنا چاہا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہیں۔اس کے بعد:
فَجَلَسَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِذَائَ أَبِي بَکْرٍ إِلٰی جَنْبِہٖ، فَکَانَ أَبُو بَکْرٍ یُّصَلِّي بِصَلاَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ یُصَلُّونَ بِصَلاَۃِ أَبِي بَکْرٍ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ایک جانب ان کے برابر بیٹھ گئے۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے۔‘‘(صحیح البخاري : 683، صحیح مسلم : 418)
ثابت ہوا کہ جب دو آدمی جماعت کر ا رہے ہوں تو مقتدی امام کی دائیں جانب بالکل برابر ساتھ مل کر کھڑا ہو گا۔امام ابوحنیفہ اور قاضی ابویوسف کا بھی یہی مذہب ہے۔
لیکن المبسوط للسرخسي(۱/۴۳)، بدائع الصنائع للکاساني الحنفي(۱/۱۵۹) اور الہدایۃ(۱/۱۲۶،باب الإمامۃ)میں محمد بن حسن شیبانی کا قول ہے کہ مقتدی اپنی انگلیاں امام کی ایڑھی کے برابر رکھے۔
حنفی عوام نے یہ بے دلیل اور مخالف ِسنت قول لے لیا ہے، جب کہ خواہشات کی پیروی میں صحیح احادیث اور امام ابوحنیفہ کے مذہب کو پس پشت ڈال دیا ہے۔یہ عجیب تر بات ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
{اَفَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ} (الجاثیۃ 23:45)
’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟‘‘
شارح ہدایہ،علامہ عینی حنفی(۷۶۲۔۸۵۵ھ)لکھتے ہیں:
وَلَا یَتَأَخَّرُ عَنِ الْـإِمَامِ، لِأَنَّ التَّأَخُّرَ خِلَافُ السُّنَّۃِ ۔
’’مقتدی امام سے پیچھے نہ ہٹے،کیوں کہ پیچھے ہٹ کر کھڑے ہونا خلافِ سنت ہے۔‘‘
(البنایۃ في شرح الہدایۃ : 340/2)
علامہ احمد بن محمد بن اسماعیل طحطاوی حنفی(م:۱۲۳۱ھ) کہتے ہیں:
وَالَّذِي فِي شُرُوحِ الْھِدَایَۃِ وَالْقُدُورِيِّ وَالْکَنْزِ وَالْبُرْہَانِ وَالْقَہَسْتَانِيِّ أَنَّہٗ یَقِفُ مُسَاوِیًا لَّہٗ بِدُونِ تَقَدُّمٍ وَّبِدُونِ تَأَخُّرٍ مِّنْ غَیْرِ فُرْجَۃٍ فِي ظَاہِرِ الرِّوَایَۃِ ۔
’’ہدایہ وقدروی کی شروحات،کنز،برہان،قہستانی میں یہی لکھا ہوا ہے کہ ظاہر الروایہ میں مقتدی امام کے برابر کھڑا ہو گا،ذرا بھی آگے پیچھے نہیں ہو گا،نیز امام اور مقتدی کے درمیان کوئی خالی جگہ نہیں ہو گی۔‘‘
(حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح : 305)
ناصر السنۃ،علامہ البانی رحمہ اللہ (م:۱۴۲۰ھ)فرماتے ہیں:
إِنَّ السُّنَّۃَ أَنْ یَقْتَدِيَ الْمُصَلِّي مَعَ الْإِمَامِ عَنْ یَّمِینِہٖ وَحِذَائِہٖ، غَیْرَ مُتَقَدِّمٍ عَلَیْہِ، وَلَا مُتَأَخِّرٍ عَنْہُ، خِلَافًا لِّمَا فِي بَعْضِ الْمَذَاہِبِ أَنَّہٗ یَنْبَغِي أَنْ یَّتَأَخَّرُ عَنِ الْإِمَامِ قَلِیلاً، بِحَیثُ یَجْعَلُ أَصَابِعَ رِجْلِہٖ حِذَائَ عَقِبَيِ الْإِمَامِ، أَوْ نَحْوَہٗ، وَہٰذَا کَمَا تَرٰی خِلَافُ ہٰذَا الْحَدِیثِ الصَّحِیحِ، وَبِہٖ عَمِلَ بَعْضُ السَّلَفِ ۔
’’سنت طریقہ یہ ہے کہ امام کے ساتھ نماز پڑھنے والا امام کی دائیں جانب اس کے برابر کھڑا ہو،اس سے نہ آگے ہو نہ پیچھے۔اس کے برعکس بعض مذاہب میں یہ مذکور ہے کہ مقتدی امام سے اتنا پیچھے ہو کر کھڑا ہو کہ اپنے پاؤں کی انگلیاں تقریباً امام کی ایڑھیوں کے برابر رکھے۔یہ بات جیسے آپ دیکھ ہی رہے ہیں،اس صحیح حدیث کے خلاف ہے۔بعض اسلاف نے اس پر (امام کے برابر کھڑا ہونے پر) عمل بھی کیا ہے۔‘‘
(سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ وأثرھا السيء في الأمّۃ : 175/6، تحت حدیث : 2590)
نیز فرماتے ہیں:
فَالْقَوْلُ بِاسْتِحْبَابِ أَنْ یَّقِفَ الْمَأْمُومُ دُونَ الْإِمَامِ قَلِیلًا، کَمَا جَائَ فِي بَعْضِ الْمَذَاہِبِ عَلٰی تَفْصِیلٍ فِي ذٰلِکَ لِبَعْضِہَا، مَعَ أَنَّہٗ مِمَّا لَا دَلِیلَ عَلَیْہِ فِي السُّنَّۃِ، فَہُوَ مُخَالِفٌ لِّظَوَاہِرِ ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ ۔
’’امام سے تھوڑا پیچھے کھڑا ہونے کو مستحب کہنا،جیسا کہ بعض مذاہب میں مذکور ہے، اگرچہ ان میں سے بعض اس میں تفصیل بھی کرتے ہیں،نیز اس پر سنت سے کوئی دلیل بھی نہیں ملتی،یہ ان احادیث کے واضح مفہوم کے خلاف بھی ہے۔‘‘
(سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ وأثرھا السيء في الأمّۃ : 270/1)
جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
’’امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کا مسلک یہ ہے کہ مقتدی اور امام دونوں برابر کھڑے ہوں گے،کوئی آگے پیچھے نہیں ہو گا اور امام محمد کے نزدیک مقتدی اپنا پنجہ امام کی ایڑھیوں کی محاذات میں رکھے گا۔فقہاے حنفیہ نے فرمایا کہ اگرچہ دلیل کے اعتبار سے شیخین کا قول راجح ہے،لیکن تعامل امام محمد کے قول پر ہے اور وہ احوط بھی ہے، اس لیے کہ برابر کھڑے ہونے میں غیر شعوری طور پر آگے بڑھ جانے کا اندیشہ پایا جاتا ہے،جب کہ امام محمد کا قول اختیار کرنے کی صورت میں یہ خطرہ نہیں ہے،لہٰذا فتویٰ بھی امام محمد ہی کے قول پر ہے۔‘‘
(درسِ ترمذی از تقی : 490-489/1)
بڑا حوصلہ ہے کہ دلیل بھی اپنے امام کے قول کے موافق دیکھ کر پھر اسے ردّ کر دیا جائے اور بغیر کسی دلیل کے خلافِ سنت قول کو مفتیٰ بہ اور احوط قرار دے کر اپنا لیا جائے!پھر تقلید کے وجوب کا نعرہ بھی لگایا جائے اور غیر مقلدین کو طعنے بھی دیے جائیں۔
اگر کوئی متبع سنت یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آ جانے کے بعد امام ابوحنیفہ کی بات نہیں مانی جا سکتی تو وہ مطعون قرار دیا جاتا ہے،جب کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد کا بے دلیل ’’فرمان‘‘ آ جانے کے بعد امام ابوحنیفہ اور ان کے خاص شاگرد ابو یوسف کی بات ٹھکرا دینا بالکل درست اور احوط ٹھہرے!
