734

صف سے پیچھے اکیلے نماز، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

اگر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جا رہی ہو توصف کے پیچھے اکیلے مرد کی کوئی بھی نماز کسی بھی صورت میں نہیں ہوتی۔دلائل ملاحظہ فرمائیں :
دلیل نمبر 1 : سیدنا وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
‘إِنَّ رَجُلًا صَلّٰی خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہ،، فَأَمَرہ، أَنْ یُّعِیدَ الصَّلَاۃَ’
”ایک آدمی نے اکیلے صف کے پیچھے نماز ادا کی تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم فرمایا۔”(جامع الترمذي : 230، سنن أبي داو،د : 682، سنن ابن ماجہ : 1004، مسند الإمام أحمد : 4/228، مسند الدارمي : 2/815، ح : 1322، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن” جبکہ امام ابن جارود(319)اور امام ابن حبان(الموارد : 405)H نے ”صحیح” کہا ہے۔
امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَقَدْ ثَبَّتَ ہٰذَا الْحَدِیثَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ . ”اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہHنے صحیح قرار دیا ہے۔”(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر : 4/184)
دلیل نمبر 2 : سیدنا علی بن شیبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
صَلَّیْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَانْصَرَفَ، فَرَاٰی رَجُلًا یُّصَلِّي فَرْدًا خَلْفَ الصَّفِّ، فَوَقَفَ نَبِيُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی انْصَرَفَ الرَّجُلُ مِنْ صَلَاتِہِ، فَقَالَ لَہ، : ‘اسْتَقْبِلْ صَلَاتَکَ، فَلَا صَلَاۃَ لِفَرْدٍ خَلْفَ الصَّفِّ . ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نماز سے فارغ ہونے تک اس کے پاس کھڑے ہو گئے۔ پھر(جب اس نے سلام پھیرا تو)اس سے فرمایا : اپنی نماز نئے سرے سے پڑھو ، کیونکہ صف کے پیچھے کسی بھی اکیلے شخص کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔”
(مسند الإمام أحمد : 4/23، ح : 24293، سنن ابن ماجہ : 1003، وسندہ، حسنٌ)
امام اثرم، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں : ہُوَ حَدِیثٌ حَسَنٌ .
”یہ حدیث حسن ہے۔” (التلخیص الحبیر : 2/37)
امام ابن خزیمہ(1569)اور امام ابن حبان(2206)Hنے اس حدیث کو ”صحیح” کہا ہے جبکہ حافظ نووی رحمہ اللہ (خلاصۃ الاحکام: 2517)نے اس کی سند کو ”حسن” قرار دیاہے۔
بوصیری لکھتے ہیں : إِسْنَادُہ، صَحِیحٌ، رِجَالُہ، ثِقَاتٌ .
”اس کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔”
(مصباح الزجاجۃ في زوائد ابن ماجہ للبوصیري : 1/122)
صف کے پیچھے اکیلے شص کی نماز ائمہ دین کی نظر میں
1 امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ ،امام ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ (م : 196ھ)سے نقل کرتے ہیں : یَدْخُلُ فِي الصَّفِّ، أَوْ یُخْرِجُ إِلَیْہِ رَجُلًا مِّنَ الصَّفِّ، فَیَقُومُ مَعَہ، .
”وہ(صف کے پیچھے اکیلا رہنے والااگر جگہ ہو تو)صف میں داخل ہو جائے ورنہ صف سے ایک آدمی کو نکال لے اور(پچھلی صف میں)اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔”
(مسند علي بن الجعد : 112، وسندہ، صحیحٌ)
2 حماد بن ابی سلیمان تابعی(م : 120ھ)کہتے ہیں : یُعِیدُ الصَّلَاۃَ .
”ایسا شخص نماز دوبارہ پڑھے۔”(أیضًا : 113، وسندہ، صحیحٌ)
3،4 امام احمد بن حنبل(م : 241ھ)اور امام اسحاق بن راہویہ(م : 238ھ)H کا مذہب بھی یہی ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز نہیں ہوتی بلکہ اسے نماز دوبارہ پڑھنی پڑے گی۔”(جامع الترمذي، تحت الحدیث : 230، وسندہ، صحیحٌ)
5 امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ (م : 197ھ)فرماتے ہیں :
إِذَا صَلَّی الرَّجُلُ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہ،، فَإِنَّہ، یُعِیدُ .