یہ رَوَش نہ تقلید ہے نہ اتباع۔ ع نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
دو مردوں کی جماعت میں تیسرے مرد کی شمولیت :
جب دو مرد باجماعت نماز پڑھ رہے ہوں تو بعد میں آنے والا مرد مقتدی کو پیچھے کھینچ لے گا یا جگہ کی مناسبت سے امام کو آگے کر دے گا،جیسا کہ :
n سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ثُمَّ جِئْتُ حَتّٰی قُمْتُ عَنْ یَّسَارِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ بِیَدِي، فَأَدَارَنِي حَتّٰی أَقَامَنِي عَنْ یَّمِینِہٖ، ثُمَّ جَائَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَائَ فَقَامَ عَنْ یَّسَارِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدَیْنَا جَمِیعًا، فَدَفَعَنَا حَتّٰی أَقَامَنَا خَلْفَہٗ ۔
ــ(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے)۔میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے( نماز ہی میں)مجھے ہاتھ سے پکڑا اور پیچھے سے گھماتے ہوئے دائیں جانب کھڑا کر دیا۔اس کے بعد سیدنا جبار بن صخر رضی اللہ عنہ آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کو ہاتھوں سے پکڑ کر اپنے پیچھے کر دیا۔(صحیح مسلم : 3010)
عورت کی محاذات کا مسئلہ :
عورتوں کی صفیں مردوں کی صفوں کے بعد ہوتی ہیں۔عورت یا عورتوں کو نماز کے لیے مردیا مردوں کے برابر کھڑا نہیں ہونا چاہیے،لیکن اگر کسی مجبوری کی بنا پر یا غلطی سے ایسا ہو جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی،کیوں کہ اس پر کوئی دلیل نہیں۔
جب کہ احناف مقلدین محاذات (عورت کے مرد کے برابر کھڑے ہو کر نماز پڑھ لینے) کے حوالے سے چند باطل صورتیں بیان کرتے ہیں۔اہل علم نے ان کا خوب ردّ کر دیا ہے۔
وہ باطل صورتیں درجِ ذیل ہیں :
’’1 عورت کا امام کے آگے یا برابر ہونا،اس سے امام اور اس عورت اور تمام مقتدیوں کی نماز فاسد ہو جائے گی۔
2 عورت کا امام اور مقتدی مردوں کی صف کے درمیان میں یا مقتدی مردوں کی صفوں کے درمیان میں کھڑا ہونا، اس صورت میں ایک عورت اپنے پیچھے والی صرف پہلی صف کے محاذی ایک مرد کی نماز فاسد کرے گی اور دو عورتیں صرف پیچھے والی پہلی صف کے دو محاذی مردوں کی نماز فاسد کریں گی اور تین عورتیں پیچھے والی تمام صفوں کے تین تین محاذی مردوں کی نماز فاسد کریں گی اور تین سے زیادہ عورتیں صف ِتام کے حکم میں ہونے کی وجہ سے پیچھے والی تمام صفوں کے تمام آدمیوں کی نماز فاسد کریں گی۔
ایک یا دو عورتیں آگے ہونے کی صورت میں اگر ان کے اور مردوں کے درمیان سترہ بقد ِایک ہاتھ حائل ہو گا تو مانع فساد ہو گا۔اس سے کم مانع فساد نہیں۔اور تین یازیادہ عورتیں آگے ہونے کی صورت میں سترہ حائل ہونے کا اعتبار نہیں اور فسادِ نماز کا حکم بدستور برقرار رہے گا۔
3 عورتوں کا مردوں کی صف میں کھڑا ہونا، پس ایک عورت تین آدمیوں کی نماز فاسد کرے گی۔ایک اپنے دائیں اور ایک بائیں اور ایک پیچھے والی پہلی صف کے اپنی سیدھ والے آدمی کی اور دو عورتیں چار آدمیوں کی،یعنی ایک دائیں اور ایک بائیں اور دو پیچھے والی پہلی صف کے اپنی سیدھ والے دو آدمیوں کی نماز فاسد کریں گی۔اور تین عورتیں ایک ایک دائیں بائیں والے آدمی کی اور پیچھے والی ہر صف کے تین تین محاذی آدمیوں کی آخر صفوں تک نماز فاسد کریں گی اور تین سے زیادہ عورتیں دائیں اور بائیں والے ایک ایک آدمی کی اور پیچھے والی تمام صفوں کے تمام آدمیوں کی نماز فاسد کریں گی۔
4 ایک ہی صف میں ایک طرف آدمی ہو اور ایک طرف عورتیں ہوں اور ان کے درمیان میں کوئی حائل نہ ہو،تو صرف اس ایک آدمی کی نماز فاسد ہو گی،جو عورت کے متصل محاذی ہو گا اور باقی آدمیوں کی نماز درست ہو جائے گی، کیوں کہ یہ آدمی باقی آدمیوں اور عورتوں کے درمیان بمنزلہ سترہ ہو جائے گا۔
5 قد ِآدم یا زیادہ اونچا چبوترہ یا سائباں یا بالا خانہ وغیرہ ہے اور اس کے اوپر مرد ہیں اور نیچے ان کے محاذی عورتیں ہیں یا اس کے برعکس یعنی عورتیں اوپر ہیں اور نیچے ان کے محاذی مرد ہیں،تو یہ قد ِآدم اونچائی مانع فساد ِنماز ہو جائے گی اور مردوں کی نماز فاسد نہ ہو گی۔قد ِآدم سے کم اونچائی مانع فساد نہ ہو گی۔‘‘
(فتاوی دار العلوم زکریا از مفتی رضاء الحق دیوبندی : 276/2)
یہ ایسا گورکھ دھندا ہے،جس کی کوئی توجیہ نہ قرآن وحدیث سے ہو سکتی ہے،نہ عقلِ سلیم سے۔فرضی مسائل گھڑ کر بغیر شرعی دلیل کے نمازوں کو باطل کرتے رہنا دین کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔
شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
إِنَّ الْمَرْأَۃَ لَا تَصُفُّ مَعَ الرِّجَالِ، وَأَصْلُہٗ مَا یُخْشٰی مِنَ الِافْتِتَانِ بِہَا، فَلَوْ خَالَفَتْ؛ أَجْزَأَتْ صَلَاتُہَا عِنْدَ الْجُمْہُورِ، وَعَنِ الْحَنَفِیَّۃِ تَفْسُدُ صَلَاۃُ الرَّجُلِ دُونَ الْمَرْأَۃِ، وَہُوَ عَجِیبٌ، وَفِي تَوْجِیہِہٖ تَعَسُّفٌ، حَیْثُ قَالَ قَائِلُہُمْ : دَلِیلُہٗ قَوْلُ ابْنِ مَسْعُودٍ : أَخِّرُوہُنَّ مِنْ حَیْثُ أَخَّرَہُنَّ اللّٰہُ، وَالْـأَمْرُ لِلْوُجُوبِ، وَحَیْثُ ظَرْفُ مَکَانٍ، وَلَا مَکَانَ یَجِبُ تَأَخُّرُہُنَّ فِیہِ إِلَّا مَکَانَ الصَّلَاۃِ، فَإِذَا حَاذَتِ الرَّجُلَ؛ فَسَدَتْ صَلَاۃُ الرَّجُلِ، لِأَنَّہٗ تَرَکَ مَا أُمِرَ بِہٖ مِنْ تَأْخِیرِہَا، وَحِکَایَۃُ ہٰذَا تُغْنِي عَنْ تَکَلُّفِ جَوَابِہٖ، وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ، فَقَدْ ثَبَتَ النَّہْيُ عَنِ الصَّلَاۃِ فِي الثَّوْبِ الْمَغْصُوبِ، وَأُمِرَ لَابِسُہٗ أَنْ یَّنْزِعَہٗ، فَلَوْ خَالَفَ فَصَلّٰی فِیہِ وَلَمْ یَنْزِعْہُ؛ أَثِمَ وَأَجْزَأَتْہُ صَلَاتُہٗ، فَلِمَ لَا یُقَالُ فِي الرَّجُلِ الَّذِي حَاذَتْہُ الْمَرْأَۃُ ذٰلِکَ؟
’’عورت،مردوں کے ساتھ صف میں کھڑی نہیں ہو گی۔اس میں فتنے کا خدشہ ہے۔اگر عورت اس حکم شرعی کی مخالفت کرے (اور مردوں کے برابر کھڑی ہو جائے) تو جمہور اہل علم کے نزدیک اس کی نماز ہو جائے گی، جب کہ احناف کے نزدیک عورت کی نماز تو ہو جائے گی،البتہ مرد کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ یہ بہت عجیب فتویٰ ہے۔اس کی توجیہ کرنے میں بھی بعض نے دھاندلی سے کام لیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی دلیل ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان ہے کہ عورتوں کو وہاں پیچھے رکھو،جہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں پیچھے رکھا ہے(یہ قول ثابت نہیں،جیسا کہ ہم نے تفصیلاً بیان کر دیا ہے)۔یہ حکم وجوب کے لیے ہے اور ’حیث‘ظرف ِمکان ہے۔ نماز کے علاوہ کوئی مقام ایسا نہیں،جہاں عورتوں کو پیچھے رکھنے کا حکم دیا گیا ہو۔ جب عورت مرد کے برابر کھڑی ہو جائے تو مرد کی نماز فاسد ہو جاتی ہے، کیوں کہ اس نے عورت کو پیچھے کرنے والے حکم پر عمل نہیں کیا۔ اس فتوے کو نقل کر دینا ہی (اس کے فضول ہونے کے لیے کافی ہے)،چہ جائے کہ اس کا جواب دینے کی زحمت کی جائے۔ہم ایسی واہی تباہی سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتے ہیں۔غصب شدہ کپڑے میں نماز پڑھنا ممنوع ہے اور ایسے کپڑے پہننے والے کو اتار دینے کا حکم بھی ہے، لیکن وہ اس حکم کی مخالفت کرتے ہوئے اسی کپڑے میں نماز پڑھ لے تو وہ گناہ گار ہو گا،مگر اس کی نماز ہو جائے گی۔جب یہ ہے تو اس شخص کی نماز کو درست قرار کیوں نہیں دیا جاتا،جس کے برابر میں ایک عورت خود آکر کھڑی ہو جائے؟‘‘(فتح الباري : 212/2)
حالانکہ خود احناف مقلدین ہی نے ایسی صورت میں نماز کو درست بھی قرار دیا ہوا ہے،جیسا کہ:
مسجد حرام اور مسجد نبوی میں محاذات(عورتوں کے مردوں کے برابر ہونے)کے باوجود علماے کرام اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔
فقہ حنفی میں عورت اگر مرد کے برابر ہو جائے تو نماز باطل ہو جاتی ہے۔
ملا علی قاری حنفی(م : 1014ھ)اپنے مذہب کی ایک دلیل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
فَلَا دَلَالَۃَ فِیہِ عَلٰی إِبْطَالِ الصَّلَاۃِ حَالَ الْمُحَاذَاۃِ ۔
’’اس میں محاذات کی صورت میں نماز کے باطل ہونے پر کوئی دلیل نہیں۔‘‘
(شرح النقایۃ : 204/1)
دیوبندی مفتی،جناب رضاء الحق صاحب،دار العلوم زکریا،جنوبی افریقا لکھتے ہیں :
’’مفتی اعظم پاکستان،ہمارے استاذمحترم،حضرت مولانا مفتی ولی حسن صاحب رحمہ اللہ بھی حرم میں محاذات کے باوجود نماز کی صحت کا فتوی دیتے تھے۔‘‘
(فتاوی دار العلوم زکریا : 281/2)
فائدہ :
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ قول منسوب ہے :
أَخِّرُوہُنَّ حَیْثُ أَخَّرَہُنَّ اللّٰہُ ۔
’’تم ان عورتوں کو پیچھے رکھو،جیسے اللہ نے انہیں پیچھے رکھا ہے۔‘‘
(مصنّف عبد الرزّاق : 149/3، ح : 5115، صحیح ابن خزیمۃ : 1700، المعجم الکبیر للطبراني : 295/9، ح : 9484، 9485، المطالب العالیۃ لابن حجر : 391)
اس کی سند سلیمان بن مہران اعمش کی ’’تدلیس‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔اس کا مرفوع ہونا بے اصل ہے،جیسا کہ :
امام الائمہ،ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اَلْخَبَرُ مَوْقُوفٌ غَیْرُ مُسْنَدٍ ۔
’’یہ حدیث موقوف ہے،مرفوع نہیں۔‘‘(صحیح ابن خزیمۃ، تحت الحدیث : 1700)
علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
حَدِیثٌ غَرِیبٌ مَرْفُوعًا ۔
’’اس حدیث کا مرفوع ہونا بے اصل ہے۔‘‘(نصب الرایۃ : 36/2)
علامہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں :
وَلَمْ یَثْبُتْ رَفْعُہٗ فَضْلًا عَنْ کَوْنِہٖ مِنَ الْمَشَاھِیرِ ۔
’’اس کا مشہور ہونا تو درکنار،اس کا مرفوع ہونا بھی ثابت نہیں۔‘‘
(فتح القــــــــــــــــــــــــدیر : 360/1)
شارح ہدایہ،علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں :
ھٰذَا غَیْرُ مَرْفُوعٍ ۔
’’یہ حدیث مرفوع نہیں۔‘‘(البنایۃ في شرح الھدایۃ : 342/2)
عورت بطور امام صف کے درمیان:
جب عورت خواتین کی امامت کروائے گی تو صف کے درمیان کھڑی ہو گی،جیسا کہ حجیرہ بنت حصین بیان کرتی ہیں:
أَمَّتْنَا أُمُّ سَلَمَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہا فِي الْعَصْرِ، فَقَامَتْ بَیْنَنَا ۔
’’نماز عصر میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہماری امامت کی، وہ ہمارے درمیان کھڑی ہوئی۔‘‘
(المطالب العالیۃ بزوائد المسانید الثمانیۃ لابن حجر : 427، وسندہٗ صحیحٌ)
اس کی سند کو حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (تحفۃ المحتاج:۵۵۰) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اکیلی عورت صف ہوتی ہے:
اکیلی عورت صف ہوتی ہے،جیسا کہ :
n سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
صَلَّیْتُ أَنَا وَیَتِیمٌ فِي بَیْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأُمِّي أُمُّ سُلَیْمٍ خَلْفَنَا ۔
’’میں اور ایک لڑکے نے ہمارے گھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی، میری والدہ ام سلیم ہمارے پیچھے کھڑی تھیں۔‘‘
(صحیح البخاري : 727، صحیح مسلم : 658)
n سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی کا بیان ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی بِہٖ وَبِأُمِّہٖ، أَوْ خَالَتِہٖ، قَالَ : فَأَقَامَنِي عَنْ یَّمِینِہٖ، وَأَقَامَ الْمَرْأَۃَ خَلْفَنَا ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور ان کی والدہ یا خالہ کو نماز پڑھائی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی دائیں جانب کھڑا کیا،جب کہ عورت کو پیچھے کھڑا کیا۔‘‘