”جب کوئی آدمی صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے تو وہ نماز نئے سرے سے پڑھے۔”
(أیضًا، تحت الحدیث : 231، وسندہ، صحیحٌ)
6 امام ابن منذر رحمہ اللہ (م : 218ھ)فرماتے ہیں : صَلَاۃُ الْفَرْدِ خَلْفَ الصَّفِّ بَاطِلٌ، لِثُبُوتِ خَبَرِ وَابِصَۃَ وَخَبَرِ عَلِيِّ بْنِ الْجَعْدِ بْنِ شَیْبَانَ .
”صف کے پیچھے اکیلے کی نماز فاسد ہے کیونکہ اس بارے میں سیدنا وابصہ اور سیدنا علی بن جعد بن شیبان کی بیان کردہ احادیث پایہئ صحت کو پہنچ چکی ہیں۔”
(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر : 4/184)
7 امام ابو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی رحمہ اللہ (255-181ھ)سیدنا وابصہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: أَقُولُ بِہٖ .
”میں اسی کے مطابق فتویٰ دیتا ہوں۔”(مسند الدارمي : 2/816، ح : 1323)
8 امام ابن حزم رحمہ اللہ (م : 456ھ)اس بارے بحث کے بعد فرماتے ہیں :
فَبَطَلَ أَنْ یَّکُونَ لِمَنْ أَجَازَ صَلَاۃَ الْمُنْفَرِدِ خَلْفَ الصَّفِّ، وَصَلَاۃَ مَنْ لَّمْ یُقِمِ الصُّفُوفَ، حُجَّۃٌ أَصْلًا، لَا مِنْ قُرْآنٍ وَّلَا مِنْ سُنَّۃٍ وَّلَا إِجْمَاعٍ، وَبِقَوْلِنَا یَقُولُ السَّلَفُ الطَّیِّبُ . ”اس بحث سے ثابت ہو گیا ہے کہ جو شخص صف کے پیچھے اکیلے آدمی اور صف کو قائم نہ رکھنے والے کی نماز کو درست قرار دیتا ہے ، اس کے پاس قرآن و سنت اور اجماع سے بالکل کوئی بھی دلیل نہیں۔”
(المحلّٰی لابن حزم : 4/58، رقم المسئلۃ : 415)
9 امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ (م : 311ھ)اس حدیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
بَابُ الزَّجْرِ عَنْ صَلَاۃِ الْمَأْمُومِ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہ، .
”صف کے پیچھے اکیلے آدمی کو نماز پڑھنے سے منع کرنے کا بیان۔”
نیز فرماتے ہیں : إِنَّ صَلَاتَہ، خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہ، غَیْرُ جَائِزَۃٍ، یَجِبُ عَلَیْہِ اسْتِقْبَالُہَا . ”یقینا صف کے پیچھے اکیلے آدمی کے لیے نماز پڑھنا جائز نہیں بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ اسے دوبارہ ادا کرے۔”(صحیح ابن خزیمۃ : 3/30)
مجوزین کے مزعومہ دلائل کا منصفانہ تجزیہ
مذکورہ دلائل کے برعکس بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہو جاتی ہے لیکن جیسا کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کاکلام پیش کیا جا چکا ہے ،کتاب و سنت یا اجماعِ امت میں سے کوئی بھی دلیل ان کا ساتھ نہیںدیتی۔ اپنے باطل مذہب کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل وہ پیش کرتے ہیں ، ان کا منصفانہ تجزیہ پیش خدمت ہے :
دلیل نمبر 1 : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
صَلَّیْتُ أَنَا وَیَتِیمٌ فِي بَیْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأُمِّي أُمُّ سُلَیْمٍ خَلْفَنَا . ”میں اور ایک لڑکے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں اپنے گھر میں نماز ادا کی۔ میری والدہ ام سلیم( رضی اللہ عنہا )ہمارے پیچھے (کھڑی نماز ادا کر رہی)تھیں۔”
(صحیح البخاري : 727، صحیح مسلم : 658)
تجزیہ : اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ اجازت عورت کے ساتھ خاص ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب ملاحظہ ہو، وہ فرماتے ہیں : بَابٌ : الْمَرْأَۃُ وَحْدَہَا تَکُونُ صَفًّا . ”اس بات کا بیان کہ عورت اکیلی بھی ہو تو صف شمار ہوتی ہے۔”
اگر مرد بھی اکیلا صف شمار ہو سکتا ہے تو اس تبویب کا کیا مطلب ہوا؟نیز مرد و عورت دونوں پر نماز باجماعت کے لیے امام کے پیچھے صف بنانا ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘سَوُّوا صُفُوفَکُمْ، فَإِنَّ تَسْوِیَۃَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ’
”صفوں کو درست کرو کیونکہ صفوں کی درستی نماز کے قیام کا حصہ ہے۔”
(صحیح البخاري : 723، صحیح مسلم : 433)
اب اکیلی عورت کا صف ہونا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح فرمان کی وجہ سے جائز ہو گیا جبکہ اکیلے مرد کی صف نہ ہونے پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین واضح ہیں۔ لہٰذا اکیلے مرد کی صف کے جواز پر کوئی دلیل نہیں۔یوں اس حدیث سے مرد کے لیے اجازت ثابت نہیں ہوتی۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں : فَقَالُوا : إِذَا جَازَ لِلْمَرْأَۃِ أَنْ تَقُومَ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہَا، جَازَ صَلَاۃُ الْمُصَلِّي خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہ،، وَہٰذَا الِاحْتِجَاجُ عِنْدِي غَلَطٌ، لِأَنَّ سُنَّۃَ الْمَرْأَۃِ أَنْ تَقُومَ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَہَا إِذَا لَمْ تَکُنْ مَّعَہَا امْرَأَۃٌ أُخْرٰی، وَغَیْرُ جَائِزٍ لَّہَا أَنْ تَقُومَ بِحِذَاءِ الْإِمَامِ وَلَا فِي الصَّفِّ مَعَ الرِّجَالِ، وَالْمَأْمُومُ مِنَ الرِّجَالِ إِنْ کَانَ وَاحِدًا، فَسُنَّتُہُ أَنْ یَّقُومَ عَنْ یَّمِینِ إِمَامِہٖ، وَإِنْ کَانُوا جَمَاعَۃً قَامُوا فِي صَفٍّ خَلْفَ الْإِمَامِ حَتّٰی یَکْمُلَ الصَّفُّ الْـأَوَّلُ، وَلَمْ یَجُزْ لِلرَّجُلِ أَنْ یَقُومَ خَلْفَ الْإِمَامِ وَالْمَأْمُومُ وَاحِدٌ، وَلَا خِلَافَ بَیْنَ أَہْلِ الْعِلْمِ أَنَّ ہٰذَا الْفِعْلَ لَوْ فَعَلَہُ فَاعِلٌ، فَقَامَ خَلْفَ إِمَامٍ، وَمَأْمُومٌ قَدْ قَامَ عَنْ یَّمِینِہٖ، خِلَافُ سُنَّۃِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا والی روایت کو اپنی دلیل بنانے والوں کو کہنا ہے کہ جب عورت کے لیے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونا جائز ہے تو مرد کے لیے بھی ایسا جائز ہے۔ لیکن یہ بات میرے نزدیک غلط ہے کیونکہ عورت کے لیے طریقہ کار یہ ہے کہ جب وہ اکیلی ہو تو صف کے پیچھے کھڑی ہو ، اس کا امام کے برابر کھڑا ہونا ممنوع ہے، اسی طرح وہ مَردوں کی صف میں بھی کھڑی نہیں ہو سکتی ، جبکہ مرد مقتدی جب اکیلا ہو تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو گا اور اگر مقتدی ایک سے زیادہ ہوں تو امام کے پیچھے صف میں کھڑے ہوں گے، حتی کہ پہلی صف مکمل ہو جائے۔ اکیلا مقتدی ہو تو اس کے لیے امام کے پیچھے کھڑا ہونا جائز نہیں۔ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر امام کے دائیں جانب مقتدی کھڑا ہو تو بعد میں آنے والے کا پچھلی صف میں اکیلے کھڑا ہونا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔”
(صحیح ابن خزیمۃ : 3/ 30)
امام ابن حزم رحمہ اللہ (456-384ھ)اس بارے میں فرماتے ہیں :