(صحیــــــــــــــــــــــــح مسلم : 660)
n ایک روایت میں ہے :
صَلّٰی بِي رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِامْرَأَۃٍ مِّنْ أَہْلِي، فَأَقَامَنِي عَنْ یَّمِینِہٖ، وَالْمَرْأَۃُ خَلْفَنَا ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور میرے گھر کی ایک عورت کو نماز پڑھائی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا،جب کہ عورت ہمارے پیچھے تھی۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 302/1، سنن النسائي : 805، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(۱۵۳۷)اور امام ابن حبان(۲۲۰۴)نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
n عبداللہ بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ أَبَا طَلْحَۃَ دَعَا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی عُمَیْرِ بْنِ أَبِي طَلْحَۃَ حِینَ تُوُفِّيَ، فَأَتَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَصَلّٰی عَلَیْہِ فِي مَنْزِلِہِمْ، فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَانَ أَبُو طَلْحَۃَ وَرَائَہٗ، وَأُمُّ سُلَیْمٍ وَّرَائَ أَبِي طَلْحَۃَ، وَلَمْ یَکُنْ مَّعَہُمْ غَیْرُہُمْ ۔
’’جب ابوطلحہ کے بیٹے عمیر فوت ہوئے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کے گھر میں عمیر کی نماز ِجنازہ پڑھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے ہوئے،ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے اور امِ سلیم رضی اللہ عنہا اپنے خاوند ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑی ہوئیں۔وہاں ان کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔‘‘
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 508/1، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 365/1، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام حاکم نے ’’صحیح بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
اس کا راوی عمارہ بن غزیہ مدنی جمہور محدثین کے نزدیک مطلقاً’’ثقہ‘‘ ہے۔
n سیدنا ابو اُسَیْد رضی اللہ عنہ کے مولیٰ،ابو سعید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً، فَکَانَ عِنْدِي لَیْلَۃَ زِفَافِ امْرَأَتِي نَفَرٌ مِّنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ أَرَادَ أَبُو ذَرٍّ أَنْ یَّتَقَدَّمَ فَیُصَلِّيَ، فَجَبَذَہٗ حُذَیْفَۃُ، وَقَالَ : رَبُّ الْبَیْتِ أَحَقُّ بِالصَّلَاۃِ، فَقَالَ لِأَبِي مَسْعُودٍ : أَکَذٰلِکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ : فَتَقَدَّمْتُ، فَصَلَّیْتُ بِہِمْ، وَأَنَا یَوْمَئِذٍ عَبْدٌ، وَأَمَرَانِي إِذَا أَتَیْتُ بِامْرَأَتِي أَنْ أُصَلِّيَ رَکْعَتَیْنِ، وَأَنْ تُصَلِّيَ خَلْفِي إِنْ فَعَلَتْ ۔
’’میں نے ایک عورت سے شادی کی۔ رُخصتی کی رات میرے پاس بہت سے صحابہ کرام موجود تھے۔جب نماز کا وقت آیا تو سیدناابوذر رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ آگے بڑھ کر نماز پڑھائیں،لیکن سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ نے انہیں کھینچ لیا اور فرمایا:گھر والا نماز پڑھانے کا زیادہ مستحق ہے۔پھر انہوں نے سیدناابو مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا :کیا ایسے ہی ہے ؟انہوں نے فرمایا:ہاں!ابو سعید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی،حالانکہ میں اس وقت غلام تھا۔سیدنا ابو ذرّ رضی اللہ عنہ اورسیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھے حکم دیا کہ جب میں اپنی بیوی کے پاس جائوں تو دو رکعتیں ادا کروں اور اگر اس نے بھی پڑھنی ہوں، تو وہ بھی میرے پیچھے نماز پڑھ لے۔‘‘
(الأوسط لابن المنذر : 156/4، وسندہٗ صحیحٌ؛ مصنّف ابن أبي شیبۃ : 217/2 مختصرًا)
ایک مرد، ایک بچے اور ایک عورت کی صف :
بچہ مرد کے دائیں جانب کھڑا ہو گا اور عورت ان دونوں کے پیچھے اکیلی کھڑی ہوگی،جیسا کہ:
n سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی کا بیان ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی بِہٖ وَبِأُمِّہٖ، أَوْ خَالَتِہٖ، قَالَ : فَأَقَامَنِي عَنْ یَّمِینِہٖ، وَأَقَامَ الْمَرْأَۃَ خَلْفَنَا ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور ان کی والدہ یا خالہ کو نماز پڑھائی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی دائیں جانب کھڑا کیا،جب کہ عورت کو پیچھے کھڑا کیا۔‘‘
(صحیــــــــــــــــــح مسلم : 660)
n ایک روایت میں ہے :
صَلّٰی بِي رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِامْرَأَۃٍ مِّنْ أَہْلِي، فَأَقَامَنِي عَنْ یَّمِینِہٖ، وَالْمَرْأَۃُ خَلْفَنَا ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور میرے گھر کی ایک عورت کو نماز پڑھائی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا،جب کہ عورت ہمارے پیچھے تھی۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 302/1، سنن النسائي : 805، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(۱۵۳۷)اور امام ابن حبان(۲۲۰۴)نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
نوٹ:
اگر صف میں گنجائش ہو تو بچے بھی مردوں کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں ،جیسا کہ :
n سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