وَہٰذَا لَا حُجَّۃَ لَہُمْ فِیہِ، لِأَنَّ ہٰذَا حُکْمَ النِّسَاءِ خَلْفَ الرِّجَالِ، وَإِلَّا فَعَلَیْہِنَّ مِنْ إقَامَۃِ الصُّفُوفِ إذَا کَثُرْنَ مَا عَلَی الرِّجَالِ لِعُمُومِ الْـأَمْرِ بِذٰلِکَ، وَلَا یَجُوزُ أَنْ یُتْرَکَ حَدِیثُ مُصَلَّی الْمَرْأَۃِ الْمَذْکُورَۃِ لِحَدِیثِ وَابِصَۃَ، وَلَا حَدِیثُ وَابِصَۃَ لِحَدِیثِ مُصَلَّی الْمَرْأَۃِ . ”اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ اس میں تو مَردوں کے پیچھے(اکیلی)عورتوں کا خاص حکم بیان ہوا ہے، ورنہ جب وہ زیادہ ہوں تو عام حکم کی بنا پر ان کے لیے بھی صفوں کا قیام فرض ہو گا۔ یہ کسی طرح بھی جائز نہیں کہ عورت کی نماز کے بارے میں مذکورہ حدیث کی وجہ سے سیدنا وابصہ کی حدیث کو چھوڑ دیا جائے یا حدیث ِ وابصہ کی بنا پر عورت کی نماز والی حدیث کو چھوڑ دیا جائے۔”(المحلّٰی لابن حزم : 4/57)
معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
دلیل نمبر 2 : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
فَقَامَ یُصَلِّي مِنَ اللَّیْلِ، فَقُمْتُ عَنْ یَّسَارِہٖ، فَتَنَاوَلَنِي مِنْ خَلْفِ ظَہْرِہٖ، فَجَعَلَنِي عَلٰی یَمِینِہٖ . ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوئے، میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوا تو آپ نے مجھے میرے پیچھے سے پکڑا اور اپنی دائیں جانب کر دیا۔”(صحیح البخاري : 726، صحیح مسلم : 763)
اسی طرح سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ منقول ہے۔(صحیح مسلم : 3010)
محل استشہاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دونوں صحابہ کو پکڑ کر اپنے پیچھے سے دائیں جانب لانا ہے اور وجہئ استشہاد یہ ہے کہ جب دونوں صحابہ کو پیچھے لایا گیا تو وہ ”خلف الصف” یعنی صف کے پیچھے ہو گئے تھے۔ ان کی نماز ایسا کرنے سے باطل نہیں ہوئی ، لہٰذا صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز جائز ہے۔
تجزیہ : اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مَرد کی نماز کے جائز ہونے کا استدلال درست نہیں کیونکہ سیدنا ابن عباس اور سیدنا جابرy نے صف کے پیچھے نماز نہیں پڑھی بلکہ صرف ایک مجبوری کی بنا پر جگہ تبدیل کی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان دونوں صحابہ نے صف کے پیچھے سے اپنی جگہ تبدیل کرتے ہوئے نماز کا کچھ حصہ ادا کیا تھا تو بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک مَرد اپنی پوری نماز ہی صف کے پیچھے اکیلا ادا کر لے بلکہ زیادہ سے زیادہ مجبوری کی بنا پر جگہ تبدیل کرتے ہوئے ایسا کرنا جائز ہو گا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صف کے پیچھے اکیلے مَرد کی نماز کو عمومی طور پر کالعدم قرار دیا ہے ، اس سے یہ جگہ تبدیل کرنے کی مجبوری والی صورت خاص دلیل کی بنا پر خارج ہو جائے گی۔صف میں نماز پڑھنے والے شخص کو صف تبدیل کرتے ہوئے اپنی صف کے پیچھے ہونے والی نماز دہرانی نہیں پڑے گی جبکہ باہر سے آکر جماعت کے ساتھ ملنے والا شخص اگر صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے گا تو اسے ہماری ذکر کردہ پہلی دلیل کی بنا پر نماز دہرانی پڑے گی کیونکہ فرمانِ رسول یہی ہے۔یوں سب احادیث پر عمل ہو جائے گا۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَہٰذَا لَا حُجَّۃَ فِیہِ لَہُمْ، لِمَا ذَکَرْنَا مِنْ أَنَّہ، لَا یَحِلُّ ضَرْبُ السُّنَنِ بَعْضِہَا بِبَعْضٍ، وَہٰذَا تَلَاعُبٌ بِالدِّینِ، وَلَیْتَ شِعْرِي مَا الْفَرْقُ بَیْنَ مَنْ تَرَکَ حَدِیثَ جَابِرٍ وَّابْنِ عَبَّاسٍ لِحَدِیثِ وَابِصَۃَ وَعَلِيِّ بْنِ شَیْبَانَ، وَبَیْنَ مَنْ تَرَکَ حَدِیثَ وَابِصَۃَ وَعَلِيٍّ لِّحَدِیثِ جَابِرٍ وَّابْنِ عَبَّاسٍ، وَہَلْ ہٰذَا کُلُّہُ إلَّا بَاطِلٌ بَحْتٌ، وَتَحَکُّمٌ بِلَا بُرْہَانٍ، بَلِ الْحَقُّ فِي ذٰلِکَ الْـأَخْذُ بِکُلِّ ذٰلِکَ، فَکُلُّہ، حَقٌّ، وَلَا یَحِلُّ خِلَافُہ، .
”اس حدیث میں ان کے لیے کے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ احادیث کی ایک دوسرے سے ٹکر دینا جائز ہیں۔ یہ تو دین کے ساتھ مذاق اور تمسخر ہے۔ وابصہ اور علی بن شیبان رضی اللہ عنہما کی روایت کو بنیاد بنا کر جابر اور ابن عباسyکی روایت کو چھوڑ دینے والے اور جابر و ابن عباسyکی روایت کو بنیاد بنا کر وابصہ و علی بن شیبان رضی اللہ عنہما کی روایت کو چھوڑ دینے والے اس کام میں برابر ہیں۔ یہ سب صورتیں بالکل باطل ہیں اور بلا دلیل فتوے ہیں۔اس سلسلے میں حق یہ ہے کہ ساری احادیث پر عمل کیا جائے ، یہ ساری حق ہیں ، ان کی مخالفت جائز نہیں۔”(المحلّٰی لابن حزم : 4/57)
نیز لکھتے ہیں : وَمَا سُمِّيَ قَطُّ الْمُدَارُ عَنْ شِمَالٍ إِلٰی یَمِینٍ مُصَلِّیًا وَّحْدَہ، خَلْفَ الصَّفِّ . ”بائیں سے دائیں جانب گھمائے جانے والے شخص کو کبھی بھی صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کا نام نہیں دیا گیا۔”(أیضًا)
دلیل نمبر 3 : سیدنا ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّہُ انْتَہٰی إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ رَاکِعٌ، فَرَکَعَ قَبْلَ أَنْ یَصِلَ إِلَی الصَّفِّ، فَذَکَرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : زَادَکَ اللّٰہُ حِرْصًا وَلاَ تَعُدْ . ”وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ رکوع کی حالت میں تھے۔ انہوں نے صف کے ساتھ ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا(پھر چلتے چلتے صف میں مل گئے)، پھر اس بات کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا : اللہ تمہاری کی حرص کو مزید بڑھائے لیکن آئندہ ایسا مت کرنا۔”(صحیح البخاري : 783)
تجزیہ : اس روایت سے بھی ویسا ہی باطل استدلال کیا گیا ہے جیسا کہ سابقہ روایت سے کیا گیا تھا۔فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ روایت کے ذریعے امام کی بائیں جانب سے دائیں جانب آنے والے شخص کو صف کے پیچھے نماز پڑھنے والا ثابت کرنے کی سعی کی گئی تھی اور اس روایت کے ذریعے رکوع کی حالت میں چل کر آنے والے شخص کو صف کے پیچھے نماز پڑھنے والا باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔حالانکہ بالکل واضح بات ہے کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع کی حالت میں دیکھ کر فوراً تعمیل کے جذبے کے تحت پچھلی صف سے ہی رکوع کی ہیئت میں منتقل ہو گئے اور پھر چل کر اگلی صف میں شامل ہو گئے، یعنی ان کا یہ چلنا صف میں شامل ہونے کے لیے تھا ، نہ کہ اکیلے نماز پڑھنے کے لیے۔
اگر اس بات کو تسلیم کر بھی لیا جائے کہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کی تھی تو پھر بھی اس سے دلیل نہیں لی جا سکتی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آئندہ کے لیے اس کام سے منع بھی فرما دیا تھا،یعنی اب بقولِ رسولِ امین صلی اللہ علیہ وسلم صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا ممنوع ہے۔
امام ابنِ حزم رحمہ اللہ کافتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں : وَہٰذَا الْخَبَرُ حُجَّۃٌ عَلَیْہِمْ لَنَا ……… فَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ الرُّکُوعَ دُونَ الصَّفِّ، ثُمَّ دُخُولُ الصَّفِّ کَذٰلِکَ لَا یَحِلُّ . ”یہ حدیث تو ان لوگوں کے خلاف ہماری ہی دلیل بنتی ہے۔۔۔۔۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ صف کے پیچھے رکوع کر کے صف میں شامل ہونا بھی جائز نہیں(چہ جائیکہ ایک دو رکعات یا پوری نماز ادا کرنا)۔”
(المحلّٰی لابن حزم : 4/58,57)