صَلَّیْتُ أَنَا وَیَتِیمٌ فِي بَیْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأُمِّي أُمُّ سُلَیْمٍ خَلْفَنَا ۔
’’میں اور ایک لڑکے نے ہمارے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ میری والدہ امِ سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے کھڑی تھیں۔‘‘
(صحیح البخاري : 727، صحیح مسلم : 658)
یاد رہے کہ اگر بچے سمجھ دار ہوں،نماز اور طریقہ نماز جانتے ہوں،پاکی و پلیدگی کی تمیز رکھتے ہوں،تو وہ مردوں کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔
بعض لوگ چھوٹے اور نا سمجھ بچوں کو جنہوں نے وضو بھی نہیں کیا ہوتا،صف میں کھڑا کر لیتے ہیں۔یہ بالکل درست نہیں۔اس سے امام کی نماز پر برا اثر پڑتا ہے۔
مرد کی اقتدا میں صرف عورتوں کی نماز :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی :اللہ کے رسول!آج رات مجھ سے ایک کام ہوا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :وہ کیا اے اُبی؟سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کی: میرے گھر کی عورتوں نے مجھے کہا:ہم قرآنِ کریم پڑھی ہوئی نہیں،اس لیے ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گی۔
فَصَلَّیْتُ بِھِنَّ ثَمَانَ رَکَعَاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرْتُ، فَکَانَتْ سُنَّۃَ الرَّضَا، وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا ۔
’’میں نے انہیں آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں،پھر وتر پڑھائے،اس بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رضامندی کا اظہار فرماتے ہوئیکچھ نہیں کہا ۔‘‘
(مسند أبي یعلٰی : ۲/۳۶۲، زوائد مسند الإمام أحمد : ۵/۱۱۵، المعجم الأوسط للطبراني : ۴/۱۴۱، قیام اللیل للمروزي : ۲۱۷، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (۲۵۵۰)نے ’’صحیح ‘‘ کہا ہے ، حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے ۔(مجمع الزوائد : ۲/۷۴)
ایک مرد اور ایک عورت کی نماز :
ایک مرد کے ساتھ اپنی زوجہ یا کوئی محرم عورت ہو تو مرد آگے اور عورت پچھلی صف میں کھڑی ہو گی،کیوں کہ اکیلی عورت کا صف بنانا امت کا اجماعی مسئلہ ہے۔
n عبداللہ بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ أَبَا طَلْحَۃَ دَعَا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی عُمَیْرِ بْنِ أَبِي طَلْحَۃَ حِینَ تُوُفِّيَ، فَأَتَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَصَلّٰی عَلَیْہِ فِي مَنْزِلِہِمْ، فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَانَ أَبُو طَلْحَۃَ وَرَائَہٗ، وَأُمُّ سُلَیْمٍ وَّرَائَ أَبِي طَلْحَۃَ، وَلَمْ یَکُنْ مَّعَہُمْ غَیْرُہُمْ ۔
’’جب ابوطلحہ کے بیٹے عمیر فوت ہوئے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کے گھر میں عمیر کی نماز ِجنازہ پڑھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے ہوئے،ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے اور امِ سلیم رضی اللہ عنہا اپنے خاوند ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑی ہوئیں۔وہاں ان کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔‘‘
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 508/1، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 365/1، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام حاکم نے ’’صحیح بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
اس کا راوی عمارہ بن غزیہ مدنی جمہور محدثین کے نزدیک مطلقاً’’ثقہ‘‘ ہے۔
n سیدنا ابو اُسَیْد رضی اللہ عنہ کے مولیٰ،ابو سعید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً، فَکَانَ عِنْدِي لَیْلَۃَ زِفَافِ امْرَأَتِي نَفَرٌ مِّنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ أَرَادَ أَبُو ذَرٍّ أَنْ یَّتَقَدَّمَ فَیُصَلِّيَ، فَجَبَذَہٗ حُذَیْفَۃُ، وَقَالَ : رَبُّ الْبَیْتِ أَحَقُّ بِالصَّلَاۃِ، فَقَالَ لِأَبِي مَسْعُودٍ : أَکَذٰلِکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ أَبُو سَعِیدٍ : فَتَقَدَّمْتُ، فَصَلَّیْتُ بِہِمْ، وَأَنَا یَوْمَئِذٍ عَبْدٌ، وَأَمَرَانِي إِذَا أَتَیْتُ بِامْرَأَتِي أَنْ أُصَلِّيَ رَکْعَتَیْنِ، وَأَنْ تُصَلِّيَ خَلْفِي إِنْ فَعَلَتْ ۔
’’میں نے ایک عورت سے شادی کی۔ رُخصتی کی رات میرے پاس بہت سے صحابہ کرام موجود تھے۔جب نماز کا وقت آیا تو سیدناابوذر رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ آگے بڑھ کر نماز پڑھائیں،لیکن سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ نے انہیں کھینچ لیا اور فرمایا:گھر والا نماز پڑھانے کا زیادہ مستحق ہے۔پھر انہوں نے سیدناابو مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا :کیا ایسے ہی ہے ؟انہوں نے فرمایا:ہاں!ابو سعید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی،حالانکہ میں اس وقت غلام تھا۔سیدنا ابو ذرّ رضی اللہ عنہ اورسیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھے حکم دیا کہ جب میں اپنی بیوی کے پاس جائوں تو دو رکعتیں ادا کروں اور اگر اس نے بھی پڑھنی ہوں، تو وہ بھی میرے پیچھے نماز پڑھ لے۔‘‘
(الأوسط لابن المنذر : 156/4، وسندہٗ صحیحٌ؛ مصنّف ابن أبي شیبۃ : 217/2 مختصرًا)
تین مردوں کی جماعت :
اگر دو مقتدی ہوں تو امام ان کے آگے کھڑا ہو گا،جیسا کہ :
n سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ثُمَّ جِئْتُ حَتّٰی قُمْتُ عَنْ یَّسَارِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ بِیَدِي، فَأَدَارَنِي حَتّٰی أَقَامَنِي عَنْ یَّمِینِہٖ، ثُمَّ جَائَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَائَ فَقَامَ عَنْ یَّسَارِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِیَدَیْنَا جَمِیعًا، فَدَفَعَنَا حَتّٰی أَقَامَنَا خَلْفَہٗ ۔
ــ(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے)۔میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے( نماز ہی میں)مجھے ہاتھ سے پکڑا اور پیچھے سے گھماتے ہوئے دائیں جانب کھڑا کر دیا۔اس کے بعد سیدنا جبار بن صخر رضی اللہ عنہ آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہو گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کو ہاتھوں سے پکڑ کر اپنے پیچھے کر دیا۔(صحیح مسلم : 3010)
n سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
صَلَّیْتُ أَنَا وَیَتِیمٌ فِي بَیْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأُمِّي أُمُّ سُلَیْمٍ خَلْفَنَا ۔
’’میں اور ایک لڑکے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں اپنے گھر میں نماز ادا کی۔ میری والدہ ام سلیم( رضی اللہ عنہا )ہمارے پیچھے (کھڑی نماز ادا کر رہی)تھیں۔‘‘
(صحیح البخاري : 727، صحیح مسلم : 658)
n سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں اپنی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کے بارے میں بیان کرتے ہیں :
فَقَامَ، فَصَفَفْنَا خَلْفَہٗ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِینَ سَلَّمَ ۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم (آگے)کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیرا۔‘‘
(صحیح البخاري : 840، صحیح مسلم : 33)
n حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)لکھتے ہیں :
وَأَجْمَعُوا إِذَا کَانُوا ثَلَاثَۃً أَنَّہُمْ یَقِفُونَ وَرَائَہٗ، وَأَمَّا الْوَاحِدُ؛ فَیَقِفُ عَنْ یَّمِینِ الْإِمَامِ عِنْدَ الْعُلَمَائِ کَافَّۃً، وَنَقَلَ جَمَاعَۃٌ الْإِجْمَاعَ فِیہِ ۔
’’اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب تین مرد نمازی ہوں گے تو دو امام کے پیچھے کھڑے ہوں گے،لیکن اگر مقتدی ایک ہو گا تو وہ تمام علماے کرام کے نزدیک امام کی دائیں جانب ہی کھڑا ہو گا۔اس مسئلہ میں اہل علم کی ایک جماعت نے اجماع نقل کیا ہے۔‘‘(شرح صحیح مسلم : 16/5)
تنبیہ :
علقمہ اور اسود تابعی بیان کرتے ہیں :
إِنَّہُمَا دَخَلَا عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ، فَقَالَ : أَصَلّٰی مَنْ خَلْفَکُمْ؟ قَالَ : نَعَمْ، فَقَامَ بَیْنَہُمَا، وَجَعَلَ أَحَدَہُمَا عَنْ یَّمِینِہٖ وَالْآخَرَ عَنْ شِمَالِہٖ ۔
’’وہ دونوں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کیا تمہارے پیچھے والوں نے نماز پڑھ لی ہے؟عرض کیا : جی ہاں۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان دونوں کے درمیان میں کھڑے ہو گئے اور ایک کو دائیں جانب اور دوسرے کو بائیں جانب کھڑا کر لیا۔‘‘(صحیح مسلم : 534)
دراصل سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طریقے کے مطابق ایسا کرتے تھے، جو انہوں نے دیکھا تھا۔اسود رحمہ اللہ ہی بیان کرتے ہیں :
ثُمَّ قَامَ فَصَلّٰی بَیْنِي وَبَیْنَہٗ، ثُمَّ قَالَ : ہٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَلَ ۔
’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے میرے اور علقمہ کے درمیان میں کھڑے ہوکر نماز پڑھائی۔ پھر فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : 613، سنن النسائي : 800، وسندہٗ حسنٌ)
لیکن یہ حدیث منسوخ ہو گئی تھی،ناسخ احادیث ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں،لیکن سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس کا نسخ معلوم نہ ہوسکا۔یہی وجہ ہے کہ امت کا اجماع ناسخ احادیث پر عمل کی صورت میں ہوا۔
مقتدی کب کھڑے ہوں؟
مقتدی کب کھڑے ہوں؟اس مسئلہ میں وسعت ہے، امام کے آنے کا یقین ہو تو پہلے بھی کھڑا ہوا جاسکتا ہے۔اسی طرح اقامت کے شروع میں، قد قامت الصلاۃ کے الفاظ سن کر اور اقامت مکمل ہونے کے بعد بھی کھڑا ہونا درست ہے،جیسا کہ :
n سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’إِذَا أُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ؛ فَلاَ تَقُومُوا حَتّٰی تَرَوْنِي‘ ۔
’’جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو جب تک مجھے نہ دیکھو،کھڑے نہ ہوجاؤ۔‘‘
(صحیح البخاري : 637، صحیح مسلم : 604)
n سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کَانَ بِلَالٌ یُّؤَذِّنُ إِذَا دَحَضَتْ، فَلَا یُقِیمُ حَتّٰی یَخْرُجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا خَرَجَ؛ أَقَامَ الصَّلَاۃَ حِینَ یَرَاہُ ۔
’’سیدنا بلال رضی اللہ عنہ (ظہر کی)اذان اس وقت کہتے جب سورج (سر سے)ڈھل جاتا۔جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لاتے،سیدنا بلال اقامت نہ کہتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلتے،تو آپ کو دیکھتے ہی بلال رضی اللہ عنہ اقامت کہہ دیتے۔‘‘
(صحیح مسلم : 606)
سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے انتظار میں رہتے تھے۔جوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمودار ہوتے،آپ کو دیکھتے ہی اقامت کہہ دیتے۔جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتے،وہ بھی کھڑے ہو جاتے،یوں دونوں حدیثوں میں جمع و تطبیق ہو جاتی ہے۔
n سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ الصَّلَاۃَ کَانَتْ تُّقَامُ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَیَأْخُذُ النَّاسُ مَصَافَّہُمْ، قَبْلَ أَنَّ یَّقُومَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَقَامَہٗ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز کی اقامت کہہ دی جاتی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی جگہ پر کھڑے ہونے سے پہلے ہی لوگ صفوں میں اپنی جگہوں پر کھڑے ہو جاتے۔‘‘
(صحیح البخاري : 639، صحیح مسلم : 605، واللّفظ لہٗ)
ایسا تو بیانِ جواز یا عذر کی بنا پر کبھی کبھار ہوجاتا ہو گا،جیسا کہ :
b شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فَیُجْمَعُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ حَدِیث أَبِي قَتَادَۃَ بِأَنَّ ذٰلِکَ رُبَّمَا وَقَعَ لِبَیَانِ الْجَوَاز ۔
’’اس حدیث اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ ایسا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھار بیانِ جواز کے لیے کیا۔‘‘
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 120/2)
مردوں اورعورتوں کی بہتر صفیں :
n سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’خَیْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُہَا، وَشَرُّہَا آخِرُہَا، وَخَیْرُ صُفُوفِ النِّسَائِ آخِرُہَا، وَشَرُّہَا أَوَّلُہَا‘ ۔
’’مردوں کی سب سے بہترصف پہلی اور کم ترین صف آخری ہوتی ہے، جب کہ عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری اور سب سے کم تر پہلی ہوتی ہے۔‘‘
(صحیح مسلم : 440)
جب عورت امام ہو تو عورتوں کی پہلی صف ہی افضل ہو گی۔
عورتوں کی صف کہاں ہو؟
عورتوں کی صف مردوں کے پیچھے ہو گی۔اگر بچے بھی ہوں تو پہلے مردوں کی،پھر بچوں کی اور ان کے پیچھے عورتوں کی صف ہو گی۔
n سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کی امامت کرائی تو فرمانے لگے:
أَلَا أُصَلِّي لَکُمْ صَلَاۃَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَصَفَّ الرِّجَالُ، ثُمَّ صَفَّ الْوِلْدَانُ خَلْفَ الرِّجَالِ، ثُمَّ صَفَّ النِّسَائُ خَلْفَ الْوِلْدَانِ ۔
’’کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟وہاں مردوں نے صف بنائی، پھر مردوں کے پیچھے بچوں نے اور بچوں کے پیچھے عورتوں نے صف بنائی۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 343/5، سنن أبي داوٗد : 677، وسندہٗ حسنٌ)
حافظ ابن ملقن(تحفۃ المحتاجـ:۵۴۸)نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
نماز جنازہ کی صفیں :
فرض نماز کی طرح نماز جنازہ میں بھی صفوں کا اہتمام ضروری ہے۔نماز جناز ہ میں طاق یا جفت صفیں بنائی جا سکتی ہیں،جیسا کہ :
n سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلّٰی عَلَی النَّجَاشِيِّ، فَکُنْتُ فِي الصَّفِّ الثَّانِي أَوِ الثَّالِثِ ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی رحمہ اللہ کی نماز جنازہ ادا کی۔میں دوسری یا تیسری صف میں تھا۔‘‘(صحیح البخاري : 1317، صحیح مسلم : 952)
اس حدیث پر سیدالفقہا،امام بخاری رحمہ اللہ بایں الفاظ باب قائم کیا ہے:
بَابُ مَنْ صَفَّ صَفَّیْنِ أَوْ ثَلاَثَۃً عَلَی الجِنَازَۃِ خَلْفَ الْإِمَامِ ۔
’’اس شخص کا بیان جس نے نماز ِجنازہ میں امام کے پیچھے دو یا تین صفیں بنائیں۔‘‘
کم از کم تین صفیں بنانا باعث اجر و ثواب اور افضل و بہتر ہے،جیسا کہ :
n سیدنا مالک بن ہبیرہ سکونی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے:
’وَکَانَ إِذَا أُتِيَ بِالْجِنَازَۃِ لِیُصَلِّيَ عَلَیْہَا ۔۔۔، فَتَقَالَّ أَہْلَہَا؛ جَزَّأَہُمْ ثَلَاثَۃَ صُفُوفٍ، ثُمَّ یُصَلِّي عَلَیْہَا، وَیَقُولُ : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ’مَا صُفَّ صُفُوفٌ ثَلَاثَۃٌ مِّنَ الْمُسْلِمِینَ عَلٰی جِنَازَۃٍ؛ إِلَّا وَجَبَتْ‘ ۔
(مسند الإمام أحمد : 79/4؛ سنن أبي داوٗد : 3166؛ سنن الترمذي : 1049؛ سنن ابن ماجہ : 1490؛ مسند الرؤیاني : 1537، واللفظ لہٗ، وسندہٗ حسنٌ)
محمد بن اسحاق بن یسار نے مسند رؤیانی میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ اور حافظ نووی رحمہ اللہ (الجموع شرح المہذّب : ۵/۲۱۲)نے اس حدیث کو ’’حسن‘‘ اور امام حاکم رحمہ اللہ (۱/۳۶۱)نے ’’امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر ’’صحیح‘‘کہا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
b شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قَالَ الطَّبَرِيُّ : یَنْبَغِي لِأَہْلِ الْمَیِّت إِذَا لَمْ یَخْشَوْا عَلَیْہِ التَّغَیُّرَ أَنْ یَّنْتَظِرُوا بِہِ اجْتِمَاعَ قَوْمٍ یَّقُومُ مِنْہُمْ ثَلَاثَۃُ صُفُوفٍ لِّہٰذَا الْحَدِیث ۔
’’طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میت کے گھروالوں کو چاہیے کہ اگر انہیں میت کے تعفن زدہ ہونے کا خطرہ نہ ہو تو وہ اس حدیث کی وجہ سے اتنے لوگوں کے جمع ہونے کا انتظار کریں،جن سے تین صفیں بن جائیں۔
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 187/3)
جس قدر اہل علم،اہل تقویٰ اور صالحین زیادہ ہوں گے،خلوص کے ساتھ دُعا کریں گے، اس قدر میت کو فائدہ اور اجر و ثواب بھی زیادہ ہو گا۔
قبرپر نماز جنازہ ادا کرتے وقت بھی اسی مسئلہ کو پیش نظر رکھا جائے گا،کیوں کہ حاضر میت اور قبر پر نماز جنازہ کا ایک ہی حکم ہے۔
فائدہ :
امام عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ سے ایک قول(مصنف عبد الرزاق : 6587)منقول ہے کہ نماز ِجنازہ میں صفوں کا اہتمام ضروری نہیں،لیکن یہ قول امام عبد الرزاق رحمہ اللہ کی ’’تدلیس‘‘کی بنا پر ’’ضعیف‘‘ہے۔
نماز جنازہ میں صرف دو مرد ہوں تو!