اب رہا یہ اعتراض کہ اگر یہ کام جائز نہ تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو وہ رکعت دوبارہ پڑھنے کا حکم کیوں نہیں دیا جس میں انہوں نے رکوع صف کے پیچھے ہی کر لیا تھا؟ تو معترض پہلے یہ ثابت کرے کہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے وہ رکعت اٹھ کر نہیں پڑھی تھی۔ عدمِ ذکر ، عدمِ وجود کی دلیل نہیں ہوتا۔ہماری ذکر کردہ پہلی دلیل میں صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نماز دوہرانے کا صریح حکم ثابت ہے۔ صریح کو چھوڑ کر مبہم کو دلیل بنانا انصاف نہیں۔
صحابہ و تابعین سے منسوب غیر ثابت اقوال
صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز کو جائز قرار دینے والے لوگ صحابہ و تابعین کی طرف منسوب بعض غیرثابت فتوے بھی ذکر کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں :
n سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : وہ نماز نہ دوہرائے۔(مصنف ابن أبي شیبۃ : 2/12)
لیکن اس روایت کی سند کئی وجہ سے سخت ”ضعیف” ہے :
1 ابو معاویہ محمد بن خازم ضریر راوی ”مدلس” ہے۔ سماع کی تصریح ثابت نہیں۔
2 جویبر بن سعید ازدی راوی سخت ”ضعیف” اور ”متروک” ہے۔
3 ضحاک بن مزاحم کا سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔
n امام حسن بصری تابعی رحمہ اللہ سے یہ فتویٰ منسوب ہے :
”ایسے شخص کی نماز ہو جائے گی۔”(مصنف ابن أبي شیبۃ : 2/193)
لیکن اس کی سند بھی سخت ”ضعیف” ہے کیونکہ :
1 حفص بن غیاث ”مدلس” ہے۔
2 اشعث بن سوار نامی راوی ”ضعیف” ہے۔
3 اگر عمرو سے مراد عمرو بن عبید ہے تو وہ ”متروک” راوی ہے۔
n امام حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں اسی طرح کی ایک اور راویت بھی ہے ۔
(أیضاً)
لیکن اس کی سند بھی یونس بن عبید کی تدلیس کی وجہ سے ”ضعیف” ہے۔
معلوم ہوا کہ صف کے پیچھے اکیلے مَرد کی نماز کے جائز ہونے کے بارے میں صحابہ و تابعین سے کچھ ثابت نہیں۔
رہی امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کی بات کہ ایسے شخص کی نماز ہو جاتی ہے تو ان کی دلیل وہی سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی روایت ہے جس کے مطابق ان کی والدہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کی تھی۔مجوزین کی پہلی دلیل چونکہ یہی تھی لہٰذا اس بارے میں مکمل بحث اسی کے ضمن میں ہو چکی ہے۔خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اس حدیث سے خاص عورت کے لیے صف کے پیچھے اکیلے نماز کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔ اس سے مَردوں کے لیے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے کا جواز نکالنا درست نہیں۔
اگر پہلی صف مکمل ہو تو؟
سیدنا وابصہ بن معبد اور سیدنا علی بن شیبان رضی اللہ عنہما کی حدیث بہت واضح ہے کہ صف کے پیچھے کسی بھی اکیلے نمازی کی کوئی بھی نماز نہیں ہوتی اور اگر کوئی ایسا کر لے تو اس کے لےے اپنی اس طرح پڑھی ہوئی نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔ بعض لوگ بغیر دلیل کے ان عام احادیث کو خاص کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر پہلی صف میں جگہ نہ ہو تو پھر صف کے پیچھے اکیلے کی نماز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ہی تو بعض لوگ سورہئ فاتحہ کے بغیر نماز قبول نہ ہونے والی عام حدیث سے مقتدی اور مدرک رکوع کو بغیر دلیل مستثنیٰ کر لیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ جب حدیث میں عموم ہے تو ایک خاص صورت کو بغیر دلیل کے مستثنیٰ نہیں کیا جا سکتا۔
صف کے پیچھے اکیلا آنے والا کیا کرے؟
اگر کوئی شخص نماز ِ باجماعت کے لیے مسجد میں آئے اور صف مکمل ہو چکی ہو ، صف کے پیچھے وہ اکیلا ہی ہو تو اس کے لیے دو صورتیں ہیں :
1 وہ اگلی صف سے ایک آدمی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملا لے۔ اس کی دلیل سیدنا جابر رضی اللہ عنہ والی یہ حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تھے۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ہی میں مجھے ہاتھ سے پکڑا اور پیچھے سے گھماتے ہوئے دائیں جانب کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد سیدنا جبار بن صخر رضی اللہ عنہ آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کو ہاتھوں سے پکڑ کر پچھلی صف میں کر دیا۔(صحیح مسلم : 3010)
ائمہ دین بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں جیسا کہ امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ ،امام ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ (م : 196ھ)سے نقل کرتے ہیں :
یَدْخُلُ فِي الصَّفِّ، أَوْ یُخْرِجُ إِلَیْہِ رَجُلًا مِّنَ الصَّفِّ، فَیَقُومُ مَعَہ، .
”وہ(صف کے پیچھے اکیلا رہنے والا اگر جگہ ہو تو اگلی)صف میں داخل ہو جائے، ورنہ صف سے ایک آدمی کو نکال لے اور(پچھلی صف میں)اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔”
(مسند علي بن الجعد : 112، وسندہ، صحیحٌ)
اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ پیچھے آنے والے اکیلے شخص کے لیے نئی صف بنانے کی خاطر اگلی صف سے آدمی کو پیچھے کیا جا سکتا ہے اور ایک صف بنانے کے لیے اتنی حرکت بھی جائز ہے۔ اگر کوئی شخص پہلی صف سے آدمی کھینچنے کے عمل کو صف توڑنا شمار کرے اور صف توڑنے کی وعیدیں اس پر منطبق کرتے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے کیونکہ کسی عذر کی بنا پر کسی شخص کا صف سے نکلنا صف توڑنے میں شمار نہیں ہوتا، مثلاً اگر کوئی شخص نماز میں بے وضو ہو جائے تو بھلا وہ صف سے نکل کر نہیں جائے گا؟ اگر جائے گا اور یقینا جائے گا تو کیا اس کا یہ عمل صف توڑنا شمار ہو گا؟ اور کیا اس طرح پہلی صف ناقص ہو جائے گی ؟ قطعاً نہیں۔ لہٰذا بعض لوگوں کا اس موقف کے خلاف یہ حدیث پیش کرنا درست نہیں کہ :
‘مَنْ وَّصَلَ صَفًّا، وَصَلَہُ اللّٰہُ، وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا، قَطَعَہُ اللّٰہُ’
”جو شخص صف کو ملاتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت کے ساتھ ملاتا ہے اور جو صف کو توڑتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دُور کر دیتا ہے۔”
(مسند الإمام أحمد : 5724، سنن أبي داو،د : 666، وسندہ، صحیحٌ)
کیونکہ اس حدیث کا تعلق بغیر عذر کے صف کو خراب کرنے والے شخص سے ہے، صحیح احادیث کی روشنی میں اگلی صف سے ایک آدمی کھینچنے کر صف بنانے والے شخص سے نہیں۔
2 اگر پیچھے آنے والا شخص کسی بنا پر اگلی صف سے کسی نمازی کو کھینچنا نہیں چاہتا یا کسی وجہ سے کھینچ نہیں پاتاتو وہ اس وقت تک انتظار کرے جب تک کوئی مزید نمازی نہ آ جائے۔ اگر اسی انتظار میں جماعت نکل جانے کا خطرہ ہو تو صف کے پیچھے اکیلا نماز نہ پڑھے کیونکہ صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا بہرحال جائز نہیں کیونکہ انتظار کرتے رہنے سے تو ایک مجبوریــــ کی بنا پر صرف جماعت ضائع ہو گی لیکن اگر اس نے صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھ لی تو سرے سے نماز ہی ضائع ہو جائے گی۔ایسے شخص کے لیے نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.