اگر نماز ِجنازہ میں صرف دو مرد ہوں تو امام آگے اور متقدی اکیلا پیچھے کھڑا ہو گا،جیسا کہ :
n عبداللہ بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ أَبَا طَلْحَۃَ دَعَا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی عُمَیْرِ بْنِ أَبِي طَلْحَۃَ حِینَ تُوُفِّيَ، فَأَتَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَصَلّٰی عَلَیْہِ فِي مَنْزِلِہِمْ، فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَانَ أَبُو طَلْحَۃَ وَرَائَہٗ، وَأُمُّ سُلَیْمٍ وَّرَائَ أَبِي طَلْحَۃَ، وَلَمْ یَکُنْ مَّعَہُمْ غَیْرُہُمْ ۔
’’جب ابوطلحہ کے بیٹے عمیر فوت ہوئے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کے گھر میں عمیر کی نماز ِجنازہ پڑھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے ہوئے،ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے اور امِ سلیم رضی اللہ عنہا اپنے خاوند ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے کھڑی ہوئیں۔وہاں ان کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔‘‘
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 508/1، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 365/1، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام حاکم نے ’’صحیح بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح‘‘کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
اس کا راوی عمارہ بن غزیہ مدنی جمہور محدثین کے نزدیک مطلقاً’’ثقہ‘‘ ہے۔
امام کہاں کھڑا ہو؟
امام کا صف کے آگے درمیان میں کھڑا ہونا مستحب ہے،جیسا کہ :
n حجیرہ بنت حصین بیان کرتی ہیں:
أَمَّتْنَا أُمُّ سَلَمَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہا فِي الْعَصْرِ، فَقَامَتْ بَیْنَنَا ۔
’’نماز عصر میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہماری امامت کی۔وہ ہمارے درمیان میں کھڑی ہوئیں۔‘‘
(المطالب العالیۃ بزوائد المسانید الثمانیۃ لابن حجر : 427، وسندہٗ صحیحٌ)
اگر عورت عورتوں کی امامت کرا رہی ہو، وہ صف کے بیچ درمیان میں کھڑی ہو گی اور اگر مرد امام ہو تو وہ صف کے آگے درمیان میں کھڑا ہو گا۔
تنبیہ:
سنن ابو دائود(۶۸۱)میں مرفوع روایت ہے:
’وَسِّطُوا الْإِمَامَ‘ ۔
’’امام کو درمیان میں کرو۔‘‘
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیوں کہ یحییٰ بن بشیر بن خلاد راوی مستور ہے۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : ۷۵۱۵)
اس روایت کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قَالَ ابْنُ الْقَطَّانِ : یُجْہَلُ حَالُہٗ وَحَالُ أَبِیہِ، (ھٰذَا خَطَأٌ، وَالصَّوَابُ وَحَالُ أُمِّہٖ)، وَقَالَ عَبْدُ الْحَقِّ : لَیْسَ ہٰذَا الْإِسْنَادُ بِقَوِيٍّ .
’’ابن قطان رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس راوی کا اور اس کے والد(والد کا ذکر غلطی ہے،درست یہ ہے کہ اس کی والدہ)کے حالات معلوم نہیں۔عبد الحق رحمہ اللہ کہتے ہیں : یہ سند قوی نہیں۔‘‘(میزان الاعتدال في نقد الرجال : 367/4)
یعنی اس کی ماں امۃ الواحد بنت یامین بن عبدالرحمن بھی ’’مجہولہ‘‘ ہے۔
امام کے پیچھے کون کھڑے ہوں؟
پہلی صف میں امام کے بالکل پیچھے اہل علم،اہل تقویٰ، اہل صلاح اور بالغ و عاقل کھڑے ہوں،تاکہ امام کو غلطی پر متنبہ کر سکیں،نیز اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے یا کوئی اور مسئلہ پیش آجائے تو امام کی نیابت کر سکیں۔مگر افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں کرتا۔ ہمارے ہاںجاہل،ڈاڑھی مونڈھوانے اور کتروانے والے، فاسق و فاجر امام کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔
b علامہ خطابی رحمہ اللہ (م:۲۸۸ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّمَا أَمَرَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّلِیَہٗ ذَوُو الْـأَحْلَامِ وَالنُّہٰی لِیَعْقِلُوا عَنْہُ صَلاَتَہٗ، وَلِکَیْ یُخْلِفُوہُ فِي الْإِمَامَۃِ إِنْ حَدَثَ بِہٖ حَدَثٌ فِي صَلَاتِہٖ، وَلْیَرْجِعْ إِلٰی قَوْلِہِمْ إِنْ أَصَابَہٗ سَہْوٌ، أَوْ عَرَضَ فِي صَلَاتِہٖ عَارِضٌ فِي نَحْوِ ذٰلِکَ مِنَ الْـأُمُورِ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ امام کے قریب دانش و خرد والے لوگ کھڑے ہوں تاکہ وہ امام کی نماز کو سمجھ سکیں،نیز اگر امام کو نماز میں کوئی مسئلہ پیش آ جاتا ہے تو وہ اس کی نیابت کر سکیں۔اسی طرح اگر امام کو غلطی لگے تو وہ ان کی تنبیہ سے اپنی اصلاح کر سکے،یا اس طرح کا کوئی اور معاملہ پیش آ جائے،تو وہ سنبھال سکیں۔‘‘
(معالم السنن : 184/1)
صف کے آداب :
صف کے آداب میں سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ پہلی صفوں کو مکمل کیے بغیر اگلی صف نہ بنائی جائے۔پہلی صفوں میں خالی جگہ نہیں ہونی چاہیے،بل کہ کمی آخری صف میں ہونی چاہئے، جیسا کہ :
n سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أَتِمُّوا الصَّفَّ الْـأَوَّلَ وَالثَّانِيَ، فَإِنْ کَانَ خَلَلٌ؛ فَلْیَکُنْ فِي الثَّالِثِ‘ ۔
’’پہلی اور دوسری صفوں کو مکمل کرو۔اگر کوئی خالی جگہ ہو تو وہ تیسری صف میں ہونی چاہیے۔‘‘(صحیح ابن خزیمۃ : 1547، وسندہٗ صحیحٌ)
یعنی اگر ایک سے زائد صفیں ہوں تو پہلی تمام صفیں بالکل مکمل ہونی چاہئیں،آخری صف امام کے پیچھے سے شروع کی جائے اور دونوں طرف لوگ شامل ہوتے جائیں، اس آخری صف میں کوئی جگہ باقی رہتی ہے تو اس میں بعد والے لوگ شامل ہوتے رہیں۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق صفوں کی درستی کی توفیق عطا فرمائے۔nnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.